آذربائیجان کی فوجیں ۱۷نومبر ۲۰۲۰ء کو جب نگورنوقاراباغ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اس کی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس صندوق کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر ہرایسی کوشش کو ناکام بنا دیتی تھی۔ شوشا شہر کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراس نے پورے خاندان کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی تھی، جہاں سے اس کو ۱۹۹۲ء میں آرمینیائی قبضے کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔
ترکی کے شہر انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں ہجرت کی زندگی بسر کرنے والے ایسے ہزاروں مہاجر خاندان اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا طے پایا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پر پھیلی اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ گذشتہ سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ گذشتہ ۲۷ برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کے نوافل پڑھے۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مسجدیں جانوروں کے باڑوں یا موٹر گاڑی گیراج کا کام دے رہی تھیں۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ۲لاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔
جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے پایا ہے، اس کے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور ۲۸۶دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج کے انخلا کے بعد آذر بائیجان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ قاراباغ علاقے سے ۱۹۹۰ء میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائے گا اور ترک افواج ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ، یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے۔ اس سے ترکی کو براہِ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ’بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ‘ کا حصہ بن جائے گا۔ اس راستے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں آذر بائیجان تک پہنچنے کے لیے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ لنچن علاقے کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے، مگر آرمینیا کو قاراباغ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کے لیے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کریں گی۔
بلاشبہہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباؤ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد ۱۰کلومیٹر دور دارلحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اس میں بڑی طاقتوں کی طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔
کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو جوں کی توں صورتِ حال (اسٹیٹس کو) بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ ۱۹۹۴ء سے قاراباغ پر بھی اقوام متحدہ نے چاربار قرار دادیں منظور کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی، مگر طاقت کے زعم کے ساتھ روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے آرمینیا نے ان قراردادوں پر کوئی کان نہ دھرا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کرواکے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کردی۔ جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں، یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں نام نہاد ریفرنڈم کروایا، اور قاراباغ کا الحاق آرمینیا سے کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، بین الاقوامی برادری نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق ۱۹۹۰ء سے مذاکرات اور بین الاقوامی برادری کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کررہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور قاراباغ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کے لیے آمادہ ہے، مگر آرمینیا ہمیشہ اس پیش کش کو ٹھکراتا آیا ہے۔
اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آرمینیا کو بالائی قاراباغ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ تزویراتی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ یہ اونچائی پر واقع ہے، اور اس کو حاصل کرنے کے لیے آذری افواج کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ یہاں آرمینیائیوں کا آپوسٹولک چرچ بھی واقع ہے۔
شمالی قفقاز ( North Caucasus) میں نگورنو قاراباغ کو ۱۹۲۳ء میں آذربائیجان کا علاقہ بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے آخری زمانے اور پھر تحلیل و انہدام کے بعد سے اس علاقے کے کنٹرول کے سوال پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۴ءتک چھے سال طویل جنگ ہوئی، جس میں ۳۰ہزار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ لاکھوں افراد کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ اس وسیع پیمانے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے روس نے ثالث کا کردار ادا کیا ، لیکن کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوںآذریوں کو ہجرت کرنا پڑی، جس کے نتیجے میں یہاں آرمینیائی باشندوں کی اکثریت ہوگئی، جب کہ حکومت بھی آرمینیا کی حمایت یافتہ بن گئی۔
۲۰۱۶ءمیں بھی اس علاقے میں پانچ روز تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور پھر روس کی مداخلت کی وجہ سے جنگ پھر رک گئی۔ مگر حال ہی میں اختتام پذیر جنگ ۹۰ء کے عشرے کے بعد چھڑنے والی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس میں خاص بات آذر بائیجان کو ترکی کی حمایت کا حاصل ہونا اور ڈرون طیاروں کا حصول، جس نے آرمینیا کی فضائی قوت کو تباہ کردیا۔ مزید یہ کہ آرمینیا کے اتحادیوں روس اور ایران کا اس دورا ن غیر جانب دار رہنا بھی آذربائیجان کے حق میں گیا۔ تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ ’’آرمینیا کی سرحدوں کے اندر کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا‘‘۔ آذربائیجان نے اسی لیے جنگ کو قاراباغ تک ہی محدود رکھا ۔ آرمینیا نے اگرچہ آذر بائیجان کے شہری علاقوں پر راکٹوں کی بارش کی، مگر روس کی مداخلت کے خوف سے آذر بائیجان نے ان کا جواب نہیں دیا،اور فوج کشی قاراباغ تک ہی محدود رکھی۔
معاہدے کی رُو سے جو علاقے اب آرمینیا خالی کر رہا ہے ، اس کی فوج اور لوگ مکانات، سرکاری عمارات اور جنگلاتی اراضی کو نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور روسی نیوز سائٹ سے نشر ہونے والے ویڈیو مناظر میں کیل بیجیر کے مختلف علاقوں میں مقیم آرمینیوں کو نکلنے سے پہلے عمارتوں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر ۲۷سال قبل آذریوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر انھیں آگ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ صرف گھروں کو نہیں اسکولوں اور درختوں تک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ قارا باغ کے شمال مغربی علاقے کیل بیجیر پر ۱۹۹۳ء کو آرمینیا نے جب قبضہ کیا تھا تو اس علاقے میں مقیم تقریباً ۶۰ہزار آذری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو طے پانے والے سمجھوتے کی رُو سے آرمینی فوج کو ۱۵ نومبر تک کیل بیجیر کو خالی کرنا تھا۔
آذربائیجان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں ازخود آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ اس مناسبت سے زرتشت اس کو ایک مقدس جگہ مانتے تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق اَزخود بھڑک اٹھنے والی آگ کا موجب علاقے میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ بحرگیلان یا بحرکیسپین سی کے کنارے آباد اس علاقے میں ہمہ وقت چلنے والی تیز ہوائیں بھی ا س آگ کو بھڑکاتی رہتی ہیں۔
عالمی جریدے کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جو یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اس تیل اور گیس کو یورپ پہنچانے کے لیے دوراستے ہیں، ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی قفقاز یا کاکیشیائی ریاستوں سے ہوکر ترکی سے گزرتا ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔گو کہ قاراباغ کا پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل کی پیداوار نہیں کرتا، مگر اس کے کیل بیجیر ، لاچن، زنگی لان اور تار تار اضلاع میں سونے، چاندی، پارے، تانبے، جست اور کوئلہ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
اس جنگ سے ایک بات تو طے ہے کہ شرق اوسط کے بعد قفقاز میں بھی ترکی کا قد خاصا بلند ہوا ہے۔ ایک طرح سے اس کا سفارتی اور عسکری رتبہ روس کے ہم پلہ ہوگیا ہے۔آذر بائیجان ، آرمینیا کی یہ جنگ شاید نئے ورلڈ آرڈر کی نوید ہے، جس میں ترکی، روس اور چین ایک اہم رول ادا کرنے والے ہیں۔جنگی برتری حاصل کرنے بعد ترکی اور آذر بائیجا ن کے لیے بھی لازم ہے کہ آرمینیا کی اشک شوئی کرکے اس کو بھی اتحاد میں شامل کرکے اقتصادی طور پر اس کی مدد کرکے اسے مغربی ممالک کا کھلونا نہ بننے دیںاور مفتوحہ علاقوں میں آرمینیائی مذہبی علامتوں کی حفاظت کی جائے۔ شاید اسی لیے ترکی کی ایما پر آذربائیجان کی افواج نے اسٹیپن کرت پر فوج کشی نہ کرکے مفاہمانہ پالیسی کی گنجایش رکھ دی ہے۔