رمضان المبارک کا مہینہ ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماہِ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ مہینہ اُمت مسلمہ کے لیے حرکت، توانائی اور زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور اس حقیقت کا پوری دُنیا کے سامنے اظہار کرتا ہےکہ اُمت کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ضرور ہے مگر مُردہ نہیں۔ یہ مہینہ ہمارے احساسات کو پھر سے جگاتا ہے اور روح کو گرمانے والی زندہ تمنّا عطا کرتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک ماہ کے لیے سہی مگر لوگوں کی بڑی تعداد تقویٰ کے راستے پر چلنا شروع کردیتی ہے۔ یہ مہینہ تقویمِ اسلامی کا اہم ترین اور سب سے مبارک مہینہ ہے۔ قرآن حکیم میں اس ماہ کی فضیلت کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں:
۱- نزولِ قرآن: اس ماہِ مبارک میں قرآن حکیم نازل کیا گیا اور یہ ماہِ رمضان کی فضیلت کا بہت بڑا سبب ہے۔ ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۱۸۵)
۲- لیلۃ القدر: ماہِ رمضان کی فضیلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس میں لیلۃ القدر موجود ہے۔ وہ رات کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزارمہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔(القدر۹۷:۱-۳)
۳- فرضیتِ صوم: یہ رمضان المبارک کی فضیلت کا تیسرا اہم سبب ہے جو قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۳)
اُمت مسلمہ کے ہرفرد کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی شخص اس مہینے کو پائے اس کے لیے لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، ہمیشہ نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اُمت کے ہرفرد کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ روزے رکھے۔دوسری طرف ان لوگوں کے لیے استثنیٰ بیان کردیا گیا جو کسی مجبوری کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھ سکتے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)
اس آیت میں روزہ نہ رکھنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں اور یہ دونوں وجوہات عموماً عارضی ہوتی ہیں۔ انسان سفر کی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ مسافر کو اپنی منزل پر پہنچ کر روزے رکھنے ہوں گے اور جو روزے سفر میں چھوٹ جائیں ان کی تعداد بھی قضا کی صورت میں پوری کرنی ہوگی۔ جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے تو یہ معاملہ تھوڑا وضاحت طلب ہے۔ امراض دو قسم کے ہوسکتے ہیں:
۱- عارضی نوعیت کا مرض (Acute Illness):ہم سب وقتاً فوقتاً مختلف بیماریوں اور حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات مشکلات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں اور ان کی موجودگی میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی،بخار وغیرہ۔ اگر مرض یا مشکل کی شدت زیادہ ہو تو روزہ مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی روزے قضا ہوں، ان کی گنتی بعد میں پوری کرنی ہوگی۔
۲- مستقل نوعیت کا مرض (Chronic Illness): ان امراض کی مزیددو نوعیتیں ممکن ہیں: (i)شدید نوعیت کے وہ امراض جن میں مکمل صحت یابی کا امکان نہیں ہوتا، مثلاً سرطان، گردوں کے افعال میں واضح کمی یا ناکامی، جگر کے پیچیدہ امراض جیسے Liver Cirrhosis۔ دل کے امراض اور بعض اعصابی امراض۔ ایسے امراض میں مبتلا افراد کے بس میں نہیں ہوتا کہ روزہ رکھیں۔ ڈاکٹر حضرات بھی مرض کی شدت اور مستقل علاج کی وجہ سے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی طرف سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، البتہ انھیں فدیہ دینا ہوتا ہے۔ ایک روزے کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو ایک دن میں دو وقت کا کھانا کھلایا جائے۔ اگر کوئی شخص اتنا محتاج ہے کہ فدیے کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے۔ جب کبھی حالات بہتر ہوں تو اسے فدیہ کی ادائیگی کردینی چاہیے۔
(ii) مستقل نوعیت کے کچھ امراض ایسے ہیں جن کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ایسے امراض کی طویل فہرست ممکن ہے مگر ہم چند امراض کا تذکرہ کریں گے:
ان تمام امراض کی موجودگی میں روزہ رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ البتہ ساتھ میں دوا کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے دوا کے اوقات مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ اگر روزہ رکھنا مریض کے لیے خطرناک ہو تو روزہ چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک دین دار اور ماہر ڈاکٹر کا مشورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
ذیل میں ہم کچھ ایسے مسائل، کیفیات اور امراض بیان کریں گے جن پر ماہِ رمضان میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے:
۱- غذائیت والے انجکشن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس نوعیت کے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کچھ کھانا پینا۔
۲- روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول (Normal Saline) کا بین الورید (Intravenous) استعمال بھی روزے کو فاسد کردیتا ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ۹/۱۷۸ ، اور ۱۰/۲۵۲؛ مجموعہ فتاویٰ و رسائل العثیمین، ۱۹/۲۱، ۱۹/۲۰۴؛ شیخ ابن العثیمین مجالس شہر رمضان،ص ۷۰)
بعض علما درد اور بخار کے لیے انجکشن لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر غذائیت بخش انجکشن کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے میں احتیاط بہتر ہے۔ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ فقہ کے ایک بنیادی اصول کو ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر منشیات مقدار سے قطع نظر ہرحال میں حرام قرار دی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میں پانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں ناجائز اور روزے کے فاسد ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لیٹر ہو یا پانچ سو ملی لیٹر، دونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔
روزہ دار شدید ضرورت کے تحت دانت نکلوا سکتا ہے مگر خون یا دوا معدے میں جانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ بہتر ہوگا کہ دانتوں کا تفصیلی معائنہ اور علاج افطار کے بعد کروایا جائے۔
۱- روزے کے دوران مقعد کا اندرونی معائنہ کیا جاسکتا ہے۔
۲- بواسیر یا کسی زخم کے لیے مرہم کا اندرونی اور بیرونی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۳- حقنہ (Suppositories) اور قبض کشا مائع روزے کے دوران مقعد میں داخل کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
۴- پیشاب کی نالی میں کوئی دوا یا نلکی (Catheter) ڈال سکتے ہیں اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
ان علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسولین کے انجکشن کئی مرتبہ دیئے جاتے ہیں اور اکثر کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے تو شدید نقاہت اور شوگر کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔
ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ روزے کے حوالے سے اہم طبّی مسائل کا حل پیش کردیا جائے۔ طبّی مسائل مزید بھی ہوسکتے ہیں مگر ہرمسئلے کا تذکرہ چند سطور میں کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم نے قرآن و سنت کے بنیادی رہنما اصول بیان کردیئے ہیں۔ ان کی روشنی میں بقیہ مسائل کے لیے بھی رہنمائی مل جائے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی اجازت اور ممانعت قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر علما کی آراء اپنے دور کی طبّی معلومات کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں تو اس پر بحث اور رائے میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کے مئی ۲۰۲۰ء کے شمارے میں ایک اہم مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون کا عنوان ہے: ’روزہ اور طبی مسائل‘ اور اس کے مؤلف پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔روزے کے دوران مختلف ادویات اور انجکشن کے استعمال کی مناسبت سے پروفیسر صاحب نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی آرا سے مجھے اتفاق ہے مگر روزے کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کچھ باتیں محل نظر ہیں ۔
ایک عام مشکل کا سامنا اکثر روزے داروں کو کرنا پڑتا ہے کہ روزے کی حالت میں آنکھ، ناک اور کان میں دوا ڈالی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں پروفیسر صاحب رقم طراز ہیں: ’’آنکھ میں دوا ڈالنے کے بارے میں فقہا کی عمومی راے یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کان کے اندرونی پردے کے صحیح اور سالم ہونے کا سو فی صد یقین ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، البتہ شک کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ماہر ڈاکٹر سے تصدیق کرلی جائے۔ پردہ پھٹا ہو یا اس میں سوراخ ہو تو دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ناک اور کان میں دوا ڈالنے کے حوالے سے محترم مضمون نگار کی راے سے ہمیں اتفاق ہے مگر آنکھ کے بارے میں ان کی راے سے ہمیں شدید اختلاف ہے۔ یہ معاملہ تھوڑی سی وضاحت کا طلب گارہے۔ برصغیرمیں عمومی طور پر فتاویٰ کی معروف کتاب فتاویٰ عالمگیری کورہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ کتاب مغل حکمران اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں مرتب کی گئی تھی۔ اس بات کو تین سوسال سےزیادہ عرصہ گزرچکاہے۔ یہ اپنے عہد کی عظیم تصنیف ہے اور آج کے دور میں بھی مفید ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کتاب انسانوں نے مرتب کی تھی اور ان کی راے میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ آنکھ اورکان کی ساخت یا Anatomy کے حوالے سے اس کتاب میں بنیادی غلطی موجود ہے۔ اسی غلطی کو ہمارے دورکےعلما کی اکثریت نے نظرانداز کیا ہے۔
فاضل مضمون نگار بھی آنکھ کی حد تک اسی غلط روش پرگامزن ہیں۔ ہمارے علما کی اکثریت کا خیال ہے کہ آنکھ معتاد راستہ نہیں بلکہ کان معتاد راستہ ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آنکھ کا تعلق ایک باریک نالی یا Duct کے ذریعے حلق اور بعدازاں معدے سے ہوتا ہے، جب کہ ایک صحت مند کان کا تعلق معدے سے نہیں ہوتا۔ اپنی اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہمارے علما روزے کے دوران آنکھ میں دوا ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں اور کان میں دوا یاقطروں کا استعمال ممنوع قرار دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آنکھ میں دواکے قطرے ڈالے جائیں توان کے اثرات حلق تک پہنچتے ہیں اوربعض اوقات دوا کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ گریہ و زاری کے دوران آنسو آنکھ سے خارج ہوتے ہیں مگر ایک نمکین ذائقہ ہمیں حلق میں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے روزے کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے سے احتراز کرنا ہوگا۔ کان کے بارے میں پروفیسر صاحب کی راےدرست ہے۔ جب تک کان کا پردہ مجروح یا Perforated نہ ہو اس وقت تک کان کا تعلق حلق اور معدے سے نہیں ہوتا اور دوا کا استعمال روزے کو فاسد نہیں کرتا۔ اس معاملے میں احتیاط احسن ہے۔
انجکشن کے استعمال کے بارے میں پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
انجکشن چاہے جِلد، گوشت یا رگ میں لگایا جائے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی چیز بدن میں معتاد راستے سے داخل ہو،مثلاً منہ، ناک یا مقعد کے ذریعے۔ غیرمعتاد راستےسے کسی چیز کے بدن میں داخل ہونے سے اصولاً روزہ نہیں ٹوٹتا۔
یہاں فاضل مضمون نگار نے ایک بنیادی اصول بیان کردیا ہے کہ انجکشن کسی بھی نوعیت کا ہو اور کسی بھی ذریعےسے استعمال ہو، وہ روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں بنتا۔ یہ اصول بیان کرنے کے بعد کچھ تحفظات کا اظہار بھی فرماتے ہیں:
اگر کوئی مریض پیاس بجھانے کے لیے اور بھوک مٹانے کے لیے روزے میں انجکشن (ڈرپ) کا استعمال کرتا ہے تویہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور اس مقصد یا اس نیت سے انجکشن کا استعمال انتہائی نامناسب حرکت ہے لیکن اگر یہ درد یا بخار کا زور توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے تواس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
پروفیسرصاحب کی اس راے سے عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انجکشن کے مذکورہ بالا استعمال سے روزہ ٹوٹتا نہیں ہے مگر یہ روزے کی روح کے خلاف ہے اور انتہائی نامناسب حرکت ہے۔ اس راے کی عملی تطبیق خاصی مشکل ہے اوربے شمار اشکالات پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً ایک شخص شدید نقاہت محسوس کرتا ہے اور ڈاکٹر اسے گلوکوز کی ڈرپ لگا دیتا ہے تو غالباً اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ مریض کی اپنی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اسی طرح روزے کی حالت میں ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی کمی یا Hypoglycemia کا شکار ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر کے مشورے سے اسے بین الورید گلوکوز دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے محترم مضمون نگار کے مطابق ایسے شخص کا روزہ بھی فاسد نہیں ہوگا۔ ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پانی کی شدید کمی یا Dehydration کی وجہ سے کسی شخص کو نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال کرایا جائے۔ غالباً اس کا روزہ بھی قائم رہے گا کیونکہ ایسا شخص بدنیت نہیں ہے اور اس نے معتاد راستوں سے کوئی چیز بدن میں داخل نہیں کی ہے۔
دراصل مضمون نگار کے پیش نظر فقہا کی وہ عمومی راے ہے کہ غیرمعتاد راستوں، مثلاً جِلد، گوشت یا رگ کے ذریعے جسم میں کسی چیزکے دخول سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ہم یہاں بھول رہے ہیں کہ فقہا کی یہ راے اس وقت سامنے آئی تھی جب انجکشن یا ڈرپ وغیرہ کے استعمال کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس وقت جِلد اور گوشت کے ذریعے جسم میں کسی چیزکا دخول کیڑوں اور حشرات الارض کے کاٹنے سے ہوتا تھا اور معمولی رطوبت جسم میں داخل ہوجاتی تھی۔ یہ ایک غیرارادی عمل ہوتا تھا اور انسان کی اپنی خواہش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔
کیڑے کے کاٹنے کے حوالے سے فقہا کی راے کا انطباق انجکشن اور ڈرپ پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں نئے سرے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ آج کل Parenteral Nutrition کا طریقہ بھی معروف ہوچکاہے، جس میں ورید کے ذریعے اہم غذائی اجزا مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ بہت سارے مریض توایسے ہیں جو برسوں سے کچھ کھائے پیئے بغیر صرف Total Parenteral Nutrition کی بنیاد پر زندہ ہیں۔ ہمارےہراجتہاد کے پس منظر میں یہ معروضی حقیقت موجود ہونی چاہیے کہ آج انجکشن کا استعمال جسم کو غذائیت فراہم کرنے کے متبادل طریقے کے طور پر معروف ہوچکا ہے۔
ہم جو کچھ منہ کے راستے کھاتے پیتے ہیں اس میں کچھ طبیعی اور کیمیائی تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ بعدازاں غذائی مواد معدے کےراستے آنتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ کچھ مقعد اور پیشاب کے راستے خارج ہوجاتا ہے اورکچھ دورانِ خون میں شامل ہوکر جزوِ بدن بن جاتا ہے۔ہم جو کچھ انجکشن کے ذریعے جسم میںداخل کرتے ہیں وہ نظامِ انہضام میں جائے بغیر دورانِ خون میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنا کام کرکے یا تو جزوِ بدن بن جاتا ہے یا پھر جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ آخری نتیجہ دونوں صورتوں میں یکساں ہوتا ہے۔ اس آخری نتیجے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں روزے کی حالت میں انجکشن کے استعمال کافیصلہ کرنا ہوگا۔
روزہ فاسدہونے کی وجوہ پر جس انداز سے گفتگو کی گئی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پروفیسرصاحب برصغیر کی روایتی فکر کے تحت فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ۱۴سے ۱۷ جون ۱۹۹۷ء میں کاسابلانکا، مراکش میں اسلامی فقہی کونسل کی نویں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طبی ماہرین اور جیدعلما نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے چند روز بعد جدہ (سعودی عرب) میںاسلامی فقہی کونسل کی دسویں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ان دونوں کانفرنسوں میں دیگر مسائل کے ساتھ روزہ فاسد ہونے کی طبی وجوہ پر ماہرین نے عوام الناس کے لیےجو ہدایات جاری کیں، ان فتاویٰ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱- غذائیت والے انجکشن لینے سے روزہ فاسدہوجاتا ہے۔
۲- غذائیت والے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کھانا پینا۔
۳- روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول یا Normal Saline کا بین الورید استعمال بھی روزے کوفاسد کردیتا ہے۔{ FR 645 }
درحقیقت یہ مریض یاڈاکٹر کی نیت کا مسئلہ نہیں ہے۔ معروضی حقیقت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں ایک شخص کو انجکشن کے ذریعے غذائی مواد یا نمکیاتی محلول فراہم کیاجارہا ہے اور یہ عمل روزہ فاسد ہونے کا باعث بنتا ہے۔
بعض علما کی راے روزے کی حالت میں انجکشن کےحوالے سے اور زیادہ سخت ہے اور وہ ہرقسم کے انجکشن کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ جب معتاد راستوں سے جسم میں داخل ہونے والی اشیا کی ہم تخصیص نہیں کرتے تو یہ تخصیص انجکشن کی صورت میں بھی نہیں ہوگی۔ کسی شخص کوروزے کی حالت میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ چھوٹی سی ایک گولی بغیر پانی کے نگل جائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا روزہ فاسدہوجائے گا حالاں کہ ایک چھوٹی سی گولی بھوک اور پیاس پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ یہی اصول انجکشن کے معاملے میں بھی لاگو ہوگا۔
یہاں فقہ کے ایک اور بنیادی اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اس اصول کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی کم مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا مقدارسے قطع نظرہرحال میں حرام قراردی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میںپانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں حرام اور روزے کے فاسدہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لٹر ہو یا پانچ سو ملی لٹردونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے صاحب ِ تفسیر اور ممتاز عالمِ دین مولانا غلام رسول سعیدیؒ نے بڑے سائنسی انداز میں اس مسئلے کا جائزہ لے کر ہرقسم کے انجکشن کو ممنوع قراردیا ہے۔ میں دین کا ادنیٰ طالب علم ہوں مگرمجھے مذکورہ راے میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔ آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی ممانعت قرآن و حدیث اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے، ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر یہ ممانعت بعد میں علما کی طبی معلومات کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے تو اس پر بحث کی گنجایش ہے اور ہرایک کی راے میں تبدیلی کا امکان موجودہے۔