رمضان المبارک کا مہینہ ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماہِ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ مہینہ اُمت مسلمہ کے لیے حرکت، توانائی اور زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور اس حقیقت کا پوری دُنیا کے سامنے اظہار کرتا ہےکہ اُمت کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ضرور ہے مگر مُردہ نہیں۔ یہ مہینہ ہمارے احساسات کو پھر سے جگاتا ہے اور روح کو گرمانے والی زندہ تمنّا عطا کرتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک ماہ کے لیے سہی مگر لوگوں کی بڑی تعداد تقویٰ کے راستے پر چلنا شروع کردیتی ہے۔ یہ مہینہ تقویمِ اسلامی کا اہم ترین اور سب سے مبارک مہینہ ہے۔ قرآن حکیم میں اس ماہ کی فضیلت کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں:
۱- نزولِ قرآن: اس ماہِ مبارک میں قرآن حکیم نازل کیا گیا اور یہ ماہِ رمضان کی فضیلت کا بہت بڑا سبب ہے۔ ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۱۸۵)
۲- لیلۃ القدر: ماہِ رمضان کی فضیلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس میں لیلۃ القدر موجود ہے۔ وہ رات کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزارمہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔(القدر۹۷:۱-۳)
۳- فرضیتِ صوم: یہ رمضان المبارک کی فضیلت کا تیسرا اہم سبب ہے جو قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۳)
اُمت مسلمہ کے ہرفرد کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی شخص اس مہینے کو پائے اس کے لیے لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، ہمیشہ نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اُمت کے ہرفرد کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ روزے رکھے۔دوسری طرف ان لوگوں کے لیے استثنیٰ بیان کردیا گیا جو کسی مجبوری کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھ سکتے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)
اس آیت میں روزہ نہ رکھنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں اور یہ دونوں وجوہات عموماً عارضی ہوتی ہیں۔ انسان سفر کی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ مسافر کو اپنی منزل پر پہنچ کر روزے رکھنے ہوں گے اور جو روزے سفر میں چھوٹ جائیں ان کی تعداد بھی قضا کی صورت میں پوری کرنی ہوگی۔ جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے تو یہ معاملہ تھوڑا وضاحت طلب ہے۔ امراض دو قسم کے ہوسکتے ہیں:
۱- عارضی نوعیت کا مرض (Acute Illness):ہم سب وقتاً فوقتاً مختلف بیماریوں اور حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات مشکلات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں اور ان کی موجودگی میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی،بخار وغیرہ۔ اگر مرض یا مشکل کی شدت زیادہ ہو تو روزہ مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی روزے قضا ہوں، ان کی گنتی بعد میں پوری کرنی ہوگی۔
۲- مستقل نوعیت کا مرض (Chronic Illness): ان امراض کی مزیددو نوعیتیں ممکن ہیں: (i)شدید نوعیت کے وہ امراض جن میں مکمل صحت یابی کا امکان نہیں ہوتا، مثلاً سرطان، گردوں کے افعال میں واضح کمی یا ناکامی، جگر کے پیچیدہ امراض جیسے Liver Cirrhosis۔ دل کے امراض اور بعض اعصابی امراض۔ ایسے امراض میں مبتلا افراد کے بس میں نہیں ہوتا کہ روزہ رکھیں۔ ڈاکٹر حضرات بھی مرض کی شدت اور مستقل علاج کی وجہ سے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی طرف سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، البتہ انھیں فدیہ دینا ہوتا ہے۔ ایک روزے کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو ایک دن میں دو وقت کا کھانا کھلایا جائے۔ اگر کوئی شخص اتنا محتاج ہے کہ فدیے کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے۔ جب کبھی حالات بہتر ہوں تو اسے فدیہ کی ادائیگی کردینی چاہیے۔
(ii) مستقل نوعیت کے کچھ امراض ایسے ہیں جن کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ایسے امراض کی طویل فہرست ممکن ہے مگر ہم چند امراض کا تذکرہ کریں گے:
ان تمام امراض کی موجودگی میں روزہ رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ البتہ ساتھ میں دوا کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے دوا کے اوقات مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ اگر روزہ رکھنا مریض کے لیے خطرناک ہو تو روزہ چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک دین دار اور ماہر ڈاکٹر کا مشورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
ذیل میں ہم کچھ ایسے مسائل، کیفیات اور امراض بیان کریں گے جن پر ماہِ رمضان میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے:
۱- غذائیت والے انجکشن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس نوعیت کے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کچھ کھانا پینا۔
۲- روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول (Normal Saline) کا بین الورید (Intravenous) استعمال بھی روزے کو فاسد کردیتا ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ۹/۱۷۸ ، اور ۱۰/۲۵۲؛ مجموعہ فتاویٰ و رسائل العثیمین، ۱۹/۲۱، ۱۹/۲۰۴؛ شیخ ابن العثیمین مجالس شہر رمضان،ص ۷۰)
بعض علما درد اور بخار کے لیے انجکشن لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر غذائیت بخش انجکشن کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے میں احتیاط بہتر ہے۔ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ فقہ کے ایک بنیادی اصول کو ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر منشیات مقدار سے قطع نظر ہرحال میں حرام قرار دی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میں پانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں ناجائز اور روزے کے فاسد ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لیٹر ہو یا پانچ سو ملی لیٹر، دونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔
روزہ دار شدید ضرورت کے تحت دانت نکلوا سکتا ہے مگر خون یا دوا معدے میں جانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ بہتر ہوگا کہ دانتوں کا تفصیلی معائنہ اور علاج افطار کے بعد کروایا جائے۔
۱- روزے کے دوران مقعد کا اندرونی معائنہ کیا جاسکتا ہے۔
۲- بواسیر یا کسی زخم کے لیے مرہم کا اندرونی اور بیرونی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۳- حقنہ (Suppositories) اور قبض کشا مائع روزے کے دوران مقعد میں داخل کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
۴- پیشاب کی نالی میں کوئی دوا یا نلکی (Catheter) ڈال سکتے ہیں اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
ان علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسولین کے انجکشن کئی مرتبہ دیئے جاتے ہیں اور اکثر کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے تو شدید نقاہت اور شوگر کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔
ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ روزے کے حوالے سے اہم طبّی مسائل کا حل پیش کردیا جائے۔ طبّی مسائل مزید بھی ہوسکتے ہیں مگر ہرمسئلے کا تذکرہ چند سطور میں کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم نے قرآن و سنت کے بنیادی رہنما اصول بیان کردیئے ہیں۔ ان کی روشنی میں بقیہ مسائل کے لیے بھی رہنمائی مل جائے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی اجازت اور ممانعت قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر علما کی آراء اپنے دور کی طبّی معلومات کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں تو اس پر بحث اور رائے میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔