اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمھارا ہے، جب کہ وصیّت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصّہ آٹھواں ہوگا ، بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔
اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) ﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،جب کہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔(النساء۴:۱۲)
شوہر کو بیوی کی وراثت سے آدھا حصہ ملے گا اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو ،اگر اولاد ہو تو شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا ۔اسی طرح بیوی کو شوہر کی جائیداد میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اگر ان کی اولاد نہ ہو، اور اگر اولاد ہو تو بیوی کو شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ ملے گا ۔
اگر وہ عورت یامردجس کے والدین حیات نہ ہوں،اور اولاد بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو ’کلالہ‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی ۔ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو بھائی اور بہن دونوں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا ۔بہن بھائی زیادہ ہو ں تو ترکےکے ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے ۔مردوں کا دوہرا اور عورتوں کا اکہرا حصہ ہوگا۔
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن سزا ہے۔ (النساء۴:۱۳-۱۴)
خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی حدود کہتے ہیں۔حدود کو تجاوز نہیں کرنا ہوتا ،بلکہ ان کے اندر رہنے میں ہی اللہ کی رضا اور اجر و انعامات کے وعدے بھی ہیں۔ اور یہ بھی فرما دیا،متصلًاکہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا ،حدود کو تجاوز کرے گا ،اللہ اس کو آگ میں ڈالے گا ،اور رُسوا کن عذاب مقدر ہو گا۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمھارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انھیں دے چکے ہو ۔ ہاں، اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمھیں تنگ کرنے کا حق ہے)۔ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ (النساء۴:۱۹)
’’اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں ۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے ۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے‘‘ ۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص۳۳۴)
اگر عورت ناپسند ہو تو اس میں بھلائی سے مراد یہ ہے: ’’اگر عورت خوب صورت نہ ہو ، یا اس میں کوئی اور ایسا نقص ہو جس کی بنا پر وہ شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے ۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا ، اس کے حُسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بسا اوقات ازدواجی زندگی کی ابتدا میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے ، تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے ۔ طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ابغض الحلال الی اللہ الطلاق،’’ یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے ، مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین والذواقات،یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو ، کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں ‘‘۔(ایضاً، ص ۳۳۴-۳۳۵)
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لو گے، جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟ (النساء ۴:۲۰-۲۱)
یعنی پہلی بیوی کو جو مہر ،اور تحفہ تحا ئف دیے ہیں،ان میں سے کچھ واپس نہ لو۔ آخر تم جب اس کے ساتھ اَزدواجی تعلق رکھتے ہو تو یہ اموال کیوں کر واپس لو گے؟
اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔(النساء۴:۲۲)
جا ہلیت کا ایک طریقہ سوتیلی ماں سے نکاح کا تھا ۔اسلام نے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابلِ دست اندازیِ پولیس ہے۔ حضوؐر کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اس کو قتل کردو‘‘۔
تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمھاری دودھ شریک بہنیں، اور تمھاری بیویوں کی مائیں، اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں جنھوں نے تمھاری گودوں میں پرورش پائی ہے___ ان بیویوں کی لڑکیاں، جن سے تمھارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ۔ ورنہ اگر( ﴿صرف نکاح ہوا ہو) اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (انھیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے___ اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری صُلب سے ہوں۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہوگیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء۴:۲۳)
ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی پر ہوتا ہے ،اور دونوں حرام ہیں۔ اسی طرح دادی اور نانی بھی حرام ہیں ۔اسی طرح بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آتی ہیں۔ بہن، سگی،سو تیلی اور ماں شریک بہن اس حکم میں یکساں ہیں۔
رضائی رشتوں کی حرمت بھی نکاح کے معاملے میں سگے رشتوں کی طرح ہے۔ عورت کی پچھلے خاوند کی بیٹی بھی حرام ہے، اور اس کا حرام ہونا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہے یا نہیں۔بلکہ اس پر تقریباً اجماعِ اُمت ہےکہ سوتیلی بیٹی آدمی پر حرام ہے،خواہ اس نے کہیں اور پرورش پائی ہو یا سوتیلے باپ کے گھر پر پرورش پائی ہو۔
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محْصَنَات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمھارے ہاتھ آئیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ ان کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمھارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں ان کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو ، البتہ مَہر کی قرارداد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمھارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ علیم اور دانا ہے ۔ (النساء۴:۲۴)
’’جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہو ئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوںوہ حرام نہیں ہیں، کیوں کہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے ۔ایسی عورتوں کےساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہےاور جس کے ملک ِ یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کر سکتا ہے....
لونڈیوں میں تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں، لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے:
۱- جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ،ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے،بلکہ اسلامی قانون یہ ہےکہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہےان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہےان کا تبادلہ اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں، اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کامجاز ہےجو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
۲- جو عورت اس طرح کسی کی مِلک میں دی جائے ،اس کے ساتھ بھی اُسں وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔
۳- جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی ،تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔
۴-جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی مِلک میں وہ عورت ہے ۔اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِاولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔
۵- حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا، ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتاوہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع کرنے میں کراہت محسوس کرے۔
۶- جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۴۰-۳۴۱)
غیرمنکوحہ عورت کے ساتھ بےتکلفی، گپ شپ، خلوت و جلوت میں ملاقاتیں جو شہوانی جذبات کو تحریک دینے والے اور آخر کار غلط کاری اور ناجائز تعلق پر منتج ہوں، اسلامی معاشرے کا چلن نہیں ہے۔ یہ حیا،دبی زبان سے بات نہ کرنے، تخلیہ میں غیر محرم کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی تلقین کرنےوالا، عورتوں کے لباس اوراظہار زینت کے دائرے مقرر کرنے والا دین ہے۔ جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔نکاح ایک حفاظت یاحصا ر ہے،سرٹیفکیٹ نہیں ہے کہ ہرخاص وعام کے ساتھ بے تکلفانہ اور بے حجابانہ معاملے کی اجازت مل گئی۔ نکاح کرنے ،مہر ادا کرنے اور بیویوں کو نکاح کےحصار میں محفوظ کرنے کی تلقین ہے۔مرد اور عورت کو نکاح ،آزاد شہوت رانی اور گمراہی سے بچانے کے لیے ہے۔
اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت (طاقت) نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محْصَنَات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمھاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمھارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ اللہ تمھارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کر دو ،تاکہ وہ حصارِ نکاح میں محفوظ (محْصَنَات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنَات) ﴾ کے لیے مقرر ہے ۔ یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بندِ تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء۴:۲۵)
’’سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت ِاسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے ؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں‘‘ ۔ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا ۔ اس رکوع میں لفظ ’محصنت‘ ( محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک ’شادی شدہ عورتیں‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو ۔ دوسرے ’خاندانی عورتیں‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو ، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ۔ آیت زیرِ بحث میں ’محصَنات‘ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں ، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے محصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انھیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے( فَاِذَآ اُحْصِنَّ ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی ۔
اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک ، خاندان کی حفاظت ، جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی ’محصنہ‘ ہوتی ہے ۔ دوسری ، شوہر کی حفاظت ، جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے ،’محصنہ‘@نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے ۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی مِلک میں وہ تھی ، اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی ، وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی ، نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے ۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سورۂ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے ، وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے ، جن کے مقابلے میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے ‘‘۔(ایضاً،ص ۳۴۲-۳۴۳)
جو لوگ شادی نہ کر سکنے کی وجہ سے صبر نہ کر سکتے ہوں، تقویٰ پر قائم نہ رہ سکتے ہو ں اُن کے لیے یہ سہولت دے دی گئی ہے ۔جو شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورت سے نکاح کرنے کے اخراجات اٹھا سکے وہ کسی کی لونڈی سے نکاح کرلے۔(جاری)