قائد اعظم کے دست راست نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی ان حقائق کا اندازہ تھا ۔ چنانچہ ۱۶ فروری ۱۹۴۷ءکو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کےجلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے ، پارلیمنٹ کے کردار اور نام نہاد پارلیمنٹ کی بالا دستی کا رد کرتے ہوئے پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ کس کی ہو گی___عوام یا پارلیمنٹ کی یا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی؟ اس پر واضح اور دوٹوک بات کہتے ہیں:
There is one very important question that will be asked. We say we want to live in our own way and in order to be able to do so we want to have a free and independent state. What is that way of life and what are the principles on which our state will be based?? Such a question for a Muslim has only one answer. The Ideal which Muslim has before him is and can be non-other than the ideal that was set before the world by Muhammad P.B.U.H of Arabia over 13 hundred years ago.The message that Muhammad P.B.U.H brought is still with us, preserved for the whole of humanity in greatest of all books the Qur’an. Every Muslim should live and die for God. God is the only King the only Sovereign.
According to Islam no one can wield authority in his own right as all authority is derived from God and can be exercised only on His behalf. Islam aims at building of a society in which all possibilities of exploitation of man by man will disappear, in with all distinction of birth, colour and geographic origin will be wiped away. (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).
ایک بہت اہم سوال ہے جو پوچھا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق رہنا چاہتے ہیں اوراس پر عمل درآمد کے لیے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی ضرورت ہے۔ وہ طرزِ زندگی کیا ہے اوروہ کیا اصول ہیں جن پر ہماری ریاست انحصار کرے گی؟ ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ ایک مسلمان کے سامنے وہ تصور ہے اور اس کے علاوہ کوئی تصور نہیں ہوسکتا جو دنیا کے سامنے تیرہ سو سال قبل عرب کے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا۔ وہ پیغام جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے، ہمارے پاس آج بھی موجود ہے اور پوری انسانیت کے لیے دُنیا کی عظیم ترین کتاب قرآنِ مجید کی شکل میں محفوظ ہے۔ ہرمسلمان کو اللہ کے لیے جینا اور مرنا چاہیے۔ اللہ ہی واحد شہنشاہ اور واحد بااختیار ہستی ہے۔
اسلام کے مطابق کوئی بھی شخص اپنے استحقاق کی بناپر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے اور صرف اسی کی مرضی کے مطابق ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کی غرض و غایت ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہے جس میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے تمام امکانات کا خاتمہ کردیا جائے گا اور پیدایش، رنگ اور علاقائی تمام امتیازات کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔
وہ پاکستانی دانش وَر جو اپنے آپ کو ’آزاد خیال‘ کہنا باعث فخر سمجھتے ہیں ۔کاش! کھلے ذہن کے ساتھ کبھی قائد اعظم اور ان کے رفقاء کارکے ارشادات کو پڑھ لیتے کہ کیا وہ اس مغربی جمہوریت کے پرستار تھے جس کی تبلیغ یہ دانش وَر کرتے ہیں یا ان کا تصور ان سے مختلف تھا؟ علمی دیانت (academic honesty)کا تقاضا ہے کہ جب کسی فرد سے کوئی بات منسوب کی جائے تو اس میں اپنی رائے کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود ایک صاحب ِقلم کو یہ آزادی رہتی ہے کہ وہ اس بیان سے اختلاف کرے اور اپنی رائے کو پیش کرے لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی رائے کو کسی دوسرے کے بیان میں پڑھ لے یا ایک بے بنیاد تصور اس سے منسوب کر دے۔ دُکھ کی بات ہے کہ قائد کے ساتھ یہی ظلم دانش وَری کے عنوان سے ایک طویل عرصے سے کیا جا رہا ہے اورقائد کی اپنی آواز کو دبا کر ہمارے ’دانش وَر‘ یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ قائد مغربی سیکولر ڈیموکریسی کے قائل تھے۔۶ مارچ ۱۹۴۰ء کو قائد اعظم علی گڑھ میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں :
Two years ago at Simla I said that the democratic parliamentary system of government was unsuited to India. I was condemned everywhere in the Congress press. I was told that I was guilty of disservice to Islam because Islam believes in democracy. So far as I have understood Islam, it does not advocate a democracy which would allow the majority of non-Muslims to decide the fate of the Muslims. We cannot accept a system of government in which the non-Muslims merely by numerical majority would rule and dominate us. The question was put to me, if I did not want democracy what then did I want___ Fascism, Nazism or totalitarianism?? I say, what have these votaries, these champions of democracy done?? They have kept sixty millions of people as untouchables:; they have set up a system which is nothing but a 'Grand Fascist Council'. Their dictator (Gandhi) is not even a four anna member of Congress. They set up dummy ministries which were not responsible to the legislatures or the electorate but to a caucus of Mr. Gandhi’s choosing. Then, generally speaking, democracy has different patterns even in different countries of the West. Therefore, naturally I have reached the conclusion that in India where conditions are entirely different from those of the Western countries,the British party system of government and the so - called democracy are absolutely unsuitable. (Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, ed. Khurshid Ahmed Khan Yusufi, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, Vol.II, p1159)
دو برس قبل میں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی طرزِ حکومت ہند کے لیے ناموزوں ہے۔ اس پر کانگرسی اخبارات نے ہرجگہ میرے لتے لینے شروع کر دیئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ میں اسلام کی بدخدمتی کا مجرم ہوں۔ کیونکہ اسلام جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔جہاں تک مَیں نے اسلام کو سمجھا ہے،یہ ایسی جمہوریت کی قطعاً وکالت نہیں کرتا جس میں غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کے مقدّر کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ ہم ایسے نظامِ حکومت کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض کثرتِ تعداد کی بناپر ہم پر حکومت کریں اور ہم پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ مجھ سے یہ سوال کیا گیا: اگرمیں جمہوریت نہیں چاہتا تو پھر میں کیاچاہتا ہوں؟___ فاشزم، نازی ازم یا آمریت! مَیں پوچھتا ہوں کہ جمہوریت کے اِن سورماؤں اورفدایوں نے کیا کیا ہے؟ انھوں نے ساٹھ ملین (چھے کروڑ) انسانوں کو اچھوت بنا رکھا ہے۔ انھوں نے جمہوریت کے لبادے میں جو نظام قائم کیا، وہ ایک ’گرانڈ فاشسٹ کونسل‘ کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا ڈکٹیٹر کانگرس کا چارآنے کا رُکن بھی نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیں بنارکھی ہیں جو نہ تو قانون ساز ادارے اور نہ ہی انتخاب کنندگان کے سامنے جواب دہ ہیں، بلکہ مشیرمطلق مسٹر گاندھی کے زیرفرمان ہیں۔ پھر میں یہ کہتا ہوں کہ مغرب کے مختلف ملکوں میں بھی جمہوریت کے مختلف سانچے ہیں۔ چنانچہ قدرتی طور پر مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہند میں، جہاں کے حالات مغربی ملکوں سے قطعی طور پرمختلف ہیں، برطانیہ کا پارٹی سسٹم نظامِ حکومت اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر ناموزوں ہے (پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور،۱۹۹۷ء، ص ۵۸-۵۹)۔
قائد اعظم کے ان واضح الفاظ کی تعبیر اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ مغربی سیکولر جمہوریت کے نظام کو سمجھنے اور اس کا ذاتی تجربہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ اندھی جمہوریت جو عقل و شعور کی جگہ صرف افراد کی گنتی اور شمار کی بنا پر کسی چیز کو جائز و ناجائز قرار دیتی ہے ، اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہے۔ جس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ اسلام میں اکثریت کی رائے کی اہمیت نہیں۔ اسلام تو وہ واحد دین ہے جو اولین انسان حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک فرد کے اختیار و آزادی کا علَم بردار اور مشاورت(شوریٰ)کے بغیر کوئی بھی معاملہ طے کرنا نہیں چاہتا ۔ اس کی روح ہی مشاورت میں ہے، آمریت میں نہیں۔ تاہم، یہ مشاورت انسان کو ، کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ عقل و شعور کے خلاف محض اکثریت رائے کی بنا پر یہ فیصلہ کر دے۔
قائد اعظم کو اس بات کا پورا شعور تھا کہ اگر غیر منقسم ملک میں مسلمان اس وقت ۱۰ فی صد ہیں اور ۵۰ سال میں ۲۵ فی صد بھی ہو جائیں جب بھی وہ یکساں طور پر بڑھتی ہوئی ہندو آبادی کے تناسب میں ابدی طور پر محکوم قوم بن کر رہیں گے ۔ہندستان میں آج مسلمانوں کی حالت زار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد کا تجزیہ کتنا صحیح تھا ۔ آج جو کچھ اہل کشمیر کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور ان کے دستوری اور جمہوری حقوق کو نام نہاد ’سیکولرزم‘ کی بنیاد پر پامال کیا جار ہا ہے ۔اس کا ایک نابینا بھی منکر نہیں ہو سکتا ۔ قائد اعظم کا اس نتیجے تک پہنچنا ان کی سیاسی فراست کا ایک ثبوت ہے کہ ایک نظریاتی ملت اور قوم ہونے کی بنا پر مسلمان ایک سیکولر جمہوریت میں اپنا تشخص اور بقا برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ اس لیے ایک نظریاتی مملکت کا وجود ہی ان کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا تھا۔
یہ بات محض قائد اعظم نہیں بلکہ ان کے فکری راہنما علامہ اقبال پر بھی واضح تھی ۔ قائداعظم کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں :
The Muslim has begun to feel that he has been going down and down during the last 200 years. Ordinarily he believes that his poverty is due to Hindu money- lending or capitalism. The perception that it is equally due to foreign rule has not yet fully come to him. But it is bound to come. The atheistic Socialism of Jawahrlal is not likely to receive much response from the Muslims. The Question therefore is :how is it possible to solve the problem of the Muslim poverty?? And the whole future of the League depends on the League’s activity to solve this question. If the League can give no such promises I am sure the Muslim masses will remain indifferent to it as before.
Happily there is a solution in the enforcement of the Law of Islam and its further development in the light of modern ideas. After a long and careful study of Islamic Law I have come to the conclusion that if this system of Law is properly understood and applied, at least the right to subsistence is secured to everybody.
But the enforcement and development of the Shariat of Islam is impossible in this country without a free state or states. This has been my honest conviction for many years and I still believe this to be only way to solve the problem of bread for Muslims as well as to secure a peaceful India. If such a thing is impossible in India the only other alternative is a civil war which as a matter of fact has been going on for some time in the shape of Hindu-Muslim riots. (Dr. G. H. Zulfiqar, ed, Pakistan, as Visualized by Iqbal Jinnah, Lahore, Bazm-i-Iqbal, n.d. p32)
مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دو صد سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری یا سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے، ابھی پوری طرح نہیں اُبھرا، لیکن آخر کو ایسا ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کرسکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگراس امر میں مسلم لیگ نے کوئی وعد ہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ میں اس کا حل ہے، اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں ترقی کا امکان ہے۔
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیےکم از کم حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یاریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہاسال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر ہند میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسری متبادل صورت صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے(پاکستان تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر غلام حسین ذوالفقار، بزمِ اقبال، لاہور، ص۳۴-۳۵)۔
نہ صرف علامہ اقبال بلکہ قائد اعظم جو بطور ایک اعلیٰ درجے کے قانون دان، اسلامی شریعت و قانون سے واقفیت رکھتے تھے ، اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ پاکستان میں اگر کوئی نظام ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام ہے جسے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً نافذ کرکے اس کی عملیت کو مستحکم فرما دیا ۔ چنانچہ ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی کی وکلا برادری (بارایسوسی ایشن ) کو خطاب کرتے ہوئے اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے شریعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ بھی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد کا بیان ہے ۔ جو کسی سیاسی دباؤ میں نہیں دیا گیا،بلکہ قائد اعظم کی سوچی سمجھی رائے اور موقف کو ظاہر کرتا ہے :
He further said that he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat. The Qa‘id-e-Azam said the "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago". No doubt there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct even in politics and economics and the like. It is based on the highest principle of honour, integrity, fair play and justice for all.
انھوں نے مزید فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جودانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص۴۰۲-۴۰۳)
قائد اعظم کے اس موقف اور تصور کا اظہار ایک نہیں سو سے زائد مواقع پر ان کے خطابات، بیانات ، اور انٹرویوز میں ہوا۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانش وَر اور آزاد خیال محققین کی نگاہ صرف اور صرف ایک تقریر پر اٹک کر رہ گئی ۔ جس میں وہ بات نہیں کہی گئی جو وہ اس بات میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے دسمبر۱۹۴۳ ء کے سیشن میں نواب بہادر یار جنگ کی تقریر پر قائد اعظم کا تاثر اور رد عمل ان کے موقف کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے ۔ نواب بہادر یار جنگ نے کہا:
Gentlemen achievement of Pakistan is not that difficult as to make it true Pakistan and sustain it. Your Quaid have on several occasions mentioned that Muslims cannot frame their constitution and law by themselves. This constitution in the form of the Quran is already in their hands. How well taken is this vision and decision of ours. No one can deny the fact that, we do not want Pakistan simply as a land where they became instruments of shaytan like in so many other places in the world today. If this is the objective of our Pakistan , at least I am not in favour of such Pakistan.
Who can deny the fact that we want Pakistan in order to establish Qurani nizam hukumat.
This will be a revolution. It will be a renaissance, a new life in which our cherished Islamic ideas and dreams shall become a reality and Islamic way of life shall be revived. If constitutional and political system proposed by the planning committee does not have its foundations in the Book of Allah and the sunnah of Rasool sallallahu alaihi wasallam,it will be a satanic political system, we seek Allah’s protection from such politics.
The Qua’id banged forcefully on the table and said “you are absolutely right".
حضرات! پاکستان کا حصول اس قدر مشکل نہیں ہے جتنا کہ اسے حقیقی پاکستان بنانا اور اس کو برقرار رکھنا۔ آپ کے قائد نے مختلف مواقع پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمان اپنے لیے دستور اور قانون کی تشکیل خود نہیں کرسکتے۔ یہ دستور قرآن کی شکل میں ان کے ہاتھوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ وژن اور فیصلہ کس خوبی سے لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہم پاکستان کو محض ایک ایسی سرزمین کے طور پر نہیں چاہتے جہاں ہم موجودہ دنیا کے بہت سے خطوں کی طرح شیطان کے آلۂ کار بن جائیں۔ اگر ہمارے پاکستان کا یہی مقصد ہے، تو کم از کم مَیں ایسے پاکستان کے حق میں نہیں ہوں۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ قرآنی نظامِ حکومت قائم کرسکیں۔ یہ ایک انقلاب ہوگا۔ یہ ایک نشاتِ ثانیہ ہوگی، ایک نئی زندگی جس میں ہمارے انتہائی عزیز اسلامی تصورات اور خواب حقیقت میں ڈھل سکیں گے اور اسلامی طرزِ زندگی کا احیا ہوسکے گا۔ اگر منصوبہ بندی کمیٹی کے تجویز کردہ دستوری اور سیاسی نظام کی بنیادیں اللہ کی کتاب اور سنت ِ رسولؐ پر مبنی نہیں ہیں تو یہ ایک شیطانی سیاسی نظام ہوگا۔ ہم ایسی سیاست سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
قائداعظم نے اس پر اپنی میز کو بہت زورسے بجایا اور کہا: ’’آپ بالکل حق بجانب ہیں‘‘ (تصورِ پاکستان بانیانِ پاکستان کی نظر میں، شریعہ اکیڈمی، اسلام آباد، ۲۰۱۳ء، ص ۸۲-۸۳)۔
نہ صرف نواب بہادر یار جنگ بلکہ قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد پیش کرتے وقت دستور ساز اسمبلی میں جو خطاب کیا وہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام پر ریاست کے سوچے سمجھے موقف کو واضح کر دیتا ہے اور اس کے لیے کسی پہاڑ کو کھود کر حقائق تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک غیر جانب دار ذہن اور قلب کی ضرورت ہے ۔اور صرف وہ شخص جو یہ غیر جانبدار ذہن اور قلب رکھتا ہواپنے آپ کو طالب ِدانش کہہ سکتا ہے ۔ ہم اصولِ تحقیق کے خلاف قائد ملت کا یہ طویل اقتباس دینے پر مجبور ہیں کیوں کہ اس کا پورا متن مطالعہ کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی ۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے خطاب کا آغاز یوں کیا:
"Sir, I consider this to be a most important occasion in the life of this country, next in importance only to the achievement of independence, because by achieving independence we only won an opportunity of building up a country and its polity in accordance with our ideals. I would like to remind the House that the Father of the Nation, Quaid-e-Azam, gave expression to his feelings on this matter on many an occasion, and his views were endorsed by the nation in unmistakable terms.Pakistan was founded because they wanted to demonstrate to the world that Islam provides a panacea to the many diseases which have crept in to the life of humanity today...."
"We, as Pakistanis, are not ashamed of the fact that we are overwhelmingly Muslims and we believe that it is by adhering to our faith and ideals that we can make a genuine contribution to the welfare of the world. Therefore, Sir, you would notice that the Preamble of the Resolution deals with frank and unequivocal recognition of the fact that all authority must be subservient to God. It is quite true that this is in direct contradiction to the Machiavellian ideas regarding a polity where spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people and, therefore, it is also perhaps a little out of fashion to remind ourselves of the fact that the State should be an instrument of beneficence and not of evil.But we, the people of Pakistan, have the courage to believe firmly that all authority should be exercised in accordance with the standards laid down by Islam so that it may not be misused...."
"Sir, I just now said that the people are the real recipients of power. This naturally eliminates any danger of the establishment of a theocracy.It is true that in its literal sense, theocracy means the Government of God;; in this sense, however, it is patent that the entire universe is a theocracy, for is there any corner in the entire creation where His authority does not exist? But in the technical sense, theocracy has come to mean a Government by ordained priests, who wield authority as being specially appointed by those who claim to derive their rights from their sacerdotal position.I cannot over emphasise the fact that such an idea is absolutely foreign to Islam. Islam does not recognise either priesthood• or any sacerdotal authority; ; and, therefore, the question of a theocracy simply does not arise in Islam.If there are any who still use the word theocracy in the same breath as the polity of Pakistan, they are either labouring under a grave misapprehension, or indulging in mischievous propaganda.
You would notice, Sir, that the Objectives Resolution lays emphasis on the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, and further defines them by saying that these principles should be observed in the constitution as they have been enunciated by Islam. It has been necessary to qualify these terms because they are generally used in a loose sense…”
“When we use the word democracy in the Islamic sense, It pervades all aspects of our life;; it relates to our system of Government and to our society with equal validity,; because one of the greatest contributions of Islam has been the idea of the equality of all men. Islam recognises no distinctions based upon race, colour or birth".
"In the matter of social justice as well, Sir, I would point out that Islam has a distinct contribution to make Islam envisages a society in which social justice means neither charity nor regimentation. Islamic social justice is based upon fundamental laws and concepts which guarantee to man a life free from want and rich in freedom. It is for this reason that the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice have been further defined by giving to them a meaning which, in our view, is deeper and wider than the usual connotation of these words".
"The next clause of the Resolution lays down that Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunna. It is quite obvious that no non-Muslim should have any objection if the Muslims are enabled to order their lives in accordance with the dictates of their religion".
"You would also notice, Sir, that the State is not to play the part of a neutral observer, wherein the Muslims may be merely free to profess and practice their religion, because such an attitude on the part of the State would be the very negation of the ideals which prompted the demand of Pakistan, and it is these ideals which should be the corner-stone of the State which we want to build. The State will create such conditions as are conductive to the building up of a truly Islamic society, which means that the State will have to play a positive part in this effort. You would remember, Sir, that the Quaid-e-Azam and other leaders of the Muslim League always made unequivocal declarations that the Muslim demand for Pakistan was based upon the fact that the Muslims have a way of life and a code of conduct. They also reiterated the fact that Islam is not merely a relationship between the individual and his God, which should not, in any way, affect the working of the State. Indeed, Islam lays down specific directions for social behaviour, and seeks to guide society in its attitude towards the problems which confront it from day to day. Islam is not just a matter of private beliefs and conduct. It expects its followers to build up a society for the purpose of good life ___ as the Greeks would have called it, with this difference, that Islamic "good life" is essentially based upon spiritual values. For the purpose of emphasising these values and to give them validity, it will be necessary for the State to direct and guide the activities of the Muslims in such a manner as to bring about a new social order based upon the essential principles of Islam, including the principles of' democracy, freedom, tolerance and social justice. These I mention merely by way of illustration;; because they do not exhaust the teachings of Islam as embodied in the Quran and the Sunna. There can be no Muslim who does not believe that the word of God and the life of the Prophet are the basic sources of his inspiration. In these, there is no difference of opinion amongst the Muslims and there is no sect in Islam which does not believe in their validity".
"Therefore, there should be no misconception in the mind of any sect which may be in a minority in Pakistan about the intentions of the State. The State will seek to create an Islamic society free from dissensions, but this does not mean that it would curb the freedom of any section of the Muslims in the matter of their beliefs. No sect, whether the majority or a minority, will be permitted to dictate to the others and, in their own internal matters and sectional beliefs, all sects shall be given the fullest possible latitude and freedom. Actually we hope that the various sects will act in accordance with desire of the Prophet who said that the differences of opinion amongst his followers is a blessing. It is for us to make our differences a source of strength to Islam and Pakistan, not to exploit them for narrow interests which will weaken both Pakistan and Islam. Differences of opinion very often lead to cogent thinking and progress, but this happens only when they are not permitted to obscure our vision of the real goal, which is the service of Islam and the furtherance of its objects. It is, therefore, clear that this clause seeks to give the Muslims the opportunity that they have been seeking, throughout these long decades of decadence and subjection, of finding freedom to set up a polity, which may prove to be a laboratory for the purpose of demonstrating to the world that Islam is not only a progressive force in the world, but it also provides remedies for many of the ills from which humanity has been suffering".
"In our desire to build up an Islamic society we have not ignored the rights of the non-Muslims. Indeed, it would have been un-Islamic to do so, and we would have been guilty of transgressing the dictates of our religion if we had tried to impinge upon the freedom of the minorities. In no way will they be hindered from professing or protecting their religion or developing their cultures. The history of the development of Islamic culture itself shows that cultures of minorities, who lived under the protection of Muslim States and Empires, contributed to the richness of the heritage which the Muslims built up for themselves. I assure the minorities that we are fully conscious of the fact that if the minorities are able to make a contribution to the sum total of human knowledge and thought, it will rebound to the credit of Pakistan and will enrich the life of the nation. Therefore, the minorities may look forward, not only to a period of the fullest freedom, but also to an understanding and appreciation on the part of the majority which has always been such a marked characteristic of Muslims throughout history". (M. Rafiq Afzal, Speeches, Statements of Quaid-e-Millat Liaqat Ali Khan, 1941-1951, Lahore, Research Society of Pakistan, University of the Punjab, 1987, p58-59).
’’جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم (unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔
پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے‘‘....
’’ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔
جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذاتِ الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی فلسفی میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ: نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔
اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے‘‘....
’’میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی کا شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے‘‘۔
’’جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قراردادِ مقاصد میں جمہوریت، حُریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں‘‘....
’’جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا‘‘۔
’’جہاں تک سماجی عدل (Social Justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں‘‘۔
’’قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
’’جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔
جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطۂ اخلاق‘ موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبارمیں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔
ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام قائم ہوجائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حُریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبویؐ پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو‘‘۔
’’لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس [فطری] اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسااوقات اختلافات رائے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب رائے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے‘‘۔
’’ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے‘‘۔(اردو ترجمہ: س م خ)
اس طویل اقتباس کو پیش کر نے کا مقصد یہ بات واضح کر دینا ہے کہ نہ صرف علامہ اقبال ، قائد اعظم،علامہ اسد بلکہ ان کے قریبی رفقابہ شمول نواب بہادر یار جنگ، لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر، خواجہ ناظم الدین ، ان میں سے ہر ایک اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریہ کا سبب کسی فرقہ یا گروہ کا دباؤ نہیں تھا۔ اگر یہ بے بنیاد ڈر اور خوف تسلیم کر لیا جائے تو قائد اعظم کی پوری سیرت اور کردار ہمارے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ ان کا موقف آغاز سے انجام تک ایک تھا ۔ اس میں کہیں نہ تضاد ہے، نہ مفاہمت اور کمزوری۔ بلکہ اعتماد اور مطالعہ کی بنا پر ان کا موقف یہی رہا کہ پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے ، علاقائیت ، نسلیت، لسانیت نہیں ہے اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی حیثیت سے ایک عالمی کردار ادا کرنا ہے۔(جاری)