جنوری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

روشن مستقبل کے لیے راہِ عمل

خرم مراد | جنوری ۲۰۲۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

برادر عزیز محترم خرم مراد مرحوم نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں ترجمان القرآن کے لیے جو ’اشارات‘ لکھے تھے وہ حالات کے گہرے تجزیے، مسائل اور اُن کے حل کی راہوں کی طرف چلنے کے روشن نشانات پر مشتمل تھے اور آج بھی ان کی تازگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ ہم اس ماہ کے ’اشارات‘ میں خرم بھائی کی اس چشم کشا تحریر کو شائع کر رہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں تحریک اسلامی کی قیادت اور اُس کے کارکن ان نکات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دُنیا اور تحریک کا احتساب کرتے وقت انھیں ملحوظ رکھیں گے۔ مدیر

 

اس بات میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ ’آج‘ کا دامن اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک یقینی روشن مستقبل کے بھرپور امکانات سے لبریز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج کل جو حوادث و واقعات پیش آرہے ہیں وہ مایوسی پیدا کرتے ہیں، ناکامی و مغلوبیت اور پس ماندگی کی خبر دینے لگتے ہیں۔ اپنا افتراق و انتشار اور نزاع و اختلاف اور اس کے تباہ کن نتائج دیکھ کر دل بیٹھنے لگتے ہیں۔ اغیار کی سیاسی، فوجی اور ابلاغی قوت و بالادستی اور ان کے مکروفن کی کامیابی دیکھ کر حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، ہمارے اس یقین میں کوئی کمی نہیں آتی کہ کل سورج طلوع ہوگا تو عزّت و سربلندی اور ترقی کی خوش خبری لے کر آئے گا، ان شاء اللہ!

آج اور کل کے واقعات سے نگاہ اُوپر اُٹھا کر آج کی اور ۱۹۴۷ء کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے، تو آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس نصف صدی میں ہم نے اپنی منزل کی طرف کتنی نمایاں  پیش رفت کرلی ہے۔ اسلام ایک مذہب کے مقام سے سفر کرکے مقصد ِ حیات بن گیا ہے۔ وہ مستقبل کی اجتماعیت، ریاست اور تہذیب کے نقشہ گر کے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ نسلوں کی نسلوں نے اپنی سعی و جہد، اور اپنی آرزو و جستجو کو اس مقصد کے حصول اور اس نقشہ فردا پر مرکوز کردیا ہے۔   ملت کے جسم میں احیائے اسلام کے ساتھ وابستگی کی ایک رو دوڑ گئی ہے اور حوصلہ شکن حالات اور ناکامیوں کے باوجود الحمدللہ، یہ وابستگی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ابلیس نے جس کو فتنہ فردا قرار دیا تھا، وہ اس عالم کے لیے فتنہ امروز بن کر نمودار ہوگیا ہے۔

یہ روشن مستقبل کب طلوع ہوگا؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ اس کا علم اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، جس کے پاس غیب کی ساری کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں ؑ سے نصرت و فتح کا وعدہ ضرور فرمایا:  اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠  وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ (الصفّٰت ۳۷: ۱۷۲-۱۷۳) ’’یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا‘‘۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح   فرما دیا(ترجمہ:) ’’اے نبیؐ، صبر کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ اب خواہ ہم تمھارے سامنے ہی ان کو ان بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھا دیں جن سے ہم انھیں ڈرا رہے ہیں، یا (اس سے پہلے) تمھیں دنیا سے اُٹھا لیں‘‘ (المومن ۴۰:۷۷)۔ ہمارے ساتھ بھی اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے، خواہ ہماری آنکھیں کامرانی کا یہ منظر نہ دیکھ سکیں۔

جو بات ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے: جدوجہد کا راستہ۔ انفاق اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ! نصرتِ الٰہی کے بغیر تو ایک قدم بھی نہیں اُٹھ سکتا، کجا یہ کہ منزل سر ہوجائے: اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۰) ’’اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘‘۔

لیکن یہ نصرتِ الٰہی صرف انھی کو حاصل ہوتی ہے، جو جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ (محمد۴۷:۷)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا، اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘__ جس سچے ایمان کےساتھ سربلندی کا وعدہ مشروط ہے، اس کی صداقت کی کسوٹی بھی جدوجہد ہی ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (الحجرات ۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔

جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ خود اپنے اندر جدوجہد کی استعداد پیدا کرنا، اور اپنی شخصیت کو جدوجہد کے لائق بنانا۔ انسانوں کی مطلوب ضروری تعداد کو جدوجہد کے لیے کھڑا کرنا، ان کو ایک قوت بنانا، ان کی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر تر طریقے اور تدابیر سے جدوجہد میں لگانا۔ ماحول، معاشرہ، انسان اور نظام، جیسے کچھ ہیں، انھی کے درمیان اپنی پیش رفت اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنانا۔ اس مقصد کے لیے راستے کے امکانات و خطرات کا، موافق و مخالف عوامل اور قوتوں کا، حال اور مستقبل کا زیادہ سے زیادہ ممکن صحیح اندازہ کرنا۔ ایسی حکمت عملی اختیار کرنا، جس سے منزل مطلوب تک پہنچنا ممکن نظر آئے۔ اپنے اعمال و اقدامات کا جائزہ و احتساب اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کی روش پر کاربند رہنا۔

ان کی دُعا بس یہ تھی کہ:

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O (اٰل عمرٰن۳:۱۴۷)اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جوکچھ تجاوز ہوگیا ہو، اسے معاف کردے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

یہاں تک کہ فتح و نصرت دیکھ کر بھی یہی روش رہے:

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ  ط اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا  O (النصر ۱۱۰: ۳) اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے بخشش کی دُعا مانگو۔

صرف تمنا اور خواہش سے مستقبل کی نقشہ گری نہیں ہوسکتی۔ دُعائیں بھی جدوجہد کا بدل نہیں بن سکتیں۔ جدوجہد کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اللہ کی نصرت اور فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے ، کہ بڑی سے بڑی جدوجہد سے بھی اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کوئی انسانی تدبیر بھی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ کوئی انسانی عقل بھی ان تمام عوامل و حالات کا احاطہ نہیں کرسکتی، جو جدوجہد کی کامیابی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ کسی انسان کے بارے میں یہ ضمانت نہیں جو ایسے کامل انسان پیدا کرسکے جن کے بارے میں ضمانت دی جاسکے۔

چنانچہ جتنی خام، ضعیف اور کم معیار عقل، استعداد، ایمان اور عمل صالح میسر آئے اور جتنی بھی بُری بھلی جدوجہد بن پڑے، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دینا چاہیے۔ ہر صورت میں حکم اور تدبیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور نتائج صرف مشیت الٰہی پر منحصر ہیں۔ لیکن جہاں تک انسان کی نگاہ اور عقل کام کرے، وہاں تک یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری شرائط زیادہ سے زیادہ پوری ہوں۔

اس موضوع کو سمیٹ کر ہم چند اہم اور بنیادی باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ان قوتوں اور تحریکات کی توجہ کے لیے، جنھوں نے اکیسویں صدی میں غلبۂ دین کی لہر پیدا کی ہے:

رضائے الٰہی کا حصول

سب سے ضروری اور اہم شرط للہیت اور اخلاص ہے۔ پوری جدوجہد، اور جدوجہد کا ہر کام اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے۔ رضائے الٰہی کی جستجو، جنّت کی تمنا و طلب اور اس کے لیے بھاگ دوڑ اور مسابقت اسی للہیت کی تعبیر ہے۔ قرآن میں جہاں بندگی کی دعوت ہے،وہاں مخلصین کی شرط ہے۔ اکثر مقامات پر وجہ ربہ الاعلٰی اور مرضات اللہ  کی جستجو کی تاکید ہے، اور جہاں جدوجہد کا ذکر ہے، وہاں جنّت کو مطلوب و محبوب بنانے کی دعوت ہے۔ قرآن اس دعوت سے بھرا ہوا ہے۔

آج غلبۂ دین کی جدوجہد کو جو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں، ان کی بڑی وجہ ہمارے نزدیک اسی مطلوب اخلاص اور للہیت میں کمی یا کمزوری ہے۔ یہ افراد کی سُستی اور بے رغبتی ہو، تحریکوں میں جمود ہو، دنیاطلبی کا غلبہ ہو، عہدوں اور جاہ و عزت کی طمع ہو، خودرائی و خودسری ہو، نظم و ضبط کی کمی ہو، باہمی افتراق و تنازعات ہوں، دعوت الی اللہ سے لاپروائی اور دعوت کی بے اثری ہو___  جو بھی ہو، کھنگال کر دیکھیے تو تہہ میں یہی مرض ملے گا۔ سب سے بڑا سُلگتا مسئلہ یہی اخلاص و للہیت میں کمی کا مسئلہ ہے۔

للہیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہر فرد کا اپنا معاملہ ہے۔ وہی اپنے اندر للہیت پیدا کرسکتا ہے، وہی جدوجہد کو للہیت کے رنگ میں رنگ سکتا ہے، وہی اس کے ہونے یا نہ ہونے کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ہے، اور اگر یہ نہ ہو تونقصان بھی سراسر اسی کا ہے۔ یہ اس کے اور اس کے  ربّ کے درمیان معاملہ ہے، جو عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ہے۔ وہی صحیح علم رکھتا ہے اور فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس میں کتنی للہیت ہے؟ اجتماعی جدوجہد میں تو ہرطرح کے لوگ شامل ہونے چاہییں، اور ہوں گے: وہ بھی جن کے دل اخلاص کی اس نعمت سے خالی ہوں، وہ بھی جن کے دل اس سے مالامال ہوں۔ کوئی اجتماعیت ہر فرد کے اندر للہیت پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں لے سکتی، نہ اسے فرد کے اخلاص کو جدوجہد میں شرکت کے لیے شرط بنانا چاہیے۔

لیکن دوسری طرف اجتماعیت کو تین باتوں کا اہتمام پوری شدت کے ساتھ کرنا چاہیے:

  • ایک یہ کہ، وہ تذکیر و موعظۃ اور دعوت کے تمام ممکن اوررائج طریقوں سے لوگوں کو مسلسل اور تاکید کے ساتھ للہیت کی طرف راغب کرتی رہے۔
  • دوسرے یہ کہ، وہ اجتماعی ماحول اور کلچر کو للہیت کے رنگ میں رنگنے کا اہتمام کرے۔ جو اس ماحول میں سانس لے، اس پر یہ رنگ چڑھے۔ وہ رضائے الٰہی اور جنّت کی قدروقیمت اور مطلوبیت کا خریدار بن جائے۔
  • تیسرے یہ کہ ، اجتماعیت اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے لازماً دنیا میں ان کے نتائج کو سامنے رکھے، لیکن مجموعی طور پر نیت اور محرک صرف اللہ اور جنت کو رکھے۔ کوشش یہ کرے کہ کوئی ایسا قدم تو ہرگز نہ اُٹھائے جو اللہ کو ناپسند ہو، مثلاً : تدابیر وہ ضرور اختیار کی جائیں جن کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریکِ سفر ہوں، لیکن نیت ان کی اور اپنی اُخروی فلاح ہی رہے۔

ہمیں یقین ہے کہ جس قدر اخلاص بڑھے گا، للہیت رچے، بسے گی، اس کا رنگ انفرادی اور سماجی زندگی پر چھائے گا، اس قدر ہمارے مسائل حل ہوں گے، ہماری کمزوریاں اور خرابیاں دُور ہوں گی، ہمارے اندر مضبوطی اور شوق و طلب میں اضافہ ہوگا، اور ہم نصرت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔

بڑے پیمانے پر دعوتی جدوجہد

دوسری اہم اور ضروری شرط یہ ہے، کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ___ ہر طرح، ہرمعیار اور ہر انداز کے انسانوں کو ___ دینی جدوجہد کے دائرے میں جمع کرنا ، اور ان کی جو بھی استعداد و صلاحیت ہو اسے دین کے کام میں لگا دینا۔ للہیت اگر روح، مقصود اور بنیاد ہے، تو انسان دینی جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔

ہمارے نزدیک دینی جدوجہد کا دوسرا بڑا سُلگتا مسئلہ یہی ہے،کہ اس جدوجہد میں انسان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام انسان تک، ہرطرح کے انسان تک پہنچنے ، اس کے دل میں گھر کرنے، اسے اپنا ہم نوا بنانے، اسے اپنے دائرے میں جمع کرنے، اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے، اور اس کی استعداد و صلاحیت کو ضیاع سے بچاکر دین کے لیے کارگر بنانے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

مسلم ممالک کی مثال

بہت سے ممالک ہیں جہاں منظم دینی گروہ موجود ہیں، ان کے پاس قوت و طاقت بھی ہے، صلاحیت، نیکی اور تقویٰ بھی موجود ہے، لیکن عام معاشرہ ان کے ساتھ نہیں۔ کوئی مؤثر عوامی مزاحمت کی لہر نہیں اُٹھتی، حالانکہ حکومتیں ہزاروں کو ذبح کردیتی ہیں، مثلاً شام میں، ہزاروں کو جیلوں میں بند کر کے تعذیب کا شکار بناتی ہیں۔ مصر میں، انتخابی عمل کو من مانے طریقے سے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انڈونیشیا اور مصر میں آزادانہ انتخاب ہوتے ہیں مگر بھاری اکثریت غلبۂ دین کے حامیوں کے حق میں ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان اور ترکیہ میں، جہاں ظلم و جبر کے خلاف ہتھیار نہیں اُٹھائے گئے اور نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے وہاں بھی عام آبادی نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ الجزائر میں جتنی زبردست اور جتنی طویل مسلّمہ جدوجہد برپا رہی، اس پیمانے پر کوئی عوامی مزاحمت کی تحریک ہوتی، جس میں معاشرے کا بڑا حصہ شامل ہوتا، تو کیا کوئی ظالم حکومت مقابلے میں ٹک سکتی تھی ___ اس دائرے میں مطلوب کامیابی کیسے حاصل ہو؟ عام معاشرے کو کیسے اپنا ہم نوا اور ہم رکاب بنایا جائے؟ یہی آج کا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔

اس سلگتے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کئی پہلوئوں سے غوروفکر اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی جدوجہد میں انسان کی قدروقیمت، اس کی ضرورت اور اس کا مقام جاننے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کا، اس کے پیغام اور جدوجہد کامخاطب ہرعام انسان ہے، اُمت مسلمہ عام انسانوں کے لیے (اُخْرِجَتْ لِلّنَاسِ) برپا کی گئی ہے۔ دینی جدوجہد کا مقصود ہرانسان کی اُخروی اور دُنیوی فلاح ہے۔ دین کی دعوت اور جدوجہد انسانوں کے ذریعے ہی دوام پاسکتی ہے۔ دینی نظام انسانی ہاتھوں ہی سے چلے گا، انسانوں ہی پر قائم ہوگا اور انھی کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوگا۔

ہر فرد، ملّت کا ستارا

اس لحاظ سے دیکھیے تو ہر وہ انسان قیمتی ہے جو دینی مقاصد کا کوئی حصہ بھی قبول کرے، جو دینی جدوجہد میں کسی درجے میں بھی شرکت کرنے کو تیار ہو۔ ہر انسان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا، یہ ہر دینی جدوجہد کرنے والے کا فرض ہے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں، جو دینی مقاصد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، مگر گوناگوں معاشرتی و سیاسی وجوہ کی بنا پر ان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ حمایت حاصل کرنا چاہیے، جو ضروری و مفید ہوسکتی ہے۔ جیسے جنابِ ابوطالب یا وہ سردارانِ قریش جو قرابت یا شرافت ِ نفس کی وجہ سے مظلوم و مقہور مسلمانوں کو حفاظت و پناہ فراہم کرتے تھے۔ بلکہ وہ انسان بھی قیمتی ہیں جو سخت دشمن ہوں، لیکن جن کے ساتھ آجانے سے معاشرے میں وزن کا پلڑا جھک سکتا ہو۔ جیسے ابوجہل اور عمر بن الخطابؓ ، جن کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کی تقویت کا سامان کرے۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے، اپنے ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے اور اپنے کردار کے لحاظ سے اعلیٰ بھی ہوں گے اور ادنیٰ بھی۔ لیکن اندھا بھی ہو تووہ توجہ اور مقام کا مستحق ہے۔ میدانِ جنگ سے پلٹ آنے والے ہوں، تو وہ بھی عفو و استغفار اور اجتماعی معاملات میں شریک رکھے جانے کے مستحق ہیں۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق کے ساتھ بھی اس حد تک نرم برتائو کیا گیا کہ ’’لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں‘‘۔

ایک بگڑے ہوئے مسلمان معاشرے میں یقینا وابستگی و وفاداری اور ایمان و عمل کے لحاظ سے معیاری لوگوں کی تلاش بھی ہوگی، ایسے لوگ جمع کرنے اور بنانے کی خصوصی فکر بھی ہوگی، اور ابتدائی مراحل میں تو زیادہ اہتمام سے ہوگی، لیکن جیسے ہی انسانوں کی قوت استعمال کر کے غلبۂ دین  کی جدوجہد شروع ہوگی۔ ویسے ہی ہرمسلمان کو، وہ کیسا ہی مسلمان ہو، اپنے ساتھ شامل کرنا اور اپنے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوگا۔ بنی اسرائیل کے جن ’مسلمانوں‘کو اپنے ساتھ لے کر حضرت موسٰی مصر سے نکلے تھے۔ ذرا قرآن اور تورات میں ان کی ایمانی،اعتقادی، اخلاقی، عملی اور دینی حالت دیکھیے، تو آپ کو ہماری اس بات کی اہمیت کا صحیح ادراک ہوگا۔

رویے اور مزاج میں تبدیلی

ایک دفعہ انسان کا یہ مقام سمجھ لیا جائے تو رویوں،پالیسیوں اور نظام میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت خود بہ خود محسوس ہوگی اور تبدیلیاں خود بہ خود پیدا ہوں گی۔ پھر ہرشخص جس کا ساتھ دینا ضروری ہو، یا جو ساتھ دینے کے لیے تیار ہو، اس کے لیے دل کے دروازے بھی کھل جائیں گے اور دائرۂ اجتماعیت کے دروازے بھی۔

اجتماعی نظام جو تحریکوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ’نصوص‘ پر مبنی نہیں بلکہ اجتہاد پر مبنی ہیں۔ ان کو وضع کرنے میں ہمارے سامنے عصرِحاضر کی نظریاتی تحریکوں کے نظام کے ماڈل بھی رہے ہیں۔ لیکن ہماری روایات میں اور بھی ماڈل موجود ہیں، اور آج کےدور میں اوربھی ماڈل رائج ہیں، اور نصوص کی روشنی میں استنباط و اجتہاد کرکے ہم کو ایسے ماڈل وضع کرنے چاہییں، جو ان تمام انسانوں کو مساوی شرکت کا بھرپور احساس دے سکیں، جو اس غلبۂ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ لوگوں کو چھانٹ چھانٹ کرلینے، اور صرف معیاری لوگوں ہی کو لینے سے بہرحال وہ قلیل گروہ تیار ہوئے جو قلیل ہونے کے باوجود قوی اور مؤثر ہیں۔ لیکن اس طریقے سے تحدید و تفریق بھی پیدا ہوئی۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی اس قلیل گروہ کی پشت پناہی کے لیے تیار نہ ہوسکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پورے مسئلے کا اَزسرنو جائزہ لے کر ہم مناسب دُور رس اقدامات کریں، جو عام انسانوں کو اپنے دائرے میں جمع کرنے میں ممدو معاون ہوں۔

اس سلسلے میں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دینا چاہیے کہ:تعداد فی نفسہٖ مطلوب نہیں، یا تعداد کی طلب اور جستجو مستحسن نہیں، یا تعداد و توسیع اور معیار و استحکام میں کوئی بنیادی و منطقی تضاد ہے۔ اصل چیز تومعیار ہے، تعداد سے کیا ہوتا ہے۔

یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نصرت و فتح کی علامت، یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا  کوقرار دیا ہے۔ اپنی اُمت کی تعداد کو حضوؐر نے اپنے لیے باعث ِ فخر قرار دیا ہے، اور اس تعداد میں اضافے کے لیے حضوؐر رات دن کوشاں رہے ہیں۔اور اگر دینی جدوجہد میں شریک ہونا ہی نارِ جہنّم سے نجات اور جنّت میں داخلے کا سب سے یقینی راستہ ہے ، تو اس راستے کو کسی کے لیے بند کیوں کر کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو انتظار و تعویق میں کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟

دعوتی اسلوب میں دلکشی

یہ بات واضح کر دینا بھی ضروری ہے، کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسان کو مرکز بنانے، اس کا مقام تسلیم کرنے، ہر طرح کےانسان کے لیے دل اور اجتماعیت کے دروازے کھول دینے سے، ایک عام معاشرہ بڑی تعداد میں کسی نہ کسی طرح دینی جدوجہد میں شامل ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایسے انداز و اسلوب میں وہ دعوت بھی ضروری ہے جو دلوں کو مسخر کرسکے، اور وہ قیادت بھی مطلوب ہے جو دلوں کو جیت سکے۔ اس کے بعد بھی ماحول، حالات اور مشیت الٰہی پر ہی کامیابی کا انحصار ہوگا۔

قوت کا سرچشمہ

ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک دفعہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ معاشرہ اور انسان کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اسی معاشرے اور انھی انسانوں میں سے وہ قوت پیدا کرنا ہے، اور وہ پیدا ہوسکتی ہے، جو اصلاح و تبدیلی اور غلبہ و سربلندی کا کام کرسکے۔ اللہ کی نصرت کے بعد، کامیابی کا راز انسانی قوت میں پوشیدہ ہے، نہ کہ مال و اسباب اور اسلحہ و سامان میں: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ (الانفال ۸:۶۲)’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی‘‘، اور یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۴ۧ (الانفال ۸:۶۴) ’’اے نبیؐ! تمھارے لیے اور تمھارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے‘‘۔

یہ بات بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مومنین کی اس جماعت میں لوگوں کے مقام اور درجات کا تعین اللہ کے لیے ان کی وفاداری و قربانی سے ہوا کرتا تھا۔ ایمان، عمل صالح اور تقویٰ تو وہ چیزیں ہیں جن کا صحیح علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ چنانچہ مہاجرین، انصار، اصحابِ بدر ، اصحاب بیت الرضوان وغیرہ وہ معیار تھے جن پر لوگوں کو مقام دیا جاتا تھا۔ رہے حکومتی اور فوجی مناصب، تو ایسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی، جو ایمان اوروفاداری کے ساتھ، ان مناصب کو کامیابی کے ساتھ سنبھالنے کی زیادہ صلاحیت اور اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔

حُسنِ اخلاق کا بحران

ایک بڑا مسئلہ حُسنِ اخلاق کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنے، ان کو ساتھ لانے، جوڑے رکھنے اور ساتھ چلانے کے لیے سب سے مؤثر قوت حُسنِ اخلاق کی قوت ہے۔ یہ ُحُسنِ اخلاق، رافت و رحمت، نرمی و فیاضی، عفو و درگزر اور اِکرام و احسان سے عبارت ہے۔ اصل کارگر اور مؤثر قوت نہ نظریے میں ہے، نہ کتاب میں، نہ کلام میں، نہ تحریر و تقریر میں، نہ ڈپلومیسی اور پبلک ریلیشن میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج دینی جدوجہد کرنے والوں کے اخلاق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے وہ کم سے کم نسبت حاصل نہیں ہوئی ہے، جو مطلوب اور ضروری ہے، اور جس کا حصول ممکن ہے۔

یہ حضوؐر کا اخلاقِ کریمانہ تھا، جس کی مدح قرآن میں ہے اور جس کی تصویر سیرت میں دیکھی جاسکتی ہے، جس نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو اسلام کے دامن رحمت سے چمٹا لیا، اور چمٹائےرکھا:

وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص  (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲۸ (التوبہ ۹: ۱۲۸)تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

اس کمی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے:افغانستان میں اتنے طویل عرصے تک جہاد جاری رہا، کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن مجاہدین نہ باہم اُلفت و اعتماد کے رشتے میں جڑسکے، نہ یہ دیکھنے میں آیا کہ مخالفین میں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر آئے ہوں اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہوگئے ہوں۔ اور پھر جن کمیونسٹ جرنیلوں نے کسی گروہ کا ساتھ دیا، تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر۔ پاکستان میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیجیے، شاذ ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوگی جو مخالف کیمپ سے ٹوٹ کر آئے ہوں اور اب دین کے غلبے کو مقصد زندگی بنالیا ہو۔ طالبان کا گروہ خالص قیامِ شریعت کا دعوے دار ہے۔ ایک طرف طائف کا سفر دیکھیے اور ثقیف کے وفد کا خیرمقدم۔ سردارانِ قریش کے مظالم دیکھیے اور لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ  کی صدا، اور دوسری طرف [ان کے ہاتھوں سابق افغان صدر] نجیب اللہ کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر اپنے جوشِ انتقام اور حمیت دینی کی ’تسکین‘ کا سامان کرنا دیکھیے، جو اقوامِ متحدہ کی پناہ میںتھا، نہتا تھا اور غیرمسلم بھی نہیں تھا! حالانکہ مشرک بھی امان طلب کرے تو اسے امن تک پہنچانے کا حکم ہے۔

صاحب ِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے کم سے کم نسبت کے حصول کے بغیر انسان جمع نہ ہوں گے، مخالفین کے دل مسخر نہ ہوں گے، اسلام کے غلبے کے لیے قوت فراہم نہ ہوگی، اور اس طرح دین کا قیام ایک اَمرمحال ہوگا۔ خواہ ہمارے پاس اسلحہ کے ڈھیر ہوں، سیاسی اقتدار بھی ہو، دلائل کا انبار بھی ہو۔

اختلاف اور حُسنِ اختلاف

چوتھا مسئلہ اختلافات کا افتراق و نزاع بن کر وحدت اور شیرازہ بندی کو غیرمعمولی نقصان پہنچانے کا مسئلہ ہے۔ اختلافات کے باوجود متحد رہنے، ساتھ مل کر کام کرنے اور دینی قوتوں کو متحد رکھنے کا مسئلہ ہے۔ جہاں انسان جمع ہوں گے، وہاں اختلافات لازماً ہوں گے۔ رائے کے اختلافات ہوں گے، مزاج اور مفادات کے بھی۔ان اختلافات سے کوئی مفر نہیں۔ دورِصحابہؓ میں بھی اس سے مفر نہیں تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ سے لے کر جنگ ِ جمل و صفّین تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔

اختلافات سے بچنا ممکن نہیں، لیکن اختلافات کو افتراق، تنازع اور مخاصمت بننے سے روکنا ممکن ہے۔ لَا تَفَرِّقُوْا اور لَا تَنَازَعُوْا ہی کی تاکید قرآنِ مجید نے فرمائی ہے۔ لیکن اس پہلو سے بھی مسلمان بہ حیثیت مجموعی، اور خاص طور پر دینی جدوجہد کرنے والے، جن کمزوریوں کا شکار ہیں وہ عیاں ہیں۔

اختلافات کے باوجود بڑے اور عزیز تر مقاصد کی خاطر متحد رہنے کے لیے سب سے بڑھ کر اخلاص و للہیت اور نفس پر ضبط و قابو درکار ہے۔ اس کی یقینا کمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اجتماعی زندگی میں اختلافات کا مقام معلوم ہو، اختلاف کی حدود و آداب سے واقفیت ہو، ان آداب و حدود کی پابندی کی استعداد پیدا ہو، جھٹ سے، حلال و حرام اور حق و باطل اور کفر و اسلام کے فتوے جاری کرنے کے طریقے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ تدبیری اُمور ہوں یا اجتہادی مسائل، اپنی رائے کو حتمی اور آخری سمجھنے کی خودسری پر قابو پانا ضروری ہے۔ اعجاب المرء برایہ  (اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا) ہلاکت کا سامان ہے۔ ہراختلاف کو حق و باطل کا مسئلہ بنالینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں اپنی رائے کو صحیح سمجھنے کے باوجود اس کے غلط ہونے کے احتمال، اور دوسری رائے کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کے صحیح ہونے کے احتمال کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔

اختلافات کے حدود و آداب کی پابندی اور اختلاف کے دائرے تک محدود رکھے بغیر، نہ کسی اجتماعی قوت کے مضبوط بننے کا امکان ہے، اور نہ اس کا امکان کہ وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ جمع کرلے۔

اجتہادی مزاج و بصیرت

پانچواں مسئلہ، اجتہادی اُمور اور تدابیر کو نصوص کا درجہ دینے، بنیادی اور اصل مقاصد کے بجائے جزئیات و فروعات پر توجہ اور مساعی کو مرکوز کرنے، اور پھر دینی احکام میں غلو، تشدد اور بال کی کھال اُتارنے پر اصرار کا مسئلہ ہے۔ اُمت میں تو یہ مرض عام ہے، اور اس کے زوال اور انتشار کا ایک بڑا سبب ہے۔ افسوس کہ دینی قوتوں میں بھی اس مرض کا غلبہ صاف طور پر دیکھاجاسکتا ہے۔ سیّد مودودیؒ نے اپنی ابتدائی تحریروں، مثلاً: تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں میں بڑے سوز و دردمندی سے، شدت اور اہتمام سے، مضبوط دلائل کے ساتھ، اس مرض کے خلاف جہاد کیا، لیکن اس سے چھٹکارا نہیں ہوسکا ہے۔

اس مرض کی وجہ سے صرف غلو اور تعمق کی بیماریاں ہی نہیں پیدا ہوتیں، جو شاہ ولیؒ اللہ کے بقول دین میں انحراف کا باعث ہیں۔افتراق و انتشار میں اضافہ ہی نہیں ہوتا، توجہ اور وسائل انسانی کا ضیاع ہی نہیںہوتا، بلکہ اصل کام اور اصل مقصد بھی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اور جدوجہد کے لیے کھڑے ہونے والے لوگ ان گلی کوچوں میں اس طرح بھٹک جاتے ہیں، کہ بساطِ زندگی میں ان کے سب مہرے مات کھا جاتے ہیں۔

اقبالؒ، ابلیس کی زبان سے مسلمان کی بربادی کے لیے یہی نسخہ تجویز کراتے ہیں، تاکہ:

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الٰہیات۱ کے تراشے ہوئے لات و منات

ہے وہی شعروتصوف۲ اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ہرنفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

۱ اور فقیہات ۲   اور بحث و نزاع

امام بخاریؒ کی روایت کے مطابق، جب ایک مرتبہ مسجد نبویؐ میں لوگ اسی مقام پر نوافل پڑھنے لگے جس مقام پر فرائض پڑھتے تھے، تو حضرت عمرؓ بن الخطاب نے انھیں متنبہ فرمایا کہ پچھلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔ انھوں نے احکام و مطالبات کے درجات میں خلط ملط ہوجانے کے اسی مرض کی نشان دہی کی تھی، اور حضوؐر نے ان کی بات کی تصدیق فرمائی تھی۔

دینی احکام و مطالبات کے ضمن ہی میں نہیں ، دیگر اجتماعی اُمور میں بھی یہ مرض دیکھا جاسکتا ہے۔ چیز کو ذرائع کا مقام___ مثلاً تنظیم ، اجتماعات،اپنے طے کردہ وظائف و فرائض اور پروگرام___ وہ خود مقصد بن گئے ہیں۔ تدابیر کا دائرہ تنگ اور محدود ہوگیا ہے، اور ان میں تبدیلی و تغیر انتشار کا باعث بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اپنے اختیارات کو نصوص کا، اور تدابیر کو اصول کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اِن سلگتے مسائل کو حل کیے بغیر نہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہوگا، نہ ذرائع مطلوبہ نتائج دیں گے، نہ متحد و متفق رہ کر حالات کے تغیر کے ساتھ مناسب احوال، حکمت عملی اور تدابیر کا اختیار کرنا ممکن ہوگا۔

دوست زیادہ ، دشمن کم

ایک اور سُلگتا مسئلہ اتحاد اور یک جہتی کا ہے۔ اُمت اور معاشرے میں بھی، دینی قوتوں میں بھی، اور مشترک مقاصد کے لیے سیاسی قوتوں میں بھی، مسلم معاشرے ہرجگہ مختلف نوعیت کے تفرقوں اور انتشار کا شکار ہیں۔ دینی فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں اور سیاسی اختلافات بھی، جنھوں نے اُمت کو باہم نبرد آزما گروہوں میں پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تصادم اور خون ریزی بھی ہے، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار بھی نہیں۔ سب سے زیادہ الم ناک بات یہ ہے کہ وہ تحریکات جو غلبۂ دین  کی جدوجہد کے لیے ہی برپا ہوئی ہیں، وہ بھی یک جان و متحد ہوکر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ جیسا ہم نے افغانستان میں دیکھا، جیسا ہم برطانیہ،یورپ اور امریکا میں دیکھ رہے ہیں۔ جو معاشرے تفرقے اور انتشار کا شکار ہوں، ان کی بڑی تعداد کو کسی دینی مقصد اور دینی قوت کی پشت پناہی کے لیے کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔

سب سے پہلا ضروری کام تو یہ ہے، کہ جہاں تحریکی قوتوں کے متحد و مشترک ہوکر کام کرنے سے نتائج میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے، وہاں عدم اتحاد کے اسباب کا ازالہ کرنا ضروری ہے، اور مشترک جدوجہد کے لیے نظام اور لائحہ عمل وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں، ان کو کم کرنے کے لیے تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے، اور سیاسی تدابیر بھی۔ جہاں سیاسی مقاصد کا حصول پیش نظر ہے، وہاں پیش نظر رہنا چاہیے کہ سیاسی کش مکش کا ، جنگ کی طرح، بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ حلیف بنائے جائیں اور کم سے کم لوگوں کو مخالف اور حریف بننے کا موقع دیا جائے۔ کم سے کم محاذ کھولے جائیں اور ایک دشمن کو شکست دینے کے بعد دوسرے دشمن کا رُخ کیا جائے، ساتھ مل کر اقدامات کرنے کے دروازے کبھی بند نہ کیے جائیں اور عداوت کی آگ کسی طرح نہ بھڑکنے دی جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اسی اتحاد اور تحلیف کی جستجو اور قیام کی بہترین مثال ہے۔ معاہدۂ مدینہ کے ذریعے یہود کو ساتھ ملانا، کافر قبائل سے معاہدے کر کے ان کو حلیف بنانا، یا کم از کم ان کی عداوت کے امکانات و مواقع کو ختم کرنا، دوستوں کو دوست رکھنا، دشمنوں کو دوست بنانے کی ہر ممکن تدبیر کرنا۔

مؤثر سیاسی حکمت عملی

ساتواں مسئلہ، ایسی مؤثر سیاسی جدوجہد کرنا ہے، جو مطلوب نتائج کا پھل دے سکے۔ سیاست بھی ایک ذریعہ ہے، معاشرے میں قوت و طاقت کے سرچشموں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے، یا انھیں اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ باوجود اس کے کہ سیاست کو دینی جدوجہد میں مرکزی مقام دیا گیا ہے، اور ہمارے نزدیک صحیح دیا گیا ہے۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ بیش تر جگہ سیاست کے نتیجے میں وہ قوت نہیں حاصل ہوئی، جو مطلوب تھی۔

اس اہم مسئلے کے بھی کئی پہلو ہیں:

  • ایک: اب تک دین و سیاست کی تفریق سے سوچ اور فکر پاک نہیں ہوسکی۔ چنانچہ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ’’سیاست زیادہ ہورہی ہے، یا زیادہ سیاسی ہوگئے ہیں‘‘۔ حالانکہ جو کام بھی اللہ کے لیے، اللہ کے حکم کے دائرے میں ہو، وہ خالص دینی کام ہے، خواہ قتال و ملک گیری جیسا سیاسی و دُنیوی کام ہو۔ اور جو کام للہیت سے خالی ہو یا احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی پر مبنی ہو، وہ دنیوی اور سیاسی کام ہے، خواہ شہادت اور تعلیم قرآن جیسا بظاہر دینی کام ہی کیوں نہ ہو۔
  •  دوسرے: سیاست کا مقصد دینی مقاصد کا حصول ہونا چاہیے۔ جو سیاست ان مقاصد کے لیے ہو، وہ دینی سیاست ہے، عبادت ہے۔ لیکن سیاسی تدابیر کو، جو اللہ کی نافرمانی پر مبنی نہ ہوں، احکامِ دینی کا مقام دینے کی روش صحیح نہیں، مگر یہ روش بھی بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ اس طرح دینی قوتوں کا دائرۂ عمل بھی محدود ہوجاتا ہے اوردائرۂ حمایت بھی۔ تدابیر میں حالات کی مناسبت سے تغیر و تبدل کے بغیر کبھی بھی کامیاب سیاست نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ تغیر و تبدل ناممکن ہوجاتا ہے۔
  • تیسرے: کامیاب سیاست کے لیے واضح اہداف بھی ضروری ہیں، واقعات اور حالات پر گرفت بھی۔مستقبل کے بارے میں صحیح اندازے اور پیش بینی بھی۔ پھر اگر مستقبل کے اندازے صحیح نہ نکلیں تو ان میں ترمیم کرلینا، اور تبدیل شدہ حقائق کے مطابق تدابیر کو ڈھال دینا، یہ بھی ضروری ہے۔ اگر اپنی تدابیر کے نتیجے میں ہم اپنے کو بندگلی میں پائیں، تو اپنے حالات و معاملات کے فہم اور اندازِ سیاست پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
  • چوتھے: معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش یقینا ضروری ہے، لیکن جیسا بھی معاشرہ، عمل اور حقیقت کی دنیا میں موجود ہو، اسی معاشرے میں اپنے لیے پیش رفت کا راستہ نکالنا بھی ضروری ہے۔ معاشرہ بھی انھی لوگوں کے قابو میں آئے گا، وہی اس پر حکومت کرسکیںگے، جو ایک نظریاتی و مثالی معاشرے کے قیام کے لیے بے سود تلاش و انتظار چھوڑ کر ایک واقعی و حقیقی انسانی معاشرے میں سے اپنے لیے قوت فراہم کرسکیں، اور اس معاشرے کو چلا بھی سکیں۔ جو اپنے سے مختلف لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، وہ نہ کامیاب سیاست کرسکتے ہیں اور نہ کامیاب حکومت۔

آخری بات یہ کہ، سیاست صرف حکومتی اور انتخابی سیاست کا نام نہیں۔ حکومت کا اقتدار ریاست کے دوسرے اداروں کی طاقت کی وجہ سے اور معاشرے میں طاقت کے دوسرے سرچشموں کی وجہ سے بھی محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سیاست کے دائرے کو حکومت اور انتخابات سے وسیع کر کے اس میں معاشرے اور ریاست کے تمام قوت و طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل اداروں کو شامل کریں۔

مغرب سے مقابلے کی راہ

آٹھواں مسئلہ: مغرب کی فوجی، سیاسی، ثقافتی، علمی اور ابلاغی بالادستی اور تسلط کا مسئلہ ہے۔ عالمی قیادت تقریباً تین سو سال سے اہلِ مغرب کے پاس ہے۔ زبان ان کی ہے، اصطلاحات ان کی ہیں، ادارے ان کے ہیں، قوانین ان کے ہیں، تجارت ان کی ہے، عالمی تجارت پر ان کا کنٹرول ہے۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں، اور اپنی فوجی قوت کو وہ ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں۔ لبرلزم، منڈی کی معیشت اور مغربی جمہوریت کی فتح اور عالمی غلبے کو وہ اپنی حتمی فتح قرار دیتے ہیں۔

غلبۂ دین کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی قیادت، اہلِ مغرب کے بجائے اہلِ اسلام کے ہاتھ میں آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اتنا عظیم الشان تغیر کیسے واقع ہوگا؟ دینی جدوجہد کرنے والوں نے اس مقصد کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی ہے؟ ہمارے نزدیک ہمارے پاس نعرے ہیں، جذبہ ہے، محنت ہے، جدوجہد ہے لیکن اس سے نبٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور شاید کسی واضح لائحۂ عمل پر کاربند نہیں۔

اس ضمن میں ایک بڑا اہم مسئلہ یہ ہے: کیا یہ تبدیلی قوت کے بل پر آسکتی ہے؟ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیا یہ تبدیلی اہلِ مغرب کے دل ودماغ جیت کر آسکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ کیا یہ تبدیلی آئے بغیر آج، عالمی معیشت، عالمی مفادات، عالمی عسکری و سیاسی غلبے کے اس دور میں، کیا دنیا کے کسی ایک ملک میں دینی تبدیلی آسکتی ہے؟ ہمیں اس میں شبہہ ہے۔

مشیت الٰہی نے نصف صدی میں لاس اینجلز سے لے کر استنبول تک مغرب کی سرزمین میں جو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں پھیلادی ہیں، ان آبادیوں میں یہ صلاحیت اور امکان موجود ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ کش مکش میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔ کیا ان آبادیوں کو استعمال کرنے کے لیے ہم کوئی حکمت عملی رکھتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں۔

پھر مغرب نے ہمیں ایک اور اہم مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ کیا مغرب نے تہذیب و تمدن اور ٹکنالوجی میں جو ایجادات و اختراعات کی ہیں، جو افکار و خیالات پروان چڑھائے ہیں، جو ادارے اور ذرائع وضع کیے ہیں، وہ سب کفر ہیں، اور مسترد کیے جانے کے قابل؟ یا ان میں ترک و اختیار کی پالیسی اختیار کی جائے گی؟ کیا اسلامی انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کو جسے مغرب نے تعمیر کیا ہے، پہلے ڈھا دیا جائے، پھر ملبہ صاف کیا جائے گا، اس کے بعد نئے افکار اور اداروں کی دیواریں اُٹھائی جائیں گی؟ کیا حقیقت کی دنیا میں یہ عمل کرنے کا کوئی امکان ہے؟ ہمارے خیال میں نہیں ہے۔

مغرب کے ساتھ تہذیبی کش مکش اور اس میں فتح ، بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صرف نعروں، ہنگاموں اور جذبات کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہ ہوگا۔ اس کے لیے علم و حکمت، اجتہاد اور جہاد تینوں کی ضرورت ہوگی۔

دین اور خواتین

نواں مسئلہ عورت اورنوجوان کا ہے۔ عورت آبادی کا نصف حصہ ہے۔ ایک طرف مسلم معاشروں میں اسے وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام نے اسے دیا ہے، یا اسلام کی رُو سے اسے دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نے معاشرے میں عورت کے مقام اور عورت مرد کے تعلقات میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرکے، انھیں بالکل نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ آنے والے زمانے میں تہذیبی مسائل میں عورت کا مسئلہ سرفہرست ہوگا: اس کا مقام اور اس کے حقوق۔ اس مسئلے پر بھی ہمارے ہاں بڑا فکری اور عملی خلا ہے، جس کو پُر کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح مسلمان معاشروں میں آبادیوں کا نصف سے زیادہ حصہ ۳۰ سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو اپنے ایمان و اقدار اور اپنی تہذیب و ثقافت کا وارث بنائے بغیر غلبۂ دین کے مقصد میں کامیابی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ لیکن اسلامی تحریکات اس مقصد کے لیے بھی کوئی واضح فکر اور لائحۂ عمل نہیں بنا سکی ہیں۔

احتساب و اعتراف

آخری مسئلہ خود احتسابی، اپنی غلطیوں کے اعتراف، اور اپنی اصلاح کا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ احتساب پر سارے زور کے باوجود، غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور تحریکیں، اپنی اجتماعی روش، پالیسیوں اور اقدامات کے سلسلے میں احتساب و استغفار کے بجائے تاویل و پردہ پوشی کو ترجیح دیتی ہیں۔ نصف صدی کے عرصے میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی اجتماعیت نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو، اور ان کی اصلاح کا اعلان کیا ہو۔ حالانکہ قوموں اور جماعتوں کی دُنیوی کامیابیوں میں خوداحتسابی اور استغفار کو قرآنِ مجید نے کلیدی اور مرکزی مقام دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کو خامیوں اور غلطیوں سے مفر نہیں۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی انسانی گروہ سے نصف صدی میں کوئی بڑی غلطی نہ سرزد ہوئی ہوگی۔ ہمارے ہاںدنیا بھر کی خرابیوں اور غلطیوں پر قراردادیں مل جائیں گی، اپنی خرابیوں اور غلطیوں پر کوئی قرارداد نہیں ملے گی۔

ہمارا خیال ہے کہ پبلک میں اور پبلک کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو پبلک کے سامنے ہی اپنا احتساب کرنا چاہیے، اپنی غلطیوں کی تاویل یا پردہ پوشی کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہیے، اپنی اصلاحی تدابیر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی عزت، دلوں میں مقام اور ان کے دائرۂ اثر و حمایت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ صحت مند اور مفید روایات قائم ہوں گی۔ رگوں میں نیا خون دوڑے گا اور اصلاح کے دروازے کھلیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کے مختلف پہلوئوں پر جائزے، غوروخوض، نظرثانی، تجدید یا تغیر کا عمل شروع ہوجائے گا تو نصف صدی کی محنت سے جو پھل ہم نے جمع کیے ہیں، وہ گلنے اور ضائع جانے کے بجائے برگ و بار لائیں گے۔ قوموں اور جماعتوں کے لیے انحطاط، زوال اور بگاڑ مقدر نہیں، نہ جمود اور تعطل۔ اجتہاد و جہاد سے قوت اور شباب کے دروازے کھل سکتے ہیں  مَاشَاءَ اللہُ  وَلَا قُوَّۃَ  اِلَّا بِاللّٰہِ ۔