ہماری قوت کا سرچشمہ بہ حیثیت اُمت قرآن کریم ہے۔ قرآن پاک اور سنت ِ رسولؐ اور سیرتِ رسولؐ کے ذریعے ہی مسلمانوں نے دُنیا میں عزت پائی ہے۔ علمائے اُمت نے اس راز کو پاکر ہمیشہ قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر اور سیرتِ رسولؐ کو اہمیت دی ہے۔ ماضی قریب میں برعظیم میں حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کے خاندان نے قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کا آغاز کیا اور اس راہ میں تکالیف بھی برداشت کیں۔ شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمۃ اللہ علیہ نے مالٹا کی قید سے واپسی کے بعد ایک اجتماع میں فرمایا: میں نے مالٹا کی اسیری کے دوران غور کیا تو مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب قرآن پاک سے دُوری ہے اور دوسرا سبب تفرقہ اور باہمی تنازعات ہیں۔ میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ ان دو بیماریوں کا علاج کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اس کے لیے قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور تفسیر مولانا علامہ شبیراحمدؒ عثمانی نے کی۔
خدمت ِ قرآن کے سلسلے میں ایک اہم خدمت معلم القرآن ہے۔ یہ کوشش پروفیسر قاری جاویدانور صدیقی صاحب نے کی ہے، تاکہ آسانی کے ساتھ ایک شخص محض قرآن پاک کے تحت اللفظ ترجمے کے ساتھ بین السطور بریکٹ میں مختصر تفسیری نکات کے ذریعے قرآن پاک کو مطالعے کے دوران سمجھ سکے۔ فاضل مترجم کی یہ کوشش بھی قابلِ قدر ہے۔ تاہم، اس کی افادیت کو پرکھنے کے لیے لوگوں میں اس کا مطالعہ کرنے اور قرآن پاک کو سمجھنے اور پڑھنے کے قابل ہونے سے ہوگا۔ ان شاء اللہ یہ خدمت مترجم کے لیے اجروثواب کا باعث ہوگی۔(مولانا عبدالمالک)
ہرزمانہ کسی نہ کسی فکر کے غالب دھارے میں اپنا سفر جاری رکھے ہوتا ہے۔ بہرحال، زیادہ تر ’جاہلیت کی فکر‘ ہی کی فرماں روائی رہی ہے، جسے تبدیل کرنے کے لیے انبیاؑ و رُسلؑ آئے، اور پھر یہ سلسلہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صلحائے اُمت سے منسوب ہوا۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے معروف استاد جناب عبیداللہ فہد فلاحی نے اسلامی فکر کی ٹھوس بنیادوں کو اُجاگر کرتے ہوئے، زیرنظر کتاب میں خاص طور پر عہد حاضر کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس طرح انھوں نے اسلامی تحریکوں کے سامنے یلغار کرتے ہوئے مغربی اور تجددپسندانہ افکار کی ماہیت کو متعین کیا ہے۔ پھر حقیقی چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے معاصر اسلامی مفکرین اور محققین اور میدانِ عمل میں سرگرم افراد کے قول، فعل اور فکر کا تجزیہ کیا ہے۔
اسلامی فکر آج دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک طرف روایتی طرزِفکر ہے تو دوسری جانب خود دینِ اسلام کو عصرحاضر کے مطابق ڈھالنے کا خبط دندنا رہا ہے۔ اس عمومی رواج کے بارے میں وہ مولانا مودودی کا قول درج کرتے ہیں: ’’وہ ہرشخص جو نیا طریقہ نکالے اور اس کو ذرا زور سے چلا دے، اور اپنے زمانے کی برسرِ عروج جاہلیت سے مصالحت کرکے اسلام اور جاہلیت کا نیا مخلوطہ تیار کردے، یا فقط نام باقی رکھ کر اس قوم کو پوری جاہلیت کے رنگ میں رنگ دے، ان کو ’مجدد‘ کے خطاب سے نواز دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ ’مجدد‘ نہیں ’متجدد‘ ہوتے ہیں، اور ان کا کام تجدید نہیں، ’تجدد‘ ہوتا ہے‘‘ (تجدید و احیائے دین، ص۴۳)۔ یوسف القرضاوی کہتے ہیں: ’’یہ لوگ ’مبدّدین‘ (دین کو ملیامیٹ کرنے والے) ہیں، مجددین نہیں‘‘(ص۱۷۶)۔ اس پس منظر میں وہ ایک جگہ جاوید احمد غامدی صاحب کی فکری پرواز پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انھوں نے اپنے تفردات کے لیے نئی زمینوں کی تلاش شروع کی‘‘ (ص۱۷۸)۔
جناب فہد نے اس کتاب میں نہ صرف اس سے ملتی جلتی صورتوں کو پیش کیا ہے، بلکہ خود اسلامی تحریکوں میں، اسلامی فکر کے جدید چیلنجوں کی مناسبت سے جواب دینے میں کمی کو بھی نمایاں کیا ہے۔(س م خ)