بخل، جود و کرم اور سخاوت کی ضد ہے۔ لغت میں ’بخل‘ کے معنی ہیں انسان کے پاس جو کچھ مال و دولت ہے اس کو روک کر رکھنا، دوسروں کو نہ دینا اور خرچ نہ کرنا۔ اس کے اصطلاحی معنی علامہ راغب اصفہانی کے نزدیک یہ ہیں: بخل، ضروریاتِ زندگی کو روک کر رکھنا، جن اُمور میں خرچ کرنا لازمی ہو، ان میں خرچ نہ کرنا۔ علامہ ابن حجر نے بخل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: اَلْبُخْلُ ھُوَ مَنْعُ مَا یُطْلَبُ مِـمَّا یُقْتَضٰی (بخل ان ضروریات پر خرچ نہ کرنے کا نام ہے جن پر خرچ کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہو)۔ القیومی نے کہا ہے: اَلْبُخْلُ فِی الشَّـرْعِ ھُوَ مَنْعُ الْوَاجِبِ (شریعت میں بخل واجبی خرچ سے رُکنے کا نام ہے)۔
’بخل‘ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
بخیل شخص مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے ، نہ خود کھاتا ہے، نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے۔ وہ اگر عہدے اور منصب کو حاصل کرلیتا ہے یا پھر قوت و طاقت کا مالک بن جاتا ہے تو سارے اختیارات اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ اس کے ماتحت کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ پورا نظام تباہ و برباد ہوکر رہتا ہے۔ اسی طرح بخیل شخص اگر علم و فن کے خزانوں پر قابض ہوجاتا ہے تو اس کے فیض سے انسانیت محروم رہتی ہے۔ قرآن نے اس طرح کے رویے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۰) ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس ہے چھپائے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے جس نے علم کو سیکھا اور اس کو پھیلایا‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب العلم)۔
بخیل شخص کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو کلفت اور زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۴ - ۷) پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔
دین اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کی تعلیم دی ہے۔ حدیث میں انسانوں کی پریشانیوں کو دُور کرنے اور انھیں خوش کرنے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کا حکم دینا، بُرائی سے روکنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا، بہرے کو بات سمجھا دینا، اندھے کو راہ دکھا دینا، کمزوروں کو سواری پر چڑھا دینا، اچھی اور پیاری باتیں بولنا، یہاں تک کہ اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے‘‘ (بخاری، مسلم ابن حبان)۔
لوگوں کے لیے سلامتی اور بھلائی کی دُعا نہ کرنا بھی بخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَبْخَلُ النَّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ (ابن حبان، الصحیح الالبانی)’’وہ شخص بہت بڑا بخیل ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْبَخِیْلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ (ترمذی، حسن صحیح) ’’بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود و سلام نہ بھیجے‘‘۔
اچھے جذبات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا بھی بخل ہے۔ اس کوتاہی سے کتنے خاندان بکھر جاتے ہیں، کتنے جوڑے بچھڑ جاتے ہیں، بچے یتیم ہوجاتے ہیں، گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسروں کے لیے بہتر جذبات و احساسات کا اظہار کرنے سے تعلقات استوار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ (ترمذی) ’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے بچے جذبات کے بخل کی وجہ سے گوشہ گیر ہوجاتے ہیں۔ انھیں انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن اور یک رُخا پن آجاتا ہے۔ بعض بچے تشدد اورانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سکون کی تلاش میں نشہ آور چیزیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ رقم نہ ملنے کی صورت میں انھیں چوری کی لت لگ جاتی ہے۔ پھر وہ ہر طرح کی سماجی بُرائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بخیل شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے: ’چمڑی چلی جائے دمڑی نہ جائے‘۔ وہ جسمانی طور پر بڑے سے بڑا خسارہ برداشت کر لیتا ہے لیکن اس کے ہاتھ سے چند سکّے نہیں نکلتے۔ وہ دولت کے لیے سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ اخوت، محبت، رشتہ، عزت، ہرچیز کو دولت جمع کرنے کی ہوس میں ضائع کر دیتا ہے۔ ایسے انسان سے لوگ دُور رہتے ہیں۔ ان سے تعلقات باقی نہیں رکھنا چاہتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
السَّخِیُّ قَرِیْبٌ مِنَ اللہِ ، قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِنَ اللہِ ، بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ (ترمذی، دارقطنی) سخی اللہ سے قریب ہوتا ہے، جنّت سے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دُور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ سے دُور ہوتا ہے، جنّت سے دُور ہوتا ہے، لوگوں سے دُور ہوتا ہے اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔
وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو، اور جو نفع بخش نہ ہو اللہ اس کو مٹا دیتا ہے:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً ۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔
انسانی تعلقات کو خراب کرنے میں تنگ دلی اور شُح نفس اور بخل کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تباک و تعالیٰ نے مرد اور عورت کے تعلقات کی خرابی کے موقعے پر ارشاد فرمایا: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ (النساء۴:۱۲۸) ’’نفس تو تنگ دلی کی طرف جلد ہی مائل ہوجاتے ہیں‘‘۔
تنگ دل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کرلیتے ہیں، جب کہ کشادہ دل اور سخی افراد لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ عفوو درگزر سے کام لیتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں سے ان کے خوش گوار تعلقات باقی رہتے ہیں۔ عربی کا شاعر کہتا ہے:
اِذَا قَلَّ مَالُ الْمَرْءِ قَلَّ صَدِیْقُہٗ
ضَاقَتْ عَلَیْہِ أَرْضُہٗ وَسَمَاءُہٗ
[انسان کی فیاضی اور سخاوت میں جب کمی آجاتی ہے، تو اس کے دوست کم ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے زمین و آسمان تنگ ہوجاتے ہیں]۔
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ وَالْقَطِیْفَۃِ وَالْخَمِیْصَۃِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَاِنْ لُمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ (بخاری) ہلاک و برباد ہوں درہم و دینار کے بندے، ہلاک و برباد ہوں ریشم و حریر کے خوب صورت کپڑوں کے بندے۔ اگر اسے عطیہ دیا جائے تو خوش ہوتا ہے اور اسے کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔
عربی کا شاعر کہتا ہے ؎
یُظْھِرُ عَیْبَ الْمَرْءِ فِی النَّاسِ بُخْلُہٗ
وَیَسْتُرُہٗ عَنْھُمْ جَمِیْعًا سَخَاؤُہٗ
[آدمی کا بخل لوگوں میں اس کے عیوب کو کھول دیتا ہے، اور فیاضی اور سخاوت انسان کے عیبوں پر پردے ڈال دیتی ہے۔]
خون خرابہ اور قتل : بخیل شخص مال سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے اور اس کے اعزہ و اقارب، مفلوک الحال اور پریشان رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے دل میں اس سے نفرت کی آگ بھڑکتی ہے۔آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے بخل اور کنجوسی کا تعلق جڑتا ہے۔ بخل کی وجہ سے لوگوں کے حقوق غصب ہوتے ہیں اور ظلم ہوتا ہے اور ہرظلم تباہی و بربادی پر منتج ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:
اِتَّقُوْا الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاتَّقُوْا الشُّحَّ فَاِنَّ الشُّحَّ أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَمَلَھُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوْا دِمَاءَ ھُمْ وَاسْتَحَلُّوْا مَحَارِمَھُمْ (مسلم) ظلم سے بچو، ظلم قیامت کے دن انسان کے لیے تباہی کا ذریعہ ہوگا۔ بچو بخل اور شُحِ نفس سے۔ نفس کی تنگی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کردیا ہے، کیونکہ اسی چیز نے انھیں خون خرابہ پر آمادہ کیا اور عزت و ناموس کوبرباد کیا۔
اگر پوری قوم کے اندر بخل کی روش پیدا ہوجائے تو اللہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر کہیں وہ تمھارے مال میں سے مانگ لے اور سب کا سب تم سے طلب کرلے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمھارے کھوٹ اُبھارلائے گا، دیکھو تم لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کرتے ہیں حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘ (محمد۴۷: ۳۷-۳۸)۔
بخل کی شدت جہاں دین و ایمان کو کھا جاتی ہے، وہیں اس سے دلوں میں نفاق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انسانی سماج کی بہت ساری بُرائیاں اس کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ حرص، طمع، شُح نفس، تنگ دلی، تنگ ظرفی، بددیانتی، بے مروتی، بے رحمی، بزدلی، پست ہمتی، نفرت، بُغض و عداوت، حسد، یہ وہ سماجی بُرائیاں ہیں جن کا کہیں نہ کہیں رشتہ بخل سے جاملتا ہے۔
اسلام نے زکوٰۃ، نفلی انفاق اور صدقات کی ترغیب دے کر اس کی مکمل بیخ کنی کی ہے۔ مسکینوں کو کھانا نہ کھلانے، اور ان پر رحم نہ کرنے کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ(مدثر۷۴:۴۲) تم کو دوزخ میں کیا چیز لے گئی؟ کہیں گے: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
سورئہ ہمزہ میں بخیل کی اس خام خیالی پر ضرب لگائی گئی ہے کہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا: الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ۲ۙ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۳ۚ كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِ۴ۡۖ (الھمزہ۱۰۴:۲-۴) جس نے مال کو اکٹھا کیا اور اس کو گن گن کر رکھا کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں، وہ ضرور دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
بخل کی انھی تباہ کاریوں کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصلتیں مومنوں میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں: بخل اور بدخلقی (ترمذی)۔فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، ’’اے اللہ! میں بزدلی اور بخل سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (ابوداؤد)۔