اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کا آئین اسلامی نظام کے احیاء کے لیے تمام اداروں کو پابند بناتا ہے، اسی ملک خداداد میں سودی معیشت (اللہ اور رسولؐ سے جنگ) سے چھٹکارے کے لیے ۲۰ سال تک عدالتی جنگ اور سپریم کورٹ کے فیڈرل شریعت کورٹ کےحالیہ فیصلے کے بعد یہ جدوجہد اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔جس میں عدالتی، آئینی، انتظامی اور مفاداتی رکاوٹیں اپنی جگہ قائم ہیں، جنھیں عبور کرنے کے لیے مشترکہ اور سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر خزانہ کا محتاط تبصرہ اور وزیر اعظم کا یہ بیان بھی حوصلہ افزا ہے کہ ’’سود کے بارے قرآنی احکام سے حکم عدولی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘۔ تاہم، دوسری طرف ہمارے سامنے یہ بھی ایک بڑی واضح حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ اس قسم کے بیانات، تضادات اور خوش کن وعدوںسے بھری پڑی ہے، جو ہرسال ۲۳مارچ اور ۱۴ ؍اگست کو اخباروں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت میں قانونی موشگافیوں اور حیلوں میں اُلجھنے کے بجائے، راست اسلامی فکرورہنمائی کے مطابق، حکومت اور متعلقہ ادارے اس غلطی کو نہیں دُہرائیں گے، جو ۹۰ کے عشرے میں کی گئی اور جس کا خمیازہ ہم مالی اور معاشی مشکلات کی صورت میں ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ءکے فیصلے کے کمزور پہلوئوں کے علی الرغم، اور نظر آتی ایک نئی عدالتی جنگ کے باوجود فی الفور چند بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہو گی ۔اوّلین قدم قرضوں کے حجم کو کم کرنا ہوگا، تاکہ واجب الادا قرض /سود میں بتدریج کمی لائی جا سکے اور ایک خاص مدت کے اندر ہم سابقہ قرضوں کے جن معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سےچھٹکارے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔
ان قرضوں کوکس طرح اسلامی بنیاد پر حاصل کیے گئے قرضوں میں منتقل کیا جائے؟ جیسے بڑے سوال کا جواب دینے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی سر براہی میں غیرسودی بنکوں، وزارتِ خزانہ اور دوسرے معاشی ماہرین پر مشتمل کمیشن ایک لائحہ عمل بنا سکتا ہے، جس پر عمل کر کے ملکی قرضوں پر سود کے خاتمے کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے، ان کے لیے مختلف لائحہ عمل اختیار کرنے ہوں گے۔حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیندہ کے لیے قرضہ جات صرف کار آمد منصوبوں کے لیے ہی لیے جائیں۔ ڈیم بنائیں اور ریل کی پٹڑیاں یا موٹرویز تعمیر کریں۔بیرونی سرمایہ کار اداروں سے شراکت کی بنیاد پر اور بعض معاملات میں ورکنگ کیپٹل اور میٹریل فراہمی کے لیے اسلامی بنیادوں پر سرمایے کا حصول بالکل ممکن ہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
۲۰۰۶ء میں قطر نے ایشین گیمز منعقد کراتے وقت انفراسٹرکچرکے لیے اسی بنیاد پر سرمایہ حاصل کیا تھا۔ اب بھی حکومت قطر اپنی پیٹرولیم اور گیس کی صنعت کو وسعت دینے کے لیے غیرسودی بنیاد پر بین الاقوامی اداروں سے سرمایہ حاصل کر رہی ہے۔ کئی دوسرے ممالک میں بھی صکوک کے ذریعے یہ سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے۔ خود پاکستان کی حکومت اور کارپوریٹس نے صکوک جاری کر رکھے ہیں۔البتہ سابقہ قرضوںکے لیے دوجہتوں پر کام کیا سکتا ہے: اوّل یہ کہ ری شیڈولنگ کے تحت ان قرضہ جات کو اسلامک پروڈکٹس میں منتقل کرنا اور پھر جہاں بالکل ناممکن ہو، وہاں شریعۃ سےرہنمائی اور مہلت طلب کرنا۔
بنک معاشی نظام کا ایک جزو ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نا ممکن ہے۔ پاکستان میں بنکوں کو اسلامی بنکاری میں ڈھالنے یا ان سے سود کا خاتمہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔کمرشل بنک آیندہ کے لیے فکسڈ شرح منافع کے بجائے اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز کو نفع و نقصان کی بنیاد پر منافع دیں۔اسی لیے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے۔ رہا معاملہ ان کے سابقہ دیئے گئے قرضوں کا تو یہ کام سال بھر میں ممکن ہے۔ ان تمام بنکوں کی اسلامک برانچیں موجود ہیں تو باقی بنک کیوں اسلامک بنیاد پر کام نہیں کر سکتے؟
ملک میں اقتصادی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کے لیے بلاشبہہ وقت درکار ہے۔ سٹیٹ بنک اور دوسرے متعلقہ اداروں نے عدالت کے بار بار اس سوال کے جواب میں وقت دینے سے پہلو تہی برتی۔ تاہم، سابق سیکرٹری خزانہ جناب ڈاکٹر وقارمسعود نے علمی بنیادوں پر اس سلسلے میں عدالت کی معاونت کی۔
حالیہ انتہائی پیچیدہ معاشی مشکلات میں حکومت کو بجٹ بنانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہے، اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات کرنے کی جلدی بھی ہے، تاکہ دوسرے ذرائع سے قرضے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو۔
یہ فیصلہ اربابِ اختیار کے لیے ایک عظیم چیلنج ہے۔بلاشبہہ فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ دار حکومت ہی ہے، لیکن اس کے لیے اسلامی اسکالرز،معیشت دان، علما، سٹیٹ بنک ،ایس ای سی پی بنک، اوردوسرے اداروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ صرف عدالتی فیصلوں سے معیشت سے سود کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف ایک اصولی بات کہہ سکتے ہیں۔ جب تک اس راہ میں تمام حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے بنک اور دوسرے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس راہ میں حائل چند رکاوٹوں کا ذکر معاملات پر گہری سوچ و فکر کی طرف یہاں دعوت دی جارہی ہے:
بلحاظ عقیدہ سود کی حرمت کے بارے قرآن وسنت کے احکام واضح ہیں ۔مساجد میں کبھی کبھار خطبوں میں اس کا ذکرضرور کر دیا جاتا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس سے آگے بڑھ کرسود کی حرمت اور موجودہ دورمیں اس کے ہماری روزمرہ زند گی میں عمل دخل اور تباہ کاریوں سے واقف بھی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے نہ عوامی سطح پر آگاہی کا کوئی پروگرام موجود ہے اور نہ کسی کو اس کی فکر لاحق۔اس وقت عوام، غیرسودی بنکوں سے جو معاملات کر رہے ہیں، اس میں بیش تر افراد صرف اپنے عقیدے کی بنیاد پر سود کو حرام سمجھتے ہوئے اسلامی بنکاروں سے معاملات کر رہے ہیں۔ ملک میں اسلامی بنک اور سودی بنکوں کی اسلامی برانچیں صرف ڈیپازٹس لینے اور محدود پیمانے پر فنانسنگ کی سہولت مہیا کر رہی ہیں، جو ناکافی ہی نہیں بلکہ غیر معیاری بھی ہیں۔
جہاں تک اس کے کمرشل پہلو کا تعلق ہے تو مختلف مصنوعات تیار اور پیکنگ کرنے والے بھی دن رات اشتہارات کی مد میں اربوں روپے الیکٹرانک میڈیا کو دے کر اسے قیمت میں شامل کرکے عوام سے ہی وصول کرلیتے ہیں، حالانکہ اس کے بغیر بھی عوام ضروریات کی خریداری کر ہی لیتے ہیں۔ غیر سودی بنکوں کی برانچیں کبھی کبھار اپنے ڈیپازٹس بڑھانے کی خاطر منافع کی شرح کے اشتہارات وغیرہ دے دیتے ہیں۔ تاہم، غیرسودی بنکاری کے دوسرے فنانسنگ پروڈکٹس جو حقیقی اسلامی بنکاری کی روح ہیں، عوام کو اس کے بارے آگاہی نہیں ہے،بلکہ غیرسودی بنکوں کا اپنا عملہ بھی شاز ہی اس بارے مکمل آگاہی رکھتا ہوگا (الاماشاءاللہ)۔
اگر عوام کو یہ آگاہی ہو کہ ان کی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شرعی قواعد کے مطابق فنانسنگ ممکن ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی یہ ضروریات غیر سودی بنکوں سے حاصل کریں گے۔غیرسودی بنکاری میں صرف مرابحہ، مضاربہ اوراجارہ ہی نہیں مشارکہ، بیع سلم وغیرہ دوسرے سرمایہ کاری کے ذرائع فنانسنگ بھی موجود ہیں، جن کو بروئے کار لا کر عصرحاضر کی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے غیرسودی بنکاری کو وسعت دی جا سکتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کہ بڑے عالمی بنکوں نے غیرسودی بنکوں سے فنڈزکے حصول کی خاطر مرابحہ ،لیزنگ وغیر مشہور پراڈکٹس تیار کیے ۔بڑی بڑی لیگل فرم ان ہی میں کچھ ردو بدل کرکے غیرسودی بنکوں کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان بنکوں نے اپنی پیش کشوں کی تشکیل اور تشہیر کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ملائشیا،بحرین اور پاکستان کے مرکزی بنکوں نے اس ضمن میں بلاشبہہ کافی کام کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے مائیکروفنانس بنک قائم کرنے تک کی قانون سازی اور طریقۂ کار واضح کیا ہے۔
پاکستان میں جب پہلا کمرشل غیرسودی بنک قائم ہوا تو لا محالہ سٹاف موجود کمرشل بنکوں ہی سے لینا پڑا ۔وقت کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی چلتی رہی ہے اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں مختلف تربیتی کورسز بھی کرائے جارہے ہیں، مگر ناکافی ہیں ۔ اس بات کی حدرجہ ضرورت ہے کہ ایسے بنکار تیار کیے جائیں، جو صرف بنکنگ ہی نہیں ’اسلامی بنکاری‘ کی اصطلاحات کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حلال و حرام کی تمیز جانتے ہوں۔اسلامی بنکاری کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر بنک میں آنے والے افراد کی صحیح طریقے سے رہنمائی کرنے والے بنیں تو عوام کو اسلامی بنکاری کی طرف راغب کرنے میں ممد ومعاون بن کر اس کی ترقی میں حصہ دار اور اجر کے مستحق ہو جائیں گے۔
یہی حال اسلامک انشورنس (تکافل) کا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامک انشورنس کے قوانین بنے، لیکن ابھی تک صرف دو تکافل کمپنیاں ہی وجود میں آسکیں اور ان میں بھی سبقت بیرونی سرمایہ کاروں نے لی ہے، جو قطر کے کچھ مالیاتی اداروں کے تعاون سے ( پاک قطر تکافل گروپ ) قطر میں مقیم چند پاکستانیوں اور ایک قطری تاجر کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے قائم ہوا۔البتہ روایتی انشورنس کمپنیوں نے دھڑا دھڑ بنکوں کی طرح تکافل ونڈو آپریشن شروع کر دیئے ہیں کہ منافع سمیٹ سکیں۔
بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے سبقت لی اور اسلامی بنک قائم کردیا، جس میں اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کی بھی شرکت داری ہےاور یہ ایک مثالی اسلامک بنک بن چکا ہے، اگرچہ موجودہ حکومت نے اسے برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پاکستان کے تمام ادارے آئینی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملک میں اسلام شعائر کےاجراء میں مدد کریں۔ سود ایک لعنت ہے اور قرآن میں اسے اللہ اور رسول ؐکے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔کئی غیرمسلم ممالک میں بھی غیرسودی بنک قائم ہو رہے ہیں ۔لیکن اس مملکت خداداد میں سود کے خاتمے کے لیے کئی عشروں سے عدالتوں میں جنگ لڑی گئی ہے۔
ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے اب تک کے اقدامات ناکافی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ عدالت میں بھی اپنا مقدمہ مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت اگر عمل درآمد نہ کرنا چاہے تو ہزار قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول جاری رکھے گی۔
عوام میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک فوری کام جس کی ضرورت ہے وہ ہمارے قومی نصاب اقتصادی نظام کے بارے مضامین شامل کروانے کی مہم ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کے لیے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کی کلاسوں میں اسباق شامل کیے جائیں۔ یہی نوجوان کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔اگر ان کے ذہن اسلامی اقتصادی نظام کے بارے واضح ہوں گے تو آج جو مخالفت بیوروکریسی اور دوسرے طبقات کی طرف سے کی جا رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔
اس کے ساتھ اقتصادی ماہرین کا ایک پینل بنا کرحکومت اور اس کے زیر سایہ مالیاتی اداروں اور بنکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی جائیں، انھیں سود ی معیشت کی تباہ کاریوں سے خبردار کرے اور ساتھ ہی ان کی مشاورت سے کمرشل لا میں اسلامی بنکوں کی ضروریات کے مطابق تبدیلی کے لیے قانون سازی تجویز کرے،تاکہ وہ اسلامک فناسنگ کے دوسرے پراڈکٹس میں بھی سرمایہ کاری کرسکیں، جو کمرشل قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے فی الحال نہیں کر رہے۔
جب ہم ایک بار یہ قطعی فیصلہ کر لیں گے تو سودی معیشت سے چھٹکارے کا سفر شروع ہوجائے گا اور اس کے اثرات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ہم اس وقت جو بھی قرضہ خواہ پاکستانی بنکوں اور عوام سے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، وہ زیادہ تر نقد ہی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال بھی حکومت /ادارے اپنی مرضی سے ہی کرتے ہیں، جب کہ اسلامی طریقے سے حاصل کی گئی فناسنگ/قرضے صرف کسی پراجیکٹ ہی کی خاطر لیے جائیں گے۔اس طرح غیرترقیاتی مقاصد کے لیے قرضے کے حصول کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یہی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
اسلامی ریاست اور اس کے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں بیت ا لمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امت مسلمہ جب اپنے اجتماعی نظام کو برقرار نہ رکھ سکی اور حہاں بہت سے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے وہاں مغربی سرمایہ داری نظام وجودمیںآیا اور مالی معاملات ریاست کے بجاے افراد کے ہاتھوںطے ہونے لگے جو آخرکار رائج الوقت بنکاری کے نظام کا حصہ بن گئے اور ریاست کا کردار مالی معاملات میں محدود سے محدود تر ہوتا گیا۔ اسلام کے معاشی نظام کا تصور مسلمانوں کے دلوں سے اوجھل ہوگیا، اور وہ مجبوراً مغربی بنکاری نظام کے پابند بن کر رہ گئے۔ تاہم ۱۹۷۵ء میں موجودہ اسلامی بنکاری کی ابتدا دبئی سے ہوئی اور ۳۵ سال کے مختصر سے عرصے میں بیش تر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں اب تک پانچ اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں۔ امریکا جہاں پرانے بنک راتوں رات دیوالیہ ہو گئے ہیں، وہاں پر اسلامک بنک نہ صرف اس بحران کا شکارنہیں ہوئے بلکہ بدستور اچھی حالت میں کام کر رہے ہیں۔
بنکوں کی طرح انشورنس کا روایتی کاروبار بھی چونکہ سود پر مبنی نظام کا ایک حصہ ر ہا ہے اور مسلمان تاجروں نے اس طرف توجہ نہیں دی، تاہم اسلامی بنکاری کے نظام کے پھلنے پھولنے سے انشورنس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ آج بیش تر مسلم ممالک میں یہ ادارے تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔
بین ا لاقوامی سطح پر پہلی تکافل کمپنی ۱۹۷۹ء میں سوڈان میں قائم ہوئی اور اس کے بعد ملا یشیا نے ۱۹۸۷ میں تکافل کے قوانین کا اجرا کیا ۔ پاکستان کے حکمرانوں کو عدالت عا لیہ کے فیصلے باوجود سود پر مبنی نظام کو بدلنے کی توفیق تو نہ ہوسکی، البتہ اسلامی بنکوں کے اجر کی ابتدا سے اب تک چھے اسلامی بنک قائم ہو چکے ہیں جن کی سیکڑوں شاخیں پورے ملک میںکام کر رہی ہیں۔ اسلامی بنکوں کے لیے اسلامی انشورنس کی ضرورت اور عدالت کے فیصلے کے مطابق بالآخر ۲۰۰۵ء میں تکافل (اسلامی انشورنس) رولزکا اجرا ہوا۔ اس وقت سے اب تک پاک کویت تکافل، تکافل پاکستان لمیٹڈ،پاک قطرفیملی تکافل، پاک قطر جنرل تکافل اور فرسٹ داؤد تکافل وغیرہ جیسے ادارے قائم ہوچکے ہیں۔ ذیل میں تکافل کمپنیوں کے طریق کار کے متعلق مختصر معلومات دی جارہی ہیں:
مال و متاع کا حصول اور سامان زیست جہاں انسانی فطرت کا عین تقاضا ہے وہاں ان اثاثہ جات کے تحفظ اور خود انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نبردآزما ہونا بھی ایک انسانی ضرورت رہی ہے۔ آئے دن حادثات کے نتیجے میں موت یا بحری مال بردار جہازوں کی غرقابی، مکان و کارخانوں کو آگ کا لگنا، زندگی کی گاڑی کو مکمل طور پر روک تو نہیں سکتا، تاہم اس کی رفتار میں کمی اور سفر میں دشواریوں کا باعث ضرور بنتا ہے ۔ ان خطرات کے ازالے کے لیے مختلف ادوارمیں مختلف طور طریقے رائج ہوئے، جس میں ایک طریقہ عام روایتی انشورنس کا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس میں کچھ رقم (پریمیئم) کے بدلے ان ممکنہ خطرات کو انشورنس کمپنیوں کو منتقل کی جاتی ہے۔ روایتی انشورنس نے ان ’ممکنہ خطرات‘ (risk) کو کم یا ختم تو کرلیا لیکن بنیادی طور پر اس طریقے میں غیرشرعی طریقِ کار اور خرابیوں، یعنی سود، قمار اور غرر (دھوکا)کی بنا پرفقہاے کرام نے ہر دور میں اس طریقۂ کار کی مخالفت کی اور اس کا حصہ بننے سے منع کیا۔
’تکافل‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو کفالت سے نکلا ہے، اور کفالت ضمانت اور دیکھ بھال کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں باہم ایک دوسرے کا ضامن بننایا باہم ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا مراد ہے۔
’تکافل‘ کی بنیاد بھائی چارے، امدادِ باہمی اور ’تبرع‘ کے نظریے پر ہے، جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ دورِ جدید میں تکافل کو روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر بطور اسلامک انشورنس کے استعمال کیا جارہا ہے۔اس نظام میں تمام شرکا باہم رسک شیئر کرتے ہیں اور شرکا باہمی امداد و بھائی چارے کے اس طریقے سے مقررہ اصول و ضوابط کے تحت ممکنہ مالی اثرات سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کا نظام ایک عقدِ تبرُع ہے کہ جس میں شرکا آپس میں ان خطرات کو تقسیم کرتے ہیں ، تکافل نظام کے عقد تبرع کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا سود کا عنصر موجود نہیں ۔
ہمارے معاشرے میں بھی تکافل کے مفہوم کی بہت سی صورتیں رائج ہیں ، مثلاً مشترکہ خاندانی نظام یا جیسا کہ کوآپریٹو سوسائیٹیز ہیں۔ ان طریقوں سے بھی ارکان / ممبر رسک او ر مالی خطرات کو آپس میںتقسیم کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے اصول کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو مالی اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی طریقہ روایتی انشورنس کے مطابق نظامِ تکا فل میں اختیار کیا گیا ہے۔
تکافل کا تصور کوئی نیا ایجاد کردہ تصور نہیں ہے ،بلکہ واضح طور پر قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں یہ تصور موجود ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں باہمی امداد اور تعاون کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور یہی باہمی امداد ہی تکافل کی بنیاد ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری ہے:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹: ۱۰) مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اس تعاون اور باہمی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں ، اور مصیبت میں کام آئیں جیسا کہ بھائی آپس میں کرتے ہیں ۔ انھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے دنیا میں بھائی چارے ، اخوت، ہمدردی اور باہمی تعاون کی خوش گوار فضا قائم ہو سکتی ہے اور یہی نظریہ تکافل کی بنیا د ہے۔یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ تکافل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔ کوئی بھی فرد جو اس کا ممبر بنے گا وہ اس سے استفادہ کر سکے گا۔ ملایشیا میں مسلمان ہی نہیںبلکہ غیر مسلم بھی اسلامی بنکوں اور تکافل کمپنیوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ باہمی تعاون و تناصر پر مبنی ہے ، چنانچہ اس میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ’’ہر گروہ کو عدل ا نصاف کے ساتھ اپنی جماعت کا فدیہ دینا ہوگا‘‘ یعنی جس قبیلے کا جو قیدی ہوگا، اس قیدی کے چھڑانے کا فدیہ اسی قبیلے کے ذمے ہوگا۔
یہ اسلام میں باہمی امداد و بھائی چارے کی اوّلین مثال ہے۔ اس کے بعد بھی اس طرح کے معاہدے مختلف خلفاے اسلام اپنے دورِ حکومت میں کرتے رہے، اگرچہ وہ تکافل کے نام سے نہیں تھے لیکن تکافل کی رو ح ان میں موجود تھی۔
بعض لوگوں کے نزدیک انشورنس یا تکافل اسلام کے تصورِ توکل کے خلاف ہے ۔ یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے ا ور درست نہیں۔ توکل کے معنی ترکِ اسباب کے نہیں ، بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اس کے نتائج کو اللہ کے حوالے کرنے کا نام توکل ہے، لہٰذا اسباب کو اختیا ر کرنا، اور اس کے نتائج و ثمرات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہی توکل ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بدوی نے اُونٹ کو باندھے بغیر چھوڑا اور اس کو توکل سمجھا ، چنانچہ آنحضرتؐ نے اس کو تنبیہ فرمائی:
ایک صحابی نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں ؟ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو ، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو ، اور پھر اللہ تعالیٰ پرتوکل کروـ۔(ترمذی ۲۷۷۱)
اسی طرح آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ نے اسباب اختیار فرمائے ہیں ، بیماری میں علاج اختیار فرمایا ہے جیساکہ ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ!( جب ہم بیمار ہوں تو ) کیا ہم علاج کروائیں؟ جناب رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ کے بندو ، ہاں ، علاج کروائو۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے علاوہ تمام بیماریوں کا علاج پیدا کیا ہے۔ (مشکوۃ ۲:۳۸۸، رواہ احمد و ترمذی و ابوداؤد)
اپنی اولاد کے لیے ورثے کے طور پر کچھ مال وغیرہ چھوڑنا، تاکہ وہ بعد میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ، اور ذلیل نہ ہوں، اس کو شریعت نے افضل قرار دیا ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں آتاہے:
آپ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑیں ، یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ آپ انھیں فقر و فاقے کی حالت میں چھوڑیں اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں ۔(بخاری ۱/۳۸۳)
قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ اس نظام کے جائز ہونے بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، بشرطیکہ یہ اپنے صحیح اصولوں کے مطابق ہو ، اور اخلاص کے ساتھ ہو۔
ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا (یعنی رسک مینجمنٹ) اورمالی اثرات کو ختم یا کم کرنے کا خیال کوئی نیا تصور نہیں ہے، خود شریعت نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ اگر جائز طریقۂ کار کے مطابق ایسی تدابیر اختیار کی جائیں تو یہ اسلام کے خلاف نہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی رسک مینجمنٹ کی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کی سب سے خوب صورت مثال وہ ہے جو سورئہ یوسف میں قحط سالی سے نبٹنے کے لیے سیدنا یوسف ؑ کے اٹھائے گئے اقدامات کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل مثالیں بھی زیر نظر رہیں:
ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر (رسک مینجمنٹ )کی یہ مثالیںمحض امدادِ باہمی اور تعاون پر دلالت کرتی ہیںاسی لیے شرعاً جائز ہیں۔
موجودہ دور میں خصوصاً ’ممکنہ خطرات کی پیش بندی کرنا‘۔ ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔ اسی بنا پر فقہاے امت نے غور و خوض کے بعدتکافل کے اس طریق کار کو جو غیر شرعی طریقوں اور خرابیوں سے پاک ہے، روایتی انشورنس کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
تکافل کے نظام میں کمپنی کی حیثیت وکیل یا مینیجر کی ہوتی ہے۔ ’تکافل نظام‘ میںسب سے پہلے کمپنی کے شیئر ہولڈر کچھ رقم باقاعدہ وقف کرتے ہیں۔ اس رقم سے ایک وقف پول یا فنڈ (Participant's Takaful Fund )قائم کیا جاتا ہے۔جہاںان شیئر ہولڈروں کی حیثیت وقف کنندہ کی ہوتی ہے۔ وقف فنڈ سے ممبران کا تعلق محض ’عقدِ تبرع‘ کا ہوتا ہے۔ وقف فنڈ کی ملکیت وقف کنندہ سے وقف کی طرف منتقل ہوجاتی ہے، البتہ اس وقف کے منافع سے وہ استفادہ کرتے ہیں ۔اس وقف فنڈ کو PTF کا نام دیا گیا ہے۔
فقہ کا مشہور اصول ہے کہ شرط الواقف کنص الشارع ، یعنی وقف کرنے والے کی شرط صاحب ِ شریعت کے فرمان کی مانند ہے ۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے واقف ، وقف فنڈ میں کچھ شرائط عائد کرتے ہیں ۔ جس میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس وقف فنڈ کو عطیہ دے گا ، اس وقف فنڈ سے وقف شرائط کے مطابق وہ فوائد کا مستحق ہوگا۔
وقف کے اندر چوں کہ اس بات کی گنجایش ہے کہ وہ مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو ، مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کو اس شرط کے ساتھ وقف کرے کہ اس کا پھل صرف فلاں شخص کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے، وغیرہ تو یہ شرائط لگا نا نہ صرف جائز بلکہ مندرجہ بالا اصول کی روشنی میں ان کی پابندی بھی لازمی ہے۔اسی طرح تکافل سسٹم میں وقف کرنے والا، وقف کے مصالح کے پیش نظر وقف کے دائرے کو مخصوص افرا د تک محدود اور وقف فنڈ سے استفادہ کرنے کی مخصوص شرائط مقرر کرسکتا ہے۔
لوگ اس فنڈ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اس فنڈ کو بطور تبرع ایک خاص مقدار میں حسبِ شرائط وقف نامہ عطیات دیتے ہیں ،اور جن شرکا کو بھی کوئی نقصان پہنچے تو وہ وقف فنڈ سے فوائد کے اصول کے مستحق ہوتے ہیں ۔جو عطیات اس فنڈ میں آتے ہیں،وہ محض تبرعات ہوتے ہیں ، بذاتِ خود وقف نہیں ہوتے بلکہ مملوکِ وقف ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ کسی بھی وقف میں دیا گیا چندہ وقف نہیں ہوتا ، بلکہ مملوکِ وقف ہوتا ہے۔یہ عطیات چوں کہ شرکا کی ملکیت سے خارج ہوتے ہیں ، اسی لیے ان پر نہ زکوٰ ۃ واجب ہوتی ہے اور نہ ان میں میراث کے احکام جاری ہوتے ہیں اور نہ اس کی بنیاد پر وہ سرپلس کے مستحق ہوتے ہیں (کمپنی مالکان اس رقم کو اپنے تصرف میں نہیں لاسکتے)۔ یہ تبرعات مکمل طور پروقف پول کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں ، اور وقف پول قواعد و ضوابط کے مطابق ان رقوم کو استعمال کرتا ہے۔پھر جب ان کو نقصان پہنچتا ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں وہ اس وقف پول سے فوائد کے حصول کے مستحق ٹھیرتے ہیں ۔
مذکورہ وقف فنڈ کو شرعی طریقے کے مطابق کاروبار میں لگایا جاتا ہے ، اور اس سے حاصل شدہ نفع کا مالک یہی وقف فنڈ ہوتا ہے۔اس فنڈ سے شرکا کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، یہ فوائد ان کے وقف فنڈ کو دیے گئے تبرعات کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ یہ فوائد عطاے مستقل ہوتے ہیں ، یعنی اس لحاظ سے کہ عطیہ دینے والے بھی موقوفِ علیم میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ واقف میں وقف فنڈ سے استفادے کا حق اس کو دیا ہے جو اس کی رکنیت حاصل کرے۔ اس لحاظ سے ہر ممبر موقوفِ علیہ ہوگیا ( موقوفِ علیہ: اس کو کہتے ہیں جس پروقف کیا گیا ہو)۔
اس کا طریقۂ کار یہ ہے:
شریک تکافل کی جانب سے ادا کر دہ زر تعاون دو مدات میں تقسیم ہوتا ہے۔ رقم کا کچھ حصہ بطور تبرع وقف فنڈمیں چلا جاتا ہے اور باقی ماندہ حصہ سر ما یہ کاری میں لگا یا جاتا ہے:
۱- شرکاے تکافل سے وصول شدہ زر تعاون ۲- ری تکافل آپریٹر سے حاصل شدہ کلیمز ۳-فنڈز کی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع ۴- پول کے فنڈ میں خسارے (Deficit) کی صورت میں وکیل سے حاصل شدہ قرضِ حسنہ ۵- اس فنڈ میں دیا جانے والا کوئی بھی عطیہ۔
۱- شرکاے تکافل کے کلیمز کی ادایگی ۲- ری تکافل کے اخراجات ۳- تکافل آپریٹر کی فیس ۴-فنڈز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں تکافل آپریٹرز کا نفع میں حصہ۵- سرپلس کا وہ حصہ جو ممبران میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۶- قرضِ حسنہ کی واپسی ۷- عطیات / خیرات کی مد میں ادا کی گئی رقم۔
تکافل نظام میں کمپنی کی اصل حیثیت وکیل یا منیجر کی ہوتی ہے۔ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال کے لیے ’وکالہ فیس‘ وصول کرتی ہے۔ یہ فیس وقف فنڈ کے لیے دیے گئے عطیات سے وصول کی جاتی ہے، نیز کمپنی وقف فنڈ میں موجود رقم کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری میں لگاتی ہے۔ اس حیثیت سے کمپنی چونکہ مضا رب ہوتی ہے اور فنڈ رب المال ہوتا ہے، لہٰذا کمپنی مضاربہ کے نفع میں سے متعین حصہ وصول کرتی ہے، نیز اس فنڈ میں موجود رقم کی انویسٹمنٹ کے لیے اس کو شرعی کاروبار میں لگاتی ہے ، جس کی مختلف شرعی شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ اس میں فنڈ رب المال ہوتا ہے ، اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، جب کہ نفع کا خاص تناسب طے ہوتاہے۔ اس تناسب سے کمپنی کو بحیثیت مضارب اپنا حصہ ملتا ہے، اور باقی نفع و قف فنڈ میںجاتا ہے ،جو فنڈ کی اپنی ملکیت میں جاتا ہے۔
لہٰذا یہ واضح ہوا کہ رویتی انشورنس عقد معاوضہ ہونے کی وجہ سے سود ، قمار اور غرر سے مرکب ہے، جب کہ تکافل کی بنیاد محض تبرع ہے۔ جس میں ربا کا تصور ہی نہیں اور غرر اگر ہے تو عقد تبرع میں مؤثر نہیں۔ (مضمون نگار قطر انٹرنیشنل اسلامک بنک دوحہ سے وابستہ ہیں۔)