امریکی ریاست پنسلوینیا کی سٹنفرڈ یونی ورسٹی سے پروفیسر حفصہ کنجوال کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب Colonizing Kashmir ایک اہم تحقیقی اضافہ ہے۔یہ کتاب ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کہلاتا تھا) شیخ عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا، جو اگلے دس سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام ، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، تاکہ وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے دستبردار ہوکر بھارتی یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے ، کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُوپر تلے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات ، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے، میڈیا پر قدغن اورمفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیر ہ شامل رہے ہیں، بخشی دورِ حکومت میںبھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔
مصنفہ نے بتایا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر، جب شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ء ہی میں وہ بھارتی حکمرانوں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا بھارت میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ ’’آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجا کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ءتک بھارتی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ صاحب، گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کر دی گئی۔ جس کو آج تک کشمیری بکائو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، اگرچہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے بخشی کا دور امتیازی رہا ہے۔
پروفیسر حفصہ کا کہنا ہے: ’’سری نگر کی حضرت بل درگاہ کے قریب واقع نسیم باغ کے قبرستان جہاں شیخ عبداللہ کی قبر ہے ، رات دن پولیس کے دستے حفاظت کرتے ہیں۔کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے چیمپئن ہونے ا ور جیل جانے کے باوجود، ۱۹۹۰ءکے عشرے میں جب مسلح عوامی بغاوت شروع ہوئی تو شیخ عبداللہ کی قبر کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی۔ کشمیر کی نئی نسل نے ان کو نئی دہلی کے ساتھ ۱۹۷۵ء کے معاہدے کے لیے معاف نہیں کیا۔ اس کے برعکس سرینگر کے مرکز میں واقع میر سید علی ہمدانی یا شاہ ہمدان کی خانقاہ کے احاطہ سے ذرا دور بخشی غلام محمد کی قبر ہے، جس کی حفاظت کے لیے انتظامیہ کو کبھی پولیس کی مدد نہیں لینی پڑی۔ شاید کسی کو اس قبر کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہے۔
کتاب کے مطابق ۱۹۵۲ء میں نہرو نے شیخ کو ایک خط میں بتایا تھا کہ: دستاویز الحاق کی آئین ساز اسمبلی میں توثیق کرنا ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں ، جمو ں و کشمیر میں استصواب رائے کروانے پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قانونی اور عوامی تائید پر مبنی دستاویز کی ضرورت ہے۔ چونکہ آئین ساز اسمبلی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئی ہے، اس لیے عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے کی گئی توثیق کو بھارت رائے شماری کے متبادل کے بطور پیش کرے گا___ مگر جب شیخ نے ان کو یاد دلایا: ’’ رائے شماری کے حوالے سے آپ نے جو وعدے مختلف فورموں پر کیے ہیں ، تو ان کا کیا ہوگا؟‘‘ تو نہرو نے بتایا: ’’ وادیٔ کشمیر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ، اگرچہ ذہین اور ہنر مند ہیں، وہ کسی قسم کے تشدد اور غیض و غضب سے دُور رہنے والے ہیں۔ وہ (کشمیری) نرم مزاج کے مالک اور آسان زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ عام لوگ بنیادی طور پر چند چیزوں میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ایماندار انتظامیہ، سستی اور مناسب خوراک‘‘۔ چونکہ یہ قوم صدیوں سے قحط اور کم خوراک کی شکار رہی تھی، نہرو کا کہنا تھا: ’’اگر وہ یہ حاصل کرتے ہیں، تو وہ کم و بیش مطمئن رہیں گے اور حقِ خود ارادیت اور رائے شماری کو بھول جائیں گے‘‘۔ نہرو کی اسی منطق کو اگلے دس سال تک بخشی غلام محمد نے اپنی حکومت کی اساس بنادیا۔
بخشی غلام محمد ۲۰ جولائی ۱۹۰۷ء کو سری نگر کے مرکز میں صفاکدل نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا کی مالی مدد سے، بخشی نے مقامی عیسائی مشنری اسکول میں تعلیم توحاصل کی،مگر آٹھویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ اپنی تحقیق کے دوران پروفیسر حفصہ نے کئی ایسی کہانیاں ریکارڈ کیں ہیں، جن میں بتایا گیا کہ بخشی سڑک پر گاڑی کھڑ ی کرکے لوگوں کو بلا کر ان کی استعداد معلوم کرتے تھے، جونہی معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کسی طرح پڑھا لکھا ہے، تو وہیں پر تقرر کا پروانہ تھما دیتے تھے۔ تقرر کے پروانے لکھنے کے لیے وہ کاغذ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ماچس کی ڈبیہ پر اور تو کبھی سگریٹ کے پیکٹ کے کاغذ کو پھاڑ کر اسی پر متعلقہ محکمہ کو اس شخص کے تقرر کا حکم صادر کردیتے تھے۔ انھوں نے ہفتہ وار اپنے دفتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھااور موقع پر ہی انتظامیہ کو حکم دے کر اس کا فالو اَپ بھی کرتے تھے، جب تک سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا۔
اپنے دور میں شیخ عبداللہ نے بھارتی حکومت سے فنڈز لینے میں احتیاط برتی تھی۔ ان کے دور میں کشمیر جانے کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ اسی طرح کسٹم کا سسٹم قائم تھا۔ جس سے ریاست کو آمدن ہو جاتی تھی۔وہ کشمیریوں کو باور کرارہے تھے کہ وہ چاول کھانا ترک کرکے آلو کو بطور غذا اپنائیں، کیونکہ چاول درآمد کرنے پڑتے تھے۔ مگر جب اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بخشی نے نئی دہلی سے مالی امداد طلب کی تو ان کو بتایا گیا کہ الحاق کی توثیق کے بعد ہی وہ مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔ رائے شماری کے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے، فروری ۱۹۵۴ء میں، بخشی نے قانون ساز اسمبلی سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرنے کی قرارداد پیش کی، جس کو منظور کرکے معاشی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کیا گیا۔
بخشی کو احساس تھا، کہ کشمیر ی عوام کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گرفتاریوں اور سخت نگرانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ خطے کو معاشی خوش حالی فراہم کرنے کے علاوہ عوام کو ثقافتی سطح پر مصروف بھی رکھا جائے، جس کے لیے ہر سال جشنِ کشمیر منانے کی روایت قائم ہوئی اور تقریباً ہر نئے دن فلمی اداکاروں کو کشمیر کے دورے کرائے جاتے۔ خوراک کی رعایتی قیمت بخشی کا ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کی وجہ سے اس کو اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ایک معمر صحافی پران ناتھ جلالی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ وہ شیخ عبداللہ سے جیل میں ملاقات کے لیے گئے، تو انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’کشمیریوں کا پیٹ بخشی نے چاولوں سے بھر دیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئے ہیں اور مجھے جیل میں سڑنے کے لیے چھوڑدیاہے‘‘۔ قانون ساز اسمبلی سے الحاق کی توثیق کرواکے بخشی کا کام دنیا کو باور کروانا تھا کہ ’’کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور عوا م نے تبدیلی کو تسلیم کرلیاہے‘‘۔
مصنفہ کے مطابق کشمیر کے تناظر میں نارملائزیشن کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کا سیاسی اور اقتصادی فائدہ بھارتی یونین میں ضم ہونے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں اسکول و کالج کی ٹیکسٹ کی کتابوں میں سیکولرزم پر ازحد زور اور کشمیر اور بھارت کے درمیان زمانہ قدیم کے رشتوں کا بار بار ذکر کرنا اور کشمیر کو ہندو دیوی دیوتاؤں کا مسکن قرار دینا، اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بخشی دور، کشمیر میں بدعنوانی کے لیے بھی بدنا م ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بخشی دور میں دولت حاصل نہیں کرسکا تو وہ کبھی نہیں کرسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی ٹھیکے دار کو ایگزیکٹو انجینیر نے بطور رشوت کسی مخصوص قالین کی فرمایش کی۔ قالین توٹھیکے دار نے فراہم کرادیا، مگر اس نے تہیہ کیا کہ اس انجینیر کی شکایت بخشی سے ضرور کرے گا۔ جب ملاقات کا وقت لے کر مقررہ وقت پر وزیراعظم کی رہایش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی قالین وہاں بچھا ہو ا تھا۔
تعمیر وترقی اور خوراک کی خریداری میں رعایت کے علاوہ بخشی نے اپنی ایک فورس پیس بریگیڈ کے نام سے بناکر انٹیلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ ان کا کام مخالفین کی سن گن لینا، ان پر حملہ یا ہراساں کرنا ہوتا تھا۔ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پیس برگیڈمیں گلی محلے کے غنڈوں کو بھرتی کردیا گیا تھا۔ وہ مخالفین کے منہ میں گرم آلو ڈالنے، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے اور گرم لوہے سے داغدار کرنے کے لیے مشہور تھے۔ان کو مقامی زبان میں خفتن فقیر یا رات کے بھکاری کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ عشاء کی نماز کے بعد وہ گشت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ کوئی ریڈیو پاکستان تو نہیں سن رہا ہے۔ ایسے شخص کا ریڈیو ضبط ہوتا تھا اور اس کو گرفتار کیا جاتا تھا یا مارپیٹ کر چھوڑا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدہ سرکاری ملیشیا بھی بنائی گئی تھی، جن کا کام شیخ عبداللہ کے حامیوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ یہ خاص محلوں کو کنٹرول کرتے تھے، اور ان کو کشمیری میں گوگہ کہتے تھے۔
ان دونوں میلیشاز کی وحشت زدگی کی داستانیں جب نئی دہلی پہنچیں، تو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ، گووند بلبھ پنت نے بخشی سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا۔ میرقاسم، جو کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بخشی حکومت میں وزیر تھے، ان کے مطابق،بخشی نے پنت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ دونوں گروپ غیر مسلح ہیں، تو کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پلنے والا ایک غنڈا، ہزاروں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا سکتا ہے۔مگر کتاب کے مطابق اس کے تحفظات کے باوجود بھارتی حکومت نے بخشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور کبھی ان گروپوں کو لگام نہیں ڈالی گئی۔
مصنفہ کے مطابق نہرو، کشمیر کو ایک خوب صورت عورت کے ساتھ تشبیہہ دیتے تھے، جو ’اُمیدوں اور خواہشات‘ کو بھڑکاتی ہے اور اس کے کئی عاشق ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کی یہ جنسی تصویر کشی، بھارت میں آج کل زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات کے بعد تو کئی لیڈروں نے بیانات داغے جن کے مطابق کشمیر کے تصور کو ایک نسائی جنت کے طور پراُبھارا جاتا ہے، جس کو دریافت کرنا اور جس کے اندر جگہ بنانا ضروری ہے۔ جنسی زبان کا استعمال کرکے کشمیرکے پہاڑوں اور مناظر کو نسوانی حوالہ بنا دیا گیا ہے۔ مصنفہ کا استدلال ہے، خواتین کے اجسام کے ساتھ کشمیر کے منظر نامہ کا موازنہ کرنا اور پھر بھارتی فوج کی مردانگی بیان کرنا، جو ان مناظر اور وادیوں کو پاؤں تلے روندتے رہتے ہیں، ایک طرح کے تعصب اور غیض و غضب کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ کتاب ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے، جو اس نازک دور میں کشمیر میں رُونما ہوئے۔کتاب کا مرکزی موضوع سیاست ہے کہ اس سیاست کو کس طرح کشمیری باشندوں کے روزمرہ کے معمولات ، بشمول روزگار، خوراک، تعلیم اور بنیادی خدمات سے متعلق مسائل کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری روزگار یا زندگی کے مسائل کے لیے جدو جہد کرتا ہے یا اس کا طالب ہوتا ہے ، تو اس کو حقِ خود ارادیت سے دستبرداری یا ہتھیار ڈالنے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جس سے ایک پیچیدہ اور اکثر متضاد منظر نامہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کنجوال نے ان طریقوں کا بھی جائزہ لیا ہے جن میں بخشی دور میں کشمیر میں بھارت کے کنٹرول کومضبوط کرنے کے لیے ’سیکولر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اسی کے ساتھ مسلم تاریخ کو مٹانے اور ’اچھے‘ مسلم اور ’بُرے‘ مسلم کے فرق کو واضح کیا گیا۔
پروفیسر حفصہ کی یقینا یہ ایک چونکا دینے والی تحقیق ہے۔یہ کتاب نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی قوم کی تشکیل کے روایتی دہرے معیار کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت بھی بھارتی حکومت کشمیر میںپرانے آزمائے ہوئے طریقوں ہی کو ٹھونس رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔ بخشی کے دس سالہ اقتدار کے بعد ۱۹۶۳ء میں حضرت بل میں موئے مقدس کی گم شدگی کو لے کر جب کشمیر اُبل پڑا ، تو بخشی اور اس کے حواریوں کو کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل پا رہی تھی۔ نہرو کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ دس سال تک جس نسل کو سیکولرزم اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ قدیمی رشتوں کا پاٹھ پڑھایا گیا اور جس کی ذہن سازی کی گئی تھی، وہی اس ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھی۔
جن افراد نے بخشی کو شیخ عبداللہ کے متبادل کے بطور اقتدار میں بٹھایا تھا، انھوں نے ہی اس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی معاملوں میں مقدمے درج کرکے اس کو جیل میں پہنچا دیا۔ دوسروں کی چاکری کرنے اور اپنوں سے بے وفائی کرنے والوں کی یہ تاریخ بار بار دُہرائی جاتی ہے، مگر افسوس کہ مفاد پرست عناصر اس سے کچھ بھی سبق نہیںلیتے۔ آخرکار ۱۹۷۲ء میں ایک تنہا اور غیر مقبول شخص کے رُوپ میں بخشی غلام محمد کا انتقال ہوگیا۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی ایک سبق اور تازیانہ ہے، جو اختراعی اقدامات کے بجائے جز وقتی اقدامات کا سہارا لے کر ایک پریشر ککر جیسی صورت حال پیدا کرکے اس کو ’نارملائزیشن‘ کا نام دیتے ہیں۔ اُن سب کے لیے سوچنے کا یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر خطّے میں دیرپا اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، نہ کہ ڈگڈگی بجاکر قبرستان کی خاموشی کو امن قرار دے کر اپنے آپ کو دھوکا دیا جائے۔