اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں ہے جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی زندگی کی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند افکار اور چند رسوم و رواج پر مشتمل ہو۔ اس کے برعکس یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خدائے بزرگ و برتر اور اس کے نبی صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے، اور حیاتِ انسانی کے ہرپہلو کو خداکے نُور سے منور کرتا ہے۔ خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، اورملکی ہو یا بین الاقوامی ۔ اسلام کی اصل دعوت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دُنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہرگوشے تک خالقِ حقیقی کی مرضی پوری ہو۔ اور یہ کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا، جو ایک طرف اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلیتا ہے، اور دوسری طرف خدا کے دین کو تمام روئے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے جس دین کو پسند فرمایا ہے وہ اسلام ہے، اس کو چھوڑ کر جو راہ بھی اختیار کی جائے گی، وہ دُنیا اور آخرت میں ناکامی اور نامرادی کی راہ ہوگی:
اپنے پیرووں سے اس دین کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع کردیں اور زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اسی دین سے حاصل کریں اور کسی دوسرے سرچشمہ کی طرف رجوع نہ کریں ورنہ ان کی یہ روش شیطان کی پیروی کے مصداق ہوگی:
’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی میں صرف ہو۔ ہم اپنی تمام انفرادی اور اجتماعی، نجی اور معاشرتی، معاشی اور سیاسی، اخلاقی اور تمدنی سرگرمیوں کو خدا کی ہدایت کے تابع کردیں۔ صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے روشنی طلب کریں۔جھکیں تو صرف اس کے آگے، مانگیں تو صرف اس سے، رجوع کریں تو صرف اس کی طرف، بڑھیں تو صرف اسی کی راہ پر۔ ہمارا مقصد صرف خالق و مالک کی رضا کا حصول ہو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ یہی معنی ہیں اسلام کے اور یہی حقیقت ہے توحید کی۔
پھر دین میں پورے داخل ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہمارا مقصد ِ زندگی اپنی ذاتی اغراض کا حصول نہ ہو، بلکہ ہم اپنی زندگیوں کو ایک اعلیٰ تر نصب العین کے لیے وقف کردیں اور یہ نصب العین ہے اقامت دین اور غلبۂ حق!
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ؑ کو جس مقصد کے لیے بھیجا وہ یہی مقصد ِ اعلیٰ تھا کہ انسانوں تک حق کی دعوت کو پہنچائیں، بالآخر دین کو غالب اور خدا کے کلمہ کو ہرچیز پر بلند کردیں:
انبیائے کرام علیہم السلام کا بنیادی فریضہ یہی تھا کہ حق کی شہادت دیں اور زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع کردیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کام آپؐ کی پوری اُمت کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ اس شمع کو روشن رکھے، جسے انبیاعلیہم السلام نے روشن کیا۔ اس جھنڈے کو بلند رکھے جسے ان مقدس ہستیوں نے اُٹھایا تھا اور قیامت تک قیامِ دین کی جدوجہد میں مصروف رہے:
اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ’خیرِ اُمت‘ بنایا ہے اور اس کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ دین کو قائم کرے، نیکیوں کا حکم دے اور بُرائیوں کو روکے اور خدا کی طرف انسانوں کو بلائے:
یہ ذمہ داری پوری اُمت کی ہے اور اس اُمت کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کارِعظیم کو انجام دینے کے لیے ایک منظم ادارے کی شکل اختیار کرے اور اگر خلافت علیٰ منہاج النبوت کا یہ ادارہ موجود نہ ہو تو پھر فرداً فرداً ہرشخص اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ذمہ دارہے، اور ان افراد کا فرض ہے کہ اس کوانجام کو دینے کے لیے وہ مناسب صورت اختیار کریں:
۱- اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم ہرقسم کے شرک کو ترک کردیں اور اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دے دیں۔
۲- ہماری ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ دین کو اپنی ذات پر قائم کریں بلکہ بحیثیت مسلمان یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ دین کو قائم کریں، اور خدا کے بندوں کو ظلم کے غلبے سے نجات دلا کر دینِ حق اور امن وعدل کی طرف لائیں۔
۳- اقامت ِدین کا یہ فریضہ پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طرف خود دین کے قیام کی جدوجہد کریں، اور دوسری طرف دین کی سربلندی اور اس مرکزی نظامِ امر کے قیام کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں تاکہ اُمت پوری شانِ مرکزیت کے ساتھ دعوت الی الخیرکا عظیم کام انجام دے سکے۔
یہ ہے ہم سب مسلمانوں سے اسلام کا ناقابلِ انکار مطالبہ!
آج پورے عالم اسلام میں مسلمان جن مشکلات اور مصائب سے دوچار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں اپنے ’خیراُمت‘ ہونے کا احساس باقی نہیں رہا ہے، اور وہ اپنے مسائل کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے محض اپنی ناپختہ عقل اور تجربات یا وقت کے چلتے ہوئے نظاموں کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح فی الحقیقت اپنی مشکلات کو پیچیدہ تر کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے فلاح کی صرف ایک راہ ہے اور وہ ہے محمد رسولؐ اللہ کے دین کی اطاعت اور اس دین کے قیام کی راہ۔
جماعت اسلامی کے قیام کا اصل محرک قرآن و سنت کے واضح احکام اور مسلمانوں کی تاریخ کے ناقابلِ انکار تقاضے ہیں۔ یہ جماعت نہ ان محدود معنی میں ایک مذہبی یا اصلاحی جماعت ہے، جن میں یہ الفاظ عام طور پر بولے جاتے ہیں، اور نہ ان معنوں میں ایک سیاسی جماعت ہے، جن میں سیاسی محاورے میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے، جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریۂ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اس کو قائم کرنے کے لیے ایک واضح پروگرام رکھتی ہے۔ یہ جماعت دینِ حق کو انسانی عقائد و افکار میں، اخلاق و عادات میں، علوم و فنون میں، ادب و آرٹ میں، تمدن و تہذیب میں، مذہب و معاشرت میں، عدالتی و معاشی معاملات میں، سیاست اور نظمِ مملکت میں اور بین الاقوامی تعلقات و روابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب اخلاقی بگاڑ کو سمجھتی ہے۔ اس کی نگاہ میں تمام خرابیوں کا مرکز، خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جواب دہی سے بے نیازی اور انبیا علیہم السلام کی رہنمائی سے رُوگردانی ہے۔ یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی و اطاعت کے اصول پر قائم ہو۔ یہ بندگی و اطاعت آج اپنی صحیح اور کامل صورت میں صرف سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی میں موجود ہے، اور جس کی عملی صورت ہمیں آپ کے اسوئہ مبارکہ میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے میں ملتی ہے، اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہرچیز کو اس اخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔ اس جدوجہد کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یہی جماعت اسلامی کا مقصد و نصب العین ہے اور اس کو جماعت کا دستور اس طرح پیش کرتا ہے:
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔ اور اس نصب العین کی یہ تشریح دستور میں کی گئی ہے:
’اقامت ِدین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے ، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے اور ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اعلیٰ مقصد ِ زندگی ، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دُنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے، اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین رضائے الٰہی ہے، جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ۴)
جماعت اسلامی کی دعوت تمام انسانوں کو، بالخصوص مسلمانوں کو یہ ہے:
قیادت کی یہ تبدیلی ایک ہمہ گیر عمل ہے اور زندگی کے ہرشعبے اور ہر مقام پر یہ تبدیلی واقع ہونی چاہیے۔ جب تک علوم وفنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، ملکی سیاست وعدالت،مالیات، صنعت و حرفت اور تجارت، انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، غرض ہرشعبۂ زندگی کی قیادت اور امامت خدا کے فرماں بردار بندوں کے ہاتھوں میں منتقل نہیں ہوجاتی، زندگی کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ہماری دعوت تمام مسلمانوں کو یہ ہے کہ آیئے! دین کو اپنی زندگیوں میں بھی قائم کریں اور پورے نظامِ زندگی پر بھی ۔ یہ ہے صراطِ مستقیم کی دعوت!
اس مقصد کو حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے ایک مفصل اور مربوط لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ اس پروگرام پر یہ جماعت مسلسل کام کررہی ہے۔ یہ لائحۂ عمل چار اجزا پر مشتمل ہے:
۱- افکار ونظریات کی اصلاح اور ان کی تعمیر: جماعت کی اوّلین کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ ایمان تازہ کیا جائے، جس کی دعوت رسولؐ اللہ نے دی تھی۔ اسلام سے ہماری جذباتی وابستگی بڑی گہری ہے، لیکن ہم اس تفصیلی ایمان اور علم سے محروم ہیں، جو زندگی کو خدا کے قانون کے مطابق گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ پھر ہمارے ذہن و فکر پر ایک طرف ’قدامت‘ کا غلبہ ہے، جو وقت کی حقیقی ضروریات تک کے احساس سے عاری ہے، تو دوسری طرف مغربی فکروفلسفہ کا تسلط ہے، جو ہمارے نوجوان اور ذہین طبقے کو مغرب کی لادینی تہذیب کی طرف کھینچے لیے جارہا ہے۔
جماعت اسلامی کی کوشش یہ ہے کہ ایک طرف غیراسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کونمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ ہے۔ تیسری طرف تجدّد پسندی کے اس فتنے کا بھرپور مقابلہ کیا جائے، جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کی بیخ کنی میں مصروف ہے اور جو زمانہ کو اسلام کے مطابق چلانے کے بجائے اسلام کوزمانے کےمطابق بدلنا چاہتا ہے۔
جماعت اسلامی، اسلام کی ابدی صداقتوں کو ان کے حقیقی رنگ میں پیش کرنے میں مصروف ہے اور اس کا لٹریچر مسکت دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور دُنیا اور عقبیٰ دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہ لٹریچر پوری وضاحت کے ساتھ اس امر کو پیش کرتا ہے کہ دورِ جدید کے مسائل اور معاملات کو اسلام کے مطابق کس طرح حل کیاجاسکتا ہے؟ اور آج کی دُنیا میں قرآن و سنت کے مطابق ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے؟ جماعت اسلامی کے اہل قلم نے اس مقصد کے لیے کتب اور مقالات لکھے ہیں، اور دُنیا کی زبانوں سے لٹریچر کو ترجمہ کرکے مطالعے کے لیے فراہم کیا ہے۔ ہمارے رسالے اور اخبار انھی حقیقتوں کو پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں دارالمطالعے جماعت کی زیرنگرانی اس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے کارکن گھر گھر لٹریچر پہنچاکر تعمیر افکار کی یہی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ تبدیلی وہی مستقل اور مفید ہوتی ہے، جس کی جڑیں ایمان اور یقین میں ہوں اور جو دل ودماغ میں پیوست ہوں۔
۲- صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت:جماعت اسلامی کے پروگرام کا دوسرا جزو اچھے افراد کی تلاش اور اُمت کے تمام حق پسند عناصر کو ایک مرکز پر جمع کرکے ان کی تمام صلاحیتوں کو دینِ حق کے قیام کے لیے بروئے کار لانا ہے۔
ہم اپنے معاشرے میں ان مردوںاور عورتوں کو ڈھونڈتے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، جن کے اندراصلاح کاجذبہ موجود ہو اور جو حق کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں، خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ،ہم انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہتے ہیں۔
ایسے لوگ اگر وہ ہمارے نظام کو کُلی طور پر اختیار کرلیں تو ہم انھیں جماعت اسلامی کا ’رکن‘ بنا لیتے ہیں اور اگر وہ رکنیت کی شرئط کو پورا کیے بغیر صرف تائید و اتفاق پر اکتفا کریں تو ان کو اپنے حلقۂ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے معاشرے کا صالح عنصر جو منتشر ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں، ایک مرکز پر جمع ہوجائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔ پھر ہم ان عناصر کو منظم ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی سیرت و اخلاق کا تزکیہ کرنے میں مدد فراہم کرتے اور قابلِ اعتماد بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، تاکہ اسلام کے کارکنوں میں وہ صالح سیرتیں اور تعمیری صلاحیتیں پیدا ہوں، جو قرآن و سنت کے مطابق نظامِ زندگی کو تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
۳- اصلاحِ معاشرہ:اس طرح جو قوت جماعت اسلامی کو حاصل ہوتی ہے، وہ اسے معاشرے کی اصلاح اور اس کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کی جدوجہد میں صَرف کرتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کا کام بڑا اہم اور وسیع کام ہے۔ اس میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقِ عامہ کے تحفظ سے لے کر طبّی امداد،یتیموں اوربیوائوں کی مدد،طلبہ کی اعانت تک اور مسجدوں کی تعمیر اور فرقہ واریت سے بالاتر رہتے ہوئے ان کی تنظیم شامل ہے۔ اس طرح ہمارے پیش نظر اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں اس قوت کو منظم کرنے سے لے کر رشوت، خیانت، اخلاق باختگی کے انسدادتک اور تعلیم بالغاں سے لے کر ’اپنی مدد آپ‘ کے اصول پر خدمت ِ خلق کے کاموں تک تمام چیزیں شامل ہیں۔ ہمارے کارکن اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں یہ کام کر رہے ہیں تاکہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچّے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا ہوسکے۔ مسلمان ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہوں، ان کے مال، جانیں اورآبرو ایک دوسرے سے محفوظ رہیں اور شانہ بشانہ جذبۂ اخوت سے سرشار ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
۴- نظامِ حکومت کی اصلاح: اصلاحِ معاشرہ کے اس کام کے ساتھ ہم اس بات کے لیے بھی جدوجہد کرر ہے ہیں کہ نظامِ حکومت درست ہو اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی قائم کریں اور اپنے ملک و ملّت پر بھی۔
زندگی کے موجودہ بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنا اَزبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کےمقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا، اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام کوفسق و ضلالت کی راہ سے ہٹاکر دینِ حق کے صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں، تو ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند ِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ فائز کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اہل خیروصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند برسوں کے اندر وہ کچھ کرڈالیں گے، جو غیر سیاسی تدبیروں سے مدت تک نہیں ہوسکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟ ہمارے نزدیک اس کا مؤثر راستہ انتخابی جدوجہد ہے۔ ضرورت ہے کہ رائے عامہ کی تربیت کی جائے۔ عوام کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح اور باصلاحیت لوگوں کو ذمہ داری اور اختیار کے مقام پر پہنچایا جائے، جو ملک کے نظام کو خالص اسلامی شورائیت کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔
جماعت اسلامی دعوتی، قانونی اور دستوری طریقہ سے ایک اسلامی جمہوری نظام قائم کرنے کی داعی ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں، اسلام کے لیے اقتدار چاہتی ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ ملّت کا صالح ترین عنصر اس کی زمامِ کار سنبھالے، تاکہ مسائل اُلجھنے کے بجائے سلجھیں اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
جماعت اسلامی کا یہ مستقل پروگرام ہے اور اس لائحہ عمل کے ذریعے وہ ملک کی پوری زندگی پر دینِ حق کو قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ یہ ملکِ عزیز پوری دُنیا کے سامنے دین کی شہادت دے۔
جماعت اسلامی چند بنیادی خصوصیات کی بنا پر دوسری تنظیموں اور اداروں سے الگ ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
۱- اصولی تحریک:جماعت اسلامی ایک اصولی اوردینی تحریک ہے، جو پورے نظامِ زندگی پر اسلامی نظریۂ حیات کو غالب اور حکمران کرنا چاہتی ہے۔ اس تحریک کا تعلق نہ کسی خاص گروہ سے ہے اور نہ کسی خاص مقام سے۔ اس کےدروازے ہراس شخص کے لیے کھلے ہیں، جو خدا کو اپنا حاکم اعلیٰ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اورہادی، اورآپؐ کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنی زندگی کا ضابطہ مانتا ہو۔ اس میں نہ رنگ کی تفریق ہے، نہ نسل کی، نہ مقامی عصبیت کا اس میں کوئی دخل ہے اور نہ علاقائی تعصب کا۔ یہ تمام انسانوں کو ایک کلمۂ حق پر جمع کرتی ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی کی بنیاد خدا اور اس کے آخری رسولؐ کی ہدایت ہے۔ اس میں بڑائی اور عزّت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اس کا مسلک اورمشن صرف اسلام ہے۔ یہ اس فرد،ادارے اور تنظیم کی دوست ہے جو اسلام کو دوست رکھے اور اس کے مدِمقابل ہے جواسلام سے غداری کرے۔ یہ اس سے جڑتی ہے جو اسلام سے جڑے، اور اس سے کٹتی ہے جو اسلام سے کٹے۔ اس تحریک میں اسلام اور بنی آدم سے محبت ہے اور کسی عصبیت کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
۲- اجتماعی تحریک :جماعت اسلامی ایک اجتماعی تحریک ہے۔ یہ اسلام کی دعوت کو صرف نظری اور کتابی حدتک ہی پیش نہیں کرتی، بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے عملاً قائم کرنے کےلیے سرگرم ہے۔یہ جذبۂ جہاد کو بیدار کرتی ہے۔ یہ منکرکے خلاف تمام قوتوں کو صف آرا کرتی ہے اور معروف کےقیام کے لیے اپنی ساری طاقتیں صرف کر رہی ہے۔ اس کا اصل میدان گوشۂ عافیت نہیں ہے، بلکہ کارزارِ حیات ہے۔ یہ دُنیا سے فرار کی نہیں دُنیا کی تسخیر کی داعی ہے۔ اس کا کام صرف وعظ و تلقین تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ عملی جدوجہد کررہی ہے اور حق کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ یہ معاشرے کی ایک قوت ہے اور اجتماعی زندگی کے رُخ کو موڑ کر اسے دینِ حق کے تابع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ زندگی سے بھاگنے والوں کے لیے جائے امان نہیں، بلکہ حق کی خاطر جان د ینے والوں کی ’شہادت گہِ اُلفت ‘ ہے۔
۳- انقلابی دعوت: جماعت اسلامی ایک مثبت ، جامع اور ہمہ گیر انقلاب کی داعی ہے۔ یہ طاغوت سے مصالحت کے بجائے اس کے پورے نظام سے پنجہ آزمائی کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کے لیے کام کرر ہی ہے۔ یہ زندگی کے سارے شعبوں کی اصلاح و تعمیر چاہتی ہے اور اس انقلاب کی دعوت دیتی ہے، جسے رسولِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، جسے آپؐ کے راشد خلفاء نے مستحکم کیا تھا۔ جس کا سرچشمہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ ہیںاور جس کی دعوت ہردور اورہرزمانہ میں صلحائے اُمت دیتے رہے ہیں۔ یہ تمام انسانوں کو شخصیات کی طرف بلانے کے بجائے قرآن و سنت کی اصولی دعوت اور جدوجہد کی طرف بلاتی ہے۔
۴- نظامِ صلاح واصلاح : جماعت اسلامی ایک نظامِ صلاح و اصلاح ہے۔ یہ تعمیرِاخلاق اور تشکیلِ سیرت کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دلوں کو نفاق سےاورزندگی کو بدعملی سے پاک کرنا چاہتی ہے۔یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تمام انسانوں کی، خصوصاً ان لوگوں کی زندگیوں کا، جو اس کی دعوت پر لبیک کہیں، کردار سازی کے عمل کے ذریعے ان کو اسلام کا سچا نمایندہ بنانا چاہتی ہے۔ اس کامقصد صرف خارجی دُنیا ہی میں تبدیلی نہیں بلکہ قلب و نظر اور اخلاق و سیرت کی بھی اصلاح ہے اور اس طرح یہ ایک نظامِ تربیت بھی ہے۔
۵- فرقہ بندی اور فقہی عصبیت سے پاک:جماعت اسلامی کی دعوت دین کی اصولی اور کُلی تعلیمات کی طرف ہے۔ وہ کسی فقہی مسلک کی داعی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی فروعی و فقہی مسائل کے دائرے میں کوئی دخل نہیں دیتی۔ اس میں وہ تمام لوگ شریک ہیں، جو دین کو سربلند کرنا چاہتے ہیں، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فقہی گروہ سے ہو۔ یہ جماعت فقہی اختلافات سے صرفِ نظر کرتی ہے اور ہرشخص کو اس بات کے لیے آزاد چھوڑتی ہے کہ اپنے فقہی مسلک کے مطابق فروعی معاملات میں جو راہ صحیح سمجھتا ہے، اسے اختیار کرے۔ البتہ یہ جماعت تمام مسلمانوں کو، بلالحاظ فرق و مذہب، شہادتِ حق اور شریعت اسلام کے قیام کی جدوجہد میں مصروف کرتی ہے۔ آج، جب کہ اسلام اور لادینیت کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ برپا ہے۔ جماعت اسلامی فقہی اختلافات میں رواداری اور اعتدال کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کے تمام مکاتب ِ خیال کے پیرووں کو لادینیت و الحاد کے مقابلے میں صف آرا کرنا چاہتی ہے اور دین کی اجتماعی قوت سے کفروضلالت کی قوتوں کے سامنے روک لگانا چاہتی ہے۔
۶- مستقل اور ہمہ گیر دعوت:جماعت اسلامی عام سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف قسم کی جماعت ہے۔ اس کا کام مستقل نوعیت کا ہے اور یہ محض الیکشن کے زمانے میں نمودار ہونے والی تنظیموں میں سے نہیں۔ یہ سیاسی اصلاح و تعمیرمیں تو ضرور مصروف ہے،لیکن محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک فطری تحریک بھی ہے اور نظامِ اصلاح و تربیت بھی ہے۔ تعلیم و تزکیہ کا گہوارہ بھی ہے اور سماجی سدھار اور خدمت ِ خلق کا مرکز بھی ہے۔ یہ جماعت پوری زندگی کی اصلاح کے لیے اُٹھی ہے اوردوسری سیاسی جماعتوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔
جماعت اسلامی کا مقصد ہر طریقے سے اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے۔ اس کا اصلی مقصد اسلام کا اقتدار ہے، اپنا اقتدار نہیں۔اس کی ساری جدوجہد اخلاقی اصولوں کے ذریعے ہے اور اس کی نگاہ میں ہر وہ کامیابی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے، جو اخلاقی اصولوں کو قربان کرکے حاصل ہو، اور ہروہ شکست گوارا اور عزیز ہے جو اخلاق کی فتح اور سربلندی کا نتیجہ ہو۔
پھر اس کے پیش نظر ’اپنے لوگوں‘ کو برسرِ اقتدار لانا نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ان تمام افراد کو زمامِ قیادت سونپنا ہے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی نافذ کرتے ہوں اور اسے معاشرے پر بھی قائم کرنے کا عزم و صلاحیت رکھتے ہوں، خواہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہو یا کسی دوسرے تعمیری ادارے یا گروہ سے۔ ہم ہرتعصب کو ختم کرکے اسلام اور صرف اسلام کے لیے قوت و غلبہ چاہتے ہیں اور یہی ہماری بنیادی خصوصیت ہے۔
ہرشخص بڑے کرب اور بے چینی کے ساتھ یہ دیکھ رہا ہے کہ حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے ہیں۔ بُرائیاں پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیوں کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بدی نہ صرف یہ کہ بڑھ رہی ہے بلکہ منظم ہورہی ہے اور جری ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی سرپرستی میںثقافت کے نام پر ہماری قیمتی تہذیبی روایات کو پامال کیا جارہا ہے۔ تعلیم، نئی نسلوں کو دین اور تمدن دونوں سے بے بہرہ کر رہی ہے۔ معاشی بے چینی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ معاشی فساد بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک عام شہری کےلیے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہورہی ہے۔ بیرونی قرضوں کی زنجیروں نے پورے ملک کو جکڑ لیا ہے، امن و امان غارت ہوچکا ہے۔ جان اور مال کی کوئی حفاظت باقی نہیں رہی ہے۔ عزّت و آبرو کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ مایوسی برابر بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح بربادی کی طرف جاتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہنا کسی محب ِ وطن کا کام نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کے لیے اُٹھے۔ گیہوں کا ایک دانہ بھی محنت و مشقت اور جہدوکوشش کے اس عمل کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا جو قدرت نے مقرر کردیا ہے ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے کہ جب اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس کا سامان فراہم کیا جائے اور اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی جائیں:
اِن حالات کا تقاضا ہے کہ ہر ذی شعور شہری ملک کی حفاظت اور دین کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجائے۔ یہ زمین و آسمان ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حق کو پہچانیں اور اس کے لیے جان کی بازی لگادیں۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوتوں کو اصلاح و تعمیرکی جدوجہد میں لگاچکی ہے۔ اس کا نصب العین، طریق کار اورلائحہ عمل آپ کے سامنے ہے۔ یہ ہرمسلمان کو یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اوراس کا ساتھ دے۔ حق و باطل کی جو کش مکش آج برپا ہے آپ اس کے محض ایک خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور حق کا ساتھ دینے کا عزم لے کر آگے بڑھیں اور خیرواصلاح کی قوتوں کومضبوط کریں اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں عملاً شریک ہوں۔
جماعت اسلامی سے وابستگی کی دو صورتیں ہیں: وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنے کا اقرار کریں، فرائض کی پابندی اور کبائر سے اجتناب کریں اور اپنے آپ کو جماعت کے سپرد کردیں، وہ اس کے رکن بن سکتے ہیں، اور جو جماعت اسلامی کے مفید پروگرام اور طریقۂ کار سے اتفاق کریں، لیکن کسی وجہ سے جماعت کی رکنیت کی ذمہ داریاں قبول نہ کرسکیں، وہ جماعت کے متفق بن کر اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی آپ کو اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی طرف بلاتی ہے اورکہتی ہے کہ من انصاری الی اللہ،کون ہے جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرا ساتھی اورمددگار بنے؟
اب یہ فیصلہ کرنا ہرفرد کا کام ہے کہ وہ حق و باطل کی کش مکش میں اپنا وزن کس طرف ڈالے؟ اس ملک کو خطرے سے نکالنے اور اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لیے جدوجہد اور قربانی کی راہ اختیار کریں گے یا محض ایک خاموش تماشائی کا رول اختیار کریں گے؟ یاد رکھیے! اس ملک میں جو کچھ بھی ہوگا، اس سے آپ، آپ کے اہل و عیال اور آپ کی آنےوالی نسلیں غیرمتعلق نہیں رہ سکتیں اور جو کچھ آپ یہاں کریں گے اس کا ایک دن بہت بڑی اور برگزیدہ عدالت میں آپ کو جواب بھی دینا ہوگا۔