اسلام کی بنیاد دو ستونوں پر ہے: ایک اللہ کی عبادت اور دوسرے مخلوق کی خدمت۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ستون بھی ڈھے جائے تو پوری بنیاد ہل جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ان کے بارے میں ارشاد ہے:
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم ایمان لائو، اللہ پر، یوم آخرت پر، اور فرشتوں پر، کتاب اور پیغمبروں پر اور مال خرچ کرو، اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کی آزادی پر اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔(البقرہ۲: ۱۷۷)
اسلام نے اللہ کی عبادت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کو یکساں اہمیت دی ہے۔ اس کے لیے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے اور اس کی جواب دہی بھی ہے۔ اگر معاشرے میں حاجت مند اور مفلوک الحال لوگ موجود ہوں اور صاحب ِحیثیت ان کی دستگیری نہ کریں تو ان کا عقیدہ بے اثر اور عبادت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ اللہ کی رضا کا راستہ بندوں کی خدمت کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس لیے دینی اعمال سماجی تقاضوں کی تکمیل کے بغیر معتبر نہیں ہوتے۔ اس نکتہ کو قرآنِ پاک نے اس طرح سمجھایا ہے:
اس نے گھاٹی نہیں پار کی اور تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ گھاٹی؟ غلام آزاد کرانا، فاقہ کے دن میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو، پھر وہ ہوجائے ایمان والوں میں اورصبر کی اور رحم کھانے کی تاکید کرنے والوں میں۔وہ لوگ بڑے نصیب والے ہیں۔(البلد ۹۰:۱۱-۱۸)
یعنی اللہ پر ایمان لانا ایک دعویٰ ہے اور اس کی دلیل اللہ کے نادار بندوں کی خدمت کرناہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی آبادی کو اللہ کا کنبہ قرا ردیا ہے اور فرمایاہے:
اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ) پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو وہی شخص پسند ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
انسانوں کی خدمت اور ناداروں کی حاجت روائی اخلاص سے اور بدلہ کے جذبہ کے بغیر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں فرمایا ہے :
وہ لوگ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، تم سے بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے۔(الدھر۷۶: ۸-۹)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کامال اپنے مال سے زیادہ عزیز ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ وارث کا مال پیارا ہو۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مال تم نے آگے بھیج دیا وہ تمھارا مال ہے اور جو پیچھے چھوڑ دیا وہ وارث کامال ہے۔ (الصحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ماقدم من مالہٖ فہو لہ)
نادار انسانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو مال خرچ کیا جائے درحقیقت وہ اپنا مال ہے کیوں کہ آخرت میں اس کااجر ملے گا اور جو مال انسان دنیا میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ تو وارثوں کا ہوتاہے۔قرآن یقین دہانی کراتاہے:
اور جو خیرات تم کروگے اس کا پورا بدلہ تم کو دیا جائے گااور تم پر ظلم نہ ہوگا۔(البقرہ ۲:۲۷۲)
اسلام نے انسانوں کی خدمت کا اعلیٰ معیار مقرر کیاہے۔ اس نے بے غرض خدمت اور بے لوث محبت کے ساتھ اپنا عمدہ اور پسندیدہ مال خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ عام طور پر لوگ غریبوں اور ناداروں کو کھانے پینے ، پہننے یا ضرورت کی اشیا دیتے ہیں تو اپنے گھر کا ناکارہ حصہ نکال کر دیتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ انسانی خدمت نہیں بلکہ تحقیر ہے۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے لیے جس مال کو اچھا اور کارآمد سمجھتا ہے وہ غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے۔ قرآن پاک نے یہ اصولِ زندگی عطا کرتے ہوئے فرمایا:
تم لوگ نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہ کرو اور جو کچھ بھی تم خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔(ال عمرٰن۳: ۹۲)
اسلام نے یہ نکتہ بھی واضح کردیا کہ ضرورت مندوں اور ناداروں پر مال خرچ کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔کیوں کہ خالق کائنات نے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق رکھ دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ مال دار لوگ ناداروں کا حق ادا کریں۔ معاش میں پیچھے رہ جانے والوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ان کے مالوں میں متعین حصہ ہے سوال کرنے والوں کا اور محروم لوگوں کا۔(المعارج۷۰:۲۴-۲۵)
پھر ان حق داروں کا حق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ (الروم ۳۰: ۳۸)
مادہ پرست ذہن لوگوں سے مال حاصل کرنے کو مالداری اور ان پر خرچ کرنے کو ناداری کا ذریعہ سمجھتاہے۔ اسلام اس نظریۂ زندگی کا رُخ بدلتا ہے اور لوگوں کا ناحق مال لینے کو ناداری اور ان پر خرچ کرنے کو مالداری سے تعبیر کرتاہے۔ قرآن میں اس نظریہ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
جومال تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کر بڑھ جائے، وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ اللہ کی رضا کے لیے تم دیتے ہو تو انھی لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتاہے۔(الروم ۳۰:۳۹)
اسلام نے انسانی زندگی کو کارآمد اور کامیاب بنانے کے لیے بقائے نفع کا اصول دیا۔ دنیامیں جو چیز غیر نفع بخش ہوگی وہ جلد ختم ہوجائے گی اور جو چیز نفع بخش ہوگی وہ دیر تک قائم رہے گی۔ اس کے مطابق اگر انسان دوسرے انسان اور دوسری مخلوق کے لیے نفع بخش ہوگا تو وہ باقی رہے گا اور اگر وہ نفع بخش نہ ہوگا تو اپنے وجود کا جواز کھودے گا اور روئے زمین پر بے آبرو ہوجائے گا۔ قرآن پاک نے ندی نالوں کے جھاگ کی مثال دے کر سمجھایا:
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(الرعد۱۳:۱۷)
یہ بات نہایت بلیغ اور خوب صورت طریقہ سے قرآن نے سمجھادی کہ روئے زمین پر باقی رہنے کے لیے دوسروں کے لیے نفع بخش ہونا ضروری ہے۔ اسی نکتہ کی وضاحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے:
خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ (کنز العمال، باب خطب النبیؐ، ومواعظہ)لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے نفع بخش ہو۔
مسلمانوں کو خاص طور پر نبی پاکؐ نے یہ حکم دیا کہ وہ عام انسانوں کے لیے نفع بخش بنیں اور ان کی بھلائی کے لیے کام کریں تاکہ ان کا وجود معنی خیز ہو، ان کی ضرورت محسوس کی جائے اور ان سے خیر کی توقع کی جائے۔ اس مشن کے لیے وہ اپنا وقت اور مال لوگوں پر خرچ کریں۔ یہی راستہ ہے دنیا میں عزت پانے اور آخرت میں نجات حاصل کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ ان بندوں کی تکلیف کو دُور کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کی تکلیف کا مداوا کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرت کا یہ زریں اصول ان لفظوں میں بیان فرمایا:
جو شخص دنیا میں کسی مومن کی کوئی تکلیف دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیف دُورکرے گا، اور جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فراہم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کی مدد میں رہتاہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتاہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے دعوائے ایمان کو غلط ٹھیرایا ہے جو خود تو پیٹ بھر کے کھا لیتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جاتاہے۔(الادب المفرد، باب لایشبع دون جارہ)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت خلق اور انفاق کی خود بڑی روشن مثال تھے۔ آپؐ کی پہچان مکہ میں خدمت خلق سے تھی۔ آپؐ ہمیشہ ناداروں کی ضرورت پوری کرتے۔ انسانی معاشرے میں آپؐ سے زیادہ ناداروں پر مال خرچ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو تیز رفتار ہواؤں سے زیادہ مال خرچ کرتے تھے۔(الصحیح البخاری)
آپؐ ہی کے بارے میں حضرت ابوطالب نے کہا تھا:
وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہٖ
ثُـمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلْاَرَامِلِ
وہ گورے مکھڑے والا جس کے واسطے سے بارش کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، یتیموں کا سرپرست اور بیواؤں کا پشت پناہ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مال واسباب آتے تھے تو ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ بحرین سے بہت سا مال آپؐ کے پاس آیا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے مالوں میں سب سے زیادہ تھا۔ آنجنابؐ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلادو، پھر آپؐ نماز کے لیے چلے گئے، نماز ادا کرنے کے بعد تشریف لائے اور اس مال کے پاس بیٹھ گئے۔ پھر جو کوئی بھی نظر آیا آپؐ اسے دیتے چلے گئے۔ اس جگہ سے اس وقت اٹھے جب سارا مال تقسیم ہوگیا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔(الصحیح البخاری)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اَزواج مطہراتؓ میں بھی خدمت خلق اور محتاجوں کی حاجت روائی کی روایت پورے طور پر قائم رہی۔ رسو ل پاکؐ کا گھرانہ محتاجوں کی ضرورت کی تکمیل کا مرکز بنارہا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں ام ذرہ بیان کرتی ہیں کہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے ان کی خدمت میں دو تھیلیوں میں بھرا ہوا مال بھیجا، میرے اندازے کے مطابق ۸۰ ہزار یا ایک لاکھ درہم تھے۔ حضرت عائشہؓ اس وقت روزہ کی حالت میں تھیں۔ وہ بیٹھ کر ان درہموں کو تقسیم کرنے لگیں، شام ہوتے ہوتے ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں بچا۔ جب افطار کا وقت قریب ہوا تو اپنی باندی سے کہا کہ افطار کا سامان لے آؤ۔ وہ ایک روٹی اور زیتون لے کر آئی۔ اُمِ ذرہ نے حضرت عائشہؓ سے کہا: اگر آپ چاہتیں تو کم سے کم ایک درہم سے گوشت خرید لیتیں۔ اُم المومنینؓ نے جواب دیا کہ تم نے پہلے یاد دلایاہوتا تو شاید میں خرید لیتی۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج۲،ص ۴۷)
اسی طرح حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضر ت عائشہؓ کو ۷۰ ہزار درہم تقسیم کرتے ہوئے دیکھا، جب کہ خود اپنے دوپٹے میں پیوند لگا کر اوڑھتی تھیں (ابوالفرح ابن جوزی، صفۃ الصفوۃ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد، ۱۹۶۸ء، ج۲،ص۱۳)
ازواجِ مطہر اتؓ کے علاوہ صحابہ کرامؓ نے غربا پر وری اور انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھایا۔ مال دار صحابہؓ نے غربا پروری میں مثال قائم کی تو عام صحابہؓ نے بھی حسب استطاعت ضرورت مندوں کی اعانت وخدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حضرت ابوبکرؓ کی پوری زندگی غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور غلاموں کی امداد اور خدمت میں گزری ۔ حضرت عمر فاروقؓ خدمتِ خلق کے معاملے میں کتنے فکر مند اور مستعد تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے :
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ رات کوگشت لگاتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام صرار پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکارہی ہے اور اس کے پاس دو تین بچے رورہے ہیں۔ قریب جاکر حقیقت دریافت کی تو اس عورت نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھادی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے، مدینہ آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لے کر چلتا ہوں۔ فرمایا: ہاں، لیکن تم قیامت کے دن میرا بار نہیں اٹھاؤگے۔ (شبلی نعمانی، الفاروق، نئی دہلی، ۲۰۱۴ء، ص۳۰۲)
خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ بڑے تاجر تھے اور اپنے مال کا بڑا حصہ غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کردیتے تھے۔ یہی اسوہ خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا بھی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت طیارؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
مسکینوں کے لیے جعفر بن ابی طالب بہترین انسان تھے۔ وہ ہمارے پاس آتے تھے اور ان کے گھر میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ہم لوگوں کوکھلاتے تھے۔(الصحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلوا والعسل)
قرآن پاک نے مسکینوں اور یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا اور حدیث پاک میں یتیموں کی کفالت کی جو ترغیب دی گئی، اس کی وجہ سے صدر اسلام کا مسلم معاشرہ محتاجوں کے لیے نعمت کدہ اور جنت نشاں بن گیا۔ یتیموں کو ایسے مشفق سرپرست مل گئے کہ ان کو اپنے والد یا والدین سے محرومی کا احساس ختم ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا :
كُنْ لِلْيَتِيْمِ كَالْاْبِ الرَّحِيْمِ (الادب المفرد، باب کن للیتیم کالاب الرحیم) یتیموں کے لیے رحمت کرنے والے باپ بن جاؤ۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میںیتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، فصل من یعول یتیما)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح بخاری میں صراحت سے بیان کیاگیا ہے کہ: کَانَ لَا یَاْکُلُ طَعَامًا حَتَّی یُؤْتٰی بِـمِسْکِیْنٍ (الصحیح البخاری)وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے کھانے میں شریک نہ ہوجائے۔
روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ خاص طور پر یتیموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ایک واقعہ معروف تابعی ابومحذورہ نے اس طرح بیان کیاہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس میںبیٹھا تھا کہ صفوان بن امیہ کھانے کی ایک دیگ کے ساتھ آئے جسے کچھ لوگ اٹھائے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے وہ دیگ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے پاس پڑوس کے غربا ومساکین اور لوگوں کے غلاموں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرمایا۔ (الادب المفرد، باب ھل یجلس خادمہ معہ اذاا کل)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کھانا کھلانے میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں کرتے تھے بلکہ ہر انسان کی بلاتفریق مذہب وملت خبرگیری کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور تابعی حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری ذبح کررہا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ جب تم ذبح کرنے سے فارغ ہوجاؤ تو سب سے پہلے بکری کا گوشت ہمارے پڑوسی یہودی کے گھر پہنچاؤ۔ (الادب المفرد، باب جار الیہودی)
حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبلؓ اپنی قوم کے افضل ترین نوجوانوں میں سے تھے۔ جب بھی کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا تو اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ خدمت خلق کے لیے انھوں نے اتنے قرضے لیے کہ ان کا سارا مال ختم ہوگیا۔ بالآخر انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے درخواست کی کہ قرض داروں سے تھوڑی تخفیف کرادیں، لیکن قرض دار اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا بچا ہوا مال بیچ کر ان میں تقسیم کردیا اور حضرت معاذ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ (صفۃ الصفوۃ ، ج۲، ص ۱۹۷)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مصیبت زدہ ان کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا تو وہ ہر طرح سے اس کی مدد فرماتے۔ خدمت خلق کے اتنے حریص تھے کہ اعتکاف سے نکل کر لوگوں کی مدد کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ ایک مرتبہ وہ مسجد نبویؐ میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص وہاںآیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اسے غم زدہ دیکھا تو فرمایا: اے شخص میں تم کو غمگین دیکھتا ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں اے رسول کریمؐ کے چچازاد بھائی! فلاں آدمی کا میرے اوپر قرض ہے اور اسے ادا کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اپنے اعتکاف سے نکل آئے اور اس محتاج کے ساتھ چل پڑے اور فرمانے لگے کہ میں نے اس قبر کے مکین (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں چل پڑا اور اس کی ضرورت پوری کی تو اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے‘‘۔ (طبرانی، بیہقی، المستدرک للحاکم)۔اس طرح کی مثالیں دیگر صحابہ کرامؓ کی بکثرت موجود ہیں۔
خدمتِ خلق کی وراثت صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کے حصہ میں آئی ۔ بڑی تعداد ان تابعین کی ہے جنھوں نے انسانی خدمت کو اپنا مشن بنایا۔ ربیع بن خیشم مشہور تابعی اور محدث تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے شاگرد تھے۔ غربا پروری اور انسانی خدمت کو وظیفۂ زندگی بنائے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی اہلیہ سے عمدہ کھاناپکانے کو کہا: بیگم نے نہایت اہتمام سے یہ کھانا پکایا۔ ربیع نے وہ کھانا لے جاکر شہر کے ایک پاگل کو اپنے ہاتھ سے کھلایا، اس کے منہ سے لعاب بہتا تھا اور ربیع اسے کھانا کھلاتے تھے۔ کھانا کھلاکر گھر پہنچے توبیوی نے کہا کہ میں نے اس قدر اہتمام سے کھانا تیار کیا اور آپ نے ایسے آدمی کو کھلادیا جو یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس نے کیا کھایا۔ ربیع نے جواب دیا کہ خدا تو جانتا ہے۔ (شاہ معین الدین ندوی، تابعین، ۲۰۰۹ء، ص۱۱۸)
ایک اور نامور تابعی مسروق بن اجدع یمن کے رہنے والے تھے۔ علم وعبادت میں مشغول رہتے اور خدمت خلق کے لیے وقت اور دولت صرف کرتے تھے۔ جب بھی ان کو کوئی رقم ملتی، اسے ضرورت مند انسانوں پرخرچ کردیتے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک متمول انسان سائب بن اقرع سے کی۔ ان سے بیٹی کے مہر کے علاوہ دس ہزار دینار لیے اور یہ ساری رقم مساکین، غلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ میں تقسیم کردی۔ (تابعین، ص۴۵۷)
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ مال دار مسلمانوں نے نادار انسانوں کی دست گیری کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ لگادیا۔ چند مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ تاریخ کا یہ روشن باب نئی نسلوں کے ذہن میں رہے اور وہ اس سے روشنی اور رہنمائی حاصل کریں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا نام اسلام کی دعوت اور خدمت خلق کے لیے بہت روشن ہے۔ وہ ایک طرف لوگوں کو دین کی طرف بلاتے اور لوگوں کا عقیدہ اور اعمال درست کرتے تھے اور دوسری طرف محتاجوں کی حاجت روائی کرتے اور مسافروں کوکھانا کھلاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر ہر قوم کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی یہ روایت لنگر میں تبدیل ہوئی اور ان کی خانقاہ میں آنے والوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ خواجہ اجمیری فرماتے ہیں:’’میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبان سے سنا کہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھے گا۔ اول: سخاوت، دریا کی سخاوت کی طرح۔ دوم: مخلوق سے شفقت، آفتاب کی شفقت کی طرح۔ سوم: تواضع، زمین کی تواضع کی طرح‘‘۔(عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، کتب خانہ رحیمیہ دیوبند، ص ۲۹)
مغلیہ عہد کے ایک بزرگ شیخ عبدالعزیز چشتی (م:۱۵۶۷ء) بڑے عالم وفاضل اور بلندمرتبہ اخلاق کے حامل تھے۔ مخلوق پر شفقت وعنایت کرنے میں بے مثال تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے :’’شیخ عبدالعزیز محتاجوں کی حاجت روائی میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ شیخ قاضی خاں کے پاس پہنچے تو اپنا مال ومتاع، گھوڑا گاڑی جو کچھ ان کے پاس تھا سارا کاسارا راہ خدا میں تقسیم کردیا‘‘۔ (شیخ محمد اکرام، رود کوثر، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۷۰)
مغلیہ عہد کے ایک اور بزرگ شیخ داؤد شیرگڑھی (م۱۵۷۴ء) تھے۔ بڑے عابد اور زاہد شب بیدار تھے۔ خلق خدا کی دینی رہنمائی کے علاوہ مالی خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ان کی خانقاہ میں لنگر تھا جس سے لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام ہوتاتھا۔ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ:’’آپ کا معمول تھا کہ سال میں ایک دو دفعہ جو کچھ آپ کے پاس نذر وفتوحات کی قسم سے آتا، تقسیم کردیتے اور اپنے گھر میں ایک مٹی کے کوزے کے سوا کچھ نہ رکھتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۶۸)
ایک اور بزرگ شیخ علاء الدین لاہوری بنگالی غرباپروری اور خدمت خلق میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ ’’بخلق بخششہائے بے اندازہ می کرد‘‘ مخلوق پر بے انتہا بخشش کرتے تھے۔ ان کے والد بادشاۂ وقت کے مہتمم خزانہ تھے۔ بادشاہ کو خیال ہوا کہ شیخ اپنے والد کی مدد سے خزانہ کو تصرف میں لے آئیں گے۔ چنانچہ ان کو دوسال کے لیے سنار گاؤں جو ڈھاکہ سے ۱۸ میل کے فاصلہ پر ہے بھیج دیا۔ آپ سنار گاؤں چلے گئے اوروہاں بھی آپ کی فیاضی جاری رہی۔ خادم کو حکم تھا کہ جو خرچ ہوتا تھا اسے دوگنا کردو۔ شیخ نے جلاوطنی قبول کرلی مگر خلق خدا کی خدمت نہ چھوڑی۔ (عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، ص۱۴۹)
خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کی مثالیں اسلامی تاریخ میں بے شمار ہیں۔ خاص طور پر علما اور مشائخ میں۔ یہ حضرات دین کی اشاعت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت ہی سے سروکار نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتے، ان کی ضرورت پوری کرتے اور ان کی مالی مدد کرنے میں بہت کوشش کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے بارے میں سید حسن عسکری نے لکھاہے:’’خود تو فقروفاقہ، اَوراد ووظائف اور ذکر واشغال میں منہمک رہتے، لیکن کمزوروں، دکھی لوگوں ، حاجت مندوں، علما ومشائخ، ضعفا اور فقرا کی حاجتوں ،وجۂ معاش اور ضروریات دنیوی کے لیے سفارشات کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اورحقیقت یہ ہے کہ امراء، رؤسا اور سلاطین سے جو کچھ تھوڑا بہت انھیں واسطہ تھا محض ان لوگوں کی داد رسی اور حاجت روائی کے لیے ہوتاتھا‘‘۔(پروفیسر سید حسن عسکری، عہد وسطٰی کی ہندی ادبیات میں مسلمانوں کا حصہ، پٹنہ، ۱۹۹۵ء، ص ۲۱۲-۲۱۳)
انیسویں صدی میں برصغیر ہند میں مسلم حکومت کا زوال ہوا تب بھی مسلمانوں میں انسانی خدمت کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ مسلمان اگرچہ مصیبت سے گزر رہے تھے مگر خدمت خلق کے کاموں سے غافل نہ تھے۔ ۱۸۶۰ء میں شمالی ہند میں قحط پڑا تھا، جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بانی سرسیّداحمد خاں اس زمانہ میں مرادآباد میں صدر الصدور تھے۔ انھوں نے کلکٹر جان اسٹریچی کی اجازت سے قحط زدہ لوگوں کی راحت رسانی، تیمارداری اور خوراک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
خواجہ الطاف حسین حالی نے لکھاہے:’’محتاج خانہ کے حُسنِ انتظام کا یہ حال تھا کہ چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم ہوجاتا تھا۔ بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر موجود تھا، بیماروں کو پرہیزی کھانا ملتا تھا، زچاؤں اور شیرخوار بچوں کو دودھ یا کھیر ملتی تھی۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ہندو کھانا پکاتے تھے۔ جو ہندو اپنے سوا کسی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے تھے ان کے لیے علیحدہ چوکے بنے ہوئے تھے۔ شہر کی پردہ نشین اور عزت دار عورتیں جو محتاج خانہ میں نہیں آسکتی تھیں،ان کے پاس سوت کاتنے کے لیے آٹھ آٹھ آنہ فی اسم اور ایک ایک پٹاری روئی کے گالوں کی میر محلوں کی معرفت بھیج دی جاتی تھی۔ جب سوت کت کر آجاتا تھا، تو اور روئی اور کاتنے کی اُجرت بھیج دیتے تھے۔ سرسیّد صبح وشام دونوں وقت بلاناغہ محتاج خانہ میں خود جاتے تھے۔ ایک ایک بیمار کو دیکھتے تھے، جن کنگالوں کی صورت اور حالت آنکھ سے دیکھی نہ جاسکتی تھی، جن کے دست جاری ہوتے تھے اور کپڑے بول وبراز میں لتھڑے ہوتے تھے، ان کو سرسیّد خود اپنی گود میں اٹھا کر دوسری صاف جگہ احتیاط سے لٹادیتے تھے اور ان کے کپڑے بدلواتے تھے‘‘۔ (الطاف حسین حالی، حیاتِ جاوید، نئی دہلی، ۲۰۰۴ء، ص ۱۰۹)
آج کے زمانہ میں بھی ایسی روشن مثالیں پائی جاتی ہیں۔کویت میں ایک مشہور تاجر تھے، شیخ عبداللہ علی المطوع۔ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور رفاہی اداروں پر خرچ کرتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ عمرہ کرنے کے لیے گئے، مکہ مکرمہ میں کھجوریں خریدیں اور دوکان دار سے قیمت کم کروائی۔ واپسی پر اپنے سکریٹری سے کہا کہ میراکاروبار میرے وارثوں کے لیے ہے اور میری جائیداد کا معقول حصہ (غالباً ایک تہائی) چیچنیا کے یتیموں اور بیواؤں کے لیے ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ ابھی تو آپ چند کلوکھجوروں کے لیے مول بھاؤ کررہے تھے اور اب اتنی بڑی جائیداد چیچنیا کے غریبوں کو دے رہے ہیں؟ شیخ نے کہا کہ تجارت میں مول بھاؤ کرنا خریدار کا حق ہے اور یہ سودا اللہ سے ہے جس کا اجر آخرت میں مقرر ہے۔
اسلام نے خدمت خلق ، انفاق فی سبیل اللہ اور انسانوں کی نفع رسانی کے کاموں کو انفرادی عمل کے ساتھ اجتماعی شکل بھی عطا کی اور اسے ادارہ کی حیثیت عطاکردی تاکہ انسانوں کی خدمت کی پائیدار اور دائمی صورت پیدا ہوجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین اعمال کے (۱) علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، (۲) صدقۂ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے (۳) نیک اولاد جو اپنے مرحوم والد/والدہ کے لیے دعا کرتی رہے (مسلم ، کتاب الوصیۃ)
انسان اپنی زندگی میں خدمت خلق کے لیے جو انفاق وقتی طور پر کرتا ہے وہ عارضی ہے، اس کا اجر وثواب قیامت میں ضرور ملے گا۔ لیکن ایسا صدقہ وخیرات جومرنے کے بعد بھی جاری رہے وہ صدقۂ جاریہ ہے، اس کا فیض جاری رہے گا، اس لیے اس کا اجر بھی بے حساب ہے۔ صدقۂ جاریہ کی مختلف شکلیں ہیں اور زمانہ کی ضرورت اور ترقی کے لحاظ سے یہ شکلیں بدلتی رہتی ہیں، مثلاً عبادت گاہ بنوانا، تعلیم گاہ بنوانا، یتیم خانہ اورکتب خانہ بنوانا، خانقاہ اور قبرستان بنوانا، مسافر خانہ بنوانا، سرائے بنوانا، اسپتال اور سینی ٹوریم بنوانا، علمی و ادبی اور تحقیقی ادارہ بنوانا، کنواں اور تالاب بنوانا، حمام اور طہارت خانہ بنوانا، لنگر اور سبیل بنوانا وغیرہ۔
یہ کام ایسے ہیں کہ ان سے فائدہ وقتی طور پر بھی اٹھایا جاتا ہے اور دائمی طور پر بھی یعنی نسل در نسل اٹھایا جاتاہے۔ اسی لیے اسے صدقۂ جاریہ کہاجاتاہے۔ یہ سارے کام مسلمانوں کے صدقات وخیرات سے انجام پاتے ہیں۔ اسلام نے ان کاموں کو بہتر اور پائیدار بنانے کے لیے وقف کا تصور دیا، یعنی کوئی مال یاجائیداد اس طرح فی سبیل اللہ وقف کیا جائے کہ اس کی اصل مالیت باقی رہے، البتہ اس کی آمدنی سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں، جائیداد ختم نہ ہو اور انتفاع باقی رہے۔خدمت خلق کا یہ ایک عہد آفریں تصور تھا جو اسلام نے دیا۔ اس نے نظریہ کو اقدار میں اور اقدار کو ادارہ میں ڈھالنے کا شعور عطا کیا۔
انسانی خدمت کے اس اداراتی نظام کاآغاز خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا۔ مخیریق نام کا ایک یہودی تھا، جنگ احد میں شریک ہوا۔ وہ مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ لڑا اوراسی جنگ میں مارا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میں مار ا جاؤں تو میری جائیداد محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق تصرف میں لائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مخیریق اچھا یہودی تھا‘‘ (ابوجعفر ابن جریر طبری، تاریخ الطبری، القاہرۃ، ج۲، ص۵۳۱)۔مخیریق کے سات باغ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے قبضہ میں لیا اور فی سبیل اللہ وقف کردیا‘‘۔ (برہان الدین الطرابلسی، الاسعاف فی احکام الاوقاف، ص۱۰)
اسلامی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ دوسرا وقف خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کاتھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓکو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس کے اصل مال کوباقی رکھو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کردو، مگر شرط یہ ہوگی کہ اصل مال نہ بیچاجائے گا،نہ ہبہ کیاجائے گا اور نہ وراثت میں جائے گا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ وہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ اس کی آمدنی فقراء، قرابت داروں ، غلام کی آزادی، مہمان اور مسافر کے لیے ہوگی۔ (الصحیح البخاری، کتاب الشروط)
صدر اسلام کاتیسرا وقف خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ نے کیاتھا۔ اس وقف کی تاریخ خود حضرت عثمان غنیؓ اس طرح بیان کرتے ہیں:’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں رومہ کنواں کے علاوہ کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بیرِ رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا؟ اس کی وجہ سے جنت میں اسے خیر ملے گی، تو میں نے اپنے اصل مال سے اس کنواں کو خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کوبھی شریک کرلیا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
اس کے بعد صحابہ کرامؓ میں خدمت خلق کے لیے زمین، جائیداد وقف کرنے کا رجحان عام ہوگیا، اور لوگ کثرت سے رفاہی کاموں کے لیے جائیداد وقف کرنے لگے۔عرب اور عجم کے ملکوں میں مسلمانوں نے وقف کا ایک بے مثال نمونہ قائم کردیا۔ مسلمان جہاں بھی گئے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے مال وجائیداد وقف کرتے رہے۔ حجاز سے لے کر اندلس تک، ایران سے لے کر ازبکستان تک، ترکی سے لے کر مراقش تک اور مصر وشام سے لے کر ہندستان، پاکستان اور انڈونیشیا تک مسلمانوں نے عام انسانوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے بے دریغ جائیداد وقف کی۔ وقف کی املاک سے مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کے انسانوں کو فیض پہنچا۔ کیوں کہ جائیداد مسجد وخانقاہ کے علاوہ ہسپتال، سرائے ، لنگر اور تعلیم گاہوں کے لیے بھی وقف کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات اور پرندوں کی خوراک کے لیے بھی جائیداد وقف کی۔ وقف کی یہ روشن روایت آج بھی آگے بڑھ رہی ہے۔