انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔
اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔
پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔
اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔
یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔
سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔
بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔
جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔
یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔