سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بڑے حصے ہیں: ایک کا تعلق آپؐ کی ذاتِ گرامی سے ہے اور دوسرے کا تعلق اس دین، اس نظام اور اس پیغام سے ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پرنازل کیا تھا اور جس پر خود عمل کرکے آپؐ نے دکھایا۔
آپؐ کی ذاتِ گرامی سے جس حصہ کا تعلق ہے اس کی دو نوعیتیں ہیں:
ایک یہ کہ آپؐ کہاں پیداہوئے؟ کب پیدا ہوئے؟ کس خاندان سے اور نبوت سے پہلے آپؐ کے سوانح حیات کیا ہیں؟ نیز یہ کہ ظہور قدسی کے وقت جزیرۃ العرب کے بالخصوص اور پوری دنیا کے بالعموم حالات کیا تھے؟
دوسری نوعیت یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کیا مقام عطا فرمایا ہے؟ سیرتِ نبویؐ کے دوسرے حصے کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل اور ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ سیرتِ نبویؐ سے مراد یہ دونوں حصے ہیں۔
اس کی ایک واضح ناقابلِ انکار اہمیت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور پیروی کے بغیر دین اسلام پر عمل ممکن نہیں ہے۔ کوئی مومن، اسلام کے اوّلین حکمِ اقامت ِ صلوٰۃ پر بھی عمل نہیں کرسکتا اگر آپؐ کی قولی و عملی تعلیم اس کے سامنے نہ ہو۔
داعیانِ حق اور اقامت ِ دین کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کے لیے اس کی مخصوص اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر وہ یہ مہم سر نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ اقامت ِدین کا آخری نمونہ حضوؐر کی سیرت میں موجود ہے۔ اگر اس کو نگاہوں سے اوجھل کردیا جائے تو اقامت ِ دین کی جدوجہد کسی اور سمت مڑ جائے گی اور مڑنے والوں کو اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے آپؐ کی سیرت کو قیامت کے لیے واجب العمل اسوئہ حسنہ کی حیثیت دے دی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۲۱ۭ (الاحزاب ۳۳: ۲۱) اور تمھارے لیے اللہ کے رسولؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ، ان کے لیے جو اللہ کی ملاقات اور روزِ آخرت کی توقع رکھتے ہیں، اور اللہ کو زیادہ یادکرتے ہیں۔
مطالعۂ سیرت کی اہمیت کے پیش نظر یہ آیت بے حد قابلِ غور ہے اور ضروری ہے کہ ہرمسلمان اور خاص طور سے داعیِ حق کے ذہن میں تازہ رہے تاکہ وہ دعوتِ حق کے ہرموڑ پر اس سے روشنی حاصل کرسکے۔ ہم اس آیت کریمہ کے چند پہلوؤں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلی چیز جو سامنے آتی ہے وہ اس آیت کا موقع و محل اور اس کا پس منظر ہے۔ موقع و محل غزوئہ احزاب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس غزوے کی اہمیت یہ ہےکہ پوری سورہ کا نام ہی ’الاحزاب‘ رکھ دیا گیاہے۔ اس غزوہ کی خصوصیت یہ ہے کہ قبیلۂ قریش و دیگر قبائل اور یہودیوں کی متحدہ و مشترکہ طاقت (Allied Forces) نے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی بستی پر یلغار کی تھی۔ یہ بات عرب کی تاریخ میں بالکل نئی تھی کہ اس طرح کی متحدہ مشترکہ طاقتوں نے کسی بستی پر حملہ کیا ہو۔ یہ صرف اُن کی اسلام دشمنی تھی، جس نےسب کو متحد کردیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تمام غیراسلامی طاقتیں خواہ ان کے درمیان باہمی اختلافات کتنے ہی شدید ہوں اسلام کے خلاف متحد ہوجاتی ہیں۔ آج بھی یہ حقیقت کھلی آنکھوں سے دیکھی جارہی ہے۔
اس انتہائی خطرناک موقعے پرمنافقین نے جو روش اختیار کی تھی اس پر ان کی بزدلی اور بے حمیتی پہ غیرت دلانے کے لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کااسوئہ حسنہ پیش کیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اصلاً یہ آیت میدانِ جہاد کے تعلق سے نازل ہوئی تھی اور کش مکشِ حق و باطل میں آپؐ کا اسوئہ حسنہ پیش کیا گیا تھا۔ لیکن آیت کےالفاظ عام ہیں، اس لیے زندگی کے ہرشعبے میں آپؐ کی سیرتِ مبارک ہمارے لیے اُسوئہ حسنہ ہے۔ جو لوگ صرف نماز، روزہ اور مخصوص اوقات کے ذکر و تسبیح میں آپؐ کے اُسوہ پر عمل کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے آپؐ کے اسوئہ حسنہ کاکامل اتباع کرلیا۔ وہ غلط سمجھتے ہیں اور ان کی پیروی ناقص پیروی ہے۔
دوسری چیز جوآیت کے اندر ہے وہ یہ ہے کہ ہرمدعی آپؐ کے اسوئہ حسنہ کی پیروی نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: (۱) اللہ پر ایمان (۲) آخرت پر ایمان (۳) ذکرِ کثیر۔ ایمان وہ نہیں ہے، جس کے مدعی منافقین بھی تھے بلکہ مخلصانہ، زندہ اور مضبوط ایمان ہے اور ذکرِ کثیر (بہت زیادہ اور ہمیشہ ذکر ِ الٰہی کرنا) ہی وہ چیز ہے ، جوایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر (آخرت کے دن پر ایمان) کوتازگی اور تقویت بخشتا ہے اور جس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہےکہ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام میں حضرت ابراہیمؑ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے اسوہ کو بھی سورئہ ممتحنہ کی دو آیتوں میں مومنوں کے لیے اسوئہ حسنہ قرار دیا گیاہے اوراس کی ایک آیت میں تو الفاظ بھی تقریباً یہی ہیں، جو سورئہ اَحزاب کی اس آیت کے ہیں۔
پہلی آیت یہ ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنۃ ۶۰:۴) تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ’’ہم تم سے اور تمھارےاُن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیرپڑ گیا جب تک تم اللہ واحدپر ایمان نہ لاؤ‘‘۔
دوسری آیت یہ ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۶ۧ (الممتحنۃ۶۰:۶) اُنھی لوگوں کے طرزِعمل میں تمھارے لیے اور ہر اس شخص کے لیے اچھا نمونہ ہے، جو اللہ اور روزِ آخر کا اُمیدوار ہو۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بے نیاز ہے اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
اس وقت ان آیتوں پر مفصل گفتگو کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مطالعۂ سیرت کی اہمیت کے پیش نظران آیتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔
مطالعۂ سیرت کے مقصد کی تعیین بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی مطالعۂ قرآن کے مقصد کی تعیین اہم ہے۔ جیسا مقصد ہوگا اسی کے لحاظ سے اس کا مطالعہ اور اس سے استفادہ بھی ہوگا۔ اگر کوئی محدود مقصد ہو تواسی کے اعتبار سے سیرت کا مطالعہ بھی محدود ہوگا اور اس سے استفادہ بھی۔
فرض کیجیے کہ کسی شخص کامقصد صرف یہ جاننا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وقتوں اور تہجد کی نمازیں کتنی اور کس طرح ادا فرماتے تھے؟ سو کر اُٹھتے تو کیا کرتے تھے؟ مختلف اوقات میں کیا دُعائیں مانگتے تھے اور آپؐ کی نشست و برخاست کیسی تھی؟ تووہ انھی چیزوں کے مطالعہ کو اہمیت دے گااور انھی سے استفادہ کرے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ دین کی کوششوں، سفر طائف کی صبرآزمائیوں ، بدر و حُنین کی جنگوں اور کش مکشِ حق و باطل کی مزاحمتوں کے مطالعہ سے اس کوکوئی حقیقی دل چسپی نہ ہوگی، اور سیرت کے اس حصے پر عمل اور اس سے استفادے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ شخص مقرر ہو توزیادہ سے زیادہ ان چیزوں کو جلسۂ سیرت، مجالس وعظ کی زیبایش او ر اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کرے گا۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنی پوی زندگی میں سیرتِ نبویؐ سے رہنمائی کا خواہش مند ہوگا، تبلیغ اسلام کو فرض سمجھ کر اس میں لگا ہوگا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش سے لے کر وفات تک پوری تاریخ کا اپنے مقصد کے لحاظ سے مطالعہ اور اس سے استفادہ کی پوری کوشش کرے گا۔
اس کا پہلا لاریب فیہ ماخذ قرآنِ کریم ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں مسلمان جب علمی و عملی حیثیت سے زوال پذیر ہوئے تو مولود سعیدی اور مولود شہیدی جیسی کتابیں سیرت کا ماخذ بن گئیں، جو بیش تر من گھڑت حکایتوں اور روایتوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ کتابیں بالخصوص دیہات میں پڑھنے اور میلاد خوانوں کی سہولت کے لیے لکھی گئی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب میں فرمایا تھا: کَانَ خُلْقُہُ الْقُرْاٰنَ (قرآن آپ کا اخلاق تھا)۔
ان کا یہ تاریخی اور قیامت تک باقی رہنے والا جملہ تقریروں میں دُہرایا تو بہت گیا اور اب بھی دُہرایا جاتاہے، لیکن یہ نہیں سمجھا گیا کہ حضرت عائشہؓ نے اپنے اس جملے میں دراصل قرآن کریم کو سیرتِ نبویؐکا پہلا ماخذ قرار دیا تھا۔ قرآن کریم سے سیرتِ نبویؐ مرتب کرنے کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر قرآنِ کریم میں ہے:
لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۲۸ (التوبہ ۹:۱۲۸) تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آچکا ہے، جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق ہے۔ وہ تمھاری فلاح کا حریص اور اہلِ ایمان کے لیے سراپا شفقت و رحمت ہے۔
اس آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کا جوچمن پُربہار لہک رہا ہے، اگر قرآن اور صحیح احادیث اور سیرت و سوانح کی مستند روایات کی روشنی میں اس کی تصویرکشی کی جائے تو اس کے لیے ایک کتابچے کی ضخامت بھی کافی نہ ہوگی۔ ایک طرف اس سے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۱۰۷ (ہم نے آپؐ کو دُنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ الانبیاء۲۱:۱۰۷) کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے اور دوسری طرف اس میں اہلِ ایمان کےلیے اس شفقت و رحمت کا اظہار ہے جو رافت و رحمت ِ الٰہی کا مظہر ہے۔ یہاں صرف چند اشارات بیان کیے جارہے ہیں:
پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ تمھارے پاس تم ہی میں سے جورسولؐ آیا ہے اس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا اور نقصان اُٹھانا بہت شاق ہے۔ وہ تمھیں ہر اس چیز سے بچانا چاہتا ہے جو تمھارے دُنیوی و اُخروی نقصان و ہلاکت کا سبب بنے۔ اس کی جدوجہد اس لیے ہے کہ تم دُنیا اور بالخصوص آخرت کی ہلاکت سے محفوظ رہو۔
دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ وہ تمھارے ایمان کا، تمھاری بھلائی کا اور تمھاری فلاح دارین کا حریص ہے۔ وہ اپنے لیے تم سے کچھ نہیں مانگتا بلکہ تمھاری نجات و فلاح کے لیے اپنی جان کھپارہا ہے۔
تیسری بات خاص طور پر مسلمانوں سے کہی گئی ہے کہ وہ ان کے لیے رؤف و رحیم اور سراپا شفقت و رحمت ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ رؤف میں دفع شر (بُرائی کو مٹانے) کا اور رحیم میں جلب ِ خیر (بھلائی کے حصول) کا پہلو غالب ہے۔ یعنی وہ اہلِ ایمان سے ہرطرح کے شر کودُور کرنا چاہتا ہے اور ان کے لیے ہر طرح کی خیرکا خواہاں ہے۔ وہ انھیں دُنیا میں مامون و محفوظ اور آخرت میں کامیاب و کامران دیکھنا چاہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے ان تین کوزوں میں تین سمندر بند ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ خود اس پاک ذات نے آپؐ کے خلق عظیم کی شہادت دی ہے جس نے آپؐ کو روشن چراغ بناکر مبعوث کیا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کےبڑے مرتبہ پر ہیں‘‘۔
lسیرت کا دوسرا ماخذ صحیح احادیث ہیں۔ قرآنِ کریم کے بعد مستندو معتبر ہونے کے لحاظ سے صحیح احادیث کا دوسرا درجہ ہے۔کیوں کہ احادیث کےراویوں کی جتنی چھان پھٹک کی گئی ہے وہ سیرت و سوانح کے راویوں کی نہیں کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم کے بعد صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک صحیح ترین کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ سیرت و سوانح کی روایات صحیح احادیث کے مقابلے میں نہیں لائی جاسکتیں۔ جہاں تک سیرتِ نبویؐ کے دوسرے حصے، یعنی دین اسلام اور اس کی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں تو صحیح احادیث کے دوسرے ماخذ ہونے میں کوئی شبہہ ہے ہی نہیں۔ اور میرے خیال میں جس حصے کا تعلق آپؐ کی ذاتِ گرامی سے ہے اس میں بھی صحیح احادیث کو سیرت و سوانح کی روایات پر فوقیت حاصل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں محفوظ کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہم مسلمانوں تک پہنچا دیں۔ مثال کے طور پر آپؐ کی شجاعت و دلیری سے متعلق ایک حدیث پڑھیے:
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ اَحْسَنَ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ اَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاھُمْ رَسُوْلُ اللہِ رَاجِعًا ، وَقَدْ سَبَقَھُمْ اِلَی الصَّوْتِ ، وَھُوَ عَلٰی فَرَسٍ لِاَبِیْ طَلْحَۃَ عُریٍ فِیْ عُنُقِہِ السَّیْفُ وَھُوَ یَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا ،لَمْ تُرَاعُوْا قَالَ: وَجَدْنَاہُ بَحْرًا اَوْ اِنَّہٗ لَبَحْرٌ قَالَ وَکَانَ فَرَسًا یُبَطَّاءُ(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شجاعۃ ، حدیث ۶۰۰۶) حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں بہترین تھے۔ آپؐ سب سے زیادہ سخی تھے۔ آپؐ سب سے زیادہ شجاع اوربہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ کسی آواز کی وجہ سے دہشت زدہ ہوگئے۔ کچھ لوگ دریافت حال کے لیے آواز کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی وہ راستے ہی میںتھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوتے ہوئے ملے۔ آپؐ دریافت حال کے لیے ان لوگوں سے پہلے آواز کی طرف جاچکے تھے۔ آپؐ ابوطلحہؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور گلے میں تلوارحمائل (لٹکی ہوئی) تھی اور آپؐ فرما رہے تھے: ڈرو نہیں، ڈرو نہیں (ڈر کی کوئی بات نہیں ہے) اور ابوطلحہ کے گھوڑے کے بارے میں جو اپنی چُست رفتاری کے لیے مشہور تھا، آپؐ نے فرمایا کہ میں نے تو اس کو دریا پایا، یہ کہ وہ دریا ہی ہے۔
l تیسرا ماخذ سیرت اور سوانح کی کتابیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح پر دُنیا کی ہر زبان میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، لکھی جارہی ہیں اور لکھی جائیں گی۔ اوّلاً چونکہ یہ کتابیں عربی زبان میں لکھی گئی ہیں، اس لیے ان کتابوں کے اصل ماخذ وہی ہیں ۔ ان میں سیرت ابن ہشام اور علامہ ابن قیم کی زادالمعاد کا خاص طور پر مطالعہ کرنا چاہیے۔ مطالعہ سیرت کے لیے اُردو میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں درج ذیل مستند، مفصل اور اہم ہیں:
۱- علّامہ شبلی نعمانیؒ اور علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ کی سیرت النبیؐ۔اس کتاب کی سات جلدیں ہیں۔ یہ سیرتِ نبویؐ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) ہے۔۲- علّامہ سیّدسلیمان منصور پوری کی رحمۃ للعالمینؐ اور مولانا عبدالرؤف داناپوری کی اصح السیر۔۳- مولانا سیّدابوالاعلیٰ موددی کی سیرتِ سرورِ عالمؐ ۴- نعیم صدیقی کی محسنِ انسانیت ؐ ۵- مولانا ابوسلیم عبدالحی کی حیاتِ طیبہؐ ۶- مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری کی الرحیق المختوم وغیرہ۔
l سیرتِ نبویؐ کا چوتھا ماخذ تاریخِ عالم کی کتابیں ہیں۔ ہماری رائے میں اگر اسی ترتیب سے سیرت کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ سب سے زیادہ مستند اور معتبر طریقہ ہوگا،مثلاً قرآنِ کریم میں آپؐ کے بارے میں کوئی بات کہی گئی ہے وہ مجمل یا عمومی انداز میں ہے تواس کی تشریح پہلے احادیث میں تلاش کرنی چاہیے۔ وہاں نہ ملے تو سیرت و سوانح کی کتابیں پڑھنی چاہییں اور اگر ان کتابوں میں بھی نہ ملے تو تاریخِ عالم کی کتابیں پڑھنی چاہییں۔
استفادے کے دو طریقے ہیں:علمی اور عملی۔ علمی طریقے کی تفصیل اُوپر گزری۔ عملی طریقہ یہ ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والے ہرمعاملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل کو سامنے رکھ کر اس پر اُسی طرح عمل کیا جائے، جس طرح نبی اکرم ؐ نے فرمایا، یا خود اس پر عمل کیا ہے ۔ انسان کے ظاہرو باطن کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کی قولی و عملی تعلیم سیرتِ نبویؐ میں موجود نہ ہو۔
قرآنِ کریم نے تکمیل دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کیا ہے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ انسانی نجات و فلاح اورانسان کے روحانی ارتقا سے متعلق کوئی چیز چھوڑی نہیں گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں بھی بات واضح فرمادی ہے۔ میں صرف ایک حدیث کے ایک جامع حصے کا ترجمہ یہاں پیش کرتا ہوں:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو! ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تمھیں جنّت سے قریب اور دوزخ سے دُور کرتی ہو، اِلا یہ کہ میں نے تمھیں اس کا حکم دے دیا ہے۔ اور ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تمھیں دوزخ سے قریب اور جنّت سے دُور کرتی ہو، اِلا یہ کہ میں نے اس سے تمھیں منع کر دیا ہے۔ (مشکوٰۃ، کتاب الرقاق، باب التوکل والصبر)
یہ حدیث امام بغوی نے شرح السنہ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے اور ترتیب و الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث حضرت جابرؓ اور حضرت ابوامامہؓ سے بھی مروی ہے۔ ابن ابی الدنیا، ابونعیم، حاکم اورابن ماجہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے۔
اس تفصیل سے ہمیں معلوم ہوا کہ سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟ آج کے پُرفتن دور میں ہمیں اپنے بچوں کو، اپنے نوجوانوں کو اور دوستوں کو سیرتِ نبویؐ کی کتابوں کے مطالعے کی طرف توجہ دلانا چاہیے۔ سیرت کی کتابوں کو گھروں میں لانا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین!
(مرتبہ: سیّد لطف اللہ قادری)