نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ایک سعادت اور عظیم منصب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرامؑ کو عطا فرمایا ۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’خاتم النبیین‘ قرار دیا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا، اور دین اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ)، اور دین اسلام کو اپنی بڑی نعمت بتایا اور یہ فرمادیا کہ یہ نعمت میں نے تم پر مکمل کر دی (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ )،تو اس منصب پر نبی ؐ کی امت کو سرفراز فرمادیا۔اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انھیں سب سے بہتر امت قرار دیا: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہؐ کو دنیا میں اس مقصد کے لیے لائے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔کیونکہ انسان بھول جاتا ہے ،اسی لیے اللہ رب العزت نے ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے نبی مبعوث فرمائے،جو انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتے تھے،گمراہی سے بچنے اور راہِ ہدایت کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپؐ کے وصال کے بعد یہ فرض آپؐ کی امت پر عائد کر دیا گیا۔ اسی لیے آپؐ کی اُمت کو’ خیر اُمت‘ قرار دیا گیا کیونکہ انسانیت کو سیدھی راہ پر بلانا ہی سب سے بڑی نیکی اور خیر ہے ۔امام رازیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
۱-امت مسلمہ کو بہترین امت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ سے کمر بستہ ہے (اللہ کے حقوق میں پہلا حق یہ ہے کہ وہ حاکم مطلق ہے ۔تکوینی احکام کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام میں بھی اُسے حاکم مانا جائے۔ اس لیے کہ پوری کائنات کا خالق ،مالک ،رازق اور رب صرف وہی ذات وحدہُ لا شریک ہے)۔
۲- اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس لیے فضیلت دی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کو پوری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔ ’معروف‘ اللہ کے حکم کا نام ہے ۔ اس لیے امت اجتماعی طور پر جس چیز کا حکم دے وہ معروف ہونے کی وجہ سے اللہ کا امر بن جائے گا ۔ اور امت مسلمہ کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔
۳- اہل ایمان منکر کو روکتے ہیں ،منکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ۔اس صفت کی وجہ سے اِن افراد کی مرضی وہی ہوتی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔
حضرت درہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے ،سب سےزیادہ پرہیزگار ہے ،اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے، سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا ہے اور رشتہ ناتا ملانے والا ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل :۲۷۴۳۴)
حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جنت والوں کی ۱۲۰ صفیں ہوں گی ۔ان میں سے ۸۰ صفیں اُمت ِمحمدیہؐ کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:۴۲۵۹)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ہم آخری امت ہیں مگر ہمارا حساب پہلے ہوگا‘‘۔(سنن ابن ماجہ: ۴۲۹۰)
کتب احادیث میں امت محمدیہ ؐکی فضیلت کے اعتبار سے بہت سی احادیث مبارکہ ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی فضیلت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے۔
دین اسلام ایک مکمل ،عالمگیر اور آخری دین ہے جسے قیامت تک برقرار رہنا ہے ۔ یہی دین تمام انسانیت کے لیے راہ نجات ہے ،لائحہ عمل ہے ،ضابطۂ حیات ہے ،کامیابی وکامرانی کا ذریعہ اور مسائل کا حل ہے۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے حکم پر قائم رہے گا اور انھیں جھٹلانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا پائیں گے‘‘۔(صحیح مسلم : ۲۸۸۹)
اس سے مراد ہے کہ دشمن اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حق وباطل کا معرکہ ہمیشہ ہی جاری رہا۔باطل خواہ کتنا ہی طاقت ور رہا ،مگر وہ راہِ حق پر چلنے والوں کو ختم نہیں کرسکا۔ اُن کی منزل کھوٹی نہیں کر پایا ،ہر طرح کے آلام ومصائب میں یہ مومن بندے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد اس وسیع وعریض کرۂ ارض پر مجدد دین، اسلامی تحریکوں اور علمائے کرام کی محنتوں سے دین اسلام محفوظ ومامون ہے۔ہر دور میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھتی رہی ہیں اور دین اسلام اپنی صحیح تعریف وتشریح کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: سنو آج رات انبیائے کرامؑ پنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے۔ بعض انبیاؑ کے ساتھ صرف تین اشخاص تھے۔بعض کے ساتھ مختصر گروہ ،بعض کے ساتھ ایک جماعت اور کسی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔حضرت موسی ؑ آئے تو ان کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے۔مجھے یہ جماعت پسند آئی ۔
میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا: یہ موسٰی ہیں اور اُن کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر میری اُمت کہاں ہے؟جواب ملا: اپنی داہنی طرف دیکھو ،دیکھا تو بہت بڑا مجمع تھا۔جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی تھیں۔مجھ سے پوچھا گیا کہ خوش ہو؟میں نے کہا: اے اللہ میں راضی ہوں‘‘۔( صحیح بخاری :۶۵۴۳)
جامع ترمذی کی حدیث (۴۶۷۹) اس کی تائید وتوثیق کرتی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے ۸۰صفیں صرف اس امت کی ہوں گی‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے جو تفسیری احادیث ملتی ہیں اُ ن احادیث میں کنتم خیر امۃ کی تشر یح میں فرمایا گیا:’’تم اس لیے بہترین امت ہو کہ تم لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ کر لاتے ہو‘‘۔
ہر صاحب ِایمان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلا جائے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! جس کا حساب ہوا وہ مارا گیا‘‘۔
شہید کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا،کیونکہ جہاد کی غرض بھی اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔اسی مقصد کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ نے جنگیں لڑیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔قرآن پاک میں شہداء کے لیے حکم ہے کہ انھیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں،مگر تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔جہاد کی فضیلت بھی اسی لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں افراد اور اقوام کا بنایا ہوا نظام زندگی ختم کر کے اللہ کا بھیجا ہوا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ہم مسلم اکثریت کے حامل ملک کے شہری ہیں۔یہاں پر قرآن کے احکامات کو جاری و ساری کرنے کے لیے، اپنی قوم کو بھولا ہوا سبق یاد کروانے،قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے،اپنی زندگیوں کو خدا کے قانون کے مطابق ڈھالنے،بندگیٔ ربّ پر اُبھارنے، منافقت سے دُور رہنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اللہ کے راستے پر چل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کی گئی ہر طرح کی کوشش جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہے۔ داعی الیٰ اللہ بھی راہِ حق کا وہ مجاہد ہے جس کے لیے نبیؐ کی بشارت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّـمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ ( حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نائب ہے ، خدا کے رسول ؐ کا نائب ہے اور خدا کی کتاب کا نائب ہے ‘‘۔گویا کہ اُمت محمدیہؐ کو جو فضیلت حاصل ہے وہ اِ س بنیاد پر حاصل ہے کہ وہ دعوت اور تربیت کا فریضہ انجام دیتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق اس اُمت کا مقصد بھی یہی ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر دراصل دو کاموں کا مجموعہ ہے:دعوت و تبلیغ اور تنظیم وتربیت۔ یہ دونوں کام ایک فطری ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔پہلے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے ۔اس کے بعد اُن افراد کی تنظیم اور تربیت کی جاتی ہے جو اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ۔اسی تنظیم وتربیت پر دعوت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر تنظیم مضبوط اور تربیت صحیح ہے تو دعوت کامیاب ہوگی ورنہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔اس لیے دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کے درمیان بہت ہی گہرا اور قریبی ربط ہے۔امت مسلمہ کو دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اپنے دائرے کے باہر بھی انجام دینا ہے اور اندر بھی ،جو کام اپنے دائرے سے باہر کریں گے وہ دعوت وتبلیغ ہے اور جو اپنے دائرے کے اندر انجام دیں گے وہ تنظیم وتربیت ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹(اعراف ۷:۱۹۹)، اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جائو، اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔
آپ ؐ نے یہود ونصاریٰ ،مشرکین اور منافقین سب کو دین کی دعوت دی،اخلاقِ حسنہ کی نصیحت کی،آداب زندگی کی تلقین کی ۔وہ سب امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنی قوم کی حالت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح وتربیت کی بھی ضرورت ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ کچھ عقائد کی اصلاح بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کا فریضہ انجام دینا اور تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اس کی انجام دہی ہماری نجات اور فلاح کی ضامن ہے۔(جلال الدین عمری، معروف و منکر)
دعوتِ دین بالکل سادہ کام نہیں ہے،بلکہ اس میں جہاں وعظ ونصیحت اور تذکیر وتلقین کی ضرورت پڑتی ہے وہاں دین کو دلائل سے ثابت کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ علمی اور استدلالی خدمت بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ایک اہم پہلو ہے ۔امام رازی ؒ لکھتے ہیں: ’’معروف کا حکم دو ،یعنی دینِ حق کی وضاحت اور اس کے دلائل کے اثبات کے ذریعے‘‘۔
ابن عربی مالکی کہتے ہیں کہ دین کو علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ یہ بات بھی امر بالمعروف ونہی المنکر میں شامل ہے کہ مخالفین پر حجت قائم کرکے دین کی مدد کی جائے۔
ہم اس وقت فریب اور دھوکا دہی پر مبنی دورِ دجل میں جی رہے ہیں۔ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔عورت کی حیثیت ،عورت کا مقام اور اس کا دائرہ موضوع بحث ہے۔ تاریخ اسلام اور مسلمان حکمرانوں کے کارہائے نمایاں پر حرفِ تنقید ہے۔حضورؐ کی ذاتِ مبارکہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔ علم حدیث اور سنت متواتر ہ تک پر حملے ہو رہے ہیں۔اس لیے دینِ اسلام کے پورے نظام کا دفاع بہت ضروری ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں دعوت دین کی پوری جدوجہد شامل ہے۔اس کا فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے۔ اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اللہ کا دین ہی حق ہے ۔اسی میں ہماری نجات ہے۔ اس دین کو فروغ دینے،اسے پھیلانے اور اس کا نظام نافذ کرنے کی جدو جہد وقت کا تقاضا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی،اس کے لیے بھی اتنا ہی ثواب ہےجتنا اس پر عمل پیرا ہونے والوں کا ہے‘‘ ۔(صحیح مسلم:۱۸۶۰ )
مزید ارشاد فرمایا:’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت بخش دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(صحیح بخاری: ۱۱۹۳)
الغرض امت مسلمہ کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد حاکمیت الٰہیہ کا قیام ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے جان و مال سے جہاد کرنا ہو، قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ ہو،اسلامی لٹریچر کا مطالعہ ،دین کی دعوت دینے کے لیے ملاقات ہو یا اجتماع عام، یا انسانی زندگیوں کو اخلاق و معاملات کےدائرے میں لانے کے لیے تربیت گاہوں کا انعقاد___ یہ سب کوششیں جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہیں۔
نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مستحق ہیں وہ سب داعیانِ دین جنھوں نے اپنی زندگیاں اس راہ میں لگا دیں۔