قائداعظم محمد علی جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے چندجملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار کو سمو دیا۔ لکھتے ہیں:’’دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘ ۔والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔
ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل شروع ہوتاہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی، جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ محمدعلی جناح غالباً ۱۹۲۶ء اور۱۹۲۸ء کے عرصے میںراولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دورانِ سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پُربہار فضاؤں نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی رُوداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔
۱۹۳۶ءمیں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے، لیکن شیخ محمدعبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔اسی دورے میںمسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کاتفصیل سے ذکر کیا۔
قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے ۲۴گھنٹے جدوجہد کرتا ہے، لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔
شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے تال میل کی انھیں خبر تھی۔چنانچہ انھوں نے ’مسلم کانفرنس‘ کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک مقبول لیڈر تھے، مگر ان کی راہیں مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھیں۔وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور تائید شروع کی۔ اسی دوران میں ہندستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کش مکش، سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی، جو آج تک برپا ہے۔
۱۹۴۴ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انھیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے [مسلم] لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان، بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہو ا،اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔
قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ۱۹۴۴ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک ۱۸کلو میڑ کا فاصلہ انھوں نے کھلی کار میں طے کیا۔چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا :
جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب ،سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔
اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندستان کے۱۰ کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔
شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا :یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔
سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انھوں نے بہت کوشش کی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ کہ شیخ عبداللہ، قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کو کہیں زیادہ سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان اور پٹھانستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے۔
ممتاز مؤرخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معاً بعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجا ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجا بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔
اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجا کے اصل ارادوں کا پتا لگانے اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریباً چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے سری نگر سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ ’’مہاراجا پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اور انھوں نے تجویزدی: ’’پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔
کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ۱۳ ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے۔ اس وقت تک گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی زندگی میں گورنر جنرل ہاؤس میںکےایچ خورشید کی اسامی خالی رہی مگر ان کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا، جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انھوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔
ستمبر۱۹۴۷ء کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا، تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔ میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے منیجر ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر کہ جنھیں پاکستان میں لوگ ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں (جو سلمان تاثیر کے والد تھے) کے ساتھ تبادلۂ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو اَزسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ ان مذاکرات میں شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے وہ ٹھوس یقین دہانی چاہتے تھے۔تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں۔ بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ مگر پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر دہلی میںٹھیرائے گئے، جہاں انھوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی اور پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔
چودھری محمد علی [م:۲دسمبر ۱۹۸۲ء] جو ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے، اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Emergence of Pakistan میں لکھتے ہیں: حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو ۱۵؍اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پُرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی، جسے ضائع کردیا گیا۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بہ قدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے، جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالآخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوش حالی کو یرغمال بنادیا۔
۲۷؍اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڈ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدود ہوجاتا۔
جنرل گریسی نے بہانہ بنایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترک کمانڈر انچیف سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا۔ ٹھیک چھے ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں، اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فورسز نے کشمیر کے دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔
چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں: چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔
شیخ عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ برس ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کئی بار قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب ِبصیرت رہبر تھے، جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انھیں یاد آتی ہیں۔
فاروق عبداللہ کی اس نوحہ گری پر ۱۰-اورنگ زیب روڑ دہلی میں قائداعظم کی شیخ عبداللہ سے گفتگو یاد آتی ہے، جسے انھوں نے اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں درج کیا ہے: میں نے جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں، لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی، لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا، جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔
۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر بے ہوشی کا غلبہ ہوا، اور اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے: ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا… بہت جلد… مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد دو…پاکستان…‘۔