جنوری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

’اسلامی بینکاری‘ پر اعتراضات اور حقائق

زاہد حسین اعوان | جنوری ۲۰۲۴ | اسلامی معاشیات

Responsive image Responsive image

مروجہ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اشکالات پر بحث ایک لامتناہی سلسلہ ہے ۔جہاں ایک طرف اس نظام کا انکار کرنے والے سپریم کورٹ میں سود کو جاری و ساری رکھنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، تو دوسری جانب دین سے گہری وابستگی رکھنے والے بعض مخلص حضرات ’اسلامی بینکاری‘ کے اس متبادل نظام کے بارے میں جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، طرح طرح کے اشکالات پیدا کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک مضمون ماہنامہ ترجمان القرآن  میں جناب منیرمنصوری کا بعنوان ’مروجہ اسلامی بینکاری اور بنیادی سوال‘ (نومبر ۲۰۲۳ء) شائع ہوا۔

محترم مضمون نگار بڑے اخلاص کے ساتھ ایک ایسے ماڈل کی تمنا رکھتے ہیں جو کمال کی حد تک ان تمام خرابیوں سے پاک ہو اور روایتی سودی بینکاری کا ۱۰۰فی صد متبادل ہو۔ وہ بجاطورپر ’اسلامی بینکاری‘ کی کم عمری (تقریباً ۴۰ سال) کسی بھی مضبوط ریاستی و اداراتی اور حکومتی حمایت و سرپرستی کی غیر موجودگی اور اہلِ اختیار کی سود کے وبال سے لاعلمی و جہالت اور مغربی نظام سے مرعوبیت، معاشرے کے عمومی اخلاقی زوال کو ’اسلامی بینکاری‘ کی راہ میں رکاوٹ مانتے ہیں۔ مگر اپنے اسی مضمون میں ’شریعہ انجینیرنگ‘ یا ’حیلہ سازی‘ کی اصطلاح بھی متعارف کراتے ہوئے ’اسلامی بینکاری‘ کے مروجہ طریق کار کو مشکوک بھی قرار دیتے ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلامی معیشت کے اہم عضو (organ) '’اسلامی بینکاری‘ کے طریق کار اور اس کی مختلف پراڈکٹس کے تعارف کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ساتھ ہی ساتھ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اٹھنے والے اشکالات پر کچھ معروضات پیش کی جائیں۔

اسلام نے سود کو حرام قرار دیا اورامت کا بحیثیت مجموعی اس پر اتفاق ہے۔اسلام نے جہاں معیشت کے اصول و ضوابط واضح کیے ہیں، وہیں تجارت کی مختلف رائج صورتوں کی تشریح   علم حدیث کے ذریعے کردی گئی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی نوعیت کے پیش نظر کاروباری طریق کار بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں عام رائج شدہ قوانینِ معیشت سے متعلق ہر آنے والے وقت میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کا نقد (cash) کے بدلے فوری تبادلہ اب کئی صورتوں میں ناممکن ہے۔ یوکرائن یا آسٹریلیا سے گندم منگوانے کے لیے بینک کے ذریعے لیٹر آف کریڈٹ کی ضرورت پڑے گی، اسی طرح کے بہت سارے دوسرے معاملات میں بینکوں کے توسط سے ہی تجارتی معاملات طے پاسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اس حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ ۱۹۷۵ء سے پہلے کسی اسلامی بینک کا کوئی وجود نہیں تھااور کوئی ایسا ماڈل بھی نہیں تھا کہ جس کی طرز پر نئے بینک کا اجراء ہوتا۔ ’دوبئی اسلامک‘ کی بنیاد رکھی گئی تو لا محالہ مروجہ بینکنگ نظام کو سامنے رکھتےہوئے، اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیلیاں کرکے ہی کام کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا، اورسٹاف بھی دوسرے بینکوں سے لینا ایک مجبوری تھی۔ البتہ ۱۹۷۵ء سے اب تک قائم کیے گئے اسلامی بینکوں کے طریق کار میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ہر بینک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں (customers) کو دوسرے بینکوں سے بہتر سہولیات اور سروسز مہیا کرے۔اسلامی بینکوں کے پرا ڈکٹس اور سروسز میں بھی وقت کے ساتھ جدت آئی ہے۔

 سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والا لفظ شرح(فی صد) منافع ہے۔ حالانکہ عام زندگی میں کسی بھی کاروبار کی منافعت یا نفع کو بیان کرنے کے لیے شرح(فی صد) ہی میں بات کی جاتی ہے۔جس طرح کہ تعمیراتی کاروبار میں شرح منافع( Profit Margin)  ۱۰ فی صد یا جائیداد میں ۳۰ فی صد ہے۔ جب بات اسلامک بینک کی ہو تو ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیوں،جائیداد،مشینری کی قیمت میں اضافہ مثال کے طور ۱۰ فی صد یا جو بھی ہو ( جو ادھار فروخت کرنے پر جائز ہے)، اُسے فوراً سود کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جیسے بازار میں گاڑی نقد ۲۰ لاکھ اور ادھار ۲۲ لاکھ میں فروخت ہو تو جائز سمجھا جاتا ہے، مگر جب یہی کام اسلامی بینک کرے تو یہ اضافہ سود۔ شرح منافع کا تعین،دراصل بازار میں رائج تجارتی سرگرمیوں کے باعث ہوتا ہے، جن پر اسلامی یا غیراسلامی بینک کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ بین الاقوامی بازار میں لندن جس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کا LIBOR اور یہاں پاکستان میں KIBOR کو Bench Mark کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہرملک کی معیشت اور اس سے ملحق دوسرے معاشی اشارئیے اس ملک میں سرمایہ کاری کے لیے شرح منافع کا تعین کرتے ہیں۔

اسلامی بینک، نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لیتے اور اس سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔بینکنگ کا نظام کافی ترقی کر چکا ہے ۔ان کی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر عموماً نقصانات کا اندیشہ بالکل ختم نہیں تو کم ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ بینک ہمیشہ ہی منافع کیوں دیتے ہیں؟ یہ ایک غیرمنطقی سوال ہے۔ ایک اور یہ توجیہہ کہ اسلامی بینکوں کو کبھی نقصان نہیں ہوتا، یہ تاثر بھی غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ کوئی بھی بینک اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس کے کھاتے اٹھا کر دیکھیں۔ کتنی رقوم Bad Debit (حالیہ یا مستقبل) کے لیے سالانہ بنیادوں پر منافع سے منہا کرکے ریزرو (محفوظ)کے طور پر رکھی جاتی ہیں ۔اسلامی بینک جو مختلف اسلامی پراڈکٹس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہمیشہ ساری رقوم واپس نہیں ہوا کرتیں۔

ایک اور غلط فہمی اسلامی بینکوں کی طرف سے مشارکہ میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ ’مشارکہ‘ ’اسلامی بینکاری‘ کا اہم ستون ہے، اس میں سرمایہ کاری بہت ضروری ہے ۔اس وقت اسلامی بینک، اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکوں کے لیے مقرر کردہ قواعد و ضوابط جو بینکنگ آرڈینیس کے تحت بنائے گئے ہیں کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔

اسلامی بینک جن پراڈکٹس (مرابحہ، مشارکہ، مضاربہ،بیع سلم،اجارہ و وکالہ وغیرہ ) کے ذریعے سرمایہ فراہم کرتے ہیں، ان کے بارے ہمارے تجارتی قوانین ( Commercial Law) میں کوئی قانونی تحفظ نہیں (فاضل مضمون نگار نے خود اس بات کی شہادت دی ہے)۔ سرمایہ کاری کے بارے قانونی تحفظ کی عدم موجودگی میں اسلامی بینک عموماً ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ’مشارکہ‘ میں بالکل ہی سرمایہ کاری نہ کی جائے۔ تجرباتی طور پر تو انھیں ابتدا کرنی چاہیے۔

ایک اور اہم بات ’حیلہ سازی‘ ہے،جسے صاحب ِمضمون نے ’شریعہ انجینیرنگ‘کے الفاظ سے منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں واضح کیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی معاملات میں بہت سی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں۔آج کے دور میں تجارتی معاملات کا قرون اولیٰ تو دُور کی بات ہے، پچاس سال پہلے رائج طریق کار کے ساتھ موازنہ بھی قرین قیاس نہیں ہوگا۔دو افراد کے بیچ خرید و فروخت کے معاہدے جو مقامی سکّے کے عوض انجام پاتے تھے، اب گاؤں سے شہر، شہر سے ملکی منڈی اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے آپس میں تجارت، مختلف کرنسیوں (جس کی قیمت کا اُتار چڑھاؤ ایک علیحدہ تجارت بن چکا ہے) میں ہوتی ہے۔

ایسی صورتِ حال میں لامحالہ رائج تجارتی سر گرمیوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ہی اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جائے گا۔اور مرابحہ، مشارکہ،مضاربہ اور دوسری پراڈکٹس میں منافع کو اس طرح شامل کرنا کہ تمام تجارتی معاہدے، شر عی حدود کے اندر اور اسلامی قوانین کی روشنی میں کیے جائیں ۔اس طرح کے اقدامات جو موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کی خاطر باقاعدہ ایک شریعہ بورڈ کی نگرانی میں طے ہوں، اُن کو ’شریعہ انجینیرنگ‘ کے ذریعے سودی نظام کو دوام دینے کا نام کہنا زیادتی تصور ہوگی۔ ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج تمام پراڈکٹس حقیقی تجارتی سرگرمیوں کا ذریعہ بنتی ہیں، سوائے ’تورّق‘ (Tawaraq) کے۔ اسلامی بینک نقد سرمایہ مہیا کرنے کی خاطر، جو کسی بھی کاروبار کو ابتدا میں آپریٹنگ حالت میں لانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے ،’تورّق‘ کا ذریعہ اختیار کرتا ہے، جس بارے تحفظات موجود ہیں اور ابھی تک اس کا کوئی متبادل نہیں لایا جاسکا۔

ان معروضات کے بعد اب ان اشکالات کا مختصر جائزہ جو محترم مضمون نگار کی تحریر میں اُٹھائے گئے ہیں۔تحریر کا مرکزی نکتہ تو ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج پراڈکٹس کے ذریعے کمایا جانے والا ہر منافع (بقول صاحب ِمضمون) اصل میں ’سود‘ ہی ہے۔اس کا جواب ضمنی طور پر تحریر میں دیا گیا ہے۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً پراڈکٹس کے بارے علیحدہ علیحدہ کچھ وضاحت ہو جائے:

۱- ’مرابحہ‘/ ’مساومہ‘: ’اسلامی بینکاری‘ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پراڈکٹس ہیں۔ چونکہ اسلامی بینک ذاتی ضروریات ہوں یا کاروباری مقاصد، قرض بطور نقد نہیں دے سکتے۔ اجناس ہوں یا مشینری اور گاڑیاں، زمین یا کوئی دوسری اشیا کاروباری مقاصد کے لیے ہوں یا ذاتی ضروریات کے لیے، ان کے حصول کے لیے بینک سے معاونت درکار ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ان اشیا کو بینک پہلے نقد پر خریدتا ہے۔ قبضے میں لینے کے بعد انھیں اُدھار میں فروخت کرتا ہے۔ طے شدہ قیمت فروخت ( قیمت خرید + بینک کا منافع) کا تعین ہوتا ہے ۔قیمت فروخت یک مشت یا اقساط میں ادا ہوسکتی ہے۔ایک بار قیمت مقرر ہونے کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک تجارت ہے جہاں اجناس یا پراپرٹی ایک فرد کی ملکیت سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ شرعاً اُدھار کی قیمت میں اضافہ ناجائز نہیں ہے۔اس طرح سے حاصل کیا گیا منافع سود کے زمرے میں نہیں آتا۔

 ۲-’مضاربہ‘ :اسلامی بینکوں میں بطور سرمایہ کاری جمع شدہ رقوم ( بچت اور طویل مدتی کھاتے) مضاربہ کے تحت جمع ہوتے ہیں ۔بینک اور کھاتہ دار کے درمیان منافع کی تقسیم طے شدہ معاہدے کے مطابق ہوتی ہے۔ بچت کھاتے داروں (Saving) اور طویل مدتی (Time deposits) کے لیے شرح مختلف ہوتی ہے۔ بینک ماہانہ،سہ ماہی،ششماہی یا جو بھی صورتِ حال ہو، منافع تقسیم کرتے ہیں۔ ہر بینک کی پالیسی دوسرے بینک سے مختلف ہو سکتی ہے۔منافع کی شرح بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی بینک نے معاہدے کے وقت بتائے اندازاً منافع مثلاً ۱۰ فی صد ہی کے مطابق اصل منافع یعنی ۱۰ فی صد ہی دے دیا، تو اس پر سود کا اطلاق کیسے ہو گیا؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس سال تجارتی سرگرمیاں اور مجموعی معاشی حالات ایک جیسے ہوں۔ عموماً بینک کی شرح منافع تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

 ۳- ’اجارہ‘ (Leasing ): اجارہ گاڑیوں کا ہو یا گھر و مشینری کا، یہ بینک کی ملکیت ہوتی ہیں اوراس کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔عموماً اس طرح کے معاہدات، مقررہ مدت کے لیے ہوتے ہیں۔ اور جب بینک متعلقہ جنس کی قیمت کرایہ سمیت وصول کر لیتا ہے، تو اس کی ملکیت ایک معمولی رقم کے عوض کرایہ دار کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اور اس کے لیے شروع ہی میں ایک علیحدہ معاہدہ ہوتا ہے۔ جو پہلے معاہدے (اجارہ) کی تکمیل کے لیے تصور کیا جاتا ہے۔ مضمون نگار کا اس پر اعتراض (بیعین) وزن رکھتا ہے۔ یہ ایک فقہی معاملہ ہے، جس پر اختلاف رائے موجود ہے۔البتہ یہ تصور کرلینا کہ ساری گاڑیاں ’اجارہ‘ پر ہی دی جاتی ہیں، درست نہیں۔ بہت سی گاڑیاں ’مرابحہ‘ کے تحت بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ ان پر بیعین کا اصول لاگو نہیں ہوگا۔

 ۴-’بیع السلم‘ اور ’استصناع‘ کے معاملات میں بھی تمام معاہدات شریعہ ضوابط کے تحت کیے جاتے ہیں، اور بینک کی سرمایہ کاری تجارتی سرگرمی سے متعلق ہوتی ہے۔ان سے حاصل منافع بھی شرعی قواعد کے تحت انجام پائے جانے والی تجارت کے تحت ہی وصول ہوتا ہے۔

۵- ’وکالہ الا ستثمار‘: ’وکالہ الا استثمار‘( ایک متعین اُجرت والا معاہدہ) کے بارے بھی ایک شبہہ ظاہر کیا گیا ہے ۔اس طرح کے معاہدے میں بینک صرف اُجرت کا حق دار ہوتاہے اور نفع و نقصان کا ذمہ دار موکل ہوتا ہے۔ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ موکل کو متوقع منافع یقینی بنانے کے لیے بینک اپنی اجرت میں کمی کر دیتا ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی بینک اپنے حق (اُجرت) سے کم لے رہا ہے تو کیا یہ کوئی جرم ہوگا؟ بینک اپنی مرضی سے اپنی فیس / اُجرت میں یک طرفہ طور پر کمی کر رہا ہے، جسے مارکیٹنگ کا ایک عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوم یہ کہ بینک جس مخصوص کاروبار میں ایک مخصوص ٹرانزیکشن ( Transaction) میں موکل کا سرمایہ لگا رہا ہے، اس میں منافع کا یقینی ہونا نہ تو خلاف شرع اور نہ تجارتی اصول ہی کے خلاف ہو گا۔ مثال کے طور پر بینک کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بڑی تعداد میں ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیاں فروخت کرتا ہے اور اس ٹرانزیکشن میں بینک کو اپنے حقیقی منافع کا علم ہے، تو اس ٹرانزیکشن کے لیے ’وکالہ الاستثمار‘ کے تحت موکل سے سرمایہ لے کر اسے منافع کا ایک حصہ دینا ( fixed ہی کیوں نہ ہو) ناجائز نہیں ہوگا۔

 ۶-’کماڈٹی مرابحہ‘: بینک اسلامی ہو یا مروجہ ( سودی) (Conventional) کے لیے اپنے کل ڈیپازٹس کا ایک خاص حصہ فوری ضروریات کے لیے رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ مروجہ  (سودی بینک ) اپنی فوری ضروریات کے لیے دوسروں بینکوں کے ساتھ مختصر مدت جو یومیہ، ہفتہ یا مہینہ یا زیادہ ہو سکتی ہے، میں یہ رقم رکھ کر سود کما لیتے ہیں۔ تاہم، اسلامی بینکوں کے لیے کماڈٹی (Commodity) ’مرابحہ‘ کے ذریعے سرمایہ کاری اس ناگزیر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے  شریعہ اسکالرز کی طرف سے واحد عارضی اجازت نامہ ہے۔ اس کا متبادل تلاش ہونا چاہیے ۔ شریعہ کا اس پر اصرار نہیں ہے، لیکن تکنیکی طور پر بے شمار مشکلات ہیں۔ مروجہ ’کماڈٹی مرابحہ‘ میں اسلامی بینک ایک وکیل مقرر کرتا ہے، جو اس کی طرف سے ایک خاص رقم کے لیے فوری کیش کے بدلے ’الف‘ سے کماڈٹی خریدتا ہے اور اس کو منافع شامل کرکے اُدھار پر ’ب‘ کو فروخت کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ حیلہ ہے، لیکن یہ ایک عارضی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے نہ کہ مستقل حل۔ بصورت دیگر اسلامی بینک کا اربوں کا سرمایہ مرکزی بینک یا کسی اور جگہ بغیر استعمال پڑا ہوگا، جو بہت بڑا نقصان ہو گا۔

یہ بات درست ہے کہ اسلامی بینکوں نے اس کو آسان حل سمجھ رکھا ہے۔اس کے متبادل کے لیے غور و خوض کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بات کہنا کہ اسلامی بینک، سودی بینکوں کو سرمایہ مہیا کرتا ہے، ایک خلافِ حقیقت مفروضہ ہے۔ آج کی دنیا میں غیر اسلامی بینکوں کے ساتھ معاملات نا گزیر ہیں۔ اگر یہ معاملات ہماری شرائط (شریعہ کے قواعد و ضوابط) کے تحت ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔تاہم، اگر اُن کی شرائط پر ہوں تو یقینا غلط عمل ہوگا( شراب مسلمان سے بھی خریدنا حرام ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم سے کسی حلال چیز کا خریدنا یا فروخت کرنا حلال ہے)۔

الحمد للہ، اسلامی بینکوں کی تعداد میں اضافے اور صکوک کے اجراء کے بعد اس ضرورت کو پورا کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اب تو کئی مغربی ممالک تک نے بھی ان صکوک کا اجراء شروع کر دیا ہے۔ ۱۹۷۵ء سے اب تک سیکڑوں اسلامی بینکوں کا قائم ہونا،دنیا میں ’اسلامی بینکاری‘ کو ایک متبادل کے طور ماننا،ہزاروں افراد کا ’اسلامی بینکاری‘ نظام کا حصہ بننا اور اسی طرح کے دوسرے مرحلہ وار اقدامات، حقیقی اسلامی معیشت کے قیام کی طرف پیش قدمی ہے۔

اسلامی بینکوں کا نظام مثالی نہ سہی، اصل مقصد کی طرف ایک سفر ہے۔ ان میں موجود خامیوں کی محض نشاندہی ضروری نہیں بلکہ ان کے حل کی تجاویز ایک بہترین عمل ہوگا۔بینک، اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اہم جز ہے اور اس کے فوائد کسی انسانی معاشرے تک پہنچانے کے لیے مجموعی ماحول کی تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے۔ایک بڑی رکاوٹ عوام میں اس کے بارے عدم آگاہی ہے، جس کے ذمہ دار اسلامی بینک بھی ہیں۔اس وقت ملک کی کئی یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے ڈگری پروگرام شروع ہو چکے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ ایجادات ہوں یا نئے اداروں کا قیام، ترقی کی منازل کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس راہ میں بے شمار مشکلات حائل ہیں، جن کے حل کے لیے حکومتی اداروں، ’اسلامی بینکاری‘کے شعبہ سے منسلک ذمہ داروں،    شریعہ اسکالروں اور قانون ساز اداروں سمیت سب کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔

اشکالات کے خاتمہ کے لیے کچھ تجاویز

             ۱-        شریعہ اسکالرز کا بنیادی علم اسلامی فقہ اور تجارت کے بارے احادیث پر مبنی ہوتا ہے۔ بیش تر شریعہ اسکالرز موجودہ بینکنگ کے تفصیلی تکنیکی علم اور ان بینکوں کے آپریشنل (operational) طریق کار سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے۔بینکوں کے بعض ذمہ داران، ان کے سامنے ایسی تمام تکنیکی معلومات مہیا بھی نہیں کرتے، جس سے کئی خرابیاں جنم لے سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شریعہ بوررڈ میں ایک بینکر ضرور شامل ہو، تاکہ آپریشنل معاملات میں ان کی مدد کر سکے۔

             ۲-        بینکاروں کی اسلامی نظم معیشت کے تحت پیشہ ورانہ تربیت کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔بعض اوقات اسلامی بینک میں کام کرنے والے اپنی لاعلمی کی بنیاد پر اپنے موکل یا عام عوام کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے اور یوں اسلامی بینکوں کے بارے غلط معلومات کی وجہ سے کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔

             ۳-        اسلامی بینکوں کے کرتا دھرتا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شریعہ اسکالرز کے ساتھ مل کر کمرشل لا میں تبدیلی کے لیے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے تعاون سے ’اسلامی بینکاری‘ کے لیے ضروری قانون سازی کروائیں،تاکہ سرمایہ کاری کرنے والے بینکوں کے سرمایہ کو قانونی تحفظ بھی مہیا ہو ۔جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

            ۴-         قومی نصابِ تعلیم میں اسلامی معیشت کے خدوخال اور ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے مختلف درجوں کے لیے اسباق شامل کیے جائیں۔

 _______________

’اسلامی بینکاری‘ پر دوسرے نقطۂ نظر کو جاننے کے لیے دیکھیے: ’’پاکستان میں ’اسلامی بینکاری‘ کی حقیقت؟‘‘ از ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۲۰۲۲ء، ص۴۷-۵۴ (ادارہ)