خاتون کا سوال تو یہ تھا کہ اگر ترجمان القرآن کے مطالعے اوردرس قرآن وغیرہ کا کوئی اثر تعلیم یافتہ شوہر پر نہیں ہو رہا تو ’’آپ معاشرے کے کن مردوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب مردوں کی ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا تو عورت کو بھی اندھیرے ہی میں رہنے دیں!‘‘ (رسائل و مسائل‘ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ جواب پڑھتی گئی کہ شاید آپ اس کا کوئی حل پیش کریں گے لیکن آپ نے اسلام کی ان تعلیمات کے بیان ہی پر اکتفا کیا جو سب جانتے ہیں۔ آخر اس کا فائدہ کیا ہے؟ آس پاس بہت سی مثالیں ہیں کہ گھروں میں عورتوں کو ان کے حقوق وہی مرد نہیں دے رہے جو اس کا خوب اچھی طرح علم رکھتے ہیں۔
آج امریکہ کی جانب سے برپا کردہ فسادعظیم کے مقابلے میں دنیا کی مملکتوں کے حکمرانوں کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق زورآور کی غنڈا گردی اور دوسروں کی کاسہ لیسی کا رویہ جاری ہے۔ ان حالات میں ترجمان القرآن ماہ اکتوبر ‘ نومبر‘ دسمبر ۲۰۰۱ء کے اشارات حق و صداقت کی مدلل آواز اور دنیا کے لیے ایک واضح آئینہ اور کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
’’مغربی میڈیا اور مسلم دنیا‘‘ ، ’’زکوٰۃ‘ تاریخ انسانیت کا جدید اور منفرد نظام‘‘ ، ’’شخصیت کے تعمیری اور اخلاقی عناصر‘‘ اور خرم مرادؒ کا مضمون ’’تلاوتِ قرآن کے آداب‘‘ (دسمبر۲۰۰۱ء) پرُمغز اور جامع مضامین ہیں جو اپنی افادیت کے لحاظ سے برموقع بھی ہیں۔ ’’افغانستان کا بحران‘ وقت کا تقاضا‘ خود احتسابی‘‘ میں پروفیسرخورشید احمد نے قابل تعریف حد تک لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ اللہ جزاے خیر دے۔ مضامین کی زبان عام فہم اور سادہ ہو‘ اس طرف بھی توجہ رہے۔
میں اُس وقت سے ترجمان القرآن کا قاری ہوں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور اس کی ادارت فرماتے تھے اور ہر ماہ ان کی ایمان افروز تحریر پڑھنے کو ملتی تھی۔ مولانا صحتِ زبان کے بارے میں بہت حساس تھے۔ اگرانھیں شبہہ ہوتا کہ کوئی لفظ غلط پڑھا جا سکتا ہے تو اس پر اعراب کا اہتمام کیا جاتا تھا تاکہ تلفظ غلط نہ ہونے پائے لیکن اب شاید وہ اہتمام نہیں رہا اور بعض اوقات غلط العام الفاظ بھی تحریر میں روانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر خورشید صاحب کے اشارات (دسمبر ۲۰۰۱ء) نظر سے گزرے۔ اس کے صفحہ ۸ پر پانچویں اور نویں سطر میں ایک محاورہ استعمال ہوا ہے: ہامی بھرنا لیکن اسے حلوے والی ح سے لکھا گیا ہے۔ حالانکہ حامی اسم صفت ہے جس کا مطلب ہے حمایت کرنے والا‘ یعنی اس لفظ کو یوں تو استعمال کیا جا سکتا ہے کہ میں اس بات کا حامی نہیں ہوں‘ لیکن اسے فعل کے طور پر یوں استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ میں اس بات کی حامی نہیں بھرتا۔ ہامی بھرنا بالکل دوسرے معنی رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے آمادگی ظاہر کرنا‘ کسی بات پر راضی ہو جانا۔ ممکن ہے پروفیسر صاحب نے درست لکھا ہو اور کمپوزر نے اپنے علم کے مطابق اس کی ’’تصحیح‘‘ کر دی ہو ۔ بہرکیف ترجمان القرآن جیسے معتبر جریدے میں اس قسم کی غلطی نظر میں کھٹکتی ہے۔
امام مجلات ترجمان القرآن میں ’’مدیر کے نام‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں جناب عبدالغفار عزیز کی جانب سے سہو کی نشان دہی خوش آیند ہے۔نہ صرف پسند آئی بلکہ اپنی بھی اصلاح ہوئی اور اُلجھن دُور ہوئی۔ جزاہ اللہ! میرا خیال ہے کہ تنبیہ اور گرفت کا یہ سلسلہ جسارت‘ فرائیڈے اسپیشل‘ ایشیا اور تمام تحریکی جرائد و مجلات تک وسیع ہونا چاہیے ورنہ اسی طرح ’’فی ضلال القرآن‘‘ (استغفراللہ) کا اشتہار مہینوں چھپتا رہے گا۔ آج بھی یا تو المرکز اسلامی پشاور چھپ رہا ہے یا پھر مرکز الاسلامی کوئٹہ۔ سمجھ میں نہیں آتا اسے سیدھے سیدھے المرکز الاسلامی یا مرکز اسلامی کیوں نہیں لکھا جاتا؟
’’انڈونیشیا میں مسلم مبلغات‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) کے حوالے سے قارئین کے لیے یہ امر دل چسپی کا باعث ہوگا کہ مجھے گذشتہ دنوں انڈونیشیا میں ہونے والی انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ۵۰ ممالک کی نمایندہ خواتین پر مشتمل بین الاقوامی این جی او ہے جو اقوام متحدہ کے اکنامک اور سوشل ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہے۔ راقمہ کی ایشین ریجن کی اسسٹنٹ سیکرٹری کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر مجلس تعلیم کی مرکزی تقریب میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ مجلس تعلیم اسلام پسند عورتوں کی تنظیم ہے۔ اس کی شاخیں انڈونیشیا کی ۲۷ ریاستوں میں ہیں۔ مرکزی تقریب جکارتہ کے سپورٹس اسٹیڈیم میں ہوئی۔ شرکا خواتین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔
بنگلہ دیش پر مضمون (نومبر ۲۰۰۱ء) کے حوالے سے عرض ہے کہ شاید یہ بات ہمارے اچنبھے کی ہو کہ ‘ آج کے بنگلہ دیش میں علامہ اقبالؒ کے کلام کا بنگلہ ترجمہ ایک سال میں اس قدر بڑی تعداد میں شائع ہو کر خریدا اور پڑھا جا رہا ہے‘ جتنا ۱۹۷۱ء سے پہلے ۲۰ برس میں بھی نہیں شائع ہوتا تھا۔ اسی طرح خود مولانا مودودیؒ کی کتب‘ جن کا پہلے ایک ہزار کا ایڈیشن کہیں پانچ سال میں فروخت ہوتا تھا ‘ آج ۱۵‘ ۱۵ ہزار کا ایڈیشن ایک ڈیڑھ سال میں فروخت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کا نام جس احترام اور عقیدت سے وہاں کے عوامی اور دانش ور حلقوں میں لیا جاتا ہے‘ اس نظارے کو دیکھنے کے لیے بنگلہ دیش کا سفر کرنا چاہیے۔ یہ درحقیقت ان فرزانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے‘ جنھیں بنگلہ دیش کے سرکاری تاریخ نویس چاہے جتنا برا بھلا کہیں‘وہ ان حالات سے مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے نظریۂ حیات اور دو قومی نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔