جنوری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

معرکۂ غزہ اور مغرب میں قبولِ اسلام

احمد منصور | جنوری ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

دوران سفر قسمت سے ایک ہوائی اڈے پر میری ملاقات عبداللہ بن منصور سے ہو گئی۔ عبداللہ بن منصور، فرانس میں اسلامی تنظیموں کے اتحاد (Musulmans De France) کے صدر ہیں اور کچھ برس پہلے میرے ٹی وی پروگرام ’بلا حدود‘ کے مہمان بھی رہ چکے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ کئی برس سے ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، تاہم ان سے اچھی شناسائی ہے، کیوں کہ یورپ میں اسلامی مفادات کے لیے ان کی کوششیں اور ان کی موجودگی بہت نمایاں ہے۔

فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے اسرائیل کے حق میں جس اندھے تعصب کا اظہارکیا گیا ہے اور فرانس میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے میں فرانس نے جو کردارادا کیا ہے، ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ابن منصور سے سوال کیا کہ ’’غزہ کے خلاف جنگ نے فرانس کے مسلمانوں کو کس طرح متاثر کیا ہے؟‘‘ جواب میں انھوں نے مجھے ۷ ؍اکتوبر [کے حملے] کے بعد ۲۴ گھنٹوں میں سامنے آنے والےسرکاری احکامات کے بارے میں بتایا: ’’یہ احکامات ہر اس چیز کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، جس کا تعلق فلسطین سے ہو، یعنی فلسطینی جھنڈا اُٹھانا، اور حماس کا نام تک لینا بھی غیر قانونی ہے، حالاں کہ خود اسرائیلی حکام رات دن ’حماس’ کا ہی نام لیتے رہتے ہیں‘‘۔  اس کے بعد انھوں نے مجھے ان تبدیلیوں کے بارے میں بتایا، جوغزہ میں اسرائیل کے ناقابلِ تصور جرائم کی روشنی میں اس مختصر مدت میں  فرانسیسی سوسائٹی کے اندر اور بعض سیاسی شخصیات کے اندر واقع ہوئی ہیں۔

 لیکن مجھے ابن منصور کی گفتگو میں جس بات نے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ مغرب اور خاص طور سے فرانس میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اسلام کے تعلق سے مثبت سوچ کا پایا جانا ہے ،حالاں کہ گذشتہ عشروں کے دوران اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے زبردست مہمات چلائی گئیں۔ اسلام کی منفی تصویر کشی کی گئی اور ’اسلاموفوبیا‘ نام کی اصطلاح وجود میں لائی گئی۔   غزہ کے لوگوں نے، ہزاروں کی تعداد میں عام ہونے والی ویڈیوز کے توسط سے مغرب کی ان   تمام کوششوں کے بیش تر اثرات کو دھو ڈالا ہے اور اسلام کی ایک روشن و شفاف تصویر پیش کر دی ہے۔ ان ویڈیوز کو بہت سی بین الاقوامی زبانوں میں ڈب بھی کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیوز اہلِ غزہ کے صبر اور یقین کو بیان کرتی ہیں اور دکھاتی ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ اس پر اللہ کی خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں۔ صبرواستقامت کی اس روشن و شفاف تصویرنے ، جسے دنیا نے اب تک دیکھا نہیں تھا، دیکھنے والوں کو محوِ حیرت کر دیا ہے۔اس منظر نے بے شمار اہل مغرب کو اسلام کے متعلق جاننے ، قرآن کا مطالعہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ابن منصور کہتے ہیں: ’’۴۰ برسوں کے طویل عرصے کے دوران ہم نے فرانس میں خاص طور سے وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر اسلام میں داخل ہونے کا ایسا رجحان نہیں دیکھا، جیسا غزہ کی جنگ کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کو اختیار کرنے والے نومسلمین کی رسمی تعداد ۸۰ افراد یومیہ سے بڑھ کر بعض اوقات ۴۰۰ تک پہنچ چکی ہے، اور یہ تعداد روزانہ اوسطاً ۳۰۰ فرانسیسی نومسلم سے کم نہیں ہوتی‘‘۔ اسی سے آپ دوسرے مغربی ممالک کے بارے میں اندازہ لگا لیجیے۔

میں نے ابن منصور سے کہا کہ ’’کیا آپ نے ان سے یہ سوال کیا کہ وہ اسلام میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’’اکثر لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ سنگین ترین مصائب کے باوجود اور اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں ، اپنے گھروں اور اپنا مال و دولت کھو دینے کے باوجود صبر و رضا ، یقین و ایمان ، طمانیت اور امن و سلامتی کا جو شعور ہم نے غزہ کے لوگوں کے اندردیکھا ہے، اس نے ہمیں اس کے پیچھے چھپا راز جاننے پر مجبور کر دیا۔ یہ راز ہمیں اسلام اور قرآن کے اندر ملا۔ یہ کیسا عظیم دین ہے جو لوگوں کے دلوں کو، ان کی زندگیوں کو اس یقین اور اس امن و سلامتی سے معمور کر دیتا ہے جس سے ہماری زندگی محروم ہے! ہم نے اسلام کے متعلق پڑھا اور قرآن پر ہمارا دل مطمئن ہو گیا تو اس کے بعد ہم نے اس دین میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔

اسلام قبول کرنے والوں کی عمر کے متعلق سوال کیا تو ابن منصور نے کہا: ’’اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے، جن میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہم ان کے والدین کی موجودگی میں اور ان کی رضامندی کے ساتھ ہی کلمۂ شہادت پڑھوا تے ہیں، ورنہ نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات والدین بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے بچوں کے اسلام میں داخلے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔

سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والے کسی واقعے کے متعلق پوچھا تو ابن منصور کا جواب تھا: ’’۱۸ سال کی ایک لڑکی تھی۔ میں نے اس سے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ معلوم کی تو اس نے بتایا کہ میں قرآن کا ترجمہ لے کر آئی کہ اسے پڑھ کر اُس معبود کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور [غزہ کے] ان لوگوں پر ایسی سکینت نازل کی ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میں مکمل نہیں کر پائی تھی کہ ٹھیر گئی اور رونے لگی۔ میری آنکھوں سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں بہے تھے۔ میں نے کہا کہ یہی وہ معبود ہے جس کی میں عبادت کرنا چاہتی ہوں، اور میں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا‘‘۔

ایک دوسری لڑکی نے کہا: ’’میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے پانچ بچوں کو کھو چکی تھی، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنا منہ پیٹتی، چیختی، چلّاتی اور روتی پیٹتی، میں نے دیکھا کہ وہ صبر کا پیکر بنی ہوئی ہے اور کہہ رہی ہے: میرے بچے جنت میں پہنچنے میں مجھ سے بازی لے گئے۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ انسان نہیں ہو سکتے۔ ایسا کیسے ہو کہ میں بھی ان جیسی بن جاؤں؟ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس یقین کے پیچھے دین اسلام ہے۔ بس میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس دین میں داخل ہو نا ہے‘‘۔

عبد اللہ بن منصور نے مجھے جو باتیں بتائیں، حالاں کہ ان کی گفتگو صرف فرانس سے متعلق تھی اور انھوں نے چند ایک نمونے ہی بیان کیے تھے، وہی باتیں میں نے مغربی اخبارات سے ترجمہ شدہ ان مختلف رپورٹوں میں بھی پڑ ھیں، جو گذشتہ عرصے کے دوران شائع ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیوز اور خاص طور سے ’ٹِک ٹاک‘ پر مغرب کے نوجوان بچے اور بچیوں کے ویڈیو کلپ دیکھیے۔ ان ویڈیوز میں بھی یہ نوجوان انھی باتوں کی تائید کر رہے ہیں جن کا ذکر ابن منصور نے کیا ہے ۔ یہ نوجوان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عظیم دین کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔   شاید فلسطین اور غزہ سے ہمدردی و اظہار یک جہتی نے ہی امریکا اور یورپی یونین کو ’ٹِک ٹاک‘ ایپ کے سلسلے میں سخت پابندیاں عائد کرنے اور امریکی قانون سازوں سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اس ایپ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اخبارات کے علاوہ دوسرے ذرائع ابلاغ نے ایک سے زائد رپورٹیں شائع کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں وہ ہیں، جو اسلام، قرآن اور فلسطین کے موضوع پر ہیں۔

شاید ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء (نائن الیون)کے افسوس ناک المیے کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ البتہ ۱۱ ستمبر اور ۷؍اکتوبر کے درمیان فرق یہ ہے کہ اول الذکر واقعے کو اسلام کی تصویر بگاڑنے اور مسلمانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جب کہ ۷ ؍اکتوبر پوری دنیا کو صحیح اسلام کی تلاش پر لگانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر، مغربی صہیونیوں کی حرکت تھی اور یہ تصویر خلافِ حقیقت ہے۔ صبر کے پیمانوں سے لبریز اہل غزہ کی ان تصویروں کا مشاہدہ ہی کافی ہے، جن میں وہ صبر و رضا کے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو الوداع کہہ رہے ہیں، یا ان اسرائیلی قیدیوں کی تصویروں کو دیکھ لینا کافی ہے، جو حماس کے جنگجوؤں سے گرم جوشی کےساتھ وداع ہورہے اور ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے، گویا یہ لوگ جنگی قیدی نہیں تھے، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی اصل حقیقت کو جاننے کے لیے سیاحتی سفر پر آئے ہوئے تھے۔ ممکن ہے انھی تصویروں نے اسرائیلی مجرموں کو دوبارہ جنگ شروع کرنے اور غزہ میں اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ کیا ہو ، کیوں کہ قیدیوں کی رہائی کی کارروائی جشن کے ماحول میں تبدیل ہو گئی تھی، جس کا مشاہدہ پوری دنیا کر رہی تھی۔

 جس طرح ۱۱ ستمبر کا دن تاریخ میں تبدیلی کی ایک نمایاں علامت بن چکا ہے، بالکل اسی طرح ۷ ؍اکتوبر بھی ایسی ہی ایک نمایاں علامت بن جائے گا۔ شاید فرانس کے اندر اسلام میں داخل ہونے والی تعداد پر دوسرے مغربی ممالک، خاص طور سے امریکا کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، جہاں کے عوام کے اندر ایک ایسی کش مکش جاری ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔

۷ ؍اکتوبر کے بعد سے دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کائنات میں آنے والی عظیم تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ شدید درد اور سنگین آزمائش جس سے غزہ اور مغربی پٹی کے لوگ دوچار ہیں، وہ عنقریب ایک ایسی انسانی بیداری کا سبب بنے گی، جو گذشتہ کئی عشروں سے صہیونیوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ذہنوں میں بٹھائے جانے والے بیش تر منفی افکار و تصورات کو بدل کر رکھ دے گی۔

خدا کی قسم ، اے غزہ کے باشندو! تمھارا پاکیزہ اور مقدس لہو، تمھاری پاک روحیں اور تمھارے پاکیزہ نفوس نہ رائیگاں ہوئے ہیں اور نہ ہرگز ہوں گے۔ کیوں کہ مومن کے خون کی حُرمت اللہ کے نزدیک بہت عظیم ہے۔ قرآن میں مذکور اصحابِ اُخدود کا قصہ جسے ہم تلاوتِ قرآن میں دُہراتے ہیں ، ہمارے دلوں کو یقین اور اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر کے سامنے تسلیم و رضا کے احساس سے بھر دیتا ہے۔ جب ظالم بادشاہ کو اس بندۂ مومن نے ’بسم اللہ رب الغلام‘ کہنے پر مجبور کیا تو بادشاہ اس کے بعد ہی اس کو قتل کر پایا تھا۔ پھر یہی قتلِ مومن لوگوں کا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلے کا سبب بن گیا تھا۔ اس کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے ان لوگوں کی آزمایش یوں ہوئی تھی:

وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۝۸ۙ (البروج۸۵: ۸)اور ان اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔

یہی اہلِ غزہ کی بھی آزمائش ہے۔ اسی طرح فرعون کے جادوگروں کے ایمان لے آنے سے فرعونی معاشرے میں زلزلہ برپا ہو گیا تھا۔ فرعون کی حکومت و سلطنت اور اس کی فاسد معبودیت بھی اس واقعے سے لرز اٹھی توان جادوگروں کو تکلیف دہ انداز سے قتل کرنے کا حکم دے دیا:

 اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتا چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی؟)۔ جادوگروں نے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے! یہ ہرگز نہیں ہوسکتاکہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں۔ تُو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔(طٰہٰ ۲۰:۷۱-۷۲)

یہ دونوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ آخرت پر یقین رکھنے والوں اور اللہ کی بارگاہ میں درجۂ شہادت کے لیے منتخب کر لیے جانے والوں کی نظر میں موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی ختم ہو گئی، وہ تو ’’اللہ کے پاس زندہ ہیں اور اپنا رزق پا رہے ہیں‘‘۔ موت اگر ایک حتمی تقدیر ہے تو شہادت کی یہ موت اشرف ترین موت ہے، جسے انسان حاصل کرسکتا ہے۔ ان آیات پر ایمان و یقین حیات و کائنات کے سلسلے میں انسان کے فہم و تصور کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اور مغرب میں اس وقت جو لوگ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں ان کے ساتھ یہی معاملہ پیش آ رہا ہے۔ غزہ اور مغربی پٹی میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تکلیف دہ اور دلوں کو چیر دینے والا ہے، خاص طور سے اس لیے کہ یہ سب کچھ بیش تر مسلم حکمرانوں کی سازش، بے ہمتی، بزدلی یا خیانت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ البتہ ہمیں اطمینان او ر تسلی ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے اہلِ غزہ کو اسی طرح شہید اور پاکیزہ نفوس کی شکل میں پسند کیا ہے، جس طرح اصحابِ اُخدود اور ان کی طرح اللہ کی رضا پر صبر و قناعت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں ایسی تبدیلیاں راتو ں رات واقع نہیں ہوا کرتیں، لیکن باوجود اس کے کہ مغربی سوساٹیوں میں اسلام کو بدنام کرنے کی عمداً کوششیں کی جاتی ہیں اور وہاں سیاسی و اقتصادی اور میڈیا کی سطح پر صہیونی لابیوں کا تسلط ہے، ہزاروں مغربی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا دین اسلام میں فوج در فوج داخلہ اس بات کا غماز ہے کہ کائنات کے اندر عنقریب کوئی بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہونے والی ہے، خواہ ابھی اس تبدیلی کے آنے میں وقت ہو، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ ہے : كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۝۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۱) ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولؑ ہی  غالب ہوکر رہیں گے‘‘۔وہ وقت ضرور آئے گا کیوں کہ: وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا O(بنی اسرائیل ۱۷:۵)’’اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔

ہمیں غزہ کی جنگ میں سوائے بدمعاش صہیونی غنڈوں کے سنگین جنگی جرائم کے کچھ نظر نہیں آتا۔ تاہم، اس جنگ کے کچھ ایسے بے شمار پہلو بھی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۲۱  (یوسف۱۲:۲۱)’’اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔