سوال: اولاد نہ ہونا ایک اہم معاشرتی اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا کچھ کو لڑکے دیتا ہے‘ کچھ کو لڑکیاں دیتا ہے‘ اورکچھ کو ملے جلے‘ اور کچھ کو کچھ بھی نہیں دیتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس جوڑے کے اولاد نہ ہو‘ کیا اس کی زندگی خوش گوار اور خوش و خرم ہو سکتی ہے؟ قرآن وحدیث سے اس میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟
جواب: اصل سوال یہ ہے کہ انسان کواس زندگی میں حقیقی مسرت اور سکون کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذریات ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ انسان کا جو مقصد وجود ہے اسے‘ اسی کو اپنا نصب العین اور مقصد وجود بنانا چاہیے‘ اسی کی خاطر دوڑ دھوپ ہونی چاہیے۔ اس میںاگر انسان مصروف ہو‘ اس کا حق ادا کر رہا ہو‘اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کر رہا ہو‘ فرائض ادا اور منکرات سے اجتناب کر رہا ہو‘ تو ایسا انسان مطمئن اور خوش ہوتا ہے۔انسان سکون و اطمینان اور خوشی کی زندگی اسی صورت میں گزارتا ہے‘ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور طاعت و فرماں برداری میں زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) ’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
معلوم ہوا کہ حقیقی مسرت ذکر الٰہی‘ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے ہے۔ مال و دولت‘ منصب اور اقتدار آدمی کے لیے سکون و اطمینان کا ذریعہ نہیں۔ یہ سامان راحت تو ہیں لیکن عین راحت نہیں۔
ایک مسلمان مرد یا عورت جب بالغ ہو جائیں تو انھیںازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ایسی صورت میں فرض ہے جب اس کے بغیر گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔ اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو‘ لیکن حاجت اور استطاعت ہو‘ تو پھر ازدواجی زندگی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ص (البقرہ۲:۱۸۷) ’’اور تلاش کرو اسے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کے بقاکے لیے نکاح کو ذریعہ بنایا ہے۔ نکاح اور ازدواجی زندگی کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے اس تکوینی نظام میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے جو اس نے نوع انسانی کی بقاکے لیے مقرر کیا ہے۔ نکاح کے نظام سے ایک طرف انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اولاد کو جسے ما کتب اللّٰہ لکم ’’جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘،کے جملے سے بیان کیا گیا ہے‘ حاصل کرنے کے لیے تدبیر کرتا ہے‘ یعنی اولاد حاصل کرنے کی کوشش اور وسیلہ اختیار کرتا ہے‘ اور دوسری طرف نوع انسانی کی بقا میں مددگار و معاون بنتا ہے۔ اس لیے یہ عبادت بھی ہے اور تحصیل اولاد کا ذریعہ بھی۔ ما کتب اللّٰہ لکم کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد مقدر کی ہوگی تو اس تدبیر کے ذریعے مل جائے گی ‘ ورنہ نہیں ملے گی۔
اس لیے انسان محض شہوت رانی کی نیت سے نکاح نہ کرے بلکہ مستقل طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے اور زندگی کا رفیق اور رفیقہ بنانے اوراولاد صالحہ کے حصول کی نیت کرے۔ اگر اولاد کی نعمت حاصل ہو جائے تو اللہ کا شکر ادا کرے‘ نہ ملے تو راضی برضا رہے‘ صبر کووظیفہ بنائے۔ بہت سے انبیا ایسے گزرے ہیں جو طویل زندگی میں لااولاد رہے۔آخری عمر میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد دی‘ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام ‘اور بعض کو بیٹیوں کے ساتھ نرینہ اولاد ملی لیکن فوت ہو گئی‘ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور بہت سے وہ گزرے ہیں جن کو نکاح کا موقع نہیں ملا ‘جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ‘اور جیسے ’’مدین کے بزرگ‘‘۔ بعض اولاد سے محروم رہے۔ بہت سے آئمہ اور نیک خواتین کو بھی اس کا موقع نہیں ملا‘ جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒاور رابعہ بصریؒ‘ لیکن ان کی زندگی انتہائی خوش گوار ‘ پرُسکون اور اطمینان والی تھی۔
پس اولاد کے بغیر بھی آدمی خوش گوار زندگی بسر کرسکتا ہے‘ جب کہ اللہ کی بندگی اور ذکر میں مشغول ہو۔ اولاد بعض اوقات آدمی کے لیے سکون و اطمینان کے بجائے فتنہ بن جاتی ہے اور ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے ۔ آج کل تو بے شمار واقعات ایسے سامنے آتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کو قتل کر دیتی ہے یا چوری ‘ ڈکیتی‘ دہشت گردی یا نشے میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السلام کا واقعہ آیا ہے۔ اس میں حضرت خضر ؑاللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک ایسے بیٹے کو قتل کر دیتے ہیں جس سے خطرہ تھا کہ وہ بالغ ہونے کے بعد ماں باپ کو اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر تنگ کرے گا۔
مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ایک انسان تنہائی محسوس نہیں کرتا۔ یتیم کو باپ کے بدلے میں باپ‘ بھائی سے محروم کو بھائی کے بدلے میں بھائی ‘اور اولاد سے محروم کو اولاد کے بدلے میں اولاد (عزیزوں‘ بہن بھائیوں کی اولاد) میسر ہو جاتی ہے۔ چونکہ انما المومنون اخوۃ‘ ’’ایمان والے آپس میں بھائی ہیں‘‘ اور المسلم اخو المسلم‘ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ اس لیے اولاد کے بغیر خوش گوار زندگی کا سامان اللہ کی بندگی‘ صبراور اہل ایمان سے بھائی چارے کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (مولانا عبدالمالک)
س : بچیوں کی تعلیم و تربیت کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ اللہ کی توفیق سے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی۔ ۲۵ سال ایسے گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ مگر جب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ آیا تو حالات ایسے ہوئے کہ مستقل فکر نے جسمانی اور ذہنی مریض بنا دیا۔بچیوں کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کوئی صورت بنتی نظر نہیں آ رہی‘ جب کہ ہم فرض نمازں کے علاوہ بھی دعائیں کرتے ہیں اور دوا (شادی کرانے والیوں سے رابطہ) بھی۔ لوگ وظائف پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔ کیا قبولیت دعا میں ان کی کوئی افادیت ہے؟ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتی ہیں۔
ج : آپ نے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کیا ہے۔
فی الواقع یہ مسئلہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج نہ صرف لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی مناسب رشتے کا ملنا جوے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سورہ القصص کی آیات ۲۳تا ۲۸ کا مطالعہ فرمائیں تو حضرت موسٰی ؑ کی دعا کا ذکر ملتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے چند لمحات میں ہی انھیں جاے امن اور مناسب رشتے سے نوازا۔ آیت ۲۴ میں یہ دعا موجود ہے۔
جہاں تک لڑکیوں یا لڑکوں کے رشتے کا تعلق ہے‘ عموماً اچھے رشتے کی تلاش میں والدین کو وقت کی تنگی کا احساس نہیں رہتا ‘یکے بعد دیگرے رشتے آتے ہیں اور وہ اس خیال سے کہ شاید اس سے مزید بہتر رشتہ آجائے‘ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمارے سماجی نظام میں لڑکیوںکو معاشرے سے کاٹ کر رکھتے ہیں کہ اعزہ اور اقربا کے ہاں بھی کسی تقریب میں ساتھ لے کر نہیں جاتے۔ نتیجتاً لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں آتی کہ کس گھر میں مناسب رشتہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی شکل نہ پیدا ہو رہی ہو تو رسائل و اخبارات میں اشتہار کی بھی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس طرح بھی رشتہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے والدین اور اقربا و احباب کی ذمہ داری قرآن کریم نے واضح کر دی ہے ۔ سورہ النور میں ارشاد فرمایاگیا: ’’تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو‘‘ (۲۴:۳۲)۔ گویا اہل خاندان ہوں یا احباب ‘ یا اسلامی ریاست‘ ان سب کی ذمہ داری میں سے ایک فریضہ بے نکاح افراد کا نکاح کرانا ہے۔ اس کے لیے کوشش‘ وسائل کی فراہمی‘ رکاوٹوں کا دُور کرنا اور نظام حیا کا قائم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
دعا کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ ہم اکثر دعا کے آداب کا خیال نہیں رکھتے جو دعا قبول نہ ہونے کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات تمام آداب کے ساتھ بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو سکتی ہے جس میں سال اور مہینے کی کوئی قید نہیں اور عموماً اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کے صبر کے نتیجے میں اجر میں اضافہ فرمانا چاہتا ہے‘ اور بعض اوقات اس تاخیر کے ذریعے سے بہت سے خطرات و مصائب سے اس کو بچا لیتا ہے۔ بہرصورت یہاں جو زحمت بندے کو ہوتی ہے اس کا حقیقی اجر وہ آخرت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ دعا کے ساتھ کثرت سے درود شریف پڑھنا دعا کی قبولیت کے امکانات کو قوی کر دیتا ہے۔ بعض علما یہ لکھتے ہیں کہ فجر کے بعد باقاعدگی سے سورہ یٰسین کی تلاوت بھی قبولیت دعا میں مددگار ہے۔ واللہ اعلم باالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)
س : قرآن اور فقہ کی تعلیم کے سلسلے میں اکثر ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ بعض مسائل‘ خصوصاً طہارت ‘ اور حیض و نفاس کے مسائل‘ کیا ۱۰ سے ۱۵ سال کے بچوں اور بچیوں کو پڑھانا ضروری ہیں؟ اگر ضروری ہے تو اس قسم کے مسائل کی تعلیم کے لیے کیا طریقہ مناسب ہے؟
ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم تعلیمی اور معاشرتی مسئلے سے ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تعمیر چاہتا ہے اس کی بنیاد طہارت و پاکیزگی پر ہے۔ یہ طہارت نگاہ کی بھی ہے‘ سماعت کی بھی‘ لباس و جسم کی بھی اور فکروخیال کی بھی۔ اسی لیے ابھی بچہ پائوں پائوں چلنا شروع کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین پر فرض ہو جاتا ہے کہ اسے پاک اور ناپاک اشیا میں فرق سمجھائیں‘ اور خصوصاً اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے طریقے کی تعلیم دیں جس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کس طرح جسم کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے صاف کر کے جسمانی طہارت و نظافت حاصل کی جائے۔ یہی بچہ جب بلوغ کے قریب پہنچتا ہے تو والدین کا فرض بن جاتا ہے کہ اسے جسمانی طہارت کے حوالے سے عمر کے اس مرحلے کے مسائل سے آگاہ کریں کہ کس طرح غیر ضروری بالوں کا صاف کرنا سنت ہے اور کس طرح غسل کیا جاتا ہے۔
دراصل یہ سارے معاملات اس معاشرے کے نظام تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں جس کے قیام کو ہم ۵۴ سال سے مسلسل موخر کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت یا یونیسف کی تیار کردہ معلومات کے ذریعے ہی بچوں کو ذاتی صفائی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ ان کتب کا حوالہ نہ اسلام ہوتا ہے نہ سنت رسولؐ ، بلکہ ان کا مقصد لادینی اور شیطانی معاشرے میں پیدا ہونے والے اخلاقی جرائم کے حوالے سے نوبالغوں (teen agers)کو غیر اخلاقی اعمال کے ’’محفوظ‘‘ طریق واردات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے حیا کے نظام کے دائرے میں قرآن و سنت کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے گھر اور اسکول میں بچوں اور بڑوں کو ان معاملات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اخلاق و ایمان کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی صحت مند رہ سکیں۔ (ا - ا)