کشمیریوں کے خصائل اور کردار پر بات کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے کہا تھا: کشمیری بہت ذہین اور بہت سی صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود شرپسند نہیں ہیں، بلکہ یہ لوگ نرم خو اور آرام دہ طرزِ زندگی کے خواہش مند ہیں۔ جنھیں چند ایک چیزوں جیسے ایمان دار انتظامیہ اور سستی و مناسب غذا کے سوا دوسری چیزوں سے سرو کار نہیں، اور اگر انھیں یہ چیزیں فراہم کر دی جائیں تو یہ لوگ آپ کے مد مقابل ہرگز کھڑے نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں نہرو نے شیخ محمد عبداللہ سے یہ بھی کہا تھا: بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ لے گا یہاں تک کہ یہ لوگ آزادی اور حقِ خود ارادیت جیسے الفاظ ہی بھول جائیں گے۔
اگرچہ نہرو کی ان دونوں مبینہ باتوں سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے بہرحال ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نہرو کیونکر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے بہانے طول دینا چاہتے تھے، تاکہ وہ وقت حاصل کر کے کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ سکیں۔ ۱۹۵۲ء میں پنڈت نہرو نے ایک خط کے ذریعے شیخ عبداللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کروا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے ہی بھارت کے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے جو عالمی سطح پر بھارت کے لیے سبکی کا باعث بن رہے تھے۔ مگر شیخ عبداللہ کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ دہلی کے ساتھ ’تیتر بٹیر والا‘ کھیل کھیل رہے تھے۔ چنانچہ جب وہ دلی جاتے تو بھارت کے حق میں بیان داغ دیتے، اور جب کشمیر میں ہوتے تو الحاق ہند کی مخالفت میں بیان دیتے۔اس پر مستزاد یہ کہ جب شیخ عبداللہ کے نہرو کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے تو اس وقت وہ خود کو ہندوستانی کہتے، لیکن جونہی نہرو کے ساتھ ان کی ذرا سی اَن بن ہو جاتی، تو وہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنے لگ جاتے۔ شیخ عبداللہ کا یہ رویہ نہرو اور سردار پٹیل کو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ ویسے بھی انھیں جو کام ان سے لینا تھا، وہ پہلے ہی لے چکے تھے۔ ان کے نزدیک اب شیخ عبداللّٰہ کی وہ اہمیت نہیں رہی تھی جو ۱۹۴۷ء تک تھی۔
اب پیمانے بدل چکے تھے اور بھارتی حکومت کشمیر میں نئے چہرے تلاش کر رہی تھی، جو ان کے منصوبوں کے عین مطابق کام کرسکیں۔ اس کام کے لیے کانگریس کی نظرِ انتخاب شیخ عبداللّٰہ کے قریبی ساتھی بخشی غلام محمد پر جا پڑی، چنانچہ ۱۹۵۳ء میں نہرو نے شیخ عبداللّٰہ کو کرسی سے اتار کر جیل میں ڈال دیا اور بخشی غلام محمد کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا۔ بخشی غلام محمد نے ’نیا کشمیر‘ کا نعرہ لگا کر کشمیر کی معاشی ترقی اور خوش حالی کا بیڑا اٹھایا اور حکومت کرنے لگے۔ اقتدار میں آتے ہی بخشی غلام محمد نے کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے متنازعہ الحاق کی توثیق کرا دی اور اپنا سارا زور کشمیری قوم کو بھارتی یونین میں ضم کرنے میں لگا دیا۔ یہ انضمام صرف زمینی اور سیاسی نہ تھا بلکہ معاشی انضمام بھی تھا۔ اس مقصد کی خاطر بخشی حکومت کے لیے نئی دہلی حکومت نے اپنے خزانے کھول دئیے۔
شیخ عبداللّٰہ کے دور حکومت میں کشمیر کے ہوم سیکرٹری اور پھر ہوم منسٹر رہنے والے ڈی پی دھر، پنڈت نہرو کے خاص آدمی تھے۔ انھوں نے بقولِ شیخ عبداللّٰہ نہرو کو یہ مشورہ دیا کہ کشمیریوں کو سیاست بالکل بھی نہیں آتی، زیادہ سے زیادہ اگر انھیں کسی چیز کی فکر ہے تو وہ ہے مناسب اور دلکش کھانا۔ ڈی پی دھر کے بقول کشمیریوں کے دل تک پہنچنے سے پہلے ان کے معدے تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ رفتہ رفتہ جب یہ لوگ بہترین کھانا اور مفت سہولیات حاصل کر کے آسان طرزِزندگی کے عادی ہو جائیں گے، تو لازماً آزادی کو بھول جائیں گے۔ دھر کے الفاظ میں They could be won over gastronomically ۔ یہ حکمت عملی برطانیہ کی چین میں اپنائی جانے والی ’افیون حکمت عملی‘ کے طرز پر تھی۔
بخشی غلام محمد نے اسی حکمت عملی کے تحت لوگوں کو غلامی کا خوگر بنانا شروع کیا۔ انھوں نے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینا شروع کیں اور ہر کس و ناکس کے لیے حکمنامے جاری کرنے شروع کیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ کشمیری قوم کو ایک خاص Comfort Zone (گوشۂ عافیت) میں دھکیلا گیا۔ اس حکمت عملی کو Politics of Life کہا جاتا ہے، جس میں مقبوضہ علاقے کا باقی دنیا سے رشتہ کاٹ کر مکمل طور پر قابض ملک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت اسی حکمت عملی کے ذریعے لوگوں کے عزم کو کمزور کر رہے ہیں۔ مشہور ہے کہ جب کوئی شخص بخشی غلام محمد کے پاس نوکری مانگنے جاتا تو بخشی صاحب وہیں بیٹھے بیٹھے ماچس کے ڈبے پر یا کاغذ کی پھٹی ہوئی سلپ پر اسے نوکری کا پروانہ تھما دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص بخشی کے دور میں بھی بھوکا رہا، وہ زندگی بھر پھر کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھا سکتا۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بخشی دورِ حکومت میں پیسے اور سہولیات کی کتنی ریل پیل رہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی آسودگی کے اعتبار سے بخشی دور حکومت کو کشمیر کا منفرد دور قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم اس دور کے پیچھے دو وجوہ کارفرما تھیں: پہلی یہ کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کو فروغ دے کر اول تو دنیا کے سامنے یہ دلیل پیش کی جائے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے اور لوگ بھارت کے ساتھ الحاق کر کے خوش ہیں۔ دوم یہ کہ کشمیری قوم کو کمفرٹ زون میں دھکیل کر رام کیا جائے، تاکہ انھیں جذباتی طور پر بھارت میں ضم کیا جا سکے۔ یہ کشمیر میں استعماریت (Colonialism) کی طرف پہلا قدم تھا جس کا بی جے پی ’آبادکار استعماریت‘ (Settler Colonialism ) کے ذریعے اب کلائمکس چاہتی ہے۔
بخشی دور حکومت کے بعد ۱۹۶۲ء میں بھارت چین، ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت اور ۱۹۷۱ء میں پھر دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اسی دوران سقوطِ ڈھاکہ کا دل خراش واقعہ پیش آگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذوالفقار بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ’شملہ معاہدہ‘ بھی ہوا۔ ان تمام تاریخی واقعات بالخصوص سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ’شملہ معاہدہ‘ کا مسئلہ کشمیر پر براہِ راست اثر پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ جو معاہدہ کیا، اسے ’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شیخ عبداللہ نے ۲۲ سال کی جدوجہد کو ’۲۲ سالہ صحرا نوردی اور سیاسی آوارہ گردی‘ کا نام دے کر اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر کی بساط ہی لپیٹ دی۔
اس کے بعد ۱۹۸۴ء میں شہید مقبول بٹ کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا۔ تحریکِ آزادئ کشمیر میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا، جب ۱۹۸۸ء کے انتخابات میں ریکارڈ توڑ دھاندلیوں کے جواب میں کشمیری نوجوانوں نے جمہوری طریقوں سے مایوس ہو کر مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اس طرح کشمیر کی تاریخ میں عسکری تحریک کا آغاز ہوا اور کشمیر کی تحریک آزادی اپنے دوسرے دور میں داخل ہوگئی۔
اس وقت اگر آپ کشمیر کی آبادی کو تقسیم کریں تو آپ کا سابقہ چار نسلوں کے لوگوں سے پڑے گا۔ پہلی نسل وہ ہے، جس نے یا تو ڈوگرہ دور حکومت کے خلاف مزاحمت کی یا وہ اسی مزاحمت کے دوران پیدا ہوئے۔ یہی وہ نسل ہے جس نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی بنیاد رکھی۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللّٰہ اس نسل کے قائد ِکارواں تھے۔ یہ نسل تحریک آزادی کا اختتام، آزادی کی صبح پر نہیں کرپائی۔ شیخ عبداللّٰہ کی ایک غلطی نے کشمیری قوم کو آزادی کی منزل سے مزید سو سال دور کر دیا۔ بقول اقبال:
لیکن نگاہِ نُکتہ بیں، دیکھے زبوں بختی مری
’’ رفتم کہ خار از پاکشم ، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دَور شد‘‘
دوسری نسل پہلی نسل کے لوگوں کی اولاد ہے، جو۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیانی عرصے میں پیدا ہوئی۔ یہی وہ نسل ہے جس نے ۱۹۸۸ء میں مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ تیسری نسل جو۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان یعنی مسلح مزاحمتی تحریک کے عین شباب میں پیدا ہوئی۔ اور چوتھی نسل وہ ہے جو۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی جب مشرف کا چار نکاتی فارمولا گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا۔ جہاں تک پہلی نسل کے لوگوں کا تعلق ہے، یہ لوگ اس وقت اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں، لہٰذا ان سے بھارت کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ دوسری نسل جس نے مسلح مزاحمتی تحریک میں حصہ لیا تھا، اس وقت تقریباً پچاس اور ساٹھ سال کی عمر کے درمیانی حصے میں ہیں۔ ان لوگوں نے مسلح مزاحمتی تحریک کے دوران بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے، یہ لوگ بھی اب بھارت کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔
رہی آخری دو نسلیں جن میں ۱۹۹۰ءکی مسلح مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی نسل نے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کی تحریک کو جنم دیا، جب کہ آخری نسل جو ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئی، ان تحریکات کے دور میں کم عمری کی وجہ سے حالات سے اتنی آگاہ نہیں ہے۔ البتہ مستقبل میں کشمیر کی تحریک آزادی کیا رُخ اختیار کرتی ہے؟ اس کا انحصار انھیں آخری دو نسلوں پر ہے۔ یہ بات بھارت کے منصوبہ ساز ادارے بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی وجہ سے تیسری نسل کے جوانوں کو ٹارگٹ کر کے یا تو ہیرو بنا کر چوتھی نسل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا پھر انھیں آہستہ آہستہ منظر سے ہٹایا جاتا ہے۔ اس نسل کو رام کرنے کے لیے بھارت Stick and Carrot والی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سب سے پہلے ’Carrot‘ یعنی ’نرم پالیسی‘ اختیار کرکے سکولوں اور کالجوں میں ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ یہ لوگ کسی بھی طرح سے نئی دہلی کے ’قومی دھارے‘ میں شامل ہو جائیں، اور جو لوگ اس حکمت عملی میں نہیں پھنستے انھیں ’سٹک‘ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے۔ ’سٹک‘ کے معاملے میں صرف ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ دیگر بہت سے ذرائع ہیں ، جیسے جسمانی طور پر ٹارچر کرنا، ذہنی پریشان کرنا، قید و بند کی صعوبتیں، پی ایس اے ایکٹ لگا کر کریئر کو تباہ کرنا اور نشے کی لت میں مبتلا کروانا جیسے ہتھکنڈے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جموں و کشمیر میں تقریباً ۱۳لاکھ ۵۰ہزار افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں، جن میں تقریباً ایک لاکھ خواتین بھی شامل ہیں،جب کہ دس سال قبل پوری ریاست میں یہ تعداد ایک یا ڈیڑھ لاکھ سے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کس سمت میں لے جائے جا رہے ہیں۔
نئی نسل کی ذہن سازی کے لیے کبھی بھارتی فلم انڈسٹری کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی کے اے ایس اور آئی اے ایس افسران کو ترقیاں دے کر نوجوان نسل کو ان کی دیکھادیکھی کشمیر کی بھارت نواز بیوروکریسی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔جان بوجھ کر طے شدہ منصوبے کے تحت کشمیر میں پہلے بے روزگاری کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، پھر سروس سلیکشن بورڈ (ایس ایس بی) کے ذریعے سرکاری ملازمتوں کے لیے نوٹس نکالے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آسامیاں پُر کرنے کے لیے پہلی فہرست میں آزادی پسند ملازمین کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر نوکریوں سے برخواست کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کی جگہ نئی آسامیوں کو پُر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نوجوان نسل کو ٹارگٹ کر کے لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے خصوصی انعامات دلا کر انھیں ’یوتھ آئکون‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی ایک فوج اس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، جو عوام کو روز مرہ کے جھمیلوں میں اُلجھائے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
چوتھی نسل جو اس وقت شعوری طور پر خام ہے، تعلیمی اداروں میں مخصوص تاریخ پڑھا کر ان کی اسلامی روح فنا کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ہر سال تقریباً پانچ ہزار کشمیری طلبہ و طالبات کو’پرائم منسٹرز اسپیشل اسکالرشپ اسکیم‘ (PMSSS) کے تحت وظائف فراہم کیے جاتے ہیں، جس کے پیچھے صرف یہ مقصد کار فرما ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل جب بھارتی ریاستوں میں مخلوط تعلیمی نظام میں پروان چڑھے گی، تو لازماً بھارت کے مشرکانہ ماحول کو اپنے اندر جذب کرلے گی۔ اس طرح سے بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ کلچر کو فروغ ملے گا اور ان کی غیرت و حمیت فنا ہوجائے گی۔ پہلے ہی کشمیر میں نوجوان ’غمِ روزگار‘ کے مارے ہوئے ہیں، اس پر جب ’غم عشق‘ کا بھی اضافہ ہوگا تو اس کا نتیجہ ڈپریشن اور قنوطیت کی صورت میں نکلے گا۔ اور یوں نئی نسل اپنے اصلی مقصد سے دُور ہو جائے گی۔
بھارتی حکومت نے تقریباً تین سو سے زائد NGO's کو کشمیری طلبہ و طالبات کے لیے خصوصی پیکیجز مختص کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور ہر سال ان پیکیجز میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ NGO's کبھی ’اُڑان‘ کے نام پر تو کبھی ’کھیلو انڈیا‘ پروگرامات کے تحت کشمیری طلبہ و طالبات کو نوکریوں کے بہانے باہر کی ریاستوں میں لے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے کشمیر کی خوب صورت دوشیزاؤں کو اوّلین ترجیح دی جاتی ہے اور اخبارات میں با ضابطہ طور پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ جب یہ لڑکیاں باہر کی ریاستوں میں پہنچتی ہیں تو وہاں آر ایس ایس کا ایک مخصوص گروہ انھیں اپنے جال میں پھانسنے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے۔ بھارت میں اس گروہ کو’بھگوا لوّ ٹریپ‘ (Bhagva Love Trap) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا مقصد بھولی بھالی مسلم بچیوں بالخصوص کشمیری لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کروانا ہوتا ہے۔ آرایس ایس اس کے لیے ان کی خصوصی معاونت کرتی ہے۔
کچھ سال پہلے تک کشمیر میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی کشمیری خاتون کسی غیر ریاستی باشندے سے شادی کر لیتی تو اسے وراثت میں کسی قسم کا حصّہ نہیں مل سکتا تھا، لیکن بھارت نے اس قانون کو ختم کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے آر ایس ایس کے بھگوا اسکواڈ کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔ جموں صوبہ کی ہزاروں ہندو لڑکیاں ایسی ہیں، جو بھارت کی دیگر ریاستوں میں شادیاں کر چکی ہیں اور اس طرح سے ان کے شوہروں کو بھی کشمیر میں مالکانہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ یہ مسئلہ ابھی تک تو اتنا خطرناک نہیں تھا، لیکن اگست ۲۰۱۹ء میں چونکہ دفعہ ۳۷۰ کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے، اس وجہ سے صورت حال خوفناک ہوتی جارہی ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں نہ تو زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کرسکتا تھا اور نہ ووٹ ڈال سکتا تھا، لیکن اس کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ شرط ختم ہو گئی ہے۔ اب بھارت کی کسی بھی ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین خرید بھی سکتا ہے اور ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔
آر ایس ایس اسی لیے دستورِ ہند بنتے ہی دفعہ ۳۷۰ کو ختم کروانا چاہتی تھی تاکہ کشمیر میں ہندوؤں کو بسا کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، اور یہ امکان بھی دم توڑ جائے کہ اگر کبھی حریت پسند قیادت اور عالمی دباؤ کے تحت کشمیر میں ریفرنڈم کروانا پڑے تو اس وقت ہندو آبادی چونکہ اکثریت میں ہوگی، اس لیے ان کا ووٹ بھارت کے حق میں پڑے گا اور یوں کشمیری قوم کی غلامی کی رات مزید طویل ہو جائے گی۔
حالات کی شدت بتا رہی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اس مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور کشمیر کو ہندو سٹیٹ بنانے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔ پنڈتوں کو الگ کالونیوں میں بسانے کے بعد اب اسرائیلی طرز پر فوجی کالونیوں (Sainik Colonies) بنائی جا رہی ہیں۔ پیر پنجال صوبہ کے مسلمانوں کو دبانے کے لیے وہاں VDC یعنی ’ولیج ڈیفنس‘ کمیٹیاں پہلے سے ہی موجود تھیں، اب انھیں مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کل کو اگر VDC's کے یہ مسلح غنڈے پیر پنجال میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیتے ہیں تو کون ہے جو انھیں روک سکتا ہے؟ جموں صوبہ جہاں پہلے سے ہی ہندوؤں کی اکثریت ہے، VDC's کا ہونا کس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ ابھی گذشتہ مہینے ہی فوج نے پونچھ ضلع میں تیرہ نوجوانوں پر ٹارچر کیا، جن میں تین نوجوان زیر تشدد ہی شہید ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر کشمیری مسلمانوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، کس سے رابطے میں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جس جس پر حکومت کو آزادی پسند ہونے کا شک ہوتا ہے اسے زینتِ زنداں بنا دیا جاتا ہے۔ ایک طرف ہندوؤں کو مضبوط کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں موجود آزادی پسند تنظیموں خواہ وہ اسلامی ہوں یا قوم پرست، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کشمیر میں کسی بھی قسم کی آزادی پسند تحریک کو برداشت نہیں کرنا چاہتی ہے۔ پہلے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی، پھر جے کے ایل ایف کو ملک مخالف قرار دے کر غیر قانونی قرار دیا گیا اور اب مسلم لیگ اور تحریکِ حریت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ گوتم نولکھا کے بقول بھارت جب کشمیریوں پر جمہوری طریقے بند کر دے گا، تو لازماً اس کا نتیجہ عسکری تحریک کی صورت میں نکلے گا۔
اس وقت کشمیر میں تقریباً آٹھ سے نو لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات اور امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کے نام پر الگ سے فوج منگوائی جاتی ہے، آخر اتنی فوج کا کشمیر جیسی وادی میں کیا کام؟ جب ایک چھوٹی سی وادی میں آٹھ نو لاکھ فوج موجود ہو، ولیج ڈیفنس کمیٹی کے نام پر مسلح جتھے ہوں، آر ایس ایس کے غنڈوں کی کثیر تعداد میں نفری ہو، وہاں کس قسم کے خوف کا ماحول ہوگا؟ اس کا اندازہ آپ فلسطین کی صورتِ حال دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔
اسی خوف تلے کشمیر میں نفسیاتی امراض بالخصوص خواتین میں روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ Poly Cyst Ovarian Syndrome اس وقت وادئ کشمیر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ حرکت قلب بند (Cardiac Arrest ) ہونے کے کیسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کی یلغار میں اگر وادی کو بذریعہ ٹرین بھارت کی دیگر ریاستوں سے جوڑا جا رہا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبہ ساز ادارے کیا کرنے جا رہے ہیں۔ آخر بھارت اتنا بیوقوف بھی نہیں ہے کہ جو کشمیری مسلمان ان سے آزادی مانگتے ہیں اور ان پر پتھر برساتے ہیں، ان کے لیے وہ ۲۸ہزار کروڑ کی لاگت سے ٹرین کی سہولت فراہم کرے۔
بھارتی ریاستوں کے لوگ اس وجہ سے بھی کشمیر نہیں آتے تھے کہ بس، ویگن یا کار کے ذریعے کشمیر کا سفر دشوار گزار ہے، لیکن ٹرین کی آمد کے ساتھ یہ مشکل بھی ختم ہو جائے گی اور غیرریاستی لوگ مزدوروں اور سیاحوں کے نام پر سیلاب کی مانند کشمیر کا رخ کریں گے۔ نہرو نے سچ کہا تھا کہ بھارت کشمیریوں کو سونے کی زنجیروں میں جکڑ دے گا، اور زنجیر چاہے سونے کی ہو یا لوہے کی، ہرصورت میں یہ غلامی کی علامت ہوتی ہے۔ ٹرین سروس بھی کشمیریوں کے لیے غلامی کی زنجیر سے کم نہیں ہے۔ اس سروس کے بحال ہوتے ہی بھارت کی مختلف ریاستوں سے لوگوں کو لا لا کر وادی میں بسایا جائے گا اور انھیں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر مسلح کیا جائے گا، پھر جب بھارتی فوج، آر ایس ایس کے غنڈے اور یہ ہندو جتھے کشمیری مسلمانوں کا خون بہا رہے ہوں گے تو انھیں فسادات کا نام دے کر دبا دیا جائے گا۔ ۱۹۴۷ء میں جموں میں کیا جانے والا قتلِ عام، اس کی زندہ مثال ہے، جب تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کا نسلی صفایا کیا گیا اور پھر اسے تاریخ سے غائب کر کے کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔ آج کشمیر کی نئی نسل کو جموں قتلِ عام کے بارے میں بالکل بھی نہیں پتہ کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے ایک سال کے دوران مکتی باہنی اور بھارتی مداخلت کاروں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں غیربنگالیوں کا ہولناک قتل عام کروا کے اس کا تذکرہ غائب کرادیا گیا۔
ان دنوں کشمیر میں انتخابات کا بگل بجایا جا رہا ہے اور کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتیں اپنی بازی گری کے کرتب دکھانے میدان میں اُتری ہوئی ہیں۔ اس بار ان کا منشور ہے: ’دفعہ ۳۷۰ کو دوبارہ واپس لاکر رہیں گے‘۔ اب اس نام پر کشمیری عوام کو فریب دیا جا رہا ہے کہ اگر کشمیری عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں تو وہ دفعہ۳۷۰ کو واپس لا کر رہیں گے، جب کہ نریندر مودی نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہی کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت دفعہ ۳۷۰ کو واپس نہیں لا سکتی۔ انتخابات میں چاہے نیشنل کانفرنس جیتے، پی ڈی پی جیتے یا پھر الطاف بخاری کی پارٹی جیت جائے۔ یا اگر یہ ساری جماعتیں متحد ہوکر بھی جیت جائیں، تب بھی انھیں دلی کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہٰذا، کشمیر کے موجودہ انتخابات اس طرح سے بے حیثیت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اب رہا سوال نئی دہلی میں کون سی حکومت بنتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت آتی ہے تو اس سے بھارت کے مسلمانوں کو کچھ آسانی تو مل سکتی ہے، لیکن کشمیریوں کے لیے کسی قسم کی راحت (relaxation )نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی ہو یا کانگریس ، کشمیر میں ’ہندوتوا‘ کلائمکس پہ لے جانا دونوں صورتوں میں طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بی جے پی یہ کام کھل کے اور جلدی کرنا چاہتی ہے، جب کہ کانگریس آہستگی سے اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر کرنا چاہتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام واحد ایسے پیغمبر ہیں، جنھیں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگ یعنی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنا پیغمبر، پیشوا اور ابو الانبیا مانتے ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں جن سے یہودی ، عیسائی اور مسلمانوں کی نسلیں چل پڑیں۔ اسی لیے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت کو ابراہیمی مذاہب کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہےکہ ایک ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ان تینوں قوموں کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ماضی میں ہوئی ہیں، ابھی بھی ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ماضی میں صلیبی جنگیں ہوتی رہی ہیں، جب کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی باہم جنگیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔ تاہم، موجودہ دور میں یہود و نصاریٰ حکومتیں یک جان ہو کر عالم اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئی ہیں اور نائن الیون کے وقت امریکا کے صدر جارج بش نے کہا بھی تھا کہ صلیبی جنگیں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے ایک عشرہ قبل افغانستان میں جنگ کے بعد سوویت روس کے حصے بخرے ہوئے تو اس وقت مغربی اتحادی افواج (نیٹو) کے سربراہ سے جب پوچھا گیا کہ ’’سوویت روس کی شکست اور سقوط کے بعد کیا نیٹو اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا؟‘‘ تو اس پر نیٹو کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’’ابھی مغرب کا اصلی معرکہ باقی ہے جو اسلام سے خطرے کی صورت میں سامنے ہے۔ اس لیے ہم نیٹو اتحاد کو ختم کرنے کا خطرہ نہیں لے سکتے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت روس کی شکست کے بعد کہا تھا کہ ’’دنیا کے دو بڑے نظریات یعنی سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی لڑائی میں بالآخر سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism)کی جیت ہوئی اور تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو ماننے کے علاوہ کو چارہ نہیں ہے‘‘۔ فرانسس فوکویاما نے سرمایہ دارانہ نظام کو ’اچھا آدمی‘ اور سوشلزم کو ’بُرا آدمی‘ کہہ کر اچھائی اور بُرائی کی جنگ بتایا تھا، جس میں بقول فوکویاما کے بالآخر ’اچھے آدمی‘ کی جیت ہوئی۔ اسی طرح برنارڈ لیوس اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے مغربی نظام کے سامنے موجود دو بڑے چیلنجز اسلام اور چینی تہذیب کی نشان دہی کی تھی، جو مستقبل میں مغرب کے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔ اسی طرح امریکی مفکر ہنری کسنجر نے بھی یہی بات بڑی تفصیل سے کہی کہ اگر کبھی مستقبل میں مسلم ممالک چین کے قریب آتے ہیں تو اسی وقت مغربی ورلڈ آرڈر کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس پس منظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا کی تینوں بڑی تہذیبیں حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا باپ تسلیم کرتی ہیں۔ سوربون یونی ورسٹی کے اسکالر پروفیسر جی ایم ڈی صوفی رجسٹرار یونی ورسٹی آف دہلی، دو جلدوں میں اپنی مشہور کتاب Kashir, Being a History of Kashmir (مطبوعہ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۱۹۴۸ء) میں کشمیریوں کی تاریخ پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل کشمیری قوم فلسطین کے باشندے ہیں، کشمیری اور فلسطینی ایک ہی باپ کی دو اولادیں ہیں اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ملک کنعاں (موجودہ فلسطین) کے بنی قطورہ قبیلے کی خاتون سے شادی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں مال و اسباب دے کر فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ کنعان یعنی موجودہ فلسطین سے ہجرت کر کے یہ لوگ پہلے وسطی ایشیا پھر ترکستان کے شہر کاشغر اور آخر میں لداخ کے کوہستانی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے سونہ مرگ علاقے سے کشمیر میں داخل ہو گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔اس زمانے میں کشمیر میں کوئی آبادی نہیں ہوتی تھی اور کشمیر آنے والے یہ پہلے لوگ تھے جو آگے چل کر یہاں کے اصلی باشندے کہلائے۔ ان لوگوں نے اس نئی جگہ کو ’کشیر‘ نام دیا۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان عبرانی تھی اور اس وقت ملک کنعان یعنی فلسطین کی زبان بھی عبرانی ہوا کرتی تھی۔ایک یہودی مؤرخ بھی کشمیریوں کی فلسطین سے اس ہجرت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیری قوم بڑی بہادر قوم ہے۔ یہ لوگ ہر وقت وادی کے دروں کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں اور کسی بیرونی شخص کو وادی میں آنے سے روکتے ہیں۔ فطرتاً یہ قوم جنگجو اور محنت کش ہے اور مہمان نوازی میں بھی یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ لفظ ’کوشر‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ داردک زبانوں جیسا ہے نہ کہ سنسکرت جیسا۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ پر شب خون مار کر یہاں کی تاریخ کو بھی تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا۔ اس تاریخی بددیانتی کی ابتدا کلہن نامی شخص نے راج ترنگنی نامی کتاب لکھ کر کی تھی۔ یہ کتاب نہیں بلکہ دنیا بھر کے جھوٹ کا پلندہ اور دیو مالائی کہانیوں کا مجموعہ ہے، جو صرف اس لیے لکھی گئی تاکہ کشمیری قوم کی اسلامی شناخت کو تبدیل کر کے ہندو خاکے میں ڈھالا جا سکے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں ہوئی ہیں اور تا حال بھی ہو رہی ہیں۔ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵-الف کاخاتمہ اسی سمت کا سفر ہے۔ جس میں یہاں پر موجود مسلمانوں کا قتلِ عام کا کام ہی باقی بچا ہے اور یہ کام ایک خاص منصوبے کے تحت جاری ہے۔
ہم چاہیں گے کہ پہلے مرحلہ وار طریقے سے کشمیری قوم کی اصل سے واقف کرائیں ، اس کے بعد مسئلہ کشمیر کے آغاز اور جموں میں ہونے والے قتل عام اور مستقبل میں کشمیر میں آر ایس ایس اور بھارت کے منصوبے پر بھی بات ہوگی۔ بدقسمتی سے کلہن کے بعد آنے والے ہر مؤرخ، جس نے بھی کشمیر کی تاریخ پر قلم اٹھایا، راج ترنگنی کو حرفِ آخر جان کر اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ کلہن، ’شیومت‘ کا ماننے والا تھا۔ اس نے کشمیریوں کی تاریخ میں ہندوانہ رسومات کا ذکر زیبِ داستان کے لیے کیا۔ کشمیریوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ یہودیوں کے گیارہ قبیلوں میں سے ایک کھویا ہوا قبیلہ ہے، ایک مفروضہ ہے۔ کلہن نے کشمیری قوم کی کنعان سے ہجرت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ کشمیر کے ہندو بادشاہوں کا ہی ذکر کیا ہے۔ کشمیری قوم حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ضرور ہے، لیکن یہودیوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہودی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کی اولاد ہیں، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا اور اسی نسبت سے یہودیوں کو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہا جاتا ہے، جب کہ کشمیریوں کے بارے میں اس چیز کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
فلسطین سے ہجرت کے بعد کشمیریوں نے پہلے پہل اپنے آبائی دین ’دین اسلام‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، لیکن رفتہ رفتہ صدیاں گزرنے کے ساتھ برصغیر میں پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کے عروج کے ساتھ کشمیریوں پر بھی ان کے اثرات پڑے اور انھوں نے پہلے بدھ مت اور پھر ہندومت کو اختیار کیا۔ اس بات کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں کہ بدھ مت کے بڑے بزرگوں کی کانفرنس کشمیر میں ہی ہوتی تھی اور کشمیر میں ہی پہلی بار بدھ مت کے قوانین تانبے کی چادروں پر لکھے گئے اور پھر زمین کے نیچے دفن کیے گئے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کو اس کے شواہد کشمیر کے خطہ لداخ میں ملے ہیں۔ کشمیر کو وسط ایشیا سے جوڑنے والا راستہ جو بانڈی پورہ کے گریز علاقے سے گزر کر گلگت سے آگے بڑھتا تھا۔ مذکورہ قوانین اسی راستے سے وسط ایشیا پہنچے اور وہاں بدھ مت کا پھیلاؤ ہوسکا۔
صدیوں بعد ترکستان سے حضرت عبدالرحمان بلبل شاہ ترکستانی اور پھر ہمدان کے میرسیّدعلی ہمدانی اسلام کی دعوت لے کر کشمیر آئے تو وہ بھی اسی شاہراہِ ریشم کے راستے کشمیر میں وارد ہوئے۔ کشمیر پہنچ کر یہاں کی ہندو آبادی کے سامنے جب انھوں نے اسلام یہ کہہ کر پیش کیا کہ دراصل یہ وہی دین ابراہیمی ہے، جس کی تعلیم حضرت ابراہیمؑ نے دی تھی، تو کشمیری قوم جوق در جوق اسلام قبول کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ پورے کشمیر میں صرف گیارہ گھر ہی ہندو رہ گئے اور اسی وقت سے یہ مثل مشہور ہوگئی: ’کشیر چھ کاہے گھر‘ یعنی اصلی کشمیری اب صرف گیارہ گھر بچے ہیں باقیوں نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس بات سے خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی کہانی جان بوجھ کر الجھائی گئی ہے تاکہ اس قوم کا اسلام کے ساتھ رشتہ کاٹ دیا جائے۔ اس طرح کی ہندوانہ تاریخ لکھنے والے نام نہاد مؤرخوں کی سرکاری سطح پر ہمیشہ سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے، جنھوں نے صوفیت اور ریشیت کا شوشہ چھوڑ کر، جو کہ اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہے، اور جو اس جھوٹ کو حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کی تاریخ ہندو مذہب کی پروردہ رہی ہے اور ہندو مذہب ہی کشمیریوں کا حقیقی مذہب ہے۔
فلسطینیوں اور کشمیریوں کی قسمت دیکھیے کہ دونوں برادر قوموں کی ایک جیسی تقدیر ہے۔ فلسطینی قوم اگر یہود کے ہاتھوں تختۂ مشق بنی ہوئی ہے تو کشمیری قوم، اہل ہنود (ہندو قوم) کے ہاتھوں تختۂ مشق بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر بالخصوص اہل غزہ پر جو قہر ڈھایا جا رہا ہے، کچھ اسی طرح کی منصوبہ بندی کشمیری قوم کے بارے میں بھی بنائی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کچھ عناصر رکاوٹ بنےہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر یہ رکاوٹیں دُور ہوگئیں یا کمزور پڑگئیں تو جو منظرنامہ اس وقت غزہ میں بنا ہوا ہے، وہی المیہ کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے اور بھارت کی ایک سخت گیر ہندو فاشسٹ حکومت اسی جانب بڑھ رہی ہے۔ جنوری ۲۰۲۴ء سے جموں سرینگر ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے، جس پر ۲۸ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اگرچہ بتایا یہی جا رہا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے سے کشمیر میں ترقی کو فروغ ملے گا اور کشمیر کی سیاحت انڈسٹری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن غور کیا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دراصل یہ ٹرین پراجیکٹ کشمیر کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کیا گیا ہے، جس سے کشمیریوں کا روز مرہ کا سفر آسان تو ہوجائے گا لیکن آزادی کی منزل بہت دُور ہو جائے گی۔
تقسیم برصغیر کے وقت کشمیر کی بھارت کے ساتھ صرف ۱۸ فی صد سرحد ملتی تھی اور وہ بھی دریائے راوی، جو پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے آخری گاؤں لکھن پور کو آپس میں تقسیم کرتا تھا۔ اُس زمانے میں یہ راستہ بالکل ناقابلِ استعمال تھا، بلکہ اگر اسے راستے کے بجائے پگڈنڈی کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ چونکہ کانگریس کی قیادت پہلے ہی شیخ محمد عبداللہ کو اپنے رنگ میں رنگ چکی تھی اور کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے بہت پہلے ہی کانگریس کے ساتھ مل کر کشمیر کو ہندستان سے جوڑنے کا منصوبہ بنالیا تھا، اس خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پٹیالہ فوج ، ڈوگرہ فوج، بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے ہتھیار بند جتھوں نے مل کر جموں صوبے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمان بچیوں کو اغوا کیا گیا اور ان کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے وقت پنجاب میں جو قتلِ عام کیا گیا، وہ اسی لیے تھا تاکہ کسی بھی طرح سے وادئ کشمیر پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایک بار وادی قبضے میں آ گئی، پھر لداخ، گلگت اور بلتستان کے پہاڑی سلسلے کو ہدف بنایا جاسکتا تھا اور شاہراہِ ریشم بھارت کے تسلط میں آجاتی۔
۷۰ سال پہلے جس قتلِ عام کی ابتدا جموں صوبے سے کی گئی تھی، آج پوری ریاست میں اسی طرح کا قتلِ عام مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب چونکہ بھارت نے دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-الف کو ختم کر کے جموں وکشمیر کو مکمل طور پر بھارتی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا ہے، تو صورتِ حال اور بھی خوفناک ہونے والی ہے۔ مذکورہ بالا دفعات کے ہوتے ہوئے اس بات کا کم از کم یقین تھا کہ بھارت کی کسی دوسری ریاست کا باشندہ کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ لیکن ان کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ دیوار بھی درمیان سے ہٹ گئی ہے۔