پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | فروری ۲۰۲۱ | پاکستانیات
ان غیر مبہم ، واضح اور مستند تحریری و تقریری بیانات کے مطالعے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم کا بیانیہ اسلامی پاکستان، اسلامی معیشت ، اسلامی معاشرت اور اسلامی ثقافت کے علاوہ کوئی اور تھا۔اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر اور ایک دوسرے موقعے پر جسٹس منیر کے قائد اعظم سے منسوب ایک گمراہ کن بیان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہےتاکہ وہ نسل جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے حقائق سے آگاہ ہو اور قائد اعظم کی اصل تصویر ان کے سامنے آ سکے۔
ٹیلی ویژن کے دانش وَر اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے ’سیکولر‘ اسکالرز بار بار کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے ۱۱؍ اگست کی تقریر میں مذہب اور ریاست کو الگ کر کے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کر لیا۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر درج کردہ درجن بھر سے زیادہ بیانات جو ان کے اپنے قلم سے تحریر کردہ ہیں اور جو تقاریر وہ لکھ کر پڑھتے تھے ان میں مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیت کا مطلب اسلامیت اور نظریۂ پاکستا ن کا مطلب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے یہ سب بیانات ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکے بعد کے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم محض ایک مفروضے کے طور پر سیکولر طبقے کی ذہنی اختراع کو مان بھی لیں تو ان ساری تحریروں ،بیانات کے بعد۱۱؍ اگست کے خطاب کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے؟ ہم چند لمحات کے لیے اگر یہ مان بھی لیں کہ قائد نے تمام زندگی میں صرف ۱۱؍ اگست کو ہی ایک تقریر کی، تب بھی حقیقت وہ نہیں ہے، جو مخصوص طبقے کا دعویٰ ہے۔
آئیے اس تقریر کو جو تحریری تھی اور جس کا مسودہ ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی مرتب کردہ دستاویزات میں پایا جاتا ہے، خود پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت کی گئی ۔ تقریر کا متن مع حوالہ درج ذیل ہے:
As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class.... The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of great Britain and they all are members of the nation. Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Qua‘id -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989, P271)
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیساکہ آج ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیںجہاں ایک مخصوص فرقےسےامتیاز برتا جاتاہے اوران پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں…
انگلستان کےباشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنےوالے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اوراس بارِ گراں سے سبکدوش ہوناپڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کےاس مرحلے سے بہ تدریج گزر گئے۔ آپ بجاطورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ، اب جو چیز موجودہے وہ یہ کہ ہرفرد ایک شہری ہے اورسب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کےسب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہند و رہےگا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے (قائداعظم: تقاریرو بیانات ، جلدچہارم، ص ۳ ۶۰)۔
اس تقریر کو پُراسرار بنانے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ اس کے مسودہ کو کہیں چھپاکر رکھا گیا تھا اور قوم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ یہ تقریر ہراس مجموعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں قائد کے خطابات کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یک جا کیا گیا ہے۔ ہمارایہ حوالہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے طبع کردہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء کی تقاریر و بیانات کی مطبوعہ کتاب سےہے ۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کا پیش لفظ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ اس کو عوام سے چھپایا گیا ۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ تقریر میں کیا کہا گیا۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اس تقریر کا پس منظر بیان کرتے ہیں ، جس کا جاننا بہت ضروری ہے:
Islamic ideology recognizes a distinction of meaning in the words "mazhab" and "din". "Mazhab" means personal faith, view point or path, whereas "din" means a body of those universal principles of Islam which are applicable to entire humanity. Therefore, in this sense, Pakistan does not have any specific mazhhab; because it is neither founded on nor projects the personal viewpoint of any particular Muslim sect. This very important aspect of the Sate of Pakistan was clarified by the Quaid-e-Azam in his famous Presidential address to the Constituent Assembly on August 11, 1947:
"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State" (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005 P.16).
نظریۂ اسلام ’مذہب‘ اور’دین‘ کے معنوں میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ ’مذہب‘ کا مطلب ہے ذاتی اعتقاد، نقطۂ نظر یا راستہ، جب کہ ’دین‘ کا مطلب ہے اسلام کے وہ عالم گیر اصول جو تمام نوعِ انسانی پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مفہوم میں تو پاکستان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ اس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور نہ یہ کسی مخصوص مسلم فرقے کی فکر کو فروغ دیتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس نہایت اہم پہلو کی وضاحت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ءکو قانون ساز اسمبلی سے اپنے مشہور صدارتی خطاب میں کر دی تھی: ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا کسی بھی عبادت کی جگہ پر جانے کے لیے پاکستان کی ریاست میں آزاد ہیں۔ آپ جس بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے اُمور سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔
گویا قائد نے پہلی بات یہ کہی کہ ملک کی آزادی کے بعد جدوجہد آزادی کے دوران جو فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوا اب اس سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی فکر کے تناظر میں بین المذاہب تعلقات پر غور کی ضرورت ہے ۔چنانچہ برطانیہ کی مثال دے کر یہ بات کہی کہ وہاں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے یا مسلک کے افراد نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کا قتل عام کیا لیکن آخر کار وہ سمجھ گئے کہ ان سب کو ملک کے دستور و قانون کے مطابق امن اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا ۔ایسے ہی اب پاکستان بننے کے بعد اس کے قیام کے دوران جو ہندو مسلم اور سکھ فساد او رقتل وغارت کی گئی اسے بھلا کر ملک میں قانون کی برتری کو قائم کرنا اورقانون پر اعتمادبحال کرنا ہو گا ۔اور یہ کرتے وقت برطانیہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گاکہ وہاں پر اب نہ کوئی کیتھولک ہے نہ پروٹسٹنٹ بلکہ دونوں فرقے یکساں شہری کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں۔ گو ذاتی طور پر وہ اپنے مسلک پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان بننے کے بعد ریاست کسی کو محض ہندو یا عیسائی یا پارسی ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ نہیں بننے دے گی۔ وہ ریاست کی نگاہ میں یکساں شہری ہوں گےاور ان کا مسلکی یا مذہبی معاملہ ان کی ذات تک ہوگا۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قائد نے برطانیہ کی مثال اس لیے پیش کی کہ مسلک کی بنیاد پر جس طرح عیسائی وہاں قتل و غارت کر رہے تھےایسے ہی تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے۔اس میں نہ کسی سیکولر ازم کی طرف اشارہ ملتا ہے اور نہ یہ بات کہ پاکستان میں اسلام ریاست کی بنیاد نہیں ہو گا ۔لیکن لبرل دانش وَروں نے پوری تقریر پڑھے اور سمجھے بغیر محض لفظ Religionکے استعمال کی بنیاد پر ایک خیالی محل تعمیر کر ڈالا اور اسے اتنی بار دُہرایا کہ لوگوں کو یقین آ جائے۔اسے علمی دیانت اور اصول تحقیق سے واضح انحراف کی ایک شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد کہ مذہب یاReligionسے مراد مسلک ہےجو ایک ذاتی پسند ہے، جب کہ اسلام دین، یعنی مکمل نظام حیات ہے،اس مغالطے کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سے قبل نصف درجن تقاریر و بیانات میں قائد اعظم اسلام کی تعریف جس طرح کرتے ہیں ، اس کو مسجد کی نماز تک محدود ایک ذاتی مذہب نہیں کہا جا سکتا ۔وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، جو معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی شعبوں میں الہامی ہدایات فراہم کرتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان کے بقول ہندوؤں اور بعض مسلمانوں کے ذہن میں نہیں آتی۔
دوسرا بڑا ظلم کرنے والا کوئی انگریز یا امریکی مستشرق نہیں بلکہ پاکستان کی عدالت عالیہ سے وابستہ ایک فرد ہے جو بہت سے دیگر مصنّفین کو گمراہ کرنے کا واحد ذریعہ بنا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں تحریر کرتے ہیں :
The pattern of government which the Qua’id –i–Azam had in mind was a secular democratic government.This is apparent from his interview which he gives to Mr Doon Campbell ,Reutter’s correspondent in New Dehli in 1946, in the course of which he said: "The new State would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of religion cast or creed" (M.Munir, From Jinnah to Zia , Lahore, Vanguard book,1980,P29).
وہ طرزِ حکومت جو قائداعظم کے ذہن میں تھا وہ ایک سیکولر جمہوری طرزِ حکومت تھا۔ اس کا اظہار ان کے اس انٹرویو سے ہوتا ہے جو انھوں نے رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل کو ۱۹۴۶ء میں نئی دہلی میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام اورنئی قوم کے ارکان کی ہوگی جن کو مذہب، ذات یا مسلک سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستانی نژاد برطانوی محقق سلینا کریم نے اپنی محققانہ تصنیف Secular Jinnah and Pakistan: What the nation Does't know میں جسٹس منیر کی تحریر اور خصوصاً رائیٹر کے نمایندے Doon Campbell کے انٹریوو کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :
The date of the Reuter’s interview of Jinnah with Doon Camble provided by Munir was simply the year 1946. No proper reference was provided anywhere in the book.The actual date of this interview is 21May 1947. The full transcript of the interview appears in the first volume of Z.H.Zadi’s Jinnah Papers. This in turn was obtained from an original typewritten document containg corrections in Jinnah’s own handwriting as well as his signature, conforming the textual authority of this particular interview. In particular wording of the text as given by Munir does not appear in the interview (Saleena Karim, Secular Jinnah and Pakistan: What the Nation doesn’t know, Karachi, Paramount Publishing Enterprises, 2010, P.30).
جناح کی رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل سےانٹرویو کی تاریخ جو [جسٹس ] منیرنے دی ہے وہ محض ۱۹۴۶ء ہے۔ کتاب میں کوئی معقول حوالہ کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اس انٹرویو کی اصل تاریخ ۲۱مئی ۱۹۴۷ء ہے۔ انٹرویو کا مکمل متن زیڈ ایچ زیدی کے Jinnah Papers کی پہلی جلد میں سامنے آیا ہے۔ یہ درحقیقت ٹائپ کیےہوئے اس اصل مصدقہ دستاویز سے حاصل کیا گیا ہے جس پر جناح کی اپنی تحریر میں تصحیح کے ساتھ ساتھ دستخط موجود ہیں جو اس مخصوص انٹرویو کی مستند حیثیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ متن کے وہ مخصوص الفاظ جن کی نشان دہی [جسٹس]منیر نے کی ہے انٹرویو میں نہیں ملتے۔
سلینا کریم کی تحقیق کے مطابق اور ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی سرکاری نگرانی میں طبع شدہ کتاب میں موجود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے اصلاح شدہ مسودہ میں جسے ان کے سیکرٹری نے ٹائپ کیا اور انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کے بعد آخر میں اپنے دستخط بھی کیے ،وہ الفاظ نہیں پائے جاتے جو جسٹس منیر نے قائد سے منسوب کر کے یہ بات پھیلا دی کہ وہ مغربی طرز کی سیکولر ریاست چاہتے تھے۔ دستاویز کے الفاظ یہ ہیں :
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government.Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect , which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010, p30-31).
لیکن حکومت پاکستان صرف ایک عوامی نمایندہ اور جمہوری طرز کی حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اورکابینہ، پارلیمنٹ کو جواب دہ اور بالآخر یہ دونوں راے دہندگان اور عوام کو بلاامتیاز ذات، مسلک یا فرقہ جواب دہ ہوں گے، اورحکومت وقتاً فوقتاً جو حکمت عملی اورپروگرام بناتی ہے اس ضمن میں یہ عنصر حتمی فیصلہ کن ہوگا۔
The question Doon Campbell asked was : on what basis will the central administration of Pakistan be set up?? In other words he wanted to know the thought of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state and how this would affect its relationship with neighboring countries? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose, and this would have surly suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted (Saleena Karim, 2010, p-31).
ڈون کیمپبل نے جو سوال پوچھا تھاو ہ یہ تھا: پاکستان کی مرکزی انتظامیہ کن بنیادوں پر قائم ہوگی؟ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست اورکس طرح یہ اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو متاثر کرے گی؟ جناح کے لیےیہ ایک اچھا موقع تھا، اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دےدیتے، اور یہ بات مغربی سامعین کو یقیناپسند آتی جن کےمفاد کے پیش نظر یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے جو الفاظ قائد سے منسوب کیےوہ اصل دستاویز میں نہیں پائے جاتے،مثلاً قائد نے درج ذیل الفاظ قطعاً استعمال نہیں کیے:
the new state would be a modern democratic state.
اور نہ sovereigntyکا لفظ ہی استعمال کیا اور نہ religionکا۔ سلینا اپنی کتاب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر واقعی قائد سیکولر ریاست چاہتے تھے تو یہ بہت اچھا موقع تھا کہ بیرونی اخباری نمایندہ اس بات کو دنیا میں پھیلا دیتا لیکن قائد نے ایسا نہیں کیا۔دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ماہر قانون جس کی ساری عمر دستاویزات جانچنے ، پرکھنے اور ان پر فیصلے کرنے میں گزرتی ہے کس منہ سے سو فی صد غلط بیانی کر تا ہے؟ مگر حقائق یہی ہیں اور سلینا کریم نے اصل مسودہ تلاش کر کے جسٹس منیر کی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا ماخذ مانتے ہوئے بہت سے غیر مسلم اور مسلم ماہرین کے خیال کی مستند تردید کردی ہے۔
دستورپاکستان اور شریعت
بانی ٔپاکستان نے میلاد النبی کی ایک تقریب میں کراچی کے وکلا کی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ۲۵جنوری۱۹۴۸ء کو واضح الفاظ میں بیان کیا کہ نظریہ پاکستان کے جو دشمن بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں اور ان کا اشارہ خصوصاً ڈاکٹر خان کی طرف تھا جو سرحدی گاندھی باچاخان کی طرح دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کےمخالف تھے ۔قائد اعظم نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ جو شریعت ۱۳۰۰سال پہلے درست تھی وہی آج بھی درست ہے اور وہی دستور کی بنیاد ہو گی:
He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia. The Qua’id-e-Azam said “the Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. The Governor General of Pakistan said that he would like to tell those who are misled "some are misled by propagating" that not as the Muslim but also the non-Muslims have nothing to fear and its idealism have taught democracy. Islam has taught equality, justice and fair play to everybody. What reason is there for anyone to fear democracy, equality of man, freedom and the highest standard of integrity and on the basis of fair play and , justice for everybody. The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah said, Let us make it (the future constitution of Pakistan). We shall make and we will show it to the world (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48, Government of Pakistan, 1989, p125).
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوںکا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرناچاہتاہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پراسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہیں ، انھیں بتا دینا چاہتاہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموںکو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسلام اوراس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نےہرشخص کومساوات، عدل اورانصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اورحُریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ وہ دیانت کےاعلیٰ ترین معیارپرمبنی ہو اور اس کی بنیاد ہرشخص کے لیے انصاف اور عدل پررکھی گئی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا: ’’ہمیں اسے (پاکستان کا آیندہ دستور) بنا لینے دیجیے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم،ص ۴۰۲)
قائد اعظم کے دستور پاکستان کے شریعت پر مبنی ہونے کے بیان کی مزید تائید قائد کے ان اقدامات سے ہوتی ہے جو انھوں نے اس حوالے سے کیے ۔ ہم یہاں صرف دو ایسے شواہد کا ذکر کریں گے ، جن کی سند کی ضرورت نہیں ۔ اول علامہ محمد اسد کو قائد کے مشورے پر ’قومی تعمیر نو‘ کے ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا کہ وہ اسلامی دستور کا مسودہ تیار کریں۔ دوسرے دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ تعلیمات اسلامی بورڈ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری مولانا ظفر احمد انصاری کی زیرنگرانی قائم کیا گیا ۔جس کی صدرات مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کی گئی اور اس بورڈنے قرارداد مقاصد اور دستور میں اسلامی دفعات کی تیاری کا فریضہ انجام دیا ۔
اسلام کے معاشی نظام پر بات کرتے ہوئے،انتقال سے بہ مشکل دوما ہ قبل یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا :
I shall watch with keenness the work your Research organization, in evolving banking practices compatible with the Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insolvable problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world... The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and prove to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of mankind and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it,and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind (ibid, p 271).
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طورطریقوں کو معاشرتی اوراقتصادی زندگی کےاسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کےسلسلے میں جو کام کرے گا مَیں اس کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثرکو یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسےاس وقت سامنا ہے.... مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے خوش و خرم اورمطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اوردُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچاسکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اورانسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
یہ حقیقت ہر باشعور پاکستانی کے علم میں ہے کہ ۱۹۳۳ء میں کمیرج یونی ورسٹی کے چند طلبہ جن میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفیق کار خواجہ عبد الرحیم شامل تھے ، شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے پیش نظر ان صوبوں کے ناموں میں سے حروف لے کر ملک کے لیے ایک نام تجویز کیا تھا جو ’پاک-ستان‘ تھا۔اس تجویز کے محرک چودھری رحمت علی تھے۔
جو بات قوم کے علم میں نہیں لائی گئی وہ یہ ہے کہ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو، یعنی قرارداد پاکستان کے اگلے روز لاہور میں خواجہ عبدالرحیم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ۔ اس موقعے پر قائد اور خواجہ عبدالرحیم کی گفتگو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان کے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کا کیا تعلق تھا اور پاکستانیت یا پاکستانی قومیت کی بنیاد کس تصور پر ہے؟
“On March 24, 1940, a day after the Lahore Resolution, Khawaja Abdurrahim one of those who in Cambridge proposed the name of the country invited the Quai’d at his residence. The Quai’d told him Rahim the name you gave in 1930 is highly talked about in Hindu press.Khawaja Rahim asked the Quai’d then what should be the name in your view, Allama Iqbal in those days had already endorsed this name. The Quai’d said "if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add 'I' which stands for Islam and is the link between these provinces". Khawaja Rahim conveyed it to Chaudary Rahmat Ali, who was visiting Karachi those days (Sultan Zaheer Akhter, Shayed Keh Tery Dil main uter jai meri baat, Rawalpindi, Tanzim Karkunan-i-Pakistan, 1998, p 23-24).
۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء ، قرارداد لاہورکےایک روز بعد، خواجہ عبدالرحیم نے جو ان میںسے ایک ہیں جنھوں نے کیمرج میں ملک کا نام تجویز کیاتھا، قائداعظم کو اپنی رہایش گاہ پر مدعو کیا۔ قائد نے ان سے کہا کہ ۱۹۳۰ء میں جو نام آپ نے تجویز کیا ہے ہندو پریس میں اس کا بہت چرچا ہے۔ خواجہ رحیم نے قائدسےپوچھا کہ ان کی رائے میں ملک کا کیا نام ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال پہلے ہی اس نام کی تصدیق کرچکے تھے۔ قائد نے کہا: ’’اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک -ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خواجہ رحیم نے چودھری رحمت علی کو اس سے آگاہ کیا جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے۔
کیا اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد بھی کوئی شخص قائد کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا تصور پاکستا ن اسلام کے علاوہ کچھ اور تھا؟
قائد اعظم کی فکر کا تسلسل اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان کا حصول ہر دور میں ان کی تقاریر اور بیانات کا موضوع رہا لیکن ’لبرل‘ دانش وروں ، نوکر شاہی ، ابلاغ عامہ پر قابض تجزیہ نگاروں نےبھرپور کوشش کی کہ قائد کو ایک سیکولر شخص کے طور پر projectکیا جائے۔ خود قائد کا اپنا اسلام سے تعلق کتنا گہرا تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تقریر سے کیا جا سکتا ہےجو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ ۱۹۳۹ء میں کی گئی:
I have seen enough of the world and possess a lot of wealth.
I have enjoyed all comforts of life. Now my only desire is to see the Muslims flourish and prosper as an independent community. I want to leave this world with a clean conscience and content with the feeling that Jinnah had not betrayed the cause of Islam and the Muslims. I do not want your praise nor any certificate. I only want that my heart, my conscience and my faith should prove at the time of my death that Jinnah died defending Islam and cause of the Muslims. May my God testify that Jinnah lived and died a Muslim fighting against the forces of "Kufar" and holding the flag of Islam high (Address at All India Muslim League 1939 reported in Daily Inqalab Lahore, October 22, 1939, Quoted by Dr.Safdar Mehmood, "Quaid wanted Islamic, democratic state, Dawn Pakistan Day Supplement" , March 23, 2002, P5).
میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اورکافی دولت رکھتا ہوں۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہےکہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اورآزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اورپورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اورمسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میراضمیراور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اورمسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہواہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح ’کفر‘کی قوتوں کےخلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور اسلام کےپرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔
ہم آخر میں صرف دو مزید حوالے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق قائد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اس کے راوی نامورمسلم لیگی لیڈر مولانا حسرت موہانی ہیں:
In 1945, Maulana Hasrat Muhani went to see the Quai’d at his Delhi residence (10- Aurangzeb Road) and was told he does not like to meet people at this evening hour. It was time for Magrib prayer, the maulana prayed in the lawn, and then started walking in the corridor. He heard some whispers and thought the Qua’id is talking with someone, he tried to peep into his room. What he saw was reported by him: "The Quai’d was sitting on prayer rug and was praying to Allah for the success of the Muslims with tears and sobs" (Agha Ashraf, Muraqa Quaid-i-Azam, Lahore, Maqbool Academy, 1992).
۱۹۴۵ء میں، مولانا حسرت موہانی، قائدسے ملنے کے لیے دہلی میں ان کی رہایش گاہ (۱۰- اورنگ زیب روڈ) پر گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ شام کے ان اوقات میں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ مولانا نے باغیچے میں نمازادا کی اور پھر برآمدے میں چہل قدمی شروع کردی۔ ا نھوں نے سرگوشی سنی اور سمجھا کہ قائد کسی سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کے بقول: ’’قائدجائے نماز پر بیٹھے تھے اور وہ آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ سے دُعاگو تھے‘‘۔
دوسری اہم دستاویز وہ عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ کے عہدے داران نے دہلی میں ۹،۱۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقدہ اجلاس میں اٹھایا ۔اس عہد نامہ کا آغاز قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۱ سے ہو رہا ہےاور اختتام سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہوتا ہے ۔
عہدنامے کا آغاز سورئہ انعام کی آیت سے ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ (انعام ۶: ۱۶۱) ’’میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
عہد نامہ کا اختتام بھی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہو رہا ہے: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۵۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہماری مدد کر‘‘۔
اس عہد نامہ کے الفاظ اور ان پر قائد اعظم کے دستخط اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی پوری جدوجہد ِقیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی زندگی اور موت کو کس عقیدہ سے وابستہ سمجھتے تھےاور اس وابستگی کے اظہار میں کسی معذرت کے بغیر پوری استقامت کے ساتھ قائم تھے۔
ایک بنیادی سوال اس عہد نامہ کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا اس عہد نامہ کے کرنے والے بہ شمول ایک ماہر قانون اور بے باک اور نڈر قائد یہ عہد ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے اُٹھا رہے تھے ؟ کیا قائد اعظم نے اپنے دستخط کرتے وقت اس عہد نامہ کو پڑھ کر اور سمجھ کر دستخط کیے تھے یا محض مروتاً دستخط ثبت کر دیے؟ ایک ماہر قانون جس نے زندگی میں کوئی جھوٹا مقدمہ ہاتھ میں لینا پسند نہیں کیا۔کیا وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اس عہدنامے پر دستخط کر سکتا ہے ؟قائد کے کردار ، عزم ، جرأت اور دوٹوک بات کرنے کی روایت کی روشنی میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دانش وَروں اور لبرل ازم کے سہارے زندہ رہنے والے افراد نے قائد کی حیات اور فکر پر بھاری ظلم کیا ہے اور پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے۔
دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک غیر مسلم محقق نے سمجھ لی اور جس کا اظہاروہ اپنی ایک مشہور کتاب میں کرتا ہے ، اس پر ہمارے بہت سے دانش وَر آج بھی جانتے بوجھتے شکوک میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ کنا ڈا کے تقابل ادیان کے ماہر کینٹول اسمتھ جنھوں نے ایک عرصہ علی گڑھ میں گزارا پھر تحریک پاکستان کے دوران لاہور کے فورمین کرسیچین (FC) کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور جو اردوسے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے جس کا راقم چشم دید گواہ ہے، وہ تصور پاکستان کو یوں چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
In the Pakistan case…the whole raison detre of the state was Islam:it was Islam that first brought it into being, and that continued to give it meaning. The purpose of setting up the state was to enable Muslims here to take up once again the task of implementing their faith also in the political realm".
…Pakistan came into being as already an Islamic state not because its form was ideal but because, in so far as, its dynamic was idealist To set up an Islamic State then was the beginning not the end of an adventure.To achieve an Islamic state was to attain not a form but a process (Wilfred Cantwell Smith, Islam in Modern History, New York, Mentor Books 1957, P 217-219).
پاکستان کے معاملے میں …ریاست کا حقیقی مقصد اسلام تھا: یہ اسلام ہی تھا جو سب سے پہلے اسے معرضِ وجود میں لایا اورجس نے اس کے مفہوم کا تعین کیا۔ ریاست کا مقصد مسلمانوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ ایک بار پھراپنے ایمان پرعمل پیرا ہوسکیں اور میدانِ سیاست میں بھی…
پاکستان ابتدا ہی سے ایک اسلامی ریاست کےطور پر معرضِ وجود میں آیا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مثالی تھا بلکہ اس کا محرک اصولِ پسندی تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام ایک مہم کا انجام نہیں بلکہ آغاز تھا۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل محض ایک وجود کا حصول نہیں بلکہ ایک عمل کا آغاز تھا۔
یہ وہ چند ناقابل تردید حقائق ہیں جن کے تذکرہ سے وہ تاریخِ تصورِ پاکستان جو ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل و سیکولر طبقہ کے تعلیم یافتہ مؤرخین نے ’ معرو ضیت‘ کے نام پر تحریر کی اور جو ہماری نسلوں کو قیام پاکستان سے آج تک پڑھایا گیا، تاکہ ان کے ذہنوں میں وہی ’مذہب‘ و ’سیاست‘ کی تفریق جاگزیں ہو جس نظریہ کی پیداوار یہ دانش وَر خود تھے۔معروضیت کا تقاضا ہے کہ ان حقائق کو ہر مسلم و غیر مسلم پاکستانی کے علم میں لایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس عظیم انعام اور تحفہ ، پاکستان کی امانت کا حق ادا کر سکے اور اپنے تشخص اور پہچان کو صوبائیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور مسلکیت سے الگ کر کے پاکستان کا مقصد کیا لاالٰہ الا اللہ کو اپنی زندگی اور ملک کے نظام میں عملاً نافذ کر سکے۔(مکمل)