پاکستان کے سرسبز و شاداب کھیتوں پر مبنی منظرنامہ جو اپنی پیداواری صلاحیت کے لیے معروف اور مسرت و سرشاری کا باعث ہے، آج ایک زبردست چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ زرعی فضلے کا تشویش ناک مسئلہ اور سموگ کے بڑھتے ہوئے بحران کا اہم سبب ہے۔ اس پیچیدہ مسئلے کی جڑیں روایتی کاشتکاری کے طریقوں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور فضلہ کی تلافی کی مؤثر حکمت عملیوں کے فقدان سے جڑی ہوئی ہیں۔ چونکہ پاکستان کو زرعی فضلے کو جلانے سے سموگ کے بحران کا سامنا ہے، اس لیے ایسے پائیدار حل کی فوری ضرورت ہے، جو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درپیش چیلنج کا سامنا کرسکے۔
پاکستان میں کسان محدود متبادل ذرائع کی وجہ سے روایتی طریقوں کو اپنانے پر مجبور ہیں اور اکثر پائیدار طریقوں کے بارے میں فہم نہیں رکھتے۔ نتیجتاً زرعی فضلہ تلف کرنے کے لیے جلانے کے پرانے طریقہ کا سہارا لیتے ہیں۔ گنے، گندم اور چاول جیسی فصلوں کی باقیات کو جب آگ لگائی جاتی ہے تو فضا میں آلودگی کا ایک نقصان دہ کاک ٹیل خارج ہوتا ہے۔ سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کا ایک خطرناک امتزاج ہے جو فضا اور صحت عامہ کے لیے شدید خطرہ ہے۔ سموگ کی تشکیل سے بہت سے مضر نتائج سامنے آ رہے ہیں، جن میں زمین کی زرخیزی کا متاثر ہونا، قیمتی غذائی اجزا کا نقصان اور کسانوں کی صحت کو لاحق خطرات براہِ راست سموگ اور اس فضا کا نتیجہ ہیں۔
پاکستان میں زرعی فضلہ کی صحیح مقدار کا تعین کرنا کاشتکاری کے مختلف طریقوں اور فصلوں کی پیداوار میں تغیر کی وجہ سے ایک مشکل کام ہے۔ تاہم، مختلف اندازوں کے مطابق سالانہ لاکھوں ٹن زرعی فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف گندم کے بھوسے کی پیداوار کا تخمینہ ۳۵سے ۴۰ملین ٹن سالانہ ہے۔ فضائی آلودگی اور سموگ پاکستان میں خاص طور پر شہری اور صنعتی علاقوں میں ایک بڑی ماحولیاتی تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ گاڑیوں سے دھوئیں کا اخراج، صنعتی آلودگی اور زرعی فضلے کے جلانے سے زہریلے مرکبات سے فضا بہت زیادہ آلودہ اور زہرناک ہے۔ سموگ نہ صرف بینائی کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے سانس کے مسائل، دل کے امراض اور دیگر سنگین بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سموگ سے متعلقہ مسائل کا حل بائیو ریفائنریوں کے قیام سے ممکن ہے۔ اس سے مراد زرعی فضلہ کو مفید مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ساتھ ڈیزائن کی گئی سہولیات ہیں۔ اس نقطۂ نظر کا مقصد زرعی فضلہ کو قیمتی وسائل میں تبدیل کرنا ہے اور کسانوں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے نقصان دہ عمل سے بچانے کے لیے معاشی طور پر قابلِ عمل متبادل فراہم کرنا ہے۔ بائیو ریفائنریاں ایک کیمیائی محلول پر کام کرتی ہیں جو زرعی فضلے میں موجود مفید سیلولوز اور سائیکلک مرکبات کی صلاحیت کو زیراستعمال لاتی ہیں۔ جدید ٹکنالوجی سے ان مرکبات کو صنعتی عمل میں ڈھال کر چپ بورڈز اور بائیومیٹریلز جیسی مصنوعات تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ ٹکنالوجی سموگ کے بحران کو کم کرتی ہے اور ایک پائیدار اور ترقی پذیر معیشت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ڈنمارک کی ڈونگ انرجی ایک بائیور ریفائنری چلاتی ہے، جو زرعی باقیات، جیسے بھوسے کو بائیوایتھانول میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ عمل فضلہ کو استعمال کرکے نہ صرف کاربن کے اثرات کو کم کرتا ہے بلکہ بایوایندھن کو ایک پائیدار ذریعہ بناکر معاشی خوش حالی میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔ اسی نوعیت کے پلانٹ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ’بائیوانرجی‘ تیار کرتے ہیں جو زرعی باقیات بشمول مکئی کے خالی سِٹوں کو سیلولوسک ایتھنول میں تبدیل کرتا ہے۔جنوبی افریقہ میں ساپی کی نگوڈوانا انرجی بائیو ریفائنری توانائی پیدا کرنے کے لیے جنگلات کی صنعت سے حاصل ہونے والے فضلہ کو استعمال کرتی ہے۔ قابلِ تجدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے، یہ بائیوریفائنریاں صنعت میں روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہیں اور روایتی ایندھن کے بہتر متبادل کی پیداوار کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے اور اقتصادی خوش حالی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
کمپریسڈ مشینوں کے استعمال اورکیمیائی عمل سے ایک مکینیکل حل نکلتا ہے۔ یہ مشینیں زرعی فضلہ کی بڑی مقدار کو مربوط شکلوں میں تبدیل کرسکتی ہیں اور دوبارہ تیار کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہیں، جسے بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ کمپریسڈ باقیات جلانے کے روایتی عمل سے ہٹ کر ایک صاف اور مؤثر ایندھن کے طور پر کام کرسکتی ہیں۔ کمپریسنگ ٹکنالوجی نہ صرف سموگ کی فوری تشویش کو کم کرتی ہے، بلکہ ایک زیادہ پائیدار اور ماحول دوست طریقہ کی طرف منتقلی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ کمپریسڈ زرعی فضلہ کا ایندھن کے طور پر استعمال، فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سموگ کے بحران میں اضافہ کرنے والی نقصان دہ آلودگی کے اخراج کو بھی روکتا ہے۔
پاکستان میں سموگ کے بحران کے بنیادی اسباب سے نمٹنے کے لیے علاقائی بائیو ریفائنریوں کے قیام کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال، متبادل ذرائع نہ ہونے اور عجلت پسندی کے سبب کسان بائیوفضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لیے جلانے کو واحد قابلِ عمل حل سمجھتے ہیں۔ حکومتی اقدامات اور پرائیویٹ سیکٹر بائیو ریفائنریوں کے فروغ اور معاونت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ کسانوں کو ایسے متبادل فراہم کرسکتے ہیں، جو فضلہ کے مسئلے کو حل کریں اور روزگار کی فراہمی میں مثبت کردارادا کریں۔ کاشت کاروں کو بائیو ریفائنریوں کے فوائدکے بارے میں آگاہ کرنا اور انھیں ضروری آلات اور وسائل سے آراستہ کرنا ایک پائیدار مستقبل کی جانب لازمی اقدام ہے۔ اس تبدیلی کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے، جس میں پالیسی ساز، زرعی ماہرین اور کسان برادری شامل ہوں۔ بائیو ریفائنری کے طریقوں کو اپنانے کے طویل مدتی فوائد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، جلانے کے روایتی چکّر کو توڑنے اور زیادہ پائیدار اور ماحولیاتی نظام کی ابتدا کے لیے ناگزیر ہے۔
سموگ کے بحران کے پیش نظر، پاکستان کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینے اور ٹھوس کوششوں کا احیا ناگزیر تقاضا ہے۔ بائیو ریفائنریز کو اپنانا، آگاہی مہموں اور ایکسپورٹ پالیسی کے ساتھ، نہ صرف فوری مسائل کو کم کرنے ، بلکہ زرعی فضلے کو قیمتی وسائل میں تبدیل کرنے اور ملک کے لیے صحت مند اور پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کی کلید ہے۔ حقائق پر مبنی اعداد و شمار اس مسئلے کی طرف فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں، اور مقامی اور قومی سطح پر باہمی اور مؤثر حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔