تیونس میں موجودہ اسلامی تحریک کا آغاز چند پرُجوش نوجوانوں نے ۱۹۶۹ء میں کیا‘ جن میں استاد راشد الغنوشی اور شیخ عبدالفتاح مورو سرفہرست ہیں۔ تحریک کا آغاز مساجد اور تعلیمی اداروں سے ہوا۔ تحریک اسلامی نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف نام اپنائے۔ ۷۰ کے عشرے میں ’’الجماعۃ الاسلامیہ‘‘ ۸۰ کی دہائی میں ’’حرکۃ الاتجاہ الاسلامی‘‘ اور ۹۰ کے عشرے کی ابتدا سے ’’حرکۃ النہضۃ‘‘ کا نام اختیار کیا۔
اہم اہداف: دعوت و تبلیغ‘ مساجد کی آبادکاری‘ غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ‘ نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا‘ تاکہ وہ مغربی فکری یلغار سے محفوظ رہیں اور ان کا اسلام پر‘بحیثیت عقیدہ و نظام‘ اعتماد بحال کیا جا سکے۔ غریبوں اور پسماندہ طبقوں کے سماجی مسائل میں دل چسپی‘ محنت کشوں اور طالب علموں کی یونینوں میں شرکت‘ نوجوانوں کی ثقافتی و علمی سوسائٹیوں اور کلبوں میں شمولیت‘ جمہوریت ‘ سیاسی آزادیوں اور حقوقِ انسانی کے احترام کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا‘ افریقی ‘ عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ تعاون--- اُمت ِ اسلامیہ کے مسائل و مشکلات میں ہمدردی‘ فلسطین سمیت دُنیا کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی حمایت‘ عورت کا احترام اور اقتصادی‘ سماجی ‘ ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں اس کے مثبت کردار کی توثیق‘ تاکہ معاشرے کی ترقی میں وہ بھرپور حصہ لے سکے۔
تحریک اسلامی ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر‘ پرُتشدد ذرائع کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ سیاسی و فکری اختلافات کے حل کے لیے اسلحے پر انحصار اُمت اسلامیہ کی پس ماندگی اور اس کے مسلسل بحرانوں کا سبب ہے۔ اس کے برعکس وہ گفتگو‘ مذاکرات اور پرُامن بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک فوج کا کام ملک اور قوم کا دفاع ہے نہ کہ انقلاب برپا کرنا۔ وہ دیگر اقوام کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تہذیبی مکالمے اور مشترکہ تعاون کی قائل ہے۔
صدر ابن علی کے انقلاب کی حمایت: ۷ نومبر ۱۹۸۷ء کو جب بورقیبہ کی جگہ حکومت کی باگ ڈور ابن علی نے سنبھالی جو اپنے پیش رو کا دست راست تھا لیکن تحریک اسلامی نے وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس انقلاب کی تائید کی۔ مگر اس تعاون کے باوجود حکومت نے اصلاحات اور وعدے پورے کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا بلکہ مجلس قانون ساز کے انتخاب کے موقع پر عوامی فیصلے کی توہین کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج میں صریح دھاندلی کی۔ اب حکومت تحریک اسلامی کو ختم کرنے اور جبرواستبداد قائم رکھنے کے ایک خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
سیاسی صورت حال : آزادی‘ جمہوریت اور حقوق انسانی کے سرکاری نعروں کے علی الرغم سیاسی صورت حال یہ ہے کہ حکمران دستور پارٹی اور مملکتی ادارے سیاسی زندگی پر مسلط ہیں‘ جب کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کو کچلا جا رہا ہے۔ حکمران مخالف سیاسی پارٹیوں کو ’’کنارے پر لگانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس سلسلے میں تشدد کے بدترین ذرائع اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے حزب اختلاف کے خلاف اطلاعاتی و سیاسی سرگرمیاں تیز تر کر رکھی ہیں‘ ان کے اخبارات بند کر دیے ہیں‘ ان کے اجتماعات پر پابندی ہے ‘ ان کے قائدین کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔ ان تمام قومی شخصیات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے ابن علی کا مدّمقابل بن سکتی ہیں۔ ان تمام اداروں کو ختم یا بے وقعت کیا جا رہا ہے جو عوام کو یک جا کرسکتے ہیں یا حکمران اقلیت کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جیسے جنرل لیبر فیڈریشن ‘ طالب علموں کے اتحاد‘ تونسی رابطہ براے تحفظ حقوقِ انسانی‘ آزادی صحافت اور مساجد۔ مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور محکمہ اطلاعات کو یک جا کیا جا رہا ہے تاکہ اس کا مرکزی کنٹرول فردِواحد(صدرمملکت) کے ہاتھوں میں ہو۔ حکمران ٹولے نے اپریل ۱۹۸۹ء میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کے ذریعے قومی حق کی توہین کی ہے۔ ان انتخابات میں عوام نے بھاری اکثریت سے تحریک النہضۃ کی حمایت کی تھی جس نے بالواسطہ طور پر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔
قانونی پیچیدگیاں: تیونس کا قانونی نظام‘ ظالمانہ قوانین پر مبنی ہے۔ یہ ظلم و زیادتی کے تمام مرتکب افراد کو مناسب سہارا فراہم کرتا ہے۔ چند ظالمانہ قوانین یہ ہیں: سیاسی پارٹیوں کے دینی بنیاد پر تسلیم کیے جانے کی ممانعت‘ سیاسی پارٹیوں پر وزیرداخلہ کا تسلّط‘ مخصوص قانونی شق کی رُو سے مساجد‘ جامعات‘ صحافت‘ انجمنوں‘ یونینوں اور انتخابات کے تمام مراحل کا وزارتِ داخلہ کے تحت ہونا۔ آزادیِ اختیارِ لباس میں مداخلت‘ عورتوں کے لیے حجاب اوڑھنے کی ممانعت کا قانون اور اس کے نتیجے میں باحجاب طالبات و خواتین کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے برطرف کرنا اور بے پردگی کی حوصلہ افزائی وغیرہ۔ اگرچہ ملک کے دستور میں نقل و حرکت کی آزادی کا اقرار کیا گیا ہے‘ تاہم قانوناً وزیرداخلہ کو نقل و حرکت پر پابندی یا اجازت کا اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ لاکھوں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ انجمن سازی وزیرداخلہ کے رحم و کرم پر ہے۔ چنانچہ سیکڑوں انجمنیں اور اخبارات حقِ وجود سے محروم کردیے گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے تھانوں میں روزانہ انسانوں کو تختہِ مشق ستم بنایا جاتا ہے اور یوں حقوقِ انسانی کی توہین کی جاتی ہے۔
ثقافتی مسائل: راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے حکومت ِ تیونس عربی اسلامی تشخص کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عملاً دین‘ اخلاق اور تحریک نہضۃ کو کچلنے کے لیے حکومت اپنے منصوبے پر سختی سے عمل کر رہی ہے۔ حکومت اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف حرکۃ النہضۃ پر جو سب سے بڑا الزام لگاتی ہے وہ ہے اس کا اسلامی تشخص‘ مگر دوسری طرف اس نے نہضۃ کے کافر ہونے کے فتوے بھی صادر کروائے ہیں۔ قانوناً تمام مساجد کو براہِ راست مملکت کی زیرنگرانی کردیا گیا ہے اور ان میں علما کرام کو عوام کی رہنمائی سے روک دیا گیا ہے۔ عمومی اور تربیتی اداروں کی تمام مساجد کو بند کر دیا گیا ہے جو ایک ہزار سے زیادہ ہیں۔ بہت سے اقدامات کے ذریعے عربی اسلامی تشخص کو ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے بے دین‘ اباحیت پسند اور سابق کمیونسٹوں کو تمام اداروں پر مسلط کر رہی ہے جو علانیہ نظریاتی تخریب کاری کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جب کہ ہزاروں اسلام پسند طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ کو تحریک اسلامی کے حامی یا ہمدرد ہونے کے الزامات کے تحت تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے۔ حکومت بائیں بازو کے انھی عناصر کو ساتھ ملا کر‘ دین اسلام اور معاشرتی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی کسی بھی ملک میں دورِاستعمار میں بھی مثال نہیں ملتی۔
ایک مکمل ثقافتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ابن علی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تاریخی تعلیمی ادارے جامع الزیتونہ وغیرہ میں درس کی اجازت دی تھی مگر اب یہ اجازت واپس لی جا چکی ہے۔ قرآن کریم کی تجوید کے مدرسے بند کر دیے گئے ہیں۔تمام غیر ملکی اسلامی رسالوں اور پرچوں کی ملک میں آمد ممنوع ہے۔ اسلامی کتب کی درآمد پر بھی پابندی عائد ہے اور ان کتابوں کو فروخت کرنے والے کتب خانوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ مارکسی عناصر اور سیکورٹی آفیسرز پر مشتمل قومی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کتب خانوں کی پڑتال کرتی ہے اور انھیں اسلامی کتابوں سے ’’پاک‘‘ کرتی ہے۔ اس انتہائی سرگرم کمیٹی کو وزارتِ ثقافت خصوصی تعاون فراہم کرتی ہے۔
صہیونیت کا پھیلاؤ: تیونس میں صہیونیوں نے اپنے کئی کلب قائم کر رکھے ہیں اور وہ (کم از کم تین بار) فلسطینی قائدین پر حملے کر چکے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا سیکرٹری اور کئی اعلیٰ عہدے دار بھی موساد کے ایجنٹ ہیں۔ اطلاعات و ثقافت کے میدانوں میں یہودی اثر و نفوذ بڑھ رہا ہے۔ صہیونی مالی ادارے تیونس کی فلم انڈسٹری کی مالی امداد کر رہے ہیں چنانچہ فلموں میں عریانی‘ بے حیائی اور اقدار سے آزادی بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی مخالفت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے‘ آنحضورؐ اور صحابہؓ کی توہین کی جا رہی ہے۔
امن و امان کی صورت حال: تیونس کا نظام دو بنیادوں پر چل رہا ہے: ۱- بیرونی قوتوں کی دست نگری و ماتحتی‘ ۲- پولیس کا ظالمانہ نظام۔ اس کے اثرات یہ ہیں: وزارت داخلہ کا بجٹ ہر وزارت سے زیادہ ہے۔ پولیس کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے کہ وہ جتنا چاہیں‘ مخالفین پر تشدد کریں‘ جیل میں ڈالیں‘ جان سے مار ڈالیں۔ حقوقِ انسانی کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود‘ قتل و تشدد میں ملوث ایک بھی شخص کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کے دوران صرف اسلامی تحریک کے گرفتارشدگان کی تعداد ۳۰ ہزار تھی۔ اس کے بعد بھی تفتیش اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تشدد کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد ۵۰ ہے‘ ان میں سے زیادہ تر کو‘ ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر دفن کر دیا گیا۔ تحریک نہضۃکے کئی قائدین‘ قیدِتنہائی میں رکھے گئے ہیں۔ وہ رابطے اور اطلاعات کے ہر ذریعے سے محروم ہیں۔ انھیں علاج معالجے کی سہولت بھی مہیا نہیں کی جا رہی۔ وہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہیں اور زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں۔ انھیں مکمل قیدتنہائی میں پڑے۴ ہزار دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حضرات اپنی مظلومیت کے اظہار کے لیے کئی بار بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔
یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں پر پولیس کا مسلسل محاصرہ اور قبضہ ہے۔ یونی ورسٹی ہوسٹلوں پر رات کے وقت حملے ‘ طلبہ اور اساتذہ کو دق کرنا اور طلبہ پر فائرنگ ایک معمول بن چکا ہے۔ طلبہ کی تنظیم ’’الاتحاد العام التونسی لطلبۃ‘‘ کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ حکومت تیونس نے بہت سے لوگوں کو اپنا مخبر اور جاسوس بنا رکھا ہے جواسے ہر طرح کی اطلاعات دیتے ہیں ۔ ان میں دکانوں‘ اداروں اور محلوں کے چوکیدار ‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘
قہوہ خانوں کے مالک‘ بلدیہ کے ملازم اور حکمران پارٹی کے ارکان شامل ہیں۔
روز افزوں مقبولیت: تحریک نہضۃ کے صدر اور جلاوطن راہنما شیخ راشد الغنوشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیونسی حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ تحریک اسلامی کی عوام میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ ملک کا کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد تحریک میں شامل نہ ہو۔ اب تیونس کی تمام سیاسی پارٹیاں تحریک نہضۃ کی طرف دست ِ تعاون بڑھا رہی ہیں اور تیونسی معاشرہ نہضۃ کے گرد جمع ہو رہا ہے۔
تیونسی حکمران اپنے بقول ’’اسلام پسند دہشت گردوں‘‘ کو ختم کرنے کا جامع منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ اسے پڑوسی عرب ممالک بلکہ پورے عالم اسلام کو برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے گذشتہ اجلاس میں تیونس نے یہ تجویز دی تھی کہ تمام مسلم ممالک میں ’’دہشت گردی‘‘ کو سختی سے کچل دیا جائے۔