گذشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں گرفتار چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ملکی قیادت پر اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مایوسی، نا اُمیدی، جھنجلاہٹ اور منفی طرزِ فکر میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔جس کا ایک پہلو ملک سے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی (Brain drain)ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ، ذ ہین اور باصلاحیت نوجوان ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے، اورغیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔ ایسی ہی مایوسی اور دل گرفتگی اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی، جب برطانوی سامراجی طاقت نے مسلم بادشاہت کا خاتمہ کیا اور برصغیر میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی سلطنت ِ عثمانیہ جس کی طرف مسلمان امیدوں کے ساتھ دیکھتے تھے، اپنے ہی گھر کی مصطفےٰکمال کی سیکولر قوم پرست قیادت نے ان اُمیدوںکا چراغ گُل کرتے ہوئے علامتی خلافت تک کا خاتمہ کر دیا۔ اس صدمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کو شدید دُکھ ، افسوس اور مایوسی کی فضا میں دھکیلا اور ہجرت کی تحریک کو جنم دیا۔
اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو بھی اپنی شفقت اور محبت سے محروم نہیں کرتا، جو بظاہر سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہو۔ اسی رحمت کی بنا پر رحیم و کریم رب نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کیے، جو اس کے بھیجے ہوئے دینِ مبین پرمبنی نظامِ حیات کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔
الحمدللہ! قیام پاکستان سے قبل ایک ایسی تحریک وجود میں آئی، جس کے سامنے اسلام کا حرکی تصور نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پربھی موجود تھا اور یہ تھی جماعت اسلامی جو ۱۹۴۱ء میں منظم صورت میں سامنے آئی۔ اس سفر میں جماعت اسلامی کے بانی نے قرآن وسنت کے تابع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک منظم کی، اور اقامت دین کے لیے تربیت یافتہ افراد تیار کرنے کا آغاز کیا۔
مولانا مودودیؒ نے قوم کو علمی، فکری اور عملی قیادت فراہم کی اور ایسے افرادِ کار کی تیاری کا راستہ دکھایا جو اسلامی نظام حیات کا شعوررکھتے ہوں۔ اس تحریک کے دستور میں اس نصب العین کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا:’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملا ًاقامت ِدین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴)
اقامت دین کی جامع قرآنی اصطلاح، اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں نافذ کرنے کا نام ہے۔یہ دین کے کسی ایک پہلو اور اسلام کی کسی ایک تعلیم کو کُل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔اللہ سے تعلق، تزکیہ، کردار سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا دین کا لازمی تقاضا ہے۔ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ تنہا سیاسی جدوجہداقامت دین نہیں ہے، بلکہ یہ اس جامع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے۔ تحریک کو وہ سیاسی جدوجہد مطلوب ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بھیجے ہوئے نظام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے نفاذ کے لیے ہو، جس میں کسی فرد کی ذاتی غرض، حصولِ اقتدار کے ذریعے اپنی نمایش مقصود نہ ہو۔ گویا سیاسی جدوجہد اصل میں توسیع دعوت کا ایک ذریعہ بنے ۔
دستور جماعت کے مطابق، جماعت کوئی ایسے ذرائع استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے منافی ہوں یا جن سے فساد فی الارض کا خطرہ ہو۔ دستورِ جماعت یہ بھی طے کر دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی انقلابی جدوجہد کے لیے جمہوری اور دستوری ذرائع استعمال کرے گی اور نصب العین کے حصول کی یہ جدوجہد کھلم کھلا اور علانیہ ہو گی۔دستور کی یہ واضح دفعات اگر تحریکی کارکنوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ موجود ہوں، تو دعوتی کام میں پیش آنے والی مشکلات ہوں یا سیاسی رکاوٹیں اور سیاسی ناکامیاں، حالات جو بھی ہوں نہ کارکن اورنہ قیادت مایوسی کا شکار ہو گی اور نہ اس میں غصہ، نفرت، جھنجلاہٹ اور انتقام کے جذبات اُبھر سکیں گے ۔
اللہ پر توکّل کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک کارکن جتنی قوت اور اختیار رکھتا ہو، اس میں ہرممکنہ کوشش میں یکسوئی کے ساتھ لگا رہے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لگا دے ، پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ،کیونکہ صرف وہی علم رکھتا ہے کہ کس وقت کس نوعیت کی کامیابی مفید ہے اور کس وقت کامیابی میں تاخیر مفید ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے صرف رحم وکرم، محبت اور یسّر پسند کرتا ہے۔ اس پہلو پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مکہ میں تیرہ سال آزمایشوں کی بھٹیوں سے گزار ے بغیر صرف ’کُن‘ فرما کر غالب کردیتا۔ اور اہل ایمان کے لیے پہلے سال میں کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا اور مکّہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ۔ لیکن مالک اور آقا کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ وہ علام الغُیوب ہے۔ انسانی عقل اپنی محدوددیت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات پر جلد جذباتی فیصلے کر بیٹھتی ہے، جب کہ دین صبر و استقامت دونوں کی تلقین کرتا ہے۔
عام طور پر اسلامی تحریکات کو سیاسی جدوجہد میں جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو خود تحریک کے اندر اور باہر سے اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً رد عمل کے طور پر سارا الزام بیرونی قوتوں یا مدِمقابل عناصر پر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادینی عناصر کو کامیاب اور تحریکی نمایندوں کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ممکنہ حد تک معروضی طور پر اپنی کارکردگی، منصوبہ بندی اور منصوبۂ عمل پر عمل درآمد میں انتظامی اور تربیتی کمزوریوں کا خصوصی طور پر جائزہ لے، کوئی رائے قائم کرنے میں جلدبازی نہ کریں اور پہلے سے قائم کردہ گمان پر اصرار سے بھی اجتناب کریں۔ انتخابی مہم میں اپنے اصولوں اور عوام کی نفسیات و مسائل پر اپنے موقف اور بیانیہ کو کڑی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بھی وہی چیزیں دُہرا رہے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی جماعت کے الیکشن میں متوقع اہداف کے حصول میں یکساں طور پر اندرونی اور بیرونی عوامل کا دخل ہوتا ہے ۔اختصار کے ساتھ ان میں سے چندعوامل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:
نظریاتی اور اصولی تحریکات اپنے منشور پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں تاکہ عوام کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ معیشت، تعلیم، دفاع، معاشرتی فضا، قانون اور امن کی صورتِ حال، خواتین کے حقوق، بین الاقوامی پالیسی، زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی وہ موضوعات ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں اپنا موقف مرتب کرتی ہیں اور اس کے اہم نکات کو مہم میں عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک غیر جانب دار تعلیمی اور تحقیقی ادارے PIDEنے اپنے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے تجزیہ میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، مگر جماعت اسلامی کو اس تقابل میں شامل نہیں کیا ۔ اس تعصب اور جانب داری کو تسلیم کرتے ہوئے، جو اس قسم کے نیم سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے ، سوچنا چاہیے کہ ہم اس مقابلے میں نمایاں کیوں نہیں ہوئے؟
ہم اپنے منشور کو کس طرح عوامی سطح پر ایک ایسی زبان میں پیش کریں کہ عوام اسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ یہ چیز خود منشور سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ہر جماعت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور قیادت اپنے بیان اور تقریروں میں جن باتوں پر زور دیتی ہے ،وہ خود تو اس سے مطمئن ہوتی ہے، لیکن اصل چیلنج اپنے سے باہر کے حلقوں اور عوامی رد عمل کا اندازہ کرناہوتا ہے، جس میں عام طور پر معروضیت (objectivity) اختیار نہیں کی جاتی۔ جو لوگ اس کے انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں، تحریکی قیادت کی کہی ہوئی بات کی توثیق کرتے ہوئے، وہ قیادت کے سامنے اپنی مقبولیت اور مؤثر ہونے ہی کی بات کرتے ہیں، جس سے قیادت کے ذہن میں بھی اپنی مقبولیت کا غیر حقیقی تصور راسخ ہو جاتا ہے، جب کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ذیلی حلقے، نظم اور اردگرد کے لوگ ایک مبالغہ آمیزتصویر کشی کرتے ہیں ،جس پر اعتبار کرنے کا نتیجہ ایک بالکل برعکس صورتِ حال کا آئینہ دار بن کر سامنے آتا ہے۔
ایک اہم نفسیاتی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا ان کی قیادت کے بارے میں ہمیشہ منفی بات سوچی، کہی اور دُہرائی جاتی ہے۔ اس باب میں زبان اور لہجہ دونوں وہ ہوتے ہیں جن کی ایک داعی سے توقع نہیں کی جاتی۔ مختلف سطح پر قیادت اپنے خیال میں دوسرے کی تحقیر اور الزام تراشی کو کلمۂ حق کا اظہار سجھتی ہے جو تجربے کی روشنی میں غلط حکمت عملی ہے ۔ اصل چیز اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو مثبت انداز سے، لیکن خودنمائی کے بغیر پیش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مشرکین کے بتوں تک کو تحقیرآمیز الفاظ اور لہجے میں پکارنے سے منع کیا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کے اس واضح اصول کی پیروی ہر مقام پراور ہرمقرر نے کی ؟یہ ایک بڑا بنیادی اور اہم سوال ہے۔ اپنی کارکردگی یا اپنے پیش نظر مجوزہ تبدیلی کے پروگرام کی مثبت نمایندگی کی جگہ اگر مدِمقابل پارٹیوں پر ہمیشہ منفی انداز میں بات کی جائےتو عوام اسے تعصب سے تعبیر کرتے ہیں اور حق بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ہرحلقے میں کتنے اجتماعات ہوئے، جن میں صرف منشور کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور دیگر افراد کی کارکردگی پر لعن طعن نہیں کی گئی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہنگائی، اقرباپروری، لُوٹ مار، فحاشی، بیرونی قوتوں کی غلامی، مسلم اُمّہ کے مفاد سے لاپروائی جیسے موضوعات پر بات نہ ہو ۔بلکہ ان تمام موضوعات پر لازمی کھل کر بات کہے بغیر مہم نہیں چل سکتی، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ بات کیسے کی گئی کہ اس کا رد عمل مثبت رہا؟ دلوں کو جیتنے کا اور نرم گفتاری کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے کا رہا یا تلخ وتُرش الفاظ کے ذریعے دوسروں کی کارکردگی کی تردید کرنے کا رہا؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم، موعظہ حسنہ اور قول لین (نرمی سے گفتگو) کا حکم دیتا ہے اور وقت کے فرعون سے بات کرنے کے لیے یہ نہیں کہتا کہ اس کے تمام کرتوتوں پر سخت تنقید کے بعد اسے حق کی دعوت دی جائے، بلکہ واضح طور پر کہتا ہے کہ طرز تخاطب میٹھا ہو، جو اس کو ہدایت سےقریب لے آئے۔ تنقید ہمیشہ مخالف کو دفاعی نفسیات پر اُبھارتی ہے، جو بات کی معقولیت اور مقبولیت کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے۔ آج کے عوام سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر ہیں اور اشارتاً بات کہنے کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔
اپنے جائزے میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دعوتی مہم اور سیاسی مہم کےفرق کو سمجھا جائے۔ ایک نظریاتی اور اصولی جماعت کی سیاسی مہم بھی اصلا ًدعوتی مہم ہوتی ہے، جس میں للہیت، استغفار،اللہ سے استعانت اور خصوصاً قرآن و سنت کے پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بے شک اقامت دین کا مفہوم ہر سننے والے کے ذہن میں الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مہم میں اقامت دین کے مفہوم کو اس طرح بیان کرے کہ دیگر مسلکی جماعتوں کے موقف اور اس کے موقف میں فرق نمایاں ہو سکے۔ایک عام دیہاتی بلکہ شہری بھی جماعت اسلامی کو سیکولر جماعت نہیں بلکہ دینی جماعت سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کے موقف میں قرآن و سنت کی دعوت کی توقع رکھتا ہے۔ وہ اگر صرف دوسروں پر تنقید ہی سنے، جو ہر دوسری جماعت بھی کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کو تاریک تر دکھا کر اپنے آپ کو روشن ترین دکھا سکے،تو وہ عام شہری، جماعت کو بھی مسلکی جماعتوں یا دیگر عام جماعتوں کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ مخاطب کی نفسیات کے پیش نظر اپنے موقف کا پیش کرنا دعوتی مہم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
انتخابی مہم کا جلسہ مسجد میں ہو رہا ہو یا میدان میں، ایک سننے والے کے لیے اہم چیز اعداد و شمار پر مبنی غیر جانب دارانہ موقف اور اس کے بعد تحریک کی جانب سے اس مخصوص مسئلے کا مجوزہ حل پیش کرنا ہے ۔ یہ اسلوب ہمارے طرزِ بیان کو مؤثر بناتا ہے، جب کہ ماضی کے حکمران کا نام لے کر یا اس جماعت کا نام لے کر اس کی ناکامی کا مبالغہ آمیز تذکرہ، تحریک کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے جلسے میں موجود عام سامعین بھی بجائے قریب آنے کے کچھ دور ہو جاتے ہیں۔دعوتی مہم کا ہدف اور مقصد ہم خیال اور ہمدرد بنانا ہوتا ہے، لوگوں کو دُور کرنا نہیں۔ اس بات کے جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوتی اخلاقیات اور انبیا علیہم السلام کی سنت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مہم میں کتنے دل و دماغ جیتے اور کتنوں کو دُور کیا؟
جن مقامات پر تحریک ماضی میں کسی اتحاد کا حصہ رہی ہو، خاص طور پر ان مقامات پر اس کے قول سے زیادہ اس کی کارکردگی لوگوں کو فیصلہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ایسے مقامات پر محض نظری گفتگو اور دعوے متوقع نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔
دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مقامات پر عام شہریوں سے ہمارے رابطے میں کیا کمی رہی ہے؟ مقامی مسائل میں ہم نے آگے بڑھ کراگر ان کے مسائل کو کسی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود حل نہیں کیا تو محض ہمارے خطبات کی تکرار اور پوسٹروں کی بھرمار انھیں متاثر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ایک شہر میں نہیں، ایک گاؤں میں یا ایک محلے میں دعوتی مہم کے حصے کے طور پر ہر ہفتہ ایک طبی کیمپ لگایا گیا اور ڈاکٹر صاحب اور عملے نے خوش اخلاقی کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری اور صحیح تشخیص کے ساتھ ان کی امداد کی؟ اگر اس نوعیت کے فلاحی کام کیے ہیں تو وہاں کسی عظیم الشان جلسے کی ضرورت نہیں ہوگی،بلکہ عوام بغیر کسی تقریر سنے اور سیاسی جلسے کا انعقاد کیے تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اگر کسی مقام پر تحریکی فکر کے کسی ادارے، اسکول یا کالج نے تحریکی مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ادارے میں طلبہ وطالبات کی ذہنی، فکری، عملی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہو اور اس میں اساتذہ و معلمات اور ماحول وہ رہا ہو، جیساکہ تحریک ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے، تو اسکول اور کالج کا ہر بچہ اور اس کے والدین کا ووٹ تحریک کے حق میں ہوگا۔
یہ چھوٹے چھوٹے کام ریاستی اقتدار کے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں اور جب یہ دعوتی جذبے کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت میں اجر کی نیت سے کیے جائیں گے، تو جس کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں وہ وعدہ فرماتا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو جنّت دے گا، چاہے وہ اس دنیا میں اقتدار نہ بھی حاصل کر سکیں، مگر وہی اصل کامیاب افراد ہیں۔
۷۵سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے جوش و خروش کے زاویہ سے حالیہ انتخابات تمام انتخابات سے زیادہ کامیاب انتخابات ہیں کیونکہ اس انتخاب نے جس عوامی شعور کو بیدار کیا، وہ اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آسکا۔ ماضی میں ہارنے والی جماعت پہلا کام یہ کرتی تھی کہ پریس کانفرنس میں انتخابات کو متنازع اور غلط قرار دے۔ لیکن آج چند لیڈر نہیں، بلکہ ملک کا بچہ بچہ انتخابات کا ناقد ہے۔ انتخابی دھاندلی کے مختلف طریقوں پر عام بحث و مباحثہ کر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
یہ عوامی شعور اس لیے ایک حقیقت ہے کہ اس کی بنا پر جن سیاسی جماعتوں کو سرکاری انتظامیہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہمدردی پر بھروسا تھا، یا جو اپنی ناجائز دولت کے ناجائز استعمال پر اعتماد کرتے تھے ،ان سب کو اس عوامی شعور نے کھلے عام آئینہ دکھا کر ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا، جن پر انتظامی یا عدالتی وسیلوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے ہوئے، پاک صاف ہو کر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے والوں کو بھروسا تھا۔ یہ عوامی شعور وہ اثاثہ ہے جسے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تما م عناصر کو پارٹی تعصبات سے بالاتر ہوکر مثبت انداز میں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے۔
ان انتخابات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس زمین کی زرخیزی میں کمی نہیں ہے۔ عوام کو اپنی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، وہ پُرامن تبدیلی کے لیے متحد ہیں۔ ان کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوت جو تعمیری کام کر سکتی ہے، وہ کسی شیطانی بہکاوے میں آکر لاوے کی طرح پھٹ نہ پڑے ۔ اللہ سے اچھی امید کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد، دستوری ذرائع کا استعمال، قول لین کے ساتھ کرنا ہی دین کی حکمت ہے ۔ جن حالات میں انتخابات ہوئے ہیں، وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں اداروں پر اعتماد کی بحالی ہی سب سے مشکل کام ہے، جس پر پوری قوم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملکی ادارے غیرجانب دار اور ملکی مفاد کو اوّلیت نہیں دیں گے اور اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ قومی سرمایے سے قوت اور اختیار حاصل کرنے والے طاقت ور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا اور یہ فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے دُہرا دیا ہے۔ یہ ووٹ جو عوامی شعور نے دیا،اس کا مظاہرہ آج سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ زیرِ لب الزام اور محدود سطح پر لعن طعن ہمیشہ تھا، لیکن قوم نے بڑے پیمانے پر آزاد نمایندوں کے حق میں ووٹ دے کر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو سیاسی منجم لگا رہے تھے، اور جو ہر آمرانہ، سرمایہ دارانہ ماحول میں پلنے بڑھنے والے اہلکاروں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔
قومیں ایسے ہی وجود میں آتی ہیں۔ جب خاکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے اس میں رنگ بھرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رنگ محبت ،اطاعت، ایمانداری اور دین اور ملک کے مفاد کو محفوظ کرے گا۔تحریک اسلامی کو صبغت اللہ کو اپنی پہچان بنانا ہوگا۔اگر اس کا ہر اقدام دعوتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ملک ِعزیز کو اپنے قیام کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ یہاں وہ نظام عدل قائم ہو جس کا درس ہمیں مدینہ منورہ میں قائم کردہ ریاست سے ملتا ہے۔ قائداعظم، علّامہ اقبال اور سیّد مودودی ایسی ہی عادلانہ، نہ کہ آمرانہ ریاست کے قائل اور علَم بردار تھے۔
_______________
دُنیا کے ملکوں کے دساتیر میں جن شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، ان میں آزادیٔ رائے ، اجتماع، ملکیت، جان و مال، شہرت وغیرہ کا تحفظ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی ہے،وہ سب دساتیر سے زیادہ اکرامِ انسانیت کی تعلیم دیتی اور ایسے قوانین فراہم کرتی ہے، جو آنے والے ہردور میں انسانوں کی جان، مال، عزّت، شہرت اور آزادیٔ فکر وغیرہ کو بنیاد شمار کرتی ہے۔
اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نامکمل ہدایات نہیں دیتا۔ اگر ایک عمل کی آزادی دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ حدود بھی متعین کردیتا ہے، جنھیں پار کرنا، قانون کو حرکت میں لے آتا ہے۔ قرآنِ عظیم نےدین اسلام کی اقامت کے حوالے سے واضح الفاظ میں اُمت مسلمہ کو باضابطہ طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور حاکمیت ِ اعلیٰ کے قیام کے لیے ذمہ داری سونپی ہے۔ قیامت تک یہ ذمہ داری ادا کرنے اور جواب دہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی طے کردی ہے کہ کسی فرد پر جبری طورپر کوئی تعلیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ کسی غیرمسلم کو مجبور کرکے مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔
لیکن چند ایسے افراد کا ایک گروہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بعض بیرونی اور اندرونی ادارے، جو ببانگ ِدہل اپنی تحریروں میں دُنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت تک ’کافر‘ ماننے پر اصرار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اُن کے وضع کردہ ایک جھوٹے مدعیِ مسیح و نبوت کو اپنا رہنما نہ مان لیں۔ ان قادیانی یا مرزائی یا احمدی افراد کی شائع کردہ ایک تصنیف تفسیرصغیر کی طباعت اور پاکستان اور ملک سے باہر اس کی تقسیم کرنے والے ایک فرد کے خلاف ملکی قانون کی رُو سے ایک مقدمہ (FIR) ۲۲/۶۶۱، ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر تھانے میں دائر کیا گیا کہ ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے سیکشن ۱۷ ، ۹ (ب) اور ’تعزیراتِ پاکستان‘ (Pakistan Penal Code) کے سیکشن ۲۹۸-سی اور ۲۹۵-بی کے تحت سزا دی جائے، چنانچہ اسے قید کردیا گیا۔
مجرم کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجداری درخواست دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک فنی نکتہ کی بناپر یعنی مجرم نے یہ جرم ۲۰۱۹ء میں کیا تھا، اور قانون کا نفاذ ۲۰۲۱ء میں ہوا اور چونکہ مجرم کے جرم کرتے وقت یہ قانون حرکت میں نہیں تھا، اس لیے اس قانون کے تحت اس کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے: ’’(۶) عقیدے کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں…(۱۶) مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات، حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں‘‘___ چنانچہ فنی بنیاد پر مجرم کو رہا کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر جو پہلو زیادہ غورطلب ہے، وہ یہ کہ اگر تفسیرصغیر ، جیساکہ نام سے ظاہر ہے، قرآن کی تفسیر ہونی چاہیے، اور ۹۷ فی صد مسلم آبادی کے ملک میں ایک ایسا فرد، جو قرآن کے واضح حکم یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ، اور ایک جھوٹے مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے تو FIR میں درج دیگر دفعات، جن کا تعلق توہینِ قرآن و رسالتؐ سے ہے،انھیں فیصلے میں کیوں مکمل طور پر ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے، جیسے ان کا ذکر فردِ جرم میں ہوا ہی نہ ہو؟
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ: کیا آزادیٔ رائے کا اصول، چاہے وہ دستور ِ پاکستان میں ہو، ایک غیرمسلم قادیانی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی تفسیر قرآن کو ملکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے (دیکھیے: ۲۹۸-سی، پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈ ایکٹ ۲۰۱۱ء، سیکشن ۷،۸،۹) تفسیرصغیر کے عنوان سے مسلمانوں کو دھوکا دےکر ایک ایسی تحریر جو قادیانی فکر کی نمایندگی کرتی ہے، مسلمانوں میں تقسیم کرے؟ کیا اسی کا نام آزادیٔ اظہار ہے؟
پاکستان کا ہرمسلمان شہری شریعت کے منافی یہ حق کسی قادیانی، فرد یا ادارے کو دینے پر تیار نہیں ہے، اور نہ یہ حق دستورِ پاکستان اور ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کسی غیرمسلم کو دیتے ہیں۔ اندریں حالات، اس فیصلے کو قانونی کارروائی کے ذریعے کالعدم کرانا ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔