عبدالبدیع صقر


دورِ اُموی میں اگرچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ (۲نومبر ۶۸۱ء- ۵فروری ۷۲۰ء)کا عہد ِ حکومت (۲۴ستمبر۷۱۷ء- ۵فروری ۷۲۰ء) بہت مختصر رہا، لیکن انھوں نے بگڑے ہوئے شاہانہ نظامِ حکومت کو درست سمت دینے کے لیے بڑی روشن مثالیں قائم کیں۔

عمربن عبدالعزیز ؒکی پہلی تقریر

جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو منبرپر یہ پہلاخطبہ دیا:

  • لوگو!آج کے بعد جوشخص ہمارا ساتھی رہناچاہے، وہ پانچ چیزوں کے ساتھ ہمارا ساتھی رہ سکتاہے ورنہ ہمارے پاس نہ پھٹکے:
  • جوشخص اپنی احتیاج اور ضرورت کے لیے ہم تک نہیں پہنچ سکتا،ہمارا ساتھی اس کو ہم تک پہنچانے میںمدد کرے۔
  • بھلائی کے معاملے میںہماری ہرممکن مدد کرے۔
  • جن اچھی باتوں کاہمیں علم نہ ہو،وہ ہمارے علم میں لائے۔
  •  ہماری رعایاکودھوکا نہ دے۔
  • فضول باتوں کی طرف توجہ نہ دے۔

یہ خطبہ سن کرشاعراورخطیب ان سے دُورہٹ گئے۔علمااورزاہد،ان کے پاس رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’جب تک یہ اپنے کہنے کے مطابق عمل کرتے رہیں گے،اس وقت تک ہم ان کے ساتھ رہیں گے‘‘۔

عمر بن عبدالعزیز ؒکے نام حسن بصریؒ کا خط

حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو حسن بصری رحمۃ اللہ کو لکھا کہ ’’براہ کرم امامِ عادل کی صفات بیان کیجیے‘‘۔ حسن بصریؒ نے جواب میں درج ذیل خط لکھا:

اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہوناچاہیے کہ امامِ عادل ہر متکبر کو سیدھا کرنے والا، ہرظالم کوٹھیک کرنے والا،ہرفاسدکا مصلح،ہرکمزور کی قوت،ہرمظلوم کی امداداورہر غم زدہ کی جائے پناہ ہوتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایسے چرواہے کی طرح ہوتاہے، جو اپنے اونٹوں پر مہربان اور شفیق ہو ،ان کے لیے بہترین چارہ تلاش کرے اور انھیں درندوں سے،ہلاکت سے اور گرمی سردی سے بچائے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل ایک باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد پر شفیق ہوتا ہے،بچپن میں ان کی نگرانی کرتاہے،انھیں تعلیم دلاتاہے،اوراپنی زندگی میں ان کے لیے کماتا ہے اور مرنے کے بعدان کے لیے ذخیرہ بھی کرجاتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل اپنی اولادپر ایک نہایت ہی شفیق اورنرم دل ماں کی طرح ہے جو بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے اور اس کے جاگنے پرجاگتی ہے اور اس کے سونے پر سوتی ہے۔کبھی تو وہ دودھ پلاتی ہوئی نظرآتی ہے اورکبھی کھلانا کھلاتی ہوئی۔ اس کی خوشی پر وہ خوش اور اس کی تکلیف پر اس کو تکلیف ہوتی ہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل یتیموں کا وارث اور مسکینوں کا خزانچی ہوتاہے جو بچپن میں ان کی تربیت کرتاہے اور جوانی میںحفاظت کرتاہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل جسمِ انسانی میں دل کی طرح ہے جس کی صحت پر تمام دوسرے اعضا کی صحت وبیماری کادارومدار ہے۔

اے امیرالمومنین!امامِ عادل خدااوربندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بات سنتاہے اور لوگوں کو سناتاہے۔وہ خدا کی طرف بھی دیکھتاہے اور بندوں کی طرف بھی۔ وہ خداکافرماں بردارہوتاہے اورلوگ اس کے فرماں بردارہوتے ہیں۔

اے امیر المومنین!اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کاآپ کومالک بنایاہے ان میں اُس غلام کی طرح نہ ہوجائیے جس پر مالک نے اعتماد کیاہو،اپنے مال اوراہل وعیال کا محافظ بنایاہو،لیکن اس نے مال کو برباد کردیااوربچوں کواِدھراُدھربکھیردیا۔اس طرح بچے بھی بھوکے رہے اور مال بھی برباد ہوگیا۔

اے امیرالمومنین!آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حدودنازل ہونے کا مقصدیہ ہے کہ لوگ بُرائی اور بدکاری سے بچ جائیں۔ اگر وہی لوگ بدکاری کرناشروع کردیں جواس کے خاتمے کے لیے مقرر کیے گئے تھے تو بدی کیسے رکے گی؟ اسی طرح قصاص مقرر کیاگیا ہے تاکہ انسانوں کوقتل نہ کیا جائے اور اگر وہی لوگ قتل کرنے لگیں جن کی ذمہ داری قصاص دلوانا ہے تو اس کا کیا علاج ہے؟

اے امیر المومنین!موت اور موت کے بعد اس وقت کو یاد کریں، جب کوئی ساتھی و مددگار نہ ہوگا،لہٰذا بڑی گھبراہٹ یعنی قیامت کے لیے تیاری کریں۔

اے امیرالمومنین!آپ کا ایک ایساگھرہوگاجواس گھرسے بالکل مختلف ہوگا۔ جس میں آپ کاٹھیرنابڑا لمبا ہوگااور آپ کے دوست آپ سے جدا ہوں گے اورآپ کو تنہا ایک قبر میں ڈال دیں گے۔اس دن کے لیے اپناساتھی بنائیے جس دن کہ آدمی اپنے بھائی، ماں باپ،بیوی اوربچوں سے دُوربھاگے گا: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۝۳۴ۙ وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۝۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۝۳۶ۭ (عبس ۸۰: ۳۴-۳۶)’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ،اوراپنی بیوی اور اپنی اولادسے بھاگے گا‘‘۔

اے امیرالمومنین!وہ وقت یاد کریں جب قبروں سے مُردے اٹھ کھڑے ہوں گے اور سینوں کے راز کھل جائیں گے: اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ۝۹ۙ  (العٰدیٰت۱۰۰:۹) ’’تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ(مدفون ہے)اسے نکال لیاجائے گا‘‘۔

اس موقعے پر اعمال نامہ ہرقسم کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ ظاہر کر دے گا۔

اے امیرالمومنین!ابھی فرصت اورمہلت ہے، موت سے پہلے کچھ کرلیں۔

اے امیرالمومنین!اللہ کے بندوں پر نہ تو جاہلوں جیسی حکمرانی کیجیے اورنہ ان کے ساتھ ظالموں جیساسلوک کیجیے۔طاقت ور کو کمزوروں پر مسلط نہ کیجیے، کیونکہ وہ قرابت اور ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کے اوپران کے غلط کاموں کا بوجھ آن پڑے گا،نیز یہ کہ دنیاداروں کو عیش وعشرت میں مبتلااور انھیں مرغن اور لذیذ کھانے کھاتے دیکھ کردھوکا نہ کھائیں کیونکہ آپ کو اس کے بدلے میںیہ چیزیںقیامت کے دن ملیں گے۔ خلیفہ ہوتے ہوئے آپ یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے پاس کتنی قدرت اور کتنی طاقت ہے،بلکہ یہ دیکھیں کہ کل، جب کہ آپ موت کی رسیوں میں بندھے ہوئے فرشتوں کے مجمعے میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور سب کے سب اسی انتظار میں ہوں گے کہ ربّ العزت کی طرف سے کیافیصلہ صادر ہوتاہے،اس وقت آپ کی کیا طاقت ہوگی!

اے امیر المومنین!اگرچہ میں بزرگوں کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتا جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں، مگر آپ کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کاجذبہ رکھتے ہوئے کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ انھیں اچھی طرح سمجھنا۔ میری یہ کڑوی باتیں اس جگری دوست کی دواکی مانند ہیں، جو وہ اپنے بیمار ساتھی کو اس امید پرپلاتاہے کہ اس بدمزہ دواکے استعمال سے وہ صحت مند ہوجائے گا۔والسلام

عمربن عبدالعزیزؒ کو حضرت طاؤسؒ کی نصیحت

اسی طرح عمر بن عبدالعزیزؒ نے بعض باتیں پوچھنے کے لیے حضرت طاؤسؒ کو ایک خط لکھا، جس کےجواب میں حضرت طاؤس ؒنے لکھا:

اے امیرالمومنین!آپ پرسلامتی ہو۔اللہ تعالیٰ نے کتاب اتاری اور اس میں بعض چیزوں کو حلال اوربعض چیزوں کوحرام کیا۔اور مثالیں اور واقعات بیان کیے ہیں اور اس میں سے بعض آیات محکم اوربعض متشابہ ہیں۔لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کے حصول اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کوحرام قراردیں۔ قرآن پاک میں بیان کردہ واقعات پر غوروفکرکریں۔ محکمات پر عمل کریں اور متشابہات پر ایمان لائیں۔

والسلام

 عمربن عبدالعزیزؒ کاخط حضرت سالمؒ کے نام

عمربن عبدالعزیزؒ نے حضرت سالم ؒبن عبداللہ کو یہ خط لکھا:

تم پر سلامتی ہو!سب سے پہلے میں اس اللہ کی تعریف کرتاہوں،جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔

امابعد! میرے مشورے اورمیری طلب کے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس امت کا بوجھ میرے اوپر ڈال کے مجھے آزمائش میں ڈال دیاہے۔میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ اس معاملے میں میری مدد فرمائے اور میں اُسی سے التجا کرتاہوں کہ وہ اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے توفیق دے کہ لوگو ں پر شفقت کروں اور وہ میری اطاعت کریں۔ جب یہ خط آپ کے پاس پہنچے تو حضرت عمر فاروقؓ کے خطوط،ان کی سیرت اور اہل قبلہ اور اہل ذمہ کے متعلق فیصلے مجھے ارسال کردیں کیوںکہ میں ان کی سیرت اور ان کے اقوال پر عمل کروں گا۔اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔

والسلام

حضرت سالم ؒکاجواب میں عمربن عبدالعزیزؒ کے نام خط

حضرت سالمؒ بن عبداللہ نے اس خط کے جواب میںدرج ذیل خط عمر بن عبدالعزیزؒ کو لکھا:

سلام مسنون اور حمدو ثنا کے بعد!اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق پیدافرمایا۔ اسے تھوڑی مدت باقی رکھ کر اسے اور اس میں رہنے والوں کو فنا کردے گا۔

اے عمر!آپ پربہت بڑی ذمہ داری ہے۔اگر آپ چاہیں کہ قیامت کے دن آپ اور آپ کے اہل وعیال خسارے میں نہ رہیں،تو اس کے لیے کوشش کریں کیوں کہ آپ سے پہلے جو لوگ بھی گزرے ہیں انھوں نے حق کو مٹانے اور باطل کوزندہ کرنے کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔ اس زمانے میں بہت سے مرداورعورتیں پیداہوئیں لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ اس غلط قسم کی کارکردگی کوسنت سمجھتے رہے ہیں۔

اگرآپ کسی کارندے کو اس کی غلط کاری کی وجہ سے معزول کردیں اور یہ کہیں کہ تم میری مرضی کے مطابق کام نہیں کرسکتے، تو آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔

اگر آپ یہ کام صرف اللہ کے لیے کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا اور امدادنیت کے مطابق ہوتی ہے۔اگر آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ خدا کے سامنے اس حال میں پیش ہوں کہ آپ پرکوئی ذمہ داری نہ ہواورآپ سے پہلے گزر جانے والے آپ پررشک کریں تو ایسا ضرورکیجیے، کیوںکہ وہ تو موت کا نظارہ کرچکے ہیں اور اس کی خوف ناکیوں کو اپنی آنکھوں سے  دیکھ چکے ہیں اور ان کی وہ آنکھیں جن کی لذتِ دیدختم نہیں ہوتی تھی،فنا ہوچکی ہیںا وروہ پیٹ جوکھانے سے پُر نہیں ہوتے تھے،پھٹ چکے ہیں۔ دنیا میں تو خدام، پلنگوں اور عالی شان بستروں اور تکیوں کا دوردورہ ہوتاتھا،مگر آج ان کی گردنوں کے نیچے کوئی تکیہ اور ان کے جسموں کے نیچے کوئی بستر نہیں۔ اب وہ زمین کی گہرائیوں میں گل سڑ چکے ہیں حالانکہ دنیا میں خوشبو کے اندر بسے رہتے تھے۔ اور اگر کوئی مسکین ان کے قریب کھڑا ہوتاتو اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کرتے تھے: اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ !

اے عمر!جس آزمایش میں آپ ڈالے گئے ہیں جانتے ہیں کتنی بڑی ہے!

جس عامل کو بھی آپ کام پر روانہ کریں،اسے خون بہانے اورناجائزطور پر مال لینے سے سزا کی حدتک پرہیز کرائیں۔ اے عمر! مال سے بچیں،اے عمر!خون سے بچیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں آپ کو حضرت فاروق اعظمؓ کے خطوط اور ان کی سیرت ارسال کروں،تواے امیرالمومنین! گزارش ہے کہ حضرت عمرؓ کا زمانہ اور ان کا عملہ،آپ کے زمانے اور عملے سے مختلف تھا۔ مجھے امید ہے کہ اُس طریقے پراپنی خلافت کو چلائیں گے جس طریقے پرحضرت عمرؓ نے چلائی تھی، جب کہ آپ نے ظلم وستم برداشت کیے ہیں، تو اللہ کے نزدیک آپ حضرت عمرؓ سے افضل ہوں گے۔ایک نیک بندہ کی طرح آپ یوں کہیں:

وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْہٰىكُمْ عَنْہُ۝۰ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۝۰ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ  اِلَّا بِاللہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۝۸۸ (ھود ۱۱:۸۸) میں ہرگزیہ نہیں چاہتاکہ جن باتوں سے میں تم کو روکتاہوں ان کاخود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتاہوں جہاں تک میرا بس چلے۔ اوریہ جوکچھ میں کرنا چاہتا ہوں، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پرہے۔ اُسی پرمیں نے بھروسا کیا اور ہرمعاملے میں اسی کی طرف مَیں رجوع کرتاہوں۔

والسلام

عمربن عبدالعزیزؒ کی آخری تقریر

ابوسلیم ہذلی کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنے آخری خطبے میں فرمایا:

امابعد!اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بے کار پیدانھیں کیااور نہ تمھارے تمام معاملات میں سے کسی کوبے کار بنایاہے۔ تمھیں ایک دن خداکے ہاں جانا ہے،اس دن تمھارے متعلق فیصلہ کیاجائے گا۔

 وہ آدمی ناکام رہے گا جواللہ کی رحمت سے دور اور اس کی جنت سے محروم ہو جائے، جس کا عرض زمین وآسمان جیسا ہے۔ اور جس نے خوف کوامن کے بدلہ میں اورقلیل کو کثیر کے بدلہ میں خریدا،اس نے خسارے کا سودا کیا۔ تمھیں معلوم نہیں کہ تمھیں ایک دن مرنا ہے اور تمھاری اولاد کو تمھاری جگہ لینی ہے۔ اورپھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا ہے۔

ہردن کوئی نہ کوئی آدمی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتاہے تو تم اسے زمین میںدفن کر دیتے ہواور بغیربسترے اور تکیہ کے لٹاآتے ہواوروہ تمام اسباب اوراحباب کو چھوڑ کر زمین کے نیچے سکونت اختیار کرلیتاہے، اور وہ اس حال میں حساب دے گا کہ اس کے عمل رہن رکھے ہوئے ہوں گے، جو کچھ آگے بھیج چکا،اس لحاظ سے فقیر اور جو پیچھے چھوڑ آیا ہے، اس لحاظ سے وہ غنی ہوگا، لہٰذاموت کے آنے سے پہلے خدا سے ڈرو۔

خدا کی قسم! میں تمھیں یہ بات کہہ رہاہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کسی کے اتنے گناہ ہوں گے جتنے کہ میرے ہیں۔اورجوضرورت مند میرے پاس آتاہے،میں ہر ممکن کوشش کرتاہوں کہ اس کی ضرورت کوپوراکروں۔ اور کوئی ایسا شخص میرے پاس پہنچے جس کی ضرورت میںپوری نہیں کرسکتا تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس میں تبدیلی پیدا کروں اور میں اوروہ برابر ہوجائیں۔

خداکی قسم! اگر میں شان وشوکت اورعیش و عشرت کی زندگی بسر کروں تو میری زبان میں یہ طاقت ہے اورمیں اس کے لیے اسباب بھی مہیا کرسکتاہوں، مگر کتابُ اللہ اور سنت رسولؐ کو جانتا ہوں جس میں خداکی اطاعت کا حکم دیاگیاہے اوراس کی نافرمانی سے روکا گیا ہے۔

یہ خطبہ دینے کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اپنی چادر اپنے چہرے پرڈال لی اور رونے لگے۔لوگ بھی انھیںروتادیکھ کررونے لگے۔

  •   بـے لوث محبت:حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت وجلال کی وجہ سے    آپس میں محبت کرتے تھے ؟ آج، جب کہ میرے سایے کے سوا کہیں سایہ نہیں ہے ، میں انھیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا‘‘۔

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔

صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

  •  عداوت: حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک کلام کرے۔ ایسا نہ ہو کہ دو مسلمان بھائی آمنے سامنے ہوں تو ایک ادھر کو منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری سمت رخ کر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔

حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو    یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔

مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدانِ جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے۔ مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔

  •  میانہ روی:حضرت عبداللہ ؓ بن سرجس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اچھی سیرت ، وقار اور اطمینان کے ساتھ کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ، نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔

حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔

  •  حیا اور اخلاق:حضرت عمر ؓ بن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حیا صرف خیر ہی لاتی ہے ‘‘۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’حیا خیر ہی خیر ہے ‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔

حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔

حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔

  •  تکبّر اور غصّہ:  حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔

 حضور ؐ نے فرمایا :’’غصہ مت کیا کرو ‘‘۔

اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔

حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔

  •  ظلم و ستم: حضرت ابن عمر ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ :’’ ظلم قیامت کے روز ظالم کے لیے اندھیرے بن جائیں گے ‘‘۔

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔

 حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔

  •  امربالمعروف:حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی منکر (بُرے کام ) کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی قدرت بھی نہ ہو تو دل میں اسے بُرا جانے اور یہ (تیسرا درجہ ) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ ۔

 حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں : ’’اے لوگو ، تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو‘‘:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج   لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔

ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔

ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

 ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

  •   دُنیا: حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کی دونعمتیں ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں لوگ فریب کھا جاتے ہیں (یعنی ان کی قدر نہیںکرتے)۔ ایک صحت وتندرستی اور دوسری فرصت ‘‘۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔

حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔

پس حضوؐر نے میرا ہاتھ پکڑا اور گن کر پانچ باتیں بتائیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا :

  •   اللہ کی حرام کی ہوئی اور منع کی ہوئی چیزوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تو تم سب سے زیادہ عبادت گزار شمار ہو گے۔
  •  اللہ نے جو کچھ تمھاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی ہو جائے، تو تم سب بے بڑھ کر غنی ہو گے۔
  •  پڑوسی پر احسان کرو، تو تم سچے مومن بن جائو گے۔
  • دوسروں کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، تو تم اچھے مسلمان بن جائو گے۔
  •  اور زیادہ نہ ہنسا کرو ۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسی دل کو مُردہ کر دیتی ہے ۔
  • حصولِ دولت کی غیرمعمولی کوشش: حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! ہروہ عمل جو جنت کے قریب کرنے والا ہے اور دوزخ سے دور کرنے والا ہے ، میں تمھیں بتاچکا ہوں اور اس پر عمل کرنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اسی طرح ہر وہ کام جو دوزخ کے قریب کرنے والا اور جنت سے دُور کرنے والا ہے اس سے بچنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اور مجھے حضرت جبریلؑ امین نے ایک وحیِ خفی کے ذریعے سے بتایا ہے کہ کسی متنفس کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے۔ سنو، تو پھر اللہ سے ڈرو اور دنیا کمانے کی سر توڑ کوشش نہ کرو، بلکہ حدودِ حلال وحرام کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب کوشش کرو اور زیادہ توجہ اور کوشش آخرت کے معاملات میں صرف کرو۔ اور خدا کی نافرمانی کر کے تم جو رزق حاصل کرنا چاہو گے اسے حا صل نہ کر سکو گے۔ اس لیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اسے تو اطاعت اور فرماںبرداری کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔

  • ریا شرک ہـے:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں شرک سے بے نیاز اور بے پرواہوں ۔ اگر کوئی شخص کسی نیک کام میں میرے ساتھ کسی اورکو شریک کرے تو میں اسے ردّ کر دیتا ہوں اور اس میں سے کوئی حصہ نہیں لیتا‘‘۔

اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔

حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔

ترجمہ :عاصم نعمانی

’سنت‘ اس عمل کو کہتے ہیں جو صحیح سند کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل تین طریقوں سے ثابت ہو : lآپؐ کا ارشادمبارک ہو lآپؐ نے خود کوئی کام کیا ہوlاور وہ عمل جو  آپؐ کے سامنے کیا گیا ہو اور آپ ؐ نے اسے دیکھ کر سکوت فرمایا ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسول ؐ تمھیں دے وہ لے لو۔ اور جس چیزسے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔ اور اللہ سے ڈرو۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء۴:۸۰) جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی O اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی O (النجم ـ۵۳:۳-۴) وہ، (یعنی محمدؐ) ، اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے ، یہ تو وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بے شمار ابدی اور لازوال نصیحتوں سے بھری ہوئی ہے، مگر اس مقام پر ہم نے اختصار کے پیش نظر اس بحرِ بے کراں میں سے صرف چند احادیثِ صحیحہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

 r رجوع الی اللہ: حضرت عرباض بن ساریۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور ؐ ہمارے ساتھ نماز ادا فرما چکنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور نہایت مؤثر انداز میں تقریر فرمائی، جسے سن کر سامعین آب دیدہ ہوگئے، دلوں پر رقّت طاری ہوگئی اور جسم میں کپکپی پیدا ہو گئی ۔ اس حالت کو دیکھ کر ایک صاحب نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! جس انداز میں آپ ؐ نے یہ وعظ فرمایا ہے گویا کہ یہ آپ ؐ کا آخری وعظ ہے، تو اسی طرح ہمیں کوئی اور نصیحت فرمائیں۔

حضور ؐ نے ارشاد فرمایا ـ: ’’میں تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، اور یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم (اپنے امام یا خلیفہ کی بات ) سنو، اور اس کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ میرے بعد جو لوگ زندہ رہیںگے وہ بہت سے اختلافات دیکھیں گے۔ اس لیے تمھیں چاہیے کہ ان اختلافات کے وقت تم میری سنت اور خلفاے راشدین کے طریقے کی پیروی کرو۔ (میری سنت اور میرے خلفا کے طریقے کو ) اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو، نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ شریعت کے معاملات میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بیٹے، اگر تجھ سے ہو سکے کہ صبح اس حال میں کرے کہ کسی کے متعلق تیرے دل میں کوئی کینہ نہ ہو، اور شام بھی اسی حالت میں کرے ، تو اس پر ضرور عمل کر‘‘۔

حضوؐر نے فرمایا : ’’اے بیٹے ، اور یہ بات جو ابھی کہی گئی ہے،میری سنت ہے (یعنی میرے صبح وشام اسی طرح گزرتے ہیں کہ میرے دل میں کسی کے متعلق کوئی کینہ نہیں ہوتا ) ۔ جو میری سنت سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اور جو میرے ساتھ محبت کرتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘۔

  •  نماز کی  تاکید: حضرت ابو دردا ؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل (حضور ؐ ) نے مجھے نصیحت فرمائی کہ : ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیرانا ، چاہے ٹکڑے کر دیے جائیں یا تجھے جلا ڈالا جائے۔ اور جان بوجھ کر فرض نماز کبھی ترک نہ کرنا، اس لیے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کردی اللہ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اور شراب نہ پینا کیونکہ شراب ہر برائی کی جڑ ہے‘‘۔

حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے علیؓ! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا:

  • نماز میں،جب اس کا وقت آ جائے
  •  جنازے میں، جب سامنے آجائے o اور بے خاوند والی عورت کے نکا ح میں،جب اس کا مناسب رشتہ مل جائے‘‘۔
  •  موت کی تیاری: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ   علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا : ’’دنیا میں مسافر یا ایک راہ گزر کی طرح رہو ‘‘۔ اور حضرت ابن عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو۔ اور بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جانو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو‘‘۔

حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وصال سے تین دن پہلے میں نے حضوؐر کو فرماتے ہوئے سنا:’’ تم میں سے ہر شخص کو اس حالت میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھتا ہو‘‘۔

  •  تسبیح کی فضیلت:حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ۔ آپ ؐ نے فرمایا :’’ کیا تم میں سے کوئی ہر روز ہزار نیکیاں کمانے کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘ اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا : ’’یہ کس کے بس میں ہے کہ روزانہ ہزار نیکیاں کماسکے؟‘‘

اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’جو شخص ہر روز سو بار سبحان اللہ پڑھے اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کے ہزار گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘ ۔

  •  توبہ و استغفار:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
  •   اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر بھی اس بات کو حرام کر لیا ہے کہ میں کسی پر ظلم کروں، اور میں نے تمھارے اوپر بھی حرام کر دیا ہے کہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
  •  اے میرے بندو! تم سب کے سب گم کردۂ راہ ہو سواے اس کے جسے میں راہ دکھائوں ، پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمھیں سیدھا راستہ دکھائوں گا۔
  •    اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو سواے اس کے جسے میں کھلائوں، پس مجھ سے ہی رزق طلب کرو، مَیں تم کو دوں گا۔
  •  اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو سواے اس کے جسے میں پہنائوں، پس مجھ سے ہی لباس مانگو، میں تمھیں لباس عطا کروں گا۔
  •   اے میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمھارے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہوں، پس تم مجھ سے معافی مانگو میں تمھیں معاف کر دوں گا۔
  •  اے میرے بندو ! تمھارے بس میں نہیں ہے کہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکو اور نہ تم مجھے کوئی فائدہ ہی پہنچ سکتے ہو۔
  •  اے میرے بندو! اگر تمھارے تمام اگلے پچھلے لوگ اور تمام انس وجن تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار انسان کی طرح بھی ہو جائیں، تو اس سے میری سلطنت میں ذرہ سا بھی اضافہ نہیں ہو سکتا۔
  •   اے میرے بندو! اگر تمھارے تمام اگلے پچھلے لوگ اور تمام انسان اور تمام جن تم میں سے سب سے زیادہ گناہ گا ر انسان کی طرح بھی ہو جائیں، تو میری سلطنت میں اس سے کوئی نقص نہیں آ سکتا۔
  •  اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے پچھلے لوگ اور تمام انسان اور تمام جن ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے سوال کرے اور میں ہر ایک کو اس کے مطالبے کے مطابق دیتا جائوں، تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہو سکتی جتنی سمندر میں سوئی ڈبو کر نکال لینے سے اس کے پانی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
  • اے میرے بندو! تمھارے اعمال میرے پاس محفوظ ہیں، جب تم میرے پاس آئو گے تو میں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ پس اس وقت جو بھلائی پائے وہ کہے ’الحمد اللہ ‘ اور جو بھلائی کے سوا کچھ اور پائے، تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
  •  گھر سے نکلتے وقت کی دُعا: حضرت اُمّ سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے:

بِسْمِ اللہِ ،تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ ، اَللّٰھُمَّ اِنَّـا نَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ نَذِلَّ اَوْ نَضِلَّ، اَوْ نَظْلِمَ ، اَوْ نُظْلَمَ،  اَوْ نَجْھَلَ اَوْ  یُجْھَلَ عَلَیْنَا، اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اس کے نام سے آغاز کرتا ہوں ۔ اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ہم (راہِ حق سے ) پھسل جائیں یا گمراہ ہو جائیں ، کسی پر ظلم کریں یا خود گرفتارِ ظلم ہو جائیں اور نادانی کریں یا ہمارے ساتھ کوئی نادانی کرے۔

  •  اداے قرض کی دُعا:حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بقول ایک شخص نے حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! رنج وغم اور قرض میرے ساتھ چپک کر رہ گئے ہیں۔

حضوؐر نے فرمایا : ’’کیا تجھے ایسا کلام نہ سکھا دوں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تیرا غم بھی دُور کر دے اور تیرا قرض بھی ادا ہوجائے ؟‘‘

ان صاحب نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! وہ کلام ضرور سکھایئے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صبح وشام یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ ، وَاَعُوْذُبِکَ  مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ ، اے اللہ میں رنج وغم سے، درماندگی اور کاہلی سے، اور قرض کے بار اور لوگوں کے جبرسے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’میں حضوؐر کی ہدایت کے مطابق اس دعا کو پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے میرا غم بھی دُور فرما دیا اور قرض بھی ادا ہو گیا‘‘۔

  •  عام دُعا:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـ : ’’اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو مصائب کی کشاکش سے ، بدبختی میں پھنس جانے سے ، بُرے انجام سے اور ایسی حالت سے جسے دیکھ کر دشمن ہنسے (یعنی یہ دعا پڑھا کرو:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَدَرْکِ الشَّقَاءِ وَسُوْ ءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ  الْاَعْدَاءِ)۔
  •  دس نصیحتیں:حضرت معاذ ؓ کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس نصیحتیں فرمائیں ـ: آپ ؐ نے فرمایا :
  •        اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیرائو ،چاہے تمھیں قتل کر دیا جائے یا جلا ڈالا جائے۔
  • ہرگز اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو، چاہے وہ بیوی بچوں اور گھربار سے دست بردار ہونے کا حکم دیں۔
  •  جان بوجھ کر فرض نماز ہرگز ترک نہ کرو۔ کیوںکہ جو شخص فرض نماز بالارادہ ترک کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہے۔
  •  کبھی شراب نہ پیو، اس لیے کہ شراب تمام بے حیائیوں اور فواحش کی بنیاد ہے۔
  • اللہ کی نافرمانی سے بچو، اس لیے کہ نافرمانی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی موجب ہے۔
  •  معرکۂ جہاد میں دشمن کے مقابلے سے کبھی راہِ فرار اختیار نہ کرو، خواہ لشکر کے تمام لوگ ہلاک ہو جائیں اور تم تنہا رہ جائو۔
  •   جب کوئی وباے عام پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو، تو وہیں ٹھیرے رہو۔
  •  اپنے اہل و عیال پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرو۔
  •  اہل وعیال کی اخلاقی اور دینی تعلیم وتربیت کی خاطر اگر سختی کرنی پڑے تو حسب ِ ضرورت اس سے بھی دریغ نہ کرو اور ان کو اللہ سے ڈرایا کرو۔
  •  جہاد کی فضیلت:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آدمی اللہ کی راہ میں نکلا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ضامن اور متکفل ہوں۔ کیوںکہ وہ اسی لیے تو نکلا ہے کہ وہ مجھ پر پختہ ایمان رکھتا ہے اور میرے رسولوںؑ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے میں اسے اجر کا مستحق بناکر اور مال غنیمت دے کر لوٹا ئوں گا اور (مر جانے یا قتل ہوجانے کی صورت میں ) اسے جنت میں داخل کروں گا‘‘۔

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا وما فیہا سے بہتر ہے‘‘۔

حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی غازی کے لیے سامانِ جہاد مہیا کیا تو گویا اس نے خود جہاد کیا ، اور جو شخص کسی غازی کے گھر کی دیکھ بھا ل کرتا رہا تو گویا اس نے بھی جہاد کیا‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :   ’’اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے سے قرض کے سوا ، تمام گناہ مٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے، اس کا جہنم میں جانا ایسا ہی (ناممکن ) ہے جیسے دودھ کا تھنوں میں واپس چلاجانا، اور جس بندے پر راہِ خدا میں گردِ راہ چڑھی ہو، اس کو جہنم کی تپش نہیں پہنچ سکتی، اور اسی طرح بخل اور ایمان کسی مسلمان کے دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ‘‘۔

  • ملاقات کے آداب:حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دومسلمان جب ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان کو بخش دیا جاتا ہے‘‘۔

حضرت معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑے ہو جانے پر خوش ہوتا ہو، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔

  •  کلمۂ خیر:حضرت بلال بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کلمۂ خیر کہتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کہاں کہاں پہنچتے ہیں۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ قیامت تک کے لیے اپنی خوش نودی لکھ دیتا ہے۔

اسی طرح ایک دوسرا ا ٓدمی جو ایک کلمۂ شر (بُری بات ) کہتا ہے جس کے دُور رس نتائج کو وہ نہیں جانتا۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے اور قیامت تک اس کے لیے یہی کیفیت رہتی ہے‘‘۔

  •  مومنین کے اخلاق: حضرت اسماء بنت یزید ؓ کا بیان ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی نے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرنے سے دوسروں کو منع کیا، اللہ ضرور اسے دوزخ کی آگ سے بچائے گا‘‘۔

 حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول ؐ اللہ! مجھے نصیحت فرمائیے‘‘۔

آپ ؐ نے فرمایا :’’ میںتمھیں خشیت الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس خصلت کے اختیار کرنے سے تمھارے ہر کام میں زینت اور خوش نمائی پیدا ہو جائے گی‘‘۔

میںنے عرض کیا: ’’کچھ اور بھی نصیحت فرمائیے ‘‘۔

آپ ؐ نے فرمایاـ : ’’قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ عزّ وجل کا ذکر اپنے اُوپر لازم کر لو۔ ایسا کرنے سے آسمانوں میں تمھارا ذکر کیا جائے گا اور زمین میں یہ عمل تمھارے لیے روشنی کا باعث ہو گا‘‘۔

میں نے عرض کیا:’’ کچھ مزید فرمائیے ‘‘۔

آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’خاموش رہنے کی عادت ڈالو کیونکہ یہ شیطان سے بچنے کا ہتھیار اور دین کے معاملے میں مدد گار ہے‘‘۔

میںنے مزید عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، تو حضور ؐ نے فرمایا : ’’زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے دل مردہ اور آدمی کاچہرہ بے رونق ہو جاتا ہے‘‘۔

میری مزید گزارش پر حضوؐر نے فرمایا ـ ـ:’’ ہمیشہ سچ بات کہو چاہے تلخ ہو‘‘۔

میں نے پھر عرض کیا، تو حضوؐر نے فرمایا : ’’اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرو‘‘۔

میں نے کہا :’’نصیحت میں مزید اضافہ فرمائیے‘‘۔

حضوؐر نے فرمایا : ’’اپنے عیبوں اور گناہوں پر نظر رکھو تا کہ دوسروں کی عیب جوئی سے بچے رہو‘‘۔

بخاری ، ترمذی اور ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص امن واطمینا ن کے ساتھ صبح کرے، اور اس کا جسم بھی درست اور تندرست ہو، اور اس دن کی خوراک بھی اس کے پاس ہو، تو گویا دنیا کی تمام ہی نعمتیں اسے مل گئیں‘‘۔

  • غیبت کی بُرائی:حضرت ابو سعید ؓ وحضرت جابر ؓ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ ہے‘‘۔

لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! وہ کیسے؟

آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی زنا کے ارتکاب کے بعد جب توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن جب کوئی آدمی غیبت کرتا ہے تو اسے اس وقت تک معاف نہیں کیا جاتا جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی تھی‘‘۔

  • اپنی قوم کی عصبیت:ایک خاتون کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ (ان کے والد کہتے ہیں)کہ : ’’میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت ہے ؟‘‘

آپ ؐ نے فرمایا :’’ نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی آدمی ناحق اپنی قوم کی حمایت کرے‘‘۔

  •  عمل میں اخلاص:حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں اپنی امت کے کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو قیامت کے دن میدانِ حشر میں تہامہ کے پہاڑوں کی مانند بلند ، اچھے اعمال لے کر آئیں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کا سب کیا دھراغبار کی طرح اُڑا دے گا‘‘۔

حضرت ثوبان ؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ! ان لوگوں کی کوئی واضح نشانی بیان فرمائیے اور ان کے طرزِ عمل کی وضاحت فرمائیے تا کہ ہم نادانستگی کی بنا پر ان جیسے نہ ہو جائیں ، اور ہم ان سے بچ سکیں۔

حضور ؐ نے فرمایا ـ: ’’وہ لوگ تمھارے ہی جیسے اور تمھارے بھائی ہی ہوں گے۔ وہ تمھاری طرح راتوں کو عبادت کریںگے لیکن اللہ کی مقرر کی ہوئی حدودِ حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں کریں گے اورانھیں پامال کرتے رہیں گے‘‘۔

  •  ہمسایـے کا حق: حضرت عائشہ ؓ اور ابن عمر ؓ دونوں سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حضرت جبریلؑ ہمسایے کے بارے میں مجھے مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ اسے وراثت میں حصہ دار بنا دیا جائے گا‘‘۔
  •  والدین کے حقوق و آداب:حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! میری خدمت اور رفاقت کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے ؟آپ ؐ نے فرمایاـ : ’تیری ماں‘۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا :’ تیری ماں‘ ۔ اس نے تیسری بار پھر یہی سوال کیا کہ پھر کون ؟ حضور ؐ نے فرمایا :’تیری ماں‘۔ چوتھی بار جب اس نے یہی سوال کیا تو آپ ؐ نے فرمایا ــ: ’تیرا باپ‘۔

دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے : ’’پھر جو تجھ سے زیادہ قریب ہو وہ تیری رفاقت کا حق دار ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیںکہ رسول کریمؐ نے فرمایا : ’’والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے‘‘۔

صحابہ ؓ نے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! ایسا کون ہے جو والدین کو گالی دے‘‘۔

آپ ؐ نے فرمایا : ’’وہ شخص ہے جو کسی کے والدین کو گالی دے اور وہ جواب میں اس کے والدین کو گالی دے ۔ گویا اس نے اپنے والدین کو گالی دلائی‘‘۔

ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا : ’’باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ صلۂ رحمی سے پیش آنا اور ان سے اچھا سلوک کرنا بہت بڑی نیکی ہے‘‘۔

حضرت انسؓ حضوؐر سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جو شخص رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘۔

حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو نیک اور اطاعت گزار بیٹا اپنے والدین کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔

صحابہ ؓ نے سوال کیا: اگر کوئی شخص سو بار اپنے والدین کو بنظر محبت دیکھے تو کیا پھر بھی اسی طرح ثواب ملے گا ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ہاں، ہر نظر کے بدلے حجِ مبرور کا ثواب دیا جائے گا، اللہ اکبر واطیب (اللہ بہت بڑا اور ہر عیب سے پاک ہے)‘‘۔

  •  تعاون و رحم:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شوہر والی اور بے سہارا خاتون اور کسی مسکین کے کاموں میںدوڑدھوپ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘‘ ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’اور وہ اس شب زندہ دار کی مانند ہے جو راتوں کو نماز پڑھتے پڑھتے تھکتا نہ ہو، اور اس دائمی روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ افطار نہ کرتا ہو ‘‘۔

حضرت سہل بن سعد ؓ کے مطابق رسول کریمؐ نے فرمایا ـ:’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (خواہ وہ یتیم اس کا اپنا رشتہ دار ہو یا غیر ) جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے شہادت کی اور بیچ کی انگلی (حضوؐر نے ان دونوں انگلیوں کو کھول کر اور ان میں کشادگی رکھ کر بتایا کہ جس طرح ان دونوں کے درمیان براے نام فاصلہ ہے، اسی طرح یتیم کی کفالت کرنے والے کے درمیان اور میرے درمیان فاصلہ ہو گا)‘‘۔

حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں کے ساتھ ایک عمارت کے اجزا کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور بتایا کہ اس طرح مسلمانوں کو باہم متحد رہنا چاہیے ‘‘۔

حضرت انس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایاـ: ’’جس نے مظلوم کی مدد کی ، اللہ کے ہاں اس کے لیے ۳ ۷مرتبہ بخشش اور مغفرت لکھ دی جاتی ہے، جن میں سے ایک مغفرت کے نتیجے میں اس کی دنیا سنور جاتی ہے اور باقی ۷۲ بخششیں روز قیامت کے لیے محفوظ رہ جاتی ہیں‘‘۔

  •  بـے لوث محبت:حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت وجلال کی وجہ سے    آپس میں محبت کرتے تھے ؟ آج، جب کہ میرے سایے کے سوا کہیں سایہ نہیں ہے ، میں انھیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا‘‘۔

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔

صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

  • عداوت: حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک کلام کرے۔ ایسا نہ ہو کہ دو مسلمان بھائی آمنے سامنے ہوں تو ایک ادھر کو منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری سمت رخ کر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔

حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو    یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔

مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدا ن جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے، مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔

  • میانہ روی:حضرت عبداللہ ؓ بن سرجس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اچھی سیرت ، وقار اور اطمینان کے ساتھ کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ، نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔

حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔

  • حیا اور اخلاق:حضرت عمر ؓ بن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حیا صرف خیر ہی لاتی ہے ‘‘۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’حیا خیر ہی خیر ہے ‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔

حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔

حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔

  •  تکبّر اور غصّہ:  حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ’’ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔

 حضور ؐ نے فرمایا :’’غصہ مت کیا کرو ‘‘۔

اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔

حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔

  •  ظلم: حضرت ابن عمر ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ :’’ ظلم قیامت کے روز ظالم کے لیے اندھیرے بن جائیں گے ‘‘۔

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔

 حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔

  •  امربالمعروف:حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی منکر (بُرے کام ) کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی قدرت بھی نہ ہو تو دل میں اسے بُرا جانے اور یہ (تیسرا درجہ ) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ ۔

 حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں : ’’اے لوگو ، تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو‘‘:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج   لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔

ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔

ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

 ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

  •  دُنیا: حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کی دونعمتیں ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں لوگ فریب کھا جاتے ہیں (یعنی ان کی قدر نہیںکرتے)۔ ایک صحت وتندرستی اور دوسری فرصت ‘‘۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔

حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی    مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔

پس حضوؐر نے میرا ہاتھ پکڑا اور گن کر پانچ باتیں بتائیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا :

  • اللہ کی حرام کی ہوئی اور منع کی ہوئی چیزوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تو تم سب سے زیادہ عبادت گزار شمار ہو گے۔
  •  اللہ نے جو کچھ تمھاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی ہو جائے، تو تم سب بے بڑھ کر غنی ہو گے۔
  •  پڑوسی پر احسان کرو، تو تم سچے مومن بن جائو گے۔
  • دوسروں کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، تو تم اچھے مسلمان بن جائو گے۔
  • اور زیادہ نہ ہنسا کرو ۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسی دل کو مُردہ کر دیتی ہے ۔
  •  حصولِ دولت کی غیرمعمولی کوشش: حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! ہروہ عمل جو جنت کے قریب کرنے والا ہے اور دوزخ سے دور کرنے والا ہے ، میں تمھیں بتاچکا ہوں اور اس پر عمل کرنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اسی طرح ہر وہ کام جو دوزخ کے قریب کرنے والا اور جنت سے دُور کرنے والا ہے اس سے بچنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اور مجھے حضرت جبریلؑ امین نے ایک وحیِ خفی کے ذریعے سے بتایا ہے کہ کسی متنفس کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے۔ سنو، تو پھر اللہ سے ڈرو اور دنیا کمانے کی سر توڑ کوشش نہ کرو، بلکہ حدودِ حلال وحرام کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب کوشش کرو اور زیادہ توجہ اور کوشش آخرت کے معاملات میں صرف کرو۔ اور خدا کی نافرمانی کر کے تم جو رزق حاصل کرنا چاہو گے اسے حا صل نہ کر سکو گے۔ اس لیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اسے تو اطاعت اور فرمانبرداری کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔

  •   ریا شرک ہـے:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں شرک سے بے نیاز اور بے پرواہوں ۔ اگر کوئی شخص کسی نیک کام میں میرے ساتھ کسی اورکو شریک کرے تو میں اسے ردّ کر دیتا ہوں اور اس میں سے کوئی حصہ نہیں لیتا‘‘۔

اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔

حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔