عورت کے بغیر انسانی معاشرے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گھر بنتا ہی عورت سے ہے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی گھر بغیر عورت کے وجود میں آسکے، اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی معاشرہ عورت کی کوشش، دخل اور اثر کے بغیر بن یا بگڑ سکے۔
مردوں عورتوں کی تعداد تقریباً ہر زمانے میں برابر رہتی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عورت کمزور ہے اور مرد طاقت ور۔ اس لیے جب مرد اور عورت مل جل کر رہتے ہیں، تو مرد کی مرضی پوری ہوکر رہتی ہے۔ لیکن اگر حالات کو ذرا گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ مرد باوجود طاقت ور ہونے کے ہرمعاملے میں بالکل بے بس ہے، جب تک یہ ’کمزور‘ مخلوق اپنا دلی تعاون پیش نہ کردے۔ گویا مرد کی مرضی نہیں بلکہ عورت کی مرضی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ وہ سب پر چھا جاتی ہے اور سب کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا لیتی ہے۔
عورت میں سختی کے بجائے لچک ہے۔ ظاہر ہے کہ سخت چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن لچک دار چیزیں عارضی طور پر جھک تو جاتی ہیں، لیکن ٹوٹتی نہیں۔ فرعون باوجود ’فرعون‘ ہونے کے حضرت آسیہ کو اپنی راہ سے نہ روک سکا، بلکہ خود اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے جب اپنی خوشی سے آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی اورپرہیزگاری کو قبول فرما لیا تو قوم اور خاندان کی مخالفت یا اپنے تمدن یا معاشی مرتبے کا خیال ان کی راہ میں کچھ بھی مزاحم نہ ہوسکا۔ اسی طرح کوئی عورت اگر بگاڑ پر تُل جائے تو پیغمبر ؑ تک اس کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے غلط منصوبے باندھے اور غرق یا تباہ ہونے تک انھی پر اَڑی رہیں۔
ہے تو سب کچھ اللہ کے اختیار میں، کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ لاریب، جب کسی قوم کے بھلے دن آتے ہیں تو اس کی عورتیں خدا پرست بن جاتی ہیں اور آخرکار مردوں کو بھی ویسا ہی بناکر چھوڑتی ہیں، اور جب کسی معاشرے کا زوال شروع ہوتاہے تو اس کی عورتیں خدا کے بجائے ادنیٰ چیزوں کی پرستش شروع کردیتی ہیں۔ جب عورت کا دل دُنیا میں اَٹک جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے شوہر، بچوں اور دوسرے مددگاروں کو بھی حصولِ دُنیا میں مشغول نہ کردے؟ اور جب کسی عورت کو آخرت کی فکر ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں اور اپنے جگرگوشوں کو اپنی اس فکر میں شریک نہ کرے؟ اسے جب کوئی ہلکی سی مغموم کرنے والی خبر ملتی ہے تو وہ روپیٹ کر سب کو پریشان کردیتی ہے۔ پھر جب اسے دوزخ جیسی خوفناک چیز کا یقین ہو، اور وہ دیکھ رہی ہو کہ اس کے بچّے، شوہر، باپ، بھائی اس کی طرف اندھا دھند لپک رہے ہیں اور اس میں گرنے کے بالکل قریب ہیں تو وہ کیسے چپ بیٹھ سکتی ہے؟ وہ یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ جن جسموں کو لذیذ کھانوں، عمدہ لباسوں اور صاف سجے ہوئے گھروں میں آرام پہنچاتی رہی، پالتی رہی اور ان کے آرام و آسایش کی خاطر راتوں کی نیند اور دن کا آرام اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ وہ جسم دوزخ میں جلنے کی تیاریاں کرنے لگیں۔ اور وہ بھی اس کی نظروں کے سامنے۔
عورت، مرد سے بڑھ کر دُور اندیش ہوتی ہے۔ بیٹی اور بیٹا جوان ہوجائے تو مرد سے بڑھ کر اس کو یہ فکر کہ اس کے لیے زیادہ جہیز تیار ہو، اچھی جگہ رشتہ ہو۔ مکان نہ ہو تو مرد سے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی دُھن سوار ہوتی ہے۔ گھر میں غلّہ ایندھن وغیرہ ختم ہوں تووہ پریشان۔ افراد کنبہ کے کپڑے پھٹ جائیں تو اس کو بے چینی۔ کوئی بچہ بیمار ہو تو اس کے دوا علاج کے لیے وہ سرگرداں، غرض کسی وقت وہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ عورت کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سب کا غم کھائے اور سب کو سُکھ پہنچائے۔ خصوصاً ان کو جو اس کے اپنے عزیز ہوں، یا کم از کم جن کو وہ اپنا عزیز سمجھتی ہو اور جن کی جان اس کو پیاری ہو،ان کے بھلے بُرے کی فکر تو اس کو اپنے سے بڑھ کر رہتی ہے۔
آپ دیکھتے نہیں، آج کل عورت ہی تو ہے جو مادہ پرستی کی سب سے بڑی مبلغ بنی ہوئی ہے۔ اس نے ادنیٰ چیزوں کو اپنا خدا بنا لیا ہے اور وہ انھی جھوٹے خدائوں کی بندگی پر باپ،بھائی، شوہر، بچوں اور دُور و نزدیک کے سب رشتے داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں کو آمادہ کر رہی ہے۔ عورت کی زبان تو مشہور ہے کہ کسی وقت بیکار نہیں رہتی۔ بس جس چیز کو عورت سب سے بہتر خیال کرے، جس کی محبت اس کے دل میں بیٹھ جائے، چوبیس گھنٹے وہ اسی کی خوبیوں کے گن گاتی رہے گی۔ پھر ماں کا راگ بچوں کا راگ ہوگا اور بچوں کا راگ پوری قوم کا راگ بن کر رہتا ہے کیونکہ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور بالآخر وہی ہوتا ہے جو عورت چاہے۔
مگر افسوس کہ ان دنوں اس نے فکر ِ آخرت سے بے نیازی اختیار کرلی ہے۔ اسے جنّت کی نعمتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کا یقین نہیں رہا، تو یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری قوم ہی اس یقین اور ایمان سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ جب ماں نے اپنا مقصد ِ زندگی صرف کھانے، پہننے اور عیش کرنے کا بنالیا تو اس کے بچّے کیوں نہ یہی سبق سیکھتے؟ صدر اور وزیراعظم سے لے کر معمولی معاشی سرگرمی میں مصروف فرد تک، سب عورت ہی کے بچّے ہیں اور اس کے سکھائے ہوئے اسباق پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر وہ، ان کو اپنے قول و عمل سے یہ سکھاتی کہ ’’اللہ تمھارا اصل مالک و حاکم ہے، تم اس دُنیا میں اپنے مالک و مختار نہیں ہو بلکہ اس آقا کے نوکر ہو‘‘ تو خدا فراموشی کے یہ مناظر آپ کو کیوں نظر آتے؟
آپ کی آنکھوں کے سامنے شراب چل رہی ہے، جوا چل رہا ہے، سود خوری ہورہی ہے، ظلم و بے انصافی کی کوئی حد نہیں۔ غریب بھوکے مر رہے ہیں اورقوم کے رہنما اپنے عیش میں مست ہیں۔ قتل، چوری، دھوکابازی، رشوت، غبن، کون سا جرم ہے جس کا ارتکاب نہیں ہورہا؟ عورتوں اور مردوں کو جو کچھ دیکھنا حرام تھا، آپ کے فرزندانِ ارجمند اور دخترانِ نیک اَطوار پیسے خرچ کرکے وہ کچھ دیکھ رہی ہیں۔ جو کچھ سننا ممنوع تھا، اسے سننے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ جو کچھ کھانا حرام تھا، اس کو کھلم کھلا کھایا جارہا ہے اور جس طرزِ لباس کو اختیار کرنے کی ممانعت تھی، اسی کو آپ کی بیٹیاں علی الاعلان اختیار کررہی ہیں۔ جو مشاغل مردوں کے لیے مخصوص تھے وہ عورتیں اختیار کرر ہی ہیں۔ اور جو صفات اور عادات و اَطوار عورتوں کا زیور تھے وہ مرد اپنا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ مرد نے ایسا کرنا چاہا؟ ہرگز نہیں! عورت نے خود ایسا کرنے کی اجازت اور بسااوقات حکم دیا تب ایسا ہوسکا۔ اب عورت ہی اپنا رُخ پلٹے گی، اپنا قبلہ بدلے گی۔ لندن، نیویارک اور ماسکو کی اندھی تقلید کے بجائے مدینہ منورہ کی ان رہنما خواتین کی پیروی اختیار کرے گی جن کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت دی تھی، تو قوم کی حالت بدل سکے گی، ورنہ نہیں۔