جنوری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

کارِ تجدید

| جنوری ۲۰۰۲ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

… دین حق کو جاہلیت کی آمیزشوں سے جدا کر کے اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا‘ اس کی بنیادی صداقتوںمیں ردّ و بدل کیے بغیر اس کو ایسی حکمت کے ساتھ پیش کرنا کہ اہل زمانہ کے دل و دماغ اس سے متاثر ہو سکیں،’’نئی نظر اور نئی قوت‘‘ سے کام لے کر قرآن و سنت سے وقت کے مسائل کا حل تلاش کرنا‘ علمی و عملی اور اخلاقی و روحانی طاقتوں سے جاہلی نظامات کے تسلط کو مٹانے اور اُن کی جگہ اسلامی نظام کو دنیا میںقائم کرنے کی کوشش کرنا‘ یہ سب تجدیدی نوعیت ہی کے کام ہیں۔ کوئی شخص یا کوئی گروہ یا کوئی ادارہ خواہ بڑے پیمانے پر یہ کام کرے یا چھوٹے پیمانے پر‘ اور اس سلسلے میں کوئی بڑی خدمت انجام دے جائے یا کچھ تھوڑی سی خدمت انجام دے کر رہ جائے‘ بہرحال اس کا کام تجدیدی کام ہی کہا جائے گا‘ اور ظاہر ہے کہ جو کوئی اس کام کو کرے گا اس میں یہ شعور بھی ہوگا کہ وہ یہ کام کر رہا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقّب ہو‘ صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔ اینٹیں چن کر دیوار بنانا بہرحال ایک تعمیری کام ہے‘ مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے وہ ’’انجینیر‘‘ بھی کہلائے‘ اور پھر انجینیربھی معمولی نہیں بلکہ اپنی صدی کا انجینیر؟ اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا‘ جبکہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو‘ محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بنا چاہتا ہے…

مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوّا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے اور رومیت کے پرستار اس کو مرحبا کہتے ہیں۔ کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم کر کے اٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادہ سے اٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف ایک خدا کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرمائے اور اگر کوئی اس کا خیال ظاہر کر دے تو اللہ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں؟ (اشارات ‘ابوالاعلیٰ مودودی‘  ماہنامہ ترجمان القرآن‘ شوال‘ ذی القعدہ ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری فروری  ۱۹۴۲ء‘ ص ۹۸-۹۹)