جنوری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

تعلیم‘ قومی استحکام اور آئین

پروفیسر ملک محمد حسین | جنوری ۲۰۰۲ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت کیوں ہوا؟ بلاشبہ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ لیکن اگر مقتدر طبقے کی حماقتوں کے بعد سب سے بنیادی سبب کا کھوج لگایا جائے تو بات تعلیم اور استاد پر جا کر ٹھیرتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں اساتذہ کے انتخاب اور تقرر میں بے تدبیری اور تعلیمی عمل کے بارے میں چشم پوشی بلکہ اندھے پن نے وہ دن دکھایا جس کا کوئی پاکستانی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

آگے بڑھنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ کون کون سے عناصر ہیں جو ملکی استحکام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں؟ ان عناصر کی ترویج و ارتقا کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کیا قانون سازی کی گئی ہے؟ بحیثیت قوم ہم نے سیاسی اور انتظامی سطح پر ان قانونی ضابطوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ نتائج کیا سامنے آ رہے ہیں‘ اور ان برے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ملّی اور قومی استحکام کو تقویت دینے والے چند ایک عناصر یہ ہیں: l اسلامی نظریۂ حیات یا قومی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستگی‘ l قومی سطح پر مؤثر وسیلہ ابلاغ کا وجود اور اس کا احترام‘  l فکروعمل کی ہم آہنگی‘  l قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کا ماحول‘ l  معاشرے میں عدلِ اجتماعی کا چلن‘  l علم اور اہل علم کی توقیر و احترام۔

اسلامی نظریہ حیات: قومی استحکام کے لیے نظریۂ حیات کے ساتھ وابستگی کی کیا ضرورت ہے‘ اور بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے نے اس کے حق میں تاریخ عالم سے کیا دلائل فراہم کیے ہیں؟ اگرچہ اس  متفق علیہ نکتے کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ہم سب اس نظریۂ حیات سے واقف ہی نہیں‘ بلکہ اس کے پرجوش حامی بھی ہیں۔ ہمیں ذکر صرف اس بات کا کرنا ہے کہ آئین جو کسی قوم کا متفق علیہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اس میں اس سلسلے میں کیا بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔

۱۹۷۳ء کے آئین میں شامل قراردادمقاصد اور آئین کا آرٹیکل ۳۱ بڑی وضاحت کے ساتھ

تعلیم وتدریس میں اسلامی نظریہ حیات کی ترویج کا راستہ متعین کرتا ہے۔

آئین پاکستان کے الفاظ اس طرح ہیں:

       ۱-  پاکستان کے مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

      ۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل امور کے لیے کوشش کرے گی:

      (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا‘ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

       (ب)  اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور

       (ج)   زکوٰۃ (عشر) ‘ اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

مختلف حکومتوں نے قرارداد مقاصد اور مذکورہ آئینی آرٹیکل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے‘ اس کا مشاہدہ تعلیمی اداروں کے ماحول‘ نصاب و درسی کتب کے مندرجات‘ طلبہ کی تربیت کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کے کھلے چھپے رازوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن جو قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نہایت  وسیع الاثر استاد اور پورے ملک پر پھیلا ہوا کلاس روم ہے‘ قوم کے بچوں‘ نوجوانوں‘ مردوں اور عورتوں کو    صبح و شام جو تربیت دے رہا ہے اس پر نظرڈال کر دیکھ لیجیے کہ تعلیم و تربیت کی یہ ساری مشق دستور پاکستان کی شق نمبر۳۱ کا کس طرح مذاق اُڑا رہی ہے۔

اردو بطور ذریعہ ابلاغ: قومی سطح پر مؤثر ذریعہ ابلاغ سوائے اردو کے اور کوئی نہیں ہے۔ اردو نہ صرف پاکستان کے اندر رابطے کی زبان ہے‘ بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں میانمار (برما) سے لے کر افغانستان تک اور بھوٹان سے لے کر مالدیپ تک‘ حتیٰ کہ خلیج کی عرب ریاستوں میں بھی اردو ہی ایک مشترکہ زبان ہے‘ جو باہم ابلاغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح قومی آئیڈیالوجی کے نفوذ و ترویج کا موثر ذریعہ بھی اردو ہی ہے۔ لیکن قومی قیادت پر فائز طبقے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی زندہ اور باحمیت قوم کا شیوہ نہیں ۔ آزادی کے ۵۴ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم غلط سلط انگریزی میں سرکاری خط کتابت کیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں درست اور سمجھ آنے والی زبان‘ اردو کا حال یہ ہے کہ حکومت کی شب و روز کی کارروائی اس کے مقام و مرتبے کو کم کرتی جا رہی ہے۔ متعدد قومیتوں کا نعرہ تخلیق کر کے قومی زبان کو ایک خودساختہ ذیلی قومیت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اردو کے نفاذ کے لیے ۱۰ سال کی جو مدت رکھی گئی تھی‘ اسے مسلسل نظرانداز کیا گیا (بلکہ اس مدت کو گزرے بھی ۱۶ برس ہو چکے ہیں)۔ اس درست سمت کو چھوڑنے کے نتیجے میں اب انگریزی کی بالادستی اور علاقائی زبانوں کا تعصب اس قدر چھا گیا ہے کہ قومی رابطے کی زبان کے طور پر اردو کی اہمیت بھی ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو علاقائی تفریق اس قدر بڑھے گی کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے لیے خدانخواستہ غیر ملکی بن کر رہ جائیں گے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے خبط نے ایسے نوجوان    خواتین وحضرات کو میدانِ عمل میں پہنچانا شروع کر دیا ہے‘ جو انگریزی تو فرفر بولتے ہیں‘ لیکن وہ نہ اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف زبانی گفتگو کی حد تک انگریزی نما اردو سے آشنا ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض پھیلے گا اور نتیجہ اس کا جو نکلے گا اُسے بہ خوبی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ قومی استحکام کو غلط لسانی پالیسی کی وجہ سے جو خطرات لاحق ہیں‘ اسے پوری دلسوزی کے ساتھ محسوس کرنا چاہیے۔

فکروعمل کی ہم آہنگی: قومی نظریۂ حیات اور قومی رابطے کی زبان‘ فکروعمل کی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی زبان اور قومی نظریۂ حیات کو مختلف سطحوں کے نصابات اور درسی کتب میں سمونے اور سماجی شعور کی نشوونماکو نصاب و کتاب کے ذریعے آگے بڑھانا ضروری ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی ماحول کے تانے بانے نئی نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے‘ سائنس‘ ٹکنالوجی اور قدرتی وسائل سے فیض یابی کا نقشہ مستقبل کے ساتھ مربوط کرنے کا سارا کام قومی تعلیمی پالیسی اور قومی نصاب کا مرہون منت ہے۔ نصابات اور تعلیمی معیارات کا کنٹرول پاکستان کے آئین کی concurrent list کے ذریعے وفاقی وزارت تعلیم کے ہاتھ میں دیا گیا ہے تاکہ تعلیمی نظام میں یکساں نصاب‘ یکساں درسی کتب‘ یکساں معیارات اور یکساں قومی سوچ بروے کار لائی جائے اور اس طرح استحکام وطن کے تقاضے پورے ہوں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دستور کی ان آئینی شقوں کو ایجوکیشن ایکٹ نمبر ۱۰ آف ۱۹۷۶ء میں قانونی شکل دی ہے۔ جس میں انھوں نے بڑی صراحت اور دانش مندی کے ساتھ درج کیا ہے: ’’قومی نصاب‘ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں رائج درسی کتب‘ شعبہ نصابات‘ وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورشدہ ہوں گی۔ تعلیمی معیارات مقرر کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا اختیار وزارت تعلیم کے دائرہ اختیار میں ہوگا‘ نیز نصاب و کتاب میں کوئی ایسا مواد یا تصور نہیں دیا جا سکے گا‘ جو اسلام اور     نظریۂ پاکستان کے تقاضوں کے منافی ہو‘‘۔

سوال یہ ہے کہ اتنے واضح عہد‘ انتظامات اور اتنے مستحکم قانونی و دستوری فیصلوں کے باوجود ہو کیا رہا ہے؟

پبلک اسکولز اور نجی شعبے کے تعلیمی ادارے‘ پاکستان کے قومی نصاب سے مکمل آزاد ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ ‘آئین و قانون کے پاسبان اس جرم کے سب سے زیادہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ بیرونی اداروں کے نصابات رائج کرنے اور ان کے امتحانات میں طلبہ کو بٹھانے پر کوئی قدغن نہیں۔ بیرونی یونی ورسٹیوں سے الحاق اور ان یونی ورسٹیوں کے پاکستان میں ذیلی کیمپس کھولنے کی کھلی آزادی ہے۔ آئین پاکستان کی تعلیم سے متعلق شقیں اور ۱۹۷۶ء کا  ایجوکیشن ایکٹ بالاے طاق رکھا جا چکا ہے۔ وزارت تعلیم‘ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن اور اس طرح کے دوسرے قومی ادارے بالکل غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ اس بدترین شکست وریخت کے باوجود اگر ملّی اور قومی استحکام کا خواب دیکھیں تو کون ہے جو ہمیں عقل مند کہے گا۔ قوم کے اندر نئی نئی اقوام اور طبقے پیدا کرنے کا یہ نسخہ شاید کسی دوسری قوم کو اب تک نہیں سوجھا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ورلڈبنک‘ ایشین بنک‘ یونیسکو‘ یونیسف اور ترقی یافتہ ملکوں کے امداد دینے والے دیگر ادارے‘ نصاب و کتاب کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس دفعہ یلغار جنوب مشرق کی طرف سے نہیں‘ شمال مغرب کی طرف سے ہوئی ہے۔ نصاب و کتاب اور تدریسی مواد کے سلسلے میں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہمارے گورے آقائوں کے ’’مخصوص تعلیمی حملے‘‘کے نتیجے میں اپنی قسمت بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں نفوذ جاری ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے لادینیت اور نام نہاد لبرلزم کی ترویج‘ مغربی اقدار کا نفوذ‘ علم و تدریس سے زیادہ آوارگی پھیلانے کے منصوبے اور خاندانی بندھنوں کی توڑ پھوڑ ہمارے مغربی سرپرستوں کا ہدف ہے‘ جو وہ پوری دیدہ دلیری سے‘ فوجی اور سول بیوروکریسی کے فراہم کردہ تحفظ میں سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی یہ یلغار کہاں کہاں تک مار کر چکی ہے‘ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

افہام و تفہیم کا کلچر: جدت و اختراع زندہ قوموں کی تعمیر و ترقی اور استحکام میں اہم کردار   ادا کرتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ قومی تعلیمی و تربیتی نظام‘ بحث اور تحقیق میں وسعت قلبی کا جذبہ پیدا کرے۔  کھلے ذہن اور سائنسی تجزیہ و استدلال کے ساتھ اپنی رائے کو آگے بڑھانا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا‘ اسلامی معاشرے کی لازمی خصوصیت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم نہ تو جدید اداروں میں اس خاصیت کو پروان چڑھاتا ہے اور نہ قدیم طرز کے دینی اداروں میں اس نقطہء نگاہ کا چلن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم راوین‘ ایچی سونین‘ بیکونینز اور مسلک زدہ افراد تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل افراد  آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ تعصبات کے اس جنگل میں خود تعلیمی ادارے‘ طبقاتی‘ گروہی اور مفاداتی تعصب کے نقیب بن گئے ہیں۔ وسعت قلبی اور وسیع المشربی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ مگرانھیں علاقائی‘ نسلی اور مسلکی گروہ بندیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے ساتھ آزاد علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے کونسلوں اور سوسائٹیوں کا قیام اشد ضروری ہے‘ جو افہام و تفہیم کا ماحول مہیا کرسکتی ہیں‘ اور محدود تعصبات پر مبنی طلبہ کی گروہ بندیوں کا توڑ کر سکتی ہیں۔

سماجی عدل و انصاف کا راستہ: معاشرے میںعدل و انصاف کا قیام حکومت کی اولین   ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتیں ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ عدل و انصاف کے معدوم ہونے سے انفرادی سطح پر ہر شخص بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر قوم میں انتشار‘ افراتفری اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ سماجی انصاف کی خشت ِاوّل تعلیمی انصاف ہے۔ تعلیم کے ضمن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اجتماعی عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۳۷ میں اعلان کیا گیا ہے:

    الف- ریاست پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

     ب-  کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

      ج- فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابل دسترس بنائے گی۔

       د- مختلف علاقوں کے افراد کو‘تعلیم‘ تربیت‘ زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں‘ جن میں پاکستان کی سرکاری ملازمت بھی شامل ہے‘ پورا پورا حصہ لے سکیں۔

ذرا دیکھیے کہ آئین کے پاس داروں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آرٹیکل ۳۷ کے دستوری تقاضوں کے مطابق ۱۹۷۴ء میں میٹرک تک تعلیم کے لیے ہر قسم کی فیسیں ختم کر دی گئی تھیں لیکن جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے دوبارہ تعلیمی اداروں میں فیسیں اس طرح لاگو کر دی ہیں‘ کہ اب ان کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔

جنرل مشرف صاحب کی حکومت بھی دستور کی اس شق کے پرزے اڑانے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتی اور اسکولوں کالجوں کی فیسیں بڑھانے کا کام زیرعمل ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل ۳۷‘ جو تمام سماجی طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کی یکساں دستیابی اور میرٹ کی بنا پر قابل حصول ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے‘ اب دھن دولت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں قرض دینے والے غیر ملکی ادارے اعلیٰ تعلیم میںصارفین پر مالی بار ڈالنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں‘ وہاں خود پاکستانی سرکار نے سیلف فنانسنگ اور سیلف سپورٹنگ کا تحفہ دے کر اعلیٰ تعلیم کو دولت مند طبقوں کے تابع مہمل بنا دیا ہے۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ’’قابلیت کی بنا پر سبھی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول‘‘ [higher education equally accessible to all on the basis of merit: Article 37.c] جیسا زریں آئینی اصول اس صورت حال میں کہاں باقی رہا۔ رہی سہی کسر داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نے پوری کر دی ہے۔

جب عدل و انصاف کا معیار یہ رہ جائے کہ پاکستان کی نئی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ دادا جان کی جاے پیدایش پر استوار کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ہونا قرار پائے تو نئی نسل کے یہ ذہین نوجوان استحکام وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے یا اپنے دادا بابا کو کوسیں گے کہ خاکم بدہن کس سرزمین بے آئین میں اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل گنوا بیٹھے۔ انفرادی اور گروہی سطح پر‘ عدل اجتماعی کی نفی‘ مستقبل کے متعلق بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے قول کے مطابق: یہ غلامی سے بدتر صورت حال نئی نسلوں کو تعمیر سے زیادہ تخریب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو‘ صلاحیت و ذہانت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے کھلے ہوں تو خوش حال مستقبل کے متعلق یقین میں پختگی آتی ہے۔ انسان کی روحانی‘ سماجی اور معاشی جڑیں سرزمین وطن میں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ذہین اور باصلاحیت انسانوں کی شکل میں تن آور درخت‘ استحکام وطن کو ایسی ہر عریاں کاری سے بچاتے ہیں‘ جیسے سرسبز درخت زمین کو سایہ فراہم کر کے اسے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔

اہل علم ودانش کی توقیر: ذہانت اور صلاحیت وہبی بھی ہے اور کسبی بھی۔ علم اور اہل علم‘ ذہانت اور صلاحیت کو چمکاتے اور باثمر بناتے ہیں‘ وہ اسے پروان چڑھاتے اور اظہار کی مثبت راہیں مہیا کرتے ہیں۔ یہ اہل علم ودانش ہی ہیں جو قوم کے افراد ہی کو نہیں‘ بلکہ قوم کے رہنمائوں کو بھی غلط روی اور غلط کاری پر متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ اہل علم ودانش ایسی بریک کی مانند ہوتے ہیں جو قوم کی گاڑی کاٹائی راڈ کھل جانے کے باوجود اسے اپنی بصیرت و حکمت سے جانکاہ حادثوں سے بچا لیتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں علم و دانش اور اہل علم و دانش کو بے توقیر کر دیا جائے‘ ان کا احترام تو کجا انھیں توہین آمیز سلوک سے دوچار کر دیا جائے تو وہ معاشرہ تباہی اور انتشار کی آخری حدوں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم اور اہل علم کی توقیر ختم کر کے رکھ دی گئی ہے۔ زندہ قوموں میں بڑے بڑے زورآور‘ قوم کے علما اور اساتذہ‘ اہل علم و دانش کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ ان سے رہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اب تک ایسے افراد کی کھیپ کیوں تیار نہیں کر سکا جو آگے بڑھ کر قوم کے ہر شعبۂ زندگی کی قیادت کرتے۔ ہم اب تک علم و تحقیق میں کیوں کرشماتی کارنامے سرانجام نہیں دے سکے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تعلیم گاہ بھی تھانے اور تحصیل کی طرز پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی سوچ سے چلائی جائے گی تو اس سے حریت فکر کے حامل طلبہ اور اساتذہ کیسے پیدا ہوں گے۔

معاشرے میں ابلاغ عامہ کے ذریعے جس قسم کے اصحاب دانش کی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘ وہی دانش نشوونما پائے گی۔ آج ناچنے‘ گانے والے مسخرے اور نقال اداکار قوم اور قوم کی نئی نسل کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اہل اقتدار کی ساری شفقت ان پر نچھاور اور میڈیا تو ان کے تذکرے کے بغیر ادھورا ادھورا سا رہتا ہے۔ وہ کون سا اخبار یا رسالہ ہے جو شوبز کے نام پر قیمتی کاغذ ضائع نہیں کرتا۔ عزت و احترام اور حوصلہ افزائی کے ان معیارات کی روشنی میں اہل علم و دانش کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ اس صورت حال میں تعلیم اور اہل تعلیم کے ہاتھوں استحکام وطن کی توقع رکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

اس بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے تاکہ استحکام پاکستان کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جا سکے؟ اس سلسلے میں حکومت کی خدمت میں صرف ایک گزارش پیش کی جاتی ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پورے دستور پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور اگر سردست ایسا ممکن نہ ہو تو ترجیح اوّل کے طور پر دستور کے آرٹیکل ۳۱ اور ۳۷ پر ان کی پوری روح کے مطابق پورے اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ اہل اقتدار کو یقین رکھنا چاہیے کہ ان آرٹیکلزپر عمل درآمد نہایت دُور رس تعمیری اور مثبت اثرات پیدا کرے گا۔ اس کے برعکس غیر ملکی وسائل یافتہ اور مخصوص تہذیبی و سیاسی ایجنڈے کی حامل نام نہاد این جی اوز کی رہنمائی میں تیار کردہ تعلیمی منصوبے‘ تباہی کے سوا کچھ نہ دے سکیں گے۔