جنوری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

تعلیم و تربیت اور جہادکا وسیع تصور

قاضی حسین احمد | جنوری ۲۰۰۲ | دعوت وتحریک

Responsive image Responsive image

انسان کی طبعی کمزوریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا ہے۔ یہ طبعاً حریص ہے اور بخیل ہے۔ خواہشات نفس اور ترغیبات نفسانی کی طرف کھچ جاتا ہے اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔انسان جلد باز ہے۔ دور کے فائدے کی بجائے نظر آنے والے فوری فائدے اور نفع کی طرف لپکتا ہے۔ اجتماعی اورملّی فائدے کے بجائے ذاتی فائدے کو وقعت دیتا ہے۔

وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط (النساء ۴:۱۲۸) نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں۔

اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً o (الاحزاب ۳۳:۷۲) بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o (المعارج ۷۰:۱۹-۲۱) انسان تُھڑدلا پیدا کیا گیا ہے‘ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔

خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیاء ۲۱:۳۷) انسان جلد باز مخلوق ہے۔

کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰) ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے ‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں انسان کے اس طبعی بخل اور مال کے حرص کا ذکر کیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کا علاج کرنے کے لیے انسان کو دنیا و مافیہا سے ماورا بلند مقاصد اور ذاتی کی بجائے اجتماعی مقاصدکی طرف ترغیب دلائی ہے۔

ترغیبات نفسانی میں مال کی حرص ‘ جنسی حرص اور اقتدار کی حرص بنیادی ترغیبات ہیں۔ قرآن دنیا کی زندگی کو زینت‘ ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے تعبیر کیا ہے:

اِعْلَمُوْآ اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ م بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ ط(الحدید ۵۷:۲۰) خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔

قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کمزوریوں کی نشان دہی کے ساتھ ان کے مضر اثرات سے بچنے اور ان طبعی میلانات کو مثبت اور بلند مقاصد کے حصول کی طرف موڑنے کا عملی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس کے برعکس مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب نے انسان کے اس طبعی حرص اور بخل اور زینت و تفاخر اور تکاثر اور ترغیبات و خواہشات نفس کو مہمیز لگا کر انسان کو ان کی خاطر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مادی سہولتوں کے حصول کی خاطر محنت کرنے کا عادی بنایا ہے۔ چنانچہ ان کا مشہور مقولہ ہے: Work like donkey and eat like king.گدھے کی طرح محنت کرو اور بادشاہ کی طرح کھائو۔

بعض لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام چونکہ ترغیبات و تحریصات کو مہمیز لگا کر زیادہ محنت پر آمادہ کرکے جسمانی اور ذہنی قویٰ کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسلامی تعلیمات قناعت اور زہد اختیار کرنے کی تلقین پر مشتمل ہیں‘ اس لیے مادی طور پر مغرب نے ترقی کی ہے اور مسلمان پس ماندہ رہ گئے ہیں۔

اسلامی معاشیات پر کام کرنے والے مسلمان معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیں اور ان بنیادی معاشی ترغیبات کی نشان دہی کریں جن کی بنا پرمسلمان زیادہ مفید پیداواری محنت پر آمادہ ہو سکیں۔ معاشی ترقی قوت ہے اور قوت کے بغیر مسلمانوں کی موجودہ پستی دُور نہیں ہو سکتی۔ حقیقی آزادی کے لیے معاشی احتیاج سے نکلنا لازمی ہے۔ آزادی اور احتیاج ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قومی خود مختاری (sovereignty)کے لیے معاشی خود کفالت حاصل کرنا لازم ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مقابلے کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے (الانفال ۸: ۶۰)یہ ہدایت بنیادی طور پر جنگی قوت سے متعلق ہے لیکن آج کے دور میں جنگی قوت علمی اور معاشی قوت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی قوت‘ علمی قوت اور معاشی قوت ایک مضبوط دفاعی قوت کے لیے لازم ہیں۔ اسی آیت کے دوسرے حصے میں اس تیاری کے حکم کے معاً بعد اس ارشاد : وَمَا  تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔ الانفال ۸: ۶۰) میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جہاد کی اس تیاری کے لیے انفاق ضروری ہے اور انفاق مالی استعانت اور معاشی قوت پیدا کیے بغیر محال ہے۔ مقابلے کی کم از کم قوت کے لیے مقابلے کے عسکری اور مالی دونوں ہی وسائل  دین اور اہل دین کی ضرورت ہیں۔

اگر مسلمان مرد ‘ عورتیں اور نوجوان نسل اس بنیادی جذبے سے سرشار ہو جائیں کہ انھوں نے دنیا میں عدل و انصاف کی سربلندی‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے قوت حاصل کرنی ہے تو وہ ذاتی حرص اور ترغیبات نفسانی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ ان کے ذاتی تقویٰ‘ قناعت اور زہد و ورع میں بھی کمی نہیں آئے گی اور وہ علمی اور معاشی میدان میں بلند تر مقصد کے لیے مادہ پرستوں سے آگے بڑھ کر زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت میں جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کو اس وسیع تر مفہوم میں سمجھنے سمجھانے اور اسے اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ آپؐ نے جاہلی جذبات کو خدا پرستی اور اللہ سے محبت کی طرف موڑا ہے۔

ایام جاہلیت میں حج کے موقع پر عرب قبائل اپنے اپنے شعرا کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنے آباواجداد کے کارنامے بیان کر کے ان پر فخر کرتے تھے۔ اللہ نے حکم دیا کہ جس طرح تم اپنے آباواجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔

فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط (البقرہ ۲:۲۰۰) پھر جب اپنے حج کے  ارکان ادا کر چکو‘ تو جس طرح پہلے اپنے آباو اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

قبائلی تفاخر کو اللہ کے راستے میں جہاد اور قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے استعمال کیا۔ اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کو ذریعہ قرار دیا اورفرمایا: وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔

قناعت اور زہد کا یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے کہ مسلمان محنت نہ کرے۔ قناعت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ محنت کر کے کمائے‘ بقدر ضرورت اپنے لیے رکھے اور باقی معاشرے کے ضرورت مندوں اور اجتماعی مفاد کی طرف لوٹا دے۔

پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمن بابا کا ایک شعر ہے    ؎

’’دَ دلبرو و صدقے لرہ ئے غواڑم
ھسے نہ چہ پۂ دنیا پسے زھیریم

میں دنیا کا حریص نہیں ہوں۔ اس کی طلب اس لیے کرتا ہوں کہ اسے محبوب مقاصد کی خاطر صدقہ کرسکوں۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی مصرعے میں دین اور دنیا کو کس خوبصورتی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’از کلید دین در دنیا کشاد‘‘۔ انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا‘ یعنی دین الگ اور دنیا الگ نہیں ہے بلکہ دین ‘دنیا کی زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ بھلا جو دنیا کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہ کیونکریہ تعلیم دے سکتا ہے کہ دنیاوی ترقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ یہ تو بنیادی تعلیم ہے کہ الاسلام یعلو ولا یعلی‘ اسلام بالادستی چاہتا ہے دوسرے نظاموں کی بالادستی قبول نہیں کرتا۔

مسلمانوں کے معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ترغیبات کے مقابلے میں اسلامی تصورات عالمی سطح پر شرح و بسط سے پیش کریں۔ اس وقت عالم اسلام میں بیداری کی لہر ہے۔ جہادفی سبیل اللہ کا جذبہ اس حد تک بیدار ہو گیا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جان کی قربانی اور شہادت کی موت کے لیے آمادہ ہیں۔ اس جذبے کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی خاطر مرنے کی تمنا کے ساتھ ساتھ اسلام کی خاطر جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: اللھم احینی سعید او امتنی شھیدًا‘ ’’اے اللہ! مجھے سعادت کی زندگی و شہادت کی موت عطا فرما‘‘۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اس کی صحیح قدر کرنا یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کو مفید مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اپنے اوقات کو کسی مفید کام میں صرف کرنا وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ مفید کام کا دنیوی فائدے کے ساتھ آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ یہ بات اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایک پودا زمین میں لگانے کے لیے بیٹھا ہو اور اتنے میں قیامت قائم ہو جائے لیکن تمہارے پاس اتنی مہلت ہے کہ پودا زمین میں لگا کر کھڑے ہو جائو تو پودا لگا دو‘ کیوں کہ اس پر تمھیں اجر ملے گا۔یعنی دنیا کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے اور اس کا استعمال آخرت کے اجر کے لیے اتنا مفید اور ضروری ہے کہ تمھیں معلوم ہے کہ قیامت قائم ہوگئی ہے‘ اب اس پودے کی نشوونما کا کوئی موقع نہیں ہے لیکن دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس لیے کاشت کے موقع کو ضائع نہ کرو۔ پھل آخرت میں ملے گا۔ (الدنیا مزرعۃ الآخرۃ)

آج جہاد اور شہادت کے جذبے سے سرشار مسلمان نوجوان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اگر مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہے تو اس کی پشت پر صدیوں کی منصوبہ بندی ‘ باہم مربوط کوششیں‘ آزادانہ علمی اور سائنسی تحقیق‘ سائنسی اور علمی اداروں کا قیام‘ یونی ورسٹیوں کا قیام‘ مشترک قومی مقاصد کا تعین اور ان کے حصول کی خاطر فروعی اور گروہی اختلافات سے بالاتری اور اس قبیل کی تدابیر کی قوت کارفرما ہے۔ بلاشبہ مغربی تہذیب میں اپنے نکتۂ عروج کو چھونے کے بعد زوال کے آثار پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کی جگہ لے سکیں۔ محض تخریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ نہیں بن سکتے‘ نہ وہ بلند مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جن کے لیے امت مسلمہ اٹھائی گئی ہے۔

اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے جذبے اور تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ ان تدابیر میں معاشی خود کفالت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کی معاشی منصوبہ بندی کرنے والوں کو نئے راستے اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی تشفی ضروری ہے کیونکہ ان کی تربیت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوئی ہے اور وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ مغربی معاشی تصور میں انسان کی حرص اور بھوک کو بڑھا کر جس طرح اسے زیادہ محنت پر آمادہ کیا جاتا ہے ‘ اسلام کے پاس اس سے بہتر راستہ ہے جس سے مسلمان کو اخلاقی‘ علمی اور مادی کاوش اور قربانی کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

ضرورت ہے کہ اس پورے تصور کو ہمارے تربیتی اور تعلیمی نظام کے ایک بنیادی جزو کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ صدیوں کے انحطاط سے دین اسلام کے بنیادی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور رہبانیت‘ ترک دنیا اور اس کے مختلف مظاہر کو ولایت اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ‘ ہر طرح کی اخلاقی ‘ علمی اور مادی و معاشی کاوش ہے‘ مسلمانوں کی روحانی‘ اخلاقی اور مادی ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔