مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۲۴

جماعت اسلامی ایک نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی تحریک ہے۔اس میں ہرزبان، ہرمسلک، ہر علاقے، ہر نسل اور ہر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی فکری رنگ میں رنگے ہوئے، اکٹھے ہوتے، سوچتے سمجھتے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کا انتظام ہوتا ہے اور پھر وہ دعوت اور اقامت ِدین کے سفر پر سرگرم ہوجاتے ہیں اور اس راستے کے سرد و گرم کو انگیز کرتے ہیں۔ ہماری یہ معتدل اجتماعیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔

  • جدوجہد کی اساس اور بنیاد: اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دین کا یہ تصور صرف ملک اور قوم تک محدود نہیں ہے اور کسی علاقے یا جغرافیے کی قید میں بھی نہیں ہے۔ ہم ایک عالمگیر آفاقی سوچ کے حامل ہیں، امت کا تصور رکھنے والا قافلہ ہیں۔ امت کا یہ تصور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محسن انسانیتؐ کے اسوئہ حسنہ کی صورت میں ہمارا اثاثہ ہے۔ ہم اس سوچ پر کاربند ہیں کہ جو اسلام چاہتا ہے، جو دین چاہتا ہے، جو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں، وہی ہمارا مقصود ہے۔

جب ہم دین کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کام کے ساتھ بار بار کی ایک تذکیر اور باربار یاددہانی ہوتی ہے۔ ہم دین کی اقامت کی جدوجہد کرنے والے بے لوث لوگوں کا قافلہ ہیں۔ اللہ نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم تو اُمتِ وسط ہو۔ ایک ایسی امت جس کا کام حق کی گواہی دینا ہے (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ بحیثیت مجموعی امت کی یہ منصبی ذمہ داری کارِنبوت کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن جب امت تقسیم ہوگئی، تفریق کا نشانہ بن گئی، پو را نظام ٹوٹ گیا، اجتماعیت بکھر گئی،ایسی صورتِ حال کا تقاضا ہے اس میں ایسا گروہ موجود ہونا چاہیےجو یہ فریضہ انجام دے۔ الحمدللہ،   تمام کمیوں، کمزوریوں کے باوجود ہم اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے بندگانِ خدا کے سامنے موجود ہیں اور ان کے دل ودماغ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔

اسی تصور پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ’ریاست‘ یا ’الجماعۃ‘ کے متبادل نہیں ہے۔ تاہم،مسلمانوں کا ایک دینی، اجتماعی اور سیاسی نظام جماعت کی صورت میں قائم کرکے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ اتنے بڑے اور نازک کام کے لیے نظم وضبط اور تنظیم کی ضرورت ہے۔ اجتماعیت اور سمع و طاعت کے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ اگر وہ نظام نہیں ہوگا تو یہ اجتماعی جدوجہد نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا، یہ بات جماعت کے وابستگان کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ محض کسی ایسی جماعت کے لیڈر یا کارکن نہیں ہیں کہ جن کے پیش نظر وقتی سیاست کو انجام دینا ہو۔ اس میں محض الیکشن یا کوئی اور مہم پیش نظر ہو، یا مقصد محض یہ ہو کہ پارٹی جیت جائے۔ اس جدوجہد کا یہ ذریعہ ضرور ہے، مگر مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ان معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے جس طرح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

درس و تدریس اور فہم قرآن کی نشستیں، تربیتی و تذکیری پروگرام، تنظیمی اجتماعات، سیاسی جلسے، جلوس اور احتجاج، سب اقامت ِ دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہمارے نزدیک سیاست ایک دینی تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ حکومت کا قیام اُمت کا فرضِ منصبی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارا اوّل و آخر حوالہ دینِ اسلام ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی لائی ہوئی شریعت اور نظام ہے۔ ہمیں اسی راستے کے مطابق اس نظام کی تعمیر کرنا ہے۔ جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی تھی تو ان کے پیش نظر یہی تھا کہ ہم ان معنوں میں سیاسی نہیں جس طرح دوسرے سیاسی ہیں، اور ان معنوں میں مذہبی نہیں ہیں جس طرح دوسرے مذہبی ہیں۔ ہم دین کا وہ تصور رکھتے ہیں، جس میں دین زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔اس نسبت سے ہماری ڈیوٹی اور فریضہ یہ ہے کہ دین کے قیام کی جدوجہد کریں۔ ہم کوشش کرنے اور وقت دینے، مال خرچ کرنے اور جان کھپانے کے مکلف ہیں، اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں، انھیں دین کے لیے استعمال کرنے کے مکلف ہیں، اور غلبۂ دین کی منزل کے حصول کی جدوجہد کے مکلف ہیں، دین کو نافذ کر دینے کے مکلف نہیں ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا، ان شاءاللہ۔

عملی میدان میں سامنے آنے والی بعض ناکامیوں کو ہم زندگی کا ایک سبق آموز تجربہ سمجھتے ہیں، اور ایسے صدمات یا تلخیوں کا سامنا کرکے جدوجہد نہیں چھوڑیں گے، بلکہ غلبۂ دین کے لیے حکمت عملی بھی بنے گی اور اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی ہوگی، ان شاء اللہ۔ لہٰذا فرداً فرداً ہر کارکن اور ہر ذمہ دار یہ سوچے کہ وہ جس منصب پر ہے، اسے اپنی زندگی کی ترجیحات میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو شامل کرنا ہے۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا ہے۔ اپنے اوقاتِ کار کا، ذہنی، جسمانی اور عملی ترجیحات کا۔ ہرکسی کا گھر ہے، بیوی بچے ہیں، کئی سارے کاروبار ہیں، ملازمت ہے، معاملات ہیں، تجارت ہے، زمینداری ہے، دکان ہے، جو بھی متعلقات ہیں، ان میں حلال اور جائز طریقے سے آگے بڑھنا ہے، حق کا گواہ بننا ہے اور اس گواہی کا اہل بننا ہے۔

ہمیں زندگی کی ترجیحات میں اولین اہمیت اقامت ِدین کے کام کو دینی ہے۔ اگر ہمارے ذہن میں یہ اوّلین ترجیح تازہ ہے تو ہم دین کو سمجھے ہیں اور اس کے صحیح فہم کا ہمیں ادراک ہوا ہے، اور جماعت اسلامی کے ساتھ شعوری طور پر ہم وابستہ ہوئے ہیں۔ اور اگر یہ سوچ ترجیحِ اوّل نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور دنیا کے کام کر رہے ہوتے ہیں، تو جماعت اسلامی بھی ان کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جماعت اسلامی اس لیے تو نہیں بنی ہے، اور آپ اس لیے تو اس سے وابستہ نہیں ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی تو اپنے وابستگان سے یہ کہتی ہےکہ وہ اپنی زندگی کی ترجیحات میں دین کو شامل کریں بلکہ اسے ترجیحِ اوّل بنائیں۔

جب چاروں طرف باطل کی حکمرانی ہو، ظلم کا نظام طاقت ور ہو، زمین اور معاشرہ فساد سے بھرے ہوں، مظلوموں کی داد رسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ جب معیشت پر عالمی اور قومی ساہوکاروں کا قبضہ ہو۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی چند ہاتھوں کے قبضے اور تصرف میں سمٹتی جارہی ہوں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت تک مغلوب ہو، تو ایسے ماحول میں اقامت ِ دین کا کام ایک بندئہ مومن کے لیے زندگی کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام نہیں رہتا۔ سنن و نوافل کے درجے میں نہیں، فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی حاکمیت اور اس کے دیئے ہوئے نظامِ زندگی کے مقابلے میں انسانوں اور طاقت وروں کی بالادستی کا نظام قبول کیا جائے۔ یہ دوئی شرک ہے جس کا ابطال و استرداد ہرمسلمان پر فرض ہے۔

اسی فرض کی ادائیگی کے لیے ہم جماعت اسلامی میں ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر، ہمہ جہت، پیہم، پُرامن اور برسرِ زمین جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ جدوجہد فرد، خاندان، معاشرہ اور نظام، ہرسطح پر بیک وقت اور متوازی کام کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ یہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ پتّہ ماری کا کام ہے۔ یہ سوچ فکر اور عمل پر حاوی کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی چیز کو ترجیحِ اوّل کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہرفرد کو ہر وقت ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ آپ کی ترجیح کس طرح سے پوری ہوگی؟سب سے بڑا منصف تو انسان خود ہوتا ہے۔ ہر فرد جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ بندوں کے سامنے تو کم یا زیادہ کی رپورٹ دے سکتے ہیں، لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ خود بندہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور جواز پیدا کرنے کےلیے خود بخود کچھ چیزیں طے کرلیتا ہے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلیے مختلف وجوہ تراش لیتا ہے۔

  • قومی صورتِ حال : قومی انتخابات کسی بھی ملک کے لیے استحکام اور ایک نئے دور کی علامت سمجھے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں الیکشن سے نئے انتشار کا جنم لینا ایک روایت بن گیا ہے۔ ۸فروری ۲۰۲۴ء کو عوام بالخصوص نوجوانوں نے جس جوش و خروش سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اسے ملک و قوم کو آگے بڑھانے کےلیے ایک موقع بنایا جا سکتا تھا، مگرفارم ۴۷ کی بنیاد پر حکومت بنانے کے ذریعے ملک کوایک نئے انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا گیا۔

ظاہر سی بات ہے کہ ناجائز طریقے سےبننےوالی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی سیاسی شعبدہ بازی سے فرصت نہیں ہے، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں۔ ایک پارٹی کےلیے کسی کی توسیع اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اہم ہے اور مزید مراعات حاصل کرنے کے لیے دن رات جوڑ توڑ کرنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں چاہئیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹوں کو برقرار رکھنا سب سے بڑا ’قومی مقصد‘ ہے۔کسی کو اس چیز کی فکر ہے کہ دستور میں من مانی تبدیلیاں ٹھونسے اور کوئی اس بات کے لیے سرگرم ہے کہ میرا بھائی، بھتیجا یا میرے مقدمات لڑنے والا وکیل اعلیٰ عدلیہ کا جج بنے۔

جماعت اسلامی نے ملک اور عوام کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت کو سامنے رکھ کر ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیا۔ آئین کی بالادستی، جمہوری آزادیاں، عوامی رائے کا احترام، انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول، خواتین، نوجوانوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق، بین الاقوامی اداروں کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے آزادی اس ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی، فلسطین و کشمیر کی آزادی اس کی اہم بنیاد ہے۔

اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بےرحمانہ کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ بجلی گیس کے بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسوں اور بڑھتی مہنگائی وبےروزگاری کےخلاف نہ کوئی کھڑا ہو رہا ہے اور نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے۔

جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں ۱۴ روزہ دھرنا دیا،اور پھر ۲۸؍ اگست کو پاکستان بھر میں ہڑتال کی تاکہ اس مسئلے پر قومی دُکھ اور درد کو قومی مطالبے کی شکل میں حکمران طبقوں کے سامنے اُٹھایا جاسکے۔ اس طرح جماعت اسلامی نے پوری قوم کو مجتمع کیا، شہریوں، تاجروں اورصنعت کاروں کی آواز بنی۔

اس تحریک کا مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھر حکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے۔ یہ اقلیت حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرےکومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جب کہ عوام کے پاس ظلم سہنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب لوگ اُٹھ کھڑے ہوںتو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے۔

بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسوں میں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس ، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججوں اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ___ ہماری ’حق دو تحریک‘ کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔

حکمران طبقوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہوں گی، فری پیٹرول، فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا، اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی، جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اُس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں، جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سیکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔

تماشا دیکھیے کہ ۲۰۱۸ء تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو مجرمانہ انداز سے ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوسکتی، مگر جماعت اسلامی کی مسلسل احتجاجی مہم کے نتیجے میں نہ صرف اب بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں ادائیگی وصول کرنے اور بجلی کا نرخ کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کچھ آئی پی پیز بند کردی گئی ہیں۔ کئی آئی پی پیز سے Take or Pay یعنی خرچ کے مطابق ادائیگی کے معاہدے ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت اہم اور بڑی پیش رفت ہے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جاتا ہے۔ باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔

عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کےلیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی انتخابات سر پر نہیں ہیں کہ ہماری اس مہم کو انتخابی عمل سے جوڑا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوںاور عہدوں کی تقسیم اور حاصل کرنے کا کوئی معاملہ ہے۔پُرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے اور عوام کو اس جدوجہد کا حصہ بنانا ہمارا ہدف ہے۔

  • مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کا روّیہ :آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد تحریک پاکستان سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ ۱۹۳۱ء میں اس کا تب آغاز ہواتھا، جب سری نگر سینٹرل جیل کے باہر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے۱۷کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔اس کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے۱۴؍ اگست ۱۹۳۱ ءکو یوم کشمیر منایا تھا اور سیالکوٹ جلسہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ءکو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو اہل کشمیر نے اس کی حمایت کی، اور اس اُمید پر جانوں کی قربانی پیش کی کہ برطانوی راج کےخاتمے کے بعد وہ آزاد پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا ، مگر ڈوگرہ مہاراجا کےجعلی الحاق کا بہانہ بنا کر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کوبھارتی فوج نے سری نگرپر قبضہ کیا توکشمیر کی مسلمان اکثریت نے اس جارحیت کو مسترد کر تے ہوئےاس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ بھارت کو اپنی شکست نظر آئی، تو جنوری ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ جا پہنچا اور وہاںمنظور ہونے والی قرارداد میں اہل کشمیر کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن بعد ازاں اس سے مکر گیا، اور آج تک اس سے انکاری ہے۔

آج ۷۷سال گزرنے کے بعدبھی یہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی تقریباً ۹لاکھ ملٹری و پیراملٹری فورسز وہاں موجود ہیں۔اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان وہاں شہید ہوئے، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عزت پامال ہوئی ، ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے، بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا گیا ، کاروبار اور املاک کو تباہ کیا گیا۔ ہزاروںلوگ جیلوں میں قیدہیں، ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔بےشمار کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو ئے ہیں۔

یہ سب کچھ اہل کشمیر کے حوصلے پست نہ کر سکا،تو ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے کےذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرکے وہاںپر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد دو سال سے زائد عرصہ تک وادیٔ کشمیرمسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی بندش کی زد میں رہی۔ اسےدنیا کے سب سے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیر سمیت بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھردی گئیں،جب کہ نمایاں سیاسی رہنماآج تک قید اور نظربند ہیں۔ اس طرح بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

جبر، تشدد اور خوف کےاس ماحول میں اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بھارتی فسطائیت کے سامنے جھکنے اور حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے سے انکار کیا ، اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ کانعرہ لگانے والے نوجوان پاکستانی بن کرزندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ایک صدی ہونے کو آئی ہے، اہل کشمیر تحریک ِآزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔  یہ امر صدمے کا باعث ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر مرکزی اہمیت کا مقام پاتا دکھائی نہیں دے رہا۔

ایسے وقت میں، جب کہ بھارت میں ہندو نسل پرستانہ ذہنیت کی حکمرانی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ بھارتی وزرا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نریندرمودی کا لہجہ ہتک آمیز ، تکبر اور رعونت سے بھرا ہوا ہے۔بھارت نہ صرف مذاکرات سے انکاری ہے، بلکہ بلوچستان سے فاٹا تک پاکستان کے قومی وجود کو نقصان پہنچانے کےلیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان نے یک طرفہ طور پر ’کرتارپور کوریڈور‘ معاہدے کی اگلے پانچ برسوں کے لیے تجدید کر دی ہے، اور ہماری حکمران جماعت کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات، تجارت، محبت اور دوستی کی باتیںتسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ کشمیریوں کے خون اور قربانیوں کو نظرانداز کرکے تجارت کیونکر ہو سکتی ہے؟کشمیری شہید ہو رہے ہوں، تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اس پرقومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اسے نظرانداز اور کشمیریوں کی تمناؤں کا خون کرکے کسی کی ذاتی پسند کے تحت اگر معاملات آگے بڑھیں گے تو وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ’مسئلہ کشمیر‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل۔ یہ کشمیری عوام کا مطالبہ اور پاکستان کا اصولی موقف ہے۔ اس کے بغیر خطے میں نہ امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دوستی کا کوئی خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ اس پر معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اس کی پشت پر ہے، اور ہرطرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ظلم و ستم کو اُجاگر کیا جائے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اہل کشمیر حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

  • اہل فلسطین کا عزم اور پکار: اس وقت جو صورتِ حال فلسطین اور غزہ میں ہے، اس ساری صورتِ حال میں جو لوگ مزاحمت کر رہے ہیں درحقیقت وہ پوری اُمت کی طرف سے فرض ادا کررہے ہیں۔ فلسطین اور مسجد اقصٰی کی آزادی کے لیے مزاحمت کرنے والے یہ بہت عظیم لوگ ہیں اور اُمت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ لیکن اُمت اور انسانیت کا دشمن انھیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ دہشت گرد قرار دینے والا امریکا خود کتنا بڑا دہشت گرد ہے، اس کی تعمیر میں ریڈ انڈین کے قتل عام اور نسل کشی کس کو بھولی ہے؟ ویت نام، ہیروشیما ، ناگاساکی، عراق، افغانستان اور پوری دُنیا میں ایسے گروہوں کی سرپرستی جو قتل عام کرتے ہیں، حکومتوں کے تخت اُلٹنا، جمہوریتوں کو پامال کرنا، ڈکٹیٹروں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا، یہ وہ کام ہیں جوامریکا کرتا چلا آیا ہے اور تمام تر مظالم ڈھا کر حماس کو دہشت گرد تنظیم کہتا ہے۔

حماس کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انھیں یہ حق حاصل ہے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ پھر حماس محض مسلح جدوجہد کرنے والا گروہ نہیں ہے، بلکہ ایک جمہوری قوت ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے جب انتخابات منعقد ہوئے تو حماس نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسماعیل ہنیہ شہید وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل نے اپنے دوست مسلم ممالک سے مل کر حماس کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا۔اس سب کے باوجود مسلم حکمرا ن اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہے، اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اس تمام تر جبر کے باوجود کہ ۴۵ ہزار سے زائد بچّے، بوڑھے، جوان، خواتین، خاندان کے خاندان شہید ہوچکے ہیں لیکن پوری قوم بحیثیت مجموعی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، دستبردار نہیں ہوں گے اور اسرائیل کا قبضہ تسلیم نہیں کریں گے اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔ عزیمت کی ایک تاریخ ہے جو اہل فلسطین رقم کر رہے ہیں!

اہل فلسطین اُمت مسلمہ اور دُنیا کے انصاف پسند لوگوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کاش! دُنیا کے حکمرانوں کی بے حسی ، انسانیت کا رُوپ دھار سکے۔

اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے:

وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۱۰ۧ (الانفال ۸:۱۰) اور مدد نہیں آنی ہے،مگر اللہ ہی کی جانب سے جو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

بِنَصْرِ اللہِ۝۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۵ۙ (الروم۳۰:۵) اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے نوازتا ہے اور وہی غالب ہے ، وہی رحم فرمانے والا ہے ۔

وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ ہُوَ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ۝۷۸ (الحج ۲۲:۷۸) اور اللہ سے تعلق جوڑ لو، وہی تمھارا مولیٰ ہے، کیا ہی خوب مولیٰ ہے و ہ اور کیا ہی بہترین مدد گار ہے وہ۔

 ان آیات میں اہلِ ایمان کو یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ ہی ان کا مولیٰ اور کارساز ہے،وہی ان کا حامی و ناصر ہے۔ اسی کی تائید و توفیق سے انھیں فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے۔ اسی کے فضل و کرم سے وہ کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہوتے ہیں اور اسی کی عنایت و رحمت سے انھیں مصائب و مشکلات سے نجات ملتی ہے۔ لہٰذا، ہر حال میں وہ اسی سے رجوع کریں، اسی کو راضی کرنے والے کاموں میں مصروف رہیں اور اسی کی نصرت کے طلب گار بنیں ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو ان کے دکھ درد کا درماں فراہم کرے، ان کی مشکلات کو آسان بنائے اور مخالفوں اور  دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے ان کی حفاظت فرمائے ۔

  • اہل ایمان کے لیے خوشخبری: قرآن کریم کی متعدد آیات میں اہلِ ایمان کو نصرتِ الٰہی نصیب ہونے کی خوش خبری سنا ئی گئی ہے، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسرے لوگ اللہ کے دین کی راہ میں ان کے ساتھ چلنے والے، چاہے قدم پیچھے ہٹالیں، ان کا ساتھ چھوڑ دیں ، خواہ مخالفین سب کے سب اہلِ اسلام کے خلاف متحد ہوجائیں، ایمان کی نعمت سے سرفراز ہونے والے یہ یقین رکھیں اور پُر امید رہیں کہ ان کا حقیقی مولیٰ و کار ساز اور حامی و ناصر اللہ قادرِ مطلق ہے۔ وہ اس پر بھروسا رکھیں، وہی ان کی مدد فرمائے گا اور انھیں فتح و کامرانی سے نوازے گا،جیسا کہ اس نے اس سے پہلے ا پنے مومن بندوں کو اپنی نصرت سے شادکام کیا ہے (اٰل عمرٰن۳: ۱۲۲-۱۲۳)۔ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک و مختارِ کل ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ: فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْدُ ہے، وہ جب چاہتا ہے اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ اللہ اپنی نصرت سے کسے نوازتا ہے ؟ یہ اس کی حکمت و مصلحت پر منحصر ہے،وہ علیم و خبیر اور حکیم ہے۔ اس کا کوئی فیصلہ و فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا،چاہے انسان اسے سمجھے یا نہ سمجھے۔ ارشادِ ربّانی ہے:

بِنَصْرِ اللہِ۝۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۵ۙ  وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا يُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۶ ( الروم۳۰:۵)  اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور وہی غالب ہے ، وہی رحم فرمانے والا ہے ،یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے [ سمجھتے]۔

وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝۱۳ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کی چاہتا ہے تائید فر ماتا ہے،اصحابِ بصیرت کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔

   اہلِ ایمان کے لیے یہ بڑے شرف کی بات اور وجہِ تسلّی ہے کہ اللہ نے مومن بندوں کی مدد اپنے اوپر ان کا حق قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا۝۰ۭ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷ (الروم:۳۰:۴۷) اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے ، پھر جنھوں نے جرم کیاان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ مومنین کی مدد کریں۔

ایک دوسری آیت میں گذشتہ قومو ں کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا کہ سرکش و نافرمان لوگوں پر عذاب آنے کی صورت میں اللہ نے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کو اس سے بچا لیا:

ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ۝۰ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۳ (یونس ۱۰:۱۰۳)پھر ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو اہلِ ایمان ہیں، اس طرح ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مومنوں کو بچا لیں۔

 مزید یہ کہ اللہ رب العزت نے اپنے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کا یقین دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وہ اطمینان رکھیں کہ ہم اپنے پیغمبروں اور اہلِ ایمان کو دنیا میں اپنی نصرت سے نوازتے ہیں اورآخرت میں بھی انھیں نوازیں گے: اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۝۵۱ ( المؤمن ۴۰:۵۱)۔ سورۃ الانفال کی آیت ۶۴ میں ارشادِ ربّانی ہے: يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۴ۧ  ’’اے نبیؐ! اللہ تمھارے لیے اور ان مومنین کے لیے کافی ہے جو تیری اتباع کریں ‘‘۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مقام پر اہل ایمان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مخالفین سے جنگ کے مو ا قع پر( ان کی قلتِ تعداد اور جنگی ساز و سامان کی کمی کے باجود) ان کی مدد کرکے انھیں فتح سے نوازا تھا (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۳، الانفال۸:۹-۱۰، ۶۲-۶۴ ،التوبۃ۹:۴۰ )۔

ا ن واقعا ت کو بیان کر نے سے مقصود یہ ہے کہ اہلِ ایمان انھیں ذہن میں رکھیں، ان پر غور کریں، ان سے سبق حاصل کریں تو نصرتِ الٰہی نصیب ہونے کا یقین اور پختہ ہوجائے گا اور توکّل علی اللہ کی کیفیت تازہ اور مزید مضبوط ہوجائے گی۔ یہاں اس نکتہ کی طرف اشارہ بھی اہم معلوم ہو تا ہے کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کا یقین دلایا ہے یا انھیں اپنی نصرت سے نوازنے کے کسی واقعہ کا ذکر کیا ہے، ان کے آخر میں یہ صفات الٰہی مذکور ہیں: العزیز الحکیم، قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ، العزیز الرحیم ( الانفال ۸:۱۰، اٰل عمرٰن ۳: ۱۲۶، الحج ۲۲:۴۰ ) ۔

اس سے ذہن میں یہ حقیقت بٹھانی مقصود ہے کہ اللہ ہی ہر طرح کی قوت وطاقت کا مالک ہے۔وہ مختارِ کل ہے، نصرت و فتح سے نوازنا اسی کے اختیار میں ہے، شکست و ہزیمت کی آزمائش اسی کی مرضی سے ہوتی ہے۔  

  • اللہ کی اطاعت اور دعوتِ دین: نصرتِ الٰہی کی طلب کس شخص کو نہیں ہوتی؟ واقعہ یہ کہ مسائل و مشکلات سے ہر ایک دوچار ہوتا رہتا ہے۔ اللہ کی مدد کے طلب گار وں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس پہلو سے سوچیں اور غور کریں کہ اللہ رب ا لعالمین نے اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کا یقین دلا یا ہے،تو آخر ا ن پر اللہ کا کچھ حق عائد ہوتا ہے کہ نہیں؟ کیا وہ اسے ادا کرنے میں سنجیدہ ہیں؟ یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ اہلِ ایمان کو اپنی نصرت کی یقین دہانی کرا تے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ عزیز میں یہ واضح کردیا ہے کہ ہم نے مختلف مواقع پر اہلِ ایمان کی مدد کی ہے، انھیں مشکلات و مصائب سے نجات بخشی ہے، اور اسی طرح ان کی مدد کر تے رہیں گے،ان کی مشکلات کا ازالہ کریں گے،ان کے مسائل حل کریں گے۔ ان سب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں سرگرم رہیں۔ روز مرّہ زندگی میں اس کے حکموں کے سامنے سر جھکاتے رہیں ،اس کو راضی کرنے والے اعمال میں لگے رہیں اور اس کے پسندیدہ دین کی اشاعت کو اپنا مشن بنا لیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ ( محمد۴۷:۷) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد فرمائے گا۔

وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۝۴۰ (الحج۲۲:۴۰) اور اللہ ضرور مدد کرے گا ان لوگوں کی جو اس کی مدد کرتے ہیں، بے شک اللہ طاقت والا اور غلبہ والا ہے۔

عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف غزوات میں معاندین و مخالفین کے مقابلے میں ا ہلِ ایمان کو نصرتِ الٰہی سے شاد کام کیے جانے اور دشمنوں کی سازشوں ا و ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے سے متعلق آیات پر غور و خوض سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اہلِ ایمان پر اللہ کا یہ فضل و کرم کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں، بلکہ انھیںاللہ کی مدد نصیب ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ سورۂ محمد کی مذکورہ بالا آیت میں مومنین کو یہی اطمینان دلایا گیا ہے کہ وہ اللہ ( یعنی اس کے دین) کی مدد کرتے رہیں، اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔ اس آیت اور اس نوع کی دوسری آیات کی وضاحت میں مفسرین نے عام طور پر ’اللہ کی مدد‘ سے مراد اس کے دین کی مدد مراد لیا ہے، یعنی دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں سرگرم رہنا اور اللہ کی عطا کردہ جسمانی،ذہنی و علمی صلاحیتوں اور اس کے عنایت کردہ وسائل کو خدمتِ دین میں لگا دینا اور اس راہ میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنا۔

 ان سب کے ساتھ یہ بھی پیشِ نظر ر ہے کہ روز مرہ زندگی میں دین کے مطالبات پورے کرنے، یعنی ہر کام کے وقت اس سے متعلق حکمِ الٰہی اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد رکھنے، اسی کے مطابق عملی قدم اٹھانے اور دوسروں کو اس کی یاد دہانی کراتے رہنے سے دین کو تقویت ملتی ہے، اس کی طرف لوگ راغب ہوتے ہیں۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ عمل بالقرآن والسنّۃ سے دین کی اشاعت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

  • اللہ کے مددگار بنو: اسی ضمن میں یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ سورۃ الصف کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ’انصار اللہ‘ ہونے کی دعوت دی ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہِ  (الصف ۶۱ :۱۴ ) ’’اے ایمان والو! اللہ( کے دین) کے مدد گار بن جائو‘‘۔ لاریب اللہ بے نیاز ہے ، وہ مختارِ کل ہے، قادرِ مطلق ہے، اللہ کو کسی کی مدد کی احتیاج کیسے ہوسکتی ہے، یہ سوچنے کی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے مددگار ہونے سے دین کامخلص خادم ہونا ، دین کی راہ میں پوری دلجمعی اور لگن کے ساتھ رواں دواں رہنا، خود بھی اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا ہے۔ اسی آیت میں آگے جو کچھ ذکر ہوا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسٰیؑ نے حواریوں ( یا حمایتیوں) سے یہ کہا تھا کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہے؟ حواریوں نے کہا تھا کہ ہم’’ انصار اللہ‘‘ ہیں، پس ان میں سے ایک گروہ کے لوگ ایمان لائے اور دوسرے نے انکار کیا،آخر کار اللہ کی تائید و نصرت سے ایمان لانے والوں کو دشمنوں پر غلبہ نصیب ہوا اور وہ فتح یاب ہوئے۔

بلاشبہ ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو صدق دل سے ایمان لائے ،اس کے تقاضے کو بحسن و خوبی پورا کیا ا ور سورۃ البقرۃ کی آیت يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً   ۝۰۠ (۲:۲۰۸)کا مصداق بن گئے۔ انصار اللہ بن جانے کی دعوت سے متعلق آیات سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ روز مرہ زندگی میں دینِ برحق کے تقاضوں کو پورا کرنے اورمختلف زمانے میں ا للہ کے مبعوث کردہ رسولوں کی بے لوث رفاقت و نصرت کے لیے کھڑے ہوجا نے کو اللہ کے دین کی مدد سے تعبیر کیا گیا ہے اور ا س خدمت میں سرگرم رہنے والوں کو ’انصار اللہ ‘ کہا گیا ہے ۔ بلا شبہ یہ بہت بلند مقام اور یہ معزز لقب انھی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو دین کی اشاعت اور اس کی سر بلندی کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے قول وعمل سے اسے سچ کر دکھاتے ہیں ۔

سورۃ الصفّ کی مذکورہ آیت سے پہلے کی آیت بتارہی ہے کہ اللہ رب العزت ایسے ہی مومنین و صادقین کو اپنی نصرت سے مشرف فرما تا ہے اور اس کی خوش خبری سنا کر ان کے دل کو باغ باغ کردیتا ہے۔ واقعہ یہ کہ عا ملین بالکتاب و السنّت کی حیثیت معاشرہ میں چلتی پھرتی کتابوں کی ہوتی ہے، اور یہ کتابیں یقینی طور پران کے پڑھنے والوں، یعنی ان کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اللہ کے دین کی مدد کا یہ پہلو بھی لائقِ توجہ ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت۴۰ کی تفسیر میں ایک مفسر کی یہ وضاحت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جس کو اللہ کی مدد کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ اس کے حکم پر عمل کرے( آسان تفسیر، عائض القرنی، ترجمہ: محمد طارق ایوبی ندوی، ص ۱۰۶۲)۔

 مزید یہ کہ اہلِ ایمان کو اپنی نصرت سے نواز تے رہنے کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے : لَعَلَّکُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲۳  (اٰل عمرٰن۳:۱۲۳) ۔ یعنی نصرتِ ا لٰہی نصیب ہونے کا تقاضا ہے کہ ربِّ کریم کا شکر ادا کیا جائے اور یہ بخوبی معلوم ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک نہایت اہم پہلو ( جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے) یہ ہے کہ روز مرّہ زندگی سے متعلق اس کی ہدایات کو یاد رکھا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور شب وروز اس کی مرضی کے مطابق بسر کیے جائیں ۔ ان سب باتوں سے مقصود اس نکتہ پر زور دینا ہے کہ دینِ حق کی اشاعت کی جو بھی ممکنہ صورتیں ہیں انھیں اختیار کیا جائے اوراسی کے ساتھ عملی زندگی میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے تو اللہ کی مدد نصیب ہوگی ۔

lگناہوں سے پرہیز: قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ربّ کریم کی مدد طلب کرنے کے لیے دو چیزیں خاص طور سے مطلوب ہیں : گناہ کے کاموں سے پرہیز اور مغفرت طلبی۔ یعنی قرآن کریم نصرتِ الٰہی کے طلب گا ر وں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تمام کاموں سے دُور رہیں اور دوسروں کو ان سے دُور رکھنے کی کو شش کریں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور ان کاموں کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے رہیں، جنھیں ربِّ کریم پسند فرماتا ہے یا جن کے کرنے والوں کو وہ محبوب رکھتا ہے ۔ بلا شبہ اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے اجتناب رضائے الٰہی کا وسیلہ بنتا ہے اور اسی سے بالآخر نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں متعدد مقام پر نافرمان، سرکش اور شنیع گناہوں میں ملوث قوموں کو عذاب سے دوچار کئے جانے کے ضمن میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ وہ اہل ایمان عذاب سے محفوظ رہے جو گناہ سے پرہیز کر تے تھے اور اللہ رب العزت کی ناراضگی سے ڈرتے تھے۔ نا فرمان و سرکش قوموں میں قومِ ثمود بہت معروف ہے۔ ان پر ان کے بُرے کر تو توں کی پاداش میں عذاب مسلط کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے: وَاَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝۵۳ (النمل ۲۷:۵۳) ’’اور ہم نے ان لوگوں کو (عذاب سے) بچا لیا جو ایمان لائے اور تقویٰ والے تھے‘‘۔

تقویٰ والے کون لوگ ہیں اورمتقی کسے کہیں گے؟ بعض آیات میں اس کی بڑی جامع تعریف ملتی ہے۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ جو سچ بات لانے والے کی تصدیق کرتے ہیں اور خود بھی اپنے قول وعمل سے سچ بات کو ماننے کی تصدیق کرتے ہیں،یعنی اسی کے مطابق اپنے قول وعمل کو ڈھال لیتے ہیں، جو اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی اد ا ئیگی میں سنجیدہ و سرگرم رہتے ہیں، گناہ میں ملوث ہوکر نہ اللہ کو ناراض کرتے ہیں اور نہ ا للہ کے بندوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اور اللہ کے غضب سے ڈرتے رہتے ہیں (البقرہ۲:۱۷۷، الزمر۳۹: ۳۳)۔ سورئہ حجرات کی آیت ۱۵ صادقون یا سچّے لوگوں کی خصوصیات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس آیت کے مطابق ایمان میں سچے وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد پھر اس سے متعلق کسی شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہوئے،اس پر جمے رہے اور دینِ حق کی راہ میں جان ومال کی قربانی بلا کسی پس و پیش دیتے ر ہے۔

 اسی ضمن میں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ متعدد آیات میں یہ فرمانِ الٰہی ملتا ہے کہ تقویٰ یا پرہیزگاری اختیار کرو،یعنی گناہوں سے دور ر ہو تو اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے: وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ۧ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’اور اللہ سے ڈرو،گناہ سے اپنے کو بچائو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جو شخص روز مَرہ زندگی میں اللہ و رسولؐ کی اطاعت کا رویہ اختیارکرے گا، وہ ہر حالت میں اپنے کو ان کی نافرمانی سے بچائے گا اور گناہ کے کاموں سے پرہیز کرے گا۔

 اسی طرح قرآن میں صاف صاف مذکور ہے کہ اللہ رب العزت اور اس کے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں: وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۳۲ۚ (اٰل عمٰرن۳:۱۳۲)’’اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔

یہ امر بدیہی ہے کہ اللہ کی رحمت جنھیں نصیب ہوتی ہے وہ ا س کی تائید و نصرت سے بھی شاد کام ہوتے ہیں۔ یہا ں یہ ذکر اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے ایک دفعہ علمِ دین کے حاملین کو خطاب کرتے ہوئے اسی نکتہ کی جانب خاص طور سے متوجہ فرمایا تھا کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی اور اس کی رضا کے حصول کے لیے گناہ کے کاموں سے پرہیز ضروری ہے، خود ان کے الفاظ میں:’’ اللہ سے تعلق پیدا کرو اور تقویٰ اختیار کرو،یعنی جن باتوں کو اللہ نے گندہ اور گناہ قرار دیا ہے ان سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو۔اللہ کا تعلق اور اللہ کی رضا نصیب ہونے کی یہ خاص شرط ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا غیور ہے،اگر کوئی شخص گندگیوں اور گناہوں اور ان باتوں سے بچنے کی فکر نہیں کرتا جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہیں تو وہ اپنے لیے خدا کی رحمت و مقبولیت کے دروازے بند کرلیتا ہے‘‘(محمد منظور نعمانی، دینی مدارس کے طلباء سے:آپ کون ہیں،کیا ہیں اور آپ کی منزل کیا ہے؟لکھنؤ، ۲۰۱۷ء، ص۲۱)۔ خلاصہ یہ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور گناہ سے پرہیز کا ایک بہت بڑا فیض ربِّ کریم کی نصرت کا مستحق بننا ہے۔

  حقیقت یہ ہے کہ گناہوں سے بچنا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور مصائب و مشکلات سے نجات کا مؤثر ذریعہ ہے۔ انسان روزمرّہ زندگی میں مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتا رہتا ہے، شب وروز بسر کرتے ہوئے اسے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قرآن و حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے نجات کا سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ ربِّ کریم کو راضی کیا جائے اور گناہوں سے بچا جائے۔

لہٰذا، نصرتِ الٰہی طلب کر نے والوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ان باتوں اور کاموں کے قریب نہ جائیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں ۔ قرآن ہمیں صاف صاف بتا تا ہے کہ باطل عقائدکو ماننا ، برے اعمال میں ملوث ہونا یا گناہ کے کام کرتے رہنا اللہ رب العزت کو ناراض کر نا ہے۔اس ضمن میں قرآ ن میں خاص طور سے کفر و شرک اور ناشکری، مالی بددیانتی وخیانت، غیبت و بہتان تراشی،استہزاء و تحقیر، تکبر و غرور ، فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی ، محرمات کو حلال سمجھنے ، قول و فعل میں عدمِ مطابقت یا نفاق، اللہ کی آیات کے بارے میں کٹ حجّتی اور کسی بھی معاملہ میں اللہ ربّ العزت کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کا ذکر ملتا ہے (المومن۴۰:۱۰،۳۵)

  اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اللہ کوناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں؟ اسے حضرت ابو درداءؓ سے مروی ایک حدیث قدسی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ارشادِ نبویؐ ہے :

اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَـا مَالِکُ الْمُلُوْکِ وَ مَلِکُ الْمُلْوْکِ، قُلُوْبُ الْمُلُوْکِ فِی یَدِیْ وَ اِنَّ الْعِبَادِ اِذَا اَطَاعُوْنِیْ حَوَّلْتُ قُلُوْبَ مُلُوْکِھِمْ عَلَیْہِمْ بِالرَّحْمَۃِ وَالرَّاْفَۃِ وَ اِنَّ الْعِبَادَ اِذَا عَصَوْنِیْ حَوَّلْتُ قُلُوْبَہُمْ بِالسُّخْطَۃِ وَالنِّقْمَۃِ فَسَامُوْہُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ فَلَا تَشْغَلُوْا اَنْفُسَکُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَی الْمُلُوْکِ وَلٰکِنِ اشْغَلُوْا اَنْفُسَکُمْ بِالذِّکْرِ وَالتَّضَرُّعِ کَیْ اَکْفِیْکُمْ  (محمد ابن عبد اللہ الخطیب التبریزی،مشکوٰۃ المصابیح۳۷۲۱، کتاب الامارۃ والقضا، الفصل الثالث،ج۲، ص۳۲۳) اللہ تعالیٰ فرما تا ہے: میں اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشا ہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو ان کے بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کے ساتھ پھیر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کر تے ہیں تو بادشاہوں کے دلوں کو پھیر کر ان میں سختی و انتقامی جذبہ بھر دیتا ہوں،پھر وہ انھیں بدترین تکلیفوں سے دوچار کرتے ہیں۔اے میرے بندو! (ایسی حالت میں) ان بادشاہوں کو بد دُعا دینے کے بجائے (حالات میں تبدیلی کے لیے) ذکر و تضرع [اللہ کی یاد اور ا س کے سامنے رونے گڑگڑانے] میں مصرو ف ہوجائو تو میں اِن بادشاہوں (کے شرسے حفاظت) کے لیے تمھارے لیے کافی ہوں گا۔ 

  • توبہ و استغفار: قرآن کریم سے یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ توبہ و استغفار سے مادّی و روحانی یا دنیوی و اُخروی دونوں فیوض و برکات کے دروازے کھلتے ہیں ۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’ اپنے رب سے معافی مانگو،بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا،تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘ ( نوح ۷۱ :۱۰-۱۲) ۔

اس آیت کی تشریح میں صاحبِ کشّاف نے حضرت حسن بصری ؒ کے تعلق سے ایک دلچسپ اور اہم روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ان سے خشک سالی کی شکایت کی تو انھوں نے کہا کہ اس سے نپٹنے کے لیے استغفار کرو۔ دوسرے نے فقر و فاقہ کی شکایت کی تو کہا: مغفرت طلب کرو۔ تیسرے نے اولاد سے محرومی اور چوتھے نے پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو سب کے جواب میں انھوں نے یہی فرمایا کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کے سامنے مختلف قسم کے مسائل پیش کیے گئے ، آپ نے سب کا ایک ہی حل بتایا کہ استغفار کر و۔ اس اشکال کے جواب میں حضرت حسن بصریؒ نے سورۂ نوح کی مذکورہ بالا آیات تلاوت فرمائیں (الزمخشری، الکشّاف، بیروت، ۱۹۹۷ء، ۴؍ ۶۲۰۔ نیز ملاحظہ فرمائیں:سیّد مودودی، تفہیم القرآن، ششم، ص۱۰۰- ۱۰۱)۔

اسی طرح حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو اس طور پر نصیحت فرما ئی تھی:وَيٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّۃً اِلٰي قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ۝۵۲(ھود ۱۱:۵۲) ’’ اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو،پھر اس کی طرف پلٹ کر آئو،وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری( موجودہ)قوت میں مزید اضافہ فرمائے گا،اور حق سے منہ پھیر کر مجرم نہ بن جائو ‘‘۔

اسی سورہ کی آیت ۳ میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم سے خطاب ان الفاظ میں ملتا ہے:وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَـنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ۝۰ۭ(ھود ۱۱:۳) ’’اور تم اپنے رب سے مغفرت چاہو اور اس سے توبہ کرو تو وہ ایک خاص مدت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا‘‘، یعنی ہر نیکی کرنے والے کو اس کا اجر عطا فرمائے گا۔

توبہ و استغفار کے فیوض کے بیان میں یہ ارشادِ نبویؐ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے:

جو شخص توبہ و استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ پیدا فرماتا ہے۔ہر رنج و غم سے اسے نجات دیتا ہے اور ایسے ذریعے سے اسے روزی عطا فرماتا ہے کہ ا سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ( سنن ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب الاستغفار)

lرجوع الی اللہ: ان سب تفصیلات کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ غنی و بے نیاز ہے، مختارِ کُل و قادر مطلق ہے۔ اس کے بندے محتاج، عاجز و درماندہ ہیں، انھیں مختلف قسم کی ضروریات لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ وہ مسائل و مشکلات اور مصائب سے دوچا ر ہو تے ہیں اور بیماری و آزاری میں مبتلا ہو تے ہیں ۔ ان تمام آزمائشی حالات سے نجات کا سب سے مؤثر ذریعہ اللہ رب العالمین کویاد کرنا،اس سے رجوع کرنا اور اس کے فضل و کرم کی التجا اور اس کے دربار میں حاضر ہوکر ا س کی رحمت کے لیے فریاد کرنا ہے۔

حقیقت یہ کہ آزمائش اور مصائب و مشکلات کے گھیرے میں جب مومن بند ے صدقِ دل سے،عاجزی و انکساری کے ساتھ، ہر طرف سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے لیے پوری طرح یکسو ہو کر ربّ کریم کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں اور اس کی مدد کے طلب گار ہو تے ہیں تو ان کی فریاد نہ صرف سنی جاتی ہے، بلکہ انھیں یہ اطمینان دلا یا جا تا ہے کہ بس ا للہ تعالیٰ کی مدد پہنچنا ہی چاہتی ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴(البقرہ ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنّت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں،مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟___ (اُس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں، اللہ کی مدد قریب ہے۔

 آیت کے آخری حصہ کی تفسیر میںمولانا امین احسن اصلاحی ؒ تحریر فرماتے ہیں:  مَتٰی نَصْرُ اللہِ  کا اسلوب اُس فریاد کو ظاہر کرتا ہے جس کی نوعیت امید کے دروازے پر آخری دستک کی ہوتی ہے۔فرمایاکہ نصرتِ الٰہی کا دروازہ اِسی دستک کی کلید سے کھلتا ہے:اَلَا نَصْرُ اللہِ قَرِیْب ۔

  رہروِ تشنہ لب نہ گھبرانا       اب لیا  چشمۂ بقا تو نے   ( تدبرِ قرآن،اوّل)

  قرآن ہمیں اس حقیقت سے بھی با خبرکر تا ہے کہ رحمتِ الٰہی کا دروازہ کھلتا ہے توبہ و استغفار،  یعنی گناہوں کی بخشش مانگنے سے ۔ ہم غور کریں اور اس پر توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے محبت بھرے انداز میں اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ اس کی رحمت کے طلب گار ہو تو مغفرت طلبی کو اپنا معمول بنائو ،آخر تم لوگ یہ راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے ؟

فرما نِ الٰہی ہے: لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۴۶(النمل۲۷:۴۶ ) ’’تم لوگ اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے کہ تم پر رحم کیا جائے؟‘‘ سچ یہ ہے کہ آیت پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ اے لوگو! اگر رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہو تو اللہ رب العزت سے خوب کثرت سے توبہ واستغفار کر و ۔ اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین ر ہے کہ توبہ و استغفار کی قبولیت اللہ کی صفتِ رحیمیت کا مظہر ہے، یعنی اللہ کی رحمت کے فیض سے ہی بندے کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کے گمراہ و نافرمان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور اس سے رجوع کرنے کی نصیحت کر تے ہوئے خاص طور سے اللہ کی صفتِ رحیمیت ا ورودودیت کا حوالہ دیا تھا۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْہِ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ رَحِيْمٌ وَّدُوْدٌ۝۹۰ (ھود ۱۱:۹۰) ’’اور اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف پلٹ کر آئو ، بے شک میرا رب رحم فرمانے والا اور (اپنے بندوں سے ) بے حد محبت فرما نے والا ہے‘‘۔    

  بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ہمار ا حقیقی مولیٰ و مددگار ہے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ ہی سے رجوع کرنا اور اس کو راضی کرنے والے اعمال بجا لانے ہیں۔ اسی میں ہمارے لیے خیر و فلاح ہے اور یہی نصرتِ الٰہی نصیب ہونے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ قرآن کا اعلان ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے، اپنی نصرت سے نوازتا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَاللہُ يُـؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝۱۳ (اٰل عمرٰن۳:۱۳) ’’اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے۔ دیدئہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔

            اس کے بندوں کا کام بس یہ ہے کہ وہ نصرتِ الٰہی کی طلب کے تقاضے پورے کرتے رہیں۔ اللہ کرے یہ قرآنی حقیقت ہمارے ذہنوں میں جاگزیں ہوجائے او ر اس کے اثرات ہمارے اعمال میں پوری طرح سرایت کر جائیں۔

سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’شریعت‘ سے مراد کیا ہے؟ بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے، اور آخر میں یہ بتائوں گا کہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے امکانات کیا ہیں اور کیا ضروری شرائط ہیں؟

شریعت کا مفہوم

’شریعت‘ سے مراد محض قانون نہیں ہے، جس کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ ’شریعت‘ قانون کے ہم معنی نہیں۔ ’شریعت‘ سے مراد زندگی کا پورا نظام ہے، جو عقائد و ایمانیات سے شروع ہوتا ہے ، اور عبادات واخلاقیات پر منتج ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔

شریعت کے تقاضے

  • پختہ ایمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت ہی کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ معظمہ میں، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اپنی ساری طاقت صرف فرمائی کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی طاقت بٹھا دیں۔ کیوں کہ یہ شریعت اس وقت تک نافذ ہی نہیں ہوسکتی، جب تک اس کے چلانے والوں میں ایمان موجود نہ ہو، اور جن پر وہ چلائی جائے ان کے اندر بھی ایمان نہ ہو۔ اگر ایمان موجود نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کیا جاسکے، اور ممکن نہیں ہے کہ جس آبادی پر اس کو نافذ کیا جارہا ہے وہ اس کو برداشت کرلے۔

مثال کے طور پر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حدودِ شریعہ میں سے ایک شرعی حد یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے اُوپر عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہو۔ وہ سچّے دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی اور کلام نازل ہوا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے، جو رسولؐ کی زبان سے جاری ہورہا ہے، اور سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ اگر ہم نے اس کے نافذ کرنے میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی کی تو آخرت میں ہمیں اللہ کے رُوبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر یہ چیزیں موجود نہیں ہیں تو حدودِ شرعیہ کا اجراہو نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں۔

کوئی ایسا فرد جس کو قانون کی شکل میں حد ِ شرعی ملے، لیکن وہ اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو وہ پہلی فرصت تلاش کرے گا جس میں اس قانون کو منسوخ کرے اور اپنے لیے نیا قانون بنائے۔ اسی طرح جن لوگوں پر یہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، اگر ان کے اندر ایمان نہ ہو، وہ یہ نہ مانتے ہوں کہ قرآن برحق ہے اور اسلام کے قانون میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔ اگر وہ اس کے اُوپر یقین نہ رکھتے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی غریب، چھوٹے اور بے اثر آدمی کے ہاتھ تو کاٹ دیئے جائیں، لیکن اگر کسی بااثر آدمی کا ہاتھ کاٹنے کی نوبت آجائے تو بغاوت برپا ہوجائے۔ وہ آبادی اس چیز کو برداشت ہی نہیں کرے گی کہ یہ قانون نافذ ہو ۔ اس لیے شریعت سب سے پہلے جس چیز کا تقاضا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو نافذ کرنے والے اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ کیا جائے ان کے اندر ایمان ہو، ان کے دلوں میں ایمان ہو۔

  • اسلامی اخلاق: اس کے بعد دوسری چیز کا شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام جو اخلاقیات دیتا ہے، بھلے اور بُرے کا جو امتیاز دیتا ہے، خیروشر کا جو فرق بتاتا ہے اور جو اقدار انسان کو دیتا ہے کہ یہ چیز قیمتی ہے اور یہ چیز بے قیمت ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک مان کر سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ چیز موجود نہ ہوگی تو مانتے ہوئے بھی وہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ ان میں اخلاق موجود نہ ہوگا۔ اخلاقی حیثیت سے دیوالیہ لوگ، جن کے اخلاق کو گھن کھا چکا ہو، ان کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ شریعت کو نافذ کریں۔ اس لیے کہ شریعت اسلامیہ اخلاقیات بھی دیتی ہے، اور اخلاقیات کا نہایت وسیع تصوّر دیتی ہے، جو زندگی کے ہرمعاملے سے تعلق رکھتا ہے۔
  • شریعت کا پوری زندگی پر نفاذ : اس کے بعد تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت کا نظام انسانی زندگی کے پورے دائرے پر پھیلتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی بحث کرتا ہے کہ پانی میں پاک کیا ہے اور ناپاک کیا ہے؟ اس شے سے بھی بحث کرتا ہے کہ انسان نجس کس حالت میں ہوتا ہے اور کس حالت میں کس طرح وہ پاک ہوسکتا ہے؟ یعنی شریعت کوئی محدود سا قانونی تصور نہیں رکھتی۔

آپ دیکھیے کہ فقہ کی کتابیں بابِ عبادت سے شروع ہوتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی قانون آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر طہارت کے مسئلے سے بحث کی گئی ہو، بلکہ حقیقت میں دُنیا کی کسی زبان میں طہارت کا ہم معنی لفظ موجود نہیں۔ مغربی ممالک جانتے ہی نہیں کہ طہارت کس چیز کو کہتے ہیں؟ ان کی زبان میں اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں، لیکن اسلامی شریعت، طہارت سے بحث کرتی ہے جو کہ ایک فرد کا معاملہ ہے، اور پھر افراد کے اندر طہارت پیدا کرتی ہے۔ افراد کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرتی ہے۔ افراد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے آمادہ کرنا، ان کو بندگی کے طریقے سکھانا، یہ شریعت کا کام ہے۔ پھر افراد کو جوڑ کر ایک جماعت بنانا اور اس جماعت کے اندر اسلامی طریقے رائج کرنا۔ عبادات سے لے کر نکاح کے معاملات تک اور تجارت سے لے کر سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات تک، جنگ سے لے کر صلح تک اور ملک کی مالیات سے لے کر ملک کی صنعت و حرفت تک، ہرچیز کے بارے میں قانون موجود ہے۔

اس چیز کو اگر نافذ کرنا ہے تو آدمی یہ سمجھ لے کہ انسانوں کی پوری زندگی کو بدل ڈالنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک پہلو سے ان کی زندگی کو بدلا جائے، بلکہ ان کی پوری زندگی کو ہرپہلو سے، افراد سے لے کر جماعت تک، پوری آبادی کو بدلنا ہے۔ ان کے اندر ایمان اُتارنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات پیدا کرنی ہیں۔ ان کے اندر آمادگی پیدا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کریں اور اس کے بعد تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مارکیٹ میں جو لین دین ہورہا ہے، اس کے اُوپر بھی شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ بنکوں میں جو مالیاتی لین دین ہورہا ہے ، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں جو چل رہی ہیں، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اور ٹیکس لگا کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان دونوں چیزوں میں، پھر جو قرض دیتی ہے اور جو قرض لیتی ہے، اور قرض لے کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان سب پر بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ عدالتوں میں بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔

حکومت کے انتظامی شعبوں کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پولیس کے محکمے میں کثیرتعداد بے ایمان ملازمین کی ہے تو اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک بے ایمان پولیس کے ہاتھ میں اسلامی شریعت دے دی جائے تو وہ پوری آبادی کو نچوا دے گی۔ اس لیے پوری انتظامی پالیسی کو بدلنا ضروری ہے۔ رشوت خور لوگ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

اس طرح سے شریعت کی اس حیثیت کو نگاہ میں رکھیے کہ یہ پوری زندگی کا قانون ہے، کسی ایک پہلو کا ضابطہ نہیں۔ یہ ایمان سے لے کر معاملات کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا تک، حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی تک سے بھی بحث کرتی ہے۔ سڑک پر کوئی شخص کانٹے بچھاتا ہے، یا لوگوں کو تکلیف دینے والی چیز ڈالتا ہے، کوئی نجاست پھینکتا ہے تو وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان سارے معاملات پر شریعت حاوی ہے اور رہنمائی دیتی ہے۔

شریعت کے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہونے کے پہلو کو نگاہ میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟

نفاذِ شریعت کا حقیقی تقاضا

اس کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف شریعت کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے نفاذ کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ وعظوں میں، تقریروں میں اور اپنے خطبوں میں اس کو محض بیان کریں۔ اس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کو پوری طاقت، شعور، عقل اور عدل سے نافذ کیا جائے۔ جو کام صدرِ مملکت کا ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو وزیراعظم کے کرنے کا کام ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو گورنروں اور صوبے کے وزراء کا کام ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کریں۔ جو مالیات کے محکمے کا کام ہے، جو عدالت کے محکمہ کا کام ہے، جو اقتصادیات کے محکموں کا کام ہے، جو صحت و تندرستی کے محکموں کا کام ہے، وہ سارے کے سارے شریعت کے مطابق چلیں۔ یعنی صرف کوئی ایک چیز نہیں ہے جو درکار ہو، بلکہ پوری کی پوری حکومت کا نظام، پورے کا پورا تجارت و صنعت و حرفت و اقتصادیات کا نظام، پورے کا پورا عدالتی اور معاشرتی نظام، سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہرچیز میں اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ جو چیز محلّے کے لوگوں کے نافذ کرنے کی ہے، اسے وہ نافذ کریں۔ جو میونسپلٹیوں کے نافذ کرنے کی ہیں، انھیں وہ نافذ کریں۔ جو چیز لیجسلیٹو اسمبلی کے کرنے کی ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ پوری کی پوری گورنمنٹ اس کے مطابق ہونی اور چلنی چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی فرد کو ’شیخ الاسلام‘ بناکر بٹھا دیا جائے، یا وزارتِ مذہبی اُمور بنا دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ شریعت کا نفاذ ہوگیا۔یہ بات نہیں ہے، بلکہ پورے کے پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا اور اسلام کے مطابق چلانے کا نام ہے نفاذِ شریعت۔ یہ پہلو مختصراً عرض کررہا ہوں، ورنہ اس کی تفصیل زیادہ ہے۔

اب دیکھیے کہ پاکستان میں اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں نہیں ہوا؟

پاکستان میں اس کے نفاذ میں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ ویسے تو ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور پاکستان اسلام کا نام لے کر بنایا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور فطرتاً آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ سے آپ ہونا چاہیے تھا کہ جس روز پاکستان بنا تھا، شریعت ِاسلامی اسی روز نافذ ہوجاتی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی کچھ وجوہ ہیں:

کافرانہ حکومت کے اثرات

ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز تک یہاں کفر کی حکومت مسلط رہی ہے۔ اس نے تعلیم کا نظام ایسا بنایا کہ جس نے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دیئے، سوچنے کے انداز بدل دیئے۔ اُس نظامِ حکومت نے اپنی تعلیم کے اثر سے لوگوں کو اس حد تک بہکایا کہ قلیل تعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی رہ گئی، جو واقعی دل میں ایمان رکھتی ہو اور سچّے دل سے مانتی ہو کہ اللہ کے رسولؐ جو کچھ لائے وہ برحق ہے، ورنہ ایک کثیر تعداد ایسی تیار ہوگئی، جو اس بات کی قائل ہی نہیں تھی کہ وحی آسکتی ہے۔ جو اس بات کی قائل ہی نہیں رہی تھی کہ نبوت بھی کسی چیز کا نام ہے، جو سمجھتے تھے کہ نبوت اور وحی افسانے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ یورپ اور امریکا سے آتا ہے، بس وہی برحق ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال کرنے کی حاجت نہیں، جیساکہ وہ آرہا ہے جوں کا توں مان لیں گے۔ اس میں کوئی چیز شک کی اور دریافت طلب بات نہیں ہے۔ مگر وہ کتاب جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ لاریب فیہ، ان کے نزدیک اس میں ہرریب اور شک کی گنجایش ہے۔ تو یہ اُس تعلیم کے اثرات تھے۔

ان میں جن لوگوں نے اپنا ایمان کچھ بچایا، ان کی فکر اسلامی نہیں تھی اور سوچنے کا انداز اسلامی نہیں تھا۔ جنھوں نے سوچنے کا انداز اسلامی بنانے کی کوشش کی، ان کے پاس علم اسلامی نہیں تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کیا ہے،اس کے احکام کیا ہیں اور کس قسم کا نظام وہ چاہتا ہے؟

جس وقت ہم نے یہ نام لینا شروع کیا کہ ’اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہیے‘ تو لوگ پوچھتے تھے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت سے کیا مراد ہے؟‘ عام لوگ ہی نہیں، بلکہ بعض دفعہ خود علما کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’یہ تم کس چیز کی باتیں کر رہے ہو۔ یہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں‘ اور میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ ’حضور اگر یہ چلنے والی چیز نہیں تو اس پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ پھر جو چلنے والی چیز ہے اس پر ایمان لایئے‘۔ بعض علما سے میری بات چیت ہوئی، جس میں انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے ان سے یہی عرض کیا۔

ایک اچھا خاصا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ’شیخ الاسلامی‘ قائم ہوجائے اور قضائے شرعی کا انتظام ہوجائے تو بس اسلام کا نفاذ ہوجائے گا، سمجھ لیجیے اسلامی نظام نافذ ہوگیا۔ جب ہمارے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے یہ خیالات تھے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے، جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم اسلامی نظام یہاں نافذ کریں گے تو ہم دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ یہ چودہ سو برس پہلے کا قانون یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے خود سنی ہیں، جب ہم نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ اس بات کا اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو وہ رکاوٹیں سمجھ میں آجائیں۔

اسلام ناآشنا قیادت

باوجود اس کے کہ یہ ایک مسلمان قوم تھی اور اس نے اسلام کا نام لے کر پاکستان قائم کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا نظام نافذ نہیں کرسکی۔ کیوں نہیں کرسکی؟ اس کے جو کارفرما لوگ تھے، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور نظام تھا، ان کی تعلیم و تربیت کسی اور طرز پر ہوئی تھی۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کے سوچنے کا انداز بھی اسلامی نہ تھا اور ان کے اندر خواہش بھی اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہیں تھی۔ نہ اس کو وہ جانتے تھے کہ اسلامی نظام کیا چیز ہے، نہ اس کو مانتے تھے کہ وہ برحق ہے اور نہ وہ یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے یہ پھر کیسے نافذ ہوسکتا تھا؟

جہاں تک عام آبادی کا تعلق تھا اور ہے، اس کے اندر اسلام کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بلاشبہہ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے اندر ایمان بھی مجمل طور پر موجود ہے۔ چاہے وہ ایمان کی تفصیلات نہ جانتے ہوں، لیکن مجمل طور پر ایمان ان میں ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہیں، رسولؐ کو مانتے ہیں بلکہ رسولؐ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ قرآن کو برحق مانتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کے بھی منکر نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن کفّار کی ایک طویل مدت کی حکومت اور کافرانہ قوانین کے اجرا نے اور ان کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردینے نے، اس مدتِ دراز کے اندر لوگوں کے عادات و خصائل بدل ڈالے ہیں۔

مسلمان جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے لیکن اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہی چیز اس پر مسلط ہے۔ ہر طرف سے وہ اس پر محیط ہے، مثلاً سود کو کون مسلمان نہیں جانتا کہ سود حرام ہے، مگر جب سود ہی پر سارا نظام قائم ہوجائے، تجارت کا، صنعت و حرفت کا، مالیات کا، تو کون آدمی اس سے بچے؟ اس میں مبتلا ہوتے وقت مسلمان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے بھی حلال کر دیا جائے کیونکہ حرام کو حرام جانتے ہوئے اس کو کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تو وہ کرنہیں سکتا کہ حرام سے اجتناب کرے، مگر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح حرام کو حلال کردیا جائے۔ اب تک میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، جو اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی حرام کو حلال کرنے کے اختیارات مجھے حاصل نہیں۔  پھر کیسے آپ کے لیے حلال قرار دوں؟

اسلام ناآشنا قیادت نے قوم کو بدلنا چاہا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کافرانہ نظام کے تسلط کی بدولت لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی نہیں بدلتے، عادات بھی بدل جاتی ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نظام اسلامی کو برحق ماننے کے باوجود اس کے برعکس چیز سے پرہیز کریں۔ اب اس کے بعد جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت آئی جو نہ اسلام کو جانتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم اس بات کو پھیلنے دیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور عام لوگوں کے اندر اس بات کی طلب پیدا ہوجائے، تو پھر ہمارا چراغ کہاں جلے گا؟ لوگ ہماری طرف کیسے توجہ کریں گے؟ پھر لازماً اس کی تلاش ہوگی جو اسے نافذ کرسکے۔

اس لیے انھوں نے گذشتہ برس اس کام پر صرف کیے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے۔ ان کے اخلاق کو بدلا جائے۔ ان کے اندر بُرائیوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختگی کا رسیا بنایا جائے۔ اس کے اندر جہاں تک ہوسکے شراب خوری پھیلائی جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سود میں مبتلا کیا جائے، اتنے سود میں جتنا انگریز کے زمانے میں بھی نہیں تھا۔ اس میں مخلوط تعلیم رائج کی جائے تاکہ عورتوں اور مردوں کے میل جول سے جو کچھ تہذیب و تمدن کا ستیاناس ہوتا ہے اور ہورہا ہے، وہ اور زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہرممکن طریقے سے پوری قوم کو بگاڑ دینے کا پروگرام بنایا، جس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نفاذِ شریعت کے لیے جس قسم کا ماحول چاہیے اس نوعیت کا ماحول بنانے کے بجائے، اس کے برعکس نوعیت کا ماحول بنایا گیا۔

نفاذِ شریعت کیسے ؟

اب جب ہم یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کیسے کریں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔

  • دلوں میں ایمان کی آبیاری: ایمان کے بغیر وہ بنیاد قائم نہیں ہوسکتی جس پر نظامِ شریعت کا نفاذ ہوسکے۔ اس کے بغیر وہ عمارت ہی نہیں کھڑی ہوسکتی۔ اس لیے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں وہ نکالنے پڑیں گے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ جتنا کچھ عوام کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ عوام کے لیے اور جتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے درکار ہے، اتنا کچھ پڑھے لکھوں کے لیے کرنا پڑے گا۔
  • اصلاحِ اخلاق کی طرف توجہ:پھر آپ کو ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی، کیونکہ ایک بداخلاق قوم کبھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اسلامی نظام نافذ کرسکے۔ اس لیے اخلاق کی بہتری کی فکر کرنی پڑے گی۔
  • اسلامی نظام کے لیے تڑپ : اس کے بعد آپ کو عام لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا کرنی پڑے گی کہ وہ یہ سمجھیں کہ جب تک اسلام کا نظام جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، نافذ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمارے لیے کوئی زندگی نہیں۔ اس کے بغیر آپ اس کو نافذ نہیں کرسکتے۔ اگر لوگ قائل ہوں کہ فی الواقع اسلام کا نظام آنا چاہیے اور اس بات کے وہ خواہش مند بھی ہوں کہ یہ نافذ ہو، لیکن اس کے لیے کوئی تڑپ موجود نہ ہو، اس کے لیے کوئی لگن موجود نہ ہو اور یہ ارادہ موجود نہ ہو کہ دوسرے نظام کو ہم نہیں چلنے دیں گے اگر وہ ہمارے اُوپر نافذ ہوگا۔ اس وقت تک قوم اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی کہ ایک غلط اور غیر اسلامی نظام جو چل رہا ہے، وہ جگہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔
  • نفاذِ شریعت کا کام پھولوں کی سیج نہیں:اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش اور اسلامی نظام کا نفاذ کھیل نہیں ہے۔ یہ زبان سے کہنے کے لیے بہت آسان کام ہے، لیکن یہ ایسا کام ہے کہ اس راہ میں ہرقدم انسان کے لیے مصیبتوں، اذیتوں، تکلیفوں اور نقصانات سے اَٹا پڑا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے آئے تھے تو جن لوگوں نے اس کو قبول کیا تھا ان پر کیا گزری تھی؟ اور جس شخص نے اسے پیش کیا تھا اس کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا؟اگر وہ اس بھٹی سے نہ گزرتے تو اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکتا تھا۔ اُس وقت بھی لوگ اس بھٹی سے گزرے تھے اور گزرنے کے بعد جن لوگوں نے قدم قدم پر چوٹیں کھائی تھیں اور قدم قدم پر تکلیفیں اُٹھائی تھیں۔ قدم قدم پر نقصانات اُٹھائے تھے، گھربار چھوڑے تھے، آگ کے انگاروں پر لٹائے گئے تھے۔ تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر پتھر ان پر رکھ دیئے گئے تھے، اور اُلٹا لٹکا کر ان کو بوری میں لپیٹ کر آگ کی دھونی دی گئی تھی۔ جب تک ان سارے راستوں سے گزر نہ گئے، اُس وقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اقتدار نہیں دیا۔

ان راستوں سے گزرنے کے بعد بھی بدر و اُحد کے دنوں کو یاد کیجیے اور حُنین کا معرکہ بھی یاد کرلیجیے۔ ایسے تمام حالات میں اپنے سے کئی کئی گنا زبردست طاقتوں کے مقابلے میں آدمی کھڑا ہو اور ہرمصیبت اور ہرمشکل و تکلیف کو یاد کرلے اور کوئی پروا نہ کرے کہ مقابلے میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کوئی پروا نہ کرے کہ کتنی زیادہ چوٹ مجھے لگتی ہے۔ کتنا میں قید کیا جاتا ہوں اور کتنی مجھے اذیت دی جاتی ہے، اور کیسے کیسے زبردست دشمنوں سے مجھے سابقہ پیش آرہا ہے۔ کس آگ کے گڑھے کی طرف لے جایا جارہا ہوں۔ اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یہاں نظامِ شریعت نافذ کرسکتے ہیں اور باطل پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • محنت کے اثرات ظاہر ہوکر رہیں گے: یہ چیز جب آپ کریں گے تو اس کے اثرات آہستہ آہستہ پھیلیں گے۔ اس کے اثرات کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی جائیں گے، اور انھی درس گاہوں میں جو کافر بنانے والی ہیں، وہاں اسلامی ذہن کی نسل تیار ہوگی۔ انھی میں وہ نوجوان تیار ہوں گے جو اسلامی نظام چاہتے بھی ہوں گے اور وہ علم بھی حاصل کریں گے کہ اسلامی نظام کیسے نافذ ہو؟ اور اس کے لیے جب وہ منظم ہوکر کام کریں گے تو ان کے مقابلے پر ہرحربہ استعمال کیا جائے گا کہ یہ کسی طرح دب جائیں۔ ان کے اُوپر گولیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کے اُوپر لاٹھیوں کی بھی بوچھاڑ ہوگی۔ ان کو جیلوں میں بھی ٹھونسا جائے گا۔ ان کو اذیتیں بھی دی جائیں گی۔ مگر جب تک وہ اس بھٹی سے نہیں گزریں گے، وہ کھرا سونا نہیں بن سکتے جو اس بھٹی سے گزر کر بنتا ہے۔
  • ملازمین میں اسلامی ذہنیت کا فروغ: اسی طرح سرکاری ملازمین کے اندر بھی ان خیالات کو بڑے پیمانے پر پھیلنا چاہیے کہ وہ کسی ظالم کے آلۂ کار بننے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ان کے ہاتھوں سے غلط کام نہ کروایا جاسکے۔ وہ اس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ نوکری چھوٹ جائے، وہ تیار ہوجائیں کہ ان کے بیوی بچّے فاقے کریں گے، لیکن اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ غلط کام اپنے ہاتھوں سے کریں۔ یہ ذہنیت سرکاری ملازمین میں بھی پیدا ہونی ضروری ہے۔ جب حکومت محسوس کرے گی کہ اب ہمارا کام نہیں چل سکتا، جب تک ہم اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے تیار نہ ہوں ۔ اور اگر ہم تیار نہ ہوں تو پھر اُن لوگوں کے لیے جگہ خالی کردیں جو اس کو نافذ کرسکیں۔
  • رائـے عامہ کو اسلام کے حق  میں بدلنے کی ضرورت: اسی طرح جیسا جمہوری نظام یہاں چل رہا ہے اور انتخابات میں کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کو جس طرح بھی ہوسکے دھوکا اور   فریب دے کر، طرح طرح کے وعدے کرکے ان کی تائید حاصل کرلی جائے اور دُنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم عوام کی رائے سے آئے ہیں۔ آپ کو عوام کی رائے اس قدر بڑے پیمانے پر بدلنی پڑے گی کہ اس طرح کے لوگ عوام کا ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔ عوام کے اندر یہ خیال پیدا ہوجائے کہ ہمارا جینا حرام ہے، اگر ہم یہاں اسلامی نظام نافذ نہ کریں۔ عوام یہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں، جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے اور جس کا عمل اسلامی نہیں ہے۔ جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ شاید باقی سب کچھ جانتا ہے مگر بہرحال اسلام نہیں جانتا ، تو ایسے کسی شخص کے لیے کوئی ووٹ نہ ہو۔ یہ حالت آپ کو پیدا کرنی ہوگی۔
  • عزم کے مقابلے میں دھاندلی کامیاب نہیں ہوسکتی: اگر منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا ہے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر گھی ٹیڑھی انگلی کیے بغیر نکل سکتا ہے تو کوئی احمق ہی ہوگا، جو خواہ مخواہ انگلی ٹیڑھی کرے۔ لیکن اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں اس نظام کو یہاں نافذ کرنا ہے، تو پھر کوئی دھن، دھونس اور دھاندلی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔

آپ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے، جس میں ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ بھی اَزخود جگہ خالی کردیتے ہیں، اور خود ہٹ جاتے ہیں۔ وہ مرحلہ جب آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وہ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا، بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔

میں نے ایک عام تصوّر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شریعت اسلامی کیا ہے؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے واضح ہوگیا ہے کہ اس کے نفاذ کے کیا معنی ہیں؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے آگیا ہے کہ اس کو نافذ کرنے کا راستہ کیا ہے؟ اب یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا یہاں اس کا امکان ہے؟

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات

 آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امکان کے سوال کے دو جواب ہیں:

  • تدّبر و قربانی سے یہ کام ممکن ہـے: ایک جواب یہ ہے کہ انسان اگر پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے ، بیوقوفوں کی طرح نہیں بلکہ سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ کھود سکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ بناسکتا ہے۔ سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے۔ وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو پھر اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے۔

اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے کہ نامعلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ ذرا سوچیے، بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ’ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتا دیکھیں گے ، دُنیا پر غالب ہوتا دیکھیں گے‘، تو دُنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریئے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں۔ لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے دین اس طرح سے غالب کیا کہ دُنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا۔

  • اگر جدوجہد کے باوجود یہ نافذ نہیں ہوتا تو بدنصیبی ہے: اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر بھی یہ نظام نافذ نہ ہو۔ اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی۔ اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو یہ آپ کی کمزوری نہیں ہوگی، بلکہ یہ تو اُس قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا، جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور انھی کی قیادت و سیادت قبول اور برداشت کرنے پر راضی ہوجائے اور یہ چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تواللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح، متقی اور امانت دار قیادت نہیں دے گا۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپادیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی، تو وہ ناکام نہیں تھے بلکہ وہ قوم ناکام تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام کے قصّے میں آتا ہے، جس وقت فرشتے قومِ لوطؑ پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۶ۚ (الذاریات ۵۱:۳۶)، یعنی پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا اور کوئی نہیں۔اب اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ جو مسلم گھر تھا، اس کے لوگوں سے کہا گیا کہ نکل جائو اور حضرت لوطؑ سے کہا گیا کہ بیوی کو چھوڑ جائو، یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ گھر پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے۔ لہٰذا، اگر ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خداترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان لوگوں کو چاہتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام تو وہ قوم ہے جس نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

  • امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں: اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں گے۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کامیابی کا کیا امکان ہے؟ تو ان سے مَیں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے، تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں؟ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے اُس کا جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم اور صدراعظم بن جانا کامیابی نہیں، بلکہ کھلی ناکامی ہے۔

  • آپ کا فرض کیا ہـے؟:اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے، تو جو آدمی طہارت کی ذرّہ برابر بھی حِس رکھتا ہو، تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے، لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔

بالکل اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچّے دل سے قائل ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دوسرے وہ راستے جن میں آسانیاں ہیں، سہولتیں ہیں، عیش ہے، فائدے ہیں، ان کی طرف جائے کہ انھی کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ ایک مسلمان کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں ہے۔ وہ اُس طرف کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا۔ ان کے محلات اور ان کی کوٹھیوں پر اور ان چیزوں کے بارے میں وہ کبھی نہیں سوچے گا کہ کاش یہ دولت میرے پاس آئے! اس وجہ سے صرف وہی لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں، جو کامیابی کے امکان کو چھوڑ کریہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہرمصیبت اور ہرمشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا، تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے، جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا، وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو، جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے چلے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیر اسلامی نظام کو چلا رہے ہیں، وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

  • نظام باطل کھوکھلا ہوتا ہـے: واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں، ان کی حالت کیا ہے؟ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی اور بے لوثی پر مبنی نہیں، قلبی محبت پر مبنی نہیں، بلکہ مفاد پر مبنی ہیں۔ جس کے ساتھ ہیں، اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ اپنی نجی مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔

نظامِ باطل بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے، لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے، تو انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیئے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، اس راستے کو وہ بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام جو قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اُکھڑتے ہیں۔ حالات اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے، جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام ہی قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ انھیں چلانے والے اشخاص بدلتے چلے جائیں گے اور وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔

  • حالات اہلِ حق کے منتظر ہیں!آپ دیکھیے یہاں جو نظام آزادی کے بعد سے چلا آرہا ہے، اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، مگر قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورتِ حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں؟ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل منفی انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔

تمھارا خط ملا بدقسمتی سے تم پتہ لکھنا بھول گئے، مگر خیر تم جہاں کہیں بھی ہو میراجواب تم تک ضرورپہنچے گا۔ ہے یہ بالکل جواب ہی ، کورا جواب!

صاف بات یہ ہے کہ میرا کام کرنے کے لیے تم جیسے لوگ موزوں نہیں؟ تم تھوڑا سا ناقص کام کرکے وہ آخری نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہو اور بہت جلد حاصل کرنا چاہتے ہو، جس کا بھائو تاریخ کی منڈی میں مقابلے کی تمام دوسری اجناس سے زیادہ رہا ہے۔

عزیز ِ من! یہ ایسےتھڑدلے لوگوں کا مشغلہ نہیں ہے،جوچارقدم گھسٹ گھسٹ کر چلیں اور پھر مطالبہ کریں کہ منزل کو حاضرہونا چاہیے، منزل کالےکوسوں دُورسے تو چل کے آنے سے رہی۔ پس جب تمھاری مراد پوری نہیںہوتی تو تم مجھے سزا دینے کے لیے میری مخالف تحریکوں کے سے اطوار اختیار کرلو گے ۔ یہی نہیں بلکہ تم ایک جواز سے دوسرے جواز کی راہیں نکال کر ٹھیک اس نصب العین اورمسلک سے فرار کا راستہ اختیار کررہےہو جس سے وابستہ رہنے کا میثاق تم نےمجھ سے باندھا تھا۔ پھر اپنی فراریت کے نشے میںآکر تم ذاتی مفاد کے تمام بُت خانے آراستہ کرنے لگے ہو۔

عزیزِ من! تم تو اتنی وفا بھی نہ دکھا سکے جتنا کہ نسوانیت کےروایتی عشّاق دکھاتے رہے ہیں۔ کتنوں نے اپنی جانیں نذرکردیں، کتنوں نے تخت و تاج چھوڑدیئے، کتنوں نے صحرائوں کی خاک چھانی، کتنوں نے ساری عمر ہجر میںگزار دی، کتنوں کو نگاہِ اوّل کے بعد تادمِ مرگ کوئی اورتجلّی تک نصیب نہ ہوئی۔ کتنوں نےنازونعمت کی دُنیا چھوڑکر گریبان چاک چاک اور دامنِ تار تار کے مجذوبانہ و مجنونانہ انداز میں کوچہ گردی کرتے رہنے کو مشغلۂ حیات بنا لیا۔ مجازی دنیا کے سچے عشّاق نے کبھی کسی مقررہ مدت میں حصولِ وصال کی شرط نہیں لگائی۔ تم خد ا سےلَو لگانے کا دعویٰ کرنے والے تو اُن دُنیوی عشّاق کے مقابلے میں بہت کوتاہ ظرف نکلے۔

تم کہتے ہو ہم نے بڑا کام کیامگر کامیابی نہیں ہورہی۔ قطع نظر اس بات سے کہ تم نے جب مجھ سے پیمان باندھاتھا کہ دنیا کے حالات سخت ناسازگار ہیں۔ معاشرے کاماحول برسوں کے انحطاط کی وجہ سے بالکل فاسد ہے۔ مخالف قوتوں کے چاروں طرف ریلے ہیں، لیکن اس کام کو مجھے اس لیے کرنا ہے کہ وہ میرے ربّ کی طرف سے میری ڈیوٹی ہے۔ میں اس ڈیوٹی کو مخالفتوں اور اذیتوں سے اور ناکامی کی چوٹوں کو پیہم سہتے ہوئے انجام دوں گا۔ چاہے ظاہری نتیجہ میری زندگی میں نکلے یا بعد کی نسل کے دَور میں، یا اس سے بعد۔ میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم نے آخرکتنا کام کیا ہے؟ ذرا کاغذ قلم لے کر نوٹ کرو کہ تم نے پچھلے ہفتے میں، یا پورے ایک مہینے میں، یا گزرے ہوئے ایک سال میں، یا اپنے پورے دورِ کار میں کس کس پہلو سے کتنا کام کیا؟ ذرا بتائو کہ تم نے اپنی محنت سے کتنے افراد کو میری خدمت کےلیے تیار کرکے تاریخ کی صف میں لاکھڑا کیا۔ چلو ۳۰سال کی مدت کا حساب بتائو ، خوب سوچ لینا۔ میرا اندازہ ہے کہ براہِ راست تمھاری کوششوں سے دعوتِ حق کی خدمت کا راستہ اختیارکرنے والوں کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہے۔ جلسوں اور تقریروں اور اجتماعی سرگرمیوں کو الگ رکھ کر حساب لگائو اور بتائو کہ میں نے غلط رائے تو نہیں قائم کی۔ میری رائے غلط نہیں ہوسکتی۔ میں توتمھارے ساتھ ساتھ تمھارے دل میں موجود رہا ہوں، میں نے سب کچھ دیکھاہے۔

قرآن و حدیث، تاریخ انبیا اور سیرتِ صحابہؓ و آئمہ اور احوالِ مجدّدین کی روشنی میں کیا تمھیں یہ معلوم نہیں کہ دعوت کا منشا ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوںکو پکارا اور جمع کیا جائے اور جب ان کی ایک مؤثر قوت جمع ہوجاتی ہے اور وہ ایمان و عملِ صالح کا حق ادا کرتی ہے تو کوئی نتیجہ رُونما ہوتا ہے۔ اگر تم اس شعور سے کام لیتے اورکسان کی سی محنت کرتے تو کم سے کم تمھاری اوسط کارگزاری سالانہ ایک سو افراد کو ساتھ ملانے کی ہوتی۔ ۳۰سال میں تم ۳ہزار افراد کو جمع کرچکتے اور تمھارے دوسرے پانچ سو ساتھی بھی اگر اس معیار پر کام کرتے تو اس مدت کا ماحصل ۱۵لاکھ افراد ہوتے۔ چلو کم سہی، ۱۰لاکھ اور کم سہی ۵ لاکھ۔

تم کہو گے قصور میرا نہیں، معاشرے کی زمین ہی بڑی سنگلاخ ہے۔ چلو یوں ہی سہی، اس صورت میں تم چاہتےہو کہ جس معاشرے میں نظامِ حق کے طلب گار اور اس کے لیے کوشش کرنے والے صرف دوچار افراد فی ہزار ہوں، اسے نظامِ حق کی برکتوں سے مالا مال کر دیا جائے؟ محض تمھاری دلجوئی کی خاطر؟ حق کی چاہت نہ رکھنے والےمعاشرے کو اللہ تعالیٰ نے زبردستی اپنی عظیم ترین نعمت سے کبھی نہیں نوازا۔

لیکن میرے نزدیک زیادہ قصور تمھارا ہے۔ تم نے صرف اتنا کیا کہ جلسوں میں اپنی باتیں سنادیں، یا پمفلٹوں میں لکھ کر جلدی جلدی لوگوں کووہ پمفلٹ پہنچا دیئے۔ کیا معلوم ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں؟ کتنے مخالفانہ نقطۂ نظر سے پڑھتے ہیں؟ کتنے اس کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں کہ کوئی خاص اثر نہیں لیتے؟ کتنے ہیں جو معمولی سا وقتی اثر لیتے ہیں۔ شاذونادر اِکّا دُکّا آدمی غوروفکر کرتا ہے اور اچھا یا گہرا اثر لیتا ہے۔ پمفلٹ وہی اثر کرتا ہے جس کے ساتھ آدمی بھی لگا ہوا ہو، اور وہ اپنے رابطےسے،ا پنے کردار سے، اپنے حُسنِ تکلّم سے، اپنے جذبۂ ہمدردی سے لوگوں کے دلوں میں نفوذ کررہا ہو۔ تم کبھی عام لوگوں کے پاس گئے؟ مسجدوں اورچوپالوں میں ان کی مجلسوں میں شریک ہوئے؟ مختلف تقاریب میں اور دوسری سماجی ضروریات کے تحت ان کے گھروں میں پہنچے؟ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل اوردُکھوں اوردردوں اور کمزوریوں کو سمجھا؟ کیا اِن پر اپنے مسلسل مخلصانہ و خیرخواہانہ رویّے سے یہ ثابت کردیا کہ تم ان کے لیے ایک بے لوث محبّ، ان سےتعاون کرنے والے، ان کی مصیبتوں میں ان کا ساتھ دینےوالے، ان کی خیروفلاح چاہنے والے اور ان کی زندگیوں کو بہتربنانے کےخواہاں ہو؟جولوگ یہ مہم سر کرتے ہیں اُن کی زبان سے دی ہوئی دعوت بھی اثرکرتی ہے۔ ان کے پمفلٹ بھی دلوں میں جگہ بناتے ہیں۔ ان کے جلسے بھی لوگوں کو کھینچتے ہیں۔

مگر تم آہستہ آہستہ دولت سمیٹنے، معیارِ زندگی بلند کرنے اور اپنا statusبنانے میں لگ گئے ہو۔ حالانکہ یہ الگ ایک مستقل مشن ہے جس میں کھوئے ہوئے ہزاروں لوگ تمھارے سامنے ہیں جن کے لیے معاشی مسابقت سے ایک لمحہ فارغ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ معیارِ زندگی کے جنون میں اب تم نے آہستہ آہستہ ان چیزوں کے لیے جواز کے بہانے ڈھونڈ نے شروع کردیئے ہیں جن کے خلاف لڑائی لڑنے کے لیے تم بڑی مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تم مغرب کی جس ملحدانہ تہذیب سے لڑنے اُٹھے تھے اور اس کے تیزوتند ریلوں میں مضبوطی سے کچھ دیرقدم جماکر کھڑے رہے ، بلکہ اس استقامت کی وجہ سے تم نے کچھ فتوحات بھی حاصل کیں اور تمھارے معاونوں اور محبّوں میں اضافہ بھی ہوا۔ تم دوسرے سب لوگوں کے لیے سہارا بھی بنے اور تمھاری دیکھا دیکھی کمزور لوگ بھی استقلال پسندی سیکھنے لگے۔ اب تم خود ہی مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ اس کام کا خود آغاز کرو، مگر یہ کیا ہے کہ تم معرکے میں پسپائی اختیار کر رہے ہو؟ ایک ایک بُرائی آہستہ آہستہ تمھاری زندگی کے قلعے میں شگاف ڈال کر گھستی چلی آرہی ہے اور اس پر بھی تمھیں یہ خوش گمانی ہے کہ تم تحریک اسلامی کے مجاہد ہو اور خوب معرکہ آرائی کررہےہو۔

تو اے میرے مجاہد! ذرا مجھے بتائو تو سہی کہ تم کتنے مواقع اجتماعیت یا ادائے فرض پر پابندیٔ وقت کا حق ادا کرتے ہو؟ نظام کی اطاعت میں تمھارامعیار کیا ہے؟ اپناذاتی احتساب بھی کرتے ہو؟ کتنی نمازیں تم مسجد میں ادا کرتے ہواور پھر کتنی نمازیں پورے آداب و شرائط کے ساتھ دل لگا کرقائم کرتے ہو؟ تمھارا تعلق قرآن و حدیث سے کتناہے؟ تم اپنے علم میں کس رفتار سے اضافہ کررہے ہو؟تم نے اپنے گھر والوں یا قرابت داروں کو دین کی طرف دعوت دینے کے لیے کتنا کام کیا ہے اور اس کا ماحصل کیا ہے؟ تمھارے دل میں اپنے کتنے رفقا کے لیے غلّ اور سوئے ظن موجود ہے؟ تم غیبت کے کھاتے میں ہرروز کتنا سرمایہ ڈیپازٹ کراتے ہو؟ تمھارے دُنیوی مفاد کی وجہ سے کن کن لوگوں کے ساتھ کیا کیا جھگڑے ہوچکے ہیں؟

ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ افراد اور کاروبار کی طرح تحریکوں اور جماعتوں کی بھی ایک ساکھ ہوتی ہے جو برسوں کی محنت سے بنتی ہے۔ تمھارے کام کی ساکھ بھی کئی سال میں صدہا افراد کی محنتوں سے بنی ہے۔ اگر تم نے جمود و انحراف کی روش اختیار کرلی تو ابتدا ً تھوڑی سی مدت کو پچھلی ساکھ پردہ پوشی کرتی رہے گی لیکن بس اس تھوڑی سی مدت کے بعد یہ ساکھ خدانخواستہ اگر تباہ ہوگئی تو دوبارہ اسے کسی قیمت پر بحال نہ کیا جاسکے گا۔

باتیں تو اور بھی بہت سی قابلِ غور ہیں مگرفی الحقیقت اتنی ہی بہت ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غلبۂ دین کی راہ میں اس وقت تم ہی بہت بڑی رکاوٹ ہو۔ تم نے اپنے احیائے نظامِ اسلامی کے جھنڈے اُٹھا کر یہ بھاری ذمہ داری تو لےلی، مگر اس کا حق ادا کرنے پر تیار نہیں ہو۔ اچھے لوگوں کے لیے تم ہی سرمایۂ اُمید بنے ہوئے ہو کہ یہ شخص اوراس کے ساتھی کام کررہے ہیں تو آخر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جائے گی اورمیرے نقطۂ نظر سے تمھارے ہاتھوں بات بنتی نظر نہیں آتی۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ تم لوگ اپنی جگہ خالی بھی نہیں کرتے کہ خلاکو بھرنے کے لیے آج نہیں تو کل کوئی اور قوت اُٹھے۔ تم رکاوٹ اس لیے ہو کہ تم وہ شرائط پوری نہیں کررہے ہو جو اقامت ِدین کا جہاد کرنے والوں کو پوری کرنی چاہیے۔

ایسے میں اگراُٹھاکر تخت پر بٹھا دیا جائے تو تمھارا کمزور کردار اسلام کے لیے سخت بدنامی کا باعث بن جائے گا اورپھرمدتوں تک اسلامی نظام اوراسلامی حکومت کانام لینا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔

پس میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم میرادروازہ چھوڑ دو اورکسی اور طرف کا رُخ کرو۔ مجھے ایسے مجاہدوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میراکام کرنے کے لیے نئی نئی طاقتیں نمودار ہوتی رہیں گی۔ میں تمھارایاکسی اورکا محتاج نہیں بلکہ تم اورساری انسانیت میری محتاج ہے۔

آج سےفیصلہ یہ ہے کہ تم نے میرے ہاتھ پر بیعت کرکے جو قلادہ گلے میں ڈالا تھا وہ فوراً الگ کردیا جانا چاہیے۔ تم اور تمھارے جیسے لوگ اگر الگ ہو جائیں تو میرے مخلص خادموں کی جو تعداد باقی رہ جائے گی، اس کے کام کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی، اور اس کےلیےخدا کی تائید بھی زیادہ ہوگی اوراس کی سرگرمیوں میں خاص برکات دکھائی دیں گی۔

عزیز ِ من! اگر تمھیں اس موقع کی بات کو سن کر دل میں کچھ بھی رنج اور ضمیرمیں کچھ بھی خلش محسوس ہوتو پھرمَیں مہلت دیتاہوں کہ اپنے متعلق نئے سرے سے فیصلہ کرلو کہ تم اپنے روزِ اوّل کے بیان کا حق ادا کروگے، اورمیرے کام کو پوری سرگرمی کے ساتھ میرے اسلوب و طریق سے انجام دیتے ہوئے، ہر دوسری چیز کو،خواہ وہ کاروبار ہو، خانگی زندگی ہو، قبیلہ داری کے معاملات ہوں___ ثانوی حیثیت دو گے،اور اپنی تمام دوسری دُنیوی سرگرمیوں میں پیچھے رہ جانا گوارا کرلوگے۔ اگررزقِ کفاف پر اکتفا کرکے اپنے وقت کی زیادہ سے زیادہ گھڑیاں بچاکر میرے کام میں لگاسکتے ہو تو پیمان برقراررہ سکتا ہے۔ ورنہ اس حبلِ متین کے ٹوٹے ہوئے ریشوں کے درمیان جو چند تار سلامت رہ گئے ہیں، وہ بھی جلد ہی اَزخود ٹوٹ جائیں گے۔مجھ سے معاملہ رکھنا ہے تو محبت کرنے والے کا سا معاملہ رکھو، جو ہمہ وقت اپنے ہی محبوب کے خیال میں غرق رہتا ہے، اور اپناسب کچھ قربان کر تا چلا جاتا ہے اور جواب میں کوئی قیمت نہیں مانگتا۔کہو، اس کا بل بوتا ہے؟

اس بات میں کسی اختلاف اور مبالغے کی گنجایش نہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ صدیوں میں جن علما اور بزرگوں کی علمی و تصنیفی خدمات، دعوتی وتبلیغی مساعی اور ان سے وابستہ اشخاص و رجال نے  برِّصغیر جنوبی ایشیا کے دینی و علمی ماحول کو متاثر کیا،اور انسانوں کو دین سے جوڑا، اُن میں مولانا محمداشرف علی تھانویؒ [۱۸۶۳ء-۱۹۴۳ء]کا اسمِ گرامی بہت ممتاز اور نمایاں ہے۔ انھیں ایک بڑے حلقے میںحکیم الامت کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔

بچپن ہی میں مجھے اپنے مربی و سرپرست محترم میاں ثابت علیؒ [م: ۱۹۶۲ء] اور بعض دوسرے بزرگوں کی زبانی جن قدسی صفات علما اور بزرگوں کے نام اور کارنامے سننے کو ملے تھے، ان میں سیّداحمد شہیدؒ [م:۱۸۳۱ء]کے خانوادے کے معروف عالم ومجاہد حضرت مولانا سید محمد امین نصیرآبادیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکرہیں۔ ایسا شاید ہی کوئی دن گزرتاہو، جس میں کسی نہ کسی کام یا شرعی حکم کے ذیل میں ان کا ذکر سننے میں نہ آیا ہو۔

شاید اسی خاص ماحول، ان بزرگوں کے احوال و کوائف سننے اور بچپن کی مخصوص ذہنی و فکری تربیت کاہی نتیجہ ہے کہ میں زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے گزرنے کے باوجود ان بزرگوں کے روحانی سحر سے خود کو کبھی آزاد محسوس نہیں کرسکا۔ الحمدللہ، کتاب و سنت اور عقائدِ صحیحہ سے ہمیشہ رشتہ استوار رہا۔

مولانا تھانویؒ کی ذات دین پسند حلقوں کے لیے آج بھی باعثِ فیض و برکت ہے۔  وہ اپنے اندر علم و معرفت کا ایک جہاں سمیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہ یک وقت قرآنی علوم کے عالم بھی تھے اور احادیث و سیرت کے رمز شناس بھی۔ تصوف ﴿جس کامناسب نام اِحسان ہے ﴾ کے غوطہ زن تھے اور علم فقہ کے ادا شناس بھی اور اپنے عہدکے واعظ و متکلم بھی۔

گذشتہ صدی کی مذہبی شخصیتوں کی تاریخ اوران کی سیرت کامطالعہ کریں تو ایسی شخصیتیں بہت کم ملیںگی، جنھوںنے عوامی زندگی اور اصلاح و تربیت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے اتنی بااصول اور منظم و منضبط زندگی گزاری ہو۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ شاید ہی بے اصول اور قول وعمل کے تضاد سے داغ دار ہو۔ ان کی پوری زندگی عامتہ المسلمین کی دینی، اصلاحی اور علمی راہ نمائی سے عبارت ہے۔ انھوں نے اپنے شب و روز مشاغل کے لیے جو اصول اور ضوابط بنائے تھے، تمام عمر اس کی پابندی کی اور ایسی پابندی کی کہ کبھی اس کے سامنے کسی بڑی سے بڑی شخصیت یا عہدہ و منصب کی رعایت نہیں فرمائی۔

مولاناتھانویؒ کی بڑی چھوٹی کتابوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ مولانا کے اندر شخصیت سازی اور تعمیر سیرت کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ ان کے فیضِ تربیت سے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے، جنھوںنے اپنے مرشد کی وفات کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھایا اور دعوت واصلاح کے میدان میں بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔

مولانا تھانویؒ قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا ادراک حاصل تھا۔ کس انسان سے کب اور کیا برتائو کیا جائے؟ اس سے وہ بہ خوبی واقف تھے۔ یہ وہ خوبی ہے، جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر اس راہ میں کوئی مفید خدمت نہیں انجام دی جاسکتی۔ اس کے بغیر جو بھی کام ہوگا، وہ اطمینان بخش نہیں ہوگا۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اب تک جتنے بھی داعی، مبلغ اور مصلح گزرے ہیں ، انھوں نے اسی نفسیات شناسی اور مزاج رسی کی بدولت کامیابی حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالماجددریابادی کی کتاب حکیم الامت   مولانا تھانوی کی زندگی کے اسی رُخ کو پیش کرتی ہے۔

حفیظ جون پوری [۱۸۶۵ء-۱۹۱۸ء]  انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔ بدقسمتی سے شراب کی انھیں لت تھی۔ ایک بار انھوں نے جون پور  میں حضرت تھانویؒ کا وعظ سنا تو انھیں اپنی زندگی پر شدیدپشیمانی ہوئی۔ وہیں مجلس میں بیٹھے بیٹھے ایک خط لکھ کر مولانا تھانویؒ کی خدمت میں پیش کیا، جس میں انھوں نے اپنی اب تک کی زندگی پر اظہار تاسف و پشیمانی کیاتھا اور توبہ و بیعت کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔مولانا نے حفیظ صاحب کا خط پڑھااور قریب بلاکر فرمایا: ’’سفر میں یک سوئی نہیں ہوتی، آپ تھانہ بھون آئیے، وہیں تفصیل سے گفتگو ہوگی‘‘۔

حفیظ جون پوری کچھ دنوں کے بعد تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر پہنچے۔ وہاں پتا چلاکہ مولانا کسی جلسے میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ وہ فوراً وہاں سے دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔ دیوبندپہنچے تو حضرت مولانا تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ وہ پھر وہاں سے تھانہ بھون پہنچے اور مولانا تھانوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جون پور کی ملاقات کا حوالہ دیا، اپنی ماضی کی زندگی پر افسوس کا اظہار کیا اور بیعت کی خواہش دُہرائی۔

مولانا تھانویؒ بیعت کے معاملے میں بہت محتاط واقع ہوئے تھے۔ کافی دن دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی بیعت کا فیصلہ فرماتے تھے۔ لیکن چوں کہ وہ انسانی مزاج و طبائع کی شناخت رکھتے تھے، اس لیے انھوںنے غالباً پہلی ہی نظر میں پہچان لیاکہ حفیظ طلبِ صادق لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے بیعت کے لیے جمعہ کی نماز کے بعد کا وقت مقرر کردیا۔ مولانا کا یہ فیصلہ خانقاہ میں موجودلوگوںکے لیے حیرت ناک تھا کہ ایک نووارد اور بہ ظاہر بے دین شخص کی طرف مولاناکا یہ التفات ان کی سمجھ سے باہر تھا۔

حفیظ جون پوری بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو ان کا چہرہ بالکل صاف تھا۔ مولانا تھانویؒ نے انھیں دیکھا، کچھ دیر دیکھتے ہی رہے۔ قبل اس کے کہ مولانا کچھ فرماتے، حفیظ صاحب خود ہی گویا ہوئے : ’’حضرت، میں بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں، چوں کہ میں ہمیشہ اسی حال میں رہتا ہوں، طویل سفر میں موقع نہ ملنے کی وجہ سے شیو بڑھاہواتھا ، اس لیے میں نے اسے صاف کرانا ضروری سمجھا، تاکہ آپ سے میری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ مولانا صاف گوئی کے قدردان تھے، اس لیے انھوںنے بغیر کسی ڈانٹ کے انھیں اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرلیا۔ چند روز قیام کے بعد حفیظ صاحب اپنے وطن آگئے، خط کتابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ گھرجانے کے بعد حفیظ جون پوری میں ایسی تبدیلی آئی کہ بڑے بڑے علما اور زہاد کو ان پر رشک آنے لگا۔ انھوںنے اپنی شاعری کے سلسلے میں بھی مولانا تھانویؒ کی مرضی دریافت کی تھی کہ ’’حکم دیں تو شاعری ترک کردوں‘‘۔ مولاناتھانویؒ نے فرمایا: ’’ترکِ سخن مناسب نہیں۔ البتہ حکمت و موعظت کی باتوں کو موضوعِ سخن بنانے کا التزام کیجیے‘‘ اور پھر باقی زندگی میں انھوں نے اس پر عمل کیا۔

اسی ذیل کا ایک واقعہ اور بھی سن لیجیے!

 جگر مرادآبادی [۱۸۹۰ء-۱۹۶۰ء] سے اردو زبان و ادب کاہر فرد واقف ہے۔ یہ اپنے زمانے کے نہایت مقبول اور ہر دل عزیز شاعر تھے۔ غزل سے ان کے مزاج کو خصوصی مناسبت تھی۔ اسی وجہ سے انھیں اردو دنیا میں سلطانِ تغزل کے لقب سے یاد کیاجاتاتھا۔ آج بھی ان کے اشعار ذوق وشوق کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ جتنی شہرت ان کی غزلوں کو حاصل تھی، اتنی ہی یا اس سے کچھ کم و بیش ان کی رندی و سرشاری کو بھی حاصل تھی۔ ہر وقت نشے میں رہتے تھے۔ بلانوشی کی اصطلاح شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے وضع ہوئی ہو۔ ان کی رندی، سرشاری اور بادہ خواری کے سیکڑوں واقعات مشہور ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ کبھی آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ ہمیشہ سنجیدگی کے دائرے میں رہتے تھے۔ علما اور بزرگوں کا ہرحال میں اور بے حد احترام کرتے تھے۔

جگرصاحب ایک روز مظفرنگر یا سہارن پور کے کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ اسٹیشن پر ان کی ملاقات حضرت مولانا تھانویؒ کے مشہور خلیفہ خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ سے ہوگئی۔خواجہ صاحب بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ پوچھا:’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ حضرت مجذوب نے بتایاکہ: ’’تھانہ بھون جارہاہوں، حضرتِ مرشد سے ملاقات کے لیے‘‘۔ جگر صاحب بے چین ہوگئے اور کہا:’’میری بھی دیرینہ خواہش ہے کہ میں بھی حضرت مولانا کی خدمت میں حاضری دوں۔ لیکن کیا کروں، اپنی بلانوشی کی وجہ سے ہمت نہیں کرپاتا‘‘۔ مجذوب صاحب نے فرمایا: ہاں، یہ بات تو درست ہے۔ حضرت کے ہاں اس سلسلے میں بڑی سختی ہے۔ اس حال میں کبھی مت آجانا‘‘۔ کچھ دیر میں دونوں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ عصر بعد کی مجلس میں مجذوب صاحب نے حضرت مولانا تھانویؒ کے سامنے جگر صاحب سے ہونے والی گفتگو بیان کی۔ مولاناتھانویؒ مجذوب صاحب پر بہت ناراض ہوئے اور کہا:’’تم نے انھیں آنے سے کیوں روک دیا؟ یہ تو درست ہے کہ میرے ہاں سختی و پابندی زیادہ ہے۔ لیکن یہ پابندیاں یا سختیاںشخصیتوں کو دیکھ کر عائد ہوتی ہیں۔ جگر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ تمھیںانھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ کیا عجب کہ یہاں آنا ہی ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا‘‘۔

کچھ دنوں کے بعد پھر اسی جگہ پر جگر اور مجذوب کی ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’میں نے آپ سے اُس دن کی ملاقات کا تذکرہ حضرت سے کیاتھا‘‘۔ اور اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔ جگر صاحب نے نہایت اضطراب اور بے چینی کے ساتھ حضرت تھانویؒ کا تاثر معلوم کرنا چاہا۔ مجذوب صاحب نے بتایاکہ ’’حضرت مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ تمھیں انھیں آنے دینا چاہیے تھا۔ تم نے یہاں کی سختی اور پابندی کا تذکرہ کرکے ناحق انھیں روک دیا۔ جگر صاحب اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں‘‘۔ بس، یہ سننے کے بعد جگر مرادآبادی کہیں اور جانے کا ارادہ ملتوی کرکے مجذوب صاحب کے ہم راہ تھانہ بھون کے لیے چل پڑے۔ قصبے میں پہنچ کر کسی مسجد کے غسل خانے میں غسل کیااور خانقاہِ اشرفی میں حاضر ہوئے۔ حضرت تھانویؒ بڑے تپاک سے ملے۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد ان سے کلام کی فرمایش کی۔ جگرصاحب نے وہ غزل سب سے پہلے اسی مجلس میں پڑھی تھی، جس کامطلع یہ ہے:

جان کر من جملۂ ارباب مے خانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

جب یہ شعر پڑھاتو آواز رندھی اور پھر جگر کی ہچکیاں بندھ گئیں:

ننگِ مے خانہ تھا میں، ساقی نے یہ کیاکردیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے

جگرنے دو تین روزوہیں قیام کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی یکسر بدل گئی اور ہمیشہ وہ جائے نماز دربغل رہنے لگے۔

یہ دونوں واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حضرت تھانویؒ واقعی حکیم الامت تھے۔ افرادِ امت کے حالات و کوائف باریک بینی سے دیکھتے اور ان کے امراض کاعلاج کرتے تھے۔ ان کی اِسی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سیکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی۔

مولانا اشرف علی تھانوی ؒ گروہی ومسلکی تعصبات سے بلندہوکر سوچنے کے عادی تھے۔ ہربات میں حکمت واصلاح کے پہلو نکالنا، دین کے وسیع مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اور اپنے وابستگان کو بھی اس کی طرف متوجہ کرنا ان کا خاص مزاج تھا۔ اس سلسلے کے ان کے متعدد واقعات آج بھی اہل ِ علم و دانش کی مجلسوں میں سننے کو ملتے ہیں۔

مولانا احمد رضاخاں بریلویؒ [۱۸۵۶ء-۱۹۲۱ء] اپنے نقطۂ نظر کے اظہار میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ ان کے مزاج کی یہ سختی اس درجے کو پہنچ چکی تھی کہ بعض علما کے بارے میں انھوںنے کفر کا فتویٰ دے ڈالاتھا۔ جب ان کا اِنتقال ہوا تو مولانا تھانویؒ کی مجلس میں کسی نے اطلاع دی کہ ’’احمد رضاخاں کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔ مولانا کو یہ بات پسند نہ آئی کہ اتنے بڑے عالم کا نام بس یوں ہی جناب اورصاحب کے بغیر لے لیاجائے۔ فرمایا: ’’کون؟ مولانااحمد رضاخاں بریلوی؟‘‘ اطلاع دینے والے نے کہا: ’’جی ہاں‘‘۔ فرمایا: اناللہ واناالیہ رٰجعون۔ آئیے ان کے لیے دعائے مغفرت کریں‘‘۔ ہاتھ اٹھاکر کافی دیر تک ان کے حق میں دعا فرماتے رہے۔ حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔ لیکن ان میں بعض لوگ ایسے تھے، جنھیں یہ بات ناگوار خاطرہوئی۔ جب مولانا تھانویؒ دعا فرماچکے تو ایک نے کہا: ’’حضرت ! حیرت ہے کہ آپ نے ایک بدعتی کانام تعظیم کے ساتھ لیا‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’وہ بدعتی نہیں تھے، محبتی تھے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو اس میں غلو کے بھی امکان ہوتے ہیں‘‘۔ ابھی مولانا نے اتنی بات کہی تھی کہ ایک دوسرے صاحب بول پڑے کہ ’’حضرت! وہ تو آپ کو کافر کہتے تھے۔ پھر بھی آپ نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی‘‘۔ مولانا نے بڑے ٹھیرے ہوئے لہجے میں فرمایا:’’میاں!مجھے وہ کافر اس لیے کہتے تھے کہ وہ مجھے کافر سمجھتے تھے۔ میری کسی بات سے انھوںنے یہی نتیجہ نکالاہوگاکہ میں کافر ہوں۔ اگر وہ مجھے کافر سمجھتے ہوئے بھی ’کافر‘ نہ کہتے تو وہ خود کافر ہوجاتے۔ یہ فقہ کامسلّمہ مسئلہ ہے‘‘۔

اعظم گڑھ کے کسی گائوں سے ایک صاحب نے مولانا کو خط لکھا۔ اس کامتن کچھ اس طرح تھا :’’میں آپ کے خلیفہ مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کامرید ہوں۔ میں نے گذشتہ برس مدرستہ الاصلاح میں اپنے بیٹے کا داخلہ کرایاہے۔ الحمدللہ، داخلے کے بعد سے میرے بیٹے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ نمازیں پڑھتا ہے، گائوں کے خراب بچّوں سے الگ رہتا ہے اور جی لگاکر تعلیم بھی حاصل کررہا ہے۔ میرے بعض اعزّہ کے بچے بھی اسی مدرسہ میں پڑھتے ہیں۔ وہاں پڑھانے میں مجھے بڑی سہولت ہے۔ لیکن میرے مرشد مولانا عبدالغنی صاحب کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بچے کو اس مدرسے سے اٹھالو، وہاں کی فکر صحیح نہیں ہے ۔ بچّہ آزاد خیال ہوجائے گا اور قرآن کو حدیث و تفسیر سے سمجھنے کے بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ میرے مرشد نے یہاں تک فرمادیاکہ بچے کو وہاں سے ہٹالو ورنہ میں بد دُعا کردوںگا، جب کہ میرا بیٹا بھی اسی مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہے۔ حضرت، اب آپ فرمائیں کہ میں ایسی صورت میں کیا کروں؟‘‘

مولانا تھانوی علیہ الرحمہ نے خط کامختصر جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ اس بات سے مطمئن ہیں کہ آپ کے بیٹے کی وہاں صحیح تعلیم ہورہی ہے اور آپ کا بیٹا بھی وہیں پڑھناچاہتا ہے، تو آپ اسے وہیں پڑھنے دیجیے۔ مولوی عبدالغنی کی بددعا کی فکر مت کیجیے۔ اگر وہ بددعا کریں گے تو میں یہاں سے دعا کردوںگا‘‘۔

قارئین ان دو واقعات سے اس بات کا پورا اندازہ کرسکتے ہیں کہ اصلاح وتربیت کے سلسلے میں مولانا کی کیاسوچ تھی اور ہر بات سے وہ کس طرح مفید اور مثبت پہلو نکالتے تھے۔

مولاناتھانوی ؒبے حد منظم اور بااصول شخص تھے۔ انھوںنے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے مریدوں اور قریب رہنے والوں میں بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ اس سے ان کی غرض صرف یہی تھی کہ لوگوں کو سکون اور راحت حاصل ہو۔ ان کا احساس تھا کہ نظم و ضبط اور اصول پسندی کے بغیر کوئی دعوت یا تبلیغ مؤثر نہیں ہوگی۔ یہ مولانا تھانویؒ کی زندگی کاایک ایسا وصف ہے، جو ہمارے آج کے داعیوں ، مربّیوںاور مبلغوںکی زندگیوں میں مفقود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کاکام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے حامی اور دوقومی نظریہ کے طرف دار تھے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں مشیرِ قانون ڈاکٹر آصف نذرل نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’عوامی لیگ کے خون میں فسطائی صفات پائی جاتی ہیں‘‘۔ گذشتہ دنوں بنگلہ اکیڈمی میں منعقدہ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ ’’نہ صرف حالیہ جولائی اور ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کا قتل عام، بلکہ ۱۹۷۱ء کے بعد بھی عوامی لیگ نے جے ایس ڈی اور سربہارا پارٹی کے کارکنوں سمیت ہزاروں شہریوں کےخون سے ہاتھ رنگے تھے۔ سیکٹر کمانڈر میجر جلیل کی گمشدگی اور سراج سکندر کے قتل میں بھی عوامی لیگ ملوث تھی۔ اس سے بے شک و شبہ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عوامی لیگ کے خون میں فسطائیت کا زہر موجود ہے‘‘۔

موجودہ عبوری حکومت سے منسلک کئی دیگر نمایاں افراد بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ ڈاکٹر آصف کا ’بے شک و شبہ‘ کا یہ دعویٰ نہایت اہم حقیقت ہے۔ قانونی نظام میں ’بے شک و شبہ‘ کی اصطلاح یقین کی آخری حد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس بات سے مجھے عوامی لیگ کی کئی بدمعاشیاں یاد آتی ہیں، جن کا میں خود شاہد ہوں۔ ڈاکٹر آصف نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے، جو قیام بنگلہ دیش کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں انھیں ۱۹۷۱ء کی تحریک سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ عوامی لیگ کا جنم قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے کی بات ہے۔

عوامی لیگی ارکان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان اسمبلی کے نائب اسپیکر شاہد علی پٹواری کا قتل تو میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے، لیکن خود میں نے اپنی جوانی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہاکیاں، ڈنڈے اور آہنی سریے اٹھائے دہشت پھیلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ تب اسے ’مشرقی پاکستان چھاترو لیگ‘ (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ: EPSL)کہا جاتا تھا۔ ان دنوں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ وہاں پر این ایس ایف کو سپورٹ کرتی تھی جو کالجوں اور جامعات میں پھیلی ہوئی ایسی ہی ایک اور بدمعاش جماعت تھی۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مشرقی پاکستان چھاترو یونین (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین:EPSU، ایک اتحادی کی طرح) این ایس ایف اور دوسری طلبہ تنظیموں سے نپٹنے میں مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی مدد کرتی تھی۔

۱۹۶۹ء کے شروع میں ایوب خان کے خلاف ایک بڑی مہم شروع ہو ئی۔ اگرچہ مشرقی پاکستان چھاترا یونین اور مشرقی پاکستان چھاترو لیگ اولین صفوں میں تھیں، لیکن حزب اختلاف کی دیگر تمام جماعتیں بشمول روایتی مسلم لیگ (تب کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی)، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، دیگر چھوٹی جماعتیں اور عوامی لیگ بھی اس میں شامل تھیں۔ میں اپنے آبائی شہر میں اس تحریک کے جلسوں کا حصہ بنا کرتا تھا، لیکن وہاں چھاترو لیگ اور چھاترو یونین کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں سے متفق نہیں تھا۔ ایک نعرہ ’لگائو لگائو، آگ لگائو‘ بھی تھا۔ یہ تحریک آج کل کی تعریف کے مطابق بظاہر پُرتشدد تو نہیں تھی لیکن پُرامن بھی نہ تھی۔ ایوب مخالف تحریک کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری صفوں میں موجود کئی نامعلوم اور گمنام لوگ مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کے اہم رہنما بن گئے۔

اس کے بعد جنرل یحییٰ خان کی حکومت آئی، جو مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش دے گئی۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات صاف شفاف تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان میں موجود مارشل لا حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۷۰ء میں پوری انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈے خوف کی فضا پیدا کرکے حزبِ اختلاف کی ریلیوں اور جلسوں کو خراب کرتے رہے۔ ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کر کے دو افراد کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی اس جلسے سے خطاب کرنے والے تھے، لیکن عوامی لیگ سے وابستہ کارکنوں اور طلبہ نے باقاعدہ میدان پر ہلہ بول دیا۔ حکومت اور عوامی لیگ دونوں اس جارحیت میں شامل تھے۔ ایک خاموش مددگار، دوسرا حملہ آور، یہی صورتِ حال پوری انتخابی مہم کے دوران جاری رہی۔

وقت کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کا فسطائی کردار اور واضح ہوتا گیا۔ انتخابات کے روز ۷دسمبر۱۹۷۰ء کو مشرقی پاکستان کے کئی علاقوں میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی مراکز میں بھی بطورِ پولنگ ایجنٹ بیٹھے تک نہ دیا۔ یک طرفہ من مانی کے انتخابات جیتنے کے بعد مزید ماردھاڑ کی گئی۔ اگرچہ یکم مارچ ۱۹۷۱ءکو جو ظلم کی سیاہ رات شروع ہوئی، اس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہے لیکن عوامی لیگ کے بنگالی بدمعاشوں نے جس طرح صورتِ حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور مسلح افواج کے غیر بنگالی اہلکار اور ان کے بیوی بچّے آسان ہدف تھے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے کئی افراد کو بے دردی سے ذبح کیا گیا۔ جنسی بے حُرمتی کی گئی، لاشوں کے ٹکڑے کیے گئے۔ بہت سی جگہوں پر بہاری بھی ہدف قرار پائے۔ تباہ حال شہری انتظامیہ مکمل ناکام ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کے حوالے کر دیا گیا۔

۲۵مارچ کو فوج نے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع کیا تو یہ خانہ جنگی، ’جنگ آزادی‘ میں بدل دی گئی۔ بہت سے بہاری خاندان اس نسل کشی کا نشانہ بن گئے جو مارچ ۱۹۷۱ء میں شروع ہوئی اور نو مہینے کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی جاری رہی۔ ایسی کئی لرزہ خیز کہانیاں ہمیں عظمت اشرف کی کتاب Refugee  اور قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears میں  ملتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشیرقانون ڈاکٹر آصف نذرل قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے اور فوراً بعد عوامی لیگ کی غنڈا گردی سے واقف ہیں یا نہیں۔

اسی پس منظر میں ہم اس سلوک کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جس کا ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد کچھ بنگالی بولنے والوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان لوگوں میں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کا نام نمایاں ہے۔ مولوی فرید احمد جو ایک بڑے عالم اور رکن پارلیمنٹ بھی تھے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سنگسار کر دیے گئے۔ پروفیسر سجاد حسین کو مُردہ سمجھ کر گلستان سینما ہال کے سامنے پھینک دیا گیا، لیکن وہ بچ گئے اور انھوں نے اپنی کتاب The Waste of Time بھی لکھی۔

عوامی لیگ اور اس کے حامیوں نے بنگلہ دیش کی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ میں نے یونی ورسٹی کی سطح پر تیس سال تک تاریخ پڑھائی ہے لیکن میں نے کسی علاقے کی تاریخ میں ایسی تحریف اور حقائق کی پامالی نہیں دیکھی جو ہمیں بنگلہ دیش کی تاریخ میں ملتی ہے۔ اس لیے پُرزور تجویز پیش کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت تاریخ کے نصاب کو اَزسرِ نو مرتب کرے۔ حال ہی میں عوامی لیگ کے نام نہاد طلبہ ونگ چھاترو لیگ پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن اگر اس کی خاطر خواہ وجوہات پیش نہ کی گئیں تو یہ قدم الٹا نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ایسا نصاب جو منطقی و عقلی بنیادوں پر بنگلہ دیش چھاترو لیگ اور اس کی پیش رو مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی تاریخ پیش کرے، ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال عوامی لیگ کے مستقبل کا ہے، قدرتی طور پر حالات اس انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ شیخ حسینہ کی حکومت اپنے فسطائی رویے کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کے باعث رخصت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو تمام ’فسطائی خصوصیات‘ کا مظاہرہ کرنے پر قصوروار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کی فی الحال ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کا کیا کیا جائے؟ کیا اس پر باقاعدہ پابندی لگا دی جائے؟ اگرچہ ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے عوامی لیگ پر پابندی کی مخالفت کی ہے، حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ جیسے فاشسٹ اور کرپٹ ٹولے کو بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی کا کوئی حق حاصل نہیں۔

چنانچہ اس صورتِ حال میں عوامی لیگ کا مستقبل کیا ہونا چاہیے؟

ہم اپنے تاریخی شعور سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دنیا کے دوسرے ممالک نے فسطائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ جرمنی نے جنگ کے بعد ہٹلر کی ’نازی پارٹی‘ پر پابندی لگا دی تھی۔ اٹلی نے بھی اپنی ’نیشنلسٹ فاشسٹ پارٹی‘ کے ساتھ یہی کیا تھا۔ ان ممالک نے تعلیمی اصلاحات، عدالتی فعالیت اور قانونی طریقوں سے آمریت کی واپسی کا دروازہ بھی بند کردیا۔ بنگلہ دیش کا المیہ یہ ہے کہ ’جولائی اگست ۲۰۲۴ء کے طلبہ انقلاب‘ کے بعد عبوری حکومت کے چند سرکردہ رہنماؤں کا موقف یہ تھا کہ ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین درکار ہے، چنانچہ انہوں نے اسی دستور کے ساتھ جڑے رہنے کا فیصلہ کیا، جسے استعمال کر کے عوامی لیگ نے اپنی فسطائی حکومت قائم کی تھی۔ انھیں یہ احساس نہیں ہو سکا کہ یہ آئین خود ’غیر آئینی‘ ہے۔

انقلاب نے اس کے جواز پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا ملکوں کو چلانے کے لیے آئین ضروری بھی ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی باقاعدہ دستور کے بغیر چل رہے ہیں۔ ان کا کام شہریوں کے درمیان اتفاق رائے سے چلتا ہے۔ فرانسیسی مفکر ژاں ژاک رُوسو (م:۱۷۷۸ء)نے اس اتفاق رائے کو ’اجتماعی امنگ‘ کا نام دیا ہے۔ کیا بنگلہ دیشیوں کے ہاں اس وقت ایک اجتماعی امنگ موجود ہے؟ اس کا جواب ہے: ’’بالکل موجود ہے‘‘۔ طلبہ نے انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کچھ مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔ لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ حکومت ان مطالبات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، تو انہوں نے حکومت کی رخصتی کو ہی اپنا واحد مطالبہ بنا لیا۔ ساری قوم طلبہ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور انقلاب کامیاب ہو گیا۔ یہ کامیابی انقلابِ فرانس سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی۔ اتفاق سے فرانس کا انقلاب بھی جولائی اگست ۱۷۸۹ء میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک اجتماعی امنگ موجود نہیں؟ طلبہ کے تمام ابتدائی مطالبات کو نئے دستور کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اجتماعی امنگ پوری آبادی کی اُمنگوں کا نام نہیں اور نہ یہ اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ پوری آبادی کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے‘‘۔

چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کے ’ادارہ برائے انسانی حقوق‘ (UNHR)کے سربراہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انصاف کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے، اس میں تمام ہلاک شدگان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کو شامل ہونا چاہیے‘‘۔ کیا ان کا اشارہ عوامی لیگ کے ارکان کی جانب ہے، جن میں سے کچھ واقعی جولائی اگست میں تشدد کا نشانہ بنے؟ کیا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی تکثیریت کے نام پر عوامی لیگ کے غنڈوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے؟ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال کو سب سے زیادہ ہیجان خیز قرار دیا ہے۔ یقیناً ایسی صورتِ حال کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، لیکن عوامی لیگ کی فسطائیت کا بندوبست کیے بغیر موجودہ انتظامیہ کبھی بنگلہ دیش کو مستحکم نہیں کر سکے گی۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں فسطائیت کے خلاف کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے مکمل ہوا ہے؟

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’فسطائیت عوامی لیگ کے خون میں شامل ہے‘‘۔ تو کیا ہمیں عوامی لیگ سے اس لیے کوئی امتیازی سلوک کرنا چاہیے کہ یہ تحریک ایک زمانے میں بہت مقبول رہی ہے؟ یہاں ایک دفعہ پھر ہم جرمنی کی مثال لیتے ہیں۔ ہٹلر جمہوری طریقے سے کھلے عام، پاپولر ووٹ لے کر اقتدار میں آیا تھا اور اسی نے پہلی جنگ ِ عظیم کے تباہ شدہ جرمنی کو مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ پھر اس نے بڑی محنت سے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی کو ایک طاقتورملک بنا دیا۔ انھی حیران کن اور قابلِ رشک کامیابیوں نے اس کے دماغ میں وہ ہوا بھر دی کہ اس نے نہ صرف جرمنی میں اپنی آمریت قائم کر لی، بلکہ وہ باقی دنیا کو بھی اپنے زیر نگیں لانا چاہتا تھا۔ تاہم، دنیا نے ان کامیابیوں کے باوجود ہٹلر کو معاف نہیں کیا۔

اس وقت سب سے بڑا کام اجتماعی امنگ اور ایک مقبول رہنما کی اُمنگوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا ہے۔ رُوسو کے بقول احتساب، انسانی وقار کا احترام، شفافیت اور سیاسی شمولیت اس اجتماعی امنگ کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی لیگ نے اپنی عمر کے تقریباً ستّر برسوں میں ان خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ جواب ہے: ’’ہرگز نہیں، بلکہ اسی میں ناکامی کے باعث طلبہ اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اجتماعی اُمنگوں کو بروئے کار لانے کے لیے پوری کوشش کرے‘‘۔

اس امر کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں کہ راندۂ درگاہ عوامی لیگ کے بدمعاش، موجودہ حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’آزادی رائے کی جمہوری روایت کا احترام کیا جائے‘‘ لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوری روایات کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ یہ صورتِ حال موجودہ حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہمارے شعور کے مطابق عوامی لیگ پر پابندی لگانا جمہوری روایات کا تقاضا ہے۔ ملک میں انصاف کی حکمرانی اور عوامی لیگ کی آمریت کے خلاف جانیں دینے والوں کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو ایسا قدم اٹھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

غزہ ۴۰ ملین ٹن ملبے کا ڈھیر ہے۔ ۱۰۰ بڑے ٹرالر اگر اس ملبے کو ہٹانے پر لگائے جائیں تو انھیں ۱۵ سال لگیں گے۔ غزہ کی پٹی میں چاروں طرف اسرائیلی جارحیت کے سبب تباہی و بربادی اور موت کا راج ہے۔ تاہم، اسرائیل اور اس کے حواری ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد اپنی وحشت، درندگی اور خون آشام صہیونیت کے دفاع میں ایک بار پھردنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی تحریک مزاحمت کے پاس غزہ کی ریت اُڑاتی سر زمین پر ’مشرق وسطیٰ کے سنگاپور‘ کی تعمیر کا پورا موقع موجود تھا، جو اس نے اپنی نااہلی کی بدولت کھو دیا ہے۔

فی الحقیقت یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، جسے اسرائیل اور اس کے حواری اپنی پروپیگنڈا مشین کے زور پر چند عشروں، خصوصاً اوسلو مذاکرات کے بعد سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اسرائیل ابتدا ہی سے اقتصادی طور پر ’مضبوط غزہ‘ کے خلاف تھا اور ہمیشہ سے اس کی کوشش رہی کہ غزہ کو اقتصادی طور پر تباہ حال رکھے۔ کبھی اس قابل نہ ہو نے دے کہ یہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیش خیمہ اور نقطۂ آغاز بن سکے ۔ مکار اسرائیلی پالیسی ساز ایک طرف عالمی برادری کے سامنےیہ راگ الاپتے رہے کہ غزہ ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘بن سکتا ہے ، تو دوسری طرف اپنی نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے اور خوشیاں مناتے رہے کہ ہماری سازشوں کے نتیجے میں غزہ مالی بحرانوں کی دلدل میں دھنسے چلے جارہا ہے اور ہمیشہ اسی دلدل میں غرق رہے گا۔

کیا اسرائیل کے ہوتے ہوئے غزہ فی الواقع مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا تھا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ۷؍ اکتوبر سے قبل کی اسرائیلی پالیسی کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جب غزہ میں حماس انتظامیہ کا وجود ہی نہیں تھا۔

مشرق وسطیٰ میں سنگاپور کے قصے کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب جنوری ۱۹۸۸ ءمیں امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان تھا: ’ریاست غزہ، جو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا ہے‘۔ مضمون نگار مارٹن گوتھرمین نے اپنے مضمون میں یہ تصور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں ایک علیحدہ آزاد اور مستقل ریاست قائم کر دی جائے۔ مصنّف کےخیال میں مجوزہ ریاست کے پاس ممکنہ طور پر وہ سارے امکانات ا ور وسائل موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بناسکتے ہیں۔ گوتھرمین وہ پہلے فردہیں جنھوں نے غزہ کو ’سنگاپور‘سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ، سنگاپور کی ڈٹو کاپی بن سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی قبضہ کے زیر سایہ ان کا یہ خیال ایک ایسا خواب تھا جسے دور کی کوڑی ہی کہا جاسکتا ہے۔

صورت حال یہ تھی کہ غزہ اُس وقت عملاً اسرائیلی ظالمانہ قبضہ کے تحت جی رہا تھا اور فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی انتظامیہ کے مابین مذاکراتی عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار تھا۔ ۱۹۹۱ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں پر اس وقت عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا، جب اس نے وہ عمومی پاس منسوخ کر دیا جو مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کو اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں آنے جانے کے لیے نسبتاً آزادی فراہم کرتا تھا۔ اب ہر فرد کو خوب چھان پھٹک کے بعد ہرمرتبہ نیا پاس حاصل کرنا ہوتا۔

۱۹۹۳ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کردیں، تاہم یہی وہ برس تھا جب غزہ اور سنگاپور کا نام ایک بار پھر شد و مد سے لیا جانے لگا۔ لیکن اس بار ’مشرق وسطیٰ کے سنگا پور‘ کی یہ اصطلاح مشرق وسطیٰ میں نہیں، اوسلو معاہدے کے مذاکرات کاروں کے مابین سننے کو مل رہی تھی۔ فلسطینی سیاسی رہنما مرحوم شفیق الحوت اپنی ڈائری میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی سے اپنے استعفا کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوسلومعاہدے کے نتائج اور مضمرات سے میں متفق نہیں تھا، لہٰذا میں نے استعفا دینے اور صدر یاسر عرفات کو ان کے منافق مشیروں کے نرغے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہ غزہ کی ریت اور مغربی کنارے کے ٹیلوں پر ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ تعمیر کرتے رہیں‘‘۔ یوں شفیق الحوت اور ان جیسی سوچ رکھنے والے دیگر لوگ استعفا دے کر ایک طرف ہوگئے اور ستمبر ۱۹۹۳ء میں صدر یاسر عرفات کی زیر صدارت فلسطینی انتظامیہ نے امریکی صدر کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کی موجودگی میں اوسلو معاہدے پر دستخط کر دیے۔

غزہ اریحا معاہدہ

۱۹۹۴ء میں طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں میں جہاں دیگر بہت سے امور پر بات کی گئی تھی، وہیں اسرائیل نے اپنی سخت نگرانی اور کنٹرول میں غزہ کے لیے بندرگاہ اور ایئرپورٹ کے قیام کی اجازت دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اسے گویا غزہ کو سنگاپور بنانے کی طرف اولین عملی قدم کہا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۹۶ء میں غزہ ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز ہوا،جسے عرب اور مغربی ممالک مل کر اسپانسر کر رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اپنی زوجہ ہیلری اور دیگر ہمراہیوں کے ساتھ اسی غزہ ایئرپورٹ پر اُترے جہاں صدریاسر عرفات نے ان کے ساتھ مل کر غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاحی فیتہ کاٹا۔ تاہم، غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بنے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیلیوں کو اس کا وجود کھٹکنے لگا اور ۲۰۰۱ء میں انھوں نے بمباری کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔

غزہ کی بندرگاہ کا نصیب بھی غزہ ایئرپورٹ سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۰ء میں اس پر ابتدائی کام کا آغاز ہوا اور تین ماہ بعد ہی ستمبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے اب تک تعمیر ہونے والی اس کی مرکز ی عمارت اور اس کے ساتھ بننے والی دیگر عمارتوں کو اُڑا کر ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی بدترین حالات ابھی غزہ کے تابناک مستقبل کی گھات میں بیٹھے تھے۔ جون ۲۰۰۴ء میں اسرائیلی کابینہ نے یک طرفہ طور پر غزہ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ نے بھی اس پلان کی منظوری دے دی۔ سازشی پلان کے مطابق غزہ کی پٹی میں واقع ۲۱؍ اسرائیلی نوآبادیوں کوخالی کردیا گیا،جب کہ مغربی کنارے میں آباد صرف چار نوآباد یہودی بستیاں خالی کی گئیں۔یوں غزہ صہیونی وجود سے مکمل طور پر خالی ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی بری، بحری، اور فضائی ناکہ بندی اور محاصرے کو شدیدتر کردیا۔

یہ امریکا میں صدر بش کا دورِ صدارت تھا اور وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی اس وقت ایک ایسے الیکشن کی ضرورت تھی، جس سے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے ان کی اپنی منتخب کردہ سیاسی قیادت سامنے آتی ۔چنانچہ غزہ سے آخری صہیونی نوآباد کار کے نکلنے کے ٹھیک چار ماہ بعد، جنوری ۲۰۰۶ء میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ’فلسطینی قانون ساز اسمبلی‘ 'کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں نمایاں ترین دو پارٹیاں تھیں: تحریک الفتح اور حماس۔ حماس نے قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان انتخابات کو مشرق وسطیٰ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا تھا ۔ بعدازاں قانون ساز اسمبلی نے فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم فلسطین کے منصب کے لیے اسماعیل ھنیہ شہید کو منتخب کرلیا اور وہ فلسطینی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ امریکی و صہیونی انتظامیہ دونوں کے لیے شدید صدمے کا باعث تھا۔ انھیں ہر گز توقع نہیں تھی کہ حماس یہ انتخابات جیت جائے گی اور اپنا وزیر اعظم منتخب کر لے گی۔ چنانچہ حماس حکومت کے خلاف بیک ڈور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔

 پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے حماس کی جیت کے بعد وہاں کی صورتِ حال کو ’ہولناک صدمہ‘ سے تعبیر کیا۔پینٹا گون میں ہر کوئی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا رہا تھا اور سبھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ فلسطینی قانون ساز اسمبلی کےانتخابات اور ان کے نتیجے میں نمائندہ فلسطینی انتظامیہ کے قیام کی تجویز آخر پیش کس نے کی تھی؟

حماس کے زیر انتظام غزہ کی اصل مشکلات کا آغاز اس چار ملکی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شروع ہوا، جس نے حماس کے سامنے شرمناک اسرائیلی شرائط پیش کرنا شروع کیں۔ شرط یہ تھی کہ ’’حماس مسلح مزاحمت ترک کرے، اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کرے، اور غیر منتخب تحریک فتح کی جانب سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو من و عن تسلیم کرے‘‘۔

دوسری طرف تحریک الفتح کی طرف سے بھی نومنتخب حماس حکومت کو منتقلیٔ اقتدار کے سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا ۔منتخب اسمبلی وجود میں آنے اور منتخب وزیر اعظم کے منصب سنبھال لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے منصب داروں کو اقتدار منتقل کردیا جاتا، اور مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا، مگر تحریک الفتح کی طرف سے منتقلیٔ اقتدار کے اس عمل میں ہر آن رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ آخرکار ۲۰۰۷ء میں حماس کو اس مسئلے سے خود ہی نبٹنا پڑا، اور غزہ کا مکمل انتظام و انصرام ا س نے سنبھال لیا۔ غزہ کے مکمل محاصرے کا عمل تو اسرائیل نے حماس کے الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا، لیکن جولائی ۲۰۰۷ء میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھالنے کے بعد یہ محاصرہ شدید تر کر دیا گیا۔

 ستمبر ۲۰۰۷ء میں صہیونی حکومت نے غزہ کو ’دشمن سرزمین‘ قرار دے دیا، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اب غزہ کو خوفناک اقتصادی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اسرائیل نے یکے بعد دیگرے وہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں، جن کا بنیادی مقصد غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا اور پیداواری صلاحیت کو محدود تر کرنا،صنعت و تجارت کو تباہ کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اہل غزہ غربت اور بدحالی سے تنگ آ کر خود حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے نقش قدم پر چل نکلیں، جو نسبتاً خوشحالی سے بہرہ مند تھے اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دراصل اہل غزہ کو حماس کو ووٹ دینے کی اجتماعی سزا دی گئی تھی۔

عائد کردہ اقتصادی پابندیوں میں غزہ میں آنے والے سامان کی نقل و حمل، اس کی مقدار اور حجم کو محدود کرنا، ایندھن اور بجلی کی سپلائی محدود کرنا، اور غزہ آنے جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ ظالمانہ اسرائیلی پالیسی اور اس کے پیچھے کار فرما سوچ اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آگئی، جب ۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو تل ابیب میں امریکی سفارت خانے نے اپنی وزارتِ خارجہ کو ایک برقیہ بھیجا، جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عام ہوا۔ برقیے کے مطابق اسرائیلی انتظامیہ نے ایک سے زائد مرتبہ امریکی سفارت خانے کے اقتصادی امور کے انچارج سے کہا تھا کہ ’’غزہ کی ناکہ بندی کی یہ پالیسی ہمارے جامع معاشی منصوبہ کا حصہ ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ غزہ کی معیشت ہمیشہ دیوالیہ پن کے کنارے پر رہے، مگر مکمل طور پر تباہ نہ ہو‘‘۔

در اصل اسرائیل چاہتا تھا کہ غزہ کی معیشت کام تو کرتی رہے مگر اپنی صلاحیت کے ادنیٰ ترین درجے پر، تاکہ کوئی بڑا انسانی بحران پیدا نہ ہو۔ غزہ پر بھوک مسلط رکھنے کی اس پالیسی کی کچھ تفصیلات جون ۲۰۰۹ء میں اسرائیلی اخبار ہاریٹس' نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیں۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے والی غذائی اجناس میں موجود کیلوریز تک کا حساب کتاب رکھتی تھی۔

بدترین پہلو اس پالیسی کا یہ تھا کہ غزہ میں بس اس قدر غذا فلسطینی باشندوں کے لیے داخل ہونے دی جائے جس سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل نے غزہ کی معیشت کو تباہ کیا۔ ایک طرف اس کی پیداواری صلاحیت کو محدود اور ختم کیا اور دوسری طرف غزہ کے باشندوں کی زندگی کو اجیرن کیا۔ سروسز سیکٹر اس سے پہلے ہی اسرائیلی پابندیوں اور عقوبتوں کی نذر تھا ۔

۲۰۱۵ءمیں ایک رپورٹ نشر ہوئی تھی، جس کا عنوان ’فلسطینی و اسرائیلی اقتصادی تعلقات‘ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء سے ایک برس قبل ہی فلسطینی معیشت کو تباہ کیا جا چکا تھا۔۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’آنے والے آٹھ برسوں میں خصوصاً ۲۰۲۰ء تک اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ‘‘۔

اس تباہ کن صورتِ حال کا سبب اسرائیل ہمیشہ یہی بتاتاآیا ہے کہ ’حماس‘ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور غزہ کے باشندے حماس حکومت کے زیرانتظام خوش حال زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقتاً غزہ کی لب ِگور معیشت کو اسرائیلی مکار کاریگروں نے کچھ اس طرح سے انجینئر کیا تھا کہ غزہ گھٹنوں کے بل جھک جائے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے۔ اسی سیاق وسباق میں القدس بلدیہ کے اسرائیلی نائب چیئرمین میرون بینیفیستی کا وہ بیان قابل توجہ ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ :’’غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا فلسطینی معیشت کو کمزور کرنے کی کنجی ہے اور اسی طرح فلسطینی ریاست اور قیادت کو عمومی طور پر کمزور تر کیا جا سکتا ہے‘‘۔

اسرائیل کی طرف سے آخری برسوں میں اٹھائے گئے اس سلسلے کے تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اٹھانے اور اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی اس کی نہ کوئی نیت تھی، اور نہ کوئی ارادہ تھا کہ غزہ کی معاشی صورت حال بہتر ہوسکے۔ مزاحمت نہ ہو تو غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ بنادیں، یہ محض اس کا ایک پروپیگنڈا ٹول اور جھوٹا خواب تھا، جو اسرائیل کبھی اوسلو مذاکرات کی ٹیبل پر اور کبھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں فلسطینی باشندوں اور دنیا کو دکھاتا رہا تھا۔

جولائی ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے صہیونی وزیر دفاع افیغدور لیبرمین اپنے ایک بیان میں اسی تاریخی سفید جھوٹ کو پھر دُہرا رہے تھے کہ ’’اسرائیل غزہ کو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بننے میں اس کی مدد کر سکتا ہے شرط بس یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مزاحمت سے دست کش ہو کر حماس حکومت کا خاتمہ کردیں‘‘۔

اسرائیلی دانش ور ماہر لسانیات تانیہ رائنہارٹ کے مطابق اسرائیل اگر مغربی کنارے کو ضم کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی صورت بھی غزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔دراصل اسرائیل کامقصد ہے بھی یہی۔ اس لیے کہ غزہ کو اگر آزاد چھوڑدیا گیا تو وہ عالم عرب سے براہِ راست تعلقات قائم کرلے گا اور یوں وہ صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن جائے گا۔ اسرائیلیوں کا پختہ خیال ہے کہ غزہ کو کسمپرسی کی حالت میں رکھ کر وہ در اصل اس ممکنہ مزاحمتی تحریک سے نبٹ رہے ہیں، جو مغربی کنارے کے مکمل انضمام کے نتیجے میں پھوٹنے کا احتمال ہے ۔

اسرائیل نے غزہ کو موجودہ حالت میں محصور رکھ کر جھکانے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں نمایاں ترین اس کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا، جغرافیائی طور پر تنہا رکھنا اور مادی طور پر تباہ حال رکھنا شامل ہیں ۔

’ طوفان الاقصیٰ ‘سے قبل غزہ میں بے روزگاری کی شرح ۵۰ فی صد تھی اور ان نوجوانوں میں  جن کی عمریں ۱۵ سے ۲۹سال ہیں، بے روزگاری کی یہ شرح ۶۲ فی صد تھی۔ غزہ کی ۸۰فی صدآبادی کا ، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے عالمی خیراتی اداروں کی امداد پر تکیہ تھا۔ ۲۳ لاکھ سے زیادہ بنی آدم ایک ایسی محصور جگہ میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے اوّلین روز سے ہی اسرائیلی ناسور کا اصل ہدف یہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور یہاں کے باشندوں کو ہجرت کرجانے پر مجبور کردے، یا انھیں اتنا دبا لیا جائے کہ ان طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا تا اَبد خطرہ باقی نہ رہے۔ غزہ کی موجودہ جنگ اسی کا تسلسل ہے۔

جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات شہاب نامہ کے مطالعے سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کو جاننے اور پرکھنے کاموقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب رائے عامہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ریاض صاحب کو پاکستان کے چار وزرائے اعظم: میاں محمد نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دو اَدوار میں انھی کو پریس سیکرٹری کے لیے منتخب کیا۔

خبروں کے مرکز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین عشروں تک میرے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک وہ پاکستان ہائی کمیشن میں ’پریس منسٹر‘ رہے۔چونکہ بھارتی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبروں کو کور کرنا، اور انڈیا میں چاہے کہیں تشدد کا واقعہ ہو، بم دھماکا یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہوتا ہے اور اس شکل میں پاکستانی ہائی کمیشن کا وجود اور پریس منسٹر توانتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے: ’’یہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی طلب ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔ اس لیے اس فرد کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری تھا۔

مئی ۱۹۹۵ء کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد ہ سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ اُنھوں نے مجھے ہدایت دی کہ پاکستانی صدر سردارفاروق خان لغاری کے ہمراہ آنے والے میڈیا وفد پر نظررکھوں اور اگر پاکستانی وفد کوئی بریفنگ دیتا ہے تو ان کے مندرجہات سے فوراً ان کو مطلع کروں۔ دہلی میں ان دنوں روزنامہ جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو عبدالوحید حسینی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔پھر کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر The Nation کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی صاحب بہت شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کی پیش کش کر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرر کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار ’جموں و کشمیر حُریت کانفرنس‘ کے لیڈروں سے پاکستان ہائی کمیشن میں اس وقت کے سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ یوں ۲۰۰۲ء تک میرا دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر ڈیلی ٹائمز اورفرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ بعد میں کئی برس تک پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا تھا۔ مگر ۲۰۱۱ء میں صاحب ِ طرز کالم نگار اور دانش ور ہارون الرشید صاحب نےروزنامہ دُنیا  میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کو پھر سے استوار کروایا۔

جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا تو مَیں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد ’اے آر وائی ٹی وی‘ کے لیے اور پشپندر کلوستے ’آج ٹی وی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے، جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔ اس طرح ۱۹۹۵ء سے ہی مجھے پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبارات لینے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطورِ سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر خدمات کی جو چھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ بعد میں اس کو کسی حدتک منظورمیمن نے نبھایا۔

رائے ریاض جب دہلی وارد ہوئے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان وفود کا تانتا لگارہتا تھا۔ رائے صاحب پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن، وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کے لیے کام کرنے والے چند صحافیوں کو بھی ضرور بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: بیرونِ ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے اہل کار۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تو وہ خود پس منظر  میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں میٹنگیں ہوتی تھیں، جن کے ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سیّدجماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو شرکت کرنے کے لیے آتے تھے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ یوں ہمیں خاصی بیک گرائونڈ انفارمیشن حاصل ہوجاتی تھی۔

رائے ریاض جب دہلی آئے تو منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ انھوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گرائونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر اور دانش وَر جناب افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔

رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں: کس طرح صدر جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے پر بضد تھے ، اور کس طرح وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے اس کوشش کو ناکام بنایا؟ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات تب وسیع ہوگئے جب پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی صاحب نے فوراً مسترد کر دیا۔ انھی دنوں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دبائو میں تھے۔اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملا، اورفوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد سے کہا: ’’آج کل بائیں بازو والے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ روموں میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں‘‘۔ بس یہ اشارہ تھا اور اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکا کے عراق پر حملہ اوربھارتی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلے کےخلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ واجپائی نے فوراً پارلیمنٹ میں بیان دیا:’’ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ اس طرح انھوں نے امریکا سے معذرت کی۔

سری لنکا میں تقرر کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجروں کے لیے کھولنے کی بڑی جدوجہد کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگوفیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بدمزہ، خراب اور کھٹے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے ’مہربانوں‘ نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی،جو ائرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی فروٹ مارکیٹ حصول سے قبل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ ’’پاکستانی خربوزے کی قیمت۱۰ لاکھ ڈالر‘‘۔ یہ اس ہیروئن کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔

رائے ریاض نے دہلی میںقائداعظم محمدعلی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے پاکستان جانے سے قبل Times of India کے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:  مہاتما گاندھی، بھنگیوں کے محلے میںرہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔  دہلی میں ۱۹۳۰ء سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھیرتے تھے۔ پھر ’جناح ہائوس‘ سے چندمیٹر دُوری پر ’برلا ہائوس‘ ان کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ ’جناح ہائوس‘ میں اس وقت نیدرلینڈ کے سفیررہتے تھے اور ’برلا ہائوس‘ میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو گوڈسے نے ہلاک کیا تھا۔ جب ڈالمیا نے ’جناح ہائوس‘ کا قبضہ لیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلےاس پورے بنگلے کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر اتنی ’احتیاطوں‘ کے بعد بھی، وہ اس مکان میں منتقل نہیں ہوئے اور اس کو کرایہ پر دے دیا۔

مصنف نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا بھی ذکر کیا ہے، جو ویسے تو اکثر دہلی وارد ہوتےتھے، اور جمعیت العلماء ہند ان کی میزبانی کرتی تھی۔ مجھے بھی ان سے واسطہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں ہی پڑا۔ ۴جولائی۱۹۹۵ء کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیرمعروف تنظیم ’الفاران‘ نے اغوا کرلیا۔ ۲۲ یا ۲۳ جولائی کے آس پاس حُریت لیڈر جناب سیّدعلی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع ’کشمیر ہائوس‘ میں ٹھیرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس دہشت پسندانہ کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے مضطرب تھے۔ فلسطین کے برعکس کشمیرکےحوالے سے مغربی دُنیا میں ایک روایتی نرمی پائی جاتی تھی۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں گیلانی صاحب سے ملنے کشمیر ہائوس پہنچا۔ انھوں نے اغوا کی اس واردات کے حوالے سے سخت دُکھ کا اظہار کیا۔ اسی دن ہندستان ٹائمز میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خبر چھپی تھی، کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ’حرکت الانصار‘ میں ان کی پہنچ ہے، اور جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انھوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

محترم گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سیکرٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ ’’مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ملاقات کا وقت لیا جائے، کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے‘‘۔ عاصمی صاحب پہلی بار دہلی آئے تھے۔انھوں نے میری معاونت چاہی۔ خیرمعلوم ہوا کہ مولانا کنشکا ہوٹل میں ٹھیرے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ چیک آئوٹ کرکے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آکر جمعیت کے دفتر میں ٹھیرے ہیں۔ عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے وقت لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے۔ میں ایک روز نماز کے وقت جمعیت کے دفتر پہنچا اور جونہی انھوں نے نماز ختم کی تو میں ان کے سامنے پہنچا اور گزارش کی  کہ ’’کشمیری لیڈرگیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں‘‘۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں ، مگر ان کا رویہ ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنا بتایا کہ ’’مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جارہے ہیں‘‘۔ ان کی واپسی کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کردیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز ۱۷؍اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔

۲۰۱۳ء میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکہ آرا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظرعام پر آئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ ’را‘ کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی، تو دہلی سے انھیں جواب تھا: ’’جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دُنیا میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس لیے ان کے اغواکا طول دینا بھارت کے مفاد میں ہے‘‘۔ لیوی اوراسکاٹ کے مطابق بعد میں ’’جب اغواکار تنگ آگئے، تو انھوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں بیچا۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑاگیا، تو الزام بھارتی فوج کے سر آجائے گا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیندسُلا کر نامعلوم مقام پر زمین میں دبا دیا گیا۔ مگر  تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑچکا تھا اور مغربی دُنیا نے آزادی کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی شان دار خدمات انجام دیں اور اپنے دورۂ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے؟ یہ معلوم کرنا کسی صحافی کا کام ہے۔

کتاب رائے عامہ  کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔انھوں نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیلانگ کے ساتھ ان کا رویہ ان کی شخصیت کے بالکل برعکس اور جواب غیرموزوں تھا۔ بلاشبہ اس نے ان کے صبر کا امتحان لیا تھا، مگر کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتاتھا۔ ۲۰۱۶ء میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے اس رویے کی شکایت کرتے تھے۔ چند کمیوں کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے، جس کو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جس کو طاقت کی راہداریوں تک رسائی تھی اور جس نے کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (ناشر: ’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘، لاہور۔ فون: 0300-0515101)

اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور انسان کو ایک نہایت اہم مقصد کی خاطر تخلیق کیا ہے تاکہ اس دنیا پر الله کی خلافت و نیابت قائم ہو۔ اللہ ہی کے احکام کے مطابق اس دنیا کا نظام چلے، اللہ ہی کا دین اور اس کے قوانین نافذ ہوں، اور تمام انسان اللہ کے دین سے آشنا ہو جائیں ۔

  • نکاح اور اس کے مقاصد :خداوند کریم نے خلافتِ ارضی جیسے عظیم مقصد کی تکمیل کی خاطر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اور مرد و عورت کے رُوپ میں پیدا کیا۔ لیکن انھیں جانوروں کی طرح بے لگام نہیں چھوڑ دیا کہ جس جانور یعنی (اپنی ہی جنس ) سے چاہیں اپنی فطری پیاس بجھائیں بلکہ ان کے لیے ایک ضابطۂ حیات مقرر کیا اور ان پر کچھ حدود و قیود اور پابندیاں عائد کرکے انھیں نکاح کے مقدس بندھن میں باندھ دیا، تا کہ اس سے نسل انسانی پروان چڑھے اور خاندان کی تشکیل ہو۔ اس کے ساتھ ہی اپنی اولاد کے لیے ان کے دلوں میں محبت کا بے کراں سمندر رکھ دیا، تاکہ نسلِ انسانی اپنے والدین اور خاندان کے افراد کی محبتوں کے سائے تلے بہترین کردار کے ساتھ پروان چڑھے۔ مرد و عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب مقاصد ِزوجیت کے لیے مناسب بنائی اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش رکھ دی، تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے پیدا کی گئی کشش کی تکمیل کے ذریعے اپنی محبت سے نسلِ انسانی کی پیدائش کا ذریعہ بنیں اور پروان چڑھائیں اور اللہ تعالیٰ کے مقصدِ خاص خلافت ارضی کی ذمہ داری اٹھائیں اور مرد و عورت کو کھیت اور کسان سے تشبیہ دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں ‘‘۔ (البقرہ۲:۲۲۳)

جس طرح کسان کھیت سے پیداوار حاصل کرتا ہے، اسی طرح تم بھی اپنی کھیتیوں یعنی عورتوں کے ذریعے اللہ کی زمین کو آباد رکھنے کے لیے نسل انسانی کو بڑھائو، جس طرح کسان کھیت میں بیج ہی نہیں بوتا ، بلکہ جو فصل تیار ہوتی ہے اس کی رکھوالی بھی کرتا ہے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح عورت اور اس سے پیدا ہونے والی نسل بھی مکمل طور سے مرد کی محتاج ہوتی ہے کہ وہ نہایت توجہ اور دھیان سے اس کی نگہبانی کرے اور انھیں پروان چڑھائے۔

مرد و عورت کے تعلق کو حیوانوں کی طرح محض شہوانی غرض و غایت پوری کرنے والا نہیں بنایا ، بلکہ مرد و عورت کی زوجیت کا یہ بھی مقصد بتایا کہ ان میں آپس میں صنفی محبت، قلبی لگاؤ اور دلی وابستگی ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے شریک راز اور شریک غم ہوں ۔

ارشاد خداوندی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے خود تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ انھیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ۔ ارشا د ہے:، ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۷) ’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘۔

یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تمھارا اور تمھاری بیویوں کا تعلق ہے۔ وہ تمھاری شریک راز ہیں اور سکون وراحت کا سرمایہ ہیں۔ نکاح کو نبی کی سنت قرار دیا اور حکم دیا کہ کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بغیر نکاح کے نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘ (النور۲۴:۳۲)۔ اس ضمن میں اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو لوگ کچھ مسائل کے سبب نکاح نہ کر سکتے ہوں، ان کے نکاح کروا دیں کیونکہ نکاح نہ کیے جانے سے آدمی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔

  • فطرت سے غداری : خداوند کریم نے نکاح کے علاوہ تمام ذرائع سے جنسی تسکین پورا کرنے کو حرام قرار دیا اور سخت سزائیں مقرر کیں اور آخرت میں ذلت کے عذاب کی وعید بھی سنائی۔ باوجود اس کے جو شخص اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے نکاح کے طریقے کے بر خلاف غلط طریقے سے اپنی شہوانیت کی تسکین کا سامان کرتا ہے، وہ یا تو زنا کا راستہ اپناتا ہے یا فتنہ ہم جنسی میں ملوث ہے ۔ اس طرح وہ فطرت سے غداری بلکہ جنگ کرتا ہے ۔ کیونکہ قدرت نے جس مقصد کے لیے اس میں جنسی کشش رکھی تھی اور جو ذمہ داریاں اس کے تحت سونپی تھیں، وہ ان سے رُو گردانی کرتا ہے اور خالق کائنات کے منصوبے یعنی نکاح کے ذریعے جو خاندان اور تمدنی ادارے وجود میں آئے تھے، ان میں وہ اپنی قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام خاندان اور اجتماعی تمدن کو تباہ و برباد کرنے اور نسل انسانی کی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ وہ معاشرت کو بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یعنی بیک وقت وہ کئی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔

مردوں کی طرح عورتیں بھی اگر زنا یا ہم جنسی میں ملوث ہوتی ہیں تو وہ بھی ان سب جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں ۔ تشویش تو اس بات کی ہے کہ ہم جنسیت جو کہ نہایت گھناؤنا فعل ہے،  نسل انسانی کو روکنے والا عمل ہے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے والا خلافِ فطرت عمل ہے۔ اس کو گہرے سازشی مقاصد کے تحت پھیلایا اور عالمی ضابطوں اور ابلاغی دبائو کے تحت جواز مہیا کیا جارہا ہے۔  اگر اسے قانونی جو از دے د یا جائے تو لوگوں کا رجحان ہی ختم ہونے لگے گا کہ نکاح کی بندش میں بندھ کر نوع انسانی کی پیدائش اور افزائش کی ذمہ داری ادا کریں ۔

  • باہم رضامندی اور فتنہ ہم جنسیت :کہا جاتا ہے کہ ’اگر باہم رضامندی سے دوافراد اس میں ملوث ہوں تو کسی کو کیا پریشانی ہے؟‘ یعنی ایک ہی جنس کے دو افراد ملوث ہوں تو اس کی اجازت انھیں حاصل ہونا چاہیے ۔ مسلمانوں کے لیے تو اس سوال کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن غیر مسلم معاشرے میں بھی یہ گھناؤنا اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ جیسے رشوت ، سودوغیرہ کے لین دین ہو یا جہیز وغیرہ کی رسمیں جو باہم رضامندی سے ہی ہوتی ہیں، لیکن معاشرے میں جرم قرار پاتی ہیں ۔ اگر کوئی آدمی رشوت دیتے ہوئے پکڑا جائے تو سخت سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔

اگر اس ہم جنسیت کے فتنہ کو قانونی جواز مل جائے تو بہترین انسانی نظام تمدن کے بجائے، حیوانی نظام تمدن وجود میں آئے گا جو اپنے مادی غرض و فائدہ کی خاطر اکٹھے تو ضرور ہوتے ہیں ، اور جب تک مرضی اور غرض باقی رہے ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہیں الگ ہو جاتے ہیں ۔ انھیں خاندانی و سماجی نظام تمدن سے کوئی غرض اور سروکا ر نہیں۔ حالانکہ بہ حیثیت انسان وہ خاندانی اور سماجی نظام ہی کے سبب پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ اس کے باوجود حیوانوں کی طرح دنیا میں اپنے پیٹ بھرنے اور شہوانی خواہش پوری کرنے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور ذمہ داری نہ ہو۔  ظاہر ہے کہ اس شنیع فعل میں ملوث افراد کسی کام کے نہیں رہتے، نہ ان کا کوئی اخلاق اور کردار ہوتا ہے، نہ ایسے خود غرض اور نفس پرست انسان ملک کے انتظامی امور اور کوئی سماجی خدمت کرنے کے ہی اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مشتمل معاشرہ، حیوانیت کی سطح سے بھی بہت نیچے اسفل السافلین قرار پائے گا۔

  • اصولوں کا تعیّن  :یہ بات تو تقریباً تمام ہی انسان بجز ملحدین کے ، مانتے ہیں کہ یہ کائنات یعنی یہ آسمان، زمین، چاند، تارے، سورج، غرض ہر چیز خالق کائنات یعنی اللہ نے بنائی ہے، اور ان کو اصولوں یعنی ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ انسانوں یعنی مرد و عورت کو بھی ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا اور انھیں بھی کچھ حدود و قیود مقرر کر کے اختیارات بھی دیئے۔ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت عطا کی اور کچھ اصول وقوانین ان کے لیے متعین کرکے ایک حد کے اندر آزادی بھی بخشی۔ جب سے دنیا بنی پیغمبروں کے ذریعے ہر دور میں بنی آدم کے لیے بنائے گئے، اصولوں کی یاد دہانی کی جاتی رہی۔ اس کی ہر سانس اللہ کے اذن سے ہے اور اللہ جب تک چاہے انسان کی سانس جاری رکھے اور جب چاہے روک کر موت دے دے ۔ غرض انسان کا اپنا جسم اور جان بھی اللہ کی امانت ہے ، انسان خود اپنا بھی مالک نہیں ۔ وہ نہیں جانتا کون کون سے اصول اس کے لیے مفید ہیں اور کون کون سے مضر ؟ تو پھر یہ بے لگام آزادی کیوں؟ میرا جسم میری مرضی کا یہ نعرہ کیسا؟
  • ہم جنسیت پر وعیدیں : اس موذی جرم کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’عمل قومِ لوط اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر ،جو قومِ لوط کا سا عمل کرے‘‘ (مسند احمد)۔ مزید فرمایا: ’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا ، اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہوسکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے؟ حضرت علیؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کی بجائے اس کی لاش جلائی جائے ۔ اسی رائے سے حضرت ابو بکرؓ نے اتفاق فرمایا ۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اس پر ڈھا دی جائے۔ 

ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’بستی کی سب سے اُونچی عمارت سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائےاور اُوپر سے پتھر برسائیں جائیں‘‘۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ: ’’فاعل و مفعول واجب القتل ہیں، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘‘۔ شعبی ، زہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ’’ان کی سزا رجم ہے‘‘۔

سعید بن مسیب، عطا، حسن بصری، ابراہیم نخعی ،سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں ’’اس جرم پر وہی سزادی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گےاور جلا وطن کر دیا جائے گا اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں ’’اس پر کوئی حد مقرر نہیں ، بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزادی جا سکتی ہے‘‘۔ ایک قول امام شافعیؒ سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔

معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’عورت سے یہ فعل کرنے والا ملعون ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت سے نہ دیکھے گا، جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے‘‘۔ (ابن ماجہ، مسند احمد) 

ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے: ’’جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ عملِ قومِ لوط کا ارتکاب کیا ' یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی، اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۂ اعراف ،حاشیہ ۶۸)

الغرض ہم جنسیت نہایت ، گھناؤنا، قبیح اور شنیع فعل ہے۔ اس کے مرتکب افراد اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں ، یہ ایک بھیانک جرم، بدترین گناہ، انسانی تمدن بلکہ فطرت سے جنگ ہے۔

  • ہم جنسیت اور مہلک امراض: یہ ایک نفسیاتی مرض ہے اور صحت کے لیے سمِ قاتل ہے۔ اس میں ملوث افراد مہلک امراضِ خبیثہ میں مبتلا ہو کر اور بے انتہا تکلیفیں اٹھاتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے رابطہ کار افراد کو بھی ان موذی امراض کا شکار بنا جاتے ہیں ۔

سائنسی تجربہ سے سامنے آیا ہے کہ ایڈز جیسے مرض کے ، دوسرے افراد کے مقابلے میں ، کئی گنا زیادہ ہم جنسیت میں ملوث افراد شکار ہوتے ہیں اور اس جرم میں مبتلا افراد میں اس موذی مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اب تک لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کے جو لوگ رابطے میں رہتے ہیں، وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ خصوصاً ان ممالک میں اس بیماری کا گراف بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے جہاں ہم جنسی میں ملوث افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہم جنسی میں مبتلا افراد کی عمر دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں ۳۰ سال کم ہو جاتی ہے ۔ ایسے افراد ہر قسم کی مہلک بیما ریوں میں بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جلد شکار ہو جاتے ہیں۔

  • قومِ لوط میں فتنہ ہم جنسیت: قرآن اور اس کی مختلف تفاسیر، خصوصاً تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق اور فلسطین کے درمیان ایک علاقہ جسے آج کل شرقِ اردن کہا جاتا ہے، وہاں ایک قوم رہتی تھی۔ اس علاقے کے صدر مقام کا نام بائیبل میں ’سدوم‘ بتایا گیا ہے، جو بحیرۂ مُردار کے قریب واقع تھا۔ تلمود میں ہے کہ سدوم کے آس پاس بڑے بڑے شہر تھے اور  ان شہروں کے درمیان کا علاقہ میلوں تک بہترین باغ پر مشتمل تھا۔ اس علاقہ میں ایک قوم آباد تھی جوکئی برائیوں میں مبتلا تھی لیکن اس کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا۔ یہ تو انسانوں کی پرانی روش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خوب نوازتا ہے، بے شمار دولت اور ہر قسم کی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کے بجائے عیش کوشی اور ہر قسم کی بُرائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ نعمتیں تو انھیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔اسی طرح قومِ لوط بھی اللہ سے سرکش اور باغی ہو کر لوٹ کھسوٹ، ظلم و نا انصافی، مسافروں کو قتل کرنا وغیرہ کئی بُرائیوں میں ملوث تھی، لیکن اسی قوم کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا، جسے وہ قوم کھلم کھلا سب کے سامنے اختیار کرتی تھا۔ ظاہر ہے کہ جب پوری قوم اس میں مبتلا تھی تو شرم وحیا کس سے؟ اس قوم کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمٰؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ کو اس علاقے میں بھیجا تاکہ قوم کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان سے برائیوں کو دُور کریں ۔ حضرت لوطؑ نے اس قوم کی اصلاح کے لیے عرصہ تک تمام تر جدوجہد کی لیکن سوائے حضرت لوطؑ کے گھر کے، کسی نے بھی ان کی نصیحتوں اور تنبیہات کو قبول نہیں کیا بلکہ حضرت لوطؑ ہی کو شہر بدر کرنے کی دھمکی دے دی ، حتیٰ کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی ایمان نہ لائی اور اپنی قوم کے ساتھ رہی ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟.... حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ (اعراف۷:۸۰-۸۲ )

اسی طرح سورۂ شعراء (۱۶۰ سے ۱۷۳) میں اس قوم کا ذکر ہے۔ سورۂ عنکبوت میں بھی فرمایا گیا کہ ’’تم وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ؟ کیا تمھارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو؟‘‘ (العنکبوت۲۹: ۲۸-۲۹)

حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو بار بار ان برائیوں کے ارتکاب پر تنبیہ کی، جس میں وہ ملوث تھے، بُرے انجام سے ڈرایا، لیکن اتنی تنبیہات کا اُس قوم نے کوئی اثر قبول نہ کیا، نہ اپنی حرکتوں سے تائب ہوئے۔ بالآخر اللہ کا غضب نازل ہوگیا اور وہ قوم ملیا میٹ کر دی گئی ۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’آخرکار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا۔ اور ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی‘‘ ۔ (الحجر۱۵:۷۳-۷۴)

سورۂ ہود میں ارشاد خداوندی ہے: ’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تا بڑ توڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے یہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں ہے ‘‘۔(ھود ۱۱:۸۲-۸۳)

مولانا مودودی اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’غالباً یہ عذاب سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیاتھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کیا اور آتش فشاں کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہوا۔ بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔ ’اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دُور نہیں‘ سے مراد آج بھی جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں ۔ عذاب اگر قومِ لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے ۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کرسکی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورۂ ہود، حاشیہ ۹۱،۹۳)

سورۂ شعراء میں ارشاد خداوندی ہے: آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل وعیال کو بچالیا بجز ایک بڑھیا کے ، (مراد حضرت لوطؑ کی بیوی جو اسی قوم سے تھی) جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جواُن ڈرائے جانے و الوں پر نازل ہوئی‘‘۔ (سورۂ شعراء، آیات۱۷۰ تا ۱۷۳)

اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید میں اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت لوطؑ جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے (سوائے ان کی بیوی کے ) تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک زور کا دھماکا ہوا۔ ایک ہولناک زلزلہ نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا۔ ایک زبر دست آتش فشانی انفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے اور ایک طوفانی ہوا سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، سوم، سورۂ شعراء حاشیہ۱۱۴ )

  • بحرِ مُردار ، نشان عبرتناک:قومِ لوط پر آئے عذاب کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں‘‘ (الذاریات  ۵۱: ۳۷)۔ اس آیت کے ضمن میں مولانا مودودی فرماتے ہیں: ’’اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار (Dead Sea) ہے، جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مردار کا پانی پھیل گیا تھا ۔ کیونکہ اس جزیرے کا وہ حصہ جو اللسان نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے۔ اور قدیم بحیرۂ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں، وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیاجاتا ہے کہ جنوب کا حصّہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ کا زمانہ ہے… بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے، اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی (تفہیم القرآن، پنجم ، سورئہ ذاریات، حاشیہ ۳۵)۔ اس مقام عبرت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: العنکبوت حاشیہ ۳۵، الشعراء حاشیہ ۱۱۴، الحجرحاشیہ ۶۔
  • سرمایہ دارانہ استعماری سازش:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اپنی کتاب فتنہ ہم جنسیت میں ہم جنسیت کے عالمی فروغ اور اس کے پیچھے سرمایہ دارانہ مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم جنسیت سماج کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے اور انسانی آبادی پر اس کے اتنے بھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں تو پھر دنیا میں اسے اتنا بڑھاوا کیوں دیا جارہا ہے؟ سو سے زیادہ ممالک اسے قابلِ تعزیر جرائم کی فہرست سے خارج کرچکے ہیں، اور ان کو (اس جرم میں ملوث افراد کو) سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ دورِ موجودہ سرمایہ داروں کا ہے۔ انھی کے اشاروں پرممالک کی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں، قانون بنائے جاتے ہیں۔ جن کاموں میں سرمایہ داروں کا فائدہ ہوتا ہے انھیں فروغ دیا جاتا ہے اور جن چیزوں میں ان کا فائدہ نہیں ہوتا ان کی ہمت شکنی کی جاتی ہے۔ ہم جنسیت نے موجودہ دور میں عالمی سطح پر بہت بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مختلف ممالک میں ہم جنسیت کے حامی افراد کے لیے مخصوص بڑے بڑے ہوٹل قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے کلب (Gay Clubs) چل رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ان سے متعلق لٹریچر شائع ہورہا ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کے مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوتی ہیں۔ اسی طرح عیش و مستی کے دیگر پروگرام اور تقریبات ہوتی ہیں۔ ان سب میں سرمایہ داروں کا اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سرمایہ کے اضافے کے لیے چاہتے ہیں کہ ہم جنسیت کا کاروبار خوب چمکے‘‘۔

وہ لکھتے ہیں: ’’اس شنیع فعل یعنی ہم جنسیت کو سب سے پہلے یونان نے بڑھاوا دیا۔ اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ پھر یورپ اور امریکا نے بھی اس کے حق میں زبردست آواز اٹھائی اور کئی ممالک نے اسے قانونی جواز فراہم کردیا۔ہم جنسیت تمام مذاہب میں گھناؤنا عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انیسویں صدی کے اواخر سے اس کے حق میں آواز بلند ہوئی۔ بیسویں صدی کے نصف اوّل میں متعدد مغربی ممالک کے قوانین میں ترمیم کی گئی اور اس عمل پر سزا ساقط کی گئی۔ پھر عوامی سطح پر ہم جنسیت کے حامی افراد نے منظم ہوکر جگہ جگہ مظاہرے کیے، کانفرنسیں منعقد کیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ پہلے ایسے افراد کو حکومتی، انتظامی اور فوجی مناصب کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا، لیکن ان افراد کی منظم کوشش اور دباؤ کی بنا پر آہستہ آہستہ ان کے حقوق تسلیم کیے جانے لگے اور انھیں ہر منصب کے لیے اہل قرار دیا گیا۔ پھر ان کے حق میں دائمی رفاقت کے قانون (Partnership Act) منظور کیے گئے اور اجازت دی گئی کہ ہم جنسیت پر عامل افراد بھی پارٹنر کی حیثیت سے منسلک ہوکر ایک جوڑے کی شکل میں (نکاحی جوڑوں کی طرح) رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ملکیت، وراثت، امیگریشن ٹیکس اور سوشل سیکوریٹی کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے جوڑوں کو بچوں کو گود لینے کا بھی حق دیا گیا‘‘۔(ایضاً)

  • ہندستان کا حال:اسی طرح :’’ہندوستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں زمانۂ قدیم سے ہم جنسیت کو قابلِ نفرت عمل سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ ۱۸۶۱ءمیں تشکیل پانے والے ’تعزیراتِ ہند‘ (Indian Panel Code)کی دفعہ ۳۷۷ میں ہم جنسیت کو ایک غیرقانونی فعل اور جرم قرار دیا گیا، جس پر ۱۰ سال عمرقید تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ لیکن دنیا کے دوسرے ممالک میں اس جرم کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تو ہندوستان میں بھی ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کرنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے حکومت ہند سے اس دفعہ کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا۔ لا کمیشن آف انڈیا نے ۲۰۰۰ءمیں اپنی ۱۷۲ ویں رپورٹ میں قانون کی اس دفعہ کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ اس مہم میں تیزی اس وقت آئی، جب ایک سماجی تنظیم ’ناز فاونڈیشن‘ نے ’تعزیراتِ ہند‘ کی مذکورہ دفعہ کو ختم کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی عرضی داخل کی۔ ساتھ ہی بڑے شہروں مثلاً دہلی، بنگلور، کلکتہ اور ممبئی وغیرہ میں ہم جنسیت کے حامی افراد کے مظاہرے کرائے گئے۔ بالآخر ۲ جولائی ۲۰۰۹ءمیں دہلی ہائی کورٹ نے ’تعزیراتِ ہند‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کردیا۔اس فیصلے سے ہم جنسیت کے حامی افراد کی سرگرمیاں مزید تیز ترہوگئیں، آن لائن میگزینوں کا اجراءہوا اور بھی کئی سرگرمیاں عمل میں آنے لگیں۔ جماعت اسلامی ہند ، ہم جنسیت کے خلاف مہم میں شروع ہی سے پیش پیش رہی۔ جماعت نے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے ہم جنسیت کو متمدن سماج کے لیے خطرہ قرار دیا۔ دوسری طرف ملک کی مختلف تنظیموں اور سماجی اداروں نے  مل کر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔ ۱۱دسمبر ۲۰۱۳ءکو جسٹس سنگھوی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ جس عمل کو قانون میں جرم قرار دیا گیا ہے اسے عدالت جرائم کی فہرست سے خارج نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کیا جارہا ہے۔ناز فاونڈیشن نے دوبارہ سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر سپریم کورٹ نے وہ اپیل بھی رَد کردی۔ ساتھ ہی عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے۔ اگر وہ چاہے تو پارلیمنٹ سے قانون منظور کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرسکتی ہے‘‘۔(فتنہ ہم جنسیت )

مولانا جلال الدین عمری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۱۳ء کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی میں منعقدہ ایک بین المذاہب اجلاس کے صدارتی خطاب میں بھارت کی سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنسیت کے خلاف ایک فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا: ’’اس وقت اسٹیج پر مختلف مذاہب کے نمائندے جمع ہیں۔ یہ سب ہم جنسیت کے خلاف ہیں۔ اس معاملہ میں اسلام کا جو نقطۂ نظر ہے، وہی دیگر مذاہب کا بھی ہے۔ضرورت ہے کہ ہم حکومت کے ذمہ داران سے کہیں کہ وہ اس دفعہ(۳۷۷) کو ختم کرنے کی نادانی نہ کریں۔ ہم پارلیمنٹ کے ممبروں سے کہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے ایسی نادانی ہو تو آپ ہرگز اس کی تائید نہ کریں۔ اسی طرح ہم ملک کے عوام سے کہیں کہ آپ لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ ایک برائی اگر پنپتی ہے تو وہ دوسری برائیوں کے لیے راستہ کھول دے گی۔ پھر ان برائیوں کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا‘‘۔

  • فساد برپا ہونا: یہ بات پہلے سے ہی ظاہر تھی کہ ہم جنسیت وہ شنیع فعل اور گھناؤنا عمل ہے اگر اس عمل کو بڑھاوا دیا جائے گا تو معاشرہ بلکہ دنیا کس کس طرح کی تباہی سے دوچار ہوگی، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ یہ صرف دو افراد ہی کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ پورا معاشرہ بربادی کے دہانے پر جاپہنچے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں‘‘۔ (الروم۳۰:۱۴)

یہ اللہ اور آخرت کو بھول جانے یا اس سے انجان بننے یا نظر چرانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر اس طوفانِ بلا کو روکا نہ گیا تو انسان اپنی انسانیت ہی کھو دیں گے۔ اس طرح کے رویے جو کوئی قوم اختیار کرے یا دنیا بھر کے غلیظ انسان، اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی۔

اگر اُمتِ مسلمہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد سے اپنی اقامتِ دین کی ذمہ داری پوری کر رہی ہوتی اور فکری اور عملی شہادت دینے کی کوشش کا فریضہ انجام دیتی رہتی، تو آج دنیا اس طرح تباہی کے غار میں نہ گرتی۔  اگر دنیا بھر میں مسلم معاشرہ احکامِ الٰہی اور رسولؐ کے مطابق گامزن ہوتا اور دنیا کے سامنے ایک بہترین ماڈل بنا رہتا تو ظاہر ہے کہ دوسری گمراہیوں کے ساتھ یہ گمراہی ہی ناپیدا ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ نبیؐ کے بعد سے اُمت اپنا مقصد ہی بھول بیٹھی۔ حق کے علَم برداروں نے اپنے مادی اور دنیاوی مفاد کو سامنے رکھا، اور اپنی دین حق قائم کرنے کی ذمہ داری بھول گئے اور زمین کو باطل پرستوں کے لیے چھوڑ دیا۔

اب ،جب کہ دنیا میں خلافتِ الٰہیہ قائم نہ رہ سکی تو اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری کم ہونے کے بجائے بڑھ چکی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان و معاشرہ کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی تگ و دو میں لگ جائیں۔ اس طرح کہ معاشرہ کا کوئی فرد بھی حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوتاہی نہ برت سکے۔ خواہ کمانے اور خرچ کرنے کا معاملہ ہو یا شادی بیاہ اور وراثت کی تقسیم وغیرہ کا یا باہمی حقوق کی ادائیگی کا سوال ہو، کسی ایک عمل میں بھی امت کا کوئی فرد اللہ کی نافرمانی نہ کرنے پائے۔ اور سب سے اہم یہ کہ معاشرہ کا ہر فرد اللہ کے دین کو تمام دین سے نا آشنا بندوں تک پہنچانے میں نہایت مستعد ہو اور اسے اوّلین فریضہ سمجھے۔ ساتھ ہی اُمتِ مسلمہ کے ہر ہرفرد میں یہ شعور اُجاگر ہو کہ اللہ کی زمین میں اسی کا دین، اسی کے قوانین چلنے چاہئیں یعنی خلافت قائم ہو۔

مرد و عورت کا مخلوط میل جول اسلام کا مزاج نہیں اور یہ افعال اسلام میں ناجائز ہیں۔ اس سے دوسرے افراد اور اپنی اولاد اور متعلقین کو بچائیں۔ اپنے بچوں کو بے حیائی اور اخلاق باختہ مغربی کلچر سے بچائیں۔ انھیں ایک حد تک آزادی دیتے ہوئے بھی ان پر اور ان کی دلچسپیوں پر نظر رکھیں ۔ قرآنی تعلیم اور اُمتِ مسلمہ کے نصب العین سے انھیں شروع ہی سے باخبر رکھیں۔ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اللہ کے دین کے غلبہ کی کوششوں میں کوتاہی نہ رہ جائے۔

یہ صرف اسلامی تحریکوں ہی کی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پوری امہ کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنے کے طوفان کو روکیں۔ پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے عبرت حاصل کریں۔ اللہ کی طرف گامزن ہوں، اللہ کی اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں اور اللہ کے دین سے نا آشنا بندوں کو بھی ان کی غلط روش سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ حکمت اور محبت سے پچھلی قوموں پر آئے عذاب سے باخبر کریں۔ انھیں بھی اس فتنہ سے برپا ہونے والی تباہیوں سے آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں کہ کس طرح فتنہ ہم جنسیت کی شکل میں عظیم تباہی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور کس طرح ہم جنسیت میںملوث افراد دنیا کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔

۱۰ نومبر ۲۰۲۴ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک تصویر جاری کی، جس میں نظرآرہا ہے کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب ’سموگ‘ کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے، جنھیں خلا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس تصویر کو دنیا بھر کے میڈیا نے دکھایا ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نمبر وَن کا مقابلہ لاہور اور نئی دہلی میں چل رہا ہے۔ کبھی ایک آگے ہوتا ہے تو کبھی دوسرا، لیکن اگر سال بھر کا ڈیٹا دیکھا جائے تو لاہور دنیا کا پانچواں، فیصل آباد ۱۲واں اور پشاور ۳۴واں آلودہ ترین شہر ہے۔ دنیا کے ۵۰ آلودہ ترین شہروں میں سے ۴۲ انڈیا میں اور تین پاکستان میں واقع ہیں۔ گویا پوری دنیا میں آلودگی میں نمبر ون یہی خطہ ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں۔

’سموگ‘ کا لفظ پہلی بار دنیا میں ۱۹۰۵ء میں اس وقت استعمال ہوا، جب برطانیہ کے بہت سے شہر اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ ۱۹۰۹ءمیں صرف گلاسکو اور ایڈنبرا میں سموگ سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، لیکن آج یورپ، چین یا امریکا جیسے صنعتی ممالک کے بجائے دنیا کے آلودہ ترین ملکوں میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ۷۰ لاکھ لوگ ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں، جن کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے۔ پاکستان گذشتہ دس برسوں سے سموگ سے بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، مگر اس سال سموگ کا موسم اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہی شروع ہو گیا اور نومبر کے پہلے ہفتے میں لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس نے ایک ہزار کے ہندسوں کو چھوتے ہوئے دنیا کے آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا تھا۔شکاگو یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب فضائی آلودگی اس حد تک پہنچ جائے تو وہاں رہنے والے انسانوں کی اوسط زندگی پونے چار سال کم ہو جاتی ہے۔

کیا سموگ میں اضافے کی وجہ چاولوں کی فصل کو آگ لگانا ہے؟

یاد رہے فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ پرانی اور خراب گاڑیوں سے جو دھواں نکلتا ہے، اس میں نائٹروجن آکسائیڈز، پی ایم ۱۰ اور پی ایم۲ء۵  نامی زہریلے ذرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے چھوڑے ہوئے دھوئیں سے سلفر، اوزون وی او سی، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔

جلائی جانے والی فصلوں کا دھواں اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ پنجاب میں سموگ بڑھنے کی وجوہ کا جائزہ لینے کے لیے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر ’فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن‘ نے ۲۰۱۹ء میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی، جس کے مطابق پنجاب کی سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ سب سے زیادہ یعنی ۴۳ فی صد ہے۔

دوسرے نمبر پر صنعتی شعبہ ہے جس کا حصہ ۲۵  فی صد، زراعت کا ۲۰ فی صد، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور جنریٹروں سے نکلنے والے دھوئیں کا حصہ ۱۲ فی صد ہے۔ اگر صرف لاہور کی سموگ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ۸۳ فی صد ذمہ داری گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی ہے۔ لاہور میں چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد ۷۳لاکھ ہے۔ حالیہ برسوں میں ’بائیکیا‘ اور ’آن لائن ڈیلیوری سسٹم‘ کا بڑھتا ہوا استعمال بھی سموگ میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔

ٹو سٹروک موٹر سائیکلوں کا آلودگی میں مجموعی حصہ ۶۹ فی صد بنتا ہے اور کاروں اور جیپوں کا ۲۳ فی صد ہے۔ پاکستان میں یورو ۲ معیار کا پیٹرول ۱۹۹۲ء سے استعمال ہو رہا ہے، جس کا حصہ ۷۰فی صد ہے۔ ۲۰۱۹ء میں فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے یورو ۵ کو رواج دیا گیا مگر اس کا مارکیٹ شیئر ابھی تک صرف ۱۰ فی صد ہے۔ یورو ۲ کے مقابلے میں یورو ۵ کے استعمال سے گاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک ذرات اور دھوئیں کی مقدار ۶۰ فی صد تک کم ہو جاتی ہے۔

عموماً سموگ میں اضافے کو چاول کی فصل کی باقیات یعنی ’مُنجی‘ جلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے، مگر یہ سموگ کی پہلی یا دوسری نہیں بلکہ تیسری وجہ ہے۔ تاہم، حکومت پنجاب اب کسانوں کو ایسی مشینری خریدنے پر سبسڈی دے رہی ہے، جس سے انھیں چاول کی فصل کی باقیات جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔(بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)

فضائی آلودگی سے نقصان

سموگ سے بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بچوں میں سانس، ناک اور گلے کے ساتھ دل کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے آپ کو اینگزائٹی اور ڈیمنشیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی ۶۰  فی صد آبادی ایسی جگہوں پر رہائش پذیر ہے، جہاں شدید آلودگی ہے اور سال میں کم از کم سات بار اسے زہریلی ترین فضا میں سانس لینا پڑتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ اموات میں سے ۲۰۰؍ اموات کی وجہ فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ہر سال ۲۲ہزار بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور چار کروڑ افراد کو ناک کا انفیکشن ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ہر سال ۲۸ ہزار لوگ آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ آج کل ہر دوسرا فرد گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کی شکایت کر رہا ہے۔ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ موٹر ویز بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ دفاتر، فیکٹریوں اور اسکولوں میں حاضریاں محدود ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ سرکاری اور نجی ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پی ایم۲ء۵  نامی زہریلے مادے سے عالمی معیشت کو سالانہ ۸۱ کھرب ڈالر نقصان ہو رہا ہے،جب کہ پاکستانی معیشت کو سالانہ پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ ۲۰؍ ارب ڈالر ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک حالیہ رپورٹ ’Unveiling The Smog Crisis Solutions Ahead ‘ کے مطابق سموگ سے فصلوں اور ایکو سسٹم کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

پودوں کی افزائش کے ساتھ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔ صرف چاول اور گندم کی پیداوار ۵ سے ۲۰ فی صد کم ہو چکی ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کی ایک تحقیق کے مطابق سموگ پودوں کی افزائش کو ۱۰ سے ۴۰  فی صد تک متاثر کرتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ۲۰۳۰ء تک فضائی آلودگی میں ۵۰ فی صد مزید اضافہ ہو جائے گا۔

مسئلہ قانون میں ہے یا حکمتِ عملی میں؟

’پاکستان انوائرمینٹل پرفارمنس انڈیکس‘ میں دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں ۱۷۹ ویں نمبر پر ہے۔ آخری ملک سے ایک درجے اوپر کا مقام، کیا یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہمیں بحیثیت قوم کیا کچھ کرنا ہے؟

اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم سیاسی عزم اور دیرپا پالیسیاں ہیں۔ ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر شفقت منیر نے بتایا ہے کہ’’سموگ کا کنٹرول اس لیے نہیں ہوتا کہ اس پر سال کے آٹھ ہفتے فوکس ہوتا ہے اور جب سموگ ختم ہوجاتی ہے تو سب بھول بھال جاتے ہیں، اس کے لیے طویل المدتی اور دیرپا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سماجی سطح پر بھی اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

 ناسا کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق فصلوں کو جلانے کے ۸۰ فی صد واقعات انڈین علاقے میں ہو رہے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گذشتہ دنوں ایک بیان دیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو انڈیا کے ساتھ اٹھانا چاہتی ہیں، کیونکہ آلودگی کو سرحد پار کرنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر خود سرحد کے اندر صوبوں اور وفاق میں کوئی باہمی حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کا دائرہ کار صرف اسلام آباد تک محدود کیوں ہے؟

جب اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف شاہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا دائرۂ کار اسلام آباد تک محدود ہے، جہاں فضائی آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صوبے اپنے اپنے طور پر کام کررہے ہیں‘‘۔ ان سے پوچھا: کیا اگلے چند برسوں میں اسلام آباد میں بھی لاہور والی صورت حال ہو سکتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے وفاق کا کیا لائحہ عمل ہو گا؟ انھوں نے جواب دینے کے بجائے کہا کہ وہ فی الوقت مصروف ہیں اور ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے ۱۹۸۳ء کے ایک ’انوائرمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس‘ کے تحت ۱۹۹۳ء میں ’نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرز‘ کی تشکیل کی گئی اور ۱۹۹۹ء میں ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن‘ کونسل بنائی گئی۔ تاہم، پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ۶ دسمبر ۱۹۹۷ء کو ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس کیا گیا، جو ماحولیاتی تحفظ کی وسیع البنیاد حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔ اسی کے تحت یکم جنوری ۲۰۱۲ءکو ’پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی‘ بنائی گئی۔

۲۰۰۰ء میں نیشنل انوائرمینٹل کوالٹی سٹینڈرڈ میں تبدیلی لائی گئی۔ ۱۹۹۷ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل ایکٹ‘  پاس کیا گیا۔ پھر یہی کام ۲۰۱۶ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ‘ کو سونپ دیا گیا، جس نے ۲۰۱۷ء میں ’پنجاب سموگ پالیسی اینڈ ایکشن پلان‘ دیا۔۲۰۱۸ء میں ’پنجاب کلین ایئر ایکشن پروگرام‘ ، ۲۰۱۸ء ہی میں ’پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام‘، ۲۰۲۱ء میں ’پنجاب سموگ کنٹرول آرڈی ننس‘، ۲۰۲۲ء میں ’پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن‘ میں ترمیم کرنے کے بعد ۲۰۲۳ء میں ’نیشنل کلین ائر پالیسی‘ تشکیل دی گئی۔ گذشتہ دو عشروں سے پاکستان میں ماحول بدسے بدتر ہوتا آرہا ہے۔ دوسری جانب مسئلے کے حل کے نام پر درجنوں قوانین اور ادارے بنادیے جاتے ہیں، جن کی عملی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ (بحوالہ: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس)

 ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۴۰ لاکھ سے زائد کاریں اور ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ سے زائد موٹر سائیکل ہیں۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے کُل ایندھن میں سے ۴۰  فی صد صرف موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان نے ۷۳؍ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سالوں میں ۱۵؍ ارب ڈالر کا تیل ان موٹرسائیکلوں میں استعمال ہوا، جن کا ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی میں حصہ ۶۹ فی صد ہے۔ اتنی رقم اگر ہم شہروں میں ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ پر لگاتے تو آج اس صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

اقبال کی فکر اپنے موضوعات اور اپنے مطالب کے لحاظ سے ان عنوانات کا احاطہ کرتی ہے، جو دراصل ہمارے عقائد و نظریات اور ہماری تاریخ و تہذیب سے متعلق ہیں اور یہ اپنی قوم اور ملّت کو اپنے بنیادی عقائد اور تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرنے کے مقاصد کی حامل بھی ہے۔اس اعتبار سے اپنی فکر اور پیغام کے لحاظ سے اقبال بیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی سب سے اہم اور مؤثر شخصیت ثابت ہیں جنھیں محض عالمِ اسلام ہی نہیں مغرب میں بھی شناخت و تسلیم کیاگیاہے۔ اگرچہ ان کے اوّلین مخاطب ایک حد تک جنوبی ایشیا کے مسلمان رہے اور ان کی فکر کے اثرات یہاں کے مسلمانوں پر زیادہ واضح بھی ہیں، لیکن دنیائے اسلام کے دیگر ممالک میں اور وہاں کے افکار و تحریکات پر بھی ان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

اقبال نہ صرف گذشتہ صدی میں دنیائے اسلام کے منفرد اور ممتاز مفکر ہیں، بلکہ اپنے عہد میں ملّتِ اسلامیہ کے معمار بھی ہیں کیوں کہ اپنے وقت کے فکری اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے، فکرِ اسلامی کو جمود سے نکالنے اور اس کی تشکیلِ جدید میں ان کا حصہ سب سے نمایاں ہے۔ پھربحیثیتِ مفکربھی اقبال کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے اپنے عہد کی فکری اور جذباتی زندگی میں بیداری اور اضطراب پیدا کردیا۔ ان کی فکر میں دنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم افکار و تحریکات کی بازگشت یاان پر تنقید محسوس ہوتی ہے۔ جن مسائل نے ملّتِ اسلامیہ کو انتشار اور اضطراب میں مبتلا کردیا تھا اور جو اسے اپنے اسلامی تشخص سے دُور کررہے تھے، اقبال کی بھرپور تنقید کا نشانہ بنے اور جو افکار، تحریکیں اور شخصیات دنیائے اسلام کی فلاح، اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوئیں، اقبال نے ان کی تائید و ستائش کی۔ اس طرح اپنے مقصد اور پیغام کے لحاظ سے اقبال نے احیائے اسلام کے لیے نہ صرف ایک مربوط اور مستحکم فکر کی تشکیل کی بلکہ ملّتِ اسلامیہ میں دنیائے اسلام کی آزادی، خودمختاری اور بہتر مستقبل کی تعمیر کا احساس بھی پیدا کیا۔

جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر بالخصوص ان کا احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی فکر اور شاعری کے توسط سے ان میں قومی و ملّی شعور بیدار کیا، ان میں آزادی کی تڑپ اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا جذبہ پیدا کیا اور عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور مستقل نظامِ فکر تشکیل دیا تاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی کردار (یعنی خودی) کی تعمیر کرسکیں۔ اس لحاظ سے فکرِ اقبال کا مطالعہ دراصل ملّتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد و نظریات، اس کی تاریخ و تہذیب اور اس کے نشیب و فراز کا مطالعہ ہے، جو اگر جنوبی ایشیا کے تناظر میں کیا جائے تو اس کے توسط سے مسلمان اپنے جداگانہ ملّی و تہذیبی عناصر سے آگاہی اور ہندوستان کے سیاسی و معاشرتی ماحول میں اپنے علیحدہ قومی تشخص سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں، اور اپنے بنیادی عقائد و ملّی مقاصد کے تحت ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام اور اس میں ایک فلاحی و رفاہی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل تک رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اقبال کی فکر اور شاعری کا مطالعہ، بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو جہاں ایک طرف اپنی تاریخ و تہذیب سے قریب تر کرتا ہے، وہیں پاکستان میں ایک مکمل اسلامی معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔ یوں اسے ایک مستقل حیثیت میں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ بننا چاہیے۔

اس وقت ہمارے تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت اور ان کا پیغام اور ان کی فکر کو، چاہے کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں اور اس حوالے سے جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں ان سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے۔

یہ صرف اقبال کے افکار و خیالات کی حد تک ہی نہیں، ہمارا نصابِ تعلیم اپنی مجموعی حیثیت اور بہت واضح صورت میں نظریۂ پاکستان کے بنیادی عناصر، جن میں حصول و قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد، مسلمانوں کی ملّی و تہذیبی فکر و تاریخ اور عقائد و افکار شامل ہیں اور اپنے قومی و ملّی تقاضوں کے مطابق جدید دنیا کا حصہ رہتے ہوئے ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف نہ اپنے طلبہ کی مناسب رہنمائی کرتا ہے، نہ انھیں بہ حیثیت پاکستانی، مؤثر صورت میں ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی وجود کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔

ابتدائی و ثانوی درجات کے نصاب کی چند کتب میں، بعض اسلاف کے تذکروں کے ساتھ، اقبال کی کچھ نظموں یا ان کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نصاب پاکستانی قوم اور معاشرے کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگیا! لیکن ایسی تمام ’مخلصانہ یا مصلحت آمیز‘ کوششوں کے باوجود ہمارا نصاب اپنے مذکورہ حقیقی مقاصد و مزاج اور اپنے مفید اثرات سے بڑی حد تک عاری ہے۔ ہم ہر صوبے اور علاقے کے نصابوں میں اس متعلقہ صوبے کے اکابر اور جغرافیائی و علاقائی موضوعات کو زیادہ حاوی دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے وفاقی نصابوں سے، اور خود ایسے صوبائی نصابوں سے بھی، جنھیں وفاقی حکومت تجویز یا مرتب کرتی رہی ہے یا کرتی ہے، زیادہ تر نصاب کے صوبائی یا علاقائی ہونے کا تاثر ابھرتا ہے، اور قومی و ملّی نقطۂ نظر سے یہی ہمارے نصاب کی بدقسمتی، محرومی یا کمزوری ہے۔ بعض تعلیمی سفارشات کے تجویز کردہ مناسب رہنما خطوط کے باوجود ذمہ دار وفاقی اور صوبائی نصابی مجلسیں اور ادارے ان خطوط سے ہم آہنگ موزوں و معیاری نصاب کی عدم موجودگی اور اس کی ترتیب میں مسلسل ناکامیابی اور اداروں اور  ان سے منسلک افراد کی ایک حد تک بے نیازی، عدم آمادگی اور نااہلی کی طرف ذہن کو منتقل کرتی ہے، جب کہ دوسری جانب ایسے اداروں سے منسلک بیش تر افراد کا خلوص شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

چنانچہ اقبال کے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے۔ اگر فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے کی طرف توجہ دی بھی گئی ہے تومحض ٹالنے کے لیے،  لہٰذا اس کا حق ادا نہ ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ جہاں جہاں اور جس درجے میں اقبال کو نصاب میں شامل کیا گیا، محض ان کی معروف و دل چسپ نظموں یا اقبال کی شخصیت و سوانح کے سرسری تعارف کو شامل کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ نصاب یا موضوع کا حق ادا ہوگیا، اس طرح بات خانہ پُری سے آگے نہ بڑھی۔ ملّتِ اسلامیہ اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو درپیش قومی و سیاسی اور معاشرتی مسائل میں فکرِ اقبال سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے یا تعمیر کردار اور ایک نظریاتی و فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں جس طرح اسے استعمال کیا جاسکتا ہے، ہمارا نصاب اس قسم کی مثال شاذ ہی پیش کرسکتا ہے۔ اور ایسی جو بھی اکّا دکّا مثالیں نظر آتی ہیں، وہ بعض اعلیٰ سطحی درجات یا استثنائی طور پر’ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘ کی چند نصابی کتب میں ملتی ہیں۔ جب کہ ابتدائی اور بالخصوص ثانوی درجات کے نصابات، جہاں طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اور ان کا ذہن قدرے سادہ و ناپختہ اور جذب و قبول کا اہل ہوتا ہے، فکرِ اقبال کی شمولیت بہت زیادہ توجہ چاہتی ہے۔ پھر اس کی شمولیت کا انداز و نہج اور معیار تمام متعلقہ نصابوں میں، صوبائی و علاقائی حوالے سے قطع نظر، یکساں اہمیت کے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ لحاظ بھی رہنا چاہیے کہ مثلاً اقبال کی ایک نظم کسی نصاب میں ثانوی درجے میں شامل ہے تو وہ اسی جگہ یا کسی اور جگہ کسی اعلیٰ یا کم تر درجے میں شامل نہ رہے۔ موجودہ نصابوں میں یہ تعجب خیز صورت رابطے کی کمی کے باعث موجود ہے کہ کسی جگہ اقبال کی ایک نظم ثانوی درجے میں شامل ہے، وہی نظم خود اسی جگہ یا کسی اعلیٰ ثانوی نصاب میں بلکہ ایک اور جگہ ڈگری سطح کے نصاب میںبھی نظر آتی ہے۔ ان کی نثر بھی کم و بیش اسی صورتِ حال سے دوچار ہوئی ہے (اور یہ صرف اقبال کے ساتھ ہی نہیں، دیگر قدیم و جدید مصنّفین کے ساتھ بھی ہوا ہے)۔

ان سارے مسائل اور اس صورتِ حال کا مداوا یا تلافی میرے خیال میں درجِ ذیل صورتوں میں ممکن ہے:

            ۱-         نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ محض مخصوص صورتوں میں جزوی موضوعات اور عنوانات ہر صوبے یا علاقے کی حد تک اضافی ہوں اور اس تمام نصاب کی ترتیب میں تمام صوبوں کو مناسب نمائندگی حاصل رہے۔

            ۲-         نصاب میں اقبالیات سے متعلق موضوعات اور فکرِ اقبال پر مشتمل مضامین اور نظم و نثر کو مرحلہ وار شامل کیا جانا چاہیے۔

            الف: پرائمری سطح تک اقبال کی ایسی منظومات شامل کی جائیں، جو سبق آموز ہوں اور جن سے انسانوں کے درمیان محبت و اخوت اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہوں۔

            ب:        ثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح کے نصاب میں تعمیرِ سیرت، مسلمانوں کے شاندار ماضی، بہتر (اسلامی) معاشرے کے قیام میں فرد کے کردار اور اسلام کے قومی و تہذیبی تصورات جیسے موضوعات پر مؤثر اور دل چسپ تحریریں شامل ہوں۔

            ج:         ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اور مضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔

            ۳-         اگر نصاب کو محض وفاقی سطح پر مرتب کرکے نافذ کرنا قرینِ مصلحت نہ ہو تو اسے کم از کم مذکورہ بالا تجویز ۲ کے مطابق مرتب یا یکسانیت سے بچا جاسکتا ہے۔

یہاں یہ معروضات صرف اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر رائج نصابات کے تعلق سے پیش کی گئی ہیں، جب کہ اگر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحات کے موضوعات کوفکرِ اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکواختیارکرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔

  • خلاصۂ بحث: اس وقت ہمارے تعلیمی نصاب میں جہاں جہاں اقبال کی شخصیت اور ان کا پیغام اور ان کی فکر کو، چاہے کسی پیرائے (شاعری، خطبات، مقالات، مکاتیب) میں بھی پیش کرنے کی طرف توجہ دی گئی ہے، وہ پورے طور پر قابلِ اطمینان نہیں اور ایسی کوششیں ہمارے نصابوں میں فکرِ اقبال کی شمولیت کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں اور اس حوالے سے جو جائزے لیے گئے یا مطالعات کیے گئے ہیں ان سے بھی بے اطمینانی کی یہی صورت ظاہر ہوتی ہے۔

اس صورتِ حال میں ہمیں نصاب کوقومی و ملی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے  فوری طور پر اصلاح و ترمیم اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے نصاب، بالخصوص وہ نصاب، جس کی نظریاتی و قومی اور معاشرتی اہمیت ہے یا جن میں متعلقہ موضوعات کو بہ آسانی پیش کیا جاسکتا ہے، صرف وفاقی سطح پر ترتیب دیا جائے اور پھر اسی کو سارے صوبوں میں رائج کیا جائے۔ڈگری اور اعلیٰ سطحوں پر فکرِ اقبال کے اہم نکات اورمضامین کو عالمی اور دنیائے اسلام کے تناظر میں اس طرح پیش کیا جاناچاہیے کہ یہ مسلمانوں کے لیے عصری تقاضوں کی موجودگی میں ایک فلاحی معاشرے اور اسلامی مملکت کے قیام میں رہنما ثابت ہوسکیں۔

 اگراقبالیات کے مطالعات و تحقیقات موضوع بنیں تو ان کے لیے ظاہر ہے ایسے نصابی تکلفات کے بجائے اس سطح کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق موضوعات اور منصوبوں کی بابت سوچا جانا چاہیے اور ان سطحوں کے موضوعات کوفکر اقبال کے تناظر میں قوم و معاشرے کی اصلاح و بہتری اورتعمیر و ترقی کے مقاصد کے تحت طے کیاجانا چاہیے۔اس سطح پر محض احوال و آثار اور سرسری و سطحی جائزوںکو اختیارکرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ان سطحوں کے مطالعات میں اگرمقررہ نصابی تربیت اورسرگرمیوں کا کسی طرح کا التزام رکھا جاتا ہے اور مطالعات و تحقیقات کسی طرح سے اور کسی بھی حوالے سے فکرِ اقبال سے منسلک ہوں، تو ان کا نصاب اور لائحہ عمل اقبال کی فکر اور مقاصد کو مجروح کرنے کا سبب نہ بنیں بلکہ مطالعات ِ اقبال کے لیے معاون اوران کے فروغ کا سبب بنیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس میں قائد اعظمؒ نے اس بات کا عزم کیاتھا کہ ملک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ ۱۹۵۹ء میں نیشنل کمیشن برائے تعلیم نے ۱۰ سال تک کے بچوں کے لیے لازمی اور یکساں تعلیم کا اصولی اعلان کیا، اور ۱۹۷۰ء کی تعلیمی پالیسی نے جماعت دہم تک مفت تعلیم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔۱۹۷۳ء میں، یہ وعدہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل۲۵-اے کی شکل میں ڈھل کر ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار پایا، جو ہرشہری کے لیے معیاری اور مفت تعلیم کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔

ہر تعلیمی پالیسی میں بنیادی اور معیاری تعلیم کو ریاست کا فریضہ قرار دیا گیا، اور اس اصول کو برقرار رکھتے ہوئے شہریوں کے تعلیمی حقوق کا تحفظ کرنے کا عزم کیا گیا۔لیکن افسوس کہ یہ وعدہ صرف پالیسیوں اور قوانین کی حد تک محدود رہا، عملی اقدامات کے لحاظ سے ہمیشہ کمی رہی۔ حکومتوں نے آئین کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے تعلیمی شعبے کو ترجیحات سے باہر رکھا اور تعلیمی اداروں کی بہتری کے بجائے ان کی نج کاری جیسی فرار کی راہیں اپنائیں۔ نج کاری کا یہ راستہ فوری مسائل کا عارضی حل تو دے سکتا ہے، مگر آنے والے دنوں میں یہ گھمبیر صورت حال کو جنم دے گا۔ اگر آج اس رویے کو روکا نہ گیا، تو ہماری آیندہ نسلیں اس کوتاہی کا خمیازہ بھگتیں گی۔

ترقی یافتہ قومیں تعلیم کو بنیادی حق سمجھ کر اپنے شہریوں کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہیں، جب کہ ہماری حکومتیں تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر کے ملک کو مزید تاریکی میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ رویہ صرف تعلیمی بحران نہیں، بلکہ ہمارے مستقبل کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنے گا۔

  • نج کاری کا آغاز اور اثرات: ۱۹۷۸ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے تعلیمی نج کاری کا دروازہ کھولا، جسے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا راستہ ۱۹۹۱ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت کے بعد ملا۔ فیصلہ کیا گیا کہ نج کاری سے حاصل ہونے والے ۹۰فی صد فنڈز ملک کے قرضوں کا بوجھ کم کرنے پر خرچ ہوں گے، جب کہ ۱۰ فی صد غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو مثال بنایا گیا، جنھوں نے قومی اداروں کی نج کاری سے ٹریڈ یونینز کو کمزور کرنے اور سرکاری کنٹرول کو ختم کرنے کا راستہ اپنایا تھا۔ لیکن اس پالیسی کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے اور دس سال میں برطانیہ میں بجلی کے بلوں میں ۱۴۰ فی صد،جب کہ پانی کے بلوں میں ۷۴ فی صد اضافہ ہوا، ریلوے کے کرایوں میں ۲۰۰ فی صد اضافہ ہوا، اور دو لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔
  • نج کاری کے عملی نتائج اور ردعمل:جنرل پرویزمشرف دورِ حکومت میں جب شوکت عزیز وزیراعظم تھے تو نج کاری میں مزید تیزی آئی اوربڑی تعدادمیں صنعتیں چند نجی اداروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں، جس سے قومی دولت چند لوگوں کے قبضے میں آگئی۔ ۲۰۰۹ء میں پیپلز پارٹی نے نج کاری کا ایک نیا پروگرام پیش کیا، جس میں قادر پور گیس فیلڈ، بجلی اور پانی کے کارخانے، ریلوے اور پوسٹ آفس کی نج کاری کا اعلان کیا گیا، لیکن عوامی دبائو کے سبب یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔

 ۲۰۱۳ء میں ن لیگ کے دور حکومت میں نج کاری کا عمل پھر تیز ہوا،اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ۶ء۶؍ بلین ڈالر قرضے کے عوض ملک کی اہم صنعتوں کی نج کاری کی شرط قبول کی گئی۔ اس کے تحت پی آئی اے سمیت کئی سرکاری اداروں کی نج کاری کا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ۲۰۱۸ء میں اقتدار سنبھالتے ہی نج کاری کی پالیسی کو جاری رکھنے کا اعلان کیا اور آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض کی شرائط کے تحت مختلف سرکاری اداروں کی نج کاری کا ارادہ ظاہر کیا۔ عمران خان حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، اور چند دیگر اداروں کی نج کاری کی کوشش کی۔ حکومت نے نج کاری کے لیے کم از کم ۱۸؍ادارے منتخب کیے اور ان کے لیے مخصوص منصوبے تیار کیے۔تاہم، یہ منصوبہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ سیاسی مخالفت، قانونی پیچیدگیاں اور نجی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی جیسے عوامل رکاوٹ بنے۔اس کے علاوہ ان اداروں کے ملازمین اور یونینز کی طرف سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔

پنجاب میں اسکولوں کی نج کاری

  • نج کاری کے حکومتی دعوے:رواں سال حکومت پنجاب نے اسکولوں کی نج کاری کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ’’۴۸ ہزار ۵ سو ۱۷ میں سے ۱۳ہزار ۲سو۱۹ ا؍ اسکولوں کو پہلے مرحلے میں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا‘‘۔حکومت نے سیاسی یا سماجی و تعلیمی دُنیا کی عدم دلچسپی اور عدم مزاحمت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اب تک ۵ہزار ۸سو ۶۳ ؍اسکولوں کی نج کاری مکمل کرلی ہے۔ حکومت پنجاب تعلیمی اداروں کی نجکاری کو معیارِ تعلیم میں بہتری، وسائل کی کمی اور سرکاری اخراجات میں کمی کے جواز کے تحت ضروری قرار دیتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ نجی شعبے کے حوالے کرنے سے اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا، انفراسٹرکچر میں بہتری آئے گی اور اساتذہ کو کارکردگی کے اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کے لیے متحرک کیا جا سکے گا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیمی اداروں کو اس نہج پر پہنچانے میں موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کی بدنظمی کا بھی بھرپور کردار ہے، جنھوں نے تعلیمی شعبے کو بنیادی ترجیحات میں شامل کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کیا۔
  • تعلیمی بحران کی وجوہ: برسوں تک جاری رہنے والی کمزور پالیسیوں، غیر مؤثر نگرانی، بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم، لُوٹ مار، سہولیات کی کمی، اساتذہ کی کمی، پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان اور جدید تعلیمی ٹکنالوجی کو اختیار نہ کرنے جیسے مسائل نے تعلیمی اداروں کی حالت کو خراب کیا۔ اس کے نتیجے میں والدین اور طلبہ کا اعتماد سرکاری تعلیمی اداروں سے اٹھتا گیا ، معاشرے میں تعلیمی معیار کا فرق بڑھتا گیا اورشعبۂ تعلیم سنگین بحران کا شکار ہوا۔
  • تعلیمی بجٹ میں کمی:۲۰۰۹ء کی تعلیمی پالیسی میں وعدہ کیا گیا تھاکہ ۲۰۱۵ء تک تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا ۷فی صد مختص ہوگا، بین الاقوامی معیار۴ فی صد کی تجویز دیتا ہے۔ مگر تعلیمی بجٹ میں مسلسل کمی کی گئی اور۲۴-۲۰۲۳ء میں ۱ء۷ فی صد تک محدود رہا۔
  • تعلیمی نظام کی تنزلی:وفاقی وزارت منصوبہ بندی نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس انڈیکس ۲۰۲۳ء کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں پاکستان کے ۱۳۴؍ اضلاع کے تعلیمی نظام کے پانچ بنیادی عناصر: انفراسٹرکچر و رسائی، علمی فہم، ٹکنالوجی و مساوی شمولیت، نظم و نسق اور پبلک فنانس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کا مجموعی تعلیمی سکور ۵۳ء۴۶ فی صد ہے، جو کمزور کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انفرادی عناصر میں انفراسٹرکچر و رسائی ۵۸ء۹۵ فی صد، علمی فہم ۴۷ء۵۲ فی صد، ٹکنالوجی و مساوی شمولیت ۵۸ء۶۷  فی صد، نظم و نسق ۵۶ء۱۸فی صد اور پبلک فنانس ۴۲ء۹۴ فی صد پر ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ۷۷؍اضلاع انتہائی کم تعلیمی کارکردگی کے زمرے میں آتے ہیں، جب کہ ۵۶؍اضلاع درمیانی کارکردگی میں شمار ہوتے ہیں۔

نج کاری کی حقیقت اور حکومت کی ذمہ داری

  • تعلیمی بحران کا ذمہ دار کون؟: پاکستان میں تعلیمی صورت حال کے اس بحران کا اصل ذمہ دار کون ہے؟،ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناتے کیوں اغیار کی پالیسیوں کو تعلیم کے شعبے میں نافذ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں؟ ،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے دبائو میں آکر تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ این جی اوز کے حوالے کرنے کی  ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ اقدام ہمارے تعلیمی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو مزید کمزور کرنے کی جانب ایک اور قدم نہیں ہے؟ نج کاری سے یہ توقع کرنا کہ تعلیم کے مسائل حل ہوں گے، خودفریبی ہے۔یوں حکومت جو اَب ان اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے پر زور دے رہی ہے، دراصل اس بگاڑ کی ذمہ دار بھی ہے۔
  • تعلیمی طبقاتی تفریق اور نجکاری کے اثرات:پاکستان کے تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم کی ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے، جہاں سرکاری اداروں میں ۶۰ فی صد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں،جب کہ ۴۰ فی صد نجی تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ تقسیم محض تعداد کی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہری سماجی و اقتصادی حقیقت ہے، جہاں معاشی حیثیت کے مطابق بچوں کی تعلیم کے مواقع میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو نجی اداروں کے حوالے کرنا مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ اگرچہ یہ اقدام چند گنی چنی صورتوں میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے، لیکن بنیادی طور پر اس سے نظام تعلیم کی بنیادی اور گھمبیر خامیوں کا ازالہ نہیں ہوتا۔
  • پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ناکامی اور خدشات: پاکستان میں پہلے سے جاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (سرکاری اور نجی تعاون منصوبہ) کے تجربات بدترین ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ پچھلے تجربات میں بدعنوانی، غیر معیاری تعلیم، اور عدم شفافیت جیسے مسائل نے عوامی تعلیم کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر کئی نجی ادارے عوامی اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ نجی شعبے کے ایک بڑے حصے نے عوامی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور تعلیم کے شعبے میں حقیقی بہتری لانے میں ناکام رہا ہے۔اگر حکومت ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتی تو یہ نئے تجربات بھی معاشرتی انصاف اور تعلیمی معیار کی فراہمی میں ناکامی کا سبب بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں کمزور طبقے کے بچوں کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا، اور یہ عمل عوام کا اعتماد مزید متزلزل کرنے کا باعث بنے گا۔
  • تعلیمی معیار پر اثرات:حکومت کا یہ دعویٰ کہ ابتدائی طور پر کم تعداد والے سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے تعلیمی معیار بہتر ہوگا، بنیادی طور پر غلط مفروضہ ہے۔ نجی ادارے اپنے مالی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں، جس سے کمزور طبقے کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ مزید برآں، یہ نجی شعبے کو سرکاری اسکولوں کی قیمتی اراضی اور وسائل کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو قومی مفاد کے خلاف ہے اور مستقبل میں نج کاری تعلیمی ترقی اور انصاف کے اہداف کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گی۔
  • غریب والدین پر اثرات:اگرچہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ نجی ادارے فیسیں بڑھائیں گے نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نجی ادارے فیس میں اضافے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس سے غریب والدین کے لیے بچوں کو تعلیم دلانا مزید مشکل ہو جائے گا۔
  • اساتذہ کی نوکریوں کا مستقبل:نج کاری کے عمل میں سرکاری اساتذہ کی نوکریوں کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ غیر فعال اساتذہ کو ٹرانسفر کر دیا جائے گا، مگر جب تمام اسکول نجی اداروں کے زیر انتظام ہوں گے تو سرکاری ملازمین کا مستقبل غیر یقینی ہو جائے گا، اساتذہ کی تنخواہیں اوردیگر مراعات میں کمی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں اساتذہ کی کارکردگی متاثر ہوگی۔
  • تعلیمی خودمختاری اور اراضی کا استحصال:نج کاری کے عمل کے نتیجے میں جب نجی ادارے یا غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اسکولوں کی ملکیت حاصل کرتی ہیں تو یہ سرکاری تعلیمی اداروں کی خود مختاری اور بنیادی مقاصد کو متاثر کرتی ہیں۔ نجی مالکان اکثر اپنے مالی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، جس کے باعث تعلیمی معیار میں کمی، رسائی میں مشکلات، اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ کئی سرکاری اسکول قیمتی اراضی اور بڑے کمپائونڈز پر قائم ہیں اور ان قیمتی جگہوں کو نجی اداروں کے حوالے کرنا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا یہ واقعی تعلیمی بہتری کے لیے ہے، یا قیمتی املاک کو تجارتی مفادات اور اپنے منظورِ نظر سیاسی عناصر کی مالی لُوٹ کھسوٹ کا وسیلہ ہے؟
  • نظریاتی نقصان:اسکولوں میں نصاب اور تدریسی مواد کی نگرانی کو نجی شعبے اور این جی اوز کے سپرد کرنے سے سب سے بڑانقصان نظریاتی سطح پر ہورہا ہے، اور آیندہ بھی ہوگا۔ کئی این جی اوز غیر ملکی فنڈنگ پر انحصار کرتی ہیں، جس کے باعث ان کے نصاب میں غیر ملکی ایجنڈا شامل ہونے کے آثار نمایاں ہیں، جب کہ غیرمعیاری تدریسی کتب کی اشاعت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان کتب سے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات اور پاکستانی تاریخ کی جگہ بیرونی نظریات کو شامل کیا جاتا ہے، جو ہمارے دینی وقومی تشخص کے خلاف ہے۔
  • کمیونٹی شمولیت کا خاتمہ:سرکاری اسکولوں میں کمیونٹی کی شمولیت کا عمل مضبوط ہوتا ہے۔ والدین اور مقامی افراد کی شرکت سے تعلیمی نظام کی بہتری ممکن ہے۔ تاہم، نج کاری کے نتیجے میں یہ شمولیت کمزور پڑے گی۔

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے اور اس کی بہتری میں سرکاری اسکولوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ صورت حال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کی نج کاری کے بجائے اس کے معیار اور رسائی میں اضافہ کرے تاکہ ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی سماجی، معاشی یا مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔تعلیم کا شعبہ تمام شعبوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اسے سرسری نہ لیا جائے، بلکہ اسے ایک قومی ذمہ داری سمجھیں۔ ایک مضبوط اور مستحکم تعلیمی نظام ہی وہ بنیاد ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرے گا۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی تعمیر میں حصہ ڈالناہے، جو نہ صرف طلبہ کی ذہنی، معاشرتی، اور ثقافتی ترقی کا باعث بنے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے اورہمیں چاہیے کہ مل جل کر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کام کریں، تاکہ پاکستان کا مستقبل روشن ہو، اور ہر بچے کو اس کا بنیادی تعلیمی حق مل سکے۔

’سالگرہ‘ کا لفظ دو الفاظ ’سال‘ اور ’گرہ‘ کا مرکب ہے۔ ’سال‘ کا مطلب ’سال‘ یا ’سالانہ‘ اور ’گرہ‘ کا مطلب ہے ’گرہ باندھنا‘ یا ’منسلک ہونا‘۔ اس طرح، سالگرہ کا مطلب ہے کسی کی زندگی کا ایک سال مکمل ہونے کی خوشی منانا۔سالگرہ منانا دراصل اس دن کی یاد منانا ہے، جب کوئی شخص پیدا ہوا تھا۔ ہر سال اس دن کو خوشی اور تقریب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔البتہ اس کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

  • جائز (مباح) ہونے کی رائـے:کچھ علما کے نزدیک، سالگرہ منانا ایک معاشرتی رسم کے طور پر جائز ہے، جب تک کہ اس میں کوئی غیر اسلامی یا حرام عمل شامل نہ ہو۔ اگر سالگرہ کی تقریب میں صرف شکر گزاری، خاندانی اجتماع، اور نیک دعاؤں کا اہتمام ہو، تو یہ ایک مباح (جائز) عمل ہو سکتا ہے۔ان کے نزدیک یہ عمل نیکی اور عبادت کی نیت سے نہیں کیا جاتا بلکہ صرف سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
  • ناجائز (بدعت) ہونے کی رائـے:بہت سے علما کے نزدیک سالگرہ منانا ایک ’بدعت‘ ہے، کیونکہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرامؓ، یا تابعین کے دور میں نہیں ملتا۔ گویا یہ عمل غیر اسلامی ثقافتوں سے متاثر ہے اور اسلامی تعلیمات میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس لیے اس عمل کو اسراف، فخر، اور غیر اسلامی روایات کی پیروی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔
  • درمیانی رائـے:کچھ علما کے نزدیک اس عمل کو مکمل طور پر ترک کرنا بہتر ہے تاکہ غیراسلامی روایات اور رسموں سے بچا جا سکے اور اسلامی اقدار کی حفاظت کی جا سکے۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ سالگرہ منانا ایک ایسی ثقافتی رسم ہے جس کی شریعت میں واضح حیثیت نہیں ہے ، اور علما کی اس بارے میں مختلف آراء ہیں، کچھ اسے جائز اور کچھ بدعت قرار دیتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ سدِ باب کے طور پر اس سے گریز کیا جائے۔
  • سدِباب:سد باب کا مطلب ہے کہ کسی ممکنہ برائی یا فساد کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس کا راستہ بند کردیا جائے۔ اسلام میں اس کی اہمیت انتہائی بنیادی اور اصولی ہے۔ سدِباب کا مقصد برائی کے ممکنہ ذرائع کو ختم کرنا اور معاشرتی فتنوں سے بچاؤ کو یقینی بنانا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ زنا کے قریب بھی نہ جائو، اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعلِ زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے بھی دُور رہیں، جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورئہ بنی اسرائیل)
  • بیعتِ رضوان:بیعتِ رضوان، جسے ’بیعت الشجرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، جو ۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر ہوئی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ درخت مسلمانوں کے لیے ایک مقدس علامت بن گیا تھا اور لوگ اس درخت کی زیارت کے لیے آنے لگے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ لوگ اس درخت کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ مخصوص قسم کی عقیدت وابستہ کر رہے ہیں۔ انھیں خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ اس درخت کو تعظیم کی حد تک نہ پہنچا دیں، جو توحید کے اصولوں کے خلاف ہے۔ چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس درخت کو کاٹ دیا جائے تاکہ لوگ اس کی غیر ضروری تعظیم نہ کریں اور شرک یا بدعت کا کوئی راستہ نہ کھل سکے۔ آپ نے حکم دیا کہ اس درخت کو کاٹ دیا جائے، اور یہ درخت ختم کر دیا گیا۔

حضرت عمرؓ کے اس اقدام سے یہ سبق ملتا ہے کہ برائی یا شرک کے آثار کو جنم دینے والی کسی بھی چیز کو ختم کرنا ضروری ہے، چاہے وہ چیز بظاہر کتنی ہی محترم کیوں نہ ہو۔

  • شکر اور احتساب: سالگرہ کا دن یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ایک اور سال گزارا، جس میں ہمیں اللہ کی بے شمار نعمتیں اور رحمتیں نصیب ہوئیں۔ سالگرہ کا دن یہ سوچنے کا بہترین موقع ہے کہ ہم نے پچھلے سال میں کیا حاصل کیا، کون سی غلطیاں کیں، اور کہاں بہتری کی ضرورت ہے؟ اس دن کو اپنے اعمال، نیتوں، اور کردار کے محاسبہ کے دن کے طور پر منانا چاہیے۔ اس دن ، آنے والے سال کے لیے اہداف مقرر کریں۔ دینی اور دنیاوی معاملات میں بہتری لانے ، اچھے اعمال کو زیادہ سے زیادہ کرنے، اور برائیوں سے بچنے کا عزم کریں۔

جو والدین اپنے لاڈلوں کی سالگرہ مناتے ہیں، وہ یہ بات اپنے ذہن میں تازہ رکھیں کہ بچے اللہ کی طرف سے نعمت ہیں۔ والدین کو ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے انھیں ان معصوم تحفوں سے نوازا۔ وہیں اس بات کا اِدراک بھی ہونا چاہیے کہ اولاد کو نعمت کے ساتھ ساتھ فتنہ اور آزمائش بھی کہا گیا ہے۔ان کی پرورش، تعلیم و تربیت، اور ان کی شخصیت سازی ایک ذمہ داری ہے۔ ہم ایسا کوئی کام نہ کریں، جس کا غلط اثر بچوں کی تربیت پر پڑے۔

کسی تنظیم، جماعت، یا ادارے کی سالگرہ منانا

کسی تنظیم، جماعت، یا ادارے، خاص کر کسی دینی و اسلامی جماعت کی سالگرہ منانے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا جو کسی فرد کی سالگرہ کا منانا ہوتا ہے۔ کسی جماعت کے لیے یہ دن اس کے مقاصد، کارکردگی اور وابستگی کی تجدید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سالگرہ یا یومِ تاسیس منانے کا مطلب جماعت کی تشکیل کے دن کو یادگار کے طور پر منانا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد جماعت کے قیام کی یاد تازہ کرنا، اس کی خدمات، جدوجہد اور مقاصد کو اُجاگر کرنا ہے۔

  • تجدیدِ عہد:جماعت اسلامی کے ارکان، کارکنان اور ہمدردان کے درمیان اس دن کو تجدید ِ عہد کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد اور نصب العین کو یاد رکھیں اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کریں۔جماعت کی جانب سے کی جانے والی خدمات، کامیابیوں اور کارناموں کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ موقع ہوتا ہے کہ جماعت کے ماضی کے کارناموں کا جائزہ لیا جائے اور کوتاہیوں سے سبق سیکھا جائے۔
  • آگاہی و شعور:اس دن کو مناتے ہوئے عوام الناس کو جماعت کے نظریات، اصولوں، اور تحریک کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار ہو۔ جماعت اپنی آئندہ کی حکمت عملی اور منصوبوں پر غور کرے اور اپنی جدوجہد کو مزید منظم اور مؤثر بنانے کی کوشش کرے۔

سوال : بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام کا قانون موجودہ ترقی یافتہ زمانے کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ آپ کے نزدیک اس کا جواب کیا ہے؟

جواب :اس اعتراض کے جواب میں، مَیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں: یہ ’ترقی یافتہ‘ اور ’ضروریات‘ کے الفاظ ہیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ’ترقی‘ کا مفہوم کیا ہے؟ لفظ ’ترقی‘ کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ کوئی خاص غایت (goal) ہمارے پیش نظر ہو، جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہوں، تو اس گول کی طرف بڑھنے کا نام ’ترقی‘ ہے اور اس سے مخالفت سمت کو جانا ’رجعت‘ اور ترقی سے محرومی ہے۔ اب اگر ہم اپنے لیے کوئی ایسا گو ل مقرر کرلیں، جو باطل ہو تو اس کی طرف پیش قدمی کرنا ترقی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں انسان کا جو گول مقرر کیا گیا ہے، کیا انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اور غایت اُولیٰ وہی ہے جو جدید تہذیب نے قرار دی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ خود مغرب میں اس وقت کثیرتعداد ایسے مفکرین کی موجود ہے، جنھیں اب اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس تہذیب نے انسان کا جو گول مقرر کیا تھا ، وہ صحیح ہے۔ اب وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اس غلط گول کی طرف پیش قدمی ہی اس دور کے سب مصائب اور مسائل کی اصل جڑ ہے۔

اس کے برعکس اسلام نے جو گول (goal) انسان کے لیے مقرر کیا ہے، ہم اسی کو برحق سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف بڑھنا ہمارے نزدیک ’ترقی‘ ہے اور اس ’ترقی‘ کے لیے اسلامی قانون ہی برحق اور ضروریات کے مطابق ہے۔ اس دور میں جو ’ترقی‘ ہوئی ہے، مَیں اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں۔ مثلاً انسان کو شیر پر قیاس کیجیے اور دیکھیے کہ شیر پہلے اپنے پنجوں سے شکار مارتا تھا۔ پھر اس نے بندوق بنانا سیکھ لی تو وہ بندوق سے شکار کرنے لگا۔ اس کے بعد اسے توپ کا استعمال آگیا، اور آج اس نے ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں اور اسے بیک وقت ہزاروں لاکھوں جانوں کو ختم کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے انسانیت کی کیا ترقی ہوگی؟

اب اس اعتراض کے دوسرے پہلو کی طرف آیئے ۔ جب ہمارے نزدیک موجودہ زمانے کی ترقی کا گول ہی غلط ہے تو پھر اس کی ضروریات بھی اسی طرح غلط ہیں۔ اس صورت میں ہم اس زمانے کی ضروریات کو حقیقی ضروریات کیوں کر سمجھ سکتے ہیں۔ اس زمانے کی ’ضرورت‘ تو مثال کے طور پر بدکاری بھی ہے اور بدکاری بھی ایسی کہ عورت گناہ تو کرے، لیکن اسے حمل کا خطرہ نہ ہو۔ ظاہر ہے اسلام اس ’ضرورت‘ کو ضرورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ پہلے آپ اس دور کی وہ حقیقی یعنی genuineضروریات بتایئے، جو واقعی ضروریات ہیں تو پھر مَیں آپ کو بتائوں گا کہ اسلام ان کے لیے کیا قانون دیتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت موجودہ تہذیب کی بدولت دُنیا کی تباہی اور خرابی کا واحد سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے بہت سی ایسی چیزوں کو ’ضروریات‘ ٹھیرا لیا ہے، جو حقیقت میں اس کی ضروریات نہیں، اور یہ نتیجہ ہے انسان کے لیے ایک غلط گول مقرر کرنے اور ترقی کے نام پر اسے ہلاکت و تباہی کے جہنم کی طرف دھکیلنے کا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۲نومبر ۱۹۶۷ء)

جائز اور صحیح نوعیت کی ’خلافت‘ کا حامل کوئی ایک شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں ہوتا بلکہ اہل ایمان کی جماعت کا ہرفرد ’خلافت‘ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ کسی شخص یا طبقے کو عام مومنین کے اختیاراتِ خلافت سلب کرکے انھیں اپنے اندر مرکوز کرلینے کا حق نہیں ہے، نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔

یہی چیز ’اسلامی خلافت‘ کو ملوکیت ، طبقاتی حکومت اور تھیاکریسی (Theocracy)سے الگ کرکے اسے جمہوریت کے رُخ پر موڑتی ہے۔ لیکن اس میں اور مغربی تصورِ جمہوریت میں اصولی فرق یہ ہے کہ مغربی تصور کی جمہوریت عوامی حاکمیت (Popular Sovereignty) کے اصول پر قائم ہوتی ہے، اور اس کے برعکس اسلام کی جمہوری خلافت میں خود عوام، خدا کی حاکمیت تسلیم کرکے اپنے اختیارات کو برضا و رغبت، قانونِ خداو ندی کے حدود میں محدود کرلیتے ہیں۔

اس نظامِ خلافت کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہوگی، عوام اس کی صرف اطاعت فی المعروف کے پابند ہوں گے، معصیت (قانون کی خلاف ورزی) میں نہ کوئی اطاعت ہے اور نہ تعاون۔

’منتظمہ‘ کے اختیارات لازماً حدود اللہ سے محدود اور خدا اور رسولؐ کے قانون سے محصور ہوں گے، جس سے تجاوز کرکے وہ نہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرسکتی ہے، نہ کوئی ایسا حکم دے سکتی ہے جو معصیت کی تعریف میں آتا ہو۔ کیونکہ اس آئینی دائرے سے باہر جاکر اسے اطاعت کے مطالبہ کا حق ہی نہیں پہنچتا۔ علاوہ بریں یہ منتظمہ لازماً شوریٰ، یعنی انتخاب کے ذریعے سے وجود میں آنی چاہیے اور اسے شوریٰ، یعنی باہمی مشاورت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ لیکن انتخاب اور مشاورت، دونوں کے متعلق قرآن قطعی اور متعین صورتیں مقرر نہیں کرتا بلکہ ایک وسیع اصول قائم کرکے اس پر عمل درآمد کی صورتوں کو مختلف زمانوں میں معاشرے کے حالات اور ضروریات کے مطابق طے کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔

’مقننہ‘ لازماً ایک ’شورائی ہیئت‘ (Consultative Body) ہونی چاہیے، لیکن اس کے اختیاراتِ قانون سازی بہرحال ان حدود سے محدود ہوں گے۔ جہاں تک ان اُمور کا تعلق ہے جن میں خدا اور رسولؐ نے واضح احکام دیئے ہیں یا حدود اور اصول مقرر کیے ہیں۔ یہ مقننہ ان کی تعبیروتشریح کرسکتی ہے، ان پر عمل درآمد کے لیے ضمنی قواعد اور ضابطۂ کارروائی تجویز کرسکتی ہے، مگر ان میں رَدّوبدل نہیں کرسکتی۔ رہے وہ اُمور جن کے لیے بالاتر قانون ساز نے کوئی قطعی احکام نہیں دیئے ہیں، نہ حدود اور اصول معین کیے ہیں، ان میں اسلام کی اسپرٹ اور اس کے اصولِ عامہ کے مطابق مقننہ ہرضرورت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں کوئی حکم نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان کو اہل ایمان کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے۔

’عدلیہ‘ ہر طرح کی مداخلت اور دبائو سے آزاد ہونی چاہیے، تاکہ وہ عوام اور حکام سب کے مقابلے میں قانون کے مطابق بے لاگ فیصلہ دے سکے۔ اسے لازماً ان حدود کا پابند رہنا ہوگا۔ اس کا فرض ہوگا کہ اپنی اور دوسروں کی خواہشات سے متاثر ہوئے بغیر، ٹھیک ٹھیک حق اور انصاف کے مطابق معاملات کے فیصلے کرے۔(’قرآن کی سیاسی تعلیمات‘،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۳-۴، نومبر، دسمبر ۱۹۶۴ء، ص۶۸، ۷۲-۷۴)