جون ۲۰۲۴

فہرست مضامین

جماعت اسلامی کی دعوت اور تعارف

میاں طفیل محمد | جون ۲۰۲۴ | دعوت وتحریک

Responsive image Responsive image

میاں طفیل محمد
سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان  [۱۹۷۲ء-۱۹۸۷ء]

  • جماعت اسلامی کا مقصد ِ وجود کیا ہے؟
  • اس کی تاسیس کے محرکات کیا تھے؟
  • اوراس کا طریقِ تنظیم کیا ہے؟

یہ ہیں وہ سوالات، جو ممکن ہیں کہ جماعت کے پرانے ارکان و کارکنان کے نزدیک زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہوں، لیکن جو بے شمار نئے رفقا جماعت کو میسر آئے ہیں، اور مستقبل میں جو ان شاء اللہ جماعت اسلامی کے قریب آئیں گے، اُن کے لیے یہ یقینا دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ ایسے حضرات اور خواتین کو کماحقہٗ علم نہیں کہ جماعت اسلامی کی غرض اور مقصد ِ وجود کیا ہے؟ وہ شاید اس کو بھی دیگر دینی و مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی یا اُن سے نسبتاً کچھ زیادہ منظم جماعت خیال کرتے ہوں۔ ایسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، جو رُکن سازی کا کام ماتحت جماعتوں کے سپرد ہوجانے کے بعد جگہ جگہ نیم پختہ کارکنوں کو جماعت میں شامل کرلینے کے نتیجے میں جماعت میں پیدا ہوگئی ہیں، اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اصل حیثیت کو واضح کردوں۔

جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر جماعت: جماعت اسلامی نہ عام مذہبی اور دینی و مذہبی جماعتوں کی طرح محض ایک مذہبی و دینی جماعت ہے اور نہ عام سیاسی یا اصلاحی جماعتوں کی طرز کی کوئی محض سیاسی، اصلاحی اور رفاہی جماعت ہے۔ یہ دراصل اللہ کے اُن صاحب ِ احساس و شعور بندوں کی جماعت ہے، جواپنے اُس فرض کی ادائیگی کے لیے اُٹھے ہیں جو انسان کی تخلیق و آفرینش کا اصل مقصد ہے، جسے ہمارے خالق و مالک اور پروردگار نے ہمیں انسان اور مسلمان کی حیثیت سے پیدا کرکے ہمارے ذمے لگایا ہے، اور جس کی ادائیگی کے بغیر بحیثیتِ انسان اور بحیثیتِ مسلمان ہم اپنے انسانی و اسلامی منصب کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں۔ صرف آخرت ہی نہیں بلکہ اس دُنیا میں بھی ہم اس شرف اور مقام سے ہم کنار نہیں ہوسکتے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا اور اس کی دسترس میں رکھا ہے۔

یہ فریضہ اور یہ ذمّہ داری کیا ہے؟ اسے خالق کائنات نے اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو وہ اسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور وہ اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اس کو اُٹھا لیا‘‘۔(الاحزاب۳۳:۷۲)

یہ امانت جسے انسان نے آگے بڑھ کر اُٹھا لیا، کیا تھی؟ دراصل یہ ’خلافت‘ کی ذمہ داری تھی، چنانچہ اس عظیم منصب پر انسان کے تقرر کی رسم یوں ادا کی گئی:

جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں‘‘، تو انھوں نے عرض کیا: ’’ آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)

اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرشتوں کو اس بات کا مشاہدہ کرایا کہ مَیں انسان کو ’خلافت‘ ہی نہیں اس کے ساتھ علم اور ہدایت بھی دے رہا ہوں اور اس کے بعد فرشتوں کو بھی آدم کی اطاعت کا پابند کردیا: ’’اور ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائو‘‘(البقرہ ۲: ۳۴)۔ درحقیقت ’خلافت‘ کا یہ منصب صرف حضرت آدم ؑ کے لیے خاص نہیں تھا۔ ہرانسان اس منصب پر فائز ہے۔

قرآنِ مجید میں وضاحت ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم لوگوں کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (الانعام ۶:۱۶۵)

پھر یہ منصب ِ خلافت کسی ایک دور کے لوگوں تک محدود نہیں رکھا گیا ہے، ہر دور اور ہرنسل کے لوگ اس منصب ِ خلافت پر فائز ہیں اور ان کا امتحان لیا جارہا ہے کہ وہ اس کا حق کیسے ادا کرتے ہیں؟ ارشاد ہوتا ہے: ’’پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا کہ دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو‘‘۔ (یونس۱۰:۱۴)

’خلیفہ‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس دائرئہ زندگی میں خلافت (آزادی سے کام کرنے کا اختیار دیا ہے) وہ خود بھی خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اور اس کا پسندیدہ نظامِ زندگی اختیار کرے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے اور اس کا پابند بنائے اور انھیں خالق کی سرکشی سے باز رکھے۔

احکامِ الٰہی کی پابندی کیوں؟ :انسان کو آزادی اور حقِ خود اختیاری حاصل ہونے کے باوجود اِسے احکام و ہدایاتِ خداوندی اور اس کے مقرر کردہ نظامِ زندگی کی پابندی کیوں کرنی چاہیے؟ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دلیل ارشاد فرمائی ہے :

آگاہ رہو کہ مخلوق اس کی ہے تو پھر اُس پر حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔(الاعراف ۷:۵۴)

نیز فرمایا کہ تمھارے چاروں طرف زمین و آسمان کی ہرشے اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہے تو کیا تم باقی ساری مخلوق سے الگ کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہو؟

اصل الفاظ یہ ہیں: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقِ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اللہ ہی کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہیں اور آخرکار ان سب کو پلٹ کر بھی اُسی کے پاس جانا ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۸۳)

خدا کی مخلوق بسے اس کی زمین پر، تمام سامانِ زندگی وہ عطا فرمائے، پھر اطاعت اور بندگی اُس خالق و مالک کی چھوڑ کر کسی اور کی کیوں اور کیسے کرنے کا حق دار ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے: یہ خدا کا مقرر کردہ نظامِ زندگی (دینُ اللہ) کیا ہے؟

  •  اللہ نے تمھارے لیے زندگی کا ایک متعین طریقہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک اسی پر گامزن رہنا۔ (البقرہ۲:۱۳۲)
  •  اللہ کے نزدیک تمھارے لیے زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ صرف اسلام (اللہ کے آگے سرتسلیمِ خم کیے رہنا) ہے۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۹)
  • جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی اور طریقِ زندگی پر چلے گا وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔(اٰلِ عمرٰن۳:۸۵)

بلکہ جو لوگ یہ صحیح راہ پالینے کے بعد اسے چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیارکریں ان کے لیے تو پھر سیدھی راہ پانے کا راستہ ہی بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کج رو لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے:

كَيْفَ يَہْدِي اللہُ  قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۸۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۸۶)آخر اللہ ایسے لوگوں کو کیسے اور کیوں صحیح راہ دکھائے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے اور رسول کے حق ہونے کی گواہی دینے کے بعد پھر کفر کی راہ اختیار کرلی اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

تمام انبیائے علیہم السلام کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ یہ ایک ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان وہی ہے، کائنات اور ماحو ل وہی ہے، انسان کی فطرت اور جذبات و نفسیات اور ضروریاتِ زندگی بنیادی طور پر وہی ہیں، تو اس کے لیے زندگی کا نظام اور قانون بھی وہی رہے گا، جو ابتدا سے انسانی فطرت پر مبنی رائج ہے۔ پانی، ہوا، روشنی، گرمی، سردی، نباتات و جمادات اور ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے لیے اوّل روز سے آج تک قوانینِ قدرت کا ایک ہی مجموعہ رائج ہے، جن کے تابع یہ تمام اشیاء کام کرتی ہیں اور جن کی وہ پابند ہیں۔ ان میں کبھی کسی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیونکہ اُن کی فطرت و ماہیت، اُن سے متعلق قوانین میں بھی کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ آئے گی۔

جب تک پانی پانی ہے اور ہوا ہوا ہے، ان سے متعلق قوانینِ قدرت وہی رہیں گے جو اوّل روز سے ان پر لاگو ہیں۔ بلکہ ان کے اٹل اور غیرمتبدل ہونے پر ہی علومِ طبیعی اور تمام سائنسی ترقیات کا مداروانحصار ہے۔ جس قدر انسان ان قوانین کے بارے میں اپنی معلومات اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنے کی استعداد بڑھاتا جارہا ہے، اس کے علمی اور سائنسی کمالات حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ ہر صاحب ِ عقل انسان یہ امرواقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ انسانی ترقی کا سارا راز اللہ تعالیٰ کے قوانین کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور زیادہ سے زیادہ خوبی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں پوشیدہ ہے، خواہ اس کا تعلق انسان کی مادی اور طبعی زندگی سے ہو، جدید سائنس کا میدان ہو یا اخلاقی اور دینی زندگی کا، جس کے بنیادی قوانین و ضابطے ہمیں قرآن و سنت بتاتے ہیں۔

انسانی فطرت کی پکار :ان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر انسان اپنی اختیاری زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بھی وہ ضابطے اور قواعد و آداب سمجھتے ہوئے اختیار کرلے جو انسانی فطرت کے ٹھیک اسی طرح مطابق ہیں جیساکہ پانی، ہوا اور روشنی اور انسانی جسم کی طبعی صحت سے متعلق خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت ہیں، پھر اُن کے مطابق اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے تو وہ اپنی معاشرتی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں بھی مطابقت، باہمی اتفاق اور تعاون کے وہی کرشمے دیکھے گا، جو لوہے اور دھات کے ٹکڑوں کو قانونِ خداوندی میں جکڑ کر چاند اور مریخ تک پہنچنے کی شکل میں دیکھ رہا ہے۔

اس کائنات اور خود انسان کی زندگی کے طبعی دائرے کے لیے مقرر قوانینِ قدرت، اور انسانی زندگی کا اختیاری شعبوں کے لیے مقرر قوانینِ خداوندی دونوں کا سرچشمہ اورقانون ساز وہی قادرِ مطلق خالق ارض و سما ہے۔ مثال کے طور پر خالق نے کائنات اور خود انسان کے ذرّے ذرّے پر کچھ قوانین کو جبری طور پر نافذ کردیا ہے۔ اس لیے اس سے انحراف کی سزا اور انجامِ بد فوراً ظاہر ہوجاتاہے۔ جیسے: کوئی شخص زہر کھالے، یا آگ میں ہاتھ ڈال دے، یا بجلی کی رو کو چھوجائے تو نتیجہ خود واضح کردے گا کہ یہ غلط کام کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے جبری قوانین کو سکھانے کے لیے کسی نبی اور رسول کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی تجربہ و مشاہدئہ قدرت ہی اس کے لیے کافی تھے۔

اسی طرح ایک دوسری قسم ہے قوانین کی، جن میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے، آزادی دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے: سچائی میں ہمیشہ فائدہ اور فریب میں ہمیشہ نقصان نہیں ہوتا۔ انصاف و شرافت برتنے کا انجام ہمیشہ بھلائی اور ظلم و سفاکی سے ہمیشہ خرابی نمودار نہیں ہوتی۔ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرکے آدمی بسااوقات مشکلات و مصائب میں گھر جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی و سرکشی کی راہ اختیار کرکے عیش و فراوانی کی زندگی بھی گزارتا ہے۔ اس لیے کہ اس دائرئہ زندگی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانینِ قدرت کو جبری طور پر نافذ نہیں کیا، بلکہ ان کو اختیار کرنا، یا ان کو رَد کرنا انسان کے اختیاراتِ تمیزی پر منحصر رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آزمایش و امتحان اور خلافت کا سوال ہی باقی نہ رہتا۔ ان قوانین کو چونکہ انسان تجربے و مشاہدے اور سائنسی طریقوں سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کرسکتا تھا، اس لیے پہلے ہی روز انسان کو بتادیا کہ دائرئہ خلافت میں اس کے لیے ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ خود بتائے گا:

ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرہ ۲: ۳۸-۳۹)

lدین ، دُنیا میں عملًا قائم کرنے کے لیے ہـے :چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو طریقِ زندگی (دین) مقرر کیا ہے، وہ ہر دور اور ہرنبی اور رسول کے زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اس کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح انسان ہمیشہ سے وہی ابنِ آدم اور اسی فطرت پر ہے جس فطرت پر وہ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، تو اس کی زندگی کے لیے مقرر کردہ اللہ کا دین اور ضابطۂ حیات مختلف زمانوں میں مختلف کیسے ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:

اے محمدؐ! کہہ دو کہ ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اُس کے اس دین کو مانتے ہیں جو ہم پر اُترا، جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر اُترا اور جو موسٰی اور عیسٰیؑ کو اور دوسرے انبیاؑ کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم تو صرف اللہ کے تابع فرمان ہیں۔(اٰلِ عمرٰن ۳:۸۴)

دوسری جگہ اس صراحت کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ دین زبانی اور صرف انفرادی طور پر ماننے اور عمل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ دُنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے ہے:

اُس (اللہ) نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب (قرآن کی صورت میں) تمھاری طرف وحی کیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسٰیؑ کو دیا تھا۔ (اور سب کو یہ حکم دیا تھا) کہ اس دین کو قائم کرو اور اس کام میں کوئی اختلاف نہ کرو۔(شوریٰ۴۲:۱۳)

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض :حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ وضاحت سے فرمایا:’’اس نے اپنے رسولؐ کو دین حق اور اس بارے میں ضروری ہدایات دے کر اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ خدا کے دین کو دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کردے‘‘۔(التوبہ۹:۳۳ ، الکہف۱۸:۲۸، الصف۶۱:۹)

چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لیے آں حضورؐ کے بعد آپؐ کے مشن کو تاقیامت جاری اور برپا کرنے کی ذمہ داری آپ سے آپ آپؐ کی پیرواُمت پر آجاتی ہے، لیکن اسے قیاس اور اندازے لگانے پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ اُمت کو صاف صاف بتا دیا گیا:

اللہ نے تمھارا نام مسلمان (اپنی تابع فرمان رعیّت) رکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس منصب پر فائز لوگوں کا یہی نام رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی تمھارا نام یہی رکھا گیا ہے (اور یہ اس لیے کیا گیا ہے) کہ رسولؐ تم پر خدا کے دین کی شہادت قائم کرے اور تم دوسرے لوگوں پر اس کی شہادت قائم کرو۔ (الحج۲۲: ۷۸)

اور اس طرح ہم نے تمھیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر خدا کے دین کے گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔ (البقرہ۲:۱۴۳)

اس فریضے کی ادائیگی سے کسی حال میں کوئی مسلمان سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ حضورؐ نے فرمایا:

تم میں سے جو کوئی خدا کی نافرمانی کی حالت کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے قوتِ بازو  سے اطاعت ِ الٰہی کی حالت سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لازم ہے کہ اس صورتِ حال کے خلاف آواز بلند کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ اس سے دل سے نفرت کرے۔[مسلم، باب النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۱۸۶]

بـے وفائی کا مسئلہ :ان تمام حقائق و احکام کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو اپنی مملکت کے کسی حصے کا گورنر یا کسی ضلع کا حاکم بنا کر بھیجے، اور وہ اپنی حکومت کے احکام بجا لانے اور نافذ کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرنے لگ جائے، یا کسی دوسری حکومت کی اطاعت کرنے لگے، تو اس کو مقرر کرنے والی حکومت ایسے نمک حرام گورنر اور ضلعی افسر سے کیا سلوک کرے گی؟ وہی جو ایک نمک حرام کے ساتھ ہونا چاہیے یا کچھ اور؟

اسی طرح اگر ہم لوگ، جن کو خو د خالقِ کائنات نے انسان کی حیثیت سے پورے کرئہ ارض کی مخلوق میں سے چُن کر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، اسلام کی روشنی اور اس پر ایمان کی نعمت سے نوازا۔ ہم نے گلی گلی اعلان کیا کہ ہمیں اگر تو انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزاد ملک عطا فرمائے، تو ہم تیرے شکرگزار بندے بن کر تیرا پسندیدہ نظامِ زندگی یہاں قائم کریں گے اور تیرے دین کی شہادت ایک مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کی صورت میں ساری دُنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس پر اُس نے ہمیں دُنیا کی ایک بڑی مسلم مملکت عنایت فرمائی، لیکن ہماری طرف سے بحیثیت قوم سوائے بے وفائی اور وعدہ خلافی کے کوئی چیز سامنے نہ آئی، تو مالک ِ کائنات سے ہمیں اپنے ساتھ کس سلوک کی توقع کرنی چاہیے؟

آدھے سے زیادہ ملک کھو چکے ہیں اور باقی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

جماعت اسلامی کا مقصد :جماعت اسلامی زمین پر خلافتِ الٰہی کے اسی انسانی فرض اور فریضۂ اقامت ِ دینِ حق کو واحد نصب العین قرار دے کر وجود میں آئی ہے۔ اوّل روز سے اس کے سامنے یہی ایک مقصد رہا ہے۔ آج بھی اُسی کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرشعبے میں شریعت ِ الٰہی کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس نصب العین کو جماعت کے دستور کی دفعہ۴ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’جماعت اسلامی کا نصب العین اوراس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔

جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں فرق :ملک میں بہت سی مذہبی اور سیاسی اور اصلاحی جماعتیں کام کر رہی ہیں، جن کی کاوشوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہماری کوئی رقابت نہیں ہے۔ لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا اصلاحی جماعتیں ہیں ___  ان میں سے کوئی بھی جامع اسلامی جماعت نہیں کیونکہ اگر وہ مذہبی ہیں تو ان میں ہرمسلمان شامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کوئی دیوبندی مکتب ِ فکر کی ترجمان جماعت ہے، کوئی بریلوی مسلک سے وابستہ ہے، کوئی اہل حدیث، کوئی سنیوں کے کسی ایک گروہ کی اور کوئی شیعوں کی نمایندہ۔ ان کا اصل زور اپنے اپنے فقہی مسائل کی ترویج، اشاعت اور دفاع پر ہے۔ سیاسی اور اجتماعی حصہ صرف انتخابات میں شرکت کی حد تک ہے۔

سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کے پروگرام بیش تر یکساں اور سیکولر ہیں۔ صرف شخصیتوں کے اختلافات نے ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسلام اور دین کا نام وہ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے تو لیتی ہیں، لیکن ان کی سوچ اور پروگراموں کو اسلام سے عام طور پر اس سے زائد تعلق نہیں کہ ان کے بنانے والے مسلمان ہیں۔ اسلام سے رہنمائی لینا اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ ذہنی انتشار و پراگندگی کا اندازہ اس ایک بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت میں کوئی تضاد نہیں نظر آتا۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتی ہیں اور مسلمانوں کو امیر اور غریب، مالک اور مزارع اور کارخانہ دار اور مزدور میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی کررہی ہیں۔

جماعت اسلامی ان کے برعکس اسلام کے عقیدے، طریقِ تنظیم اور اخلاقی پابندیوں پر قائم کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی جماعت کے کارکن تو درکنار لیڈر تک فرائضِ اسلام کی پابندی، کبائر سے اجتناب اور صریح حلال و حرام کا امتیاز بھی نہیں کرتے، اپنا جماعتی نظام آمریت پر چلا رہے ہیں، تو ایسے لوگ ملک کو اسلام اور جمہو ریت پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قائم کریں گے؟

اسی طرح اگر مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کے پیش نظر وہی مقصد ہو، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کا مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا اور نہ ہونا چاہیے، تو سو چنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو فرائض کی پابندی اور کبائر سے بھی اجتناب نہ کرتا ہو، اور حرام و حلال کی پروا تک نہ کرے اور نظامِ جماعت کا پابند نہ ہو، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوسکتا تھا یا اس میں شامل رہ سکتا تھا؟ وہاں تو منافقین تک کو یہ سارے کام مخلص مومنین کی طرح کرنے پڑتے تھے، لیکن ہمارے یہاں تو کسی جماعت کے کسی چھوٹے یا بڑے لیڈر کے لیے بھی فریضۂ دین کی پابندی یا کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی ضرورت نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کی تنظیم اور نظام :جماعت اسلامی اپنے کام کا آغاز ملک کے تمام لوگوں کو اسلام کے عقیدے اور اس کے کم سے کم تقاضوں پر عمل کی دعوت سے کرتی ہے۔ جو لوگ اس عقیدہ کا احترام کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہوں، اُن کو اپنے سے باقاعدہ وابستہ کرتی ہے۔

جماعت اسلامی اپنی ’رکنیت‘ صرف ان لوگوں کودیتی ہے جو کلمۂ توحید اور اُس کے تقاضوں کو اچھی طرح سے سمجھ کر اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کا عہد کریں۔ خدا کو حقیقتاً اپنا مالک و معبود اور ہادی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً اپنا رہنما و پیشوا بناکر کلمۂ طیبہ کی شہادت دیں۔ اسلام کے عائد کردہ فرائض کی پابندی، کبائر سے اجتناب، حرام و حلال کی تمیز اور جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کریں اور اپنے عمل سے اِن سب باتوں کا ثبوت فراہم کردیں۔ جماعت کا ’رکن‘ ان شرائط پر پورا اُترنے والے لوگوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔

جو حضرات مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق اور اس کے اہتمام کی کوشش کا عہد کریں، اقامت ِ دین یعنی اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کو اپنا نصب العین بنالیں لیکن رکنیت کی ذمہ داریاں پوری طرح اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں یا کسی وجہ سے اس بارے میں معذور ہوں۔ اُن کو ’متفق‘ بنا لیا جاتا ہے اور ان کی مزید تربیت کی جاتی ہے کہ وہ آیندہ رکنیت کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائیں۔

جماعت کی مالیات کا سارا انحصار جماعت کے ارکان، متفقین اور عام حامیوں کی اعانت، زکوٰۃ، عشر اور جماعتی لٹریچر کی فروخت کی آمدنی پر ہے۔ ہرسال مرکزی مجلس شوریٰ سال بھر کے کاموں اور اخراجات کا تخمینہ لگاکر مرکزی بجٹ تیار کرتی ہے اور اسے صوبائی جماعتوں پر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ صوبائی جماعتیں اپنے ذمّے کی رقم میں اپنے سال بھر کے اخراجات شامل کرکے صوبائی مجلس شوریٰ کے ذریعے صوبائی بجٹ تیار کرتی ہیں اور اسے اپنی ضلعی جماعتوں پر تقسیم کردیتی ہیں، اور پھر ضلعی جماعتیں اسی طرح مقامی جماعتوں، حلقہ ہائے جماعت اور منفرد ارکان پر اُسے عائد کردیتی ہیں۔ اس طرح نیچے سے رقم جمع ہوکر مرکز تک پہنچتی ہے اور جماعت کے سارے کام چلتے ہیں۔

جماعت میں فیصلے کا طریقہ یہ ہے کہ:

            ۱-         قرآن و سنّت کے واضح احکام کی پیروی کی جاتی ہے۔

            ۲-         پالیسی اور پروگرام اور دوسرے اُن اُمور جن میں قرآن و سنت میں واضح ہدایات موجود نہ ہوں، ان کے آخری فیصلے کا اختیار ارکانِ جماعت کے اجتماع عام کو حاصل ہوتا ہے۔ اجتماع عام کی غیرموجودگی میں یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ میں عام طور پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، خواہ اس میں زیادہ وقت صرف ہوجائے، لیکن اختلاف باقی رہنے کی صورت میں آخرکار فیصلہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوتا ہے، جس کی پابندی پھر سب پر لازم ہوتی ہے۔

            ۳-         جماعت اسلامی، کسی قسم کے تشدد، سازش، خفیہ جوڑ توڑ، اداروں سے سازباز یا اسلحے کے زور پر کسی قسم کی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ دستوری، اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر ان کی سخت مذمت بھی کرتی ہے، اور ایسے عناصر کو جماعت کی تنظیم کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتی۔

جماعت اسلامی فی الحقیقت اسلام کی عالم گیر دعوت کی علَم بردار ہے۔ اپنے ملک میں اپنی کوششوں کو اس امر پر مرتکز کیے ہوئے ہے کہ اسے ایک مثالی اسلامی ریاست اور معاشرہ بناکر دُنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے کہ کس طرح اسلام انسان کے تمام مسائل کو بہترین طریق پر اور پورے انصاف کے ساتھ حل کرتا ہے۔

جماعت کی دعوت خدا کے فضل سے دُنیا کے بیش تر ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ ۴۵ سے زائد زبانوں میں اس کے لٹریچر کی متعدد کتابوں کے تراجم شائع ہورہے ہیں۔ بیرونِ ملک تبلیغ کا کام ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں اس دعوت سے متاثر لوگوں نے خود دعوتی مشن شروع کردیے ہیں اور وہ بہت خوبی سے اس کام کو کر رہے ہیں۔