دیہی آبادی میں اسلامی تحریک کا کام کیسے ہونا چاہیے؟ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے دیہاتی لوگوں کی زندگی کے پس منظر سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کرہی کام کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے:
۱- دیہات میں تعلیم کم ہے اور لوگ ناخواندہ، اور ان کی معلومات بہت محدود اورسطحی نوعیت کی ہیں۔
۲- لوگوں کے پیش نظر مقامی اور علاقائی مسائل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو علاقائی نوعیت کی ہی ہوتی ہے۔ وسیع اور بلند مقصد سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
۳- مزاج جذباتی ہوتا ہے۔ سنسنی خیز باتوں پر فوراً یقین کرلیتے ہیں، تنقید بالکل برداشت نہیں کرتے، جلد آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔
۴- دین داری کا تصور محدود ہوتا ہے۔ قوی ایمان ہونے کے باوجود اس پر عمل کم پایا جاتا ہے۔
ماحول:(الف) دیہات میںا کثر فساد کی بنیاد معاشرتی رسومات ہوتی ہیں جیساکہ انتقامی کارروائی اور رشتہ میں اَدل بدل کا طریقہ وغیرہ۔ چنانچہ اغوا اور قتل کے واقعات بہت زیادہ نظرآتے ہیں۔ چوری بھی زیادہ تر انھی بنیادوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
(ب) انتقامی کارروائی کی وجہ سے پورے علاقے میں عام لوگوں کے درمیان اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف قبیلوں کی باہمی لڑائیاں اور جھگڑے آئے دن کامعمول ہیں۔ یہ دشمنیاں اور لڑائیاں سالہا سال تک چلتی رہتی ہیں۔
(ت) دیہات میں وڈیرے، جاگیردار اور پیر وغیرہ بااثر لوگ ہوتے ہیں۔
(ث) دیہات میں اقتدار اعلیٰ پولیس اور چوروں کے تعاون سے وڈیرے کو حاصل ہے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزّت و آبرو سب بڑے زمین داروں کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔
(ج) مقدمہ بازی، پولیس کی پکڑ دھکڑ ، دیہی زندگی کا معمول ہے۔
ان حالات میں سمجھا جاسکتا ہے کہ دیہات میں دعوتِ دین کا کام کرنا کتنا دشوار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا مثبت پہلو بھی ہے۔ دیہاتی لوگوں میں بعض اہم نوعیت کی خوبیاں بھی ہیں، جن کا اسلامی روایات سے گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے کام کے اثرات کی توقع رکھی جاسکتی ہے:
۱- ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کا مزاج بدویانہ تھا۔ عرب میں شہر بہت کم تھے خود مدینہ طیبہ کی اس وقت کی آبادی چھ سات ہزار سے زیادہ نہ تھی اور وہ بھی دوکلومیٹر میں پھیلی ہوئی تھی۔
۲- دیہاتی لوگ بہادر، جرأت مند اور غیرت مند ہوتے ہیں۔ اب صرف ان کا رُخ تبدیل کرنا ہے۔
۳- دیہات میں بہت ساری لڑائیاں مقدمات سے نہیں بلکہ برادری کے دبائو سے ختم ہوجاتی ہیں۔
۴- وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۰ۭ (آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ البقرہ ۲:۲۳۷) کا مظاہرہ دیہات میں ہوگا۔
۵- صلہ رحمی، دیہات کے مزاج کا حصہ ہے۔
۶- مہمان نوازی بھی دیہاتی کلچر کا خاصہ ہے۔
ہمارے دیہات میں عربوں اور اسلامی حکومتوں کے اثرات ابھی تک بدرجہ اَتم قائم ہیں، اس لیے دیہاتی تہذیب پر ایک حد تک اسلامی پرتو بھی نظر آئے گا:
(الف) جہاں دو گھر ہوں گے وہاں مسجد ضرور قائم ہوگی۔
(ب) السلام علیکم کا رواج عام ہے۔
(ج) مہمانوں سے حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے اور کھانا کھلانے کا رواج قائم ہے۔
(د) عورتوں اور مردوں کے درمیان حجاب قائم ہے۔ گوٹھ یا گائوں میں داخل ہوتے ہی گھوڑے پر سوار آدمی گھوڑے سے اُتر کر پیدل چلے گا۔
(ہ) شعائر اسلام کا احترام اب تک قائم ہے۔
(و) گھر کی تعمیر کا رُخ قبلہ کی مناسبت کا خیال رکھ کر کیا جانا ان کے رواج میں شامل ہے۔
(ظ) معاشرت میں سادگی اور بے تکلفی کا رواج ہے۔
(ح) گفتگو میں اسلامی روایات کا خیال رکھنا، بات بات پر ماشاء اللہ اور اللہ پر توکّل رکھنے کے الفاظ عام ہیں۔
(ط) عورتوں میں شرم و حیا کی فضا اب تک برقرار ہے۔
(ی) چھوٹوں کے دلوں میں بڑوں کے لیے اب تک احترام موجود ہے۔
یہ ہے دیہات کا وہ ماحول اور پس منظر، جس میں ہمیں کام کرنا ہے اور انھی حالات میں دیہات کے اندر کام کا نقشہ تیار کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے کام کرنے کے لیے عزم چاہیے۔ خود کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ بات سن سکیں۔ لہٰذا دعوت کے نقطۂ نگاہ سے زیادہ اہمیت کارکنوں کو حاصل ہے اور کارکنوں میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:
۱- جذبۂ عمل اور حکمت دونوں ساتھ ہونے چاہییں: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ اور علم نفسیات۔
۲- کردار بُرائیوں سے پاک اور بے داغ ہونا چاہیے۔ کردار میں بڑی زبردست کشش ہے۔ ہیرا مٹی کے ڈھیر میں ہوگا تو دُور سے نگاہیں اس کی چمک محسوس کریں گی۔
۳- کارکن، جاہلیت کے رسوم و رواج سے محفوظ ہو۔
۴- وہ تحریک کو اچھی طرح سمجھ چکا ہو اور اس پر عامل ہو۔
۵- کارکن جلد باز نہ ہو، مستقل مزاج ہو، وہ کسان کی طرح محنت کش ہو۔
۶- مشکلات میں ہمت ہارنے والا نہ ہو۔
۷- مکّی زندگی کی مشکلات کا تصور اس کے سامنے پوری طرح ہو۔
۸- لباس اور نشست و برخاست میں سادگی اور وضع قطع اسلامی انداز کی ہو۔
۹- دیانت دار ی، وعدہ وفا کرنے کی توفیق کے لیے دُعائیں۔ جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی، تلاوت قرآنِ مجید کا اہتمام، شب خیزی کی عادت۔
یہ تمام صفات تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے لازمی ہیں:
۱- مساجد کو دینی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔
__ممکن ہو تو مساجد کی امامت اختیار کی جائے۔
__دوسری صورت میں امام مسجد سے بہتر تعلقات استوار کیے جائیں۔
__مسجد کے معاملات اور اُمور میں بھرپور حصہ لیا جائے۔
__مسجد میں درس قرآن یا دینی کتاب کے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے، لیکن اس کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
__جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ یا تقریر کرنے کا اہتمام و انتظام کیا جائے اور حکمت عملی کے ساتھ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔
__ دیہات میں ہونے والی مذہبی تقریبات میں پیش قدمی کی جائے۔
۲- دیہات میں اوطاق (بیٹھک) معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے۔
__ اوطاق میں جاکر عوامی مجلسوں میں حصہ لیا جائے اور وہاں پُروقار انداز سے اپنی بات کی جائے۔
__عوامی مجلسوں میں حکمت عملی کے ساتھ گفتگو کا رُخ اسلام کی طرف موڑا جائے۔
__وہاں اسلام کے مجاہد سپاہیوں کے واقعات سنائے جائیں، اس لیے کہ اس میں لوگ عام طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔
__ بزرگانِ دین کے نصیحت آمیز واقعات بھی سنائے جائیں۔
__انھی چیزوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پھر لوگوں سے شخصی تعلقات قائم کیے جائیں۔
۳- دیہات کے ذمہ داروں سے تعلقات رکھنے کی کوشش کی جائے: اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي۲۴ۧ
__اسکول کے اساتذہ اور نوجوانوں سے تعلقات میں استواری کوخصوصی اہمیت دی جائے۔
__ دیہات میں بزرگوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان سے بھی رابطہ رکھا جائے۔
__لوگوں کی شادی و غمی میں ضرور شرکت کی جائے۔
__تنقید بنیادی طور پر اصولی ہونی چاہیے۔
__ تنقید میں افراد کا نام نہ لیا جائے،فانی تافکون۔
__ تنقید کے لیے پہلے فضا ہموار کی جائے اور اس وقت کی جائے جب دیکھا جائے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود ہے۔
۴- رفاہی کاموں میں بھرپور حصہ لیا جائے۔
__ اس سلسلے میں مسجد کی تعمیرو مرمت کے کام کو اہمیت دی جائے۔
__قرآن پاک کی تعلیم و ترجمۂ قرآن پڑھنے کے لیے مدرسہ قائم کیا جائے اور اگر پہلے سے مدارس موجود ہوں ، تو ان کی توسیع میں تعاون کیا جائے۔
__تعلیم بالغاں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے، جہاں بھی ممکن ہو یہ تعلیم شروع کردی جائے۔
__راستے، کنویں، مال و مویشی کے لیے چراگاہیں، بجلی وغیرہ کے حصول میں بھرپور دلچسپی لی جائے۔ شادی و غمی میں رہائش کے لیے جگہ اور چٹائیوں اور برتن وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔
__دیہات میں لوگوں پر انفرادی طور پر جو مظالم ہوتے ہیں ان کی داد رسی کا انتظام کیا جائے۔
__بیماروں، بیوائوں، یتیموں اور محتاجوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔
دیہاتی ماحول میں ان کاموں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اگر ان خطوط پر کام کرنا شروع کردیں تو دیہات میں بڑے پیمانے پر ہماری دعوت پھیل سکتی ہے اور ہمارے لیے پیدا شدہ رکاوٹیں دُور ہوسکتی ہیں۔ دیہات میں ان خطوط پر کام کرنے والا کوئی گروہ اور طبقہ موجود نہیں ہے اور ایک زبردست خلا ہے۔ اس خلا کو بہترطور پر ہمارے کارکن ہی پورا کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دیہات خصوصاً سندھ کے دیہات کے لوگ فطرتاً احسان شناس لوگ ہیں۔ ایک بار اگر کسی کی تھوڑی بہت مدد بھی کی گئی تو وہ مرتے دم تک اسے یاد رکھتے ہیں اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سارے کام خدا کی خوشنودی، اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنے چاہییں۔