دسمبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

بے ریاست شہریوں کا المیہ

وحید مراد | دسمبر۲۰۲۰ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

جدید قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں یورپ میں آسٹریا، برطانیہ، فرانس، ہنگری، روس، پرتگال اور اسپین کی سلطنتیں اور بادشاہتیں قائم تھیں۔ دوسری جانب مسلم دنیا میں خلافت عثمانیہ، ایرانی سلطنت اور ہندستان میں زوال پذیر مغلیہ سلطنت وغیرہ مشہور تھیں اور ان کے علاوہ کئی اور بھی چھوٹی بادشاہتیں موجود تھیں۔ قومی تحریکیں اس تصور پر اٹھیں کہ روایتی سلطنتوں اور باشاہتوں میں ایک خاندان یا نسلی گروہ کا تمام وسائل پر تسلط ہوتا ہے اور ریاست کے وسائل پر وہاں کے عوام کو تصرف کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے برعکس ’’ قومی ریاستیں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں قومی اتحاد کے اصول کے تحت تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی حقوق دیں گی‘‘۔ لیکن قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد ریاستوں میں کمزور علاقوں کے وسائل پر قبضے کی مسابقت شروع ہو گئی۔ اس طرح ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں بے شمار کمزور اقوام کو غلام بنا کر انھیں نوآبادیاتی کالونیوں کی شکل دے دی۔

طاقت ور اقوام میں معاشی مسابقت اور کمزور اقوام پر قبضے کی ہوس، جنگ عظیم اول، دوم کی ہولناک جنگوں کی شکل اختیار کر گئی، جس میں لاکھوں معصوم افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان ہولناک جنگوں کے بعد قومی ریاستوں نے انسانیت کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے والاجدید اسلحہ، جبر، تشدد، دہشت گردی، منافرت، لسانیت، فرقہ واریت، ماحولیاتی آلودگی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، مہنگائی، بے روزگاری، جنسی بے راہروی، خاندانی نظام کی تباہی، جرائم، خودکشی، جیلوں میں اذیت ناک ماحول اور انسانیت سوز سزائیں اور درندگی و بہیمیت کے نہ جانے کیا کیا تحفے دیے۔ اس حیوانیت میں سب سے بڑا عذاب انسانوں کو 'بے ریاست (stranded) کرنے کا ہے۔

بے ریاستی کی بنیادی قسم یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد سے ان کی ریاست چھین کر انھیں بے ریاست کیا جاتا ہے اور ان کی ریاست پر کوئی دوسری طاقت قبضہ کر لیتی ہے۔ سامراجی دور میں برطانیہ، فرانس، روس اور کئی دیگر طاقت ور ریاستوں نے جب اپنی سرزمین سے باہر اثر و رسوخ بڑھاکر ان نوآبادیاتی علاقوں کی خودمختاری ختم کردی تووہ قومیں بے ریاست ہو گئیں۔ پھر بہت سی قومیں اس وقت بھی بے ریاست ہو گئیں، جب سامراجی طاقتوں نے اپنی بدانتظامی کے نتیجے میں  مقبوضہ علاقوں سے بوریا بستر لپیٹا اور اپنے مستقبل کے مفادات کے تحت بہت سی قوموں کے جغرافیے کو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا۔ اس طرح کئی اقوام مختلف ممالک کے اندر ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئیں۔

بے ریاستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سامراج نےقبضہ ختم کرتے وقت جان بوجھ کر کچھ چھوٹی ریاستوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تاکہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ سودے بازی کرکے ان پر قبضہ کروایا جا سکے۔ پنجاب مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ ہندستان اور پاکستان میں اس طرح بانٹ دیا گیا کہ پاکستان کے آبی وسائل (یعنی دریائے بیاس، ستلج، راوی مکمل طور پر اور چناب جزوی طور پر) ہندستان کے کنڑول میں رہیں اور بوقت ضرورت ہندستان پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرنے کا حق رکھے۔ ہندستان کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کشمیر، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ وغیرہ پر قبضہ کر ے اور کئی دیگر چھوٹی قوموں مثلاً مسلمان، سکھ اور گورکھوں وغیرہ کو خود مختاری نہ دے۔ سلطنت ِعثمانیہ کو کئی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور فلسطینیوں کو اپنے علاقے سے بے دخل کرکے وہاں ایک غیر قانونی ریاست اسرائیل کی شکل میں قائم کر دی گئی۔ اسی طرح سنکیانگ کو چین نے اپنی ریاست میں ضم کرلیا، روہنگیا مسلمان، میانمار کے قبضے میں آگئے، کردوں کو ایران، شام، ترکی اور عراق میں تقسیم کر دیا گیا۔

۱۹۷۱ء میں جب سقوط ڈھاکہ ہوا اور بنگلہ دیش ایک الگ ملک بن گیا تو ۳ سے ۵ لاکھ بہاریوں کو بے ریاست کر دیا گیا جو آج تک کیمپوں میں پناہ گزینوں اور بے وطن پاکستانیوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا کہ چونکہ بنگلہ دیش، مشرقی پاکستان کی جانشینی ریاست ہے اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہاری ہم وطنوں کو اپنی ریاست میں شامل کرے جیسے مغربی پاکستان نے اس خطے میں رہایش پذیر تمام اقوام کو ریاست پاکستان میں شامل کیا، لیکن بنگلہ دیش نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح نیپال میں ایک لاکھ سے زیادہ بھوٹانی پناہ گزین ہیں جن کے پاس نہ بھوٹانی شہریت ہے اور نہ نیپال ان کو اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔

بے ریاستی کی ایک بڑی وجہ وہ امتیازی سلوک ہے، جو کچھ ریاستیں اپنے مخصوص شہریوں سے ان کی نسل، رنگ، زبان، مذہب یا ثقافت کی بنیاد پر روا رکھتی ہیں اورجس کی بنیاد پر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں کو ملکی شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمے کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء کو کہا تھا کہ ’’نسل، رنگ، قوم، زبان یا مذہب کی بنیاد پر شہریت سے محروم کرنا اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جو تمام ریاستوں نے کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کو یقینی بنائیں گی‘‘۔ لیکن بہت ساری طاقت ور ریاستیں اقوام متحدہ کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔

 قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل قومیت اور شہریت کے سخت قوانین موجود نہیں تھے۔ اس لیے لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں آسانی سے جا کر رہایش اختیار کرسکتے تھے۔ اس کے باوجود بے شمار ایسی قومیں بھی تھیں جن کی اپنی کوئی الگ ریاست نہیں تھی لیکن پھر بھی انھیں اپنے رہایش پذیر علاقوں میں تمام سہولتوں سے فیض یاب ہونے کی سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن اب ایسی پس ماندہ قوموں کو اپنے ہی علاقے میں بے ریاست کرکے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔

 بے ریاست شہریوں کی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور اس وجہ سے انھیں جایداد رکھنے، بنک اکاؤنٹ کھولنے اور بیرونِ ملک سفر کے لیے پاسپورٹ رکھنے جیسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی افراد کو طویل عرصے تک حراست میں رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ کون ہیں اور ان کا تعلق کس خطے سے ہے؟ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ ۲۰لاکھ لوگ ایسے ہیں، جو اپنے ہی علاقے میں اجنبی بن گئے ہیں۔ یہ لوگ جس ملک میں پیدا ہوئے، جہاں پرورش پائی وہی ملک ان سے کسی نسلی یا مذہبی امتیاز کی بنا پر شہریت کی پہچان دینے سے انکار کرتا ہے۔ایسے بنیادی حقوق سے محروم لوگوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔

۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے ریاست افراد کے ساتھ کم سے کم معیار کا سلوک قائم کرنے کے لیے ایک کنونشن منظور کیا گیا، جو بے ریاست افراد کو تعلیم، روزگار، رہایش، شناخت، سفری دستاویزات اور انتظامی مدد کا حق دیتا ہے۔ ۱۹۶۱ء میں ایک نیا کنونشن لایا گیا، جس میں شہریت کے لیے ہر بے ریاست فرد کے حقوق یقینی بنانے کے لیے، ایک بین الاقوامی فریم ورک قائم کیا گیا۔ اس کنونشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر والدین نے کوئی دوسری قومیت حاصل نہیں کی تو بچوں کو اسی ملک کی شہریت حاصل ہوگی جس میں وہ پیدا ہوئے ہیں‘‘۔ اسی طرح یہ کنونشن بے ریاستی کی روک تھام کے لیے اہم حفاظتی اقدامات کا تعین بھی کرتا ہے۔ دنیا کے ۶۶ملکوں نے ابھی تک اقوام متحدہ کے ۱۹۵۴ء کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں بے ریاست افراد کے ساتھ برتاؤ کے کم سے کم معیار مقرر کیے گئے ہیں۔ جب کہ صرف ۳۸ ممالک اقوامِ متحدہ کے ۱۹۶۱ءکے کنونشن کے ارکان ہیں، جس میں بے ریاست افراد کی بے وطنی کم کرنے کے لیے قانونی دائرۂ کار کا تعین کیا گیا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار نے اقوام متحدہ کے ان کنونشنوں پر دستخط نہیں کیے۔

یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں کی آمد سے قبل ایشیا میں جغرافیائی سرحدوں کا کوئی واضح تعین نہیں تھا۔ اس وقت علاقائی سطح پر ترک وطن عام تھا کیونکہ خود مختار نوابی ریاستوں کے مابین غیر واضح اور ڈھیلی ڈھالی سرحدیں تھیں۔ قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد اب دنیا میں کوئی ایک چپہ بھی ایسا نہیں ہے، جو کسی ریاست کے قبضے سے باہر ہو اور جہاں کوئی بے ریاست قوم یا گروہ تصرف حاصل کر سکتا ہو۔ جنوبی ایشیا کے ممالک نے انتہائی معمولی یا کسی بھی ترمیم کے بغیر ہی زیادہ تر وہی قوانین اپنا لیے، جو پہلے سے موجود اور نوآبادیاتی طاقتوں کے بنائے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے شہریت سے متعلقہ قوانین کے باعث بھی کئی مسائل پیدا ہوئے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں آج بھی کئی ملین انسانوں کے پاس ایسی قانونی دستاویزات موجود ہی نہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی مقامی شہریت ثابت کر سکیں۔ وہ جنھیں بے وطن قرار دیا جاتا ہے، زیادہ تر ترک وطن یا نقل مکانی کے پس منظر والے ایسے غریب انسان ہیں، جن کی اپنی کوئی زمینیں یا دیگر املاک نہیں۔

بھارت نے آسام میں 'شہریوں کے قومی رجسٹریشن، یا این آر سی کی تازہ فہرست جاری کی ہے، جس میں آسام میں عشروں سے رہنے والے مسلمان شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس طرح غیر قانونی اور غیر ملکی قرار دیے جانے والے ۲۰ لاکھ افراد عملی طور پر بے وطن ہو چکے ہیں اور اگر وہ اپیل کرنے کے بعد بھی اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے تو انھیں ملک بدری، گرفتاریوں اور حراست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ستمبر میں اپنے دورۂ آسام کے دوران یہ اعلان کیا تھا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان در اندازوں کو اٹھاکر خلیج بنگال میں پھینک دے گی‘‘۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قانون باہر سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو تو سہولت دیتا ہے لیکن یہ قانون بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے، ان سے 'انتقام ' لیا جائے گا اور 'سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جایداد کی قرقی کی جائے گی۔ اس طرح صدیوں سے آباد مسلمانوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔

بھارت کی موجودہ ہندو انتہاپسند حکومت آسامی مسلمانوں کی طرح کشمیر یوں کو بھی بے وطن کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے وطن کیا۔

بھارت کی طرح میانمار کی فوج نے بھی سخت مظالم ڈھاتے ہوئے چھے لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں وہ رخائن ریاست میں رہایش پذیر تھے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان مسلمانوں کے گھر بار، گاؤں، مویشی جانور اور کھیت نذر آتش کر دیے گئے ہیں تاکہ وہ ملک میں واپس نہ آئیں۔ وہ روہنگیا مسلمان جو ان مظالم سے بچنے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش جانے کی کوشش کرتے ہیں، میانمار کے حکام سیکورٹی نافذ کرنے کے لیے آپریشن کے نام پر ان شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں اورعورتوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے تعینات سفیر کے مطابق اکتوبر سے لے کر اب تک چھے لاکھ افراد سرحد عبور کر کے میانمار سے بنگلہ دیش داخل ہو چکے ہیں۔ ان روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک ہفتے سے زائد عرصے تک غذا کے بغیر پیدل چلنا پڑا، جس کے بعد بالآخر وہ بنگلہ دیش تک پہنچے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق میانمار کے سیکورٹی اہلکاروں نے جان بوجھ کر روہنگیا پناہ گزینوں کے سرحدی راستے میں بارودی سرنگیں نصب کر دی تھیں، جس سے ان بے خانماں لوگوں کا سفر اور بھی خطرناک ہوگیا تھا۔پھر خود بنگلہ دیشی حکومت نے بھی بے شمارروہنگیا مسلمانوں کو کھلے سمندر میں ڈوبنے اور مرنے پر مجبور کیا۔

ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق ۲۴؍ اگست سے اب تک ۲۸کشتیاں ڈوب چکی ہیں جن میں ۱۸۴؍ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت بحث کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’روہنگیا مسلمانوں کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کریں گے جہاں ۸۰ہزار روہنگیا کو رہنے کی جگہ میسر ہو سکے گی‘‘۔ پناہ گزین کے مطابق رخائن ریاست میں کھانے کی قلت کی وجہ سے ان کو بھاگنا پڑا تھا کیونکہ وہاں موجود کھانے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کیمپوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب خواتین موجود ہیں جو ماں بننے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے ۲۴ہزار خواتین حاملہ ہیں اور ان کے پاس سڑک پر اولاد جنم دینے کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

روہنگیا اور آسامی مسلمانوں کی طرح فلسطینی مسلمان بھی اس وقت پناہ گزینی اور بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ برطانوی سامراج نے جب فرانس اور امریکا کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے، تو یورپ کے لاکھوں یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر لا کر بسایا۔ ان یہودیوں نے سامراج کی پشت پناہی سے اسرائیل کی غیر قانونی ریاست قائم کی، اور اس میں توسیع کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو صدیوں سے رہایش پذیر علاقوں سے بے دخل کرکے بے ریاست کر دیا۔ اس وقت دو لاکھ سے زائد فلسطینی یورپ میں پناہ گزین ہیں اور باقی ماندہ اُردن، لبنان، شام اور غزہ کی پٹی میں بے وطن ہیں۔ جن علاقوں میں فلسطینی رہایش پذیر ہیں، عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ وہاں کے شہری ہیں حالانکہ وہ وہاں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کو ’اوسلو معاہدے‘ کے تحت فلسطینی پاسپورٹ جاری کر دیے گئے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی قانونی حیثیت کو ۲۰۱۸ء میں کسی حد تک تسلیم کیا گیا تھا۔ کچھ ممالک ان کی سفری دستاویزات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی فلسطینی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کیونکہ صرف ان شہریوں کی شہریت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی باقاعدہ ریاست کے شہری ہوتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں ہے۔ یہ ۲۰۱۲ء سے اقوام متحدہ کی محض Nonmember Observer State ہے اور اسے بہت سارے ممالک نے تسلیم نہیں کیا ہے، لہٰذا فلسطینی جہاں بھی رہایش پذیر ہیں بے وطن اور بے ریاست ہیں۔

دنیا کی طاقت ور ریاستوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیاہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ طاقت ور قوموں کی طرف سے کمزور قوموں کے ساتھ غلامانہ سلوک کیا جارہا ہے اور بین الاقوامی فیصلہ سازی میں اس کی گنجایش موجود ہے۔ جب کوئی طاقت ور ریاست اپنے شہریوں کو حقوق شہریت سے محروم کر دیتی ہے تو خود بخود وہ تمام دیگر قانونی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور جب طاقت ور ریاستیں دیگر کمزور ریاستوں پر دھونس ڈالتی ہیں کہ وہ ان بے ریاست شہریوں کو پناہ گزیں کے طور پر ملک میں نہ گھسنے دیں تو ان لوگوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا اور دیگر طاقتوں نے جن لوگوں کو ’جنگی مجرم‘ قرار دے کر گوانتاناموبے جیل، برطانیہ کی بل مارش جیل، عراق کی ابوغریب جیل اور افغانستان کی بٹگرام جیل میں ڈال دیا ہے، ان کی حیثیت بھی غلاموں سے بدتر ہے، اور وہ تمام انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

اسی طرح بعض مسلم اور عرب ریاستوں میں ، بیرونِ ملک سے آنے والے ملازمین، وہاں پر ملازم کے طور پر نہیں بلکہ ایک بے زبان غلام کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

 شریعت ایک انسان کو جو حقوق عطا کرتی ہے وہ کسی آقا، مالک، حکمران اور ریاست کو چھیننے کا اختیار نہیں ہوتا۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کو کسی بھی اسلامی معاشرے اور علاقے میں وہی حقوق حاصل ہوتے تھے، جو اسے اپنے پیدایشی علاقے میں حاصل ہوتے تھے۔ روایتی حکمران اور ریاستیں جب کسی مجرم کو علاقہ بدر کر دیتی تھیں تووہ اس کے لیے ایک جزوی سزا ہوتی تھی، اور اس سنگین جرم کی سزا کی وجہ سے وہ صرف اپنے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا، باقی دنیا اس کے لیے کھلی ہوتی تھی اور وہ کہیں بھی انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر جب یہودیوں کے لیے پورا یورپ مقتل بنا ہوا تھا اوروہاں ان کا جینا حرام کردیا گیا تھا تو انھیں مسلم دُنیا کی آغوش میں پناہ ملی۔ جب اسپین سے ڈھائی لاکھ یہودیوں نے ہجرت کی تو انھیں سلطنت عثمانیہ نے سلونیکا میں آبادکاری کی اجازت دی۔ اور اب احسان فراموش یہودی مقامی فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی  کا ہرحربہ استعمال کرکے بھی مطمئن نہیں ہورہے۔