خان یونس کے ناصر ہسپتال کے سامنے جینز اور ہوائی چپل پہنے نوجوان مرد ایسے قطار میں کھڑے تھے، جیسے وہ کسی جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔یہ ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر رات کے وقت کے مناظر ہیں۔ طبی عملہ اپنا مخصوص لباس پہنے مزید زخمیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔اونچی آوازیں آنے لگتی ہیں اور مردوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔
عوامی امن و امان کی صورتِ حال مکمل طور پر خراب ہونے والی ہے۔ لوگ خوف زدہ ہیں اور تھک چکے ہیں۔ایک گاڑی اُونچا ہارن بجاتے ہوئے اور جلتی بجھتی سرخ روشنیوں کے ساتھ رُکتی ہے۔ ایک نوجوان کو اس سے نکالا جاتا ہے اور ایک سٹریچر پر رکھ کر جلدی سے اندر لے کر جایا جاتا ہے۔پھر دھول میں لپٹی ایک اور گاڑی آتی ہے اور ایک چار، پانچ سال کے بچے کی مدد کر کے اسے گاڑی سے نکالا جاتا ہے۔ وہ اتنی ہمت رکھتا ہے کہ گاڑی سے اُتر کر خود چل کر اندر چلا جائے۔
جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا ہے، جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے، جو اس کی گنجایش سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیلی ٹینک اور فوجی بھی شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد زمینی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم ۱۲۰۰ سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چُکے ہیں اور اس کے بعد غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ۱۷ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے عام شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ کے ۲۳ لاکھ رہایشیوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے جنوب کا رخ کیا تھا۔ لیکن خان یونس تک لڑائی کے پہنچنے کے بعد ایسی جگہیں کم رہ گئی ہیں، جہاں وہ جان بچانے کے لیے رُخ کرسکیں۔
شہر کے یورپین ہسپتال کے میدان اور راہداریاں ہزاروں بے گھر ہونے والے افراد سے بھری ہوئی ہیں۔ دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک بچے نے کہا:’ ’جب ہم کھیل رہے ہوں اور بمباری شروع ہو جائے تو ہم فوراً دیواروں کے ساتھ خیموں میں جا کر سو جانے کا بہانا کرتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے۔ ہمارے اوپر کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہیں‘‘۔
ہسپتال میں ایک خاتون نے بتایا کہ ’’میں خان یونس کے مشرقی علاقے الفاخاری کی جانب گئی، تو مجھے فون کالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ جگہ ’محفوظ مقام‘ ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس علاقے میں بہت بمباری ہو رہی ہے اور صورتِ حال بہت بُری ہے‘‘۔
’’مجھے کوئی علاقہ محفوظ نظر نہیں آتا اور نہ کسی جگہ رہا جا سکتا ہے‘‘۔
۷۵ سال کے بزرگ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’صورتِ حال کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں عورتیں اور بچے ہیں۔ ہم بڑے تو جو کچھ ہو رہا ہے برداشت کر سکتے ہیں‘‘۔
انھوں نے مزید بتایا:’’ان آوازوں کو سنیے ، کوئی کیسے محفوظ مقام پر جانے کے موقعے کے لیے بیٹھ کر انتظار کرسکتا ہے؟ تحفظ کہاں ہے؟ ہم تو محسوس نہیں کر سکتے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں، جسے وہ محفوظ کہتے ہیں، ہمیں وہ نہیں ملتا‘‘۔
خان یونس مرکز میں سماح الوان دو خالی پانی کی بوتلیں لہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے پیاسے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے:’’ہم کتے بلیوں کی طرح بن گئے ہیں۔ شاید کتے اور بلیوں کو پناہ مل جاتی ہے، ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ ہم گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کے مطابق غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے۔مجھے اپنی زندگی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جنگ کی ابتدا سے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سب کے باوجود یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے؟
مُجھ سے میری قوت ارادی اور میرا اختیار چھین لیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے کا اب میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ میرا تعلق شمال سے ہے لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت جنوب کی طرف روانہ ہوا، جب اسرائیلی فوج نے ہم کو حکم دیا کہ ’’ایسا کریں‘‘۔
ابھی میں اکیلا خان یونس میں ہوں اور میرے گھر والے وسطی غزہ میں ہیں اور معلوم نہیں کس حال میں ہیں؟پہلے تومیں کچھ دن بعد ان سے ملنے جاتا تھا اور ہماری ملاقات ہو جاتی تھی مگر اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اب وہاں جانے والی ایک مرکزی سڑک کو بند کردیا ہے، جب کہ دوسری سڑک انتہائی خطرناک ہے۔
کیا مجھے جنوب میں رفح کی جانب جانا چاہیے، اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور اُمید رکھنی چاہیے کہ میرے گھر والے ٹھیک رہیں گے؟
یا پھر مجھے رپورٹنگ چھوڑ کر واپس جانے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اگر کوئی آفت ہی آنی ہے تو ہم سب پر اکٹھی آئے کم از کم ہم اکٹھے مر تو جائیں گے؟میں اُمید اور دعا کرتا ہوں کہ کبھی کسی پر ایسا کربناک وقت نہ آئے کہ اُس کے پاس انتخاب کرنے کو کچھ نہ ہو۔