جنوری ۲۰۲۱ء کے شمارےمیں ’اشارات‘ ،’قانونِ امتناع جنسی استحصال‘ پر جناب ڈاکٹرانیس احمد کی گرفت اور حالات وواقعات کا تجزیہ قابلِ قدر ہے۔ افسوس کہ پاکستان کا مجموعی ماحول ایک بے تُکے سیاسی دنگل اور میڈیا کے بے سمت شوروغوغے میں ملوث نظرآتا ہے، جب کہ دوسری جانب سیکولر اور مقتدر قوتیں من مانی قانون سازی کرتی جارہی ہیں۔ترجمان اس ماحول میں غنیمت ہے کہ جہاں سے رہنمائی کی روشنی میسر آتی ہے۔
جناب مجیب الرحمان شامی کے قلم سے پلٹن میدان کے اس بدقسمت اُجڑے ہوئے جلسے کی اعلیٰ درجے کی مرتب شدہ رُوداد پڑھ کر وہ سارے زخم تازہ ہوگئے، جو زخم میرے سامنے اس جلسے کے بے گناہ شرکا کو لگے تھے، اور ایسے زخمیوں میں، مَیں بھی شامل تھا۔ تب میں سالِ اوّل کا طالب علم تھا۔ ۱۸جنوری ۱۹۷۰ء کا وہ جلسہ درحقیقت بھارتی سازش کی مجسم تصویر اورپاکستان کی مارشل لا حکومت کی مکمل بے بسی کا ایسا نوحہ تھا کہ جس میں عوامی لیگ اورشیخ مجیب کو ظلم، وحشت اوردرندگی کا کھلا لائسنس دینے کی باقاعدہ تاج پوشی کی گئی تھی۔
جنوری کے شمارےمیںدل چسپ، معلومات افزا اور قیمتی مضامین شائع کرنے پر شکریہ قبول کیجیے۔ خاص طور پر افتخار گیلانی کا مضمون ’لو ّجہاد کےنام پر ہندو فسطائیت‘ اور وحید مراد کا ’اسلام اورمسلمانوں پر متعصبانہ اصطلاحاتی حملہ‘ بالکل زندہ چیلنج کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مجیب الرحمان شامی کے مضمون ’مَیں کیسے بھول جائوں‘ نے تاریخ کے دردناک منظر کو تازہ کر دیا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے مختصر مگر جامع مضمون ’نیند سےبیدار ہوجائو‘ نے پیغامِ اقبال کو پوری قوت سے بیان کیا ہے، اورجاوید نامہ جیسی عظیم کتاب کے مطالعے کا شوق پیدا کیا ہے۔ تاہم ’اشارات‘ بہت اچھے ہونے کےباوجود بعض حوالوں سے تشنہ محسوس ہوئے۔ محترم ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی نے گناہ سے پرہیز کی مؤثر نشان دہی فرمائی ہے۔
جناب محمد منیر کا مضمون ’اسلامی معاشیات کی گم شدہ جنّت ‘ اس شان دار سلسلۂ مضامین کی کڑی ہے، جو جناب ایچ عبدالرقیب صاحب کے قلم سے ترجمان میں شائع ہوتے آرہے ہیں۔ ان دونوں حضرات نے معاشی مسئلے کی تفہیم اور عصرحاضر میں اسلام کی تطبیق پر نئے انداز سے بہت قیمتی رہنمائی فرمائی ہے۔