اُردو زبان میں سیرتِ پاکؐ پر بہت قیمتی کتب لکھی گئی ہیں، لیکن کاروانِ نبوت اپنی ترتیب، اسلوب اور پیش کش کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ اس کتابی سلسلے کی بارھویں کڑی ہے، جس میں صلح حدیبیہ، غزوئہ تبوک، ہمسایہ سلاطین کے نام خطوط، غزوئہ خیبر، عمرئہ قضا، معرکۂ موتہ اور فتح مکہ کی تفصیلات پر ابواب کے ساتھ قریشِ مکہ اور یہود کی مخالفت کے اجمالی جائزے پر دو معلوماتی اور فکرانگیز ابواب بھی کتاب میں شامل ہیں۔
سیرتِ رسولؐ کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے متعدد بصیرت افروز نکات بیان کیے ہیں۔ اسی طرح جہاں عہد ِ نبوی میں جاہلیت سے کش مکش کا ذکر ہے، وہاں عصرحاضر کی جہالتوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ کتاب کا طرزِ بیان عام فہم ہے۔ عبارت کی سلاست اسے قاری کے لیے دل چسپ بناتی ہے اور کتاب کا مطالعہ قاری کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ کتاب کی ٹائپ کاری اور مطالعے کے مرکزی نکات کو نمایاں کرنے کا انداز، انفرادیت کا حامل ہے۔ (ادارہ)
جناب حافظ محمدادریس ایک عالم، مترجم، خطیب اور منفرد ادیب ہیں۔ وہ بہ یک وقت اسلامی تاریخ، قومی و ملّی اُمور، افسانہ اور وفیات پر دلی لگن کے ساتھ لکھتے ہیں۔ عزیمت کےراہی سلسلے میں یہ ان کی آٹھویں کتاب ہے۔ اس سلسلے میں وہ عصرحاضر کے اُن رفقائے تحریک اسلامی کے احوال، واقعات اور یادداشتوں کو مرتب کرتے ہیں، جو اس دُنیا میں اپنا رول ادا کرکے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔
زیرنظر مجموعہ، تحریک اسلامی کی مرکزی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ جن میں چودھری غلام محمد، سیّد منور حسن، عبدالغفار عزیز، حاجی عبدالوہاب (امیر تبلیغی جماعت)، شیخ ظہوراحمد، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی، ڈاکٹر سیّد وسیم اختر، ڈاکٹر محمد مرسی شہید، جسٹس فدا محمد خاں، حفیظ الرحمٰن احسن، نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ، مسعود احمد خاں وغیرہ سمیت ۲۷ سعادت مند زندگیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
یہ کتابی سلسلہ، دعوت و عزیمت کے چراغ روشن کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو احباب میں مطالعے کی زبوں حالی کا حوالہ دیکھ کر دل رنجیدہ ہوا، کہ صرف چھے سو کی تعداد میں کتاب شائع ہوئی ہے، کیا یہ بات خود باقی زندہ رہ جانے والوں کے لیے ایک تازیانہ نہیں؟ (ادارہ)
حکیم محمد یوسف حضروی (۱۸۵۵ء۔۱۹۵۹ء )حضرو (ضلع اٹک) ایک ماہر طبیب کے علاوہ بہت اچھے پختہ قلم ادیب بھی تھے۔ تقریباً دس کتابوں کے مصنف تھے۔ سیرِ سوات ان کی ’’ایک ماہ [جون ۱۹۴۴ء]کی سیاحت ِ سوات کا خوش نماآئینہ ہے۔ اس آئینے میں حکیم صاحب کے احوالِ سفر کی رنگا رنگ تصویریں ،ان کے مشاہدے کی دل پذیر جھلکیاں ہیں‘‘۔(ص ۳۱)
حکیم صاحب کا اسلوبِ نگارش دیکھیے: ’’ان [پہاڑوں]کی آغوش میں ملک کے اندرونی حصے ہر طرف تختہ ہائے گلاب، گلِ مہتاب، گلِ لالہ ویاسمین کے شاداب اور رنگین ندیم عشرت پھولوں کے ایسے چمن کھلے ہوئے ہیں، جن پر انسانی نگاہ فردوس ارضی کا دھوکا کھاتی اور شب کو چاند اور تاروں کی لطیف روشنی مسکراتی ہے۔ صبح کے دھند لکے میں نسیم خوش گوار کا ایک ہلکا سا جھونکا ان پھولوں کو چھیڑ کر مسکرانے پر آمادہ کرتا ہے، کلیاں بنتی ہیں اور خوشبو سے تمام فضا معطر ہو جاتی ہے‘‘۔(ص۵۳)
ڈاکٹر ناشاد نے ۳۰صفحات پر مشتمل سیرحاصل مقدمے میں حکیم صاحب کے حالاتِ زندگی کے ساتھ، ان کے آباواجداد کے اَحوال ،تصانیف اور مہارتِ طب پر روشنی ڈالی ہے۔ متن کی صحت کے ساتھ مختصر حواشی اور اشاریے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ترجمان کی گذشتہ اشاعتوں (فروری ۲۰۱۴ء، اپریل ۲۰۱۵ء، اپریل ۲۰۱۶ء) میں ہم نے انجینئر مختار فاروقی مرحوم کی تصانیف اور رسالے پر تعارف و تبصرہ شائع کیا تھا۔ مختار صاحب ۱۳ستمبر ۲۰۲۱ء کو اپنے ربّ سے جاملے۔ ان کی وفات پر درجنوں اہلِ قلم نے مرحوم کی شخصیت، علم و فضل اور تصنیفی و تالیفی کارناموں پر قلم اُٹھایا اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین مرحوم سے لکھنے والوں کی ملاقاتوں، گفتگوئوں اور باتوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اوریا مقبول جان کہتے ہیں: ’’میں ان کے رسالے کا مدتوں مستقل قاری رہا۔ وہ بہت نیک اورسادہ انسان تھے۔ جب بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ان کے اندر سے علم آرہا ہے اورعلم بھی دین کا علم‘‘ (ص ۲۲۳)۔
کسی معاشرے میں مختارفاروقی جیسے لوگوں کا وجود اور دین کے لیے ان کی کاوشیں اس معاشرے پر ربِّ کریم کی عنایات کے مترادف ہے۔ آخر میں بہت سے اہلِ علم کے تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)