حضرت ابراہیم علیہ السلام واحد ایسے پیغمبر ہیں، جنھیں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگ یعنی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنا پیغمبر، پیشوا اور ابو الانبیا مانتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں جن سے یہودی ، عیسائی اور مسلمانوں کی نسلیں چل پڑیں۔ اسی لیے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہےکہ ایک ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ان تینوں قوموں کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ماضی میں ہوئی ہیں، ابھی بھی ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ماضی میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی باہم جنگیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔ تاہم، موجودہ دور میں یہود و نصاریٰ حکومتیں یک جان ہو کر عالم اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں اور نائن الیون کے وقت امریکا کے صدر جارج بش نے کہا بھی تھا کہ صلیبی جنگیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے ایک عشرہ قبل افغانستان میں جنگ کے بعد سوویت روس کے حصے بخرے ہوئے تو اس وقت مغربی اتحادی افواج (نیٹو) کے سربراہ سے جب پوچھا گیا کہ ’’سوویت روس کی شکست اور سقوط کے بعد کیا نیٹو اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا؟‘‘ تو اس پر نیٹو کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’’ابھی مغرب کا اصلی معرکہ باقی ہے جو اسلام سے خطرے کی صورت میں سامنے ہے۔ اس لیے ہم نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کا خطرہ نہیں لے سکتے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت روس کی شکست کے بعد کہا تھا کہ ’’دنیا کے دو بڑے نظریات یعنی سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی لڑائی میں بالآخر سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کی جیت ہوئی اور تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو ماننے کے علاوہ کو چارہ نہیں ہے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سرمایہ دارانہ نظام کو ’اچھا آدمی‘ اور سوشلزم کو ’بُرا آدمی‘ کہہ کر اچھائی اور بُرائی کی جنگ بتایا تھا، جس میں بقول فوکویاما کے بالآخر ’اچھے آدمی‘ کی جیت ہوئی۔ اسی طرح برنارڈ لیوس اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے مغربی نظام کے سامنے موجود دو بڑے چیلنجز اسلام اور چینی تہذیب کی نشان دہی کی تھی، جو مستقبل میں مغرب کے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکی مفکر ہنری کسنجر نے بھی یہی بات بڑی تفصیل سے کہی کہ اگر کبھی مستقبل میں مسلم ممالک چین کے قریب آتے ہیں تو اسی وقت مغربی ورلڈ آرڈر کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس پس منظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا کی تینوں بڑی تہذیبیں حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا باپ تسلیم کرتی ہیں۔ سوربون یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر جی ایم ڈی صوفی رجسٹرار یونی ورسٹی آف دہلی، دو جلدوں میں اپنی مشہور کتاب Kashir, Being a History of Kashmir (مطبوعہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۴۸ء) میں کشمیریوں کی تاریخ پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل کشمیری قوم فلسطین کے باشندے ہیں، کشمیری اور فلسطینی ایک ہی باپ کی دو اولادیں ہیں اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ملک کنعاں (موجودہ فلسطین) کے بنی قطورہ قبیلے کی خاتون سے شادی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مال و اسباب دے کر فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ کنعان یعنی موجودہ فلسطین سے ہجرت کر کے یہ لوگ پہلے وسطی ایشیا پھر ترکستان کے شہر کاشغر اور آخر میں لداخ کے کوہستانی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے سونہ مرگ علاقے سے کشمیر میں داخل ہو گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔اس زمانے میں کشمیر میں کوئی آبادی نہیں ہوتی تھی اور کشمیر آنے والے یہ پہلے لوگ تھے جو آگے چل کر یہاں کے اصلی باشندے کہلائے۔ ان لوگوں نے اس نئی جگہ کو ’کشیر‘ نام دیا۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان عبرانی تھی اور اس وقت ملک کنعان یعنی فلسطین کی زبان بھی عبرانی ہوا کرتی تھی۔ایک یہودی مؤرخ بھی کشمیریوں کی فلسطین سے اس ہجرت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیری قوم بڑی بہادر قوم ہے۔ یہ لوگ ہر وقت وادی کے دروں کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں اور کسی بیرونی شخص کو وادی میں آنے سے روکتے ہیں۔ فطرتاً یہ قوم جنگجو اور محنت کش ہے اور مہمان نوازی میں بھی یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ لفظ ’کوشر‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ داردک زبانوں جیسا ہے نہ کہ سنسکرت جیسا۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر شب خون مار کر یہاں کی تاریخ کو بھی تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا۔ اس تاریخی بددیانتی کی ابتدا کلہن نامی شخص نے راج ترنگنی نامی کتاب لکھ کر کی تھی۔ یہ کتاب نہیں بلکہ دنیا بھر کے جھوٹ کا پلندہ اور دیو مالائی کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو صرف اس لیے لکھی گئی تاکہ کشمیری قوم کی اسلامی شناخت کو تبدیل کر کے ہندو خاکے میں ڈھالا جا سکے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں ہوئی ہیں اور تا حال بھی ہو رہی ہیں۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵-الف کاخاتمہ اسی سمت کا سفر ہے۔ جس میں یہاں پر موجود مسلمانوں کا قتلِ عام کا کام ہی باقی بچا ہے اور یہ کام ایک خاص منصوبے کے تحت جاری ہے۔
ہم چاہیں گے کہ پہلے مرحلہ وار طریقے سے کشمیری قوم کی اصل سے واقف کرائیں ، اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے آغاز اور جموں میں ہونے والے قتل عام اور مستقبل میں کشمیر میں آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبے پر بھی بات ہوگی۔ بدقسمتی سے کلہن کے بعد آنے والے ہر مؤرخ، جس نے بھی کشمیر کی تاریخ پر قلم اٹھایا، راج ترنگنی کو حرفِ آخر جان کر اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ کلہن، ’شیومت‘ کا ماننے والا تھا۔ اس نے کشمیریوں کی تاریخ میں ہندوانہ رسومات کا ذکر زیبِ داستان کے لیے کیا۔ کشمیریوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ یہودیوں کے گیارہ قبیلوں میں سے ایک کھویا ہوا قبیلہ ہے، ایک مفروضہ ہے۔ کلہن نے کشمیری قوم کی کنعان سے ہجرت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ کشمیر کے ہندو بادشاہوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ کشمیری قوم حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ضرور ہے، لیکن یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہودی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کی اولاد ہیں، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور اسی نسبت سے یہودیوں کو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہا جاتا ہے، جب کہ کشمیریوں کے بارے میں اس چیز کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فلسطین سے ہجرت کے بعد کشمیریوں نے پہلے پہل اپنے آبائی دین ’دین اسلام‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، لیکن رفتہ رفتہ صدیاں گزرنے کے ساتھ برصغیر میں پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کے عروج کے ساتھ کشمیریوں پر بھی ان کے اثرات پڑے اور انھوں نے پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کو اختیار کیا۔ اس بات کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں کہ بدھ مت کے بڑے بزرگوں کی کانفرنس کشمیر میں ہی ہوتی تھی اور کشمیر میں ہی پہلی بار بدھ مت کے قوانین تانبے کی چادروں پر لکھے گئے اور پھر زمین کے نیچے دفن کیے گئے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کو اس کے شواہد کشمیر کے خطہ لداخ میں ملے ہیں۔ کشمیر کو وسط ایشیا سے جوڑنے والا راستہ جو بانڈی پورہ کے گریز علاقے سے گزر کر گلگت سے آگے بڑھتا تھا۔ مذکورہ قوانین اسی راستے سے وسط ایشیا پہنچے اور وہاں بدھ مت کا پھیلاؤ ہوسکا۔
صدیوں بعد ترکستان سے حضرت عبدالرحمان بلبل شاہ ترکستانی اور پھر ہمدان کے میرسیّدعلی ہمدانی اسلام کی دعوت لے کر کشمیر آئے تو وہ بھی اسی شاہراہِ ریشم کے راستے کشمیر میں وارد ہوئے۔ کشمیر پہنچ کر یہاں کی ہندو آبادی کے سامنے جب انھوں نے اسلام یہ کہہ کر پیش کیا کہ دراصل یہ وہی دین ابراہیمی ہے، جس کی تعلیم حضرت ابراہیمؑ نے دی تھی، تو کشمیری قوم جوق در جوق اسلام قبول کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ پورے کشمیر میں صرف گیارہ گھر ہی ہندو رہ گئے اور اسی وقت سے یہ مثل مشہور ہوگئی: ’کشیر چھ کاہے گھر‘ یعنی اصلی کشمیری اب صرف گیارہ گھر بچے ہیں باقیوں نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس بات سے خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی کہانی جان بوجھ کر الجھائی گئی ہے تاکہ اس قوم کا اسلام کے ساتھ رشتہ کاٹ دیا جائے۔ اس طرح کی ہندوانہ تاریخ لکھنے والے نام نہاد مؤرخوں کی سرکاری سطح پر ہمیشہ سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے، جنھوں نے صوفیت اور ریشیت کا شوشہ چھوڑ کر، جو کہ اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہے، اور جو اس جھوٹ کو حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ ہندو مذہب کی پروردہ رہی ہے اور ہندو مذہب ہی کشمیریوں کا حقیقی مذہب ہے۔
فلسطینیوں اور کشمیریوں کی قسمت دیکھیے کہ دونوں برادر قوموں کی ایک جیسی تقدیر ہے۔ فلسطینی قوم اگر یہود کے ہاتھوں تختۂ مشق بنی ہوئی ہے تو کشمیری قوم، اہل ہنود (ہندو قوم) کے ہاتھوں تختۂ مشق بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر بالخصوص اہل غزہ پر جو قہر ڈھایا جا رہا ہے، کچھ اسی طرح کی منصوبہ بندی کشمیری قوم کے بارے میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کچھ عناصر رکاوٹ بنےہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر یہ رکاوٹیں دُور ہوگئیں یا کمزور پڑگئیں تو جو منظرنامہ اس وقت غزہ میں بنا ہوا ہے، وہی المیہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے اور بھارت کی ایک سخت گیر ہندو فاشسٹ حکومت اسی جانب بڑھ رہی ہے۔ جنوری ۲۰۲۴ء سے جموں سرینگر ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے، جس پر ۲۸ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے سے کشمیر میں ترقی کو فروغ ملے گا اور کشمیر کی سیاحت انڈسٹری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن غور کیا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دراصل یہ ٹرین پراجیکٹ کشمیر کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کا روز مرہ کا سفر آسان تو ہوجائے گا لیکن آزادی کی منزل بہت دُور ہو جائے گی۔
تقسیم برصغیر کے وقت کشمیر کی بھارت کے ساتھ صرف ۱۸ فی صد سرحد ملتی تھی اور وہ بھی دریائے راوی، جو پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے آخری گاؤں لکھن پور کو آپس میں تقسیم کرتا تھا۔ اُس زمانے میں یہ راستہ بالکل ناقابلِ استعمال تھا، بلکہ اگر اسے راستے کے بجائے پگڈنڈی کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ چونکہ کانگریس کی قیادت پہلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو اپنے رنگ میں رنگ چکی تھی اور کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے بہت پہلے ہی کانگریس کے ساتھ مل کر کشمیر کو ہندستان سے جوڑنے کا منصوبہ بنالیا تھا، اس خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پٹیالہ فوج ، ڈوگرہ فوج، بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے ہتھیار بند جتھوں نے مل کر جموں صوبے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمان بچیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں جو قتلِ عام کیا گیا، وہ اسی لیے تھا تاکہ کسی بھی طرح سے وادئ کشمیر پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایک بار وادی قبضے میں آ گئی، پھر لداخ، گلگت اور بلتستان کے پہاڑی سلسلے کو ہدف بنایا جاسکتا تھا اور شاہراہِ ریشم بھارت کے تسلط میں آجاتی۔
۷۰ سال پہلے جس قتلِ عام کی ابتدا جموں صوبے سے کی گئی تھی، آج پوری ریاست میں اسی طرح کا قتلِ عام مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب چونکہ بھارت نے دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-الف کو ختم کر کے جموں وکشمیر کو مکمل طور پر بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا ہے، تو صورتِ حال اور بھی خوفناک ہونے والی ہے۔ مذکورہ بالا دفعات کے ہوتے ہوئے اس بات کا کم از کم یقین تھا کہ بھارت کی کسی دوسری ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ لیکن ان کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ دیوار بھی درمیان سے ہٹ گئی ہے۔