افراد کی کامیابی اور ناکامی‘ فوجوں کی فتح و شکست‘ قوموں کے عروج و زوال‘ حکومتوں کے بنائو اور بگاڑ اور تہذیبوں کے غلبے اور پسپائی کے کچھ اٹل ‘طبعی اور اخلاقی قوانین ہیں جن کی کارفرمائی زندگی کے ہر میدان اور تاریخ کے ہر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کی نگاہیں صرف طبعی عوامل پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن بالآخرطبعی عوامل کی تنگ دامانی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ کچھ دوسرے افراد صرف اخلاقی عوامل کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک طبعی اور اخلاقی دونوں عوامل کا مکمل اور مربوط ادراک نہ ہو حقیقت پر پوری گرفت ممکن نہیں___ اسی طرح حالات کا ہر وہ تجزیہ نامکمل ہوگا جو صرف فوری عوامل اور اثرات تک محدود ہو اور جس میں نہ حقیقی اسباب کا صحیح ادراک ہو اور نہ مستقل اور دیرپا نتائج کا شعور۔ افغانستان میں بہ ظاہر امریکہ کو فوجی کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت اسے تاریخ کی بدترین اخلاقی شکست ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور ان کی بے سروسامانی‘ سیاسی تدبر کی کمی اور عسکری حکمت عملی کی خامیاں تو بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اپنے اصول اور روایات کی پاس داری کے باب میں ان کی اخلاقی برتری سے انکار ناممکن ہے۔
افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کشی کا پہلا مرحلہ اب مکمل ہوا چاہتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے جس طوفان کو جنم دیا تھا اور جس نے ۷ اکتوبر کو افغانستان کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ ایک غریب‘ تباہ شدہ اور بدنصیب مگر غیرت مند ملک کو تقسیم کرنے کے بعد اپنی کامیابی کے شادیانے بجاتے ہوئے نئے سے نئے شکاروں کی تلاش میں کروٹیں لے رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کو ختم کر کے امریکہ نے بون مذاکرات کے ذریعے ایک نیا سیاسی بندوبست قائم کر دیا ہے جسے وہ اپنے نقشے کے مطابق تصور کرتا ہے اور اسے اپنے اور اپنے اتحادیوں کی عسکری قوت کے سایے میں مستحکم کرنے کی اُمید رکھتا ہے۔ طالبان کی قوت بہ ظاہر منتشر ہو گئی ہے‘ اسامہ بن لادن ابھی تک عسکری اور سیاسی غلبہ پانے والوں کی گرفت سے باہر ہیں لیکن ان کی القاعدہ تنظیم کے کچھ مجاہد خاک و خون میں لوٹ چکے ہیں اور دربدر ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جنرل کولن پاول فخر سے اعلان کر رہے ہیں کہ: ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے افغانستان کے کردار کو ختم کر دیا ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘(آئی ایچ ٹی)‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ امریکی سیکرٹری دفاع خود اپنے تباہ کردہ کابل پر شاہانہ نزول کے موقع پر نہ صرف فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا افغانستان سے صفایا کر دیا ہے اور ان کو پناہ دینے والی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ اس عزم کا اظہار بھی فرما رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت آیندہ بھی ان کے عزائم میں شریک کار رہے گی: ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور میں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہماری سوچ ایک ہی ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ اور امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس دوسرے شکاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں: کوئی بھی یہاں قبل از وقت فتح کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فتح صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب ساری دنیا میں القاعدہ کا جال توڑ دیا جائے گا۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)
گویا ایک مرحلہ پورا ہو گیا‘ آگے کے مرحلوں کا انتظار کرو--- یہ ہے ۱۱ ستمبر کو اٹھنے والے طوفان کی آج تک کی خبر۔ لیکن اس مرحلے پر جب اب تک کے اقدامات کا اس پہلو سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ امریکہ‘ عالمی برادری اور افغانستان اور خود ۱۱ ستمبر کے ذمہ داروںنے اس سارے خونی عمل سے کیا پایا اور کیا کھویا___ تاکہ آگے کے اقدامات سے پہلے‘ اگر غوروفکر اور تحلیلی تجزیے کا کوئی کردار ہے تو اسے پالیسی سازی کے لیے مفید مطلب بنایا جا سکے۔ دنیا کی اقوام اور لوگ محض جذبات کی رو میں آگے بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ رک کر تھوڑا سا جائزہ بھی لے لیں اور انسانیت کو بگاڑ کے مقابلے میں بنائواور بہتری کی طرف لے جانے کی فکر کر سکیں۔ وہ کم از کم آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی تیار ہو جائیں کہ خطرے کی خبر بھی خطرے سے بچنے اورپیش بندی کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔
۱۱ ستمبر کے واقعات کا جو بھی ذمہ دار ہے (اور سارے خون خرابے کے باوجود دنیا ابھی تک شبہات کی دھند سے باہر نہیں آ سکی) اس نے عالمی سطح پر ایسے حالات کو پیدا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے جن کے نتیجے میں سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے یا صحیح تر الفاظ میں: جس طرف مقتدر قوتیں اسے لے جانا چاہتی تھیں وہ ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح طالبان کے فیصلوں پر بھی مدتوں بحث و گفتگو ہوگی کہ وہ اگر ایسا کرتے تو کیا ہوتا اور ایسا نہ کرتے تو کیا ہو سکتا تھا۔ آج تو صرف ان میں کیڑے نکالنے ہی کی خدمت انجام دی جارہی ہے اور ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن ان کے سات سالہ دور حیات اور پانچ سالہ دور اقتدار کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں جن کے بارے میں تاریخ کا قاضی اپنا بے لاگ فیصلہ ایک نہ ایک دن ضرور دے گا۔ بظاہر وہ آندھی کی طرح اٹھے اور دو سال میں افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر بڑے پیمانے کی جنگ و جدل کے بغیر چھا گئے۔ ۲۰۰۱ء کے آخری تین مہینوں میں دنیا کی سب سے طاقت ور سوپر پاور کی یلغار اور اپنوں کے دبائو (جنھوں نے ہوا کا رُخ دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں) کے مقابلے میں ان کی مزاحمت دم توڑ گئی ___کچھ حلقوں میں ا ن کی اصول پرستی اور قبائلی روایات کی پاس داری کی باتیں ہوں گی تو کچھ کی نگاہ میں ان کی سیاسی ناپختگی اور عسکری بے تدبیری کی‘ بلکہ وہ اپنی تباہی کو خود دعوت دینے کے مرتکب بھی قرار پائیں گے۔ افغانستان کے تباہ شدہ کھنڈرات‘ بے یارومددگار لاشوں کے انبار اور بے گھر خاندانوں کے قافلے اپنی اپنی داستانیں سناتے رہیںگے جب کہ سوچنے والے سوچتے رہیں گے اور غم کرنے والے نوحہ کناں رہیں گے کہ:
غزالاں تم تو واقف ہو‘کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا‘ آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
اگر طالبان محض ایک حکومت تھے تووہ ختم ہو گئے اور اگروہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے تو تحریکیں محض سیاسی نشیب و فراز سے ختم نہیں ہوتیں۔ خود احتسابی کی یہاں بھی ضرورت ہے اور تاریخ ہر کسی کا احتساب برابر کرتی رہے گی۔ نئی حکومت کو بھی اپنے احتساب سے غافل نہیں ہونا چاہیے‘ نہ وہ انتظام ابدی تھا نہ یہ بندوبست مستقل ہو سکتا ہے: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جس نوعیت کی کش مکش میں آج افغانستان بلکہ پوری امت مسلمہ مبتلا ہے اس میںوقتی تبدیلیاں اور فتح و شکست فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہیںاور گمراہ کن بھی! جو بازی آج کھیلی جا رہی ہے اس کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کبھی جیت کر نہ جیتی‘ کبھی ہار کر نہ ہاری
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نیویارک‘ واشنگٹن‘ مزار شریف‘ کابل‘ قندھار اور تورا بورا ہی تک نگاہ کو محدود یا مرکوزنہ رکھیں بلکہ پورے عالمی تناظر میں نگاہ ڈالیں ۔گویا انگریزی محاورے میںصرف درخت ہی نہیں اس جنگل پر بھی نظر رکھیں جس کے یہ شجر صرف چند ہی شریک کار ہیں یعنی Seeing the wood and not merely some of the trees ۔ اس جوار بھاٹے کی آغوش سے جو افغانستان سیاسی نقشے پر ابھرنے والا ہے‘ اور جن حالات کی طرف اسلامی دنیا ہی نہیں ‘ تیسری دنیا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں پوری دنیا کشاں کشاں بڑھ رہی ہے‘ اس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ حالات دنیا بھر کے امن پسند اور انصاف کے طالب انسانوں کے لیے ایک گراں قدر لمحہ فکریہ فراہم کررہے ہیں___ اور مسلمان ممالک اور اسلامی قوتوں کے لیے تو یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔
۱۱ ستمبر کے بارے میں ایک جملہ میڈیا سے لے کر سیاسی قائدین اور کالم نگاروں تک سب ہی کی زبان اور نوک قلم پر گردش کر رہا ہے: ’’اس دن کے بعد دنیا بدل گئی اور زمانہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا‘‘۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہی جملہ اس سے پہلے بھی بہت سے تاریخی لمحات کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کے انہدام پر‘ ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کے موقع پر‘ ۱۹۱۷ء میں انقلاب روس کے غلغلے پر اور خصوصیت سے ۱۷۸۹ء کے انقلاب فرانس کے تاریخی لمحات کے بارے میں کثرت سے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انقلاب فرانس کے دو سوسال بعد چین کے دانش ور وزیراعظم چواین لائی نے برملا کہا تھا کہ انقلاب فرانس کے بارے میں ابھی یہ اظہار رائے ذرا قبل ازوقت ہی ہے! ابھی اور انتظار کرو۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بارے میں تو پتا نہیں ابھی کتنے انتظار کی ضرورت ہوگی___ لیکن کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر فوری غوروفکر اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے ۔
۱- اس واقعے کے بعد جس طرح صدر جارج بش نے امریکہ میں لام بندی کی ہے‘ جذبات کو ایک خاص انداز میںا بھارا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالم گیر جنگ کی نفیر دی ہے‘ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود جارج بش کی ذات کو پہنچا ہے۔ ان کی صدارت جس طرح وجودمیں آئی‘ وہ اخلاقی اور ایک حد تک قانونی جوازسے محروم تھی۔ چار ارب ڈالر کی انتخابی مہم کے بعد بھی عام ووٹوں کی حد تک ان کو اپنے مدمقابل سے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے۔ انتخابی کالج کے سہارے فلوریڈا کی ریاست کے ووٹوں پر‘ جہاں خود ان کے بھائی گورنر تھے‘ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار تھا۔ لیکن اس ریاست میں ووٹوں کی گنتی وجہ نزاع بن گئی۔ پھر تقریباً چھ ہفتے پر پھیلی ہوئی سیاسی اور عدالتی جنگ کا آغاز ہو گیا جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیںاور تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والے بہت سے کرتب اور معجزے امریکہ کی ترقی یافتہ جمہوریت کی قسمت کا فیصلہ کرتے نظر آنے لگے۔ بالآخر عدالت عالیہ کے ایک ووٹ کے سہارے ان کو صدارت مل گئی۔ یہ عدالت بھی ججوں میں اس طرح تقسیم تھی کہ ایک پارٹی کے دور کے نامزد جج ایک طرف اور دوسری پارٹی کے نامزد دوسری طرف۔ نتیجتاً صدر بش کی صدارت حلف صدارت کے باوجود حقیقی سندجواز کی تلاش میں تھی۔
۱۱ ستمبر نے وہ نادر موقع فراہم کر دیا اور چند گھنٹے زیرزمین اور چند گھنٹے آسمان کی فضائوں میں حفاظت کی تلاش کے بعد وہ واشنگٹن پر نازل ہوئے اور قوم کے جذبات کو ایک نئی جنگ کے لیے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ۲۰ ستمبر کو دونوں ایوانوںکے خطاب نے ان کو ایک نئے فراز سے نوازااور جسے نصف سے کم ووٹوں کے نصف سے بھی کم کی تائید حاصل تھی وہ ۸۲ فی صد کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس تائیدی لہر پر دنیا بھر کو اپنے جھنڈے تلے لانے اور افغانستان پر حملہ کر کے قوم کے جوش انتقام کو سرد کرنے میں مصروف ہو گیا۔ان کے گرد عقابوں (hawks)کا دائرہ مضبوط تر ہوتا گیا اور ایک جرأت مند اور جنگجو صدر بلکہ فاتح صدر کی حیثیت سے ان کا سر بلند ہو گیا۔ ۱۱ ستمبر کے پیچھے جو ناکامیاں اور خصوصیت سے سیاسی اور خفیہ ایجنسیوںکی کوتاہیاں تھیں‘ ان سب پر پردہ پڑ گیا اور دنیا کے سب سے کمزور اور پس ماندہ ملک افغانستان‘ ایک فرد واحد (اسامہ بن لادن) اور اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں پردنیا کی واحد سوپر پاور نے اپنی تمام عسکری‘ تکنیکی‘ عددی‘ معاشی اور ابلاغی (media)قوت کے ساتھ حملہ کیا اور دو چار دن نہیں پورے دو مہینے میں اسے مغلوب کر دینے کا ’’تاریخی کارنامہ‘‘ انجام دیا۔ گویا مرے کو مارے شاہ مدار! اس ’’عظیم فتح ‘‘نے ماضی کی تمام ہزیمتوں کو دھو ڈالا اور امریکہ اور اس کے صدر کے لیے کامیابیوں اور عالمی بالادستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ یہ ہے وہ شے جسے American triumphalism (فتح ہمیشہ امریکہ کی)کہا جا رہا ہے اور سوپر پاور خوشی اور فخر سے جامے میں پھولی نہیں سما رہی !
۲- ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی سے جس ضرب پذیری کا اظہار ہوا تھا اس طرح اس کا تدارک بھی ہو گیا۔ گویا کمزوری اور زخم خوردگی کا احساس ختم ہوا اور امریکی قوت کا دبدبہ ایک بار پھر قائم ہوگیا۔پھر اس میںتین پہلو ایسے مزید سامنے آئے جن کی وجہ سے امریکہ کو بلاشرکت غیرے دنیا کی بالاترین قوت ہونے اور اپنی اس حیثیت کو ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔ اولاً: دوسرے ۴۰‘۵۰ ملکوں کا طوعاً وکرہاً امریکہ کے اشارے پر صف بند ہو جانا‘ ثانیاً: افغانستان کی جنگ میںایسی ٹکنالوجی کا استعمال جس نے فنی اعتبار سے امریکہ کو‘ افغانستان تو بے چارہ کس شمار قطار میں تھا‘ یورپ اور امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں بھی ان سے انچوں نہیں گزوں بلند ہونے کے مظاہرے کا موقع مل گیا۔ لڑاکا طیارے ہوں یا جاسوسی کا نظام‘ بم ہوں یا جنگ کا دوسرا اسلحہ‘ ہر باب میں امریکہ نے گذشتہ دس سال میں جو غیر معمولی ترقی کی تھی اس کا بھرپور اظہار ہوا ۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کی جنگ فلوریڈا سے بیٹھ کر لڑی جا سکتی ہے اور ایک ایک غار اور ایک ایک نشانے پر مار کرنے کا حکم آٹھ ہزار میل دُور سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایک دوسری ہی قسم کی جنگ تھی جس نے روایتی جنگ کے سارے طور طریقے بدل کر رکھ دیے۔ اب نہ مدمقابل سے لڑنے کی ضرورت ہے‘ نہ زمینی فوجوں کی حاجت ہے۔ بس فضا سے آگ برساتے رہو اور مقابل قوت کو پارہ پارہ کر دو۔ دو دو ہاتھ کرنے کا جن کو شوق ہو‘ وہ شوق دھرے کا دھرا رہ جائے۔ حتیٰ کہ اگرجیل میں قیدیوں کو بھی زیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی آسمان ہی سے آگ برسائی جا سکے۔ انسانوں کے بغیر مشینوں کے ذریعے ساراکام لیا جائے‘ معلومات کا بھی اور بم برسانے کا بھی۔ اس سے جنگ کی پوری بساط ہی بدل جاتی ہے۔اب اس میدان میں بہ ظاہر امریکہ کا کوئی حریف نظر نہیں آ رہا۔ اس سے تیسرا پہلو یہ ابھرا کہ اب لڑائی حملہ آور قوت کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دیے بغیر فتح کا پیغام لا سکتی ہے۔ ساری جانی قربانی مقابل فریق کو دینی ہوتی ہے۔ جنگ بھی بڑی حد تک یک طرفہ ہوگی۔ اس طرح امریکہ کو صرف فوجی اور سیاسی فتح ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ فنی مہارت اور ٹکنالوجی کی بالادستی کا وہ مقام بھی حاصل ہو گیا جس نے اسے ایک بار پھر ناقابل تسخیر (invincible) ہونے کے زعم اور اعتماد سے نواز دیا۔
۳- امریکہ نے دوسروں کو ساتھ رکھنے کا محض تکلف کیا ‘جب کہ دراصل یہ سارا کھیل امریکہ اور صرف امریکہ کا مرہون منت تھا۔ اولین فیصلہ بھی امریکہ نے تن تنہا کیا اور ساری سیاسی اور عسکری مہم بھی عملاً اس طرح چلائی کہ سب کچھ اس کے اشارہ چشم و آبرو کا کرشمہ تھا۔ ایسے نازک لمحات بھی آئے جب برطانیہ کو بھی جو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا‘ بار بار جھینپ کر قدم پیچھے ہٹانے پڑے اور فوجوں کو میدان میں اترنے کی ہدایات دے کر واپس بلانا پڑا۔ یہی کیفیت بون کے سیاسی مذاکرات کی میز پر بھی رہی اور یہی رنگ ڈھنگ کارزار جنگ کا تھا کہ نئے وزیراعظم کو امان دینے کے بعد امان تک واپس لینا پڑی۔ یوں ایک ہی ملک اور ایک ہی روایت کے دو کردار سامنے آ گئے‘ ایک نے امان کی خاطر ملک دے دیا اور دوسرے نے ملک کی خاطر امان کی فکر نہ کی۔ ایک امریکی سیاسی تبصرہ نگار چارلس کروتھامیر (Charles Kreuthammer) نے جو واشنگٹن پوسٹ میں مسلسل لکھتاہے امریکہ کے اس ’انا ولاغیری‘ والے کردار کی بڑے طمطراق سے عکاسی کی ہے۔ وہ آنے والے ۵۰ برسوں میں دنیا کی جو خاصی واضح تصویر دیکھ رہا ہے‘ ہمارے سامنے لاتا ہے: ایک ایسی دنیا جس میں کسی ملک کے شہریوں کو‘ سوائے امریکہ کے‘ جوہری حملوں یا ماحولیاتی نقصان سے تحفظ حاصل نہ ہو‘ ایک ایسی دنیا جہاں اگر نتائج امریکی مفادات کے خلاف ہوں تو جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ایک ایسی دنیا جس میںان مفادات سے اختلاف کا اظہار دہشت گردی کا ٹھپا لگا دے ‘ اور نگرانی‘ ظلم و جبر اور ہلاکت کا جواز فراہم کرے۔ America Rules OK) دی گارڈین ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)
۴- اس ذہنی فضا کو پیدا کرنے میں امریکی میڈیا نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سیاسی قیادت اور میڈیا دونوں نے حب الوطنی کے جذبے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید جذباتی فضا پورے ملک میں قائم کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ انصاف ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور سیاسی اختلاف کو غداری کا نام دیا گیا ہے۔ میڈیا نے افغان جنگ کے صرف وہ مناظر دکھائے ہیں جن سے امریکی فتح کی نوید ملتی ہے۔ جو ظلم وہاں کے عوام پر ہوا ہے اور جس طرح ملک کو تباہ اور معصوم انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے ان مناظر کو پالیسی کے طور پر بلیک آئوٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ قلعہ جھنگی میں زیرحراست سیکڑوں انسانوں پر بم باری اور ان کے قتل عام کی ایک جھلک بھی ٹی وی اسکرین پر نہیں آنے دی گئی ہے۔امریکہ میں راے عامہ کو سیاسی مصالح کا قیدی بنا کر جمہوریت کے اس کرب ناک پہلو پر سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔ ملک کو جس تقلید بالجبر (conformism) کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور جسے عوامی تائید کا نام دیا جا رہا ہے وہ دراصل ایک مصنوعی اور سوچے سمجھے انداز میں راے عامہ کی تشکیل کا کارنامہ ہے جسے چومسکی نے manufactured consent (ساختہ رضامندی) کا نام د یا ہے۔ اس پر خود امریکہ کے لوگ اب دل گرفتہ اور نوحہ کناں ہیں۔
۵- امریکی قیادت نے ایک اور کامیابی بھی گھریلو محاذ پر حاصل کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو قانون سازی معرض التوا میں پڑی ہوئی تھی‘ خصوصیت سے دفاعی بجٹ کے سلسلے میں‘ وہ چشم زدن میں دونوںایوانوں سے منظور کرائی جاسکی ہے۔ بجٹ میں دفاع اور انٹیلی جنس کے لیے علی الترتیب اصل مطالبہ زر سے ۵۰ اور ۲۰ ملین ڈالر زیادہ حاصل کر لیے گئے ہیں۔ قومی دفاعی چھتری کا جو منصوبہ ڈانواںڈول تھا وہ بھی منظور کرا لیا گیا ہے۔ اے بی ایم کے جس عالمی معاہدے سے نکلنے کے لیے پر تولے جا رہے تھے‘ ان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ توانائی کے باب میں اس کی صنعت کے جو مطالبات تھے وہ بھی پورے ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں ساری مخالفت پادر ہوا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمپنی Eron جس سے بش فیملی‘ ڈک چینی (نائب صدر) اور حکمران گروہ کے نصف درجن افراد وابستہ رہے ہیں وہ ملک کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہو گئی لیکن کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا ۔ یہ سب کچھ حب الوطنی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی دھول میںگم ہو گیا ہے۔
جارج بش اور امریکی انتظامیہ کی یہ وہ بڑی بڑی کامیابیاں ہیں جو اسامہ بن لادن ‘ القاعدہ اور طالبان کے نام پر حاصل کی گئی ہیں۔ان کی بنیاد پر ’’تہذیب‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور جمہوریت‘‘ کی خاطر ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر ہو رہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے ان رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور وہ سارے بند اس ریلے میں بہہ گئے جو امریکہ کے عالمی عزائم کے اظہار اور ان کے حصول کے لیے جارحانہ اقدام کی راہ میں حائل تھے۔ بہ ظاہر یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دراصل یہ دہشت گردی کے خلاف واویلے کی آڑ میں ایک نئی سامراجی جنگ کا آغاز ہے جس کا پہلے ہدف مسلمان ممالک اور خصوصیت سے اسلامی احیا کی تحریکیں ہیں۔ بالآخر اس کا مقصد دنیا کے سارے ہی ممالک پر مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی بالادستی کا قیام‘ ان کے وسائل پر مکمل قبضہ‘ مغربی اور صہیونی استعمارانہ نظام سرمایہ داری کے خلاف سیاسی آزادی کی تحریکوں اور سیاسی اور اداراتی احتجاج کی جدوجہد کو لگام دینا اور انھیں نئے عالمی نظام کے آگے سپر ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑے منصوبے (grand design)کے سارے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں:
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
امریکہ اور مغربی اقوام جو کچھ حاصل کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ‘ لیکن ان چند مہینوں میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور ان کے تانے بانے سے عالمی سیاست اور نئے نظام کا جو نقشہ اُبھر رہا ہے وہ اپنے دامن میں انسانیت کے لیے بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ فتح کے شادیانوں کے جلو میں جو طوفان مغرب اور مشرق کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے‘ تہذیب و تمدن کے دفاع کے نام پر تہذیب و تمدن کو جن خطرات سے دوچار کیا جا رہا ہے اور امن و انصاف کے باب میں جو کچھ انسانیت نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھااسے جس طرح معرض خطر میں ڈالا جا رہا ہے اس کا ادراک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلمان تو نشانہ خاص ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نئی یلغار کی زد میں پوری انسانیت ہے۔ آج امریکہ کے طاقت ور طبقات پوری دنیا کو‘ حتیٰ کہ خود اپنے اور یورپی ممالک کے عام انسانوں کو بڑے ہی پرفریب انداز میں ایک نئی غلامی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان مہیب سایوں کا اس وقت ادراک نہ کیا گیا تو تاریکی پورے انسانی اُفق پر چھا سکتی ہے‘ ایک نئے تاریک دور (dark ages)کا آغاز ہو سکتا ہے اور مسلمان ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و انصاف پسند انسان بڑے خسارے اور بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور جس کا پہلے ہدف افغانستان بنا ہے اور القاعدہ کے ہاتھ نہ آنے والے کارکنوں کی تلاش میں جس طرح درجنوں ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں وہ ایک ایسا جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا نہیں اُلٹا۔ جس چیز کے خلاف امریکہ لڑ رہا ہے اس کی کوئی واضح اور متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ اقوام متحدہ بار بار کوشش کے باوجود کسی ایک تعریف پر متفق ہونے میں ناکا م رہی ہے اور ابھی ۱۱ ستمبر کے بعد بھی جنرل اسمبلی ایک اور کوشش کر کے ناکام ہو چکی ہے۔ خود امریکہ کی ۲۰ سے زیادہ سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کرنے والے شکایت کناں ہیں کہ ان میں کہیں بھی اس کی متعین تعریف نہیں دی گئی۔ مختلف دستاویزوں میں مختلف اعمال اور سرگرمیوں کو دہشت گردی کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو روہینی ہینس مین (Rohini Hensman) کا مضمون Only Alternative To Global Terror (Economic and Political Weeklyنومبر ۲‘ ۲۰۰۱ء‘ صفحہ ۴۱۸۴)
اسی طرح نیلسن منڈیلا نے ۷ اکتوبر کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ میں کہا ہے کہ میں ایک زمانے میں دہشت گرد تھا اور اس کے بعد سربراہ مملکت۔ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں‘ کسی کو علم نہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف پالیٹکس کے مطابق امریکی ڈالروں پر شائع ہونے والی جارج واشنگٹن کی تصویر بھی آزادی کے سپاہی کی یا کسی دہشت گرد کی ہوتی ہے (ص ۴۹۳)۔ گویا لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ!
دراصل جو سوال پوری انسانیت کے لیے بڑا اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے میں جس کو متفق علیہ طور پر متعین نہیں کیا گیا اورنہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کسی ملک یا گروہ کو یہ اختیار کیسے مل جاتا ہے کہ جس پر چاہے حملہ آور ہو جائے اور جس فرد‘ گروہ‘ تنظیم ‘ حکومت حتیٰ کہ ملک کو تباہ کرنا چاہے کر ڈالے ۔ انسانیت کو اس سے زیادہ بڑا خطرہ اور کون سا ہو سکتا ہے!
دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کا ایک مفہوم متعین بھی کر لیا جائے تو یہ کون طے کرے گا کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کس نے اس کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر گرفت کس طرح کی جائے؟ اور معقول اور متناسب سزا کیا ہو سکتی ہے؟مسئلہ ہر ملک کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر اور عالمی شراکت کے ساتھ بھی۔ ہر دو صورتوں میں کسے یہ اختیار ہے کہ کیا اقدام دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کرے۔ ملک کے اندر یہ کام محض انتظامیہ کا نہیں بلکہ ملک کے قانون اور عدالتی نظام کا ہے جس میں انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے اور عدالت جرم کی تحقیق اور سزا کا تعین کرے۔ دہشت گردی کا مقابلہ اگر دہشت گردی کے ذریعے کیا جائے تو معاشرہ اور بالآخر دنیا جہنم بن جائے گی۔ اگر دہشت گردی کی عالمی پہنچ ہو تو یہ کام کسی بین الاقوامی عدالتی نظام ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کی گردن مارنا شروع کر دے۔
یہ تو پوری دنیا کو تباہی میں جھونکنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا۔ عملاً امریکہ نے ۱۱ ستمبر کے بعد یہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ آج افغانستان کا جو حشر ہوا ہے کل وہی کسی اور ملک کا بھی ہو سکتاہے۔ امریکہ کی انتظامیہ کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جس طرح تھوک کے بھائو سے افراد اور تنظیموں پر پابندیاں لگا رہی ہے اور دوسرے ممالک کو پابندیاں لگانے پر مجبور کر رہی ہے‘ وہ عالمی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔
نوام چومسکی نے اپنے حالیہ دورہ بھارت و پاکستان میں بار بار اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ بن لادن دہشت گرد ہے مگر اس کی دہشت گردی ابھی شبہے ہی کے زمرے میں ہے اور معروضی نظام کے تحت ثابت نہیں ہوئی مگر جو کچھ صدر بش نے کیا ہے وہ ثابت شدہ دہشت گردی اور بن لادن کی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔ بھارت کے جریدے فرنٹ لائن کا رپورٹر لکھتا ہے:
جب چومسکی نے زور دے کر کہا کہ امریکی صدر‘ اسامہ بن لادن سے زیادہ بڑے دہشت گرد ہیں‘ اس لیے کہ اسامہ کے خلاف امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جب کہ افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل امریکی صدر کے خلاف ثبوت ہے تو ہال میں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء)
حقیقت ہے کہ جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ امپریلزم کی تاریخ میں ایک سیاہ اور ہولناک باب کا اضافہ ہے۔ امریکہ کی اس جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کے امن کے لیے شدید خطرات کو جنم دیا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ گو اس سلسلے کو روکنے کی کوئی موثر کوشش نہ ہوئی تو دنیا ایک عالمی عدم استحکام (Global destabilization)کی طرف دھکیلی جا رہی ہے۔ عالمی امن اور انسانوں اور اقوام کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے جو بھی کوششیں پچھلی صدی میں ہوئی ہیں وہ معرض خطر میں ہیں۔ انسانیت ایک بار پھر بڑی تیزی سے ’’جنگل کے قانون‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس ترقی معکوس کی سراسر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ آزادی کے لیے جنگ‘ ایمان اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مزاحمت‘ بیرونی قبضے کے خلاف لڑائی ‘ انسانیت کے بنیادی حقوق میںسے ہیں جو ظلم کے خلاف برسرپیکار ہونے کے لیے قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں جب کہ دہشت گردی کے شبہے اور احتمال کی بنیاد پر دوسروں پر حملہ انسانیت کے خلاف جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حقیقی دہشت گردی اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق نہ کیا گیا تو پھر جو ظالم اور جابر ایک بار کسی ملک یا قوم پر مسلط ہوگیا اس سے نجات کی کیا راہ باقی رہ جائے گی۔ امریکہ نے جو کچھ افغانستان‘ طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف کیا ہے اس کانہ قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔
۳- دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح کا استعمال بھی ایک ناروا اقدام اور معروف قانونی اور سیاسی ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ جنگ کا بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون میں ایک واضح تصورہے۔ استعارے کے طور پر غربت کے خلاف جنگ اور بیماری اور جہالت کے خلاف جنگ کا استعمال کیا جاتا ہے مگر فوج کشی کے معنی میں جنگ کا استعمال نہ ان میں سے کسی کے بارے میں جائز ہے اور نہ دہشت گردی کے لیے۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور اس کے خلاف اقدام قانون اور نظام انصاف (judicial process)کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ اور خود امریکہ نے ‘خواہ ٹریڈ ٹاور میں ۱۹۹۳ء کی دہشت گردی کا معاملہ ہو یا اوکلاہاما کا ۱۹۹۵ء کا واقعہ جس میں ۱۶۰ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے ‘یا اس کے اپنے بحری جہاز ایس ایس کول پر حملہ جس میں ۱۷فوجی ہلاک ہوئے‘ یا پان امریکن جہاز کا اغوا اور تباہی جس میں ۲۵۰ افراد مارے گئے___ ان سب جرائم کا تعاقب قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے کیا گیا لیکن اب ایک من مانے انداز میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف جو اقوام متحدہ کا رکن ہے جنگی جارحیت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اس کی حکومت کو بہ زور بدلنے کا کام پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بدلنے یا re writeکرنے کی ایک مذموم اور تباہ کن کوشش ہے جو مستقبل میں عالمی امن کو تہ و بالا کرنے کا باعث ہوگی۔
۴- بین الاقوامی قانون کی یہ خلاف ورزی صرف دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کم از کم آٹھ ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتا ہے۔
۵- امریکہ جس راستے پر چل پڑا ہے نظر آرہا ہے کہ افغانستان صرف پہلا قدم ہے۔ عراق‘ صومالیہ‘ یمن‘ شمالی کوریا‘ سوڈان کا تو کھلا کھلا ذکر کیا جا رہا ہے اور پرتولے جا رہے ہیں کہ اگلا نشانہ کون ہو۔ پھر سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور پاکستان کی باتیں بھی دبی زبان سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت یہ سب ملک کولیشن میں شمار کیے جا تے ہیں لیکن درپردہ ان سب کے بارے میں بڑی خطرناک منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس کی کچھ جھلکیاں سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم جاری ہے اور ابھی واضح نہیں کہ اس کا مقصد وہاں کے نظام کی تبدیلی ہے یا صرف بلیک میل جیسا کہ ایران میں ۷۰ کے عشرے میں کیاگیا تھا۔ شام اور ایران بھی زد میں ہیں۔ پاکستان جس کو اس وقت دلیر ساتھی قرار دیا جارہا ہے اور اس کی فوجی حکومت اب جمہوریت دوست شمار کی جا رہی ہے لیکن اس کے نیوکلیر نظام و تنظیمات پر قبضے‘ نگرانی‘ اثر اندازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور فوج اور عوام میں اسلامی رجحانات کو لگام دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ فلپائن اور انڈونیشیا کا بھی ذکر ہے اور ۴۰ سے ۶۰ ممالک کو القاعدہ کے سلسلے میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ بات صرف القاعدہ کی نہیں‘ ہر وہ ملک جس سے امریکہ کے مفاد کو کسی شکل میں بھی خطرہ ہو اسے دہشت گردی کے نام پر مطیع بنانے کی کوشش ہے۔
بات صرف دہشت گردی کی نہیں‘اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو پیدا کرنے والی سب سے اہم قوت نام نہاد مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تعلیم کا نظام ہے اور جب تک ان کو ختم نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ بڑی ہوشیاری اور سائنسی اندازسے اسلام‘ اسلامی احیا کی تحریکوں‘ اسلامی فلاحی اداروں اور دینی تعلیمی نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور وعظ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں ’اصلاح مذہب‘ (reformation)کی ضرورت ہے‘ مذہب اور سیاست کی تفریق وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور ترقی کا اہم ترین ذریعہ ہے‘ سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کے فروغ کے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔ یہ سارا کام ایک وسیع تر عالم گیریت اور جدیدیت کا حصہ ہے اور پوری دنیا کی نجات اس پیکج کو اختیار کرنے میں ہے ورنہ اسے اس پر مسلط کیا جائے گا اور یہ سب امریکہ کے اپنے دفاع (self defense) ہی کا ایک حصہ ہے۔
نیوزویک‘ ٹائم‘ اٹلانٹک اور تمام اہم روزنامے تک ایسے مضامین‘ ادارتی تبصروں اور خطوط سے بھرے ہوئے ہیں جن میں جہادی کلچر‘ سیاسی اسلام (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) پر کاری ضرب لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ نئے سامراج کا ایجنڈا ہے جس کے چار بڑے بڑے میدان ہیں:
ا - سیاسی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کہ یہ بالادستی اکیسویں صدی میں قائم رہے اور اس کے لیے کوئی حریف رونما نہ ہونے پائے۔
ب- امریکہ کی فوجی برتری اور اس کو نہ صرف ناقابل تسخیر رکھنا بلکہ ساری دنیا میںاس کی موجودگی یا اس کے قائم مقاموں (surrogates)کی حفاظت جو اس کے آلہ کار کے طور پر کام کر سکیں اور دنیا کا نقشہ ان خطوط پر قائم رکھ سکیں جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ نیز اس بات کی ضمانت کہ کسی شکل میں بھی ایسی عسکری صلاحیت دوسرے ملکوں میں پیدا نہ ہو جو امریکہ اور اس کے حواریوں خصوصیت سے اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکے۔
ج- دنیا کے معاشی وسائل پر امریکہ‘ اس کے اتحادیوں اور اس کے زیراثر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور این جی اوز کا قبضہ۔اس سلسلے میں فیصلہ کن تیل اور گیس کے تمام اہم ذرائع اور ترسیل کے راستوں پر قبضہ ہے۔
د - تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالم گیر غلبہ اور دین و مذہب خصوصیت سے اسلام کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے امکانات کو معدوم کرنا۔
نئے سامراج کا یہ ایجنڈا کسی پردے کے بغیر اب سرعام پیش کیا جا رہا ہے اوراس پر عمل کرانے کے لیے پروپیگنڈے سے لے کر عسکری قوت تک ہر حربہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔
امریکی سامراج کے یہ عزائم تو پہلے بھی تھے مگر حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان عزائم کو نئی زندگی اور ان پر عمل کو نئے امکانات فراہم کر دیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا دہشت گردی کا آغاز ۱۱ ستمبر سے ہوا؟ اور کیا افغانستان اور القاعدہ کی تباہی سے دہشت گردی روے زمین سے فنا ہو جائے گی؟ جسے بنیاد پرستی کہا جا رہا ہے کیا اس کا وجود صرف مسلم دنیا میں ہے یا خود امریکہ میں بنیاد پرستوں کی ایک نہیں درجنوں تحریکیں کارفرما ہیں؟ کیا خود جارج بش کی صدارت کے پیچھے امریکی بنیاد پرستوں کا کوئی کردار نہیں؟ کیا اسرائیل کی لیکود پارٹی اور وزیراعظم شیرون صہیونی بنیاد پرستی کے بدترین مظاہر نہیں؟ کیا بھارت کی بی جے پی‘ آر ایس ایس اور وشوا پریشد ہندو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں انتہا پرستی موجود نہیں اور کون سا دورہے جو انتہا پرستی سے پاک رہا ہے۔
پھر دہشت گردی کے خلاف تو بہت کچھ بخار نکالا جا رہا ہے مگر اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ حقیقی اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی اقوام کے خلاف نفرت کے طوفان امنڈ رہے ہیں‘ سرمایہ داری کے خلاف لاوا پک رہا ہے‘ مظلوم انسانوں کی ایک تعداد مایوس ہو کر اپنی جان تک پر کھیلنے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ دہشت گردی ایک معمول کی کارروائی نہیں‘ ایک غیر معمولی رویے کی مظہر ہے‘ اس کو نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے جب تک ان اسباب کا کھوج نہ لگایا جائے جن کے بطن سے یہ جنم لیتی ہے۔ ان کے تدارک کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر‘ چیچنیا ہو یا فلپائن‘ اسپین ہو یا کیوبک (کینیڈا) ‘آئرلینڈ ہو یا تھائی لینڈ‘ سوڈان ہو یا صومالیہ‘ کیوبا ہو یا نکاراگوا‘ فی جی (Fiji) ہو یا ہیٹی‘ جاپان ہو یا کوسووا‘ جہاں بھی ظلم ہوگا ‘ اس کا ردعمل بھی رونما ہوگا جو جائز کے ساتھ ناجائز اور پرامن کے ساتھ خونی اور تشدد کے راستے بھی اختیار کر لیتا ہے ۔
جس طرح غربت خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘ اسی طرح مظلومیت اور محرومی تشدد اور دہشت گردی کے روپ بھی دھار لیتی ہے۔ جرم کا خاتمہ محض قانون اور جبر سے نہیں ہو سکتا۔ جرم کے اسباب جب ختم ہوں گے تو پھر جرم میں بھی کمی آئے گی اور حقیقی امن و آشتی کے امکانات روشن ہوں گے۔ سامراجی ذہن اس سامنے کی حقیقت کو سمجھنے اور سامراج کی آنکھ اس کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور محض جبر اور طاقت سے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے زعم میں مبتلا ہے۔ خدا کی زمین پر ظلم کی فراوانی اور انسانوں کے درمیان کش مکش اور شورش کی بڑی وجہ یہی ذہنیت اور یہی سیاست ہے۔ آج امریکہ اس ذہنیت اور سیاست کا سب سے بڑا علم بردار اور عالمی اقتدار کا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
امریکی سامراج اور مغربی تہذیب کا ہدف تو پوری دنیا ہے لیکن فوری طور پر پہلا ہدف اسلامی دنیا اور اسلامی احیا کی تحریکات اور ادارے ہیں اور ان پر ہی اس وقت اصل توجہ مرکوز ہے۔ نیوز ویک کا ڈائوس خصوصی ایڈیشن (دسمبر ۲۰۰۱ء - فروری ۲۰۰۲ء جو ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے بارے میں ہے) اس عالمی ایجنڈے کا خلاصہ پیش کر رہا ہے۔ اس میں خصوصیت سے سیموئل ہنٹنگٹن‘ فرید زکریا اور فرانسس فوکویاما کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم صرف ایک اقتباس فوکویاما کے مضمون سے پیش کرتے ہیں:
پس اس طرح یہ محض دہشت گردوں کے خلاف ایک سادہ ’’جنگ‘‘ نہیں ہے جس کا امریکی حکومت قابل فہم انداز میں نقشہ کھینچتی ہے اور نہ جیسا کہ بہت سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ فلسطین میں یا عراق کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی اصل مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں جو بنیادی تنازع درپیش ہے وہ بہت وسیع تر ہے اور دہشت گردوں کے ایک گروپ سے متعلق نہیں ہے بلکہ انقلابی اسلامسٹوں کے بڑے گروہ سے ‘ اور ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کی مذہبی شناخت دوسری تمام اور سیاسی اقدار کو مسترد کر دیتی ہے۔
ہم فوکویاما کے ممنون ہیں کہ اس نے بات کھول کر سامنے رکھ دی اور ڈپلومیسی کے پردوں کو چاک کر کے مغرب کے عزائم اور ان کی نگاہ میں تنازع کے اصل سبب--- یعنی دین اور سیاست کے رشتے کو صاف لفظوں میں یوں بیان کر دیا: اگر مغرب کی دوستی چاہتے ہو تو دین کے اثر سے سیاست اور تہذیب و تمدن کو پاک کر لو ورنہ ہماری تمھاری جنگ ہے:
نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بین سے وہ رند بادہ خوار اچھا
جنگ کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ایک راستہ تو بڑا آسان اور سادہ ہے جس کی دعوت مغرب کے دانش ور اور سیاسی قائدین دے رہے ہیں اور اسی کی آہنگ بازگشت خود اپنے جدیدیت کے دلدادہ افراد کی تحریروں اور ارشادات کی امتیازی شان ہے یعنی:
چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی
یہ وہ راستہ ہے جو زمانے کے پرستاروں نے ہر دور میں سجھایا ہے اور آسایش اور تن آسانی کے متوالوں نے آزادی‘ غیرت اور ایمان سب کی قربانی دے کر جسے اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ لیکن کیا اہل ایمان اور مسلم امت کے لیے بھی نجات کی یہی راہ ہے؟ اقبال‘ اس کا جواب دیتے ہیں!
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
اسلام تو نام ہی اس دین کا ہے جو طاغوت سے بغاوت اور اللہ کی بندگی سے عبارت ہے (فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق البقرہ۲:۲۵۶) یہ راستہ تو ہے ہی کفر‘ شرک اور طغیان سے کش مکش کا راستہ۔ اس میں طاقت اور تعداد اصل چیز نہیں‘ کہ دونوں حصول مقصد کا ذریعہ ہیں اور مطلوب بھی‘ مگر اصل ہدف وہ نصب العین اور وہ مقصود حیات ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس دعوت کا علَم بلند کیا تو اُن کے کتنے ساتھی تھے اور انھیں کتنی قوت حاصل تھی؟ مگر نصب العین واضح اور منزل کے بارے میں یکسوئی تھی اور ساری مخالفتوں اور مزاحمتوںکے مقابلے میں ایک ہی جواب تھا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا‘ جدوجہد جاری رہے گی تاآنکہ یہ دین غالب آ جائے یا میری جان اس جدوجہد میں کام آ جائے۔ اکثریت اور اقلیت‘ طاقت اور کمزوری تبدیل ہونے والی چیزیں ہیں اور بالآخر تبدیل ہوتی ہیں۔ کل کی اقلیت آج کی اکثریت بن سکتی ہے اور آج کی اکثریت کل اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یہی معاملہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔
مسلمانوں کے لیے اصل فیصلہ طلب سوال یہی ہے کہ آیا انھیں مسلمان رہتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل و تعمیر کرنی ہے یا اسلام سے بے نیاز ہو کر دنیا طلبی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اگر مطلوب اسلام ہے توپھر اپنے ایمان ‘ اپنے نظریے‘ اپنے دین‘ اپنی تہذیب اور اپنی سیاست پر قائم رہنے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ بلاشبہ اس جدوجہد میں ایمان اور نظریے کی قوت اور اتحاد کے ساتھ‘ علم‘ تحقیق ‘ معاشی قوت‘ عسکری طاقت‘ ایجاد و اختراع اور ٹکنالوجی پر مہارت اور گرفت سب ضروری ہیں۔ لیکن سب سے اہم چیز وژن اور عزم ہے۔ اگر وژن موجود نہیں اور عزم و ارادے کا فقدان ہے تو پھر اُبھرنے اور ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اگر یہ موجودہیں تو پھر توفیق الٰہی سے تمام وسائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور زمانے کا نقشہ اسی طرح بدلا جا سکتا ہے جس طرح ماضی میں بدلا گیا۔ کوئی طاقت ور اتنا مضبوط نہیں کہ ہمیشہ مضبوط رہے اور کوئی سوپر پاور ایسی نہیں جو ہمیشہ سوپر پاور رہی ہو۔
تاریخ ‘ایک نہیں درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ خود ہماری زندگیوں میں برطانیہ اور روس دو سوپر پاورز کس بلندی سے کس پستی تک پہنچی ہیں۔ امریکہ آج طاقت ور ہے اور اس کا اعتراف ایک حقیقت کا اعتراف ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ اب ہمیشہ وہی غالب و حکمران رہے گا‘ تاریخ کے ساتھ مذاق اور انسانیت کے امکانات سے مایوسی ہے۔ اس لیے پہلا قدم اپنی منزل کا تعین اور اپنے مقاصدکی تفہیم ہے۔ پھر ان کے حصول کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی ہے۔ جدوجہد کتنی ہی طویل ہو اور راہ کیسی ہی دشوار گزار ‘لیکن ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی راہ طے کرنی ہے اور آستان یار سے وفاداری کے سوا کوئی راستہ ہمارے شایان شان نہیں:
جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟
جب ایک قوم خدا پر بھروسے کے ساتھ دانش مندی سے اپنی منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تو پھر نئے امکانات اُبھرتے ہیں اور حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر کمزوری کے بعد طاقت کا اُبھار واقع ہوا ہے بشرطیکہ ہمارا وژن واضح اور ہماری ہمتیں بلند رہیں۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ جدوجہد کا راستہ ہے:
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو با زمانہ ستیز
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہمیں مخالف قوتوں سے تصادم اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ بلاشبہ تصادم اور ٹکرائو تو اس راستے کے لازمی مراحل میں سے ہیں مگر دین نے جہاں ہمیں مستقبل کا ایک واضح وژن دیا ہے وہیں یہ بھی سکھایا ہے کہ جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور تیاری کے بغیر معرکے میں کودنا عقل مندی اور حکمت نہیں ‘حماقت ہے۔ صبر اور حکمت‘ یہ دونوں مومن کی میراث ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل اور وقت طلب ہے۔ بلاشبہ ہمارا ہر لمحہ اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی تیاری اور تحرک میں صرف ہونا چاہیے ‘ شارٹ کٹ کی تلاش اور جلدبازی کے اقدام دینی فراست کے خلاف ہیں۔ مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین اور جدوجہد کے لیے مکمل تیاری بھی اسی طرح ایمان کا حصہ اور دین کا تقاضا ہیںجس طرح طاغوت کے آگے سپر ڈال دینے‘ دوسری تہذیبوں کی غلامی قبول کرنے اور شیطان کی دکھائی ہوئی راہ سے برأت لازم ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیت سے مکمل احتراز کیا جائے اور حکمت اور محنت سے اجتہاد اور جہاد کے راستے کو اس طرح اختیار کیا جائے جو ان کا حق ہے۔
ان دو بنیادی امور کی تنقیح کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ اس اصولی موقف کو بھی بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا جائے جس کو اختیار کر کے آج پاکستان اور اُمت مسلمہ وقت کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
امریکہ اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں‘ ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر قدرت کے اعتراف کے ساتھ‘ اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں اور ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر امریکہ کا ایک سوپر پاور ہونا ایک حقیقت ہے تو مسلم امت کے ۳.۱ ارب نفوس بھی ایک حقیقت ہیں جنھیں نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح‘ اپنے اتحاد کا حصول‘ اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا اصل ہدف ہوں۔ اس کے لیے اپنے ایمان‘ اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا‘ وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کر کے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔
اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانا چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام عوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ نہ ہمیں دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ اور مقاطعے کا راستہ صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔ قدر مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو لایا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے کو محدود رکھیں‘ ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت( بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:
۱- تمام اقوام کی آزادی‘ حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد تمام انسانوں کی برابری‘ تمام اقوام کی آزادی ‘ اور ان کا حق خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
۲- تکثیری نظام (pluralism)جس کے معنی ہیں کہ کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی ہی عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔
۳- تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (dialogue)کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کا تابع کیا جائے۔ ہر قسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہر شکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطہ کار متعین کیا جائے۔
۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہو سکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
۵- بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خود انحصاری کے اصول کا احترام۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میںآ سکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں‘ مال تجارت‘ مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حرکت میں سہولت ہو تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے موجود ہوں جو دولت اور قوت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے کمزوروں کو طاقتوروں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکیں اور بالآخر دنیا میں قوت اور دولت کی منصفانہ تقسیم وجود میں آ سکے جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی ‘استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہو سکے۔
یہ وہ پانچ بنیادیں ہیں جن کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر پاکستان اور اُمت مسلمہ ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتی ہے جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پرامن ذرائع سے عالمی رائے عامہ کو منظم کر کے اس قدر مشترک کو نئے نظام کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں‘ بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک‘ اندرون ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے‘ اسی طرح عالمی سطح پر بھی ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے‘ بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔
اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔
۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت‘ عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجائے امریکہ اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے اس ایک ہی ہلّے میں ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دیا تھا۔ موسم کی ایک ہی تبدیلی نے ان کو بتا دیا کہ:
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
نیز اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا اور خود انحصاری اور اپنی قوت کی تعمیرکے بغیر آپ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتمادکی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں‘اختلاف کو برداشت کیا جائے‘ اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اس میں اصحاب اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی ‘ معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے جس میں سب کی شرکت ہو اور عوام اور حکمرانوںکے درمیان کش مکش کے بجائے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ اسی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں۔
پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم‘ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو‘ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر قدرت حاصل کی جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔ خود انحصاری نہ خود کفالت ہے اور نہ دنیا سے الگ تھلگ ہونا ۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی قدرت حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں ‘اپنے مقاصداور اہداف کے مطابق خود طے کر سکیں اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پر اثرانداز ہو سکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہو سکتے ہیں جب خود انحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت اُمتِ وسط ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر انتہا پسندی اور تشدد کی سیاست در آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اور اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی‘ اسلام تشدد اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی‘ عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔جہاد اپنی تمام صورتوں میں --- یعنی نفس کے ساتھ جہاد‘ زبان اور قلم سے جہاد‘ مال سے جہاد اور جان سے جہاد--- واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے اور ہر سطح پر اس کے تصور‘ تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیر مسلم سب فیض یاب ہو سکیں۔ جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جہادی کلچر کو تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قراردیا جا رہا ہے‘ اس تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے جس کے بارے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن جہاد ایک اخلاقی قوت اور تعمیر کی صورت ہے اور اس کا یہ کردارسب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ غیر مسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔
دور جدید میں تحریک اسلامی کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد‘ آداب اور ضابطہ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان معاشی‘ سیاسی‘ تعلیمی‘ ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک اور سیاسی اور معاشی باہمی تکمیلات کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ اب سب کی ایسی ضرورت ہے جسے موخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفییکا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر مسلم نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی موثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔
اسلام کے عالمی کردار کی موثر ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے اور امت وسط کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔
وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہل پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا ‘وہ خواہ مجبوری کے تحت ہوا یا عاقبت نااندیشی کے تحت--- ہم اس پر تفصیل سے بحث کرچکے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا‘ بھارت اس سے جو فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے وہ واضح ہوتا جا رہا ہے اور جنگ کے مہیب سائے اُفق پر اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی اور خود مختاری کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم‘ عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کر کے ایک ایسی پالیسی کو اپنایا جائے جس میں پاکستان‘ اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی‘ اور ترقی کو یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:
۱- اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اور اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کر کے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے مالک کا دامن تھامے اور اس سے مدد مانگے۔
۲- عوام پر بھروسا کیا جائے ‘ان کو اعتماد میں لیا جائے اور موثر طورپر ان کو قومی سلامتی‘ ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔
۳- نظریاتی کش مکش سے بچا جائے اور جس لاحاصل بحث میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں‘ اس سے دامن بچایا جائے۔ بنیاد پرستی‘ انتہا پرستی اور فرقہ پرستی ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بہت پرانی ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے یعنی اسلام‘ جمہوریت اور وفاقی طرز‘ انھیں متفق علیہ بنیاد بنا کر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرنو بحث میں لانے کی جسارت نہ کی جائے ۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا ہماری تحریک آزادی اور ہماری قرارداد مقاصد ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔
۴- ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ امریکی فوجوں کی موجودگی اس کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا تحرک (mobilization)ضروری ہے۔
۵- کشمیر پالیسی کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔
۶- افغان پالیسی کی جلد از جلد تشکیل نو مطلوب ہے۔ اسٹرے ٹیجک گہرائی کے چکر سے نکلنے اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام میں ہماری دل چسپی ہونی چاہیے جسے افغان بھائی خود طے کریں اور جس سے افغانستان کا اتحاد باقی رہے اور وہ ایک ہمسایہ اور بھائی ملک کی حیثیت سے ترقی کرے۔ مفادات کے چکر سے بلند ہو کر افغان پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی ہو سکے۔ افغان عوام کے دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور قیادتوں نے جوبھی غلطیاں اور ناانصافیاں کی ہیں ان سے متاثر ہو کر کسی قسم کی کش مکش یا جنبہ داری کا راستہ ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہماری پالیسی کی بنیاد وہ رشتہ اشتراک ہونا چاہیے جو دین‘ تاریخ اور مشترک مفادات کی وجہ سے قائم ہے اور جس نے دلوں میں محبت اور معاملات میں تعاون کی روایت قائم کی ہے۔
۷- ملک میں جمہوری عمل کا احیا‘ دستور کو ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق تبدیل کرنے سے مکمل احتراز اور دستور کے مطابق جمہوری نظام کی بحالی کے لیے فوری طور پر اجتماعی مشاورت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور اس سلسلے کے تمام ضروری انتظامات پرفوری توجہ کی ضرورت ہے۔
۸- معیشت کی بحالی کے لیے قومی مشاورت‘ تجارت‘ زراعت‘ صنعت اور محنت سے متعلق طبقات کے تعاون سے قومی خود انحصاری کے حصول اور معاشی ترقی اور سرگرمی کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی طرف توجہ دینا۔
۹- مسلم ممالک سے تعلقات بڑھانے اور مشترک خطرات کے مقابلے کے لیے مشترک حکمت عملی کی تشکیل کی کوشش۔
۱۰- ایران اور چین سے خصوصی تعاون اور ان کے ساتھ مشترک حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کا نظام بنانے کی کوشش۔
یہ ۱۰ نکات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم حالات اور خطرات کا صحیح ادراک کریں۔ اپنے نظریے اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے خدا پر بھروسے اور ایک دلی جذبے کے ساتھ اصلاح احوال کی جدوجہد شروع کر دیں۔ اگر ہم ۱۱ ستمبر سے اب تک کے رونما ہونے والے واقعات کو ایک خطرے کی گھنٹی سمجھیں ‘اب بھی بیدار ہو جائیں اور اٹھ کھڑے ہوں تو آگے کے مراحل زیادہ مشکل نہیں۔ واللّٰہ المستعان!