جنگی جرائم اور بین الاقوامی دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اگر فلسطین کی صورت حال پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، تو اس کے ردعمل کے نتیجے میں ممکنہ طور پر غیر ریاستی عناصر کے ذریعے یہ تنازع دوسرے خطوں تک پھیل سکتا ہے۔ اس طرح یہ عناصر دُنیا کے باقی علاقوں میں مسلح تصادم پھیلانے کے لیے عالمی نیٹ ورکس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تشدد بڑے پیمانے پر اور بڑی تیزی سے پھوٹ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ غزہ میں مسلسل جنگ مشرق وسطیٰ میں طاقت کی حرکیات کو مزید غیرمتوازن کردے گی، جہاں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔ انجامِ کار امن اور علاقائی سلامتی کی امیدیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حل طلب ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو آزاد ریاست بنانے کی اجازت نہ دے کر ’بالفور اعلامیہ‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی مسلسل توہین کی ہے۔
بالکل اسی طرح بھارت بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری نہیں کرتا اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، اور کسی نیوٹرل پارٹی کے ذریعے ثالثی کے عمل کو بھی خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی سرپرستی میں رائے شماری کروا کر معاملے کا فیصلہ کرنے میں غیر مؤثر رہی ہے۔ دونوں مسائل نسلی، علاقائی، تاریخی اور نظریاتی نوعیت کے ہیں۔ بھارت کشمیر کی آئینی پوزیشن کو تبدیل کر کے آبادیاتی تبدیلی لانے کے لیے جنگی قوت اور جبری قانون سازی کے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔
اسرائیل، حماس کو الگ تھلگ کر کے مقامی لوگوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس طرح، ’اسرائیل اور بھارت‘ دونوں امریکا کے اسٹرے ٹیجک شراکت دار اپنے مضبوط گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی اسی طرح کی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین اور کشمیر کی آبادیوں کو ہدف بناکر ان کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ مسلم دنیا کی حکمران اشرافیہ جو اپنی قوم کے بجائے مغرب کے مفادات کی وفادار ہے، بھارت اور اسرائیل کی حکومتوں کے ان اقدامات کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی ہے۔بھارتی اور اسرائیلی قیادت اپنے زیرتسلط خطّوں میں بے بس اور مظلوم لوگوں کو زیرتسلط لانے کے لیے سنگین اقدامات کررہی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت اپنے جبری قبضہ سے بچوں سمیت ہزاروں لوگوں کا وحشیانہ قتل اور تشدد، قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک سمیت مسلسل متعدد جنگی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ وحشیانہ جرائم منظم طریقے سے فلسطین اور کشمیر دونوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر رُوبہ عمل ہیں۔اس کے علاوہ شہریوں اور طبّی عملے پر حملے اور مسلح تصادم انسانیت کے خلاف صریح جرائم کی مثالیں ہیں۔
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل رد عمل کے طور پر فلسطین کے اسپتالوں، یادگاروں، مذہبی اور ثقافتی ورثے کے مقامات پر خوفناک حملے کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں نے بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوعہ دھماکا خیز ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ کشمیر میں، بھارت ماورائے عدالت قتل، حراستی تشدد، غیرقانونی حراستوں، شہریوں کے خلاف تشدد اور جبری گمشدگیوں میں ملوث چلا آرہا ہے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا ہے جس سے معصوم شہری زخمی اور اندھے ہورہے ہیں۔ مزیدبرآں کشمیریوں کی اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر سنگین پابندیاں لگانا اور طویل کرفیو عائد کرنا اور لاک ڈائون، عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں چلنے چاہییں۔ ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور جنیوا کنونشنز میں درج انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ فلسطین کی صورتِ حال روم کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، اور بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث افراد کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار رکھتی ہے۔ بہت سے قوانین جو جنگ اور امن میں انسانوں کی حالت زار کے خلاف انسانی وقار کی حفاظت کرتے ہیں، انھیں حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، نسل کشی کی روک تھام کے کنونشن کو اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں قابل سزا جرم کے طور پر اپنایا تھا۔ ۱۹۶۵ء میں، اقوام متحدہ نے نسلی امتیاز کی تمام اقسام کے خاتمے اور روک تھام اور انسانی مساوات کے فروغ کے لیے ICERD کنونشن منظور کیا۔ ۱۹۸۴ء میں ٹارچر کے خلاف کنونشن (سی اے ٹی) انسانوں کے ساتھ تشدد اور ظالمانہ سلوک کو روکنے کے لیے اپنایا گیا۔ سال ۲۰۰۲ء کے دوران تشدد اور غیرانسانی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک طریق کار تیار کرنے کے لیے پروٹوکول بنایا گیا۔ جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کے تحفظ کے لیے، ۲۰۰۶ء میں ایک بین الاقوامی کنونشن منظور کیا گیا تھا، تاکہ مختلف شکلوں میں جبری گمشدگیوں کے قابلِ سزا جرم کو روکا جا سکے، جس میں ریاست یا اس کی رضامندی سے افراد کی گرفتاری، حراست اور اغوا شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۶۷۴(۲۰۰۶ء) کو نسل کشی اور تشدد جیسے جرائم کے خلاف ایک مؤثر قانون کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی صورتِ حال مقبوضہ سرزمین کی طرح ہے، لہٰذا بین الاقوامی انسانی بہبود کا قانون (IHL) اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون (IHRL) کا اطلاق ماورائے عدالت پھانسیوں کی مختلف صورتوں سے نمٹنے کے لیے ہے، جو کہ روم کے قانون کے آرٹیکل ۷ کے تحت جرم ہے اور IHL کے تحت جان بوجھ کر قتل، چوتھا جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ روم انسٹی یٹوٹ آف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے مطابق یہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔
تاہم، IHL اور IHRL کو نافذ کرنے میں عالمی اداروں کی راہ میں بڑی طاقتوں کے شاونزم (وطن پرستی) کی وجہ سے بڑی رکاوٹ کھڑی ہے۔ بڑی طاقتیں عالمی فیصلہ سازی میں آمرانہ اختیار رکھتی ہیں۔ اس اختیار کے باوجود، وہ جارحیت کو روکنے سے گریزاں ہیں اور اگر ان کے جغرافیائی، سیاسی، فوجی اور سفارتی مفادات کو پورا نہ کیا جائے تو وہ سفاکانہ تنازعات میں ثالثی کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ عسکری کارروائیاں کرکے، اسلحہ بیچ کر، مالیاتی بحران کو بڑھا کر اور اتحاد اور جوابی اتحاد بنا کر اپنے اثر و رسوخ کے نیٹ ورک کے ذریعے خطّوں کو غیرمستحکم کرکے عالمی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس وجہ سے اقوام متحدہ کی حیثیت اور ساکھ ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگجو ریاستوں پر اقتصادی اور سفارتی پابندیاں لگا سکتی ہے جو امن کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ سلامتی کونسل کو غزہ میں بڑھتے ہوئے مسلح تصادم میں جارح فریقوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کا اختیار ہے۔ تاہم فلسطین کی صورتِ حال پر ویٹو کے یک طرفہ اور غیر جمہوری انداز نے خود سلامتی کونسل کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور امن کے امکان کو شدید دھچکا لگایا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو سلامتی کونسل کو جمہوری بنانے اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل ۶ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں جو تسلیم کرتا ہے کہ ’’ہر انسان کو زندگی گزارنے کا حق ہے‘‘۔
اس پس منظر میں ہرزندہ ضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی مظلومیت کو دل و دماغ میں زندہ رکھے اور اپنی آواز بلند کرے۔(ایکسپریس ٹربیون، ۲۲جنوری ۲۰۲۴ء)