پورا معاشرہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوجائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض ہرشعبۂ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاداً مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہوجائیں، جو خداوند ِ عالم نے اپنی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے سے دیئے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتاہے، قانون اسی کو جرم قراردے،حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے، تعلیم وتربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیارکرے، منبرومحراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے اور معیشت کے ہرکاروبار میں وہ ممنوع ہوجائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے، قانون اس کی حمایت کرے، انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں، تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے، منبرومحراب اسی کی تلقین کریں، معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کردے، اور کاروبارِ معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آجاتا ہے اورمادّی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اس میں بندگی ٔربّ اور بندگی ٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔
اسلام کی دعوت اگرچہ ہرہر فردکو یہی ہے کہ بہرحال وہ توحیدہی کو اپنا دین بنالے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی صورت پیدا کرنا ہے، اور تمام انبیا علیہم السلام کی کوششوں کا مدّعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت ِ مسلمہ وجود میں آئے، جو کفر اور کفّار کے غلبے سے آزاد ہوکر ’من حیث الجماعت‘ اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے ناواقف اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاعلیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے، اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ و قائم کرنا سرے سے ان کا مقصود ہی نہیں رہا ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۴، جنوری ۱۹۶۴ء، ص ۲۴-۲۵)