جون ۲۰۲۴

فہرست مضامین

عمر بن عبدالعزیزؒ کا احساسِ ذمہ داری

عبدالبدیع صقر | جون ۲۰۲۴ | تذکیر

Responsive image Responsive image

دورِ اُموی میں اگرچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ (۲نومبر ۶۸۱ء- ۵فروری ۷۲۰ء)کا عہد ِ حکومت (۲۴ستمبر۷۱۷ء- ۵فروری ۷۲۰ء) بہت مختصر رہا، لیکن انھوں نے بگڑے ہوئے شاہانہ نظامِ حکومت کو درست سمت دینے کے لیے بڑی روشن مثالیں قائم کیں۔

عمربن عبدالعزیز ؒکی پہلی تقریر

جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو منبرپر یہ پہلاخطبہ دیا:

  • لوگو!آج کے بعد جوشخص ہمارا ساتھی رہناچاہے، وہ پانچ چیزوں کے ساتھ ہمارا ساتھی رہ سکتاہے ورنہ ہمارے پاس نہ پھٹکے:
  • جوشخص اپنی احتیاج اور ضرورت کے لیے ہم تک نہیں پہنچ سکتا،ہمارا ساتھی اس کو ہم تک پہنچانے میںمدد کرے۔
  • بھلائی کے معاملے میںہماری ہرممکن مدد کرے۔
  • جن اچھی باتوں کاہمیں علم نہ ہو،وہ ہمارے علم میں لائے۔
  •  ہماری رعایاکودھوکا نہ دے۔
  • فضول باتوں کی طرف توجہ نہ دے۔

یہ خطبہ سن کرشاعراورخطیب ان سے دُورہٹ گئے۔علمااورزاہد،ان کے پاس رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’جب تک یہ اپنے کہنے کے مطابق عمل کرتے رہیں گے،اس وقت تک ہم ان کے ساتھ رہیں گے‘‘۔

عمر بن عبدالعزیز ؒکے نام حسن بصریؒ کا خط

حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو حسن بصری رحمۃ اللہ کو لکھا کہ ’’براہ کرم امامِ عادل کی صفات بیان کیجیے‘‘۔ حسن بصریؒ نے جواب میں درج ذیل خط لکھا:

اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ امامِ عادل ہر متکبر کو سیدھا کرنے والا، ہرظالم کوٹھیک کرنے والا،ہرفاسدکا مصلح،ہرکمزور کی قوت،ہرمظلوم کی امداداورہر غم زدہ کی جائے پناہ ہوتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایسے چرواہے کی طرح ہوتاہے، جو اپنے اونٹوں پر مہربان اور شفیق ہو ،ان کے لیے بہترین چارہ تلاش کرے اور انھیں درندوں سے،ہلاکت سے اور گرمی سردی سے بچائے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایک باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد پر شفیق ہوتا ہے،بچپن میں ان کی نگرانی کرتاہے،انھیں تعلیم دلاتاہے،اوراپنی زندگی میں ان کے لیے کماتا ہے اور مرنے کے بعدان کے لیے ذخیرہ بھی کرجاتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل اپنی اولادپر ایک نہایت ہی شفیق اورنرم دل ماں کی طرح ہے جو بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور اس کے جاگنے پرجاگتی ہے اور اس کے سونے پر سوتی ہے۔کبھی تو وہ دودھ پلاتی ہوئی نظرآتی ہے اورکبھی کھلانا کھلاتی ہوئی۔ اس کی خوشی پر وہ خوش اور اس کی تکلیف پر اس کو تکلیف ہوتی ہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل یتیموں کا وارث اور مسکینوں کا خزانچی ہوتاہے جو بچپن میں ان کی تربیت کرتاہے اور جوانی میںحفاظت کرتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل جسمِ انسانی میں دل کی طرح ہے جس کی صحت پر تمام دوسرے اعضا کی صحت وبیماری کادارومدار ہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل خدااوربندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بات سنتاہے اور لوگوں کو سناتاہے۔وہ خدا کی طرف بھی دیکھتاہے اور بندوں کی طرف بھی۔ وہ خداکافرماں بردارہوتاہے اورلوگ اس کے فرماں بردارہوتے ہیں۔

اے امیر المومنین!اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کاآپ کومالک بنایاہے ان میں اُس غلام کی طرح نہ ہوجائیے جس پر مالک نے اعتماد کیاہو،اپنے مال اوراہل وعیال کا محافظ بنایاہو،لیکن اس نے مال کو برباد کردیااوربچوں کواِدھراُدھربکھیردیا۔اس طرح بچے بھی بھوکے رہے اور مال بھی برباد ہوگیا۔

اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حدودنازل ہونے کا مقصدیہ ہے کہ لوگ بُرائی اور بدکاری سے بچ جائیں۔ اگر وہی لوگ بدکاری کرناشروع کردیں جواس کے خاتمے کے لیے مقرر کیے گئے تھے تو بدی کیسے رکے گی؟ اسی طرح قصاص مقرر کیاگیا ہے تاکہ انسانوں کوقتل نہ کیا جائے اور اگر وہی لوگ قتل کرنے لگیں جن کی ذمہ داری قصاص دلوانا ہے تو اس کا کیا علاج ہے؟

اے امیر المومنین!موت اور موت کے بعد اس وقت کو یاد کریں، جب کوئی ساتھی و مددگار نہ ہوگا،لہٰذا بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے لیے تیاری کریں۔

اے امیرالمومنین!آپ کا ایک ایساگھرہوگاجواس گھرسے بالکل مختلف ہوگا۔ جس میں آپ کاٹھیرنابڑا لمبا ہوگااور آپ کے دوست آپ سے جدا ہوں گے اورآپ کو تنہا ایک قبر میں ڈال دیں گے۔اس دن کے لیے اپناساتھی بنائیے جس دن کہ آدمی اپنے بھائی، ماں باپ،بیوی اوربچوں سے دُوربھاگے گا: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۝۳۴ۙ وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۝۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۝۳۶ۭ (عبس ۸۰: ۳۴-۳۶)’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ،اوراپنی بیوی اور اپنی اولادسے بھاگے گا‘‘۔

اے امیرالمومنین!وہ وقت یاد کریں جب قبروں سے مُردے اٹھ کھڑے ہوں گے اور سینوں کے راز کھل جائیں گے: اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ۝۹ۙ  (العٰدیٰت۱۰۰:۹) ’’تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ(مدفون ہے)اسے نکال لیاجائے گا‘‘۔

اس موقعے پر اعمال نامہ ہرقسم کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ ظاہر کر دے گا۔

اے امیرالمومنین!ابھی فرصت اورمہلت ہے، موت سے پہلے کچھ کرلیں۔

اے امیرالمومنین!اللہ کے بندوں پر نہ تو جاہلوں جیسی حکمرانی کیجیے اورنہ ان کے ساتھ ظالموں جیساسلوک کیجیے۔طاقت ور کو کمزوروں پر مسلط نہ کیجیے، کیونکہ وہ قرابت اور ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کے اوپران کے غلط کاموں کا بوجھ آن پڑے گا،نیز یہ کہ دنیاداروں کو عیش وعشرت میں مبتلااور انھیں مرغن اور لذیذ کھانے کھاتے دیکھ کردھوکا نہ کھائیں کیونکہ آپ کو اس کے بدلے میںیہ چیزیںقیامت کے دن ملیں گے۔ خلیفہ ہوتے ہوئے آپ یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے پاس کتنی قدرت اور کتنی طاقت ہے،بلکہ یہ دیکھیں کہ کل، جب کہ آپ موت کی رسیوں میں بندھے ہوئے فرشتوں کے مجمعے میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور سب کے سب اسی انتظار میں ہوں گے کہ ربّ العزت کی طرف سے کیافیصلہ صادر ہوتاہے،اس وقت آپ کی کیا طاقت ہوگی!

اے امیر المومنین!اگرچہ میں بزرگوں کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتا جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں، مگر آپ کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کاجذبہ رکھتے ہوئے کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ انھیں اچھی طرح سمجھنا۔ میری یہ کڑوی باتیں اس جگری دوست کی دواکی مانند ہیں، جو وہ اپنے بیمار ساتھی کو اس امید پرپلاتاہے کہ اس بدمزہ دواکے استعمال سے وہ صحت مند ہوجائے گا۔والسلام

عمربن عبدالعزیزؒ کو حضرت طاؤسؒ کی نصیحت

اسی طرح عمر بن عبدالعزیزؒ نے بعض باتیں پوچھنے کے لیے حضرت طاؤسؒ کو ایک خط لکھا، جس کےجواب میں حضرت طاؤس ؒنے لکھا:

اے امیرالمومنین!آپ پرسلامتی ہو۔اللہ تعالیٰ نے کتاب اتاری اور اس میں بعض چیزوں کو حلال اوربعض چیزوں کوحرام کیا۔اور مثالیں اور واقعات بیان کیے ہیں اور اس میں سے بعض آیات محکم اوربعض متشابہ ہیں۔لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کے حصول اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیں۔ قرآن پاک میں بیان کردہ واقعات پر غوروفکرکریں۔ محکمات پر عمل کریں اور متشابہات پر ایمان لائیں۔

والسلام

 عمربن عبدالعزیزؒ کاخط حضرت سالمؒ کے نام

عمربن عبدالعزیزؒ نے حضرت سالم ؒبن عبداللہ کو یہ خط لکھا:

تم پر سلامتی ہو!سب سے پہلے میں اس اللہ کی تعریف کرتاہوں،جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔

امابعد! میرے مشورے اورمیری طلب کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس امت کا بوجھ میرے اوپر ڈال کے مجھے آزمائش میں ڈال دیاہے۔میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ اس معاملے میں میری مدد فرمائے اور میں اُسی سے التجا کرتاہوں کہ وہ اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے توفیق دے کہ لوگو ں پر شفقت کروں اور وہ میری اطاعت کریں۔ جب یہ خط آپ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر فاروقؓ کے خطوط،ان کی سیرت اور اہل قبلہ اور اہل ذمہ کے متعلق فیصلے مجھے ارسال کردیں کیوںکہ میں ان کی سیرت اور ان کے اقوال پر عمل کروں گا۔اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔

والسلام

حضرت سالم ؒکاجواب میں عمربن عبدالعزیزؒ کے نام خط

حضرت سالمؒ بن عبداللہ نے اس خط کے جواب میںدرج ذیل خط عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا:

سلام مسنون اور حمدو ثنا کے بعد!اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق پیدافرمایا۔ اسے تھوڑی مدت باقی رکھ کر اسے اور اس میں رہنے والوں کو فنا کردے گا۔

اے عمر!آپ پربہت بڑی ذمہ داری ہے۔اگر آپ چاہیں کہ قیامت کے دن آپ اور آپ کے اہل وعیال خسارے میں نہ رہیں،تو اس کے لیے کوشش کریں کیوں کہ آپ سے پہلے جو لوگ بھی گزرے ہیں انھوں نے حق کو مٹانے اور باطل کوزندہ کرنے کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔ اس زمانے میں بہت سے مرداورعورتیں پیداہوئیں لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ اس غلط قسم کی کارکردگی کوسنت سمجھتے رہے ہیں۔

اگرآپ کسی کارندے کو اس کی غلط کاری کی وجہ سے معزول کردیں اور یہ کہیں کہ تم میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرسکتے، تو آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔

اگر آپ یہ کام صرف اللہ کے لیے کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا اور امدادنیت کے مطابق ہوتی ہے۔اگر آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ خدا کے سامنے اس حال میں پیش ہوں کہ آپ پرکوئی ذمہ داری نہ ہواورآپ سے پہلے گزر جانے والے آپ پررشک کریں تو ایسا ضرورکیجیے، کیوںکہ وہ تو موت کا نظارہ کرچکے ہیں اور اس کی خوف ناکیوں کو اپنی آنکھوں سے  دیکھ چکے ہیں اور ان کی وہ آنکھیں جن کی لذتِ دیدختم نہیں ہوتی تھی،فنا ہوچکی ہیںا وروہ پیٹ جوکھانے سے پُر نہیں ہوتے تھے،پھٹ چکے ہیں۔ دنیا میں تو خدام، پلنگوں اور عالی شان بستروں اور تکیوں کا دوردورہ ہوتاتھا،مگر آج ان کی گردنوں کے نیچے کوئی تکیہ اور ان کے جسموں کے نیچے کوئی بستر نہیں۔ اب وہ زمین کی گہرائیوں میں گل سڑ چکے ہیں حالانکہ دنیا میں خوشبو کے اندر بسے رہتے تھے۔ اور اگر کوئی مسکین ان کے قریب کھڑا ہوتاتو اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کرتے تھے: اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ !

اے عمر!جس آزمایش میں آپ ڈالے گئے ہیں جانتے ہیں کتنی بڑی ہے!

جس عامل کو بھی آپ کام پر روانہ کریں،اسے خون بہانے اورناجائزطور پر مال لینے سے سزا کی حدتک پرہیز کرائیں۔ اے عمر! مال سے بچیں،اے عمر!خون سے بچیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں آپ کو حضرت فاروق اعظمؓ کے خطوط اور ان کی سیرت ارسال کروں،تواے امیرالمومنین! گزارش ہے کہ حضرت عمرؓ کا زمانہ اور ان کا عملہ،آپ کے زمانے اور عملے سے مختلف تھا۔ مجھے امید ہے کہ اُس طریقے پراپنی خلافت کو چلائیں گے جس طریقے پرحضرت عمرؓ نے چلائی تھی، جب کہ آپ نے ظلم وستم برداشت کیے ہیں، تو اللہ کے نزدیک آپ حضرت عمرؓ سے افضل ہوں گے۔ایک نیک بندہ کی طرح آپ یوں کہیں:

وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ۝۰ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۝۰ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ  اِلَّا بِاللہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۝۸۸ (ھود ۱۱:۸۸) میں ہرگزیہ نہیں چاہتاکہ جن باتوں سے میں تم کو روکتاہوں ان کاخود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتاہوں جہاں تک میرا بس چلے۔ اوریہ جوکچھ میں کرنا چاہتا ہوں، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پرہے۔ اُسی پرمیں نے بھروسا کیا اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف مَیں رجوع کرتاہوں۔

والسلام

عمربن عبدالعزیزؒ کی آخری تقریر

ابوسلیم ہذلی کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنے آخری خطبے میں فرمایا:

امابعد!اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بے کار پیدانھیں کیااور نہ تمھارے تمام معاملات میں سے کسی کوبے کار بنایاہے۔ تمھیں ایک دن خداکے ہاں جانا ہے،اس دن تمھارے متعلق فیصلہ کیاجائے گا۔

 وہ آدمی ناکام رہے گا جواللہ کی رحمت سے دور اور اس کی جنت سے محروم ہو جائے، جس کا عرض زمین وآسمان جیسا ہے۔ اور جس نے خوف کوامن کے بدلہ میں اورقلیل کو کثیر کے بدلہ میں خریدا،اس نے خسارے کا سودا کیا۔ تمھیں معلوم نہیں کہ تمھیں ایک دن مرنا ہے اور تمھاری اولاد کو تمھاری جگہ لینی ہے۔ اورپھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا ہے۔

ہردن کوئی نہ کوئی آدمی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتاہے تو تم اسے زمین میںدفن کر دیتے ہواور بغیربسترے اور تکیہ کے لٹاآتے ہواوروہ تمام اسباب اوراحباب کو چھوڑ کر زمین کے نیچے سکونت اختیار کرلیتاہے، اور وہ اس حال میں حساب دے گا کہ اس کے عمل رہن رکھے ہوئے ہوں گے، جو کچھ آگے بھیج چکا،اس لحاظ سے فقیر اور جو پیچھے چھوڑ آیا ہے، اس لحاظ سے وہ غنی ہوگا، لہٰذاموت کے آنے سے پہلے خدا سے ڈرو۔

خدا کی قسم! میں تمھیں یہ بات کہہ رہاہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کسی کے اتنے گناہ ہوں گے جتنے کہ میرے ہیں۔اورجوضرورت مند میرے پاس آتاہے،میں ہر ممکن کوشش کرتاہوں کہ اس کی ضرورت کوپوراکروں۔ اور کوئی ایسا شخص میرے پاس پہنچے جس کی ضرورت میںپوری نہیں کرسکتا تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس میں تبدیلی پیدا کروں اور میں اوروہ برابر ہوجائیں۔

خداکی قسم! اگر میں شان وشوکت اورعیش و عشرت کی زندگی بسر کروں تو میری زبان میں یہ طاقت ہے اورمیں اس کے لیے اسباب بھی مہیا کرسکتاہوں، مگر کتابُ اللہ اور سنت رسولؐ کو جانتا ہوں جس میں خداکی اطاعت کا حکم دیاگیاہے اوراس کی نافرمانی سے روکا گیا ہے۔

یہ خطبہ دینے کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنی چادر اپنے چہرے پرڈال لی اور رونے لگے۔لوگ بھی انھیںروتادیکھ کررونے لگے۔