دورِ اُموی میں اگرچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ (۲نومبر ۶۸۱ء- ۵فروری ۷۲۰ء)کا عہد ِ حکومت (۲۴ستمبر۷۱۷ء- ۵فروری ۷۲۰ء) بہت مختصر رہا، لیکن انھوں نے بگڑے ہوئے شاہانہ نظامِ حکومت کو درست سمت دینے کے لیے بڑی روشن مثالیں قائم کیں۔
جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو منبرپر یہ پہلاخطبہ دیا:
یہ خطبہ سن کرشاعراورخطیب ان سے دُورہٹ گئے۔علمااورزاہد،ان کے پاس رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’جب تک یہ اپنے کہنے کے مطابق عمل کرتے رہیں گے،اس وقت تک ہم ان کے ساتھ رہیں گے‘‘۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو حسن بصری رحمۃ اللہ کو لکھا کہ ’’براہ کرم امامِ عادل کی صفات بیان کیجیے‘‘۔ حسن بصریؒ نے جواب میں درج ذیل خط لکھا:
اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ امامِ عادل ہر متکبر کو سیدھا کرنے والا، ہرظالم کوٹھیک کرنے والا،ہرفاسدکا مصلح،ہرکمزور کی قوت،ہرمظلوم کی امداداورہر غم زدہ کی جائے پناہ ہوتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایسے چرواہے کی طرح ہوتاہے، جو اپنے اونٹوں پر مہربان اور شفیق ہو ،ان کے لیے بہترین چارہ تلاش کرے اور انھیں درندوں سے،ہلاکت سے اور گرمی سردی سے بچائے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایک باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد پر شفیق ہوتا ہے،بچپن میں ان کی نگرانی کرتاہے،انھیں تعلیم دلاتاہے،اوراپنی زندگی میں ان کے لیے کماتا ہے اور مرنے کے بعدان کے لیے ذخیرہ بھی کرجاتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل اپنی اولادپر ایک نہایت ہی شفیق اورنرم دل ماں کی طرح ہے جو بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور اس کے جاگنے پرجاگتی ہے اور اس کے سونے پر سوتی ہے۔کبھی تو وہ دودھ پلاتی ہوئی نظرآتی ہے اورکبھی کھلانا کھلاتی ہوئی۔ اس کی خوشی پر وہ خوش اور اس کی تکلیف پر اس کو تکلیف ہوتی ہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل یتیموں کا وارث اور مسکینوں کا خزانچی ہوتاہے جو بچپن میں ان کی تربیت کرتاہے اور جوانی میںحفاظت کرتاہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل جسمِ انسانی میں دل کی طرح ہے جس کی صحت پر تمام دوسرے اعضا کی صحت وبیماری کادارومدار ہے۔
اے امیرالمومنین!امامِ عادل خدااوربندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بات سنتاہے اور لوگوں کو سناتاہے۔وہ خدا کی طرف بھی دیکھتاہے اور بندوں کی طرف بھی۔ وہ خداکافرماں بردارہوتاہے اورلوگ اس کے فرماں بردارہوتے ہیں۔
اے امیر المومنین!اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کاآپ کومالک بنایاہے ان میں اُس غلام کی طرح نہ ہوجائیے جس پر مالک نے اعتماد کیاہو،اپنے مال اوراہل وعیال کا محافظ بنایاہو،لیکن اس نے مال کو برباد کردیااوربچوں کواِدھراُدھربکھیردیا۔اس طرح بچے بھی بھوکے رہے اور مال بھی برباد ہوگیا۔
اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حدودنازل ہونے کا مقصدیہ ہے کہ لوگ بُرائی اور بدکاری سے بچ جائیں۔ اگر وہی لوگ بدکاری کرناشروع کردیں جواس کے خاتمے کے لیے مقرر کیے گئے تھے تو بدی کیسے رکے گی؟ اسی طرح قصاص مقرر کیاگیا ہے تاکہ انسانوں کوقتل نہ کیا جائے اور اگر وہی لوگ قتل کرنے لگیں جن کی ذمہ داری قصاص دلوانا ہے تو اس کا کیا علاج ہے؟
اے امیر المومنین!موت اور موت کے بعد اس وقت کو یاد کریں، جب کوئی ساتھی و مددگار نہ ہوگا،لہٰذا بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے لیے تیاری کریں۔
اے امیرالمومنین!آپ کا ایک ایساگھرہوگاجواس گھرسے بالکل مختلف ہوگا۔ جس میں آپ کاٹھیرنابڑا لمبا ہوگااور آپ کے دوست آپ سے جدا ہوں گے اورآپ کو تنہا ایک قبر میں ڈال دیں گے۔اس دن کے لیے اپناساتھی بنائیے جس دن کہ آدمی اپنے بھائی، ماں باپ،بیوی اوربچوں سے دُوربھاگے گا: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۳۴ۙ وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۳۶ۭ (عبس ۸۰: ۳۴-۳۶)’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ،اوراپنی بیوی اور اپنی اولادسے بھاگے گا‘‘۔
اے امیرالمومنین!وہ وقت یاد کریں جب قبروں سے مُردے اٹھ کھڑے ہوں گے اور سینوں کے راز کھل جائیں گے: اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ۹ۙ (العٰدیٰت۱۰۰:۹) ’’تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ(مدفون ہے)اسے نکال لیاجائے گا‘‘۔
اس موقعے پر اعمال نامہ ہرقسم کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ ظاہر کر دے گا۔
اے امیرالمومنین!ابھی فرصت اورمہلت ہے، موت سے پہلے کچھ کرلیں۔
اے امیرالمومنین!اللہ کے بندوں پر نہ تو جاہلوں جیسی حکمرانی کیجیے اورنہ ان کے ساتھ ظالموں جیساسلوک کیجیے۔طاقت ور کو کمزوروں پر مسلط نہ کیجیے، کیونکہ وہ قرابت اور ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کے اوپران کے غلط کاموں کا بوجھ آن پڑے گا،نیز یہ کہ دنیاداروں کو عیش وعشرت میں مبتلااور انھیں مرغن اور لذیذ کھانے کھاتے دیکھ کردھوکا نہ کھائیں کیونکہ آپ کو اس کے بدلے میںیہ چیزیںقیامت کے دن ملیں گے۔ خلیفہ ہوتے ہوئے آپ یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے پاس کتنی قدرت اور کتنی طاقت ہے،بلکہ یہ دیکھیں کہ کل، جب کہ آپ موت کی رسیوں میں بندھے ہوئے فرشتوں کے مجمعے میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور سب کے سب اسی انتظار میں ہوں گے کہ ربّ العزت کی طرف سے کیافیصلہ صادر ہوتاہے،اس وقت آپ کی کیا طاقت ہوگی!
اے امیر المومنین!اگرچہ میں بزرگوں کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتا جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں، مگر آپ کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کاجذبہ رکھتے ہوئے کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ انھیں اچھی طرح سمجھنا۔ میری یہ کڑوی باتیں اس جگری دوست کی دواکی مانند ہیں، جو وہ اپنے بیمار ساتھی کو اس امید پرپلاتاہے کہ اس بدمزہ دواکے استعمال سے وہ صحت مند ہوجائے گا۔والسلام
اسی طرح عمر بن عبدالعزیزؒ نے بعض باتیں پوچھنے کے لیے حضرت طاؤسؒ کو ایک خط لکھا، جس کےجواب میں حضرت طاؤس ؒنے لکھا:
اے امیرالمومنین!آپ پرسلامتی ہو۔اللہ تعالیٰ نے کتاب اتاری اور اس میں بعض چیزوں کو حلال اوربعض چیزوں کوحرام کیا۔اور مثالیں اور واقعات بیان کیے ہیں اور اس میں سے بعض آیات محکم اوربعض متشابہ ہیں۔لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کے حصول اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیں۔ قرآن پاک میں بیان کردہ واقعات پر غوروفکرکریں۔ محکمات پر عمل کریں اور متشابہات پر ایمان لائیں۔
والسلام
عمربن عبدالعزیزؒ نے حضرت سالم ؒبن عبداللہ کو یہ خط لکھا:
تم پر سلامتی ہو!سب سے پہلے میں اس اللہ کی تعریف کرتاہوں،جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔
امابعد! میرے مشورے اورمیری طلب کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس امت کا بوجھ میرے اوپر ڈال کے مجھے آزمائش میں ڈال دیاہے۔میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ اس معاملے میں میری مدد فرمائے اور میں اُسی سے التجا کرتاہوں کہ وہ اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے توفیق دے کہ لوگو ں پر شفقت کروں اور وہ میری اطاعت کریں۔ جب یہ خط آپ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر فاروقؓ کے خطوط،ان کی سیرت اور اہل قبلہ اور اہل ذمہ کے متعلق فیصلے مجھے ارسال کردیں کیوںکہ میں ان کی سیرت اور ان کے اقوال پر عمل کروں گا۔اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔
والسلام
حضرت سالمؒ بن عبداللہ نے اس خط کے جواب میںدرج ذیل خط عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا:
سلام مسنون اور حمدو ثنا کے بعد!اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق پیدافرمایا۔ اسے تھوڑی مدت باقی رکھ کر اسے اور اس میں رہنے والوں کو فنا کردے گا۔
اے عمر!آپ پربہت بڑی ذمہ داری ہے۔اگر آپ چاہیں کہ قیامت کے دن آپ اور آپ کے اہل وعیال خسارے میں نہ رہیں،تو اس کے لیے کوشش کریں کیوں کہ آپ سے پہلے جو لوگ بھی گزرے ہیں انھوں نے حق کو مٹانے اور باطل کوزندہ کرنے کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔ اس زمانے میں بہت سے مرداورعورتیں پیداہوئیں لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ اس غلط قسم کی کارکردگی کوسنت سمجھتے رہے ہیں۔
اگرآپ کسی کارندے کو اس کی غلط کاری کی وجہ سے معزول کردیں اور یہ کہیں کہ تم میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرسکتے، تو آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔
اگر آپ یہ کام صرف اللہ کے لیے کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا اور امدادنیت کے مطابق ہوتی ہے۔اگر آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ خدا کے سامنے اس حال میں پیش ہوں کہ آپ پرکوئی ذمہ داری نہ ہواورآپ سے پہلے گزر جانے والے آپ پررشک کریں تو ایسا ضرورکیجیے، کیوںکہ وہ تو موت کا نظارہ کرچکے ہیں اور اس کی خوف ناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور ان کی وہ آنکھیں جن کی لذتِ دیدختم نہیں ہوتی تھی،فنا ہوچکی ہیںا وروہ پیٹ جوکھانے سے پُر نہیں ہوتے تھے،پھٹ چکے ہیں۔ دنیا میں تو خدام، پلنگوں اور عالی شان بستروں اور تکیوں کا دوردورہ ہوتاتھا،مگر آج ان کی گردنوں کے نیچے کوئی تکیہ اور ان کے جسموں کے نیچے کوئی بستر نہیں۔ اب وہ زمین کی گہرائیوں میں گل سڑ چکے ہیں حالانکہ دنیا میں خوشبو کے اندر بسے رہتے تھے۔ اور اگر کوئی مسکین ان کے قریب کھڑا ہوتاتو اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کرتے تھے: اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ !
اے عمر!جس آزمایش میں آپ ڈالے گئے ہیں جانتے ہیں کتنی بڑی ہے!
جس عامل کو بھی آپ کام پر روانہ کریں،اسے خون بہانے اورناجائزطور پر مال لینے سے سزا کی حدتک پرہیز کرائیں۔ اے عمر! مال سے بچیں،اے عمر!خون سے بچیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں آپ کو حضرت فاروق اعظمؓ کے خطوط اور ان کی سیرت ارسال کروں،تواے امیرالمومنین! گزارش ہے کہ حضرت عمرؓ کا زمانہ اور ان کا عملہ،آپ کے زمانے اور عملے سے مختلف تھا۔ مجھے امید ہے کہ اُس طریقے پراپنی خلافت کو چلائیں گے جس طریقے پرحضرت عمرؓ نے چلائی تھی، جب کہ آپ نے ظلم وستم برداشت کیے ہیں، تو اللہ کے نزدیک آپ حضرت عمرؓ سے افضل ہوں گے۔ایک نیک بندہ کی طرح آپ یوں کہیں:
وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ۰ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۰ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللہِ۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۸۸ (ھود ۱۱:۸۸) میں ہرگزیہ نہیں چاہتاکہ جن باتوں سے میں تم کو روکتاہوں ان کاخود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتاہوں جہاں تک میرا بس چلے۔ اوریہ جوکچھ میں کرنا چاہتا ہوں، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پرہے۔ اُسی پرمیں نے بھروسا کیا اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف مَیں رجوع کرتاہوں۔
والسلام
ابوسلیم ہذلی کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنے آخری خطبے میں فرمایا:
امابعد!اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بے کار پیدانھیں کیااور نہ تمھارے تمام معاملات میں سے کسی کوبے کار بنایاہے۔ تمھیں ایک دن خداکے ہاں جانا ہے،اس دن تمھارے متعلق فیصلہ کیاجائے گا۔
وہ آدمی ناکام رہے گا جواللہ کی رحمت سے دور اور اس کی جنت سے محروم ہو جائے، جس کا عرض زمین وآسمان جیسا ہے۔ اور جس نے خوف کوامن کے بدلہ میں اورقلیل کو کثیر کے بدلہ میں خریدا،اس نے خسارے کا سودا کیا۔ تمھیں معلوم نہیں کہ تمھیں ایک دن مرنا ہے اور تمھاری اولاد کو تمھاری جگہ لینی ہے۔ اورپھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا ہے۔
ہردن کوئی نہ کوئی آدمی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتاہے تو تم اسے زمین میںدفن کر دیتے ہواور بغیربسترے اور تکیہ کے لٹاآتے ہواوروہ تمام اسباب اوراحباب کو چھوڑ کر زمین کے نیچے سکونت اختیار کرلیتاہے، اور وہ اس حال میں حساب دے گا کہ اس کے عمل رہن رکھے ہوئے ہوں گے، جو کچھ آگے بھیج چکا،اس لحاظ سے فقیر اور جو پیچھے چھوڑ آیا ہے، اس لحاظ سے وہ غنی ہوگا، لہٰذاموت کے آنے سے پہلے خدا سے ڈرو۔
خدا کی قسم! میں تمھیں یہ بات کہہ رہاہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کسی کے اتنے گناہ ہوں گے جتنے کہ میرے ہیں۔اورجوضرورت مند میرے پاس آتاہے،میں ہر ممکن کوشش کرتاہوں کہ اس کی ضرورت کوپوراکروں۔ اور کوئی ایسا شخص میرے پاس پہنچے جس کی ضرورت میںپوری نہیں کرسکتا تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس میں تبدیلی پیدا کروں اور میں اوروہ برابر ہوجائیں۔
خداکی قسم! اگر میں شان وشوکت اورعیش و عشرت کی زندگی بسر کروں تو میری زبان میں یہ طاقت ہے اورمیں اس کے لیے اسباب بھی مہیا کرسکتاہوں، مگر کتابُ اللہ اور سنت رسولؐ کو جانتا ہوں جس میں خداکی اطاعت کا حکم دیاگیاہے اوراس کی نافرمانی سے روکا گیا ہے۔
یہ خطبہ دینے کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنی چادر اپنے چہرے پرڈال لی اور رونے لگے۔لوگ بھی انھیںروتادیکھ کررونے لگے۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔
مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدانِ جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے۔ مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔
حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔
حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔
حضور ؐ نے فرمایا :’’غصہ مت کیا کرو ‘‘۔
اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔
ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔
حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔
ترجمہ :عاصم نعمانی
’سنت‘ اس عمل کو کہتے ہیں جو صحیح سند کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل تین طریقوں سے ثابت ہو : lآپؐ کا ارشادمبارک ہو lآپؐ نے خود کوئی کام کیا ہوlاور وہ عمل جو آپؐ کے سامنے کیا گیا ہو اور آپ ؐ نے اسے دیکھ کر سکوت فرمایا ہو۔
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسول ؐ تمھیں دے وہ لے لو۔ اور جس چیزسے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اور اللہ سے ڈرو۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء۴:۸۰) جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی O اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی O (النجم ـ۵۳:۳-۴) وہ، (یعنی محمدؐ) ، اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے ، یہ تو وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بے شمار ابدی اور لازوال نصیحتوں سے بھری ہوئی ہے، مگر اس مقام پر ہم نے اختصار کے پیش نظر اس بحرِ بے کراں میں سے صرف چند احادیثِ صحیحہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
r رجوع الی اللہ: حضرت عرباض بن ساریۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور ؐ ہمارے ساتھ نماز ادا فرما چکنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور نہایت مؤثر انداز میں تقریر فرمائی، جسے سن کر سامعین آب دیدہ ہوگئے، دلوں پر رقّت طاری ہوگئی اور جسم میں کپکپی پیدا ہو گئی ۔ اس حالت کو دیکھ کر ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! جس انداز میں آپ ؐ نے یہ وعظ فرمایا ہے گویا کہ یہ آپ ؐ کا آخری وعظ ہے، تو اسی طرح ہمیں کوئی اور نصیحت فرمائیں۔
حضور ؐ نے ارشاد فرمایا ـ: ’’میں تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، اور یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم (اپنے امام یا خلیفہ کی بات ) سنو، اور اس کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ میرے بعد جو لوگ زندہ رہیںگے وہ بہت سے اختلافات دیکھیں گے۔ اس لیے تمھیں چاہیے کہ ان اختلافات کے وقت تم میری سنت اور خلفاے راشدین کے طریقے کی پیروی کرو۔ (میری سنت اور میرے خلفا کے طریقے کو ) اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو، نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ شریعت کے معاملات میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بیٹے، اگر تجھ سے ہو سکے کہ صبح اس حال میں کرے کہ کسی کے متعلق تیرے دل میں کوئی کینہ نہ ہو، اور شام بھی اسی حالت میں کرے ، تو اس پر ضرور عمل کر‘‘۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’اے بیٹے ، اور یہ بات جو ابھی کہی گئی ہے،میری سنت ہے (یعنی میرے صبح وشام اسی طرح گزرتے ہیں کہ میرے دل میں کسی کے متعلق کوئی کینہ نہیں ہوتا ) ۔ جو میری سنت سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اور جو میرے ساتھ محبت کرتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے علیؓ! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا:
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وصال سے تین دن پہلے میں نے حضوؐر کو فرماتے ہوئے سنا:’’ تم میں سے ہر شخص کو اس حالت میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھتا ہو‘‘۔
اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’جو شخص ہر روز سو بار سبحان اللہ پڑھے اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کے ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘ ۔
بِسْمِ اللہِ ،تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ ، اَللّٰھُمَّ اِنَّـا نَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ نَذِلَّ اَوْ نَضِلَّ، اَوْ نَظْلِمَ ، اَوْ نُظْلَمَ، اَوْ نَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیْنَا، اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس کے نام سے آغاز کرتا ہوں ۔ اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ہم (راہِ حق سے ) پھسل جائیں یا گمراہ ہو جائیں ، کسی پر ظلم کریں یا خود گرفتارِ ظلم ہو جائیں اور نادانی کریں یا ہمارے ساتھ کوئی نادانی کرے۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’کیا تجھے ایسا کلام نہ سکھا دوں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تیرا غم بھی دُور کر دے اور تیرا قرض بھی ادا ہوجائے ؟‘‘
ان صاحب نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! وہ کلام ضرور سکھایئے‘‘۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ ، اے اللہ میں رنج وغم سے، درماندگی اور کاہلی سے، اور قرض کے بار اور لوگوں کے جبرسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’میں حضوؐر کی ہدایت کے مطابق اس دعا کو پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے میرا غم بھی دُور فرما دیا اور قرض بھی ادا ہو گیا‘‘۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا وما فیہا سے بہتر ہے‘‘۔
حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی غازی کے لیے سامانِ جہاد مہیا کیا تو گویا اس نے خود جہاد کیا ، اور جو شخص کسی غازی کے گھر کی دیکھ بھا ل کرتا رہا تو گویا اس نے بھی جہاد کیا‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے سے قرض کے سوا ، تمام گناہ مٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے، اس کا جہنم میں جانا ایسا ہی (ناممکن ) ہے جیسے دودھ کا تھنوں میں واپس چلاجانا، اور جس بندے پر راہِ خدا میں گردِ راہ چڑھی ہو، اس کو جہنم کی تپش نہیں پہنچ سکتی، اور اسی طرح بخل اور ایمان کسی مسلمان کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ‘‘۔
حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑے ہو جانے پر خوش ہوتا ہو، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔
اسی طرح ایک دوسرا ا ٓدمی جو ایک کلمۂ شر (بُری بات ) کہتا ہے جس کے دُور رس نتائج کو وہ نہیں جانتا۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے اور قیامت تک اس کے لیے یہی کیفیت رہتی ہے‘‘۔
حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول ؐ اللہ! مجھے نصیحت فرمائیے‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا :’’ میںتمھیں خشیت الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس خصلت کے اختیار کرنے سے تمھارے ہر کام میں زینت اور خوش نمائی پیدا ہو جائے گی‘‘۔
میںنے عرض کیا: ’’کچھ اور بھی نصیحت فرمائیے ‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایاـ : ’’قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ عزّ وجل کا ذکر اپنے اُوپر لازم کر لو۔ ایسا کرنے سے آسمانوں میں تمھارا ذکر کیا جائے گا اور زمین میں یہ عمل تمھارے لیے روشنی کا باعث ہو گا‘‘۔
میں نے عرض کیا:’’ کچھ مزید فرمائیے ‘‘۔
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’خاموش رہنے کی عادت ڈالو کیونکہ یہ شیطان سے بچنے کا ہتھیار اور دین کے معاملے میں مدد گار ہے‘‘۔
میںنے مزید عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، تو حضور ؐ نے فرمایا : ’’زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے دل مردہ اور آدمی کاچہرہ بے رونق ہو جاتا ہے‘‘۔
میری مزید گزارش پر حضوؐر نے فرمایا ـ ـ:’’ ہمیشہ سچ بات کہو چاہے تلخ ہو‘‘۔
میں نے پھر عرض کیا، تو حضوؐر نے فرمایا : ’’اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرو‘‘۔
میں نے کہا :’’نصیحت میں مزید اضافہ فرمائیے‘‘۔
حضوؐر نے فرمایا : ’’اپنے عیبوں اور گناہوں پر نظر رکھو تا کہ دوسروں کی عیب جوئی سے بچے رہو‘‘۔
بخاری ، ترمذی اور ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص امن واطمینا ن کے ساتھ صبح کرے، اور اس کا جسم بھی درست اور تندرست ہو، اور اس دن کی خوراک بھی اس کے پاس ہو، تو گویا دنیا کی تمام ہی نعمتیں اسے مل گئیں‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی زنا کے ارتکاب کے بعد جب توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن جب کوئی آدمی غیبت کرتا ہے تو اسے اس وقت تک معاف نہیں کیا جاتا جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی تھی‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا :’’ نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی آدمی ناحق اپنی قوم کی حمایت کرے‘‘۔
حضرت ثوبان ؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ! ان لوگوں کی کوئی واضح نشانی بیان فرمائیے اور ان کے طرزِ عمل کی وضاحت فرمائیے تا کہ ہم نادانستگی کی بنا پر ان جیسے نہ ہو جائیں ، اور ہم ان سے بچ سکیں۔
حضور ؐ نے فرمایا ـ: ’’وہ لوگ تمھارے ہی جیسے اور تمھارے بھائی ہی ہوں گے۔ وہ تمھاری طرح راتوں کو عبادت کریںگے لیکن اللہ کی مقرر کی ہوئی حدودِ حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں کریں گے اورانھیں پامال کرتے رہیں گے‘‘۔
دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے : ’’پھر جو تجھ سے زیادہ قریب ہو وہ تیری رفاقت کا حق دار ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیںکہ رسول کریمؐ نے فرمایا : ’’والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے‘‘۔
صحابہ ؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! ایسا کون ہے جو والدین کو گالی دے‘‘۔
آپ ؐ نے فرمایا : ’’وہ شخص ہے جو کسی کے والدین کو گالی دے اور وہ جواب میں اس کے والدین کو گالی دے ۔ گویا اس نے اپنے والدین کو گالی دلائی‘‘۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا : ’’باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ صلۂ رحمی سے پیش آنا اور ان سے اچھا سلوک کرنا بہت بڑی نیکی ہے‘‘۔
حضرت انسؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جو شخص رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘۔
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو نیک اور اطاعت گزار بیٹا اپنے والدین کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
صحابہ ؓ نے سوال کیا: اگر کوئی شخص سو بار اپنے والدین کو بنظر محبت دیکھے تو کیا پھر بھی اسی طرح ثواب ملے گا ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ہاں، ہر نظر کے بدلے حجِ مبرور کا ثواب دیا جائے گا، اللہ اکبر واطیب (اللہ بہت بڑا اور ہر عیب سے پاک ہے)‘‘۔
حضرت سہل بن سعد ؓ کے مطابق رسول کریمؐ نے فرمایا ـ:’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (خواہ وہ یتیم اس کا اپنا رشتہ دار ہو یا غیر ) جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے شہادت کی اور بیچ کی انگلی (حضوؐر نے ان دونوں انگلیوں کو کھول کر اور ان میں کشادگی رکھ کر بتایا کہ جس طرح ان دونوں کے درمیان براے نام فاصلہ ہے، اسی طرح یتیم کی کفالت کرنے والے کے درمیان اور میرے درمیان فاصلہ ہو گا)‘‘۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں کے ساتھ ایک عمارت کے اجزا کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور بتایا کہ اس طرح مسلمانوں کو باہم متحد رہنا چاہیے ‘‘۔
حضرت انس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایاـ: ’’جس نے مظلوم کی مدد کی ، اللہ کے ہاں اس کے لیے ۳ ۷مرتبہ بخشش اور مغفرت لکھ دی جاتی ہے، جن میں سے ایک مغفرت کے نتیجے میں اس کی دنیا سنور جاتی ہے اور باقی ۷۲ بخششیں روز قیامت کے لیے محفوظ رہ جاتی ہیں‘‘۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔
مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدا ن جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے، مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔
حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’حیا خیر ہی خیر ہے ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔
حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔
اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔
حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں : ’’اے لوگو ، تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو‘‘:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔
ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔
پس حضوؐر نے میرا ہاتھ پکڑا اور گن کر پانچ باتیں بتائیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا :
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔
حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔