ایامِ اسیری کے دوران ایک فلسطینی دوست نے مجھے اپنے خط میں سیّد قطب شہیدؒ کے اس قول کا حوالہ دیا کہ’’تم مجھے قید رکھتے ہوتو مجھے تنہائی کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔ تم مجھے ستاتے ہو تو مجھے محبوب کی خاطر اذیت اُٹھانے کا لطف ملتا ہے۔ تم مجھےقتل کرتے ہو تو مجھے شہات کا بلند مرتبہ ملتا ہے۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑسکتے‘‘۔
تاندہ ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ سے ۱۰کلومیٹر دُور ایک پہاڑی چٹان پر بنا ہوا ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کو میرے لیے سب جیل قرار دیاگیا تھا۔ صرف میری ایک نحیف جان کی نگرانی کے لیے ایف سی، پولیس، جیل عملے اور اسپیشل پولیس،ایف بی آئی وغیرہ کے عملے کو ملا کر تقریباً ۶۰؍افراد تعینات کیے گئے تھے۔ ریسٹ ہاؤس میں چھوٹی سی مسجد تھی۔ میں اس میں نمازِ باجماعت پڑھاتا تھا۔ نگران عملے کے افراد میرے مقتدی تھے۔ ہرنماز کے بعد قرآن کی کسی ایک آیت یا حدیث سے تذکیربھی کرتا تھا۔ ملاقاتوں پر پابندی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کا ٹیلی فون بھی منقطع کر دیا گیا تھا اور موبائل ٹیلی فون بھی مجھ سے لے لیا گیا تھا۔ تاہم، ریڈیو ٹرانزسسٹر اوراخبار کی اجازت تھی۔
حکومت نے مجھے تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن الحمدللہ یہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ دین اور اہلِ دین کی ہرجگہ قدر کی جاتی ہے۔ مجھے تنہائی کا احساس تو نہیں ہوا، البتہ فرصت کے کچھ لمحات میسر آئے اور میں نے شاید زندگی میں پہلی بار تقریر کی بجائے تحریر کو لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔
فرصت کے یہ لمحات بہت محدود ثابت ہوئے۔ جلد ہی مجھے ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ہردس منٹ بعد ہسپتال کے عملے کا کوئی شخص اندر آجاتا تھا۔ پولیس کے عملے کے آٹھ دس بندوق بردار افراد دروازے کے عین سامنے مستعد کھڑے رہتے، جو ہسپتال کے عملے اور اہلِ خانہ کے لیے مستقل اذیت کا باعث بنے ہوئے تھے۔ ملاقات کے لیے آنے والوں کے ساتھ حفاظتی عملے کی روزانہ کسی نہ کسی وقت گرما گرمی ہوجاتی تھی۔ اس ماحول میں سوچنے اور لکھنے کا عمل جاری نہ رہ سکا۔
پونے چار ماہ کی اسیری (۴نومبر ۲۰۰۱ء تا ۲۷فروری ۲۰۰۲ء) میں تقریباً نصف عرصہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور اور ڈاکٹرز ہسپتال لاہور میں گزرا، جب کہ باقی ماندہ وقت تاندہ ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ اورفاٹا ریسٹ ہاؤس پشاور میں گزرا۔
مجھے کیوں قید کیا گیا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کے کہنے پر یا امریکا کو خوش کرنے کے لیے۔ لیکن پاکستان میں متعین ایک امریکی سفارت کار نے اس خیال کو لغو قرار دیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر سے ٹیلی فون پر ذرا تلخی ہوگئی تھی لیکن شاید معین الدین حیدر میری گرفتاری کا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کرسکتے تھے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے قومی سطح کے سیاست دانوں کے ساتھ مجھے بھی دعوت دی۔ ہماری موجودگی میں انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان بننے کے بعد ملک کو اتنے شدید بحران کا سامنا کبھی نہیں ہوا جتنا آج ہے۔ پھر انھوں نے امریکی فوجی اتحاد میں شامل ہونے اور افغانستان میں طالبان حکومت کے مقابلے میں امریکا کو لاجسٹک سپورٹ [زمینی راستہ] دینے اور انھیں اپنی فضا دینے کے فیصلے کا ذکر کیا۔ اس پر میں نے گزارش کی کہ ’’اگر ملک اتنے شدید بحران سے دوچارہے کہ بقول آپ کے پاکستان کو آزادی کے بعد سے لے کر اب تک اتنے شدید بحران کا پہلے سامنا نہیں کرنا پڑا تو آپ نے یہ سارا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں اُٹھا رکھا ہے۔شدید بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آئین کو بحال کردیں، قومی اتفاق رائے کی عبوری سویلین حکومت بنا دیں، فوج کو اپنے کام کے لیے فارغ کر دیں اور آزاد الیکشن کمیشن کے تحت جو مکمل طورپر خودمختار ہو، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروا دیں تاکہ پوری قوم بحران کا مقابلہ کرنے میں شریک ہوسکے‘‘۔ پرویز مشرف صاحب کو میری یہ تجویز پسند نہیں آئی۔ اسی طرح میں نے جلسہ ہائے عام میں بھی یہی بات کہی اور شدید عالمی بحران کے موقع پر قوم کی تقدیر کو فردِ واحد کے ہاتھ میں دینے کو قومی بقا اور سالمیت کے لیے خطرناک قراردیا۔
پرویز مشرف صاحب نے پلٹ کر میرے اُوپر الزام لگا دیا کہ میں فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ حالانکہ جماعت اسلامی نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی فوج کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ ہم نے فوج کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے اور فوج کو سیاست میں اُلجھانے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ فوج جب سیاسی میدان میں آتی ہے، تو اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے، کیونکہ فوج کے تمام ارکان کو ایک سیاسی فکر پر جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے فوج کو سیاست سے دُور رکھنا ہرمحب ِ وطن فرد اور حکومت کا فرض ہے۔
فوج کے تمام ارکان فوج میں داخل ہوتے وقت دستورِ پاکستان میں درج جو حلف لینے کے پابند ہیں، اس کے مطابق وہ دستور کی حمایت کرنے اورسیاست میں حصہ نہ لینے کا عہد کرتے ہیں۔ دستور کو نقصان پہنچانا ، اسے معطل کرنا اور اسے منسوخ کرنا، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۶ کے تحت غداری اور بغاوت کے دائرے میں آتا ہے۔ ہم نے یہ بات قانون اوردستور کی دفعات کی روشنی میں دلائل کے ساتھ پریس اور عوام کے سامنے رکھی کہ ’’پرویز مشرف صاحب کی مداخلت بھی غیرآئینی ہے اور ان کا اَزخود صدر بننا بھی غیرآئینی ہے‘‘۔ یہی بات سابق چیف جسٹس سجادعلی شاہ نے بھی فرمائی ہے۔
ہم جب عوام کے بڑے اجتماعات میں دستور کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو حکمرانوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ہر محب ِ وطن پاکستانی کی دلی خواہش ہے کہ ملک کو جمہوری اسلامی پٹڑی پر لایا جائے۔ یہ خواہش اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ہر پاکستانی دامے، درمے، قدمے، سخنے، اس کوشش میں شامل ہوجائے جو یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہم کررہے ہیں۔ اس بڑے مقصد کی خاطر قیدوبند کی آزمایش سے گزرنا کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ لوگ یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں جو اس بڑے مقصد کی خاطر قربانی دے رہے ہیں۔ ان کے برعکس جو لوگ اپنی ذاتی خواہشات اوراغراض کی خاطر اس راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں وہ قومی مجرم ہیں۔ تاریخ اس طرح کے مجرموں کے لیے عبرت کی داستان ہے۔[۹؍اپریل ۲۰۰۲ء]