انصاف، حکومت کی روح ہے۔ ’انصاف تک رسائی‘ کی اصطلاح جن معنوں میں سمجھی اور استعمال کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی شخص اور اس کی ذات یا جائیداد کے ساتھ کی گئی نا انصافی کے ازالےکے لیے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتی اداروں سے رجوع کیا جائے۔
پاکستان کے آئین کے دیباچہ میں، جو بنیادی طور پر ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کی ’قرارداد مقاصد‘ پر مبنی ہے، جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دے گا، جن میں حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے مساوات و برابری ہوگی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل ہوگا۔ سوچ، اظہاررائے ، عقیدہ، ایمان، عبادت اور اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی ہوگی، بشرطیکہ وہ قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں ہوں ۔
اس میں عدلیہ کی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو انصاف تک رسائی کے لیے ایک ناگزیر لازمہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۳۷ ریاست کے لیے یہ ہدف متعین کرتا ہے کہ وہ سستا اور تیز تر انصاف کو یقینی بنائے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، ریاست کی عدالتی طاقت کو استعمال کرنے والی عدالتوں اور دیگر ٹربیونلوں کے قیام کے لیے وسیع تر انتظامات کرتا ہے۔ عدالتی اہرام کی چوٹی پر سپریم کورٹ آف پاکستان ہے ،جو اپیل اور اصل دائرہ اختیار کا استعمال کرتی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت سترہ جج ہیں۔ پانچ ہائی کورٹ ہیں، چاروں صوبوں میں ایک ایک اور اسلام آباد دارالحکومت علاقے کے لیے ایک۔ صوبائی ہائی کورٹس میں ان کی بنیادی نشستوں کے علاوہ دیگر جگہوں پر بنچ ہوتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں تین بینچ ہیں، جہاں ججوں کو ایک سال کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے بنچ سکھر میں اور سرکٹ بنچ حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے بنچ سبی اور تربت میں ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان اور مینگورہ سوات میں بنچ ہیں۔ ہائی کورٹوں کے پاس آئینی، اپیل اور نظرثانی کا دائرۂ اختیار ہے۔ ان بنچوں کے قیام کا مقصد فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔
ریاست اور صوبے کی سطح پر درج بالا آئینی اور اپیلیٹ عدالتوں کے علاوہ، ضلع اور سیشن کی سطح پر صوبائی قوانین کے تحت دیوانی اور فوجداری عدالتیں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں کی ایک بڑی تعداد خصوصی قوانین کے تحت بنائی گئی ہیں۔ مثلا: انسداد دہشت گردی کی عدالتیں، بنکنگ کورٹ، کسٹم کے لیے خصوصی عدالت، انسداد منشیات کی عدالتیں وغیرہ۔یہ تمام عدالتیں آئین کے تحت تین ضروری کام انجام دیتی ہیں: پہلا اور سب سے اہم مسئلہ افراد کے درمیان یا ریاست اور افراد کے درمیان تنازعات کا حل ہے۔ یہاں ریاست کا مطلب حکومت کی ایک شاخ ہے۔
دوسرا، عدالتیں حکومت کی ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کے خلاف، عوام کے بنیادی اور آئینی حقوق کو نافذ کرنے اور ان کی حفاظت کرنے کی پابند ہیں۔ یہ آئینی عدالتوں،ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ، کا دائرۂ کار ہے ، اور یہ عدالتی یا آئینی نظرثانی کے اختیارات انھیں آئین پاکستان کے آرٹیکل ۸، ۱۸۴ (۳) اور ۱۹۹ کے تحت حاصل ہیں۔
ان آئینی عدالتوں کا تیسرا اور سب سے مشکل کام آئین کا دفاع اور نفاذ ہے۔ چونکہ عدلیہ کے پاس نہ دولت ہے نہ ہتھیار، بلکہ صرف اخلاقی اختیار ہے، اس لیے یہ کام مکمل طور پر آزاد اور نڈر ججوں پر منحصر ہے۔ جو لوگ دوسروں کا فیصلہ کرنے بیٹھتے ہیں اور خودبھی چاہتے ہیں کہ عوام کی عدالت سے ان کا فیصلہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ ان کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت کی دیگر شاخوں کی طرح عدالتی شاخ بھی احتساب سے اپنے پاؤں سمیٹ رہی ہے۔ گذشتہ ۷۵ برسوں میں ہائی کورٹوں کے صرف تین ججوں کو بددیانتی کے الزامات ثابت ہونے پر ہٹایا گیا۔
پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں مختلف اداروں کے جمع کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کا انبار معاملات کی افسوسناک حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر عدالتوں میں بھی ہزاروں مقدمات اور اپیلیں زیر التوا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عام طور پر کسی کیس کو اپنے آخری عدالتی مراحل مکمل کرنے میں ۲۰ سال لگتے ہیں۔
پاکستان میں انصاف تک رسائی تین بنیادی وجوہ کی بنا پر حاصل کرنا مشکل ہے: ایک، عدالتوں اور ججوں کی خاطر خواہ تعداد فراہم کرنے کے لیے ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ سال ۲۰۰۰ء کے اوائل میں ۳۵۰ ملین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ قرض، عدالتوں میں نوآبادیاتی ہارڈویئر اور فرنیچر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ذیلی عدالتی افسروں کی تربیت پر بہت ہی کم رقم خرچ کی گئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اور ذیلی عدلیہ کے لیے مختص شدہ سالانہ بجٹ بنیادی طور پر تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس طرح انصاف کی فراہمی کے نظام کی بہتری کے لیے بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔
دوسرا، عدالتی نظام، جو کہ پہلے سے کمزور اور انتہائی غیر محتسب ہے، اسے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فوجداری اور دیوانی مقدمات کی فہرست جھوٹے، فضول اور چھوٹے موٹے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ اس بڑے التوا کے لیے ہمارے بلا وجہ کے ’مخاصمتی رویے‘ بہت حد تک ذمہ دار ہیں، جو اصل حق داروں کو فوری انصاف تک رسائی سے محروم رکھتے ہیں۔
تیسرا، ریاستی ادارے بھی بنیادی طور پر ایگزیکٹو برانچ اور کسی حد تک قانون ساز اور عدالتی شاخیں، انصاف تک رسائی میں رکاوٹ کی ذمہ دار ہیں۔ اگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا سروے کرایا جائے، تو ایگزیکٹو برانچ، وفاقی اور صوبائی دونوں، پاکستان میں سب سے زیادہ مقدمہ چلانے والے ثابت ہوں گے۔ یہ بنیادی طور پر دو وجوہ کی بنیاد پر ہے: ایگزیکٹو طاقت پر اندرونی جانچ پڑتال کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ چونکہ ریاستی عہدے داروں کو حاصل اختیارات زیادہ تر صوابدیدی ہیں، جس کے نتیجے میں بدعنوانی اور کرپشن ایک لامتناہی قانونی چارہ جوئی میں تبدل ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ لائسنس کلچر، پبلک کنٹریکٹس ، پولیس کی طاقت کا غلط استعمال اور کاروبار اور تجارت کے ضابطے سب وہ صوابدیدی اختیارات ہیں، جو قانونی چارہ جوئی کی بنیادی وجہ بنتے ہیں۔
مقننہ تو قوانین کم ہی غور و فکر کر کے پاس کرتی ہے۔ قانون سازی کے طریق کار پر عمل کیے بغیر راتوں رات دسیوں قوانین منظور کر لیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً ہر قانون، اصول اور ضابطے کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہوتا ہے۔ عدلیہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے بر بنائے ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ (عدالتی فعالیت)، سیاسی مسائل اور ’پالیسی ڈومین‘ میں اُلجھی ہوئی ہے۔ اسی ’عدالتی فعالیت‘ نے سیاسی اور پالیسی سازی کے عمل میں مداخلت کرکے عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔
فوری اور سستے انصاف تک رسائی، چند بنیادی تبدیلیاں کرکے اور کچھ عملی اقدامات اٹھا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک تو، پورے برصغیر میں جرگہ/پنچایت کے ادارے ہوا کرتے تھے، جو کامیابی سے فوری اور سستا انصاف فراہم کرتے تھے۔ تمام چھوٹے مسائل (بکری کی چوری، جائیداد کے چھوٹے موٹے جھگڑے وغیرہ) ان پنچایتوں میں جا سکتے ہیں۔ ہندستان میں، ان پنچایتوں کو آئینی شناخت اور تحفظ حصہ IX (نہم) ہندستانی آئین کے تحت دیا گیا ہے۔ اس سے سماجی ہم آہنگی اور سماجی اداروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ یہاں تک کہ خاندانی جھگڑے بھی ان اداروں کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا عائلی قانون، ثالثی کونسل کا انتظام کرتا ہے، لیکن ہمارے مخاصمتی رویوں کی وجہ سے یہ ناکام ہو چکا ہے۔ مندرجہ بالا سماجی اداروں کے علاوہ، ریاست کو تنازعات کے حل کے لیے متبادل طریقوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
عدالتوں کو ’حقیقی‘ اور ’مثالی اخراجات‘ دینا شروع کر دینے چاہییں۔ اخراجات کی گرانٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ وکلا اور قانونی چارہ گر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں جہاں عدالتیں اصل اخراجات دیتی ہیں، وکلا اور مدعیان غریب نہیں مرتے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اخراجات کا سرٹیفکیٹ طلب کرنا شروع کر دیا ہے۔جلد ہی وہ ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کر دیں گے۔ علاوہ اَزیں سپریم کورٹ نے بھی فضول قانونی چارہ جوئی پر اخراجات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اب اسے چاہیے کہ متاثرہ فریقوں کو ’اصل اخراجات‘ دینا شروع کردے۔
ریاست کو عدلیہ کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ججوں کی میرٹ پر شمولیت اور وسائل کی مناسب اور متناسب تقسیم، انصاف کی فراہمی کے نظام کو تیز تر اور سستا بنائے گی۔