دنیا کی تاریخ میں سودکے خلاف جنگ یقینا اتنی ہی پرانی ہے، جتنا خود سود کا مکروہ دھندہ! لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پرانی اور تاریخی جنگ میں پلڑا سود کا ہی بھاری نظر آتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب سود کے خلاف ہے اور ہرمذہب کے ماننے والے سود کھا اور کھلا رہے ہیں۔
ربّ کا آخری فرمان قرآن کریم سود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے اور قرآن کو ماننے والے ’مسلمان‘ اپنی تباہی کی یہ جنگ جاری رکھےہوئے ہیں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۲۷۸ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۲۷۹(البقرہ ۲: ۲۷۸-۲۷۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
سود کے بارے میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات موجود ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، گواہوں اور لکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنَ الصَّبَّاحِ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَـانُ بْنُ اَبِي شَيْبَةَ ، قَالُوا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، اَخْبَرَنَا اَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن اکل الربا ومؤکلہ، حدیث: ۳۰۸۰)
ان واضح احکامات کے باوجود مسلم معاشروں میں نہ صرف سود رائج اور عام ہے، بلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ آیئے ’اسلامی‘ جمہوریہ پاکستان میں سود کے خلاف جدوجہد کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
مصور پاکستان علامہ اقبال نے سود کو ’لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات‘ قرار دیا ہے۔
ملک کے مرکزی بنک کے افتتاح کےموقع پر کی گئی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان ملک میں سود سے پاک اسلامی معاشی نظام چاہتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے ملک کے مرکزی بنک کو عملی اقدامات کا حکم بھی دیا تھا۔قائد کی ان ہدایات کو جاری ہوئے ۷۵سال ہوگئے!
اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں بننے والا پاکستان کا آئین سود کے جلد از جلد خاتمے کو حکومت کی آئینی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ اس آئین کو بنے ہوئے نصف صدی بیت گئی۔
حکومتِ وقت کی درخواست پر ملک کے آئینی ادارے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ایک قابل عمل تفصیلی رپورٹ جون ۱۹۸۰ء میں پیش کی۔ جس میں سود کی جامع تعریف کے بعد معیشت کے تمام شعبوں سے سود سے نجات کے لیے ایک قابلِ عمل متبادل نظام دیا گیا۔اس بات کو چالیس سال ہوگئے!
وفاقی شرعی عدالت نے مرحوم جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمان کی سربراہی میں اس وقت رائج بلاسود بنکاری اور سود کے خلاف اپنا پہلا فیصلہ ۱۹۹۱ء میں جاری کیا۔ اس فیصلے میں سود کے خاتمے اور حقیقی اسلامی بنکاری نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کو چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔شریعت کورٹ کے فیصلے کو آج لگ بھگ بتیس سال ہوگئے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۹۱ء کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے سود کے خلاف تاریخ ساز فیصلہ ۱۹۹۹ء میں سنایا اور حکومت کو ۲۰۰۱ء تک سارے بنکاری ومالیاتی نظام کی اسلامی تشکیل مکمل کرنے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی لگ بھگ ۲۳ سال گزر گئے۔
وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹ سال پرانی اپیلوں پر سود کے خلاف اپنا دوسرا اور اب تک کا آخری فیصلہ اپریل ۲۰۲۲ء میں سنایا اورسودی نظام ختم کرنے کے لیے حکومت کو مجموعی طور پر پانچ سال دیئے۔اس فیصلے کو آئے ہوئے اب ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا۔
آئین کی دفعات اور عدالتی فیصلوں کے علاوہ گذشتہ تیس چالیس سال کے دوران اسلامی بنکاری ومالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے سفارشات تیار کرنے کے لیے سرکاری سطح پر مختلف اوقات میں متعدد کمیشن بھی بنائےگئے۔
ان میں سے قابل ذکر راجا ظفرالحق کمیشن اور اسٹیٹ بنک کے اس وقت کے گورنر کی سربراہی میں بننے والے حنفی کمیشن اور ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والا ٹرانسفارمیشن کمیشن تین اہم ترین کمیشن تھے۔ان کمیشنز کی بہت محنت سے تیار کی گئی بہترین رپورٹس شاید اسٹیٹ بنک کے سرد خانے میں کہیں پڑی ہوں گی۔
قصۂ مختصر ان تمام کاوشوں کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ سود آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ مگر حکمران اور مرکزی بنک کے ذمہ داران سود کے خاتمے کے بجائے سودی نظام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ ایک شرمناک اور تلخ حقیقت ہے کہ ملک پر حکمرانی چاہے کسی نام نہاد سیاسی پارٹی کی ہو یا کسی فوجی ڈکٹیٹر کی، سود کے معاملے میں ان سب کی سوچ، عمل اور پالیسی ایک ہی چلی آرہی ہے کہ سود کے نظام کو ہر حال میں جاری رکھناہے۔ البتہ لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیے ’اسلامی بنکاری‘ جیسے کچھ نمایشی کام کرلیے جاتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے کہ بانی ٔپاکستان سود کے خلاف، سود کے خاتمے کے بارے آئینی دفعات موجود، عدالتوں کے واضح فیصلے اور کمیشنز کی قابل عمل سفارشات موجود! پھر بھی ملک کی معیشت روز بروز سود کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے___ آخر حل کیا ہے؟
سود سے نجات کے سلسلے میں دو ٹوک بات تو یہی ہے کہ قوت نافذہ کے بغیر سود سے نجات ممکن نہیں۔ جب تک ملک کا مجموعی نظام ربّ کے احکامات کا تابع نہیں ہوجاتا، سود کا متبادل معاشی مالیاتی نظام نافذ نہیں ہوسکے گا۔ اس کے لیےضروری ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نام کی نہیں، کردار کی اسلامی اور جمہوری ریاست بنے۔ اس کے حکمران وہ لوگ ہوں جو سود کی معاشی تباہ کاریوں سے کماحقہٗ واقف ہوں، اس کو ختم کرنے کا عزم بھی رکھتے ہوں اور متبادل اسلامی معاشی نظام کو نافذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
کوئی ایسی حکومت جو معاشی اور سیاسی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو، جس کی سوچ آزاد نہ ہو، جس کا قرآنی احکامات وتعلیمات اور سود کا تصور واضح نہ ہو اور جس کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار غلامی کی حد تک ہو، وہ سودی نظام کے خاتمے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ امید کی ایک تازہ کرن بنا ہے۔ عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر ۱۹سال بعد اپریل ۲۰۲۲ء کو فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دے دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ دسمبر۲۰۲۷ء تک ملک کے پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔
اس فیصلے کے نفاذ کی اولین ذمہ داری اختیارات کا مرکز ہونے کے ناتے حکومت کی ہے۔ مرکزی بنک بنکاری نظام کا محافظ اور منتظم ہے۔ اس اعتبار سےنفاذ کی ذمہ داری دوسرے نمبر پر ملک کے مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک آف پاکستان) کی ہے۔
تیسرے نمبر پر تجارتی بنکوں کے ذمہ داران ہیں جو اپنے صارفین کو سود کے وبال سے نکالنےکے ذمہ دار ہیں۔
حکومتی سطح پر دیئے گئے عرصے میں فیصلے پرعمل درآمد کے لیے کیا منصوبہ بندی اور اقدامات کیے جارہے ہیں، بظاہر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ ماضی یہی بتاتا ہے کہ حکومت کسی جمہوری آمر کی ہو یا فوجی جرنیل کی ربّ کائنات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ختم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہے اور نہ کوئی منصوبہ۔
فیصلہ آنے کے بعد عمل درآمد کی تیاری اور منصوبہ بندی کے بجائے اس فیصلے کے خلاف حسب روایت اپیلوں کا معاملہ شروع ہوا۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو ’ربا‘ کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مرکزی بنک غالباً وہ پہلا ادارہ تھا، جس نے اس فیصلہ کو نہایت مستعدی سے مئی ۲۰۲۲ء میں عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔
اصولاً تو اس فیصلے کی مخالفت کے بجائے اس کے نفاذ کے لیے مرکزی بنک ہونے کے ناتے اسٹیٹ بنک کو مثبت مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ۲۰۰۳ءمیں اسی مرکزی بنک نے اسلامی بنکاری کی ترویج اور ترقی کے لیے پالیسیاں جاری کی تھیں۔
اسلامی بنکاری کو فروغ دینے کے لیے بنک میں ایک اسلامی بنکاری شعبہ بھی بنایا گیا ہے۔ مرکزی بنک اور بنکوں کے معاملات میں شریعہ کے امور کی نگرانی ورہنمائی کے لیے اسٹیٹ بنک میں ماہرین شریعہ، بنکر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک شریعہ بورڈ (جسے اب شریعہ کمیٹی کہا جاتا ہے) بھی تشکیل دیا گیا۔ اس بورڈ کے پہلے سربراہ ایک بڑی علمی شخصیت اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے۔ مرکزی بنک کی اسی پالیسی کے تحت شریعہ کے امور کی نگرانی اور بنکوں کے مالی معاملات اور ان کی خدمات و پراڈکٹس میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی بنکوں اور سودی بنکوں کی اسلامی بنکاری ڈویژنوں میں بھی شریعہ کے ماہرین پر مشتمل شریعہ بورڈز بھی موجود ہیں۔
شرعی عدالت کے فیصلے کو جاری ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال بیت گیا۔ اس عرصے میں فیصلے کے عملی نفاذ کے لیے مرکزی بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری نے کیا کوششیں کیں، کیا روڈ میپ یا منصوبہ سازی کی ہے؟ کسی کو کچھ پتا نہیں! شعبہ اسلامی بنکاری کے ذمے داران میں تو شاید کوئی عالم یا شریعہ کا ماہر موجود نہ ہو لیکن بنک کا شریعہ بورڈ تو ہے ہی علما پر مشتمل شریعہ کا محافظ (Custodian of Sharia)۔ شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بنک کی اپیل پر Custodian of Sharia نے کیا ردعمل دیا؟ کچھ علم نہیں۔ آیا رد عمل دیا بھی یا نہیں، اس کا بھی کوئی پتا نہیں! اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں بنکوں کے شریعہ بورڈز یا ان بورڈز کے اندر موجود مشیران شریعہ(الا ماشاءاللہ) کی طرف سے کسی واضح ردعمل یا تجویز کا بھی کہیں پتا نہیں چلتا۔ یہاں بھی مکمل خاموشی ہے۔ یعنی شریعہ کے محافظ تین اداروں، اسٹیٹ بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری، اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ اور بنکوں کے شریعہ بورڈز کی طرف سے تقریباً خاموشی نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور زیادہ ذمہ داری مرکزی بنک کے شریعہ بورڈ کی بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کے خاتمے کی جو طاقت اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ بس ادراک کی ضرورت ہے۔
کیا علمائے کرام کی ذمہ داری صرف پیش کردہ بنکاری معاملات، پراڈکٹس اور خدمات کے جائزے اور فتوے تک محدود ہے یا قرآنی حکم کے عملی پہلو یعنی سود کے خاتمے کے لیے بھی انھیں کوئی کردار ادا کرنا ہے؟
سود کے انسداد کے خواہاں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ:
۱- آیا مرکزی بنک کے شعبہ اسلامی بنکاری نے شرعی عدالت کے فیصلے پر مقررہ مدت کے اندر عمل درآمد کے لیے کوئی لائحہ عمل تیارکیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس کی کوئی خیر خبر اور اس پر اب تک کی پیش رفت!
۲- کیا مرکزی بنک اور ملک کے تمام بنکوں کے معاملات میں شرعی اصولوں کے تحفظ کے مرکزی ذمہ دار کے طور پر اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ نے مرکزی بنک سے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمدکا کوئی لائحہ عمل مانگا/ یا ایسا کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے کہا ہے؟
۳- کیا مرکزی بنک سے سودی بنکاری کے خاتمے کے لیے شریعہ بورڈ نے بنک سے سودی بنکاری برانچز کے لائسنس روکنے کے لیے کہا ہے؟
۴- کیا سودی بنکوں کی اسلامی بنکاری ڈویژنز کے شریعہ بورڈز نے اپنے بنکوں کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مقررہ مدت کے تعین کے ساتھ کسی منصوبہ بندی کے لیے کہا ہے یا کوئی تجویز یا مشورہ دیا ہے؟ اورآخری سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر کے بنکوں کے مشیران شریعہ کے ہاں سودی نظام کے خاتمے کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود ہے؟
کیا سود کے عذاب سے نجات کے موضوع پر مشیران شریعہ کے پاس کسی مؤثر مشترکہ حکمت عملی/ جدوجہد کے لیے اجتماعی فورم کی تشکیل کا کوئی پروگرام زیر غور ہے؟
جب تک شریعہ بورڈز کے ممبران مؤثر اور منظم کردار ادا کرتے ہوئے اپنے بنکوں پر سودی کاروبار کو بتدریج گھٹانے اور اسلامی بنکاری کو بڑھانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے، سودی بنکاری ختم نہیں ہوگی۔
سود کے خاتمے اور اسلامی بنکاری کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں( حکومت، مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں) سے یہ اُمید رکھنا عبث ہے کہ وہ خوشی خوشی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ صرف ایک راستہ باقی ہے اور وہ ہے بنکوں کے شریعہ بورڈز کی طرف سے بنکوں پر دباؤ کی مؤثر اور مربوط حکمت عملی! اس سلسلے میں اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کا کردار سب سے اہم ہوگا۔
پہلے قدم کے طور پر بورڈ کو اسٹیٹ بنک سے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کا مخصوص مدت کے تعین کے ساتھ لائحہ عمل مانگنا چاہیے۔ اگر اب تک ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا تو شریعہ بورڈ دوتین ہفتے کے اندر اس کو بنانے کا مطالبہ کرے۔
اس لائحہ عمل کے چند نکات یہ ہوسکتے ہیں:
۱-سودی بنکوں کو مزید لائسنسوں کے اجراء پر پابندی۔
۲-سودی بنکوں کی برانچز کو تین سال کے اندر بتدریج اسلامی بنانے کا پروگرام۔
شریعہ بورڈ لائحہ عمل بننے کے بعد اس پر مرحلہ وار عمل درآمد کی نگرانی کرے۔
یہی طریقہ کار بنکوں کے شریعہ بورڈز بھی اپنے بنکوں کے ساتھ اختیار کریں۔
اگر مرکزی بنک اور بنکوں کے مشیرانِ شریعہ نے ایسا نہ کیا اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کیا، تو پورا یقین ہے کہ حالیہ عدالتی فیصلے کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے کے اسلامی نظریاتی کونسل اور کمیشنوں کی رپورٹس اور عدالتی فیصلوں کا ہوا ہے۔