ترجمہ: مولانا نسیم احمد فریدی
خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ (۱۰۰۷-۱۰۷۹ھ / ۱۵۹۹-۱۶۶۸ء)حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے فرزند ثالث تھے۔ اپنے والد ماجد کے انتقال (۱۰۳۴ھ/۱۶۲۴ء) کے بعد ان کے جانشین کی حیثیت سے مسند ارشاد پر فائز ہوئے۔ ان کے مکاتیب میں دعوت الی اللہ‘ عقائد کی اصلاح‘ اعمال اور اخلاق کی درستی اورفکرآخرت جیسے مضامین ہیں۔ جہانگیری‘ شاہجہانی اور عالم گیری عہد کے بڑے بڑے امرا آپ کے ارادت مندوں میں تھے۔ انھوں نے اپنے خطوط میں ان کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ذیل کا مضمون: مکتوبات خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ سے ماخوذ ہے۔
جو شخص مسند مشیخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا عمل موافقِ سنت رسولؐ نہیں ہے اور نہ خود زیورِ شریعت سے آراستہ ہے‘ خبردار‘ خبردار‘ اس سے دُور رہنا‘ بلکہ (احتیاطاً) اُس شہر میں بھی نہ رہنا جس میں ایسا مکار رہتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد اس کی طرف دل کا میلان ہو جائے اور کارخانۂ روحانیت خلل پذیر ہو۔ ایسا شخص ہرگز اقتدا کے لائق نہیں ہوتا۔ وہ تو درحقیقت ایک چور ہے پنہاں۔ ہرچند کہ اس سے طرح طرح کے خوارق عادات دیکھو اور اس کو دنیا سے بظاہر بے تعلق بھی پائو (کبھی اس کی طرف ملتفت نہ ہونا) اس کی صحبت سے اس طرح بھاگنا جس طرح شیر سے بھاگتے ہیں۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ فرماتے ہیں: ’’کامیابی کے تمام راستے بند ہیں سوائے اس شخص کے راستے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی کرے۔ سیدالطائفہ ہی کا یہ قول ہے کہ مقربین صادقین کا راستہ درحقیقت کتاب و سنت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور وہ علما جو شریعت و طریقت پر عامل ہیں اور وارث النبیؐ کہلانے کے مستحق ہیں وہ اقوال‘ اخلاق اور افعال میں آنحضرتؐ کے متبع ہوتے ہیں۔
مکرر لکھتا ہوں کہ آداب نبویؐ کا خیال نہ رکھنے والے اور سنن مصطفویؐ کو چھوڑنے والے کو ہرگز ہرگز ’’عارف‘‘ خیال نہ کرنا‘ اس کے (ظاہری) تبتل و انقطاع ‘ خوارق عادات‘ زہد و توکل اور (زبانی) معارفِ توحیدی پر فریفتہ و شیفتہ نہ ہو جانا--- مدارِکار‘ اتباعِ شریعت پر ہے اور ’’معاملۂ نجات‘‘ پیروی نقشِ قدمِ رسولؐ سے مربوط ہے۔ محق و مبطل میں امتیاز پیدا کرنے والی چیز اتباع پیغمبر ہی ہے۔ زہد و توکل اور تبتل بغیر اتباع رسولؐ کے نامعتبر ہیں--- ’’اذکار و افکار‘‘ اور ’’اشواق و اذواق‘‘ بے توسل سرکار دوعالمؐ غیر مفید ہیں۔ خوارقِ عادات کا دارومدار بھوک اور ریاضت پر ہے۔ اُس کو معرفت سے کیا تعلق؟
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا ہے: ’’جس نے آداب سے سستی برتی وہ سنن سے محروم ہو گیا۔ جس نے سنن سے غفلت اختیار کی وہ فرائض سے محروم ہوا اور جس نے فرائض سے تہاون کیا وہ معرفت سے محروم ہو گیا‘‘۔
شیخ ابوسعید ابوالخیرؒ سے لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص پانی پر چلتا ہے۔ انھوں نے فرمایا: ہاں! گھاس کا تنکا بھی پانی پر چلتا ہے (یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے)۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ہوا میں اُڑتا ہے۔ فرمایا: (ٹھیک ہے) چیل اور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ایک لحظے میں ایک شہر سے دوسرے شہر چلا جاتا ہے۔ فرمایا: (اس میں کیا رکھا ہے) شیطان تو ایک دم مشرق سے مغرب تک چلا جاتا ہے۔ ان باتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مردِ حق دراصل وہ ہے جو مخلوق کے درمیان نشست و برخاست رکھے۔ بیوی بچے رکھتا ہو اور پھر ایک لحظہ خدائے عزوجل سے غافل نہ رہے۔
شیخ علی ابن ابی بکر قدس سرہٗ نے معارج البدایہ میں فرمایا ہے کہ ’’ہر انسان کا حسن و کمال تمام امور میں ظاہراً و باطناً‘ اصولاً و فروعاً‘ عقلاً و فعلاً ‘ عادتاً و عبادتاً کامل اتباعِ رسولؐ میں مضمر ہے‘‘۔
اگر کوئی گناہ وقوع میں آجائے تو بہت جلد اس کا تدارک توبہ و استغفار سے کر لینا چاہیے‘ گناہِ پوشیدہ کی توبہ پوشیدہ طریقے پر اور گناہِ آشکارا کی علانیہ طریقے پر توبہ ہو۔ توبہ میں دیر نہ کی جائے--- منقول ہے کہ: کراماً کاتبین تین ساعت تک گناہ لکھنے میں توقف کرتے ہیں۔ اگر اس درمیان میں توبہ کر لی‘ تو اس گناہ کو نہیں لکھتے ورنہ اپنے رجسٹر میں اس گناہ کا اندراج کر لیتے ہیں۔ جعفر بن سنانؒ فرماتے ہیں: ’’توبہ سے غفلت کرنا ارتکابِ گناہ سے بھی زیادہ بری بات ہے‘‘۔ اگر جلدی توبہ میسر نہ ہو سکے تو جب بھی توبہ کرے ‘غرغرئہ موت سے پہلے پہلے--- وہ توبہ مقبول ہے۔ حدیث میں آیا ہے‘ اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست ِ نوازش دراز کرتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو بھی اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کر لے۔ انسان کو چاہیے کہ ورع و تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اور منہیات میں قدم نہ رکھے کیونکہ اس راہِ سلوک میں نواہی سے باز رہنا (درحقیقت) اوامر کے امتثال ]احکام بجا لانا[سے زیادہ ترقی بخش اور سودمند ہے۔ ایک درویش نے کہا ہے کہ: ’’اچھے اعمال تو نیک اور فاجر دونوں کر لیتے ہیں لیکن معاصی سے بچنے کا (اہتمام) ’’صدیق‘‘ کا کام ہے‘‘۔
حدیث میں آیا ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی۔ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دے۔ (بخاری‘ مسلم)
اگر اپنے اور اہل و عیال کے لیے تجارت یا اس کے مانند کوئی حلال کسب کرے تو وہ مضر نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے کیونکہ سلف نے اس کو اختیار کیا ہے۔ احادیث میں فضل کسب بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی توکل اختیار کرے ‘ تو یہ بھی بہتر ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پھر کسی سے طمع نہ رکھے۔
ابومحمد منازلؒ نے فرمایا ہے کہ ’’توکل کسب حلال کے ساتھ ساتھ کرنا بہتر ہے بمقابلہ خالی توکل کے‘‘۔ کھانا کھانے میں اعتدال کا خیال رکھے‘ نہ اتنا زیادہ کھائے کہ وہ کھانا عبادت میں کسل اور سستی پیدا کردے اور نہ اس قدر کم کھائے کہ (ضعف کے باعث) اذکار و طاعات سے باز رہے--- حضرت خواجہ نقشبندؒ کا ارشاد ہے کہ ’’لقمہ تر کھائو‘ لیکن (دینی) کام خوب کرو‘‘۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ’’طاعت‘‘ میں جس قدر کھانا ممد و معاون ہو‘ وہ خوب اور مبارک ہے اور اس ’’کارخانے‘‘ میں جتنی زیادتی طعام خلل انداز ہو جائے وہ البتہ ممنوع ہے۔
تمام افعال و حرکات میں اس کا قصد کرے کہ نیت صحیح ہو۔ جب تک نیت صالحہ نہ ہو‘ حتی الامکان کوئی قدم نہ اٹھائے۔ لوگوں کے ساتھ اختلاط بقدرِ ضرورت کرے۔ وہ اختلاط جو برائے افادہ و استفادہ ہو‘ البتہ محمود بلکہ ضروری ہے۔ ہر نیک و بد کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہیے ‘ خواہ اس سے باطن میں انبساط پیدا ہو یا انقباض۔ جو شخص عذر خواہی کرے‘ اس کے عذر کو قبول کرنا چاہیے۔ اخلاق اچھے ہوں۔ (خواہ مخواہ) اعتراض کسی پر نہ کیا جائے‘ نرم و ملائم گفتگو ہو۔ کسی کے ساتھ سخت درشتی سے معاملہ نہ کرے‘ ہاں خدا کے لیے سختی کر سکتا ہے۔
شیخ عبداللہ ؒ نے فرمایا ہے کہ: ’’درویشی نہ فقط نماز روزے کا نام ہے اور نہ صرف بیداری شب کا‘ یہ تو اسباب بندگی ہیں‘ درویشی یہ ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ کی جائے۔ اس خوبی کو حاصل کرے گا تو بامراد ہوگا‘‘۔
محمد بن سالم ؒسے لوگوں نے دریافت کیا: ’’اولیاکی پہچان کیا ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’اولیا کی علامات یہ ہیں: لطفِ لسان‘ حسنِ اخلاق‘ بشاشت چہرہ‘ سخاوت نفس‘ قلّت اعتراض‘ عذرخواہ کے عذر کو قبول کرنا‘ تمام مخلوقِ خدا پر شفقت کرنا خواہ نیکوکار ہوں یا بدکار‘‘۔
ابو عبداللہ احمد مقری قدس سرہٗ فرماتے ہیں: ’’جوانمردی یہ ہے کہ تو جس شخص سے کدورت رکھتا ہو اُس سے حسن خلق سے پیش آئے اور جس آدمی سے کراہت کرتا ہو اس پر مال خرچ کرے اور جس سے نفرت ہو اُس سے اچھا سلوک کرے‘‘۔ بات چیت کرنے میں ’’رعایت قلّت‘‘ مدنظر رہے۔ زیادہ نیند اور زیادہ ہنسنا بھی درست نہیں کیونکہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ اپنے تمام اُمور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرے اور خدمت ِ مولیٰ میں چست ہو جائے۔ ایسا کرے گا تو تدبیر امور سے فارغ ہو جائے گا (اور سب کام غیب سے بن جائیں گے)۔جنید بغدادیؒ نے خوب فرمایا ہے کہ: ’’دنیا کی تمام حاجتوں میں کامیابی کا راز ان حاجتوں کو ترک کر دینے میں پوشیدہ ہے۔ جب دل ایک جانب (خدا کی طرف) ہو جائے گا‘ خداوند کریم سب کام پورے کردے گا‘‘۔ حدیث میں ہے: ’’جو شخص اپنے تمام غموں کو ایک غم (غمِ آخرت) بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دنیا اور آخرت کے تمام کام بنا دے گا‘‘۔ نیز ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تیرے اوپر مہربان کر دے گا کہ وہ تیرے کاموں کو (خود بخود) انجام دیں گے۔
یحییٰ معاذ رازیؒ فرماتے ہیں: ’’جس قدر تجھے اللہ سے محبت ہوگی‘ مخلوقِ خدا بھی تجھ سے اتنی ہی محبت کرے گی۔ تجھے خدا کا جس قدر خوف ہوگا‘ مخلوق بھی تجھ سے اتنا ہی ڈرے گی اور تو جتنا خدا کے حکموں میں مشغول ہوگا ‘مخلوق بھی تیرا اتنا ہی کہنا مانے گی‘‘۔
کسی پر اعتماد سوائے فضل پروردگار کے نہ ہو۔ اہل و عیال کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے اور بقدرِ ضرورت ان سے اختلاط ہو تاکہ ان کا حق ادا ہو جائے۔ ’’موانست ِ تام‘‘ ان سے نہ ہو۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے اعراض کا اندیشہ ہے۔ ’’احوالِ باطن‘‘ نااہل سے نہ بیان کیے جائیں۔ مال داروں سے حتی المقدور میل جول نہ رکھا جائے۔ جمیع حالات میں سنت نبویؐ کو اختیار کیا جائے‘ بدعت سے حتی الوسع اجتناب ہونا چاہیے۔ سالک کو چاہیے کہ حوادث میں متذبذب نہ ہو۔ عیوبِ مردم پر نظر نہ کرے اور اپنے عیوب ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اپنے آپ کو کسی مسلمان پر ترجیح نہ دے‘ سب کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر مسلمان کے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ اس کی برکت اور دعا سے مجھے کشود کار ]مشکل حل ہونا[ میسر ہو سکتا ہے۔ سلف صالحین کے حالات پیش نظر رکھے۔ مساکین کی ہم نشینی پسند کرے۔ کسی کی غیبت کی جانب خود بھی مائل نہ ہو اور جہاں تک ہو سکے دوسرے کو بھی اس سے روکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا شیوہ بنائے۔ اللہ کے راستے میں انفاقِ مال پر حریص ہو۔ حسنات کے صدور سے خوشی محسوس کرے اور سیئات کے ارتکاب سے دُور دُور رہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: جو شخص ایسا ہو کہ اپنا گناہ اس کو ناگوار گزرے اور نیکی اُس کو خوش کرے‘ بس وہ مومن (کامل) ہے۔ (مسند احمد‘ دارمی)
مفلسی سے ڈر کر بخیلی اختیار نہ کرے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ ‘شیطان تم کو فقر وفاقہ سے ڈراتا ہے اور بری باتوں کا حکم کرتا ہے (البقرہ ۲:۲۶۸) ۔ قلّت معیشت سے تنگ دل نہ ہو۔ عیش کا زمانہ تو آگے آ رہا ہے۔
اَللّٰھُمَّ لاَ عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَۃِ ‘ اے اللہ! عیش تو بس آخرت ہی کا عیش ہے۔ یہاں کی تنگی ’’وہاں‘‘ کی فراخی کا سبب ہو جائے گی۔
اس مسکین کا التماس تم جیسے دوستوں سے یہ ہے کہ اس مہجو روعاصی کو دعائوں سے فراموش نہ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کے کرمِ عمیم سے درخواست کرو گے کہ یہ گنہگارِ تباہ کار کل قیامت کے دن (کم از کم) ’’زمرئہ عاصیانِ مرحوم‘‘ میں داخل و شامل ہو جائے ۔ (ترتیب و تدوین : عبدالرشید صدیقی)