ارشاد محمود


مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتِ حال دُنیابھر کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انسانی حقوق کے ممتاز علَم بردار خرم پرویز کو ایک من گھڑت مقدمے میں بھارتی حکام نے نومبر۲۰۲۱ء کو سری نگر سے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری پر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے حساس طبقوں نے زبردست احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور پروفیسر نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت یافتہ اسکالر مسلسل ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔

خوش آیندہ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں فراموش نہیں کیا گیا۔  گذشتہ ماہ ان کی رہائی کی مہم کو غیر معمولی اہمیت ملی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ برائے انسانی حقوق مری لاولرجو نے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے ان کے غیرمعمولی کام کی بدولت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹنشن نے خرم پرویز کے مقدمہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جس میں نہ صرف اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں بے گناہ اور ضمیر کا قیدی قراردیاگیا۔ یو این کے اس ورکنگ گروپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارتی حکام خرم پرویز کے خلاف تمام الزامات واپس لیں اور انھیں ہرجانہ اداکریں، یعنی اس زیادتی کی تلافی کے لیے معاوضہ ادا کریں۔ رپورٹ میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ خرم پرویز کو اپنے وکیل سے ملاقات اور مشاورت کے لیے درکار مناسب وقت نہیں دیاگیا۔ 

گذشتہ دوعشروں سے اپنی سلامتی کو خطرات میں ڈال کر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی دستاویز بندی کرتے رہے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر کی جانے والی جرأت مندانہ رپورٹنگ نے ان کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی کی غیرمعمولی لہر پیدا کی ہے۔چنانچہ گرفتاری کے باوجود انھیں ’مارٹن اینالز‘ ایوارڈ سے نوازاگیا۔

انھوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر ایک نہیں درجنوں رپورٹیں مرتب کیں۔ ان کی جرأت مندانہ لیڈرشپ میں اور ان سے جذبہ پاکر عرفان معراج کی طرح کے درجنوں نوجوانوں نے انسانی حقوق پر کام کیا اور جیلوں کی ہوا کھائی۔ چند سال پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سیکریٹریٹ سے کشمیر پر دو جامع رپورٹیں جاری ہوئیں تھیں۔ ان دونوں رپورٹوں میں خرم پرویز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مرتب کردہ حقائق کوبطور حوالہ استعمال کیا گیا۔

خرم پرویز کی گرفتاری کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے،بلکہ یہ کشمیر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔ بھارتی حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سماجی کارکنوں، سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے ہیں تاکہ یہ لوگ خوف زدہ ہوکر دبک جائیں اور کوئی بھی سرکار کی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔ چنانچہ خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں پر ہونے والا کام بُری طرح متاثر ہوا۔

دو عشروں سے زیادہ عرصے سے خرم پرویز، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دستاویز بندی کررہے ہیں۔ وہ حکام کو بے خوفی کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں۔ انھوں نے ہر موقعے پر مظلوموں کے حقوق کی وکالت کی۔۲۰۰۰ء میں انھوں نے انسانی حقوق کے ایک اور ممتاز علَم بردار پرویز امروز ایڈووکیٹ کے اشتراک سے ایک تنظیم’ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے خطے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ باقاعدہ ترتیب سے مرتب کیا گیا۔ اس تنظیم کی رپورٹوں میں اجتماعی قبروں، جبری گمشدگیوں، ٹارچرسیلز، ماوراے عدالت قتل اورجنسی تشدد جیسے انسانی حقوق کی پامالیوں کے چونکا دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ لاپتا افراد کے والدین کی ایک تنظیم کے تعاون سے خرم نے جبری گمشدگیوں جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

خرم پرویز کی انتھک محنت کو بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پذیرائی اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی کوششوں کو اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا۔ ’تشدد کے خلاف عالمی تنظیم‘ (OMCT)  کے سیکرٹری جنرل جیرالڈ سٹیبروک نے کہا: ’’خرم پرویز کی جبری، سفاکانہ اور غیر منصفانہ نظر بندی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے ان افراد پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے جو اس کی امتیازی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو اختلاف رائے کرنے والی ہر آواز کو دبانے کی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کے دفاع کے حق کو یقینی بنانا چاہیے‘‘۔

ایف آئی ڈی ایچ کی ایلس موگوے نے تبصرہ کیا،’’خرم پرویز کے معاملے پر اقوام متحدہ کا فیصلہ واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی نظر بندی، دراصل ان کی جانب سے انسانی حقوق کے کام کے خلاف انتقامی کارروائی ہے، جو دراصل پوری کشمیری سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق خرم پرویزکو فوری رہا کیا جائے‘‘۔

نمایاں شخصیات کی گرفتاری کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی حکام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اُبھرنے والی تنقیدی آوازوں کو زور زبردستی دباتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی پولیس یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے، جو کشمیری نوجوانوں اور سماجی کارکنان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی نگرانی پر مامور ہے۔بھارتی حکام اسپائی ویئر جیسی جدید ٹکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں، جو کسی بھی موبائل فون اور اس کے ڈیٹا تک آسانی سے رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ جو بھی شخص حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی کرتاہے اسے ’عسکریت پسندوں‘ (مجاہدین) کا حامی کہہ کر نشانہ بنایا جاتاہے۔

بھارتی حکام نے کشمیریوں کے آن لائن اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور دبانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ ہراساں کرنے، ملازمت سے نکالنے،نظر بندیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیر میں میڈیا کو مختلف ذرائع سے خاموش کر دیا گیا ہے اور طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جاتاہے۔یہ پریشان کن صورتِ حال بین الاقوامی توجہ کی متقاضی ہے۔

عرب ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے کاروباری روابط روز بہ روز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ صرف معاشی، دفاعی اور خفیہ کاری کے میدان میں ہی تعلقات کو غیرمعمولی وسعت نہیں دی ہے، بلکہ کئی ایک ’مطلوب‘ افراد کو بھارت کے حوالے کیاگیاہے، جنھیں بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں سرگرم گروہوں سے وابستہ قراردیتے تھے۔

جنوری ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے بھارت کا دورہ کیا، اور دونوں ممالک نے اگلے برسوں میں تیزی سے دوطرفہ تعلقات کو استوار کرنا شروع کیا۔ بعدازاں دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کونسل‘ تشکیل دی گئی۔ چنانچہ دونوں ممالک میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے نام پر سیکورٹی تعاون میں مسلسل اضافہ ہوا۔

سعود ی عرب اور متحدہ عرب امارات، عالمی اور علاقائی معاملات میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور باہمی مشاورت سے ہر میدان میں ہم قدم ہوکر پیش رفت بھی کرتے ہیں۔بھارت کے حوالے سے دونوں ممالک لگ بھگ یکساں پالیسی پر کاربند ہیں۔

فروری ۲۰۲۲ء میں سعودی فوجی سربراہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا۔ یہ دونوں ممالک دفاعی میدان میں تعاون کے دائرہ کار کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء سے بھارت اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے مابین اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے جاری ہیں۔ بھارت کے دفاعی تربیتی اداروں میں شاہی سعودی افواج کے افسران کی تربیت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ پھر سعودی عرب اور بھارت کی بحریہ کے درمیان تعاون کا سلسلہ کافی گہرا ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین مشترکہ فوجی مشقیں، عسکری عہدے داروں کے تبادلے اور مشترکہ طور پر اسلحہ سازی کے شعبوںمیں تعاون کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔

سالِ رواں فروری میں متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے میں طے پایا ہے کہ ’’دونوں ممالک اپنے موجودہ تجارتی حجم جو۶۰؍ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، اسے بڑھا کراگلے پانچ برسوں میں سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے‘‘۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ شارجہ سے سری نگر کے لیے شہری ہوابازی کی پروازیں بھی شروع کی جاچکی ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس پیش رفت پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، تاکہ عرب امارات کے ساتھ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔

بھارت کی جانب خلیجی ریاستوں کے موجودہ رجحانی پس منظر میں کئی محرکات کارفرما ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ممالک کی قیادت کو احساس ہے کہ تیل پر دنیا کے انحصار کی مدت تھوڑی رہ گئی ہے۔ وہ تیل کے متبادل معیشت کھڑی کرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں ۔ تیل پر دنیا کا انحصار ختم ہونے سے قبل وہ اپنے ملکوں کو عصر حاضر کی کاروباری صنعتوں، یعنی آئی ٹی، سیاحت اور دیگر ذرائع سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں وہ بھارت میں کاروبار کے خاصے مواقع دیکھتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات آبادی اور رقبے میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود کاروبار، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں سعودی عرب سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات کے فروغ کے نتیجے میں اسٹرے ٹیجک اہداف حاصل کرنے میں مدد  مل سکتی ہے، اور وہ بھی عرب امارات کی طرح تیل کے بجائے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرسکتاہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت میں انفراسٹرکچر اور تیل کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

بھارتی حکومت نے اپنی جگہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاشی ترجیحات اور ہنرمند کارکنان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ کر خود کو ان ممالک کے لیے اسٹرے ٹیجک اور اقتصادی لحاظ سے مفید بنایا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مل کر بھارتی ہنرمندوں کی اپنے ممالک میں آمد کو آسان بنانے کے لیے ملکی قوانین میں بھی نمایاں تبدیلی کررہے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتیوں کی آمد ممکن ہو۔

امریکا انسانی حقوق اور جمہوریت کا دَم بھرنے کے باوجود خلیجی ریاستوں میں بادشاہوں کو مفید حلیف تصور کرتا ہے کہ مالی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کو شیر وشکر کرادیا ہے۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے استوار ہونے کے ساتھ ہی بھارت کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے چوپٹ کھل گئے۔ عرب ممالک کے اسرائیل کے تئیں بدلتے رویوں اور پالیسی سے بھی پاکستان اور ان ممالک کے تعلقات بالواسطہ طور پر متاثر ہو ئے ہیں۔ پاکستانی حکام نے تمام دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ اس کے برعکس بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی منتقلی جیسے حساس شعبوں میں دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

عرب ممالک اور بھارت میں ایک اور قدر مشترک امریکا کے ساتھ گہرے دوستانہ اور کاروباری روابط ہیں۔ دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے، اس میں امریکی حکام، پاکستان سے محدود تعلقات رکھنے تک رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت بھی امریکیوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے پائی جانے والی خلیج اب کشیدگی اور تناؤ کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نزدیک پاکستان کی سوچ اور خارجہ حکمت عملی ایران، امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے ان ممالک کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یمن اور سعودی عرب کی جنگ کے دوران ۹مارچ ۲۰۱۵ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ نے سعودی خواہش پر وہاں پاکستانی فوج بھیجنے سے انکار کیا، اور۱۰؍اپریل کو پاکستانی پارلیمنٹ نے اس فیصلے کی توثیق کی۔ یہ فیصلہ سعودی عرب اورعرب امارات کو بہت ناگوار گزرا۔ اس دوران بھارت کو مزید موقع ملا کہ وہ ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ تیزی سے بڑھائے اور پاکستان کے روایتی اثر و نفوذ کو کم کرے،حتیٰ کہ ان ممالک کا پاکستان کے دفاعی اداروں پر انحصار کم کرائے۔

پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا ایک سبب مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے یہ ممالک مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کے لیے نہ آواز اٹھا تے ہیں اور نہ کسی فورم پر پاکستانی نقطۂ نظر کی طاقت ور حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے گذشتہ برس اگست میں پاکستانی وزیرخارجہ نے اس معاملے پر سعودی قیادت اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر سعودی عرب نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور پاکستان کو دی گئی اُدھار رقم بھی واپس مانگ لی گئی تھی۔

عالم یہ ہے کہ مارچ ۲۰۱۹ء میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔حالانکہ محض ایک ماہ قبل بھارت اور پاکستان کی فضائی جھڑپوں میں کم از کم ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان ممالک کو پاکستان کی مختلف امور میں حساسیت کی کوئی پروا نہیں ہے۔

 مشرق وسطیٰ کے ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات کی قیادت، عالمی کھلاڑی کی شناخت چاہتی ہے، نہ کہ ایک علاقائی ملک کا درجہ۔ اس کے سیاسی عزائم کی بلندی کو مالی وسائل، دُنیابھر کے سیاحوں کے لیے مخصوص ماحول کی فراہمی اور کامیاب سفارت کاری کے آدرش مضبوط سہارا دیتے ہیں، جب کہ پاکستان اس کھیل میںانھیں موزوں نہیں لگتا۔

۲۵ لاکھ پاکستانی ہنر مند سعودی عرب میںاگرچہ ابھی تک مقیم ہیں، لیکن اب سعودی عرب کو بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال، فلپائن اور دنیا کے دیگر علاقوں سے سستی اور نرم شرائط پر لیبر دستیاب ہوجاتی ہے۔دوطرفہ تجارت کی صورتِ حال بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ ہمارا موجودہ تجارتی حجم ۶ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے اور اس میں درآمدی حصہ ۲ء۳ ؍ ارب ڈالر ہے۔ بیشتر حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس سعودی عرب اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم ۳۳؍ ارب ڈالرسے تجاوز کرچکا ہے۔

  پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کا ماضی قریب میں زیادہ تر دارومدار دفاعی یا اسٹرے ٹیجک نوعیت کارہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تعلقات، ساٹھ کے عشرے سے بہت گہرے اور دوستانہ رہے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب کے ہزاروں فوجیوں کو عسکری تربیت فراہم کرتاہے اور اس کی فوج بھی سعودی عرب میں تعینات ہے۔ ان دوطرفہ تعلقات میں ناہمواری دُور کرنے میں پاکستان اور سعودی عرب کی عسکری قیادت کا بنیادی کردار رہاہے۔

روایتی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج پر پاکستان کاگہرا اثرونفوذ رہاہے،جس کی وجہ سے وہ بھارت سے دُور رہے۔ایک زمانہ وہ تھا کہ متحدہ عرب امارات کے پہلے پانچ ایئر چیف پاک فضائیہ کے افسر رہے ہیں۔ پاکستان ۱۹۶۷ء سے مسلسل سعودی عرب کی فوج اور فضائیہ کے لیے تربیت کار مہیا کرتا آیا ہے۔ پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینا ت ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی کمانڈوز، دارالحکومت ریاض میں شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔

مگر اب بھارت، پاکستان کو ایسے میدانوں سے بھی بے دخل کررہاہے، جہاں پہلے پاکستان کی بالادستی تھی۔ بھار ت کے ان ممالک کے دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات میں نمایاں اور مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ چھے برسوں میں آٹھ دفعہ عرب ممالک کا دورہ کیا، جن میں تین بار متحدہ عرب امارات اور دو بار سعودی عرب کا۔ مسٹرمودی کو متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اکتوبر ۲۰۲۱ء میںسعودی عرب کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین اسٹرےٹیجک پارٹنرشپ کونسل کا قیام عمل میں آیا ۔ اس طرح بھارت، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن گیا، جس کے ساتھ سعودی عرب نے اسٹرے ٹیجک شراکت داری قائم کی ۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق بھارت کو سعودی عرب کے آٹھ اسٹرے ٹیجک شراکت داروں چین، برطانیہ، امریکا، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان میں سے ایک قراردیاگیا ہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۸ء میں بھارت نے سعودی عرب سے ۲۱ء۲؍ ارب ڈالر کا خام تیل درآمد کیا، پاکستان نے ۹ء۱ ؍ارب ڈالر کا درآمد کیا۔ سعودی کمپنیاں نہ صرف بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہیں، بلکہ انھوں نے زراعت اور ٹیلی کمیونی کیشن سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

پاکستان کے خلاف بھارت اور مغربی ملکوں کے منفی پراپیگنڈے کے نتیجے میں اب یہ عرب ممالک، پاکستان کی لیبرفورس سے بھی گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی بن فیصل نے ایک بار پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا تھا کہ ’’دنیا میں شاید ہی کوئی دو ممالک ایسے ہیں جن کے تعلقات پاکستان اور سعودی عرب کی طرح بغیر کسی معاہدے کے دوستانہ اور برادرانہ ہوں‘‘۔ پاکستانی حکام کو یہ تلخ حقیقت بھی یاد رکھنا ہوگی کہ سعودی یا اماراتی معاشی امداد اب اپنی قیمت بھی مانگتی ہے۔اگر پاکستان ان ممالک کے اشارے پر چلنے پر آمادہ نہیں اور متوازن یاآزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا چاہتاہے تو اسے سعودی عرب کے آگے معاشی امداد کے لیے باربار درخواست کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ اب ان ممالک کی معاشی امداد یا قرض غیر مشروط نہیں رہیں گے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار پاکستان نواز رہنما اب منظر نامہ پر نہیں رہے۔

پاکستان کو کئی عشروں کے بعد احساس ہوا ہے کہ کمزور معیشت والے ملک کو اس کی مضبوط فوج زیادہ دیر تک سہارہ نہیں دے سکتی ۔ پاکستان کے سول اور فوجی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان اب کسی علاقائی یا عالمی تنازعے میں نہیں اُلجھے گا۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا علَم بردار بننا چاہتاہے۔ جغرافیائی محل وقوع کو معاشی اورتجارتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے ترقی او ر خوش حالی حاصل کرے گا۔ اسی پس منظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے فروری ۲۰۲۱ء میں بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان بھی کیا تھا۔ لیکن بھارت کی طرف سے مطلوبہ جواب نہ ملنے کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔

سعودی عرب، مسلم دنیا میں اپنی قیادت اور اسلامی ساکھ برقراررکھنے میں ابھی تک دلچسپی رکھتاہے، اور او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کی سربراہی بھی اپنے پاس رکھنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ پاکستان کو ترکی ، ایران اور ملائیشیا کی طرف کلی طور پر دھکیلنا نہیں چاہتا۔ اس منظرنامے میں خود پاکستان کے لیے لازم ہے کہ سعودی عرب کو اپنے قریب رکھنے کے حوالے سے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے۔

پاکستان کو عرب ممالک میں موجود تارکین وطن کو ہنر مند اور مفید شہری بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ان ممالک کے تعمیراتی اور معاشی منصوبوں: سعودی ویژن ۲۰۳۰ء، کویت ویژن ۲۰۳۵ء اور عمان کا ویژن ۲۰۴۰ء کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ بیرون ملک ملازمت میں دلچسپی رکھنے والے کارکنوں کو ان منصوبوں کے لیے موزوں ہنر کی تربیت دی جائے، جس کے نتیجے میں وہ عرب ممالک کی لیبر مارکیٹ میں پائی جانے والی مسابقت میں حصہ لینے کے قابل ہوسکیں۔

 پاک فوج کے سعودی افواج اور اداروں کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ مشقوں اور تربیتی مشنوں سمیت کئی میدانوں میں دفاعی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹرے ٹیجک تعاون کے دائرے میں لانے اور مسلسل وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

 سعودی اور اماراتی حکام اور شہریوں کے اندر پاکستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کو برقرار رکھنا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر ان ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کا ہونا، پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایسے اقدامات بھی کیے جانے ضروری ہیں، جن سے پاکستان، عرب ممالک کے لیے سرمایہ کاری کی ایک پرکشش منزل بن سکے۔

 پاکستان کو اپنے معاشی اور اداراتی ڈھانچے کو جدید اور فعال خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جو عہد حاضر کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔ سعودی عرب ۲۰۱۹ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتاتھا، لیکن حکومت پاکستان اپنے روایتی سُست رو طرزِعمل، بوجھل بیورو کریٹک زنجیروں اور فرسودہ قوانین کی وجہ سے ضروری اصلاحات نہیں کرسکی ۔تاہم، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دیگر وجوہ کے علاوہ بڑے تجارتی لین دین میں پاکستان کی تکنیکی صلاحیت محدود ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان، سعودی سرمایہ کاری سے محروم ہوگیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو ہر سطح پر کمزور کیا۔ ہر حکومت کو دھڑکا لگا رہتاہے کہ وہ آج گئی کہ کل گئی۔ الیکشن کی شفافیت کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔ امرواقعہ ہے کہ مضبوط معیشت ہی ممالک کے درمیان پائے دار تعلقات کا جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں محض مذہبی، تاریخی اور سماجی رشتوں پر انحصارعصر ی حالات میں کافی نہیں ہوتا۔ دوسروں کو بے وفائی کا طعنہ دینے کے بجائے پاکستان کو اپنے حصے کا کردار دل جمعی سے ادا کرنا ہوگا، اور ان کمزوریوں کی اصلاح کرنا ہوگی، جن کے نتیجے میں پاکستان کو بے وزن کیا گیا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے چندجملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار کو سمو دیا۔ لکھتے ہیں:’’دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘ ۔والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔

ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل شروع ہوتاہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی، جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ   محمدعلی جناح غالباً ۱۹۲۶ء اور۱۹۲۸ء کے عرصے میںراولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دورانِ سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پُربہار فضاؤں نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی رُوداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔

۱۹۳۶ءمیں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے، لیکن شیخ محمدعبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔اسی دورے میںمسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کاتفصیل سے ذکر کیا۔

قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے ۲۴گھنٹے جدوجہد کرتا ہے، لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔

 شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے تال میل کی انھیں خبر تھی۔چنانچہ انھوں نے ’مسلم کانفرنس‘ کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک مقبول لیڈر تھے، مگر ان کی راہیں مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھیں۔وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور تائید شروع کی۔ اسی دوران میں ہندستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کش مکش، سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی، جو آج تک برپا ہے۔

۱۹۴۴ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انھیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے [مسلم] لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان، بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہو ا،اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔

قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ۱۹۴۴ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک ۱۸کلو میڑ کا فاصلہ انھوں نے کھلی کار میں طے کیا۔چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا :

جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب ،سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔

اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندستان کے۱۰ کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔

شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا :یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔

سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انھوں نے بہت کوشش کی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ کہ شیخ عبداللہ، قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کو کہیں زیادہ سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان اور پٹھانستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے۔

ممتاز مؤرخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معاً بعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجا ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجا بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔

 اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجا کے اصل ارادوں کا پتا لگانے اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریباً چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے سری نگر سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ ’’مہاراجا پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اور انھوں نے تجویزدی: ’’پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔

کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ۱۳ ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے۔ اس وقت تک گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی زندگی میں گورنر جنرل ہاؤس میںکےایچ خورشید کی اسامی خالی رہی مگر ان کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا، جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انھوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔

ستمبر۱۹۴۷ء کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا، تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔    میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے منیجر     ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر کہ جنھیں پاکستان میں لوگ ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں (جو سلمان تاثیر کے والد تھے) کے ساتھ تبادلۂ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو اَزسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ ان مذاکرات میں   شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے وہ ٹھوس یقین دہانی چاہتے تھے۔تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں۔ بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ مگر پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر  دہلی میںٹھیرائے گئے، جہاں انھوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی اور پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔

چودھری محمد علی [م:۲دسمبر ۱۹۸۲ء] جو ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے، اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Emergence of Pakistan  میں لکھتے ہیں: حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو ۱۵؍اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پُرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی، جسے ضائع کردیا گیا۔

 بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بہ قدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے، جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالآخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوش حالی کو یرغمال بنادیا۔

۲۷؍اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڈ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدود ہوجاتا۔

 جنرل گریسی نے بہانہ بنایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترک کمانڈر انچیف سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا۔  ٹھیک چھے ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں، اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فورسز نے کشمیر کے دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔

چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں: چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔ 

شیخ عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ برس ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کئی بار قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب ِبصیرت رہبر تھے، جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انھیں یاد آتی ہیں۔

فاروق عبداللہ کی اس نوحہ گری پر ۱۰-اورنگ زیب روڑ دہلی میں قائداعظم کی شیخ عبداللہ سے گفتگو یاد آتی ہے، جسے انھوں نے اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں درج کیا ہے:  میں نے   جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں، لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے  کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔  میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی، لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا، جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔

۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر  بے ہوشی کا غلبہ ہوا، اور اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے: ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا… بہت جلد… مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد دو…پاکستان…‘۔