اسرائیل جیسی غاصب ریاست نے سالہا سال سے فلسطینی باشندوں کے حقوق غصب کررکھے ہیں۔ مسلمانوں، غیرمسلموں اور حقوقِ انسانی کے علَم برداروں کی طرف سے دُنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہرے ایک طرح کا احتجاج تھا۔ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے جواب میں حماس کی دندان شکن جوابی کارروائی ہر لحاظ سے ایک جائز فطری عمل تھا، جب کہ اسرائیل زدہ مغربی صحافی اور سیاسی لیڈر اسے ’دہشت گردی‘ کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔
اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو صہیونی و امریکی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں طے پانے والے ’ابراہیمی معاہدہ‘ کے نتیجے میں مسئلہ آزادی فلسطین ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا جب صرف نصرتِ الٰہی اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کے کر گزرنے کی توفیق ہی ۷؍اکتوبر کا اقدام کروا سکتی تھی ۔ کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی فوج اپنی ایٹمی طاقت، عسکری تربیت اور اسلحہ کی کثرت میں تمام عرب ممالک سے زیادہ قوت رکھتی ہے اوراسے عالمی طور پر چوتھی سب سے زیادہ منظم فوجی قوت شمار کیا جاتا ہے ۔ ایک ایسی قوت سے گنتی کے چند سرفروش مجاہدین کا صرف میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کی دہشت گردی کا جواب دینا ایک چیونٹی کا ہاتھی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے سے کم نہیں تھا،لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت کے ہے کہ حماس نے اپنے سے سیکڑوں گنا زیادہ آلات جنگ، امریکی پشت پناہی اور تربیت یافتہ جنگجو مرد اور عورتوں کے خلاف صف آرا ہو کراور چند لمحات میں ان کے طلسماتی آہنی دفاعی نظام (iron dome defense system) کے سحر کو توڑ دیا اور ان کی تمام خفیہ تنصیبات کے باوجود، کامیاب حملہ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کے اس اقدام کی اس سے زیادہ قرآن کریم کی مزید عصری تعبیر نہیں ہو سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵(الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے( ۱۰ گنا زیادہ پر) اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار پر بھاری رہیں گے ،کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
مقابلہ اسلحہ کی قوت کا ہو یا تربیت یافتہ فوجی افراد کا، غزہ کے اہل ایمان نے قرآن کی تفسیر اپنے عمل سے پیش کر دی ہے کہ شاید اس سچائی کو آنکھوں سے دیکھ کر امت مسلمہ اپنی گراں خوابی، کم ہمتی، عدم اعتماد اور غلامانہ ذہنیت پر شرمندہ ہو کر گریبان میں جھانک کر دیکھے اور اپنے مالک حقیقی کی اس پکار پر لبیک کہہ کر میدانِ عمل میں اتر آئے جس میں فرمایا گیا تھا:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵( النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔
یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں نے تعداد اور اسلحہ ہر لحاظ سے کمتر ہونے کے باوجود اپنے حجم اور کمیت میں اپنے سےسیکڑوں گنا بڑے ظالم، جابر اور سفاک اسرائیلی نظام کو دن کی روشنی میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ للکارا ہے۔ اس کا سبب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ پر اعتماد اور وہ ایمان ہے جو امت مسلمہ کو اپنی حالت تبدیل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔حماس کا یہ اقدام قرآنی حکم کی تصدیق کرتا ہے کہ جن مٹھی بھر افراد نے اپنی حالت کو تبدیل کیا اور جو بھی وسائل میسر تھے ان کو استعمال کیا اور اس خوابیدہ امت مسلمہ جو مغربی آقاؤں پر تکیہ کرتی ہے ، اس کی جگہ رب کریم پر بھروسا کیا۔عظیم قربانیوں کے باوجود آخر کار فتح ان ہی کی ہو ئی :
وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۱۷۳ (الصٰفّٰت ۳۷:۱۷۳) اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۲۳ (ال عمرٰن ۳ :۱۲۳) آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمھاری مدد کر چکا۔حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔
غزہ کے مسلمانوں کی اس عظیم قربانی نے ثابت کر دیا کہ اصلی قوت ، قوتِ ایمانی ہے۔ چنانچہ اسرائیل اپنے تمام تر تکبر، ساز و سامان اور حکمت عملی کے باوجود، دنیا میں اس واقعہ کی بنا پر تمام دنیا کے باضمیر انسانوں کی نگاہ میں ظالم، مجرم اور قاتل ٹھیرا، اورمسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک کے غیر مسلم باشندوں نے اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر کے گویا ایک عالمی ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کی مقدس سرزمین پر فلسطینیوں کے حق کو جائز اور اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دے دیا ۔
اس کھلی حقیقت کے باوجود اگر مسلم ممالک اپنی حالت بدلنے پر غور نہیں کرتے اور اسی بھول میں ر ہیں کہ چچا سام ان کا خیر خواہ ہے تو اللہ سے ان کی ذہنی سلامتی کی دعا ہی کی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ایک ناجائز طور پر پیدا ہونے والی اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی، تعلقات اور امن کامعاہدہ انھیں معاشی اور سیاسی سربلندی سے سرفراز کر دے گا۔ قرآن کریم نے ایسے افراد ہی کو دنیا اور آخرت میں ناکام قرار دیا ہے :
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَ فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۷۲(بنی اسرائیل ۱۷:۷۲)،اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔
مسلم ممالک کی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی ایک مثال وہ دستاویز یا معاہدہ ہے جسے ’ابراہیمی معاہدہ‘ I2U2 یا Abraham Accord کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے پر اسرائیل، ہندستان اور یو اے ای کے ساتھ بطور گواہ صدر امریکا کے دستخط ثبت ہیں۔اس معاہدے کے نام میں I2U2 کا جو مخفف استعمال کیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں انگریزی کے لفظ I سے شروع ہونے والے نام کے دو ممالک یعنی انڈیا اور اسرائیل ہیں اورU سے شروع ہونے والے بھی دوممالک ہیں، یعنی امریکا اور یو اے ای ۔ گویا یہ چار ممالک کا مشترکہ عہد نامہ ہے جو ایک عوامی دستاویز کے طور پر کسی بھی باشعور فرد کو حیران اور فکر مند کرنے کے لیے کافی ہے (سوائے ان کے جو قرآن کی زبان میں جان بوجھ کر آنکھیں موندے ہوئے ہوں)۔
اس متفقہ دستاویز کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے:
Normalization : Peace, establishment of peace diplomatic relation and full normalization of bilateral ties are hereby established between the United Arab Emirates and the state of Israel.
۱۲ شقوں پر مبنی اس معاہدے کے اہم نکات میں پہلے نکتے کا تعلق اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے ہے:
a sovereign country". "Full recognition of Israel as
اس معاہدے میں بیان کردہ دوسرے ’مقدس فرائض‘ کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
2. To work together to counter extremism, which promotes hate and divisions and terrorism and its justifications, including by promoting radicalization and recruitment and by combating incitement and discrimination.
3. To Further undertake to adopt any legislation or other internal legal procedure necessary in order to implement this treaty, and to repeal any national legislation in official publication inconsistent with this treaty.
اگر صرف ان دو شقوں پر غور کیا جائے تو I2U2 کے مضمرات کسی بھی ایسے شخص سے مخفی نہیں رہ سکتے جو دو آنکھوں کے ساتھ تھوڑا بہت دماغ بھی رکھتا ہو۔اسرائیل کو ایک باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کے بعد پہلی بات جو اس معاہدے میں قبول کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطینی باشندوں کی حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنا انتہا پسندی ،دہشت گردی، نفرت اورتقسیم پیدا کرتی ہے جو اس معاہدۂ امن کے منافی ہے ۔اس لیے حقوق انسانی کی بحالی پر کوئی زبانی یا تحریری کوشش اس معاہدے کی خلاف ورزی شمار کی جائے گی۔
دوسری اہم بات جس پر اتفاق کیا گیا ہے، یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے تحریک آزادی، جہاد یا اس نوعیت کے کسی لفظ کا استعمال جو ایسی کسی تحریک کا جواز (Justification) کہا جا سکتا ہو، اس کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا جائے گا۔ یہاں اصل مقصد لفظ ’جہاد‘ کے استعمال پر مکمل پابندی لگانا ہے کیونکہ یہودیوں کے نزدیک یہ دہشت گردی پر ابھارنے کی تعریف میں آتا ہے اور ’اسرائیلی آقاؤں‘ کو اس سے وحشت ہوتی ہے۔ اگلی اہم بات جو واضح الفاظ میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی بنا پر وہ تمام قانونی ،پارلیمانی، سرکاری دستاویزات جن میں اسرائیل کی ’ناجائز پیدائش‘ یا اس کے وجود کی کسی قسم کی تضحیک و تذلیل پائی جاتی ہو، وہ بھی بعض مبینہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اُکسانے کی تعریف میں آتی ہے۔ اس لیے ایسی ہر تحریر کو دستاویزات سے حذف کیا جائے گا۔
مثلاً ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی یا نام نہاداقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا سرکاری بیانات ہوں یا جہادِ فلسطین کے حق میں کہی یا لکھی ہوئی کوئی دستاویز ، قرارداد یا بیان ہو، اسے سرکاری ریکارڈ سے حذف کرنے کے بعد ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی جس میں اسرائیل کی ولادت کو نہ صرف ’جائز‘ قرار دیا جائے گا بلکہ اس کے کیے ہوئے کسی بھی استحصالی، ظالمانہ ، سفاکانہ اقدام کا تذکرہ چاہے وہ دیریاسین کا قتل عام ہو یا صابرہ اور شتیلہ میں اسرائیلی درندگی ،ایسی تمام تحریروں کو کالعدم قرار دے کر کتب سے حذف کیا جائے گا، اور غالباً اس کی جگہ اسرائیل کی اَزلی اور ابدی پاکیزگی، معصومیت، امن پسندی ، حقوق انسانی کے احترام اور بچوں سے محبت و شفقت کا تذکرہ کیا جائے گا۔ گویا ۷۵سال کی وہ تمام تاریخ جو دنیا کے ہر دیدہ ور نے دیکھی ہے، پڑھی ہے، اسے تاریخ کے صفحات سے مٹا کر اسرائیل کو اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ کوئی اور نہیں نام نہاد مسلم ممالک عطا کریں گے۔
’امن اور تجارتی ترقی‘ کے خوش نما الفاظ کے زیر سایہ اس اسرائیلی نوشتۂ تقدیر پر دستخط کرنے سے جو فوائد حاصل ہوں گے، یہ دستاویز ان کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔اسی نوعیت کے Indo-pacificاور South-pacific معاہدوں میں جو امریکا، برطانیہ ،آسٹریلیا ،بھارت کے درمیان پہلے ہو چکے ہیں اور ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں جن مالی فوائد کا تذکرہ کیا گیا ہے ،ان میں یو اے ای کی جانب سے بھارت میں دو بلین ڈالر زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے دیے جائیں گے۔ گجرات میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، وہاں ۳۰۰ میگا واٹ کا شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کا پراجیکٹ لگایا جائے گا۔
بھارت اور اسرائیل کے یہ قریبی تعلقات کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے اور انتقال آبادی کے ذریعے کشمیری باشندوںکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسی میں اسرائیل کا بنیادی ہاتھ ہے۔ اسرائیل نے بھارتی فوج کو کشمیر کے تناظر میں خاص تربیت فراہم کی ہے اور اس کے مشیر مسلسل بھارت کی مددمیں مصروف ہیں۔ بھارت کا ۴۵ فی صد اسلحہ اسرائیل سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت ۹۰۰ ملین تھی،جب کہ ایک سال بعد۲۱-۲۰۲۰ء میں یہ ۷ء۸۶ بلین پر جا پہنچی ۔ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل ۲۰۲۱ء تک بھارت میں ۲۷۰ ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، جب کہ یواے ای اس دوڑ میں کچھ پیچھے نہیں ہے ۔ اس نے بھی بھارت میں تقریباً ۱۷،۱۸بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔بھارت آئی ٹی میں خدمات کے ذریعے امریکا کوسالانہ۱۰۲ء۳ ملین ڈالر کی خدمات فراہم کرتا ہے جو اس کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس پس منظر میں اگر ’ابراہیمی معاہدے‘ کے دور رس اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ گوبھارت کی تجارت چین کے ساتھ تقریباً ۲۲ء۸ ملین کی ہے اور ایک تجارتی معاہدہ ۳۰۰ملین کا بھی ہو چکا ہے لیکن وسیع ترتناظر میں مذکورہ معاہدے کے ذریعے امریکا اور اسرائیل، بھارت کو مزید اپنے دائرۂ اثر میں لے کراور اسی نوعیت کے معاہدات کے ذریعے وسط ایشیاکی مسلم ریاستوں، مثلاً ازبکستان و دیگر کو ایران اور پاکستان کو شامل کر کے چین کے معاشی منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ (Belt and Road) کو ناکام بنانا چاہتا ہے ۔ ایسے ہی گوادر کو غیر فعال بنا کر نہ صرف پاکستان کو بلکہ چین کو معاشی نقصان پہنچایا جائے گا ۔اس پورے معاملہ میں بھارت کا موقف دونوں جانب سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کا ہے۔ وہ بیک وقت اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے امریکا اور چین سے اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے۔
اس معاہدے کا پہلا اثر یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات جوپہلے بہت زیادہ نمایاں نہیں تھے، اب بہت واضح ہو گئے ہیں۔خصوصاً بھارت کے تعاون سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کا قیام تاکہ ایسے مسلم ممالک جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں نہیں ہیں انھیں ’شرعی جواز‘ فراہم کر دیا جائے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے تو دوسروں کو کیا اعتراض ہے؟ گویا سعودیوں کا کسی غلط کام کو کرنا ’مستحب‘ عمل ہے اور اس کی پیروی کرنا ’ثواب‘ کا باعث ہے۔ یہ حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ تمام مسلم ممالک نظریاتی طور پر اتنے کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ’معاشی ترقی‘ کے حصول کے لیے جن یہودکو قرآن نے مسلمانوں کے مفادات کا دشمن قرار دیا ہے ، ان سے کھلم کھلا تعاون ، اشتراک ہی نہیں بلکہ ان کی قیادت اور سربراہی کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کے مشورےسے یہ ممالک اپنے سیاسی ، معاشرتی اورتعلیمی میدانوں میں امریکا اور اسرائیل کی تجویز کردہ تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔
’ابراہیمی معاہدے‘ کے طرز پر دوسرے مجوزہ معاہدے کا اہم مقصد یہ تھا کہ پاکستان، ایران، افغانستان، ازبکستان اور بھارت کو ایسے ہی معاہدے کے بندھن میں لا کر وہ تمام مقاصد حاصل کر لیے جائیں جن کی تمنا بھارت اور اسرائیل کو ۷۵ سال سے تھی ۔ان مقاصد میں سرفہرست مقبوضہ کشمیر کو ایک ماضی کا قصہ قرار دے کر بھارت اور پڑوسی ممالک سے معاشی ترقی کے زیر عنوان مقبوضہ کشمیر کی مظلوم مسلم آبادی کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہے۔ آج غزہ جیسے مسئلہ پر جس کی کھلی عوامی حمایت غیرمسلم یورپ اور امریکا کے شہری جو غیر مسلم ہیں وہ بھی کر رہے ہیں، لیکن دوسری جانب مسلم ممالک کے سربراہان بشمول پاکستان نے زبانی جمع خرچ اور دکھاوے کےایک آدھ رسمی بیان سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ اسی طرح پاکستان بہ تدریج مجوزہ معاہدے کی بنا پر کشمیر کے مسئلہ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر ے جو بھارت اور اسرائیل کی ازلی خواہش رہی ہے۔
اس معاہدے کا ایک اہم مقصد خود بخود پاکستان کی ایٹمی طاقت کو غیر مؤثر کر نا اور اسرائیل اور بھارت کو پاکستان کی طرف سے کسی ممکنہ خطرہ سے محفوظ کرانا ہے۔ اس کے ساتھ اس معاہدے میں اسرائیلی مشیر و ماہرین پاکستان کے دفاع کو Iron dome کی طرح ناقابل تسخیر بنانے کے نیک کام میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور ہمارے غازی اور مجاہد ان کی قیادت میں ملک و قوم کا سرفخر سے بلند کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے !!
اس معاہدے کا اوّلین نتیجہ یہ ہو گا کہ چین کے BRI اور سی پیک کے منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے اور پاکستان کی نوکر شاہی اور غلامانہ ذہنیت کے سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر امریکا، بھارت اور اسرائیل کی حاکمیت اعلی ٰکے اچھے کارندے بن کرابھی تک جو خفیہ خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اب وہ علی الاعلان اسرائیلی بالا دستی کےسائے میں یہ خدمات بجا لا سکیں۔
ایک بنیادی اصول جس کا تعلق دنیا کے تمام غیور ممالک سے ہے وہ ان کی حاکمیت کا تحفظ ہے۔ یہ حاکمیت ایوان نمایندگان ہی میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جان بوجھ کر کم از کم دوسو سال کے لیے اپنی خوشی ا و رضامندی سے انگریز کی غلامی کی جگہ ہندو اور اسرائیل کی اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس معاشی، سیاسی اورفکری غلامی کو آنکھوں دیکھے قبول کر لینا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے! تاریخ کا ہرطالب علم جانتا ہے کہ استعمار کسی بھی ملک میں مختصر عرصے کے لیے نہیں آتا۔ وہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ کم از کم دوسو سال کی محکومیت لے کر آتا ہے ۔ اسرائیل اور بھارت کی غلامی ابھی تک ایک خواب رہا ہے جسے تقسیم ہند سے قبل متعصب دشمنانِ اسلام ہندو قیادت نے دیکھا تھا اور جسے قائد اعظمؒ اور علامّہ اقبالؒ نے ردّ کرتے ہوئے معجزانہ طور پر پہلے انسانوں کے ایک گروہ کو ایک نظریاتی قوم میں تبدیل کیا اور پھر اس نظریاتی قوم کے لیے ایک نظریاتی خطۂ ارض کا حصول کیا۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ کی طرح کے معاہدے ان محسنانِ قوم کے ساتھ کھلی بے وفائی اور قوم کے ساتھ ایک ناقابلِ قبول کارروائی ہو گا۔
غزہ کے پُرعزم صاحبانِ ایمان نے جس طرح جانوں کی، مال کی، عزتوں کی قربانی دے کر پڑوسی مسلم ممالک کے گھناؤنے عزائم کو چکنا چور کیا ہے ، اس کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور جہاد کشمیر کے لیے ایسے کسی بھی معاہدے کو پوری قوم کو پوری قوت سے ردّ کرنا ہوگا کیوں کہ اسی میں پاکستان کی فلاح ہے۔
۱- نوکر شاہی اور احساسِ کمتری پر مبنی ایک مقروض ،مفلوک الحال کی نفسیات سے نکل کر ایک باعزّت اور باوقار قوم کی نفسیات کو اپنانا ہوگا، جو صرف نظریۂ پاکستان کے احیا سے ممکن ہے ۔
۲- پاکستان کے پاس اتنے قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں کہ وہ صرف ان کی ایماندارانہ تنظیم اور منصوبہ بندی سے نہ صرف قومی قرض سے بلکہ آیندہ دو سو سال کے لیے I2U2 کے تحت غلامی سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔صرف قوم کو اعتماد میں لے کر جھوٹے اور گمراہ کن اعداد و شمار کی جگہ عوام کے نمایندوں کے ذریعے قومی تعمیرِ نو کرنا ہوگی جو قطعاً مشکل کام نہیں ہے۔
۳- پاکستان کو اپنی خوش فہمیوں سے نکل کر دوبارہ چین کے ساتھ معاملات کو سلجھانا ہوگا لیکن اس میں بھی طویل المیعاد قومی مفاد سامنے ہو۔ ایک نئی ’چینی ایسٹ انڈیا کمپنی‘کی صورتِ حال کی پیدا شدہ شکل بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
۴- پاکستان صرف عقل کا استعمال کر کے افغانستان ، وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعاون اور تعلقات کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے قائدانہ کردار کو حاصل کر سکتا ہے۔
۵- غزہ، فلسطین اور کشمیر پر عوام کو آگاہ کرنے اور ان کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور ضمیر کو جگانے کے لیے ہربڑے اور چھوٹے شہر میں جلسے ،جلوس اور سیمی نار منعقد کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھنا ہوگا، تاکہ نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیر کے مسئلے کو بھی نوجوانوں کے ذہن سے محو نہ ہونے دیا جائے۔
۶- عوامی اجتماعات میں تقاریر ، قراردادوں اور سرکاری حکام سے رابطوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین کی امت مسلمہ کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ حکومت سے غزہ کے مظلوموں کی حمایت اور استعماری طاقتوں ، امریکا ، برطانیہ و دیگر سے سخت لب و لہجے میں اسرائیلی سفاکیت بند کروانے کے مطالبات کیے جائیں ۔ نیز ان ممالک کے گھناؤنے کردار کو جلسے، جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں پوری جرأت سے آشکار کیا جائے۔
۷- برقی ابلاغ عامہ کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر مظالم کی داستان کو سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے پوری دنیا کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کے مسائل سے بھی دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا ۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلہ کو صرف تحریک اسلامی ہی صحیح انداز میں پیش کر سکتی ہے۔
۸- دوسروں کی کاسہ لیسی کی جگہ ملک میں زراعت، پانی کی صحیح قدر، غیر ضروری پُرتعیش درآمدات پر پابندی،تجارت کی سہولتوں کی فراہمی ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتی ہے۔ اس کے لیے صرف تین سال کے لیے تعیش کی زندگی سے دُوری اختیار کرنی ہوگی، سادہ طرزِزندگی اور خودانحصاری کی راہ اپنانا ہوگی۔ تاہم، یہ تمام اقدامات اس وقت ہوسکتے ہیں جب ملک میں شفاف انتخابات ہوں اوروقت پر ہوں اور منتخب افراد کو بغیر کسی دباؤ اور دخل اندازی کے کام کا موقع دیا جائے۔ اس قوم میں غیر معمولی طور پر بہترین صلاحیتوں کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جو ملک کے باہر بڑے بڑے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اگر انھیں اعتماد ہو کے منتخب نمایندے واقعی ملکی ترقی چاہتے ہیں تو وہ ہرقربانی دے کر ملک کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے، شرط صرف یہ ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور شفاف ہوں۔
وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۵۴(اٰل عمرٰن ۳:۵۴)اورانھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے۔