’’دین کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے‘ قرآن و سنت کا حوالہ دیجیے مگر ایسا نہ کہیے کہ یہ بات سلف نے کہی ہے۔ سلف کیا ہوتا ہے؟ کل ہم بھی سلف ہوں گے۔ اصل چیز تو دین ہے‘‘۔ کئی برس ہوتے ہیں‘ ایک بار تبصرہ نگار کے ایک سوال پر مولانا امین احسن ؒاصلاحی (م:دسمبر۱۹۹۷ء) نے اپنے مخصوص جلالی لہجے میں یہ جواب دیا تھا۔ واقعی کل تک وہ چلتے پھرتے انسان تھے اور آج اسلاف میں ان کا ایک مقام ہے۔ علوم القرآن کا یہ خصوصی نمبر ‘ اصلاحیؒ صاحب کے اس مرتبے کے تعین میں بہت سی منزلوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
اسی طرح ۱۹۸۷ء میں ایک ملاقات کے دوران مولانا اصلاحیؒ صاحب نے فرمایاتھا: ’’میری زندگی میں‘ دو چیزوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ پہلی یہ کہ مجھے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی اور دوسری یہ کہ مولانا فراہی ؒ نے اپنے ابتدائی درس میں مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ کسی چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرنا‘ حق پانے کے لیے سوال پوچھنے کی ہمت پیدا کرنا اور اختلاف کرنے کا سلیقہ سیکھنا۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھے زندگی میں انھی دو چراغوں نے روشنی دی ہے‘‘۔ زیرنظر مجلے میں اصلاحیؒ صاحب کی بیان کردہ دوسری بات کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے اصلاحیؒ صاحب پر کلام کرتے ہوئے کشادہ ذہن کے ساتھ خود اصلاحیؒ صاحب کی تحریروں کو پڑھ کر تحسین و نقد کی ذمہ داری ادا کی ہے۔
مولانا اصلاحی ؒکے انتقال کے بعد پاکستان سے جو دو تین پرچے ان پر خصوصی اشاعتیں لائے‘ ان میں مولانامرحوم کے کام اور مقام پر کلام کرنے کے بجائے اُن کے مجلسی جلال کا اظہار ملتا ہے یا پھر جماعت اسلامی یا مولانا مودودیؒ کو ہدف بنانے کے لیے اس موقع کو استعمال کیا گیا ہے‘ (جس سے یہی تاثر بنتا ہے کہ مولانا اصلاحیؒ بس ہجو کے بادشاہ تھے‘ باقی جو کام ہوا وہ تو بروزن بیت تھا)۔ اس کے برعکس زیرنظر پرچہ مولانا اصلاحیؒ کی جلالت ِ علمی کو نمایاں کرنے کی ایک بامعنی خدمت ہے۔
اس مجلے میں شامل تحریروں کی حیثیت روایتی تعزیتی حاشیوں کی نہیں‘ بلکہ یہ اہم موضوعات پر تحقیقی مضامین ہیں‘ جن میں مولانا کی قابل قدر خدمات کے اعتراف وتائید کے ساتھ ان سے مودبانہ اختلاف کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں الطاف اعظمی‘ نعیم الدین اصلاحی‘ ابوسفیان اصلاحی اور محمد مسعود عالم قاسمی کے مضامین دلچسپ اور بصیرت افروز ہیں۔
سلطان احمد اصلاحی نے ’’تفسیر اصلاحی کے غیر فراہی عناصر‘‘کو نمایاں کرتے ہوئے بعض مقامات پر فراہیؒ اور اصلاحی ؒ کے تفردات میں فرق کو واضح کیا ہے۔ خالد مسعود نے ’’مولانا اصلاحی کی خدمت حدیث‘‘ پر مضمون میں متن حدیث کے قبول کرنے میں اصلاحیؒ صاحب کی اپروچ کو یوں بیان کیا ہے: ’’ہم رسولؐ کی طرف ان ]صحابہؓ[ کی منسوب کردہ حدیث کے بارے میں یہ رائے رکھیں کہ وہ پوری امانت و دیانت کے ساتھ روایت کی گئی ہے‘ اور اس کے بارے میں بلاوجہ کسی شبہے میں نہ پڑیں۔ البتہ جہاں تک سلسلہ روایت کے باقی راویوں کا تعلق ہے‘ وہ سب کے سب تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ان سب کی امانت و دیانت‘علمی مرتبہ‘ حافظہ‘دین پر عمل ہر چیز کو پرکھا جائے گا‘‘ (ص ۲۶۰)۔ اسی طرح: ’’مولانا اصلاحیؒ کی حدیث فہمی کاانداز بالکل منفرد ہے۔ وہ متن حدیث کے ایک ایک لفظ اور ٹکڑے پر غور کرتے اور اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا چاہتے ہیں کہ واقعتا روایت کا کتنا حصہ صحیح ہے اور کس حصے کی روایت میں کوئی خامی رہ گئی ہے‘‘۔ (ص ۲۶۹)
صفدر سلطان اصلاحی نے ’’مولانا اصلاحی کی تحریکی خدمات‘‘ (ص ۳۹۴) پر ایک متوازن مضمون کے ذریعے اصلاحیؒ صاحب کی تحریکی زندگی کے مدوجزر کا تذکرہ کرتے ہوئے اعتراف و اختلاف کے منطقوں سے قاری کو روشناس کرایا ہے۔و ہ لکھتے ہیں: ’’چنددینی اور سیاسی امور میں ]مولانا مودودی مرحوم سے[ شدید اختلاف کی وجہ سے مولانا اصلاحی ؒنے جماعت سے رکنیت کا رشتہ منقطع کر لیا تھا اور ایک مختصر عرصے میں ان کے مولانا مودودیؒ سے انتہائی سخت لب و لہجے میں قلمی مباحثے بھی ہوئے‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا جو ہمہ گیر تصور اور اس کے غلبے کی جو جدوجہد انھوں نے تحریک ]جماعت اسلامی[ میں رہتے ہوئے کی تھی‘ تحریک سے علیحدگی کے بعد بھی وہ اسی نہج پر کام کرتے رہے۔ ان کی تفسیر تدبر قرآن میں غلبہ دین کے اسی جذبے اور ولولے کی کارفرمائی نظرآتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳۳)
مولانا امین احسنؒ اصلاحی ایک غیر معمولی فقیہانہ بصیرت کے مالک تھے۔ انھوں نے بجا طور پر فرمایا تھا: ’’دور حاضر میں تدوین قانون اسلامی کی جو کوشش کسی ایک فقہ کے اندر محصور ہو کر کی جائے گی‘ کبھی کامیاب اور قابل قبول نہ ہوگی‘‘ (ص ۳۱۵)۔ اور یہ کہ: ’’اگر ہمیں اس ملک ]پاکستان[ میںا سلامی قانون کے نفاذ کا مقصد عزیز ہے‘ تو ہمارے علما حنفی اور اہل حدیث کی اصطلاحوں میں بات کرنے کے بجائے قرآن و حدیث کی اصطلاحوں میں بات کریں اور اپنے مدارس میں متعین فقہوں کی تعلیم دینے کے بجائے پوری اسلامی فقہ کی تعلیم دیں‘ تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں وسعت اور رواداری پیدا ہو‘‘۔ (اسلامی قانون کی تدوین‘امین احسن اصلاحی‘ ص ۱۰۳)۔ مذکورہ بالا دونوں اقوال مولانا اصلاحیؒ کی دانش برہانی کے غماز ہیں۔
یہ مختصر تبصرہ نہ تو مولانا امین احسن اصلاحی جیسے کوہ وقار کی علمی لطافتوں اور فکری عظمتوں کا احاطہ کر سکتا ہے اور نہ علوم القرآن کے خصوصی نمبر پر خاطر خواہ روشنی ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مولانا اصلاحیؒ کے علمی کارناموں کی غیر جذباتی پیمایش کے لیے‘ فاضل مقالہ نگاروں کے تعاون سے یہ خوب صورت گلدستہ پیش کیا۔ (سلیم منصور خالد)
براعظم ایشیا کے قلب (افغانستان) پر اشتراکی روس کے حملے (۱۹۷۹ء) کے ۲۲ سال بعد‘ دوسرا حملہ استعماری امریکہ نے کیا ہے۔ بظاہر اشتراکیت اور سرمایہ داری میں بعدالمشرقین ہے لیکن استعماریت ‘ سامراجیت اور توسیع پسندی کے ضمن میں دونوں میں حیرت انگیز اتفاق پایا جاتا ہے۔ دونوں کا ہدف افغانستان کے بے پناہ قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات پرقبضہ جما کر اُنھیں ہڑپ کرنا ہے (اس کی تفصیل معتوب اور ان دنوں پابند سلاسل ایٹمی سائنس دان بشیرالدین محمود اپنے ایک مضمون میں پیش کر چکے ہیں)۔ تاریخ میں جہاں یہ امر مملکت خداداد پاکستان کے لیے طرہ امتیاز رہے گا کہ اُس نے اشتراکی حملے کے خلاف افغانیوں کے جہاد میں ان کی پوری طرح پشتی بانی کی‘ وہاں اس کے دامن پر ایک سیاہ دھبا ثبت ہے کہ آزاد اسلامی مملکت‘ افغانستان پر امریکی یلغار اور قتل و غارت گری میں وہ امریکہ کا مددگار بن گیا ۔ اس کی پیشانی پر کلنک کا یہ ٹیکا اہل پاکستان کو مدتوں شرمسار رکھے گا۔
افغانستان پر امریکی حملہ گذشتہ دو تین ماہ میں ہماری صحافت خصوصاً کالم نگاروں کا سب سے بڑا موضوع رہا ہے۔ اس ضمن میں جن اہل قلم نے پاکستانی نقطۂ نظر اور اسلامی جذبات کی صحیح ‘ موثر اور بھرپور ترجمانی کی ان میں روزنامہ نوائے وقت کے سینئر ڈپٹی ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے بڑی جرأت‘ توازن اور ایک جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس موضوع کے مالہٗ وما علیہ کو موثر انداز میں پیش کیا۔ زیرنظر کتاب اسی موضوع پر ستمبر‘ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں لکھے ہوئے ان کے کالموں (طلوع) کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں ایک صاحب دل پوری درد مندی کے ساتھ اور ہر طرح کی مصلحت اندیشی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا نظرآتا ہے جو دراصل پاکستان کے جمہور مسلمانوں کی ترجمانی ہے۔
معاصر صحافیانہ تحریروں میں کوئی ادبی اسلوب یا دانش ورانہ نکتہ آفرینی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے مگر ارشاد احمد عارف کے ہاں جان دار‘ تیکھے اور موثر انداز تحریر کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں جن کی معنی خیزی قابل داد ہے‘ مثلاً: mطالبان کی کیفیت اس وقت شریف گھرانے کی ایسی عورت کی ہے جس کو بیچ چوراہے کے اخلاق باختہ نوجوانوں نے گھیر رکھا ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ ہنسی خوشی اپنی عزت کا سودا کر لو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائو (ص ۱۲)۔ mمادی ضروریات اور جسمانی خواہشات مقصدِحیات بن جائیں توآدمی مزاحمت اور مقابلے کے بجائے خود سپردگی اور لذت کیشی کو ترجیح دیتا ہے (ص ۱۳)۔ m انسان کو اقتدار نہیں‘ کردار زندہ رکھتا ہے۔ قدرت ہر انسان ‘ گروہ اور قوم کو یہ موقع ضرور فراہم کرتی ہے کہ وہ فیصلے کی گھڑی میں اپنا وزن درست پلڑے میں ڈال سکے (ص ۴۲)۔ m امریکہ کا نشانہ پاکستان‘ بہانہ افغانستان ہے (ص ۳۷)۔ m ہر فیصلہ زمین پر نہیں ہوتا‘ کچھ فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں اور ان کا ایک وقت مقرر ہے جس کا کسی کو علم نہیں ورنہ امریکہ کم از کم ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو ضرور بچا لیتا۔ (ص ۵۰)
ارشاد احمد عارف بار بار ہمارے امریکی آلۂ کار بن جانے کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہیں: ’’ماضی میں امریکی گیم پلان کا حکمرانوں کو علم ہوتا تھا‘عوام کو نہیں۔اب صورت حال اس کے برعکس ہے کہ عوام باخبر ہیں مگر امریکہ سے خوش گمان حکمران بے خبر نظر آتے ہیں یا اس کی ایکٹنگ کر رہے ہیں (ص ۹۸)۔
مصنف بنیادی طور پر ایک سنجیدہ اداریہ نویس اور کالم نگار ہیں مگر ان کی حسِّ مزاح بھی جگہ جگہ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ درزی اور چالاک ترک سردار کے حوالے سے ’’ٹھگ‘‘ میں‘ اسی طرح دنبے‘ بیل اور اُونٹ کی مثالوں کے ساتھ ’’چارہ‘‘ میں مزاح کی ایک زیریں لہر موجود ہے۔
امید ہے یہ مجموعۂ مضامین دل چسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کو درپیش مسائل میں سے اہم ترین مسئلہ جسے مسائل کی جڑ بھی قرار دیا جا سکے‘ کیا ہے؟ اس بارے میں اتفاق رائے سے کچھ کہنا مشکل ہے‘ تاہم بہت سے لوگوں کے خیال میں اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ اس کی کمزور معیشت ہے۔
بلاشبہہ پاکستان کو قدرت نے وسیع انسانی و قدرتی وسائل عطا کیے ہیں‘ تاہم پے درپے برسراقتدار رہنے والی سیاسی و فوجی قیادت کی بدانتظامی اور بدعنوانی کی بنا پر‘ ہم قدرت کی ان وافر نعمتوں سے درست طور پر استفادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس صورت حال پر ہر صاحب دل فطری طور پر پریشان ہے۔ حامد سلطان تجارت و صنعت سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے کامیاب کاروباری تجربات کی روشنی میں بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس خراب صورت حال کی اصل وجہ بدانتظامی اور بددیانتی ہے ورنہ جب ایک عام کاروباری یونٹ حسن انتظام کی بنا پر نفع آور ہو سکتا ہے تو آخر پاکستان جیسا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک اقتصادی طور پر بدحالی کا شکار کیوں ہو۔
حامد سلطان معاشیات یا سیاسیات کے ماہر نہیں ہیں‘ تاہم ایک کامیاب کاروباری منتظم کی حیثیت سے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ‘ وہ بہت سے مقامی‘ ملکی اور بین الاقوامی برآمدی کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے متعلق بھی رہے ہیں۔ یوں انھیں پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی معیشت اور صنعت و تجارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کی یہ کتاب ان کے ذاتی مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ۲۵ مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے اخبارات کے لیے تحریر کیے ہیں۔ ہر مضمون کسی خاص خبر یا واقعے کو بنیاد بنا کر تحریر کیا گیا ہے۔ بیشتر مضامین میں تاثرات و دلائل کی تکرار کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کے حق میں آیات قرآنی اور احادیث کا بھی وقتاً فوقتاً حوالہ دیا ہے۔ مختصراً ان دلائل کا احاطہ کیا جائے تو خود مصنف کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا پیمانہ وہاں کا سیاسی کلچر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کلچر نے حلقہ بندیوںکی بنیاد پر سرمایہ داروں‘ جاگیروں اور اسمگلروں‘ حرام خوروں‘ ابن الوقتوں‘ موقع پرستوں اور منافقوں کے مفادات کا پورا پورا تحفظ کیا ہے‘‘ (ص ۴۳)۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو درپیش مسائل کی اصل وجہ سیاست میں جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور نتیجتاً حکومتی سطح پر بدانتظامی و بدعنوانی ہے۔ اس صورت حال کا حقیقی مداوا اسی وقت ممکن ہے جب ملکی سیاست و حکومت کی باگ ڈور واقعی ایسی قیادت کے ہاتھ میں ہو جو حسن انتظام اور امانت و دیانت کے احساس کے ساتھ قومی وسائل کواس طرح استعمال کرے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عام آدمی کی اقتصادی صورت حال بھی بہتر ہو۔
عمدہ سرورق کے ساتھ شائع شدہ یہ کتاب سادہ انداز میں ایک محب وطن پاکستانی تاجر کے خیالات پر مشتمل ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زیرنظر مضامین عام پاکستانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مضامین کے ساتھ ان کی تاریخ اشاعت بھی درج کرنا مفید ہوتا ۔ (خالد رحمٰن)
۱۹۸۸ء میں شیطان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد‘ بھارت کے معروف سیاست دان اور اسکالر ڈاکٹر رفیق زکریا نے اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی جو پینگوئن بکس نے امریکہ ‘برطانیہ اور بھارت سے بیک وقت شائع کی۔ اس پر دنیا کے معروف رسائل میں تبصرے شائع ہوئے‘ یہ اس کا اردو ترجمہ ہے جو ڈاکٹر مظہرمحی الدین‘ پرنسپل‘ مولانا آزاد کالج اورنگ آباد‘ مہاراشٹر نے کیا ہے۔ جواب کا انداز جذباتی انداز سے اُلجھنے کے بجائے اہم امور کے بارے میں اسلام کا صحیح موقف مثبت انداز سے پیش کرنے کا ہے۔ اس لیے اس نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے اسلام کی حقیقت سمجھانے والی ایک موثر دعوتی کتاب کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
پہلے باب میں غزوات اور ازواج مطہرات کا بیان ہے۔ دوسرے میں قرآن کی آیات میں سے ایک ہزار ایک سو ۱۱ آیات کا انتخاب دیا گیا ہے۔ ہر سورہ سے پہلے مختصر تعارف کروایا گیا ہے۔ آیات کے ترجمے میں تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی پیش نظر رہا ہے۔ تیسرے میں قصص الانبیا اور چوتھے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح وہ سب موضوعات آگئے جنھیں رشدی نے اپنا نشانہ بنایا تھا۔ مصنف نے درست لکھا ہے: ’’میں نے تعصب کا جواب دلیل سے‘ غلط فہمی کا جواب حقائق سے‘ اور تہمتوں کا جواب ناقابل تردید تاریخی مواد کے تجزیے کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ ۴۰ صفحے کے مقدمے ’’پیغمبراسلام کا مشن‘‘ میں مصنف نے مستشرقین کے حوالے سے قیمتی بحث کی ہے۔ (مسلم سجاد)
زبان قرآن کی تفہیم و تعلیم کے لیے مختلف ادارے اور تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے طریقہ ہاے تدریس کے اختلافِ نوعیت کے باوجود تسہیل کا دعویٰ تقریباً ہر ایک کے ہاں پایا جاتا ہے جو کہ عصرحاضر کے علمی رجحان کا تقاضا ہے۔ خلیل الرحمن چشتی کی کتاب قواعد زبان قرآن اسی تقاضاے علمی کی آئینہ دار ہے۔
عصرحاضر کی ضرورت کے مطابق جدید تدریسی تکنیک کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیرنظر کتاب متعلمین عربی کے لیے ایک مفید اور عمدہ کاوش ہے۔ دینی مدارس میں عام طور پر ’’ابواب الصرف‘‘ اور عربی گردانوں کو (رٹا لگا کر) حفظ کرانا تعلیم عربی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس روایتی رٹا سسٹم سے گردانوں وغیرہ کو یاد کرنے کی تلقین کے بجائے مرتب موصوف نے تبدیلی افعال کے اصولوں کی تفہیم کو اصل اہمیت دی ہے۔ ’’گردانوں کو رٹانے کے بجائے‘ فعل کے ظاہری تغیر کی مناسبت سے‘ معنوی تبدیلی کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایسے جدول وضع کیے گئے ہیں کہ طالب علم ان کو پرُ کر کے صیغوں پر عبور حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح فعل کے مختلف ابواب پر مہارت حاصل کرنے کے لیے کئی مشقیں وضع کی گئی ہیں‘‘۔ (ص ۱۷)
اس کتاب میں جہاں جدید اصطلاحات و تراکیب کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں ہر سبق کے اختتام پر مشق کے لیے خالی جگہیں رکھی گئی ہیں ’’گویا یہ کتاب ایک ورک بک (work book)بھی ہے‘‘ (ص ۱۷)۔ خالی کالموں کو پر کر کے مشق سبق کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ایسی ضخیم اور قیمتی کتاب کا ورک بک کے طور پر استعمال درست معلوم نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہوتا کہ ہر سبق کے آخر میں صرف مشق تجویز کر دی جاتی۔
کتاب کے آخر میں ’’تحفۃ الاعراب‘‘ کے نام سے مولانا حمیدالدین فراہیؒ کے منظوم قوا عدِنحو کتاب میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح عربی اصطلاحاتِ قواعد کے انگریزی مترادفات کی فہرست بھی کتاب کی تفہیم و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ مجموعی طور پر ایک جامع اور مفید کتاب ہے۔ (محمد حماد لکھوی)
برطانوی استعمار نے ہندستان کے مسلمانوں کو آزادی دیتے وقت مسئلہ کشمیر کاخنجر بھی گھونپ دیا تھا۔ اسی کشمیر کا سرد جہنم ’’سیاچن‘‘ ہے۔
آزاد کشمیر میں چین کی سرحد کی جانب‘ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیر سیاچن کی اسٹرے ٹیجک حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ مقام‘ موت کی سرد وادی ہے۔ اپریل ۱۹۸۴ء میں‘ جب پاکستان‘ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں افغانوں کا ایک سرگرم پشتی بان تھا‘ تب بھارت نے اچانک پیش قدمی کرتے ہوئے آزادکشمیر کے علاقے سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ بعدازاں پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کو بڑی حد تک پیچھے دھکیلا‘ لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ اب تک سخت تشویش ناک صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس کتاب میں‘ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلا م آباد کے نوجوان محقق ارشاد محمود نے ممکن حد تک سیاچن محاذ کے جملہ پہلوئوںکااحاطہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میںقاری کو‘ سیاچن کے محاذ کے خدوخال‘ پس منظر‘ پیش منظر‘ مذاکراتی عمل اور فوجی و سفارتی میدان میں رونما ہونے والی پیش قدمی و پسپائی کے بہت سے مناظر دیکھنے اور غوروفکر کرنے کے لیے میسر آتے ہیں۔ یہ عجب بات ہے کہ جانی‘ مالی اور جغرافیائی اعتبار سے اس قدر خطرناک محاذ پر اردو زبان میں ڈھنگ کی کوئی دستاویز پڑھنے کو نہیں ملتی۔ ارشاد محمود نے اس مختصر مگر جامع کتاب میں بنیادی اور قیمتی معلومات کو یک جا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابق نائب سپہ سالار جنرل (ر) خالد محمود عارف نے پیش لفظ میں‘ اس کتاب کو ’’پاکستان کی خدمت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پیش کش میں پروف خوانی بھی کتاب کے شایان شان ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ (س - م - خ)