زاہد حسین اعوان


مروجہ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اشکالات پر بحث ایک لامتناہی سلسلہ ہے ۔جہاں ایک طرف اس نظام کا انکار کرنے والے سپریم کورٹ میں سود کو جاری و ساری رکھنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں، تو دوسری جانب دین سے گہری وابستگی رکھنے والے بعض مخلص حضرات ’اسلامی بینکاری‘ کے اس متبادل نظام کے بارے میں جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، طرح طرح کے اشکالات پیدا کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک مضمون ماہنامہ ترجمان القرآن  میں جناب منیرمنصوری کا بعنوان ’مروجہ اسلامی بینکاری اور بنیادی سوال‘ (نومبر ۲۰۲۳ء) شائع ہوا۔

محترم مضمون نگار بڑے اخلاص کے ساتھ ایک ایسے ماڈل کی تمنا رکھتے ہیں جو کمال کی حد تک ان تمام خرابیوں سے پاک ہو اور روایتی سودی بینکاری کا ۱۰۰فی صد متبادل ہو۔ وہ بجاطورپر ’اسلامی بینکاری‘ کی کم عمری (تقریباً ۴۰ سال) کسی بھی مضبوط ریاستی و اداراتی اور حکومتی حمایت و سرپرستی کی غیر موجودگی اور اہلِ اختیار کی سود کے وبال سے لاعلمی و جہالت اور مغربی نظام سے مرعوبیت، معاشرے کے عمومی اخلاقی زوال کو ’اسلامی بینکاری‘ کی راہ میں رکاوٹ مانتے ہیں۔ مگر اپنے اسی مضمون میں ’شریعہ انجینیرنگ‘ یا ’حیلہ سازی‘ کی اصطلاح بھی متعارف کراتے ہوئے ’اسلامی بینکاری‘ کے مروجہ طریق کار کو مشکوک بھی قرار دیتے ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو جاتا ہے کہ اسلامی معیشت کے اہم عضو (organ) '’اسلامی بینکاری‘ کے طریق کار اور اس کی مختلف پراڈکٹس کے تعارف کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ساتھ ہی ساتھ ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے میں اٹھنے والے اشکالات پر کچھ معروضات پیش کی جائیں۔

اسلام نے سود کو حرام قرار دیا اورامت کا بحیثیت مجموعی اس پر اتفاق ہے۔اسلام نے جہاں معیشت کے اصول و ضوابط واضح کیے ہیں، وہیں تجارت کی مختلف رائج صورتوں کی تشریح   علم حدیث کے ذریعے کردی گئی ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی نوعیت کے پیش نظر کاروباری طریق کار بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں عام رائج شدہ قوانینِ معیشت سے متعلق ہر آنے والے وقت میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کا نقد (cash) کے بدلے فوری تبادلہ اب کئی صورتوں میں ناممکن ہے۔ یوکرائن یا آسٹریلیا سے گندم منگوانے کے لیے بینک کے ذریعے لیٹر آف کریڈٹ کی ضرورت پڑے گی، اسی طرح کے بہت سارے دوسرے معاملات میں بینکوں کے توسط سے ہی تجارتی معاملات طے پاسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اس حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ ۱۹۷۵ء سے پہلے کسی اسلامی بینک کا کوئی وجود نہیں تھااور کوئی ایسا ماڈل بھی نہیں تھا کہ جس کی طرز پر نئے بینک کا اجراء ہوتا۔ ’دوبئی اسلامک‘ کی بنیاد رکھی گئی تو لا محالہ مروجہ بینکنگ نظام کو سامنے رکھتےہوئے، اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیلیاں کرکے ہی کام کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا، اورسٹاف بھی دوسرے بینکوں سے لینا ایک مجبوری تھی۔ البتہ ۱۹۷۵ء سے اب تک قائم کیے گئے اسلامی بینکوں کے طریق کار میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ہر بینک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں (customers) کو دوسرے بینکوں سے بہتر سہولیات اور سروسز مہیا کرے۔اسلامی بینکوں کے پرا ڈکٹس اور سروسز میں بھی وقت کے ساتھ جدت آئی ہے۔

 سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والا لفظ شرح(فی صد) منافع ہے۔ حالانکہ عام زندگی میں کسی بھی کاروبار کی منافعت یا نفع کو بیان کرنے کے لیے شرح(فی صد) ہی میں بات کی جاتی ہے۔جس طرح کہ تعمیراتی کاروبار میں شرح منافع( Profit Margin)  ۱۰ فی صد یا جائیداد میں ۳۰ فی صد ہے۔ جب بات اسلامک بینک کی ہو تو ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیوں،جائیداد،مشینری کی قیمت میں اضافہ مثال کے طور ۱۰ فی صد یا جو بھی ہو ( جو ادھار فروخت کرنے پر جائز ہے)، اُسے فوراً سود کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جیسے بازار میں گاڑی نقد ۲۰ لاکھ اور ادھار ۲۲ لاکھ میں فروخت ہو تو جائز سمجھا جاتا ہے، مگر جب یہی کام اسلامی بینک کرے تو یہ اضافہ سود۔ شرح منافع کا تعین،دراصل بازار میں رائج تجارتی سرگرمیوں کے باعث ہوتا ہے، جن پر اسلامی یا غیراسلامی بینک کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ بین الاقوامی بازار میں لندن جس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کا LIBOR اور یہاں پاکستان میں KIBOR کو Bench Mark کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہرملک کی معیشت اور اس سے ملحق دوسرے معاشی اشارئیے اس ملک میں سرمایہ کاری کے لیے شرح منافع کا تعین کرتے ہیں۔

اسلامی بینک، نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لیتے اور اس سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔بینکنگ کا نظام کافی ترقی کر چکا ہے ۔ان کی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر عموماً نقصانات کا اندیشہ بالکل ختم نہیں تو کم ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ بینک ہمیشہ ہی منافع کیوں دیتے ہیں؟ یہ ایک غیرمنطقی سوال ہے۔ ایک اور یہ توجیہہ کہ اسلامی بینکوں کو کبھی نقصان نہیں ہوتا، یہ تاثر بھی غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ کوئی بھی بینک اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس کے کھاتے اٹھا کر دیکھیں۔ کتنی رقوم Bad Debit (حالیہ یا مستقبل) کے لیے سالانہ بنیادوں پر منافع سے منہا کرکے ریزرو (محفوظ)کے طور پر رکھی جاتی ہیں ۔اسلامی بینک جو مختلف اسلامی پراڈکٹس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ہمیشہ ساری رقوم واپس نہیں ہوا کرتیں۔

ایک اور غلط فہمی اسلامی بینکوں کی طرف سے مشارکہ میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ ’مشارکہ‘ ’اسلامی بینکاری‘ کا اہم ستون ہے، اس میں سرمایہ کاری بہت ضروری ہے ۔اس وقت اسلامی بینک، اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکوں کے لیے مقرر کردہ قواعد و ضوابط جو بینکنگ آرڈینیس کے تحت بنائے گئے ہیں کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔

اسلامی بینک جن پراڈکٹس (مرابحہ، مشارکہ، مضاربہ،بیع سلم،اجارہ و وکالہ وغیرہ ) کے ذریعے سرمایہ فراہم کرتے ہیں، ان کے بارے ہمارے تجارتی قوانین ( Commercial Law) میں کوئی قانونی تحفظ نہیں (فاضل مضمون نگار نے خود اس بات کی شہادت دی ہے)۔ سرمایہ کاری کے بارے قانونی تحفظ کی عدم موجودگی میں اسلامی بینک عموماً ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ’مشارکہ‘ میں بالکل ہی سرمایہ کاری نہ کی جائے۔ تجرباتی طور پر تو انھیں ابتدا کرنی چاہیے۔

ایک اور اہم بات ’حیلہ سازی‘ ہے،جسے صاحب ِمضمون نے ’شریعہ انجینیرنگ‘کے الفاظ سے منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ سطور بالا میں واضح کیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی معاملات میں بہت سی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں۔آج کے دور میں تجارتی معاملات کا قرون اولیٰ تو دُور کی بات ہے، پچاس سال پہلے رائج طریق کار کے ساتھ موازنہ بھی قرین قیاس نہیں ہوگا۔دو افراد کے بیچ خرید و فروخت کے معاہدے جو مقامی سکّے کے عوض انجام پاتے تھے، اب گاؤں سے شہر، شہر سے ملکی منڈی اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے آپس میں تجارت، مختلف کرنسیوں (جس کی قیمت کا اُتار چڑھاؤ ایک علیحدہ تجارت بن چکا ہے) میں ہوتی ہے۔

ایسی صورتِ حال میں لامحالہ رائج تجارتی سر گرمیوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ہی اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جائے گا۔اور مرابحہ، مشارکہ،مضاربہ اور دوسری پراڈکٹس میں منافع کو اس طرح شامل کرنا کہ تمام تجارتی معاہدے، شر عی حدود کے اندر اور اسلامی قوانین کی روشنی میں کیے جائیں ۔اس طرح کے اقدامات جو موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کی خاطر باقاعدہ ایک شریعہ بورڈ کی نگرانی میں طے ہوں، اُن کو ’شریعہ انجینیرنگ‘ کے ذریعے سودی نظام کو دوام دینے کا نام کہنا زیادتی تصور ہوگی۔ ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج تمام پراڈکٹس حقیقی تجارتی سرگرمیوں کا ذریعہ بنتی ہیں، سوائے ’تورّق‘ (Tawaraq) کے۔ اسلامی بینک نقد سرمایہ مہیا کرنے کی خاطر، جو کسی بھی کاروبار کو ابتدا میں آپریٹنگ حالت میں لانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے ،’تورّق‘ کا ذریعہ اختیار کرتا ہے، جس بارے تحفظات موجود ہیں اور ابھی تک اس کا کوئی متبادل نہیں لایا جاسکا۔

ان معروضات کے بعد اب ان اشکالات کا مختصر جائزہ جو محترم مضمون نگار کی تحریر میں اُٹھائے گئے ہیں۔تحریر کا مرکزی نکتہ تو ’اسلامی بینکاری‘ میں رائج پراڈکٹس کے ذریعے کمایا جانے والا ہر منافع (بقول صاحب ِمضمون) اصل میں ’سود‘ ہی ہے۔اس کا جواب ضمنی طور پر تحریر میں دیا گیا ہے۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً پراڈکٹس کے بارے علیحدہ علیحدہ کچھ وضاحت ہو جائے:

۱- ’مرابحہ‘/ ’مساومہ‘: ’اسلامی بینکاری‘ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پراڈکٹس ہیں۔ چونکہ اسلامی بینک ذاتی ضروریات ہوں یا کاروباری مقاصد، قرض بطور نقد نہیں دے سکتے۔ اجناس ہوں یا مشینری اور گاڑیاں، زمین یا کوئی دوسری اشیا کاروباری مقاصد کے لیے ہوں یا ذاتی ضروریات کے لیے، ان کے حصول کے لیے بینک سے معاونت درکار ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ان اشیا کو بینک پہلے نقد پر خریدتا ہے۔ قبضے میں لینے کے بعد انھیں اُدھار میں فروخت کرتا ہے۔ طے شدہ قیمت فروخت ( قیمت خرید + بینک کا منافع) کا تعین ہوتا ہے ۔قیمت فروخت یک مشت یا اقساط میں ادا ہوسکتی ہے۔ایک بار قیمت مقرر ہونے کے بعد اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک تجارت ہے جہاں اجناس یا پراپرٹی ایک فرد کی ملکیت سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ شرعاً اُدھار کی قیمت میں اضافہ ناجائز نہیں ہے۔اس طرح سے حاصل کیا گیا منافع سود کے زمرے میں نہیں آتا۔

 ۲-’مضاربہ‘ :اسلامی بینکوں میں بطور سرمایہ کاری جمع شدہ رقوم ( بچت اور طویل مدتی کھاتے) مضاربہ کے تحت جمع ہوتے ہیں ۔بینک اور کھاتہ دار کے درمیان منافع کی تقسیم طے شدہ معاہدے کے مطابق ہوتی ہے۔ بچت کھاتے داروں (Saving) اور طویل مدتی (Time deposits) کے لیے شرح مختلف ہوتی ہے۔ بینک ماہانہ،سہ ماہی،ششماہی یا جو بھی صورتِ حال ہو، منافع تقسیم کرتے ہیں۔ ہر بینک کی پالیسی دوسرے بینک سے مختلف ہو سکتی ہے۔منافع کی شرح بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی بینک نے معاہدے کے وقت بتائے اندازاً منافع مثلاً ۱۰ فی صد ہی کے مطابق اصل منافع یعنی ۱۰ فی صد ہی دے دیا، تو اس پر سود کا اطلاق کیسے ہو گیا؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس سال تجارتی سرگرمیاں اور مجموعی معاشی حالات ایک جیسے ہوں۔ عموماً بینک کی شرح منافع تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

 ۳- ’اجارہ‘ (Leasing ): اجارہ گاڑیوں کا ہو یا گھر و مشینری کا، یہ بینک کی ملکیت ہوتی ہیں اوراس کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔عموماً اس طرح کے معاہدات، مقررہ مدت کے لیے ہوتے ہیں۔ اور جب بینک متعلقہ جنس کی قیمت کرایہ سمیت وصول کر لیتا ہے، تو اس کی ملکیت ایک معمولی رقم کے عوض کرایہ دار کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اور اس کے لیے شروع ہی میں ایک علیحدہ معاہدہ ہوتا ہے۔ جو پہلے معاہدے (اجارہ) کی تکمیل کے لیے تصور کیا جاتا ہے۔ مضمون نگار کا اس پر اعتراض (بیعین) وزن رکھتا ہے۔ یہ ایک فقہی معاملہ ہے، جس پر اختلاف رائے موجود ہے۔البتہ یہ تصور کرلینا کہ ساری گاڑیاں ’اجارہ‘ پر ہی دی جاتی ہیں، درست نہیں۔ بہت سی گاڑیاں ’مرابحہ‘ کے تحت بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ ان پر بیعین کا اصول لاگو نہیں ہوگا۔

 ۴-’بیع السلم‘ اور ’استصناع‘ کے معاملات میں بھی تمام معاہدات شریعہ ضوابط کے تحت کیے جاتے ہیں، اور بینک کی سرمایہ کاری تجارتی سرگرمی سے متعلق ہوتی ہے۔ان سے حاصل منافع بھی شرعی قواعد کے تحت انجام پائے جانے والی تجارت کے تحت ہی وصول ہوتا ہے۔

۵- ’وکالہ الا ستثمار‘: ’وکالہ الا استثمار‘( ایک متعین اُجرت والا معاہدہ) کے بارے بھی ایک شبہہ ظاہر کیا گیا ہے ۔اس طرح کے معاہدے میں بینک صرف اُجرت کا حق دار ہوتاہے اور نفع و نقصان کا ذمہ دار موکل ہوتا ہے۔ جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ موکل کو متوقع منافع یقینی بنانے کے لیے بینک اپنی اجرت میں کمی کر دیتا ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی بینک اپنے حق (اُجرت) سے کم لے رہا ہے تو کیا یہ کوئی جرم ہوگا؟ بینک اپنی مرضی سے اپنی فیس / اُجرت میں یک طرفہ طور پر کمی کر رہا ہے، جسے مارکیٹنگ کا ایک عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوم یہ کہ بینک جس مخصوص کاروبار میں ایک مخصوص ٹرانزیکشن ( Transaction) میں موکل کا سرمایہ لگا رہا ہے، اس میں منافع کا یقینی ہونا نہ تو خلاف شرع اور نہ تجارتی اصول ہی کے خلاف ہو گا۔ مثال کے طور پر بینک کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بڑی تعداد میں ’مرابحہ‘ کے تحت گاڑیاں فروخت کرتا ہے اور اس ٹرانزیکشن میں بینک کو اپنے حقیقی منافع کا علم ہے، تو اس ٹرانزیکشن کے لیے ’وکالہ الاستثمار‘ کے تحت موکل سے سرمایہ لے کر اسے منافع کا ایک حصہ دینا ( fixed ہی کیوں نہ ہو) ناجائز نہیں ہوگا۔

 ۶-’کماڈٹی مرابحہ‘: بینک اسلامی ہو یا مروجہ ( سودی) (Conventional) کے لیے اپنے کل ڈیپازٹس کا ایک خاص حصہ فوری ضروریات کے لیے رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ مروجہ  (سودی بینک ) اپنی فوری ضروریات کے لیے دوسروں بینکوں کے ساتھ مختصر مدت جو یومیہ، ہفتہ یا مہینہ یا زیادہ ہو سکتی ہے، میں یہ رقم رکھ کر سود کما لیتے ہیں۔ تاہم، اسلامی بینکوں کے لیے کماڈٹی (Commodity) ’مرابحہ‘ کے ذریعے سرمایہ کاری اس ناگزیر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے  شریعہ اسکالرز کی طرف سے واحد عارضی اجازت نامہ ہے۔ اس کا متبادل تلاش ہونا چاہیے ۔ شریعہ کا اس پر اصرار نہیں ہے، لیکن تکنیکی طور پر بے شمار مشکلات ہیں۔ مروجہ ’کماڈٹی مرابحہ‘ میں اسلامی بینک ایک وکیل مقرر کرتا ہے، جو اس کی طرف سے ایک خاص رقم کے لیے فوری کیش کے بدلے ’الف‘ سے کماڈٹی خریدتا ہے اور اس کو منافع شامل کرکے اُدھار پر ’ب‘ کو فروخت کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ حیلہ ہے، لیکن یہ ایک عارضی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے نہ کہ مستقل حل۔ بصورت دیگر اسلامی بینک کا اربوں کا سرمایہ مرکزی بینک یا کسی اور جگہ بغیر استعمال پڑا ہوگا، جو بہت بڑا نقصان ہو گا۔

یہ بات درست ہے کہ اسلامی بینکوں نے اس کو آسان حل سمجھ رکھا ہے۔اس کے متبادل کے لیے غور و خوض کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بات کہنا کہ اسلامی بینک، سودی بینکوں کو سرمایہ مہیا کرتا ہے، ایک خلافِ حقیقت مفروضہ ہے۔ آج کی دنیا میں غیر اسلامی بینکوں کے ساتھ معاملات نا گزیر ہیں۔ اگر یہ معاملات ہماری شرائط (شریعہ کے قواعد و ضوابط) کے تحت ہوں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔تاہم، اگر اُن کی شرائط پر ہوں تو یقینا غلط عمل ہوگا( شراب مسلمان سے بھی خریدنا حرام ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم سے کسی حلال چیز کا خریدنا یا فروخت کرنا حلال ہے)۔

الحمد للہ، اسلامی بینکوں کی تعداد میں اضافے اور صکوک کے اجراء کے بعد اس ضرورت کو پورا کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اب تو کئی مغربی ممالک تک نے بھی ان صکوک کا اجراء شروع کر دیا ہے۔ ۱۹۷۵ء سے اب تک سیکڑوں اسلامی بینکوں کا قائم ہونا،دنیا میں ’اسلامی بینکاری‘ کو ایک متبادل کے طور ماننا،ہزاروں افراد کا ’اسلامی بینکاری‘ نظام کا حصہ بننا اور اسی طرح کے دوسرے مرحلہ وار اقدامات، حقیقی اسلامی معیشت کے قیام کی طرف پیش قدمی ہے۔

اسلامی بینکوں کا نظام مثالی نہ سہی، اصل مقصد کی طرف ایک سفر ہے۔ ان میں موجود خامیوں کی محض نشاندہی ضروری نہیں بلکہ ان کے حل کی تجاویز ایک بہترین عمل ہوگا۔بینک، اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اہم جز ہے اور اس کے فوائد کسی انسانی معاشرے تک پہنچانے کے لیے مجموعی ماحول کی تبدیلی کے لیے وقت درکار ہے۔ایک بڑی رکاوٹ عوام میں اس کے بارے عدم آگاہی ہے، جس کے ذمہ دار اسلامی بینک بھی ہیں۔اس وقت ملک کی کئی یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے ڈگری پروگرام شروع ہو چکے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ ایجادات ہوں یا نئے اداروں کا قیام، ترقی کی منازل کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اس راہ میں بے شمار مشکلات حائل ہیں، جن کے حل کے لیے حکومتی اداروں، ’اسلامی بینکاری‘کے شعبہ سے منسلک ذمہ داروں،    شریعہ اسکالروں اور قانون ساز اداروں سمیت سب کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔

اشکالات کے خاتمہ کے لیے کچھ تجاویز

             ۱-        شریعہ اسکالرز کا بنیادی علم اسلامی فقہ اور تجارت کے بارے احادیث پر مبنی ہوتا ہے۔ بیش تر شریعہ اسکالرز موجودہ بینکنگ کے تفصیلی تکنیکی علم اور ان بینکوں کے آپریشنل (operational) طریق کار سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے۔بینکوں کے بعض ذمہ داران، ان کے سامنے ایسی تمام تکنیکی معلومات مہیا بھی نہیں کرتے، جس سے کئی خرابیاں جنم لے سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شریعہ بوررڈ میں ایک بینکر ضرور شامل ہو، تاکہ آپریشنل معاملات میں ان کی مدد کر سکے۔

             ۲-        بینکاروں کی اسلامی نظم معیشت کے تحت پیشہ ورانہ تربیت کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔بعض اوقات اسلامی بینک میں کام کرنے والے اپنی لاعلمی کی بنیاد پر اپنے موکل یا عام عوام کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے اور یوں اسلامی بینکوں کے بارے غلط معلومات کی وجہ سے کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔

             ۳-        اسلامی بینکوں کے کرتا دھرتا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شریعہ اسکالرز کے ساتھ مل کر کمرشل لا میں تبدیلی کے لیے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے تعاون سے ’اسلامی بینکاری‘ کے لیے ضروری قانون سازی کروائیں،تاکہ سرمایہ کاری کرنے والے بینکوں کے سرمایہ کو قانونی تحفظ بھی مہیا ہو ۔جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ’مشارکہ‘ میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

            ۴-         قومی نصابِ تعلیم میں اسلامی معیشت کے خدوخال اور ’اسلامی بینکاری‘ کے بارے مختلف درجوں کے لیے اسباق شامل کیے جائیں۔

 _______________

’اسلامی بینکاری‘ پر دوسرے نقطۂ نظر کو جاننے کے لیے دیکھیے: ’’پاکستان میں ’اسلامی بینکاری‘ کی حقیقت؟‘‘ از ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، جون ۲۰۲۲ء، ص۴۷-۵۴ (ادارہ)

اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کا آئین اسلامی نظام کے احیاء کے لیے تمام اداروں کو پابند بناتا ہے، اسی ملک خداداد میں سودی معیشت (اللہ اور رسولؐ سے جنگ) سے چھٹکارے کے لیے ۲۰ سال تک عدالتی جنگ اور سپریم کورٹ کے فیڈرل شریعت کورٹ کےحالیہ فیصلے کے بعد یہ جدوجہد اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔جس میں عدالتی، آئینی، انتظامی اور مفاداتی رکاوٹیں اپنی جگہ قائم ہیں، جنھیں عبور کرنے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر خزانہ کا محتاط تبصرہ اور وزیر اعظم کا یہ بیان بھی حوصلہ افزا ہے کہ ’’سود کے بارے قرآنی احکام سے حکم عدولی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘۔ تاہم، دوسری طرف ہمارے سامنے یہ بھی ایک بڑی واضح حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ اس قسم کے بیانات، تضادات اور خوش کن وعدوںسے بھری پڑی ہے، جو ہرسال ۲۳مارچ اور ۱۴ ؍اگست کو اخباروں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت میں قانونی موشگافیوں اور حیلوں میں اُلجھنے کے بجائے، راست اسلامی فکرورہنمائی کے مطابق، حکومت اور متعلقہ ادارے اس غلطی کو نہیں دُہرائیں گے، جو ۹۰ کے عشرے میں کی گئی اور جس کا خمیازہ ہم مالی اور معاشی مشکلات کی صورت میں ابھی تک بھگت رہے ہیں۔

۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ءکے فیصلے کے کمزور پہلوئوں کے علی الرغم، اور نظر آتی ایک نئی عدالتی جنگ کے باوجود فی الفور چند بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہو گی ۔اوّلین قدم قرضوں کے حجم کو کم کرنا ہوگا، تاکہ واجب الادا قرض /سود میں بتدریج کمی لائی جا سکے اور ایک خاص مدت کے اندر ہم سابقہ قرضوں کے جن معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سےچھٹکارے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔

 ان قرضوں کوکس طرح اسلامی بنیاد پر حاصل کیے گئے قرضوں میں منتقل کیا جائے؟ جیسے بڑے سوال کا جواب دینے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی سر براہی میں غیرسودی بنکوں، وزارتِ خزانہ اور دوسرے معاشی ماہرین پر مشتمل کمیشن ایک لائحہ عمل بنا سکتا ہے، جس پر عمل کر کے ملکی قرضوں پر سود کے خاتمے کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے، ان کے لیے مختلف لائحہ عمل اختیار کرنے ہوں گے۔حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کے لیے قرضہ جات صرف کار آمد منصوبوں کے لیے ہی لیے جائیں۔ ڈیم بنائیں اور ریل کی پٹڑیاں یا موٹرویز تعمیر کریں۔بیرونی سرمایہ کار اداروں سے شراکت کی بنیاد پر اور بعض معاملات میں ورکنگ کیپٹل اور میٹریل فراہمی کے لیے اسلامی بنیادوں پر سرمایے کا حصول بالکل ممکن ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

۲۰۰۶ء میں قطر نے ایشین گیمز منعقد کراتے وقت انفراسٹرکچرکے لیے اسی بنیاد پر سرمایہ حاصل کیا تھا۔ اب بھی حکومت قطر اپنی پیٹرولیم اور گیس کی صنعت کو وسعت دینے کے لیے غیرسودی بنیاد پر بین الاقوامی اداروں سے سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ کئی دوسرے ممالک میں بھی صکوک کے ذریعے یہ سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے۔ خود پاکستان کی حکومت اور کارپوریٹس نے صکوک جاری کر رکھے ہیں۔البتہ سابقہ قرضوںکے لیے دوجہتوں پر کام کیا سکتا ہے: اوّل یہ کہ ری شیڈولنگ کے تحت ان قرضہ جات کو اسلامک پروڈکٹس میں منتقل کرنا اور پھر جہاں بالکل ناممکن ہو، وہاں شریعۃ سےرہنمائی اور مہلت طلب کرنا۔

بنک معاشی نظام کا ایک جزو ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نا ممکن ہے۔ پاکستان میں بنکوں کو اسلامی بنکاری میں ڈھالنے یا ان سے سود کا خاتمہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔کمرشل بنک آیندہ کے لیے فکسڈ شرح منافع کے بجائے اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز کو نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع دیں۔اسی لیے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے۔ رہا معاملہ ان کے سابقہ دیئے گئے قرضوں کا تو یہ کام سال بھر میں ممکن ہے۔ ان تمام بنکوں کی اسلامک برانچیں موجود ہیں تو باقی بنک کیوں اسلامک بنیاد پر کام نہیں کر سکتے؟

ملک میں اقتصادی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کے لیے بلاشبہہ وقت درکار ہے۔ سٹیٹ بنک اور دوسرے متعلقہ اداروں نے عدالت کے بار بار اس سوال کے جواب میں وقت دینے سے پہلو تہی برتی۔ تاہم، سابق سیکرٹری خزانہ جناب ڈاکٹر وقارمسعود نے علمی بنیادوں پر اس سلسلے میں عدالت کی معاونت کی۔

حالیہ انتہائی پیچیدہ معاشی مشکلات میں حکومت کو بجٹ بنانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہے، اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات کرنے کی جلدی بھی ہے، تاکہ دوسرے ذرائع سے قرضے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو۔

یہ فیصلہ اربابِ اختیار کے لیے ایک عظیم چیلنج ہے۔بلاشبہہ فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ دار حکومت ہی ہے، لیکن اس کے لیے اسلامی اسکالرز،معیشت دان، علما، سٹیٹ بنک ،ایس ای سی پی بنک، اوردوسرے اداروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ صرف عدالتی فیصلوں سے معیشت سے سود کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف ایک اصولی بات کہہ سکتے ہیں۔ جب تک اس راہ میں تمام حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے بنک اور دوسرے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس راہ میں حائل چند رکاوٹوں کا ذکر معاملات پر گہری سوچ و فکر کی طرف یہاں دعوت دی جارہی ہے:

حائل مشکلات

  • عوامی سطح پر عدم واقفیت (عقیدے اور تکنیکی پہلو)
  • بیوروکریسی اورفیصلہ ساز ادارے
  • کمرشل قوانین کی عدم موجودگی
  • اسلامی بنکوں کی عدم دلچسپی
  • ہمارے رویے
  • نئے بنکوں کے قیام میں عدم دلچسپی۔

 

  • عوامی سطح پر آگاہی: مصنوعات یا تصور کو پیش کرنے کے لیے عوام میں آگاہی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے بجٹ کا ایک معقول حصہ مختص ہوتا ہے ۔آگاہی کے بھی دو پہلو ہیں:ایک کا تعلق ہمارے عقیدے سے ہے، جب کہ دوسرا اس کا تکنیکی یا کمرشل پہلو ہے۔

بلحاظ عقیدہ سود کی حرمت کے بارے قرآن وسنت کے احکام واضح ہیں ۔مساجد میں کبھی کبھار خطبوں میں اس کا ذکرضرور کر دیا جاتا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کرسود کی حرمت اور موجودہ دورمیں اس کے ہماری روزمرہ زند گی میں عمل دخل اور تباہ کاریوں سے واقف بھی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے نہ عوامی سطح پر آگاہی کا کوئی پروگرام موجود ہے اور نہ کسی کو اس کی فکر لاحق۔اس وقت عوام، غیرسودی بنکوں سے جو معاملات کر رہے ہیں، اس میں بیش تر افراد صرف اپنے عقیدے کی بنیاد پر سود کو حرام سمجھتے ہوئے اسلامی بنکاروں سے معاملات کر رہے ہیں۔ ملک میں اسلامی بنک اور سودی بنکوں کی اسلامی برانچیں صرف ڈیپازٹس لینے اور محدود پیمانے پر فنانسنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں، جو ناکافی ہی نہیں بلکہ غیر معیاری بھی ہیں۔

جہاں تک اس کے کمرشل پہلو کا تعلق ہے تو مختلف مصنوعات تیار اور پیکنگ کرنے والے بھی دن رات اشتہارات کی مد میں اربوں روپے الیکٹرانک میڈیا کو دے کر اسے قیمت میں شامل کرکے عوام سے ہی وصول کرلیتے ہیں، حالانکہ اس کے بغیر بھی عوام ضروریات کی خریداری کر ہی لیتے ہیں۔ غیر سودی بنکوں کی برانچیں کبھی کبھار اپنے ڈیپازٹس بڑھانے کی خاطر منافع کی شرح کے اشتہارات وغیرہ دے دیتے ہیں۔ تاہم، غیرسودی بنکاری کے دوسرے فنانسنگ پروڈکٹس جو حقیقی اسلامی بنکاری کی روح ہیں، عوام کو اس کے بارے آگاہی نہیں ہے،بلکہ غیرسودی بنکوں کا اپنا عملہ بھی شاز ہی اس بارے مکمل آگاہی رکھتا ہوگا (الاماشاءاللہ)۔

اگر عوام کو یہ آگاہی ہو کہ ان کی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شرعی قواعد کے مطابق فنانسنگ ممکن ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی یہ ضروریات غیر سودی بنکوں سے حاصل کریں گے۔غیرسودی بنکاری میں صرف مرابحہ، مضاربہ اوراجارہ ہی نہیں مشارکہ، بیع سلم وغیرہ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع فنانسنگ بھی موجود ہیں، جن کو بروئے کار لا کر عصرحاضر کی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے غیرسودی بنکاری کو وسعت دی جا سکتی ہے۔

  • بیوروکریسی اور فیصلہ ساز ادارے: یہ ادارے مخصوص مفادات کے لیے راتوں رات بل تیار کرکے چند گھنٹوں میں پارلیمنٹ کو بلڈوز کرتے ہوئے پاس کرا لیتے ہیں۔ مگر جہاں معاملہ اسلامی اقدار کی پاس داری اور بے حیائی کی روک تھام کا ہو تو کمیٹیوں پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں۔سود کے امتناع کے بارے دسیوں کمیٹیاں اس کی زندہ مثال ہیں۔
  • غیرسودی سرمایہ کاری کے بارے کمرشل قوانین کی عدم موجودگی: غیرسودی فناسنگ کے لیے جو بھی سرمایہ مہیا کرتے ہیں وہ پبلک سیونگ اور اداروں ہی کی امانت ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بنکوں کو رقم کی واپسی میں تاخیر کی جاتی ہے ۔ایسے حالات میں معاملات عدالتوں میں جاتے ہیںاور فنانسنگ سے فائدہ اٹھانے والے مناسب کمرشل قوانین کی عدم موجوگی میں حیلے بہانے تراشتے ہیں ۔ان مشکلات سے بچتے ہوئے غیرسودی بنک عموماً ایسے پیچیدہ پراجیکٹس میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ یوں وہ حکومت اور بڑی کارپوریشنوں کے ساتھ صکوک کی مد میں سرمایہ کاری ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔برطانیہ نے صکوک بانڈ جاری کرنے سے پہلے اپنے ہاں اس بارے مالیاتی قوانین میں تبدیلی کے لیے کافی وقت لیا اور بنیادی تبدیلیاں کیں۔
  • جدید پروڈکٹس کی تیاری میں غیرسودی بنکوں کی عدم دلچسپی: اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے اور تجارت کو جائز قرار دیتا ہے ۔تجارت کے لیے اصول و ضوابط کے بارے مفصل فقہی احکام موجود ہیں۔ فقہا نے اس پر بہت کام کیا ہے۔شرعی اصول وضوابط کا پاس رکھتے ہوئےاور دور جدید کی معاشی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے پراڈکٹس (پیش کشیں) بنائے جا سکتے ہیں، جو کاروباری طبقے کی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کہ بڑے عالمی بنکوں نے غیرسودی بنکوں سے فنڈزکے حصول کی خاطر مرابحہ ،لیزنگ وغیر مشہور پراڈکٹس تیار کیے ۔بڑی بڑی لیگل فرم ان ہی میں کچھ ردو بدل کرکے غیرسودی بنکوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان بنکوں نے اپنی پیش کشوں کی تشکیل اور تشہیر کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ملائشیا،بحرین اور پاکستان کے مرکزی بنکوں نے اس ضمن میں بلاشبہہ کافی کام کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے مائیکروفنانس بنک قائم کرنے تک کی قانون سازی اور طریقۂ کار واضح کیا ہے۔

  • مالیاتی حرکت پذیری (liqudity Management) کا شعبہ: موجودہ بنکنگ کے کام کاج میں یہ شعبہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنکوں کے پاس فوری ضروریات کے لیے ہر وقت کافی سرمائے کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ غیرسودی بنکاری کو شروع ہوئے۴۰ سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس شعبے کے لیے کوئی مناسب پیش کش نہیں بن سکی۔ غیرسودی بنکوں کے پاس موجود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ عموماً ایسے ہی روایتی پروڈکٹس میں لگایا جاتا ہے جو کمرشل بنکوں سے مستعار لیے گئے ہیں، جن میں کچھ رَدو بدل کیا گیا ہے ۔شریعہ کے ماہرین نے ان کی محدود پیمانے پر استعمال کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہوئی ہے کہ یہ وقتی حل ہے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • عملے کی تربیت : الحمد للہ، پاکستان میں غیر سودی بنکاری جب سے شروع ہو ئی ہے اس مختصر عرصے میں مجموعی بنکنگ انڈسٹری میں اس کا حجم تیزی سے بڑھا ہے، اورمجموعی برانچوں کی تعداد ۳ہزار۸ سو سے اُوپر ہے ۔یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ بغیر کسی مناسب مارکیٹنگ کے بھی عوام میں اس کی کافی پذیرائی ہورہی ہے۔ لیکن غیرسودی بنکاری کےحقیقی فوائد سے تاحال عامۃ الناس کما حقہٗ مستفید نہیں ہو سکے۔ چونکہ بنک مالکان کا مطمح نظر صرف منافع کمانا ہی ہے اور بلاشبہہ اس سے تو کسی کو اختلاف بھی نہیں ہو سکتا کہ سرمایہ کار کو اس کی سرمایہ کاری کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے، لیکن ان کی کچھ سوشل ذمہ داریاں بھی ہیں جن میں ایسے اداروں کی سرپرستی بھی شامل ہونا چاہیے جو اس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں مددگار ہوں۔ہمارے ہاں عموماً یہ کلچر ناپید ہے۔

پاکستان میں جب پہلا کمرشل غیرسودی بنک قائم ہوا تو لا محالہ سٹاف موجود کمرشل بنکوں ہی سے لینا پڑا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی چلتی رہی ہے اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں مختلف تربیتی کورسز بھی کرائے جارہے ہیں، مگر ناکافی ہیں ۔ اس بات کی حدرجہ ضرورت ہے کہ ایسے بنکار تیار کیے جائیں، جو صرف بنکنگ ہی نہیں ’اسلامی بنکاری‘ کی اصطلاحات کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حلال و حرام کی تمیز جانتے ہوں۔اسلامی بنکاری کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر بنک میں آنے والے افراد کی صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے والے بنیں تو عوام کو اسلامی بنکاری کی طرف راغب کرنے میں ممد ومعاون بن کر اس کی ترقی میں حصہ دار اور اجر کے مستحق ہو جائیں گے۔

  • نئے بنکوں کےقیام میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی: اس وقت پاکستان میں پانچ غیرسودی بنک کام کر رہے ہیں۔اور ان میں چار بنک ایسے ہیں جو کلی یا جزوی طور پر بیرونی سرمائے سے قائم ہوئے ہیں۔ صرف ایم سی بی، ایسا اسلامک بنک ہے، جو پاکستانی سرمایہ کار (منشاء گروپ) نے قائم کیا ہے ۔حالانکہ پاکستان کے بہت سارے سرمایہ کار دلچسپی لیں تو اور بھی نئے بنک قائم ہوسکتے ہیں، مگر مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ اگر اس طرف توجہ دی جائےتواسلامی بنکاری میں اضافہ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

یہی حال اسلامک انشورنس (تکافل) کا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامک انشورنس کے قوانین بنے، لیکن ابھی تک صرف دو تکافل کمپنیاں ہی وجود میں آسکیں اور ان میں بھی سبقت بیرونی سرمایہ کاروں نے لی ہے، جو قطر کے کچھ مالیاتی اداروں کے تعاون سے  ( پاک قطر تکافل گروپ ) قطر میں مقیم چند پاکستانیوں اور ایک قطری تاجر کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے قائم ہوا۔البتہ روایتی انشورنس کمپنیوں نے دھڑا دھڑ بنکوں کی طرح تکافل ونڈو آپریشن شروع کر دیئے ہیں کہ منافع سمیٹ سکیں۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے سبقت لی اور اسلامی بنک قائم کردیا، جس میں اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کی بھی شرکت داری ہےاور یہ ایک مثالی اسلامک بنک بن چکا ہے، اگرچہ موجودہ حکومت نے اسے برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

 لائحہ عمل

پاکستان کے تمام ادارے آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملک میں اسلام شعائر کےاجراء میں مدد کریں۔ سود ایک لعنت ہے اور قرآن میں اسے اللہ اور رسول ؐکے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔کئی غیرمسلم ممالک میں بھی غیرسودی بنک قائم ہو رہے ہیں ۔لیکن اس مملکت خداداد میں سود کے خاتمے کے لیے کئی عشروں سے عدالتوں میں جنگ لڑی گئی ہے۔

ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے اب تک کے اقدامات ناکافی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ عدالت میں بھی اپنا مقدمہ مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت اگر عمل درآمد نہ کرنا چاہے تو ہزار قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول جاری رکھے گی۔

عوام میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک فوری کام جس کی ضرورت ہے وہ ہمارے قومی نصاب اقتصادی نظام کے بارے مضامین شامل کروانے کی مہم ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کے لیے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کی کلاسوں میں اسباق شامل کیے جائیں۔ یہی نوجوان کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔اگر ان کے ذہن اسلامی اقتصادی نظام کے بارے واضح ہوں گے تو آج جو مخالفت بیوروکریسی اور دوسرے طبقات کی طرف سے کی جا رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

اس کے ساتھ اقتصادی ماہرین کا ایک پینل بنا کرحکومت اور اس کے زیر سایہ مالیاتی اداروں اور بنکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی جائیں، انھیں سود ی معیشت کی تباہ کاریوں سے خبردار کرے اور ساتھ ہی ان کی مشاورت سے کمرشل لا میں اسلامی بنکوں کی ضروریات کے مطابق تبدیلی کے لیے قانون سازی تجویز کرے،تاکہ وہ اسلامک فناسنگ کے دوسرے پراڈکٹس میں بھی سرمایہ کاری کرسکیں، جو کمرشل قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے فی الحال نہیں کر رہے۔

  جب ہم ایک بار یہ قطعی فیصلہ کر لیں گے تو سودی معیشت سے چھٹکارے کا سفر شروع ہوجائے گا اور اس کے اثرات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ہم اس وقت جو بھی قرضہ خواہ پاکستانی بنکوں اور عوام سے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، وہ زیادہ تر نقد ہی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال بھی حکومت /ادارے اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں، جب کہ اسلامی طریقے سے حاصل کی گئی فناسنگ/قرضے صرف کسی پراجیکٹ ہی کی خاطر لیے جائیں گے۔اس طرح غیرترقیاتی مقاصد کے لیے قرضے کے حصول کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یہی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔

اسلامی ریاست اور اس کے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بیت ا لمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امت مسلمہ جب اپنے اجتماعی نظام کو برقرار نہ رکھ سکی اور حہاں بہت سے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے وہاں مغربی سرمایہ داری نظام وجودمیںآیا اور مالی معاملات ریاست کے بجاے افراد کے ہاتھوںطے ہونے لگے جو آخرکار رائج الوقت بنکاری کے نظام کا حصہ بن گئے اور ریاست کا کردار مالی معاملات میں محدود سے محدود تر ہوتا گیا۔ اسلام کے معاشی نظام کا تصور مسلمانوں کے دلوں سے اوجھل ہوگیا، اور وہ مجبوراً مغربی بنکاری نظام کے پابند بن کر رہ گئے۔ تاہم ۱۹۷۵ء میں موجودہ اسلامی بنکاری کی ابتدا دبئی سے ہوئی اور ۳۵ سال کے مختصر سے عرصے میں بیش تر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں اب تک پانچ اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں۔ امریکا جہاں پرانے بنک راتوں رات دیوالیہ ہو گئے ہیں، وہاں پر اسلامک بنک نہ صرف اس بحران کا شکارنہیں ہوئے بلکہ بدستور اچھی حالت میں کام کر رہے ہیں۔

بنکوں کی طرح انشورنس کا روایتی کاروبار بھی چونکہ سود پر مبنی نظام کا ایک حصہ ر ہا ہے اور مسلمان تاجروں نے اس طرف توجہ نہیں دی، تاہم اسلامی بنکاری کے نظام کے پھلنے پھولنے سے انشورنس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ آج بیش تر مسلم ممالک میں یہ ادارے تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔

بین ا لاقوامی سطح پر پہلی تکافل کمپنی ۱۹۷۹ء میں سوڈان میں قائم ہوئی اور اس کے بعد ملا یشیا نے ۱۹۸۷ میں تکافل کے قوانین کا اجرا کیا ۔ پاکستان کے حکمرانوں کو عدالت عا لیہ کے فیصلے باوجود سود پر مبنی نظام کو بدلنے کی توفیق تو نہ ہوسکی، البتہ اسلامی بنکوں کے اجر کی ابتدا سے اب تک چھے اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں جن کی سیکڑوں شاخیں پورے ملک میںکام کر رہی ہیں۔ اسلامی بنکوں کے لیے اسلامی انشورنس کی ضرورت اور عدالت کے فیصلے کے مطابق بالآخر ۲۰۰۵ء میں تکافل (اسلامی انشورنس) رولزکا اجرا ہوا۔ اس وقت سے اب تک پاک کویت تکافل، تکافل پاکستان لمیٹڈ،پاک قطرفیملی تکافل، پاک قطر جنرل تکافل اور فرسٹ داؤد تکافل وغیرہ جیسے ادارے قائم ہوچکے ہیں۔ ذیل میں تکافل کمپنیوں کے طریق کار کے متعلق مختصر معلومات دی جارہی ہیں:

مال و متاع کا حصول اور سامان زیست جہاں انسانی فطرت کا عین تقاضا ہے وہاں ان  اثاثہ جات کے تحفظ اور خود انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نبردآزما ہونا بھی ایک انسانی ضرورت رہی ہے۔ آئے دن حادثات کے نتیجے میں موت یا بحری مال بردار جہازوں کی غرقابی، مکان و کارخانوں کو آگ کا لگنا، زندگی کی گاڑی کو مکمل طور پر روک تو نہیں سکتا، تاہم اس کی رفتار میں کمی  اور سفر میں دشواریوں کا باعث ضرور بنتا ہے ۔ ان خطرات کے ازالے کے لیے مختلف ادوارمیں مختلف طور طریقے رائج ہوئے، جس میں ایک طریقہ عام روایتی انشورنس کا ہے۔ مراد یہ ہے کہ  جس میں کچھ رقم (پریمیئم) کے بدلے ان ممکنہ خطرات کو انشورنس کمپنیوں کو منتقل کی جاتی ہے۔  روایتی انشورنس نے ان ’ممکنہ خطرات‘ (risk) کو کم یا ختم تو کرلیا لیکن بنیادی طور پر اس طریقے میں غیرشرعی طریقِ کار اور خرابیوں، یعنی سود، قمار اور غرر (دھوکا)کی بنا پرفقہاے کرام نے ہر دور میں اس طریقۂ کار کی مخالفت کی اور اس کا حصہ بننے سے منع کیا۔

تکافل

’تکافل‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے، اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں باہم ایک دوسرے کا ضامن بننایا باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا مراد ہے۔

’تکافل‘ کی بنیاد بھائی چارے، امدادِ باہمی اور ’تبرع‘ کے نظریے پر ہے، جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ دورِ جدید میں تکافل کو روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر بطور اسلامک انشورنس کے استعمال کیا جارہا ہے۔اس نظام میں تمام شرکا باہم رسک شیئر کرتے ہیں اور شرکا باہمی امداد و بھائی چارے کے اس طریقے سے مقررہ اصول و ضوابط کے تحت ممکنہ مالی اثرات سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کا نظام ایک عقدِ تبرُع ہے کہ جس میں شرکا آپس میں ان خطرات کو تقسیم کرتے ہیں ، تکافل نظام کے عقد تبرع کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا سود کا عنصر موجود نہیں ۔

ہمارے معاشرے میں بھی تکافل کے مفہوم کی بہت سی صورتیں رائج ہیں ، مثلاً مشترکہ خاندانی نظام یا جیسا کہ کوآپریٹو سوسائیٹیز ہیں۔ ان طریقوں سے بھی ارکان / ممبر رسک او ر مالی خطرات کو آپس میںتقسیم کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے اصول کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو مالی اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی طریقہ روایتی انشورنس کے مطابق نظامِ تکا فل میں اختیار کیا گیا ہے۔

قرآن و سنت میں تکافل کا تصور

تکافل کا تصور کوئی نیا ایجاد کردہ تصور نہیں ہے ،بلکہ واضح طور پر قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں یہ تصور موجود ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور یہی باہمی امداد ہی تکافل کی بنیاد ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری ہے:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔

اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹: ۱۰) مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

اس تعاون اور باہمی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں ، اور مصیبت میں کام آئیں جیسا کہ بھائی آپس میں کرتے ہیں ۔ انھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے دنیا میں بھائی چارے ، اخوت، ہمدردی اور باہمی تعاون کی خوش گوار فضا قائم ہو سکتی ہے اور یہی نظریہ تکافل کی بنیا د ہے۔یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ تکافل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔ کوئی بھی فرد جو اس کا ممبر بنے گا وہ   اس سے استفادہ کر سکے گا۔ ملایشیا میں مسلمان ہی نہیںبلکہ غیر مسلم بھی اسلامی بنکوں اور تکافل کمپنیوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ باہمی تعاون و تناصر پر مبنی ہے ، چنانچہ اس میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ’’ہر گروہ کو عدل ا نصاف کے ساتھ اپنی جماعت کا فدیہ دینا ہوگا‘‘ یعنی جس قبیلے کا جو قیدی ہوگا، اس قیدی کے چھڑانے کا فدیہ اسی قبیلے کے ذمے ہوگا۔

یہ اسلام میں باہمی امداد و بھائی چارے کی اوّلین مثال ہے۔ اس کے بعد بھی اس طرح کے معاہدے مختلف خلفاے اسلام اپنے دورِ حکومت میں کرتے رہے، اگرچہ وہ تکافل کے نام سے نہیں تھے لیکن تکافل کی رو ح ان میں موجود تھی۔

بعض لوگوں کے نزدیک انشورنس یا تکافل اسلام کے تصورِ توکل کے خلاف ہے ۔ یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے ا ور درست نہیں۔ توکل کے معنی ترکِ اسباب کے نہیں ، بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اس کے نتائج کو اللہ کے حوالے کرنے کا نام توکل ہے، لہٰذا اسباب کو اختیا ر کرنا، اور اس کے نتائج و ثمرات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی توکل ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بدوی نے اُونٹ کو باندھے بغیر چھوڑا اور اس کو توکل سمجھا ، چنانچہ آنحضرتؐ نے اس کو تنبیہ فرمائی:

ایک صحابی نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پرتوکل کروـ۔(ترمذی ۲۷۷۱)

اسی طرح آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ نے اسباب اختیار فرمائے ہیں ، بیماری میں علاج اختیار فرمایا ہے جیساکہ ایک روایت میں آتا ہے:

حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ!( جب ہم بیمار ہوں تو ) کیا ہم علاج کروائیں؟ جناب رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ کے بندو ، ہاں ، علاج کروائو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے علاوہ تمام بیماریوں کا علاج پیدا کیا ہے۔ (مشکوۃ ۲:۳۸۸، رواہ احمد و ترمذی و ابوداؤد)

اپنی اولاد کے لیے ورثے کے طور پر کچھ مال وغیرہ چھوڑنا، تاکہ وہ بعد میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ، اور ذلیل نہ ہوں، اس کو شریعت نے افضل قرار دیا ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں آتاہے:

آپ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑیں ، یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ آپ انھیں فقر و فاقے کی حالت میں چھوڑیں اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں ۔(بخاری ۱/۳۸۳)

قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ اس نظام کے جائز ہونے بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، بشرطیکہ یہ اپنے صحیح اصولوں کے مطابق ہو ، اور اخلاص کے ساتھ ہو۔

ممکنہ مالی خطرات کی پیش بندی

ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا (یعنی رسک مینجمنٹ) اورمالی اثرات کو ختم یا کم کرنے کا خیال کوئی نیا تصور نہیں ہے، خود شریعت نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ اگر جائز طریقۂ کار کے مطابق ایسی تدابیر اختیار کی جائیں تو یہ اسلام کے خلاف نہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی رسک مینجمنٹ کی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کی سب سے خوب صورت مثال وہ ہے جو سورئہ یوسف میں قحط سالی سے نبٹنے کے لیے سیدنا یوسف ؑ کے اٹھائے گئے اقدامات کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل مثالیں بھی زیر نظر رہیں:

  • ضمان خطرالطریق:ایک شخص دوسرے شخص کو اس بات کی ضمانت دے کہ فلاں راستہ محفوظ ہے، اس راستے کو اختیار کرو اور اگر کوئی مالی نقصان ہوا تو میں ذمہ دار ہوں ۔ گویا اس طرح ’ممکنہ مالی خطرہ‘ ٹل گیا بشرطیکہ بغیر کسی معاوضے کے ہو۔
  • ضمان الدرک:کوئی شخص ایک چیز خریدتے ہوئے ڈر رہا ہے، تو دوسرا فرد اطمینان دلائے کہ خرید لو اور اگر کوئی مسئلہ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں ۔ البتہ نقصان کی صورت میں خریدار کو   اس بات کا اختیار ہے کہ یا تو وہ فروخت کنندہ سے اصل قیمت وصول کرلے یا پھر ضامن سے وصول کرے۔
  • عاقلہ:اگر کوئی شخص قتل کردے ، جس کے نتیجے میں دیت واجب ہوجائے ،تو بعض صورتوں میں دیت قاتل ادا نہیں کرتا، بلکہ اس کی برادری پر واجب ہوتی ہے، اس کو ’عاقلہ‘ کہتے ہیں۔اس طرح نقصان پوری برادری پر تقسیم ہو جاتا ہے۔
  • عقد موالات:کوئی شخص کسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرے اور اس کے ساتھ یا کسی تیسرے شخص کے ساتھ یہ عقد کرے کہ میرے مرنے کے بعد میری میراث تمھاری ہے اور اگر میں نے کوئی جرم کیا تو اس کا ضمان تم پر لازم ہوگا۔

ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر (رسک مینجمنٹ )کی یہ مثالیںمحض امدادِ باہمی اور تعاون پر دلالت کرتی ہیںاسی لیے شرعاً جائز ہیں۔

موجودہ دور میں خصوصاً ’ممکنہ خطرات کی پیش بندی کرنا‘۔ ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔ اسی بنا پر فقہاے امت نے غور و خوض کے بعدتکافل کے اس طریق کار کو جو غیر شرعی طریقوں اور خرابیوں سے پاک ہے، روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

تکافل کا طریقۂ کار

تکافل کے نظام میں کمپنی کی حیثیت وکیل یا مینیجر کی ہوتی ہے۔ ’تکافل نظام‘ میںسب سے پہلے کمپنی کے شیئر ہولڈر کچھ رقم باقاعدہ وقف کرتے ہیں۔ اس رقم سے ایک وقف پول یا فنڈ (Participant's Takaful Fund )قائم کیا جاتا ہے۔جہاںان شیئر ہولڈروں کی حیثیت وقف کنندہ کی ہوتی ہے۔ وقف فنڈ سے ممبران کا تعلق محض ’عقدِ تبرع‘ کا ہوتا ہے۔ وقف فنڈ کی ملکیت وقف کنندہ سے وقف کی طرف منتقل ہوجاتی ہے، البتہ اس وقف کے منافع سے وہ استفادہ کرتے ہیں ۔اس وقف فنڈ کو PTF کا نام دیا گیا ہے۔

فقہ کا مشہور اصول ہے کہ شرط الواقف کنص الشارع ، یعنی وقف کرنے والے کی شرط صاحب ِ شریعت کے فرمان کی مانند ہے ۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے واقف ، وقف فنڈ میں کچھ شرائط عائد کرتے ہیں ۔ جس میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس وقف فنڈ کو عطیہ دے گا ، اس وقف فنڈ سے وقف شرائط کے مطابق وہ فوائد کا مستحق ہوگا۔

وقف کے اندر چوں کہ اس بات کی گنجایش ہے کہ وہ مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو ، مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کو اس شرط کے ساتھ وقف کرے کہ اس کا پھل صرف فلاں شخص کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے، وغیرہ تو یہ شرائط لگا نا نہ صرف جائز بلکہ مندرجہ بالا اصول کی روشنی میں ان کی پابندی بھی لازمی ہے۔اسی طرح تکافل سسٹم میں وقف کرنے والا، وقف کے مصالح کے پیش نظر وقف کے دائرے کو مخصوص افرا د تک محدود اور وقف فنڈ سے استفادہ کرنے کی مخصوص شرائط مقرر کرسکتا ہے۔

لوگ اس فنڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اس فنڈ کو بطور تبرع ایک خاص مقدار میں حسبِ شرائط وقف نامہ عطیات دیتے ہیں ،اور جن شرکا کو بھی کوئی نقصان پہنچے تو وہ وقف فنڈ سے فوائد کے اصول کے مستحق ہوتے ہیں ۔جو عطیات اس فنڈ میں آتے ہیں،وہ محض تبرعات ہوتے ہیں ، بذاتِ خود وقف نہیں ہوتے بلکہ مملوکِ وقف ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ کسی بھی وقف میں دیا گیا چندہ وقف نہیں ہوتا ، بلکہ مملوکِ وقف ہوتا ہے۔یہ عطیات چوں کہ شرکا کی ملکیت سے خارج ہوتے ہیں ، اسی لیے ان پر نہ زکوٰ ۃ واجب ہوتی ہے اور نہ ان میں میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں   اور نہ اس کی بنیاد پر وہ سرپلس کے مستحق ہوتے ہیں (کمپنی مالکان اس رقم کو اپنے تصرف میں نہیں لاسکتے)۔ یہ تبرعات مکمل طور پروقف پول کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں ، اور وقف پول قواعد و ضوابط کے مطابق ان رقوم کو استعمال کرتا ہے۔پھر جب ان کو نقصان پہنچتا ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں وہ اس وقف پول سے فوائد کے حصول کے مستحق ٹھیرتے ہیں ۔

مذکورہ وقف فنڈ کو شرعی طریقے کے مطابق کاروبار میں لگایا جاتا ہے ، اور اس سے حاصل شدہ نفع کا مالک یہی وقف فنڈ ہوتا ہے۔اس فنڈ سے شرکا کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، یہ فوائد ان کے وقف فنڈ کو دیے گئے تبرعات کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ یہ فوائد عطاے مستقل ہوتے ہیں ، یعنی اس لحاظ سے کہ عطیہ دینے والے بھی موقوفِ علیم میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ واقف میں وقف فنڈ سے استفادے کا حق اس کو دیا ہے جو اس کی رکنیت حاصل کرے۔ اس لحاظ سے ہر ممبر موقوفِ علیہ ہوگیا ( موقوفِ علیہ: اس کو کہتے ہیں جس پروقف کیا گیا ہو)۔

 تکافل کی اقسام

تکافل کی دو اقسام ہیں : ۱- جنرل تکافل  ۲- فیملی تکافل

  • عمومی (جنرل) تکافل: عمومی تکافل میں اثاثہ جات ، یعنی جہاز ، موٹر اور مکان وغیرہ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تکافل کی رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ اگر اس اثاثے کو جس کے لیے تکافل کی رکنیت حاصل کی گئی ہو کوئی حادثہ لاحق ہوجائے تو اس نقصان کی تلافی ’وقف فنڈ‘  (پی ٹی ایف) سے کی جاتی ہے۔کمپنی اس وقف فنڈ کو منظم کرتی ہے اور وکالہ فیس وصول کرتی ہے۔ نیز اس فنڈ میں موجود رقم کو سرمایہ کاری کی غرض سے شرعی کا روبار میں لگاتی ہے ، جس کی مختلف  شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے ، اور کمپنی مضارب ہوتی ہے،  جب کہ نفع کا خاص تناسب طے ہوتاہے۔ اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے، اور باقی نفع و قف فنڈ میںجاتا ہے ،جو فنڈ کی اپنی ملکیت ہوتا ہے۔
  • فیملی تکافل یا لائف تکافل: تکافل کی اس قسم میں انسانی زندگی کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تکافل رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں شرکا کو تکافل تحفظ کے ساتھ ساتھ حلال سرمایہ کاری کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ شریک تکافل جب کسی تکافل کمپنی میں رکنیت حاصل کر لیتا ہے تو ایک مخصوص مدت کے لیے ایک خاص رقم (پریمیم) ما ہانہ یا سالانہ بنیاد پر ادا کرتا ہے جس میں سے کچھ رقم وقف فنڈ میں جمع کی جاتی ہے، اس میں وقف فنڈکے علاوہ ایک اور فنڈ ہوتا ہے جس کا نام پی آئی اے (Participant's Investment Account) ہے۔ یہ شریک تکافل کا سرمایہ کاری فنڈ ہوتا ہے، جب کہ جنرل تکافل میں شریک تکافل کا پی آئی اے اکائونٹ نہیں ہوتا۔

اس کا طریقۂ کار یہ ہے:

  • شریک تکافل کی جانب سے دی گئی رقم پہلے اس کے اکائونٹ میں آتی ہے ، جہاں اس کی سرمایہ کاری اسلا مک میوچل فنڈزکی طرز پرکی جاتی ہے اور اس رقم سے شرکا کے لیے فنڈ میں یونٹس خرید لیے جاتے ہیں۔
  •  وہاں سے کچھ حصہ یونٹس کی منسوخی کے ذریعے وقف فنڈ پی ٹی ایف کے لیے نکال لیا جاتا ہے۔
  • پی آئی اے میں موجودر قم شریک کی ملکیت ہوتی ہے جس پر میراث اورزکوٰۃ کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
  • وقف پول میں آنے والی رقم محض تبرع کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور تبرع کی بنیاد پر یہ رقم شریک تکافل کی عمر ، صحت ،پیشہ، اس کے طورطر یقے اورر کنیت پلان کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے۔
  • پی آئی اے میں موجود رقم سے اخراجات نکالنے کے بعدکمپنی بطور وکیل اس رقم کی شریعہ بورڈ کی نگرانی میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔
  • کمپنی سرمایہ کاری کے لیے اپنی وکالہ فیس و صول کرتی ہے۔جس کا نفع سے تعلق نہیں ہوتا، اور یہ وکالتہ الاستثمار کہلاتا ہے۔
  • سرمایہ کاری کے نتیجے میںحاصل شد ہ منا فع شریک تکافل کو فراہم کیا جاتا ہے۔
  • اگر شریک تکافل کو کبھی کوئی بھی حادثہ پیش آجائے تو وقف فنڈ سے اس کی تلافی کی جاتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ

شریک تکافل کی جانب سے ادا کر دہ زر تعاون دو مدات میں تقسیم ہوتا ہے۔ رقم کا کچھ حصہ بطور تبرع وقف فنڈمیں چلا جاتا ہے اور باقی ماندہ حصہ سر ما یہ کاری میں لگا یا جاتا ہے:

  • تکا فل تحفظ کے سلسلے میں تما م کلیمزکی ادایگی وقف پول سے کی جاتی ہے۔
  • اسی طرح سال کے آخر میںکلیمز کی ادایگی اور اخراجات منہا کرنے کے بعد شریعہ بورڈ سے منظوری لے کر سرپلس (بچ جانے والی رقم) کو شرکا کے درمیان تقسیم کیا جاتاہے۔
  • ہر سال کے اختتام پر تمام ادایگیوںکے بعد بچ جانے والی رقم کو ’سر پلس‘ کہتے ہیں۔
  •  نقصان کی صورت میں تکا فل آ پریٹر اپنی وکالہ فیس میں کچھ اضافہ کیے بغیر وقف فنڈ کو قرض حسنہ فراہم کرتا ہے۔

وقف فنڈ کی آمدنی

۱- شرکاے تکافل سے وصول شدہ زر تعاون ۲- ری تکافل آپریٹر سے حاصل شدہ کلیمز ۳-فنڈز کی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع ۴- پول کے فنڈ میں خسارے (Deficit) کی صورت میں وکیل سے حاصل شدہ قرضِ حسنہ ۵- اس فنڈ میں دیا جانے والا کوئی بھی عطیہ۔

وقف کے اخراجات

۱- شرکاے تکافل کے کلیمز کی ادایگی ۲- ری تکافل کے اخراجات ۳- تکافل آپریٹر کی فیس ۴-فنڈز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں تکافل آپریٹرز کا نفع میں حصہ۵- سرپلس کا وہ حصہ جو ممبران میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۶- قرضِ حسنہ کی واپسی ۷- عطیات / خیرات کی مد میں ادا کی گئی رقم۔

تکافل نظام میں کمپنی کی حیثیت

تکافل نظام میں کمپنی کی اصل حیثیت وکیل یا منیجر کی ہوتی ہے۔ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال کے لیے ’وکالہ فیس‘ وصول کرتی ہے۔ یہ فیس وقف فنڈ کے لیے دیے گئے عطیات سے وصول کی جاتی ہے، نیز کمپنی وقف فنڈ میں موجود رقم کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری میں لگاتی ہے۔ اس حیثیت سے کمپنی چونکہ مضا رب ہوتی ہے اور فنڈ رب المال ہوتا ہے، لہٰذا کمپنی مضاربہ کے نفع میں سے متعین حصہ وصول کرتی ہے، نیز اس فنڈ میں موجود رقم کی انویسٹمنٹ کے لیے اس کو شرعی کاروبار میں لگاتی ہے ، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے ، اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، جب کہ نفع کا خاص تناسب طے ہوتاہے۔ اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے، اور باقی نفع و قف فنڈ میںجاتا ہے ،جو فنڈ کی اپنی ملکیت میں جاتا ہے۔

تکافل اور روایتی انشورنس میں فرق

تکافل

روایتی انشورنس

  • تکافل محض عقدِ تبرع ہے
  • مروجہ انشورنس عقدِ معاوضہ ہے اور شرعاً دونوں کے احکام بالکل الگ الگ ہیں۔
  • تکافل میں سرپلس میں سے ممبرز کو بھی حصہ مل سکتا ہے۔
  • انشورنس میں سرپلس کمپنی کا ہوتا ہے۔
  • تکافل میں دی جانے والی رقم (وقف فنڈ) کی ملکیت میں جاتی ہے ، کمپنی اس کی مالک نہیں ہوتی۔
  • روایتی انشورنس میں اس رقم کی مالک کمپنی ہوتی ہے۔
  • تکافل میں جمع شدہ رقوم پر حاصل شدہ نفع فنڈ میں جاتا ہے۔ کمپنی اس کی مالک نہیں ہوتی۔
  • انشورنس میں اس نفع کی مالک بھی کمپنی ہوتی ہے۔
  • تکافل کا اصل مقصد وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ہے۔
  • انشورنس کا اصل مقصد پریمئیم کے بدلے رسک خریدنا ہے ۔
  • تکافل میں کمپنی کی حیثیت وکیل کی ہے ۔
  • انشورنس میں کمپنی اصل اور مالک ہے۔
  • تکافل نظام میں باقاعدہ شرعی بورڈ ہوتا ہے۔شریعہ بورڈ کی نگرانی میں فنڈ کو شریعت  کے مطابق جائز کاروبار میں لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ تکافل رولز ۲۰۰۵ء کی رُو سے ہرکمپنی کا
  • انشورنس میں اس طرح کی کسی بھی قسم کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی اور نہ اس طرح کی کوئی پابندی ہی ہے۔ جہاں فائدہ نظر آتا ہے وہاں سرمایہ کاری ہوتی ہے، اس میں شریعہ بورڈ ضروری ہے، جس میں کم سے کم تین ممبر ہوں۔

یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کاروبار شرعاً جائز اور حلال بھی ہے یا نہیں۔

لہٰذا یہ واضح ہوا کہ رویتی انشورنس عقد معاوضہ ہونے کی وجہ سے سود ، قمار اور غرر سے مرکب ہے، جب کہ تکافل کی بنیاد محض تبرع ہے۔ جس میں ربا کا تصور ہی نہیں اور غرر اگر ہے تو عقد تبرع میں مؤثر نہیں۔ (مضمون نگار قطر انٹرنیشنل اسلامک بنک دوحہ سے وابستہ ہیں۔)