اسلام محض ایک روایتی مذہب نہیں___ یہ ایک مکمل دین اور جامع نظام زندگی ہے، جو عقیدے، عبادات، انفرادی اخلاق، اجتماعی نظام، قانون، عدالت، دعوت و تبلیغ اور ان کے زیر اثر وجود میں آنے والی عالم گیر اور درخشاں تاریخی روایت سے عبارت ہے۔ اسلام کی یہ جامعیت ایک نظری و عملی حقیقت اور اس کی امتیازی شان ہے۔
جہاں اس امر واقعہ کا احساس اور اس پر افتخار بجا ہے، وہاں اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے، کہ آج بڑی حد تک مسلم دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں مسلم معاشرہ اپنی اصل شان کھو رہا ہے۔ بنیادی طور پر ایک ’اسلامی معاشرے‘ کے بجائے آج ہمارا واسطہ ایک ایسے مخلوط معاشرے سے ہے، جس میں اسلام اور جاہلیت گڈمڈ نظرآتے ہیں۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیبی روایات کی روشن جھلکیاں ہیں، تو دوسری طرف قدیم روایت کے جاہلی تاریخی اثرات اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بڑھتے ہوئے تاریک سائے ہیں۔ بہت سی خیر اور بظاہر بڑی قیمتی دینی علامات کی موجودگی کے باوجود بڑے پیمانے پر معاشرہ غفلت کا شکار ہے۔ اسلامی روح اور اس جوہر کی کمی نظر آتی ہے، جو فکر و نظر اور معاشرے اور تمدن کو امتیازی اسلامی شان عطا کرتا ہے۔ بقول علّامہ محمداقبال ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
اس غفلت اور محرومی کا احساس اس وقت شدید ترہو جاتا ہے، جب معاشرے میں کوئی چونکا دینے والا واقعہ رونما ہو جاتاہے اور سارے دل خوش کن دعوؤں اور احساسات کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی خوش فہمی میں مبتلا اس خودپسند بادشاہ کا سا تو نہیں، جو برہنہ ہونے کے باوجود اس زعم میں مبتلا تھا کہ وہ قیمتی لباس میں ملبوس ہے، اور ایک بچے کے معصوم مگر بے باک اظہارِ خیال نے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، اس کی خود پسندی اور خودستائی کا سارا طلسم کافور کر دیا۔بالکل اسی طرح معاشرے میں اچانک رونما ہونے والے حادثات، ہمارے معاشرتی افلاس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔
چند برس پہلے ہماری عدالت اور ہماری صحافت ایک ایسے ہی چونکا دینے والے واقعے کے مالہ و ماعلیہ سے نبرد آزما رہی ہے___ جس میںوالدین کے خلاف ایک دینی گھرانے کی نوجوان لڑکی کی بغاوت، ’’پسند کی شادی‘‘، گھر سے فرار، تھانے اور کچہری کے چکر، مقدمہ بازی، قیدورہائی، اپنوں کی گراں باریاں، نام نہاد این جی اوز کی کارستانیاں، انسانی حقوق کے نام لیوائوں کی کرم فرمائیاں، میڈیا کی کرشمہ سازیاں، ملکی ہی نہیں بین الاقوامی ایجنسیوں کی دلچسپیاں___ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک تکلیف دہ واقعے کا عدالتی تصفیہ مطلوب نہیں بلکہ اسلام، اس کے ’عائلی قانون‘ (Family Law)بلکہ پوری مسلم تہذیبی روایت پر تارکول پھیرنے کی کوشش اور وہ بھی میڈیا ٹرائل کی شکل میں اصل ہدف ہے۔ ایک خاندان ہی نہیں پورا ملک اس کرب ناک عمل سے گزرا ہے، اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی میڈیا ٹرائل جاری رہا۔ گویا دو نظریات اور دو تہذیبی روایات دست و گریبان ہیں!
اس طرح یہ واقعہ محض ایک فرد یا ایک خاندان کا مسئلہ نہ رہا، بلکہ ایک ایسی بحث کا عنوان بن گیا، جس کی زد میں ہمارا خاندانی نظام بلکہ پوری اسلامی معاشرت آئی۔ نیز اجتماعی اصلاح اور بگاڑ کے سلسلے میں والدین، عدالت اور صحافت کے رول اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی غوروفکر کے متعدد گوشے اس قضیے میں سامنے آئے۔ ان تمام پہلوئوں پر تفکر اور عبرت کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ اصلاحِ احوال کے لیے مناسب تدابیر اور اقدامات کی نشان دہی کی جا سکے۔
زندگی کے ان تلخ حقائق اور معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے صرفِ نظر کرنا یا ان پر پردہ ڈالنا مسائل کا حل نہیں___ آنکھیں بند کرنے سے خطرات کبھی ٹلا نہیں کرتے، ان کا بہادری سے مقابلہ ہی تاریکیوں کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص اور صبر و ہمت سے علاج کا سامان کیا جائے۔
جن خاندانی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل سے اس وقت ہمارا معاشرہ دو چار ہے، وہ محض کسی خاص فرد یا چند افراد اور خاندانوں کا معاملہ نہیں اور مسئلہ بھی صرف یہ نہیں ہے کہ: ’’ایک مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں؟ــ’’یا ولی کی مرضی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟‘‘
بلاشبہ یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور شریعت نے ان کے بارے میں بہت واضح رہنمائی فراہم کی ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم یہ سوالات ہیں کہ:
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں دعوتِ عمل نہیں دے رہا:
جب کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر رہے ہوں تو کشتی کے دوسرے لوگوں کو خاموش اور بے نیاز نہیں رہنا چاہیے…اب اگر وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اسے بھی بچاتے ہیں اور خود بھی بچتے ہیں۔ لیکن اگر اسے چھوڑ دیتے ہیں (یعنی کشتی میں سوراخ کرنے دیتے ہیں) تو اسے بھی ہلاک کرتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اور مشرق و مغرب کا ذاتی مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کا مسلم معاشرہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے اور اخلاق اور سماجی استحکام کے اعتبار سے مغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ اس کا اعتراف نہ کرنا کفرانِ نعمت کے مترادف ہوگا۔
جن لوگوں کی نگاہ مغربی تہذیب اور اس کے جلو میں آنے والی اخلاقی تباہی، خاندانی نظام کی زبوں حالی، عصمت و عفت کی تحقیر و تذلیل اور بے حیائی اور بے وفائی کی توقیر، بچوں کی کسمپرسی، بے باپ گھرانوں کی کثرت، طلاق کی فراوانی اور ان کے جلو میں رونما ہونے والے طوفانوں پر ہے۔ وہ پکار رہے ہیں ؎
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمر موت
نوبیل پرائز یافتہ فرانسیسی سائنس دان الیکس کاریل (Alexis Carrel) ۱۹۳۵ءمیں اس نسبت سے علامہ محمد اقبال کا ہم نوا ہو کر اپنی کتاب Man The Unknown (انسان نامعلوم) میںکہتا ہے:
ہم جائز و ناجائز کی تمیز کھو چکے ہیں، ہم نے طبیعی قوانین کی خلاف ورزی کرکے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا مرتکب سزا پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے، زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ [مغربی] تہذیب رُوبہ زوال ہے۔
لیکن یہ کیاستم ہے کہ آج اس رُوبہ زوال مغربی تہذیب و ثقافت کے تاریک سائے ہمارے نظامِ معاشرت و تمدن پر بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ہماری بنیادی اقدار اور روایات بھی ان کی زد میں ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقفیت اور اس حقیقت سے پہلو تہی ہے کہ فی الواقع ہمارا اپنا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بلکہ ایک ایسا مخلوط معاشرہ ہے، جس میں اسلامی تعلیمات اور روایات کے ساتھ قدیم ہندو جاہلی تہذیب کی بہت سی روایات مل جل گئی ہیں۔
اسلام کے احکامات اور تعلیمات کے کچھ اجزا ضرور ہماری روایت کا حصہ ہیں، لیکن اس کے بہت سے دوسرے نہایت اہم اجزا ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ترک کردیے ہیں۔ اس طرح شریعت کے مقاصد اور اس کے اصل مشن اور روح سے ہم بے پروا ہو گئے ہیں۔ اس سب پر مستزاد مغربی افکار و اقدار کے اثرات ہیں،جو ہماری معاشرت کا شیرازہ منتشر کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ تباہی صرف مغرب کی فکری یلغار اور میڈیا کے سامراجی حملوں ہی کے ذریعے نہیں آ رہی بلکہ ہم ہی میں سے کچھ عناصر اس مغربی ثقافتی امپزیلزم کے کارندوں اور اس دور کے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو جاہلی اثرات سے بالکل نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔ خاندان اور معاشرت کے حقیقی اسلامی تصور کو اسلامی احکام اور ان کی روح کے مطابق سمجھا اور نافذ کیا جائے۔ مغرب کی اندھا دھند نقالی سے پرہیز کیا جائے اور خالص اسلامی بنیادوں پر فرد اورمعاشرے کی تعلیم اور تشکیلِ نو کی جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اسلام کی تمام برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں گے اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لائق بن سکیں گے۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد مسلمان فرد اور مسلمان خاندان ہے۔
اسلام نے انسانی اجتماعی زندگی کے ان دونوں بڑے مسائل یعنی: مرد اور عورت کے رشتے اور فرد اور اجتماع کے تعلق___ کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیاہے۔ بلاشبہ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے تہذیبی فتنے انھی دونوں رشتوں میں بگاڑ، افراط و تفریط اور کمزوری و انتشار کے پیدا کردہ ہیں۔
اسلام نے اپنی دعوت کا اوّلیں مخاطب فرد کو بنایا ہے اور اس کے قلب و نظر کو ایمان کا گہوارہ قرار دیا ہے۔ ہر فرد کی سیرت سازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ اسلام ہر مرد اور عورت کو ایک اسلامی شخصیت سے آراستہ کر کے ہی معاشرتی اور تہذیبی انقلاب برپا کر تا ہے۔ فرد کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس کا رشتہ معاشرے سے جوڑتا ہے اور اس کے لیے ایسے ادارے قائم کرتا ہے، جو زندگی میں استحکام پیدا کر سکیں اور تمام انسانوں کی قوت وصلاحیت کو تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرسکیں۔ اسلامی اجتماعیت میں فرد، معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کش مکش اورمحض حقوق کی جنگ سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل بنیاد ہمدردی، تعاون، احترام، ایثار اور تکافل کا رشتہ ہے۔ شریعت کی روشنی میں دونوں کے رول متعین ہیں اور دونوں ایک ہی مقصد___ یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مصروفِ کار ہیں۔
اس طرح مرد اور عورت کا رشتہ بھی الہامی ہدایت کے تحت استوار کیا گیا ہے۔ خاندان کا نظام محض انسانی تجربے کا حاصل اور ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی موہوم معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں (جیسا کہ کارل مارکس، اینجلز اور درکھیم نے اپنے اپنے انداز میںکہا ہے) بلکہ یہی پہلا انسانی ادارہ ہے، جسے وحی الٰہی کے تحت قائم کیا گیا اور جس سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ کی شریعت نے اس ادارے کے مقاصد اور خطوطِ کار متعین کر دیے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا پودا تناور اور پھل دار درخت اس بیج کی پیداوار ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
یہاں زوجی رشتے اور نسل کے تخلیقی عمل کے تعلق کو واضح کر کے خالق کائنات نے اس ادارے کی ابدی حکمت کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے۔
پھر قرآنِ عظیم میں خاندان کے دوسرے وظیفے یعنی محبت، مودت اور سکینت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اسلام نے خاندان کے نظام کو جو تقدس عطا کیا ہے، وہ منفرد ہے۔ یہ محض انسان کی تلاش و جستجو اور تجربے سے حاصل ہونے والا ادارہ نہیں بلکہ اللہ کا قائم کردہ نظام ہے، جو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور معاشرے اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس الہامی طور پر قائم ہونے والے ادارے کے بارے میں ساری ضروری ہدایات خود اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں فراہم کر دی گئی ہیں۔
قرآن پاک میں جو قانونی احکام ہیں، ان کا دو تہائی حصہ صرف خاندان کے مسائل کے بارے میں ہے۔ مسلم معاشرے کو آج تک اسلام کی بنیاد پر قائم رکھنے اور ہر انحراف کے بعد اصل کی طرف رجوع کی تحریک پیدا کرنے والے عوامل میں سب سے اہم، قرآن و سنت کی موجودگی کے بعد خاندان ہی کا ادارہ ہے، جو ہمارا اصل قلعہ اور مامن رہا ہے۔ جس کے حصار میں اس امت نے بڑے سے بڑے فتنے کے مقابلے میں پناہ لی ہے اور جس سے وہ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کے ہاتھوں تجدید واحیا کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔
مسلمان خاندان اور خصوصیت سے ’مسلمان ماں‘ وہ اہم ترین جائے پناہ رہی ہے، جس نے اس امت کو راہِ ثواب پر قائم رکھا ہے اور ہر پستی کے بعد نئی بلندی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دشمن انھی چیزوں کو خاص نشانہ بنا رہا ہے، یعنی وحی اور الہامی ہدایت (قرآن و سنت اور خاندان کا نظام)۔ اس کا ہدف مسلمان عورت کو اس کے دین سے برگشتہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی پروگراموں سے لے کر مخصوص ایجنڈے کی حامل غیر ملکی اور ملکی این جی اوز اس تخریبی کام میں مصروف ہیں۔
اسلام میں خاندان کے نظام کا اپنا مخصوص مزاج اور متعین نظام ہے۔ اسے انسانی تہذیبوں کے دوسرے نمونوں(models) سے گڈمڈ اورکنفیوز نہیں کیا جانا چاہیے۔ خواہ ہندو مذہب اور سماج میںپروان چڑھنے والا تصور خاندان ہو، یا یونان، روم اور کلیسا کے دور کا خاندانی نظام، یا صنعتی انقلاب اور مغربی اقدار کے زیر اثر رونما ہونے والا مختصر بلکہ منتشر خاندان کا یورپی اور امریکی نمونہ___ ان سب کے مقابلے میں اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے، وہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ اسے تاریخ کے پدری (partiachal) نظام یا مغربی ممالک کی نشات ثانیہ کے زیر اثر آزاد محبت گیری (romantic love) سے کوئی نسبت نہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے اسلام کے خاندانی نظام کی حقیقت اور اس کی روح کو اچھی طرح سمجھا جائے اور نئی نسلوں میں اس کی صحیح تفہیم پیدا کی جائے۔
اسلام میںنکاح محض شہوت کی تسکین کا ایک ذریعہ نہیں، اگرچہ جنسی عمل اور فطرت کے حقیقی تقاضوں کی جائز تسکین اس کا حصہ ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ایک نئے خاندان کے قیام کا ذریعہ ہے۔ دوخاندانوں میں نئے روابط کی ایک صورت، اور معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور استوار رکھنے کا ایک تخلیقی عمل ہے۔ اسی لیے ناجائز سے بچنے اور جائز ذریعے کو لائق اجر عمل قرار دیا گیا ہے۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک سنت اور کچھ حالات میں سنت موکدہ کی ہے۔ پھر نئے خاندان کے قیام کے عمل کو محض وقتی جذبات پر نہیں چھوڑا گیا، بلکہ اس کے لیے بڑے واضح اصولوں، ضابطوں اور ایسے تحفظات کا اہتمام کیا گیا ہے، جو خاندان کے قیام کو محض ایک کھیل اور تجربہ نہ بننے دیں۔
اسلام نے اپنے پوری عائلی نظام کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے، وہ یہ ہیں:
۱-اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، انسان کی خدائی کی جگہ رب العالمین کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور بندگی اور اطاعت کے راستے کو خوش دلی سے اور والہانہ انداز میں اختیار کرنا۔
۲-اللہ کی حاکمیت کے عقیدے کا لازمی نتیجہ انسانوں کی مساوات اور برابری، حقوق و فرائض کی پاس داری اور ایک ہی مقصد اور منزل کی جستجو میں رفاقت اور ہم سفری کا احساس اورتجربہ ہے۔ یہ تمام انسانوں کو، مرد اور عورت کو، شوہر اور بیوی کو، والدین اور اولاد کو، بزرگوں اور بچوں کو، غرض معاشرے کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے ایک نئے رشتہ میں جوڑ دیتا ہے اورزندگی گزارنے کے لیے ایک نئے اسلوب اور آہنگ سے روشناس کرتا ہے، جسے قرآن نے بڑے خوب صورت انداز میں کامیابی کے معیار کی صورت میں پیش کیاہے:
دنیا اورآخرت میں برتری اور کامیابی کا معیار نہ تو جنس (gender)ہے، نہ نسب، نہ دولت اور نہ اقتدار، بلکہ مرد اور عورت سب کے لیے صرف تقویٰ ہی واحد معیار ہے:
اور پھر سورۂ توبہ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا رفیق اور مددگار بتایا ہے۔ دونوں کے لیے کارگۂ حیات میں ذمہ داریاں متعین کی ہیں، اور دنیا اور آخرت میں اصل کامیابی کا ایک ہی راستہ اورایک ہی معیار اس دو ٹوک انداز میں بیان فرما دیا:
مسلم خاندان اور مسلم معاشرہ زندگی اور کامیابی کے اسی انقلابی اصول پر قائم ہوتا ہے اوریہ مسلم امت کو ان تمام گمراہ کن بحثوں سے نجات دے دیتا ہے، جن میں دورِ غلامی سے لے کر، عصرِ حاضر کی مادر پدر آزادی تک کے انسانی سماج میں وہ اُلجھا رہا ہے۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو میدان (matrix) ہمارے لیے بنایا ہے، اور وہ سب سے جدا اور سب سے امتیازی نشان والا ہے۔
۳-اسلام کے عائلی نظام کی تیسری بنیاد مہرو محبت اور صلہ رحمی ہے۔ نکاح دراصل اخلاق اور عصمت کے تحفظ کے لیے قلعے کی مانند ہے اور اس قلعے کے مکین ایک دوسرے کے لیے تسکین، محبت اور رحمت کا سرچشمہ ہیں: لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (الروم ۳۰:۲۱)۔ اور اس رشتے کو ایک دوسرے کے لباس کے قریبی رشتے سے تعبیر کیا گیا ہے: ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرہ۲:۱۸۷)۔اور پھر اس رحمت اور محبت کو ازواج یا اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ صلہ رحمی کے حکم کے ذریعے وسیع تر خاندان اور تمام دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس کی ٹھنڈک اور مٹھاس میں شریک کر لیا گیا ہے۔
۴-اللہ کی حاکمیت، اس کے تحت رونما ہونے والی مساوات اور شرکتِ مقاصد، عصمت کی حفاظت اور محبت اور رحمت کے بعد چوتھی بنیاد عدل و انصاف ہے۔ اسلام میں کوئی انسان کسی بھی دوسرے انسان کی ملکیت نہیں ہے اور کوئی کسی کا تابع مہمل نہیں ہے۔ سب حقوق و فرائض کے ایک الہامی اور منصفانہ نظام کے پابند ہیں۔ اور اگر ایک طرف اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور خاندانی نظام کے کامیاب نظم کی خاطر مرد کو ایک درجہ فوقیت دی گئی ہے، تودوسری طرف اس کا اختیار بھی قانون کے تابع اور جواب دہی کے نظام سے مشروط ہے۔ جبراور من مانی کا اختیار (arbitrary power) شریعت الٰہی کے نظام میں کسی کو حاصل نہیں، نہ مرد کو، نہ عورت کو:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔
ہر فرد اپنے اعمال کا ذمہ دار اور ان کے لیے جواب دہ ہے:
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(النساء۴:۱۲۴)اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔
اختیارات ذمہ داریوں اور جواب دہی کے اس نظام کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے دل نشیں انداز میں بیان فرمایا ہے:
تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ امام، نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی، آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی، اورعورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔(بخاری)
اس پس منظر میں آیت کریمہ: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ(الشوریٰ۴۲:۳۸)نے الٰہی قانون کے تحت منظم اور مرتب ہونے والے اس ادارے کے مزاج اور طرزِ کار کو بالکل واضح کردیا ہے۔ جس طرح اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ ایک شورائی ریاست اور شورائی معاشرہ ہیں، اسی طرح اسلام میں خاندان بھی ایک شورائی ادارہ ہے۔ مولانا مودودی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اسلامی طرزِ زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے، گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں، اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انھیں بھی شریکِ مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔(تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص۵۰۹)
۵- عدل و انصاف اور مشاورت کے اس نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمان خاندان کی پانچویں بنیاد فرد کی معاشی آزادی اوراجتماعی تکافل کا ایک ایسا نظام ہے، جو مرد اور عورت کی عزّتِ نفس اور آزادی کی مکمل ضمانت کے ساتھ ان کے درمیان تعاون اور شراکت کا رشتہ استوار کرتا ہے۔ دونوں کو اپنی اپنی مِلک پر پورا اختیار دیتا ہے۔ مرد کو نان نفقہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اورعورت کو محض بچوں کی پرورش کرنے والی اور جبری طور پر گھر کا کام کاج کرنے والی نہیں بناتا، بلکہ ان تمام معاملات کو ان کی اہمیت اور خاندانی نظام کی ضرورت کے مطابق حقوق کی باہم پاس داری کے ساتھ انجام دلانا چاہتا ہے۔
اس کے ساتھ گھر کے اندر بھی اور خاندان اور معاشرے کے وسیع تر میدان میں ایک ایسا نظام قائم کرتا ہے، جو بھی مالی اعتبار سے مضبوط ہو، وہ مالی اعتبار سے کمزوروں کی مدد، ان کے ایک حق کی ادائیگی کے جذبے سے کرے۔ یہ عمل زندگی اور موت دونوں صورتوں میں جاری رہے، یعنی نفقہ، صدقات، صلہ رحمی، وراثت، ولایت، اور نفقہ الاقارب کے قوانین اور ہدایت کی روشنی میں۔
مسلم خاندان کی ان امتیازی خصوصیات پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے: lیہ نظام دوسری تہذیبوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خاندانی نظام سے بہت مختلف ہے۔ lیہ ایک دینی اور شرعی ادارہ ہے۔ اس کی حد بندی اور کارکردگی خود الہامی ہدایت کی روشنی میں اورآخرت کی کامیابی کے جذبے سے کی جاتی ہے۔ lیہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ lیہ انسانی فطرت کے تقاضوں کی تسکین اور تکمیل کے لیے ایک موزوں اور دل کش انتظام ہے۔ lیہ نئی نسلوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین گہوارہ ہے۔ lیہ جسم اورروح کو محبت، مودت اور سکینت سے شاد کام کرنے اور اس پاکیزہ فضا میں نئی نسلوں کو پروان چڑھانے کا ادارہ ہے۔ lیہ اپنے دین، تہذیب اور تمدن اور انسانی معاشرے کے علوم و فیوض سے روشناس کرانے کا ایک نظام ہے۔ lیہ معاشی تکافل اور سوشل سکیورٹی کا ایک فطری نظام ہے، جس میں عزّتِ نفس کی مکمل پاسداری کے ساتھ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بنتے ہیں اور سب کو معاشی دوڑ میں شرکت اور وسائل سے استفادے کا موقع دیتے ہیں۔ lخاندان کا یہ نظام سیرت کے نکھار، معاشرتی استحکام اور تہذیبی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔
ملت اسلامیہ کا اصل مشن ایسے خاندانی نظام کا قیام اور استحکام ہے، جو ان اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ آج جس بگاڑ سے ہم دو چار ہیں، وہ اچانک رونما نہیں ہوا اور محض کسی ایک سبب کی بنا پر پیدا نہیں ہوا ہے۔ خرابی کی اصل جڑ دین کے علم کی کمی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور تعلیمات سے عدم واقفیت اور عملی غفلت ہے۔ مقصد ِزندگی کے شعور کی کمی، جاہلی افکار کا غلبہ، مؤثر قیادت کا فقدان اور معاشی ذمہ داریوں سے اغماض کا نتیجہ ہے۔ دورِ غلامی کے اثرات اور مغربی ثقافت کے زیر اثر حالات کا مزید بگاڑ، مفاد پرستی، محض معاشی اور مادی ترقی کے بتوں کی پوجا ہے۔ علما، مشائخ، اساتذہ، والدین اور میڈیا کا اپنے اصل فرائض کی انجام دہی میںکوتاہی برتنا اور بہت سے غلط اثرات کے فروغ کا ذریعہ بن جانا ہے۔ یہ ہیں وہ چند موٹے موٹے اسباب، جن کی وجہ سے یہ صورت حال رُونما ہوئی ہے۔
اصلاح کا راستہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی انفرادی واجتماعی ترجیحات کو درست کریں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی طرف خلوص اور یکسوئی کے ساتھ مراجعت کریں۔ اس وقت تو حال یہ ہے کہ ہم متضاد سمتوں کی طرف لپک رہے ہیں اور یوں دکھائی دیتاہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اوربحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اورکسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقینا اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلیدمیں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگردوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غوروفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اوراسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ اُمَرَائُکُمْ خِیَارَکُمْ وَاَغْنِیَائُکُمْ سُمَحَا ئَکُمْ وَاُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَیْنَکُمْ فَظَھْرُ الْاَرْضِ خَیْرٌ لَّکُمْ مِّنْ بَطْنِھَا وَ اِذَا کَانَ اُمَرَائُکُمْ شِرَارَکُمْ وَاَغْنِیَائُکُمْ بُخَلَائَکُمْ وَاُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ ظَھْرِھَا (ترمذی، مشکوٰۃ) حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمھارے حکمران اچھے کردار کے لوگ ہوں اور تمھارے خوش حال لوگ فیاض ہوں، تو ایسے دور میں تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہت بہتر ہے۔ اور جب تمھارے حکمران بدکردار لوگ ہوں اور تمھارے معاشرے کے مال دار لوگ بخیل ہوں، اور تمھارے معاملات بیگمات کے حوالےہوں ،تو پھر زمین کا پیٹ، زمین کی پیٹھ سے تمھارے لیے بہت بہتر ہے۔
اس حدیث میں اُمت کو تنبیہہ بھی ہے، تعلیم بھی اور رہتی دُنیا تک کے لیے روشن ہدایات بھی۔ یہ اُمت خیرِ اُمت ہے، صرف اپنے ہی لیے نہیں، عالمِ انسانیت کی فیض رسانی اور بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس مقصد ِ وجود کو یہ اُمت اس وقت تک پورا کرتی رہے گی، جب تک اس میں تین بنیادی جوہر پائے جاتے رہیں گے:
اجتماعی زندگی میں صالح اور باکردار قیادت کی اہمیت یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار اگر صالح اور باکردار ہوں تو پورا معاشرہ چار و ناچار پاکیزہ اور صالح بن جاتا ہے اور بنا رہتا ہے۔ اصحابِ اقتدار کی پیروی ایک فطری اور قدرتی امر ہے۔ مشہور مقولہ ہے: اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنٍ مُلُوْکِھِمْ، لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔
قیادت اور اقتدار اُمت کے پاس ایک بڑی امانت ہے۔ وہ اُمت زندہ اور بیدار ہے، جس میں یہ شعور پایا جائے کہ یہ امانت انھی کے حوالے ہونی چاہیے، جو اس کے اہل ہوں اور جو اپنے اجتماعی معاملات کے لیے اپنے میں سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ کردار کے افراد منتخب کرسکتی ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر کچھ بدکرداراور بداطوار دھوکے اور دھاندلی سے برسرِاقتدار آنے کی چالیں چلنا چاہتے ہوں، تو اُمت ان کی چالوں کو بروقت سمجھ کر ان کا توڑ کر سکتی ہو، اور ان کے عزائم کو ناکام کرکے ان کو بے اثر بناسکتی ہو۔
اقتدار صالح ہوگا تو پوری قوم میں صالحیت اور حُسنِ کردار کی روح جاری و ساری ہوگی، لیکن صالح اقتدار کو اپنے میں سے اُبھارنا، اور صالح افراد کو قیادت کے منصب تک پہنچانا بھی اُمت ہی کا کام ہے، اور یہ عظیم فریضہ اُمت کو بڑی بیدار مغزی، زندہ دلی، لگن اور جوش و ہوش کے ساتھ انجام دینا ہے اور اس کے لیے مسلسل فکرمند رہنا ہے___ قیادت سونپ کر احتساب سے غافل ہو جانا بھی خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اقتدار آدمی کو غلط راہ پر لگانے کے لیے مسلسل اور خاموش سرگرمی جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صالح اقتدار کی امانت اس کے اہل اور لائق اصحاب کو سونپنے کے لیے بڑا تاکیدی انداز اختیار فرمایاہے:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ (النساء۴:۵۸) بلاشبہہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں (اعتماد کی ذمہ داریاں) ان لوگوں کے حوالے کرو، جو ان کے اہل یعنی امین ہوں۔
اِنَّ کی تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ تمھیں ’حکم دیتا ہے‘۔ ایک بڑا غیرمعمولی تاکیدی انداز ہے۔ امانتوں سے مراد معاشرے میں ہرسطح پر اعتماد کی ذمہ داریاں ہیں۔ معاشرے میں ہرسطح پر سربراہی، قیادت، سرداری، حکمرانی اور رہنمائی کی ذمہ داریاں اُن لوگوں کے سپرد کی جائیں جو امین ہوں، اور ان ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کے اہل ہوں۔
اس غیرمعمولی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ اپنے معاملات اور اہم ذمہ داریاں اہل تر لوگوں کے حوالے کرنا، عام قسم کا مستحسن عمل نہیں ہے جس کے لیے اُمت سے کوئی سفارش کی جارہی ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ صاف، صریح حکم دے رہا ہے۔ اس معاملے کو افراد کی مرضی پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اچھے نتائج پائیں گے۔ بلکہ اس کی تعمیل ان پر واجب ہے اور وہ ایسا کرنے کے پابند ہیں۔ اللہ کا تاکیدی حکم ہے کہ وہ قیادت اور حکومت اہل تر لوگوں کے حوالے کریں۔ اس معاملے میں سہل انگاری، غفلت، لاپروائی اور بے توجہی خدا کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے۔
اس امانت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہی انداز میں ارشاد فرمایا: ’جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ کہا گیا: ’یارسولؐ اللہ! امانت ضائع کرنا کسے کہتے ہیں‘۔ فرمایا: ’جب حکومت اور سرداری نااہلوں کے سپرد کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ (بخاری بروایت ابوہریرہؓ)
ان تاکیدی ہدایات کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اُمت اس معاملے میں کبھی لاپروائی، بے تعلقی اور بے فکری کا رویہ اختیار نہ کرے۔ اس کو محض دُنیوی نظام سنبھالنے کا ڈھانچا سمجھ کر غیراہم نہ سمجھے، بلکہ اس معاملے میں ذہن و فکر کی قوتوں کو بھی لگائے اور عملاً دلچسپی بھی لے اور چاق و چوبند رہ کر پوری کوشش کرے کہ اقتدار اہل اور صالح فطرت لوگوں کے ہاتھ میں پہنچے۔ کہیں بے کردار، مکار اور مفاد پرست افراد اپنی سازشوں سے اس پر ناجائز قبضہ نہ کربیٹھیں، اور اُمت کی بے پروائی، بے تعلقی اور سادہ لوحی سے کہیں یہ عظیم امانت نااہلوں کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے ورنہ پورے نظامِ اجتماعی کی گاڑی غلط رُخ پر چل پڑے گی، اور پھر رنج، افسوس، ماتم اور شکوئوں اور ملامتوں کی کوئی مقدار بھی اس کو بریک نہیں لگاسکے گی۔
دوسری خوبی جو اُمت میں مطلوب ہے وہ یہ کہ اُمت کے اصحاب ِ ثروت، اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کا انعام سمجھیں۔ وہ ذاتی عیش و آرام میں پڑ کر محض دادِ عیش دینے کے لیے اس کو استعمال نہ کرنے لگیں کہ ذاتی عیش و عشرت کے لیے تو وہ فیاضی دکھائیںاور اُمت کی ضروریات اور گرے پڑے لوگوں کے لیے وہ حددرجہ کنجوسی، تنگ دلی اور بخیلی دکھائیں۔
ملّت کے تعلیمی ادارے اور تربیتی تنظیمیں مالی وسائل نہ پاکر دم توڑ رہی ہوں، اُمت کے نادار نانِ شبینہ کو محتاج ہوں، وسائلِ رزق کے لیے ترس رہے ہوں اور اہلِ دولت اپنے عیش و عشرت میں مگن ہوں، اور اپنے دسترخوان کے ریزے بھی ان کے حلق میں ڈالنے کو تیار نہ ہوں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ اُمت کے لیے بدترین زوال کا ذریعہ ہے، مگر دوسری طرف یہ خود اصحابِ ثروت و دولت کے لیے بھی عبرت ناک تباہی ہے۔ اُمت کے دولت مندوں کی عزّت و عظمت ملّت کی عزّت و عظمت سے وابستہ ہے۔ اُمت کے زوال کے اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرکے اور اُمت کے زوال پر راضی رہ کر اگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسی طرح دادِ عیش دیتے رہیں گے تو وہ سخت فکری گمراہی اور ایمانی زوال میں مبتلا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی عزّت ملّت کی عزّت میں ہے، ان کی عظمت و سربلندی جو کچھ ہے ملّت کے دم سے ہے۔ملّت زوال پذیر ہوئی تو وہ ہرگز عزّت نہ پاسکیں گے بلکہ انتہائی عبرت ناک ذلّت اور تباہی سے دوچار ہوں گے۔ ان کا اپنا بھلا اسی میں ہے کہ ملّت کو سربلند رکھنے کے لیے اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں۔ اپنے عیش و عشرت کی فہرستیں مختصر کر دیں، بلکہ ضرورت ہو تو پھاڑ کر پھینک دیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت ملّت پر لٹائیں کہ ملّت کے اجتماعی مسائل حل ہوں، ملّی ادارے اور ملّی نظم مضبوط ہو اور مالی وسائل کی کمی سے ملّت کا کوئی کام ہرگز نہ رُکے۔ ملّت کی سربلندی ملّت کے اصحابِ ثروت کی سربلندی ہے اور پھر اس سخاوت اور فیاضی کا جو صلہ حشر کے میدان میں ملنے والا ہے اس کے تو تصور ہی سے روح جھوم اُٹھتی ہے۔ تصور تو کیجیےان شاداب اور خوش و خرم چہروں کا جن پر نُور برس رہا ہوگا، اوران خوش نصیبوں کے آگے اور دائیں نُور دوڑ رہا ہوگا۔
قرآن کا ارشاد ہے: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھاکر واپس کردے، اور اس کے لیے باعزّت اجر ہے اس دن، جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نُور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا: آج بشارت ہے، تمھارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی‘‘۔ (الحدید ۵۷:۱۱-۱۲)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضوؐر کی زبانِ مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابوالدحداح انصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ حضوؐر نے جواب دیا: ہاں! اے ابوالدحداح۔ انھوں نے کہا: ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایئے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: میں نے اپنے ربّ کو اپنا باغ قرض دے دیا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ اسی میں ان کا گھر تھا اوروہیں ان کے بیوی بچّے رہتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کرکے سیدھے گھر پہنچے اور دُور سے بیوی کو پکار کر کہا: دحداح کی ماں! نکل آئو، میں نے یہ باغ اپنے ربّ کو قرض دے دیا ہے۔ وہ بولیں: تم نے نفع کا سودا کیا ہے، اے دحداح کے باپ۔
اوراسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچّے لے کر باغ سے نکل گئیں۔
اپنا دل پسند مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت انسان بلاشبہہ ذہنی اور جذباتی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے اور شیطان ورغلاتا ہے۔ مگر ایمان خدا پر اعتماد کا نام ہے___ اور خدا پر اعتماد کرکے جو شخص اقدام کرتا ہے اس کو خدا حکمت کی دولت سے نوازتا ہے۔
’’شیطان تمھیں فقروفاقے سے ڈراتا ہے اور بے شرمی کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اللہ تمھیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اور اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے، جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۲۶۸-۲۶۹)
یہ فرمان کہ ’’جسے حکمت ملی اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘ بڑی اہم حقیقت ہے، جس کی طرف قرآن نے متوجہ کیا ہے۔ شیطان آدمی کو ڈراتا ہے کہ اگر تم آج ملّت کی بھلائی کے لیے اپنا مال صرف کر دو گے تو کل تم خود دست نگر ہوجائو گے اور صرف تمھارے دے دینے سے ملّت کے عظیم مسائل اور انسانیت کی بہبودی کے عظیم کام انجام نہیں پاجائیں گے۔ البتہ تم ضرور فقروفاقے میں مبتلا ہوجائو گے، جس طرح آج معاشرے میں کچھ دوسرے لوگ ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ خوش حالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہو۔ خوب دادِ عیش دیتے رہو، اور پھر وہ نمود و نمائش اور عیاشی کے شرمناک کاموں پر اُکساتا ہے اور کہتا ہے: آج تمھارے پاس دولت ہے۔ تمھاری محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے۔ اس سے تم ہی فائدہ نہ اُٹھائو گے تو کون اُٹھائے گا۔ تمھارا عیش و آرام اور تمھاری یہ زندگی کی سہولتیں لوگوں کو گوارا نہیں ہورہی ہیں۔ اس لیے جو اعتراضات کرتے ہیں، جلنے دو انھیں حسد کی آگ میں،تمھاری اپنی کمائی ہے۔ خوب خوب فائدہ اُٹھائو۔
شیطان کے مکروفریب کے اس جال سے وہی بچ سکتا ہے، جس کی نظر اللہ کی مغفرت پر اور اللہ کے فضل پر ہوتی ہے۔ جو اس فراوانی اور اسبابِ عیش کو اللہ کا فضل سمجھتا ہے اور پھر اللہ کے لیے وسعت ِ قلب اور کشادہ دستی کے ساتھ خرچ کرتا ہے، اور خود کو رسولؐ اللہ کی اُمت کا ایک فرد تصور کرکے اپنی عزّت و عظمت کو ملّت کی عزّت و عظمت پر موقوف سمجھتا ہے۔ ملّت بھی سربلند ہوتی ہے اور وہ بھی سربلند ہوتا ہے۔ یہی حکمت و بصیرت جس کو مل گئی اُسے سب کچھ مل گیااور پھر وہ پوری آمادگی اور نشاط کے ساتھ ملّت کی اجتماعی بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ اُسے فقروفاقے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ جس ہستی کی ہدایت پر اپنی دولت لٹاتا ہے، اس کے بارے میں اس کا یقین یہ ہے کہ وہ واسع اور علیم ہے۔ اُس ہستی کو یہ بھی علم ہے کہ یہ شخص کن جذبات کے ساتھ اپنی دولت خرچ کر رہا ہے اور یہ بھی علم ہے کہ کن کاموں میں خرچ کر رہا ہے۔
پھر وہ واسع،بہت کشادگی والا ہے، جس نے اتنا دیا ہے وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ کشادہ ظرف بھی ہے اور کشادہ دست بھی۔ جو کچھ ہے وہ بھی اسی نے دیا ہے اور مزید کچھ دینا چاہے تو اس کے پاس کمی بھی نہیں ہے اور اس کو کوئی روکنے والابھی نہیں ہے۔ پھر داد و دہش کے نتیجے میں ملّت جس سربلندی اور سرفرازی سے نوازی جائے گی، وہ میری بھی تو عظمت اور سرفرازی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ زندگی یہی مختصر سی مہلت تو نہیں ہے جو موت پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو طویل زندگی کا بہت معمولی سا وقفہ ہے۔ زندگی کی تمہید، بلکہ اس کو بنانے، سنوارنے کا ایک قدرتی موقع ہے۔ مجھ سے زیادہ محروم اور نادان کون ہوگا، اگر میں اس زرّیں موقع کو کھو دوں، جو پھر دوبارہ مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ یہ ہے وہ سبق جو اہلِ دانش و بینش، اللہ کی ان تعلیمات سے حاصل کرتے ہیں۔
تیسری جوہری خوبی جو اُمت کی زندگی میں مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ ملّت میں جمہوری اور شورائی نظام ہو۔ ان پر کسی کی آمریت مسلط نہ ہو، نہ کسی شخص کی نہ کسی خاندان کی نہ کسی گروہ کی بلکہ ان کے اجتماعی اُمور صلحائے اُمت اور اصحابِ فکرونظر کے باہمی مشورے سے طے ہوں، ان کی زندگی کا نظام جمہوری اور شورائی نظام ہو۔
پھراس حدیث میں ایک اور واضح اشارہ بھی ہے، اُمت کی تباہی اور زوال کی جو باتیں نبیؐ نے گنائی ہیں۔ ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تمھارے اجتماعی اُمور عورتوں کے ہاتھوں میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دورِ عروج کے لیے ناگزیر ہےکہ اجتماعی اور سیاسی معاملات کی سربراہی مردوں کے ہاتھوں میں ہو اور شورائی نظام کے تحت اُمور انجام پائیں۔
اسلامی معاشرے کا تو بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ، ’’اور وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘۔
یہ باہمی مشورہ اجتماعی معاملا ت میں ہرسطح پر ناگزیر ہے۔ جو معاملات جتنے افراد سے متعلق ہوں، ان میں سب کی رائے لینا ایک فطری تقاضا پورا کرنا ہے۔ اپنے معاملے اور مفاد سے ہرایک کو قدرتی اور ذاتی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ اپنی ذاتی دلچسپی کی خاطر اپنے مفاد کے لیے برابر فکرمند بھی رہتا ہے، اور نئی نئی راہیں بھی سوچتا ہے۔ ایک فرد نہ سب کے مفاد کو پیش نظر رکھ سکتا ہے اور نہ ذاتی اغراض سے بلند ہونے کا اس کے بارے میں مستقل اطمینان کیا جاسکتا ہے، اور نہ ایک فرد میں ایسی صلاحیت ہوسکتی ہے کہ وہ بیک وقت ہرہرپہلو پر وسعت کے ساتھ نگاہ رکھ سکے، اور جانب داری یا کبرو نخوت جیسے ناپاک جذبات سے خود کو پاک رکھ سکے۔ اور ان گھٹیا جذبات سے معاشرے میں جو فساد پھیل سکتا ہے اور ظلم و زیادتی کی جو راہ کھل سکتی ہے وہ بھی نگاہ میں رہے تو کبھی کوئی خداترس نہ آمریت کے مسلّط کرنے پر راضی ہوسکتا ہے اور نہ آمریت جیسی لعنت کو برداشت کرسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسولؐ جیسی بے مثال ہستی کو بھی ہدایت کی گئی کہ مسلمانوں سے معاملات میں مشورہ لیجیے، اس لیے کہ آپؐ رہتی زندگی تک کے لیے زندگی کے تمام معاملات میں نمونہ ہیں اور آپؐ کی پوری زندگی اُسوئہ حسنہ ہے۔ اس اُسوئہ حسنہ کی پیروی کی سفارش ہی نہیں کی گئی بلکہ اللہ اور یومِ آخرت پر یقین کا لازمی تقاضا بتایا گیا ہے۔ خدا کے حضور انسان کا کوئی انفرادی یا اجتماعی عمل قطعاً شرفِ قبول نہیں پاسکتا، اگر وہ اُسوئہ حسنہ کے مطابق نہ ہو۔ اسلام اِتباع رسولؐ کا نام ہے ۔ اللہ سے تعلق اور محبت کا دعویٰ قابلِ تسلیم ہی نہیں ہے، اگر رسولؐ کی اِتباع اور پیروی سے اس کا ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فرد یا اجتماعیت پر محبت کی نظر ڈالتا ہی نہیں، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بے نیاز اس کے حضور پہنچا ہو۔
اللہ کی رضا اور محبت کی سند وابستہ ہے، اس عمل سے جس کو پیرویٔ رسولؐ کہتے ہیں۔سخت ترین نادان اور محروم ہیں، وہ لوگ جو اِتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر خدا کی محبوبیت اور اس کی رضا پانے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مسلمانوں کے مخلص سربراہ وہی ہیں اور ملّت انھی کی سرکردگی میں سربلندی اور عروج حاصل کرسکتی ہے، جو جمہوری اور شورائی نظام کے تحت ملّت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جن کے سینے میں پیرویٔ رسولؐ کی تڑپ ہے، اور یہ سربراہ وہی ہوسکتا ہے جو باہمی مشورے، انتخاب اور رضامندی سے قیادت کے منصب پر سرفراز ہو۔
پھر یہ قائد اور یہ شوریٰ بھی مطلق العنان اور مختارِ کُل نہیں ہیں کہ جو چاہیں باہمی مشورے سے فیصلہ کریں اور جس طرح چاہیں مسلمانوں کے معا ملات چلائیں، بلکہ یہ سب بھی اس دین اور قانون کے پابند ہیں، جس کا اللہ نے ان کو پابند بنایا ہے، اور یہ سب مامور ہیں اس بات پر کہ یہ رسولؐ کی کامل پیروی کریں اور اپنے ہرفیصلے کے لیے اپنے ضمیر اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و سنت سے سند پکڑیں اور خود بھی دین و شریعت کی اِتباع کریں، بلکہ اِتباعِ شریعت میں دوسروں کے لیے نمونہ پیش کریں کہ رسولؐ کے اُسوۂ حسنہ سے یہی تعلیم و ہدایت ملتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے: ’’اے رسولؐ! کہیے مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے آگے سرتسلیم خم کردوں، اور یہ کہ تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے خوفناک دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی‘‘۔ (انعام ۶:۱۴-۱۵)
اور دوسرے مقام پر رسولؐ اللہ کو صاف صاف ہدایت دی گئی ہے کہ وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰی اِلَیْکَ ،’’اور پیروی کیجیے اس ہدایت کی جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے‘‘۔
یہ تین جوہری بنیادیں اگر ملّت کی اجتماعی زندگی میں موجود ہوں تو وہ خود بھی عزّت و عظمت اور عروج و سربلندی کی زندگی گزارے گی اور دُنیا بھی اس کے وجود سے فیض یاب ہوگی اور پورا انسانی معاشرہ خدا کی نازل کردہ ہدایات کی خیروبرکت سے مالا مال ہوگا۔
اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بلیغ انداز میں یوں واضح فرمایا:’’تو تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہتر ہے، یعنی زمین کی پیٹھ پر تمھارا موجود رہنا تمھارے لیے باعث ِ فخر اور باعث ِ عزّت و عظمت ہے اور دُنیا کے لیے بھی باعث ِ خیر، تم بھی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو، اور دُنیا بھی تمھارے وجود کی بدولت خیروبرکت سے فیض یاب ہوگی۔ تم دُنیا میں اچھے اثرات قائم کرکے اور ایسی زندگی گزار کر جب خدا کے حضور پہنچو گے تو وہاں بھی سرخروئی اور رضائے الٰہی کے بلند مقام پر سرفراز ہوگے۔
اس کے برخلاف اگر کبھی کسی دور میں بدقسمتی سے اُمت تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیوں میں مبتلا ہوگئی، تو وہ اپنے لیے بھی باعث ِ ننگ ہوگی اور دُنیا کے لیے بھی ناگوار بوجھ۔ خدانخواستہ جب اُمت پر یہ روزِ بد آجائے تو اس وقت اس کے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہوگا۔ وہ تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیاں یہ ہیں:
لیڈرشپ ہمیشہ قوم کے اندر سے اُبھرتی ہے۔ بدکردار قیادت کسی قوم میں اسی وقت اُبھرتی ہے، جب پوری قوم کا مزاج و عمل اس کے اُبھرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور قوم اس احساس و شعور سے محروم ہوجاتی ہے ، کہ نیکی اور بھلائی ہی قابلِ قدر ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر کسی فرد کی قدروقیمت قائم ہونی چاہیے۔
ان کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتی ہے، نتیجتاً بدکردار اور بداطوار لوگ اپنی عیاری، سازش اور جوڑتوڑ سے قیادت پر قابض ہوجاتے ہیں اور اشرار کی قیادت اللہ کی طرف سے سرزنش بھی ہوتی ہے اور زوال اور رُسوائی کی مہر اور علامت بھی۔ اور پھر پوری قوم گراوٹ، زوال، بے عملی اور بُرائیوں کے طوفان میں پھنس جاتی ہے۔ بُرائی، گراوٹ اور کرپشن کی رفتار انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور اچھے اچھے دانشور یہ کہنے لگتے ہیں کہ اب معاشرے کے سدھرنے کی کوئی اُمید نہیں اور اب تو تباہی اس کے لیے مقدر ہے۔ اس لیے کہ بُرائیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے اقتدار کے مضبوط ہاتھ اور اقتدار کے سارے طاقتور وسائل فراہم ہوجاتے ہیں۔
دوسری اجتماعی بُرائی، جس کی طرف رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے وہ یہ کہ اصحابِ دولت و ثروت اللہ کے عطا کردہ مال کو اپنی ذاتی عیش پرستی میں بے دریغ صَرف کرنے لگتے ہیں، رنگ رلیاں منانے اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کرکے دادِ عیش دینا ہی ان کا مقصد ِ زندگی بن جاتا ہے۔ اس سے اُونچا کوئی مقصد ان کے سامنے نہیں رہتا۔ معاشرے کے ناداروں،کمزوروں اور گرے پڑے لوگوں کے مسائل سے انھیں قطعاً دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ ان کے دُکھ درد کی صدا سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وہ ان سے قریب ہوکر ان کے ٹوٹے دل کی دھڑکن پر کان لگانے کی فرصت ہی نہیں پاتے۔ انھیں یہ حقیقت ممکن ہے پڑھنے پڑھانے کی حد تک کبھی یاد آجاتی ہو، لیکن عملاً وہ اس حقیقت کو بالکل فراموش کربیٹھتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور جانوروں کی طرح گاڑیاں کھینچتے ہوئے ہانپنے والے مزدور بھی انھی کے ماں باپ آدمؑ اور حوا ؑکی اولاد ہیں۔ آباواجداد سے پانے والی دولت یا معاشرے میں رہ کر کمائی ہوئی دولت میں ان کا بھی حق ہے۔ مگر کسی اجتماعی ، فلاحی اور عوامی بہبود کے کام پر ان کی دولت کا کوئی حصہ صَرف نہیں ہوتا۔ ناداروں، غریبوں، مصیبت کے ماروں کے مسائل سن کر وہ نہ اپنے عیش کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی ذاتی سہولتوں کے لیے ہزار جتن سے جمع کی ہوئی دولت ان ضرورت مندوں کو دینے کے لیے ان کے دل میں کوئی گنجایش پیدا ہوتی ہے۔ ملّت کے تعلیمی ، رفاہی اور فلاحی ادارے اگر دم توڑ رہے ہیں تو وہ کیوں سوچیں اور اپنے ہنر اور محنت سے کمائی ہوئی دل پسند دولت ان پر کیوں صرف کریں؟ ملّت کے اصحابِ دولت و ثروت جب اس قدر بخیل و کنجوس ہوجاتے ہیں تو ملّت اس وقت زوال و خستگی کے آخری مرحلے پر ہوتی ہے، اور ملّت کے نزاع کا عالم ہوتا ہے۔
اس عیش کوشی، سہل انگاری اور رنگ رلیوں میں پھنسنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اصحابِ دولت و ثروت نفس کے غلام ہی نہیں عورت کے غلام بن جاتے ہیں اور یہی وہ تیسری بُرائی اور ملّی ذلت ہے جس کی طرف آپؐ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:
وَاُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَاءِکُمْ، اور تمھارے معاملات تمھاری بیگمات کے حوالے ہوں۔
دراصل عیش و عشرت میں ڈوبنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کے اعصاب پر عورت سوار ہوجاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کی سربراہی باعث ِ افتخار سمجھی جانے لگتی ہے۔
ملّت سنجیدہ غوروفکر، بلند مقاصد ، اُونچے عزائم اور محنت و جانفشانی، قربانی اور جانبازی، جرأت و شجاعت اور ٹکر لینے کی ہمت جیسے اعلیٰ اوصاف سے عاری ہوجاتی ہے۔وہ شرمناک ترین دور ہے، جس کو نبوت کی زبان نے ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے: ’’اس وقت تمھارے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے‘‘۔گویا یہ اُمت کا وہ دور ہے کہ اُمت زندگی کی سانسیں لینے کے باوجود ایک مُردار لاشہ ہے جس کی جگہ زمین کی پیٹھ نہیں، زمین کا پیٹ ہے۔
اس مقام پر ایک پہلو سوچنے کا یہ بھی ہے کہ گھر ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔ اس چھوٹے سے ادارے کے لیے بھی قرآن نے فیصلہ کن انداز میں یہ ہدایت دی ہے کہ: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ ، ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘‘۔
حالانکہ گھر وہ ادارہ ہے، جس کے بنانے سنوارنے اور چلانے میں عورت کا کردار نہایت اہم اور مثبت ہے تو پھر اسلام انسان کے وسیع تر اجتماعی معاملات میں عورت کی سربراہی اور حکمرانی کو کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس میدان میں آنے کے بعد وہ اپنے فطری وظائف اور مقاصد کی تکمیل اور نگہبانی نہیں کرسکتی۔ نہ صرف یہ کہ اپنے فطری مقاصد کی تکمیل نہیں کرسکتی بلکہ گوناگوں مفاسد کو جنم دے گی، جو میدان اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض اور عظیم تر کارناموں کے لیے مخصوص فرمایا ہے، اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں بھی اللہ نے اس کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور جو کام اس کے سپرد کیے ہیں اس کو وہی اور صرف وہی انجام دے سکتی ہے۔ اس میدان میں نہ کوئی مرد اس کی برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے، نہ ان فرائض کو ادا کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ عورت کے ان فرائض کی اہمیت اور قدروعظمت گھٹانے کی حماقت کرسکتا ہے۔
حضورؐ کی اس تنبیہ اور آگاہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کبھی اگر اُمت اپنی نالائقی اور عبرت ناک اجتماعی کوتاہی کی وجہ سے اس صورتِ حال سے دوچار ہو تو وہ خود کو کوسنے لگے اور اپنے مرنے کی دُعائیں مانگنے لگے۔ یا ہاتھ پیر توڑ کر قوموں کے رحم و کرم پر اپنے کو مطمئن کرکے ہرطرح کی ذلّت اور مسکنت کو اپنا مقدر سمجھنے لگے۔
تنبیہہ کا مطلب یہ ہے کہ اُمت ہوشیار ہو۔وہ اس شرمناک زندگی پر ہرگز راضی نہ ہو۔ اس ذلّت کی زندگی سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارے، اُمت کے باشعور اور غیور جواں مرد اُٹھیں، اُمت کو موت کے استقبال کا سبق پڑھائیں۔ اس زبوں حالی، شکست خوردگی اور شرمناک زندگی سے اُمت کو نکالنے کے لیے سر سے کفن باندھ کر میدان کشاکش میں اُتریں۔ عزّت کے ساتھ جینے کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب کوئی زخمی قوم جھرجھری لے کر بیدار ہوتی ہے اور ظالم کو للکارتی ہے تو ماحول میں ایک انقلابی ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور موت بھی ایسی سربکف قوم کا سامنا کرتے ہوئی جھجکتی ہے۔ قومی موت تو اُس مُردہ قوم کے لیے مقدّر ہے جو موت سے ڈر کر بھاگ کھڑی ہوتی ہے، نہ کہ اس زندہ قوم کے لیے جو موت سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ رکھتی ہے۔ قرآن میں ایک مُردہ قوم کا ذکر ان الفاظ میں ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۰۠ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۰ۣ (البقرہ ۲:۲۴۳) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا جو موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا: تم مر رہو۔
دُنیا اُمت کی زندگی کاحق تسلیم کرنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ملّت اٹل عزائم، بلند حوصلوں اور ناقابلِ تسخیر ہمت کے ساتھ صرف اللہ ذوالجلال کے بھروسہ پر اس شاہراہ پر چل پڑے جو اللہ نے اس کے لیے تجویز کی ہے۔
غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘سے ہے۔ اس کے معنی چھپانااورغفلت ہے۔انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے ،اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔
قرآن مجید میں۳۵؍آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبر ی ، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریم ؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے ۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔(یوسف ۱۲:۳)
اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔اسی سورہ میں حضرت یوسف ؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اورشکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے ۔ (یوسف۱۲: ۱۳)
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی ۔یہ وقت رات، علی الصبح، یادوپہر کا ہو گا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔
سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے ۔جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتا یا گیاکہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیاؑ آئے ،ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فر مایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۱۵۶ (انعام۶ : ۱۵۶) اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔
جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیاجائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیاـؑ، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی ، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے ۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے براء ت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی ( انعام۶:۹۴)
فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ۲۹ (یونس ۱۰:۲۹) ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔
دوسرا مفہوم بھلا دینا ، بھول جانا،نظر انداز کرنا ، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااُبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے ۔ایمان لانے والے،تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین،فجاروفساق ،بے پروا ،غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دُور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہو تا ہے ، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔
آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین ،قرآن مجید، اللہ کے احکامات ،رسولؐ اللہ کی سنتوں ، عبادات ،نیکی کے کاموں،انفاق ،جہاد فی سبیل، حقوق العباد ، آخرت کی جواب دہی ، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرے ۔اس کے لیے اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے رسول بھیجے، ان پر کتا بیں نازل کیں ۔ان کے ذریعے حق کو واضح کیا اور شرک و کفر کے نتائج سے واقف کرایا۔انسان کو اختیار کی آزادی دی کہ چاہے تو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرے اور آخرت میں کامیاب ہو جائے ، چاہے تو اس سے غفلت اختیار کرے۔ اگر وہ اس سے منہ موڑتا ہے تو ناکام ہو گا اور سزا سے دوچار ہوگا۔ انبیا ؑ کے مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غفلت سے چونکا کے انجام سے باخبر کر دیں تاکہ لوگ شعور و ادراک، علم وایمان کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ۰ۘ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۳۹ (مریم ۱۹:۳۹)اے نبی ؐ!اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ، انھیں اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا ۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ۱ۚ (انبیاء۲۱:۱)قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ،اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے رب کے حضور حاضر کیے جائیں گے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ غفلت میں ایسے پڑے ہیں کہ ان پر کسی طرح کی تنبیہ کا ر گر نہیں ہوتی ہے، نہ تو خود ان کو اپنے انجام کی کی فکر ہے اور نہ پیغمبرؐ کے کے ڈرانے کی کوئی پروا ہے۔ غفلت انسان کے لیے نقصان دہ ہے اور جب کوئی سمجھائے اور جھنجھوڑے اس کے باوجود غفلت سے بیدار نہ ہو،تو یہ جرم اور سنگین ہو جاتا ہے۔قیامت کے قریب ہونے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں۔
غفلت دو طرح کی ہے۔ ایک مذموم ہے اور دوسری محمود۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
مذموم غفلت کئی طرح کی ہوتی ہے:
اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۱۲ (محمد ۴۷: ۱۲) ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دُنیا کی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔
غفلت کی علامات درج ذیل ہیں :
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى ۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۱۴۲(النساء۴:۱۴۲)جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیںاور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے اور مشرکین کی سورج کی پوجا کا وقت آجاتا ہے، تب یہ اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چاررکعتیں مار لیتا ہے ( ایسے جیسے مرغی زمین پر چونچ مارتی ہے اور اٹھالیتی ہے)۔ یہ شخص اللہ کو اپنی نماز میں ذرا بھی یاد نہیں کرتا ہے۔ ( مسلم)
مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور ڈررہا ہو کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر پڑے ۔ اور فاجر و بدکار شخص اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی مکھی ہو جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے۔ راوی نے کہا کہ وہ ایسے کر دیتا ہے ( اُڑادیتا ہے)۔( بخاری)
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۷۸(اٰل عمرٰن۳:۱۷۸)یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔
تم لوگ ایسے بہت سے کام کرتے ہو جو تمھاری نگا ہوں میں بال سے زیادہ ہلکے ہوتے ہیں ( حقیر ہوتے ہیں)۔ لیکن ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین و ایمان کے لیے مہلک خیا ل کرتے تھے۔ ( بخاری)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فر ماتے سنا : ’’میری تما م امت کے گناہ بخشے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو اپنے گنا ہوں کا پردہ خود فاش کردیتے ہیں۔ اور یہ بھی بے ہودگی اور بے حیائی ہے کہ آدمی رات کے وقت کوئی بُر اکام کرے اور صبح کے وقت اُٹھے تو اس کے گناہ پر اللہ تعالیٰ نے تو پردہ ڈال رکھا ہو لیکن وہ خود لوگوں سے کہتا پھرے ،اے شخص میں نے کل رات یہ اور یہ برے کا م کیے۔گویا اس کے رب نے تو اس کی پردہ پوشی فر مائی تھی لیکن وہ صبح اُٹھتا ہے اور اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو خود کھول دیتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الادب)۔ ’جواپنے گناہوں کا پردہ فاش کرتے ہیں‘ سے مراد یہ کہ وہ علی الاعلان سب کے سامنے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے ،لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے۔ ( ترمذی)
كَلَّا بَلْ۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۴( مطففین ۸۳: ۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوںپر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے انتقال پر ایک شخص نے کہا کہ تجھے جنت کی بشارت ہو۔اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہہ رہے ہو؟جب کہ حقیقتِ حال سے تو واقف نہیں ہے ۔ شاید اس نے لا یعنی گفتگو کی ہو یا ایسی چیز میں بخل سے کام لیا ہو جو اس کے لیے باعث نقصان نہ تھی (ترمذی) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ ،غیر ضروری اور لایعنی باتیں بھی انسان کی غفلت کا سبب بنتی ہیں جواس کے جنت میں نہ جانے کی وجہ بن سکتی ہیں:
مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْہُ وَہُمْ يَلْعَبُوْنَ۲ۙ لَاہِيَۃً قُلُوْبُہُمْ۰ۭ (الانبیاء۲۱ :۲-۳) اُن کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں ،دل ان کے ( دوسری ہی فکروں میں ) منہمک ہیں۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۲۸ (الکہف۱۸: ۲۸) کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
سور ۂ فرقان میںجہنمیوں کے بارے میں ہے:
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۲۷ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۰ۭ (الفرقان ۲۵: ۲۷-۲۹) وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا ۔ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ، کاش! میں نے فلا ں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی۔
حدیث میں بُری صحبت کی مثال بھٹی دھونکنے والے سے دی گئی ہے کہ جس کے پاس بیٹھنے سے آدمی کے کپڑوں پر چنگار ی آکر اس کے کپڑے جلادیتی ہے، یا پھر وہ دھوئیں اور اس کی بھٹی سے ا ٹھنے والی بدبو سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح برے آدمی کی سنگت اور بہت زیادہ میل جول سے آدمی یاتو گناہ کے کام کرتا ہے یا کم ازکم نیکی کے کاموں سے محروم ہو جاتا ہے۔
غفلت کے درج ذیل اسباب ہیں:
اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۲۳ (زخرف ۴۳ :۲۳) ہم نے اپنے باپ داد ا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقشِ قدم کی پیروی کررہے ہیں۔
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۱۷۰( البقرہ۲: ۱۷۰)ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو، توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داد کو پایا ہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو، توکیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۴۳ۙ ( الفرقان ۲۵:۴۳) کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۵۰ (القصص۲۸:۵۰)اب اگر وہ تمھارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیروہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ، سوچنے سمجھنے کے لیے دل و دماغ عطا کیا ۔ انسان جب ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتا ہے ،ان سے ٹھیک انداز سے فائد اٹھاتا ہے تو اس کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وہ انسانی مجدو شرف کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے، تووہ انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے نتیجے میں ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اس کی آنکھیں صحیح بات دیکھنے، کان اچھی بات سننے اور دل و دماغ حق بات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتے ہیں اور حق قبول کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ (اعراف ۷ :۱۷۹، فرقان ۲۵:۴۴)
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تواُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ اُن لو گوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے ،اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھادیتے ۔اب تو یکساں ہے ، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ (ابراھیم۱۴ :۲۱)
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۷ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۸ (یونس ۱۰:۷-۸) حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔
اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۲ۭ (التکاثر ۱۰۲: ۱-۲) تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حا صل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ ( اسی فکر میں )تم لب ِگور تک پہنچ جاتے ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: مَنْ اَحَبُّ دُنْیَا ہٗ اَضَـرَّ بَآخِرَتِہٖ (مشکٰوۃ المصابیح)،’’جو شخص دنیا سے پیار کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔
اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا اور اگر دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا ۔اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ( بخاری)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: الا نَـاۃُ مِنَ اللہِ وَالعَجَلَۃُ مِن الشَّیْطَانِ (ترمذی) ’’کام کو اطمینان و متانت کے ساتھ انجام دنیا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے تعلق رکھتا ہے‘‘ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا: بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس کے کہنے سے اس کی غرض محض لو گوں کو ہنسانا ہوتاہے۔اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر تا ہے۔ مومنین کی صفت قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے گزر جاتے ہیں۔(المومنون ۲۳:۳)
غفلت میں خواہ فرد مبتلا ہویا قوم، دونوں کا انجام یکساں ہے ۔دنیا میں غفلت کے نتیجے میں دونوں ہی بُرے نتائج سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی انجام برا و رسواکن ہو گا۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۱۳۵ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۱۳۶ (اعراف ۷:۱۳۵-۱۳۶) مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے ، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیوں کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایاتھا اور اُن سے بے پرواہ ہو گئے تھے ۔
ان آیات میں قومِ فرعون کی ہلاکت کا سبب تکذیب اور غفلت بتائی گئی ہے۔ قومِ فرعون پر تنبیہ کے لیے پہلے قحط، طوفان، ٹڈی دل ،سرسریاں، مینڈک، خون کا عذاب نازل کیا گیالیکن جب قوم غفلت میں پڑی رہی اور رسول کی تکذیب کرتی رہی تو اس کو ہلا ک کر دیا گیا:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۹۲( یونس۱۰ : ۹۲) اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔
lتوفیق کا سلب ہونا: جو افراد، گروہ اور اقوام اللہ اور اس کے رسول ؐکے دیئے گئے احکامات سے غفلت برتتی ہیں ۔ اس پر دھیا ن و توجہ کے بجائے لاپرواہی اختیا ر کرتی ہیں ۔اللہ ان سے نیک اعمال کی توفیق چھین لیتا ہے اور ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡ وَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۱۷۹ ( اعراف۷: ۱۷۹)۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں ۔ اُن کے پاس کا ن ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں ۔ وہ جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔
غافل انسان سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے اور عقل و شعور، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے۔ وہ کان رکھتا ہے، بات سنتا ہے مگر بھلی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔آنکھوں سے دیکھتا ہے مگر آنکھیںعبرت و نصیحت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے ،پتھر وں کی طرح سخت ، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھر وں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ ( البقرہ ۲: ۷۴)
وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ۲۱ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ (قٓ ۵۰:۲۱ ،۲۲) ہر شخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا ۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا۔
انبیا علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے ۔ ان کو رب کریم سے واقف کرایا جائے اور وہ غفلت ولاپرواہی چھوڑکر رب کی بندگی اختیار کر لیں:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۶ ( یٰسٓ ۳۶:۶)تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو، جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
لہٰذا دُنیامیں مادی فوائد کے حصول کی کوشش سے غفلت دُنیا کا نقصان ہے، مگر دین سے غفلت دنیا و آخرت دونوںجگہ نقصان ہے۔ دنیا میں بداعمالیوں وگمراہیوں کی وجہ سے دنیا ظلم سے بھر جائے گی اور آخرت میں آخرت خراب ہو گی ۔عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچے۔
انسانی خصوصیات میں دیانت داری کا درجہ سب سے بلند ہے۔ ایک پُرخلوص، سچا اور ذمہ دارانہ طرزِعمل رکھنے والے ایمان دار انسان کی نیت اور اعمال ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی خطّے کے رہنے والوں کی رائے لی جائے تو وہ اس بات پر متفق نظر آئیں گے کہ ایک اچھے لیڈر کا ایمان دار اور قابلِ اعتماد ہونا اس کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ خوبی اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبوب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے القابات میں سے ’الامین‘ کا لقب آج بھی سب سے زیادہ مرکزیت رکھتا ہے۔ اس لقب اور لیڈرشپ کا تعلق محض اتفاق نہیں بلکہ یہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ سمت کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔
بلند کرداری، نیک فطرت اور اعلیٰ اخلاقیات ایک مثالی رہنما کی شخصیت کے لازمی اجزا ہیں۔ اسی لیے مثالی قیادت کا تجزیہ کرتے وقت خیر اور شر کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ دیانت داری کا مفہوم صرف ایمان داری تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہرحال میں سچ کا ساتھ دینا، حالات و واقعات کی درستی کو یقینی بنانا اور ہرمعاملے کی بخوبی تکمیل کرنا بھی شامل ہے۔ انسانی زندگی کے تمام تر معاملات کا دارومدار اس اعتبار پر ہے۔ چنانچہ ایک دیانت دار انسان ہی معاشرے میں سب سے زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نیک سیرت لیڈر کہلانے کا حق دار وہی شخص ہوسکتا ہے، جو دیانت دار اور معتبر ہو، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا پاس دار ہو، اور اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہو کہ اسے دوسروں کے لیے ایک عملی نمونہ بن کر رہنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسا لیڈر ہے جو اپنے فرائض، قرآن اور سنت کی روشنی میں انجام دیتا ہے۔
ایمان داری، دیانت اور اخلاقیات کے بارے میں باتیں کرنا اور دوسروں میں ان خصوصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی پر تبصرے کرنا بہت آسان کام ہے، لیکن کسی انسان کے کردار کی اصل پرکھ کرنا مقصود ہو تو اسے دولت ، شہرت، اقتدار یا وسائل فراہم کرکے دیکھنا چاہیے۔ انسانی معاشروں میں شر پھیلانے میں یہ تمام عوامل مرکزی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ان کی موجودگی انسان کی نیت میں کھوٹ کو جنم دیتی ہے ، اور وہ اپنا اصل مقصد بھول جاتا ہے۔ اس بناپر اس کے کردار میں ایسی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے غیراخلاقی طرزِعمل اور بدعنوانی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ آج کی دُنیا کو درپیش بے شمار سیاسی، کاروباری، مالیاتی اور ذاتی اسیکنڈلز اس اخلاقی بحران کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
Institute of Business Ethicsکے ریکارڈ کے مطابق حالیہ برسوں میں سرکاری اور نجی، دونوں طرح کے اداروں پر لوگوں کے اعتبار میں ۱۰ فی صد کمی آئی ہے۔ عام افراد کی نسبت صاحب ِ اقتدار اور بااختیار افراد کےکردار کی خامیاں معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے نتائج آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی کردار کی اسی کمزوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہےجو بہترین اخلاق اور کردار رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح سنن ترمذی میں درج ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’لوگوں کی ایک بڑی تعداد تقویٰ اور اعلیٰ کردار کی بناپر جنّت کی حق دار ٹھیرے گی‘‘۔ تاہم، اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں کردار کی تربیت محض لفاظی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ عملی اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ صفت کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی تاریخی حقیقت کافی ہے کہ الرسولؐ کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’الامین‘ کے لقب سے معروف تھے اور لوگ ان پر اعتبار کرتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور انھیں کسی مقصد کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے بلند کردار اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کی مدد سے ایک مضبوط ساکھ قائم کرے۔ ایک معتبر اور بااثر انسان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے اور لوگ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کے حصول کے بعد انسان کا سب سے بڑا چیلنج اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا اوران پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے باز رہنا ہے۔ اگر شروع ہی سے ایک اعلیٰ مقصد کے حصول پر توجہ رکھتے ہوئے باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر توجہ رکھی جائے تو مستقبل میں لیڈرشپ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلام محض ’اوامر اور نواہی‘ کے اصولوں کا ایک مجموعہ ہے اور بعض کے خیال میں قانون کا درجہ حکمرانی کے اصولوں اور اخلاقی اقدار سے بڑھ کر ہے لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا ہراصول کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق سے منسلک ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون اور اخلاقیات کا یہ امتزاج ہرسطح پر ہونا چاہیے اور اگر کوئی قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہو، تو اس کا نئے سرے سے جائزہ لے کر اس میں ضروری تبدیلیاں کرنا لازمی ہے۔
کردار سازی کےعمل کی ابتدا نیک نیتی اور خلوصِ دل سے ہوتی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘ (صحیح بخاری)لیکن یہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی نیت پر عمل کیا جائے اور کس کو نظرانداز کردیا جائے؟ سیّد سلیمان ندوی کے مطابق نیت کی اخلاقی درجہ بندی اس طرح سے کی جاسکتی ہے:’’نیت کی اس درجہ بندی میں مالی یا دُنیاوی نفع کا مقام سب سے نیچے رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی خواہش رکھنا یا ان کے حصول کی کوشش کرنا غلط ہے۔ قرآن و سنت میں دُنیاوی خواہشات کی تکمیل نہ صرف حلال قرار دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح ذہنی اور روحانی اطمینان اور جنّت کا حصول ہرمسلمان کی دلی آرزو ہے لیکن رضائے الٰہی کی نیت سے کیے جانے والے اعمال کا درجہ اُن سب سے اُونچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دُنیا کی ہرشے سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے تو اپنے محبوب کی خوشنودی اس کی سب سے بڑی خوشی بن جاتی ہے۔ پھر چاہے کوئی لیڈر ہو یا ایک عام فرد، رضائے الٰہی کی جستجو اس کے کردار میں بہترین اوصاف پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔
اُوپر بیان کی گئی حدیث کا مکمل متن حضرت عمر بن الخطابؓ کے الفاظ میں کچھ یوں ہے: ’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور تم میں سے ہر ایک کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خاطر ہجرت کی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے اور جس نے کسی دُنیاوی فائدے یا کسی عورت کی خاطر ہجرت کی اس کی ہجرت انھی چیزوں کے لیے ہے جن کی خاطر اس نے ہجرت کی‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ حدیث مکہ سے مدینہ ہجرت کے تناظر میں بیان ہوئی۔ جب آپؐ کے علم میں لایا گیا کہ ایک صحابی نے اس لیے ہجرت کی کہ وہ مدینہ میں شادی کے خواہش مند تھے۔ انصار اور مہاجرین کے مابین قائم ہونے والی مواخات میں مہاجرین کو امن و عافیت کے ساتھ ساتھ بہت سی دُنیاوی آسائشات بھی ملیں جس کی بناپر یہ ارشادِ نبویؐ سامنے آیا کہ جس کسی کی ہجرت کا مقصد دُنیاوی فوائد کا حصول تھا، اسے صرف وہی فوائد ملیں گے۔ لیکن جس نے خالص اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور ان کی اطاعت میں ہجرت کی اُسے دُنیاوی آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی میسر ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے لیے سب سے بڑا اجر یہ ہوگا کہ روزِ حشر انھیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت نصیب ہوگی۔
اپنی نیت کو خالص رکھنا بظاہر جتنا آسان معلوم ہوتا ہے درحقیقت اتنا ہی کٹھن ہے۔ متعدد مسلمان دانش وروں نے اپنی تصانیف میں نیت کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ بن ابوکثیر کا کہنا ہے: ’’تمھاری نیت تمھارے عمل سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے پہلے اسے مکمل طور پر سمجھ لو۔ میری نیت میرے لیے سب سے مشکل چیز ثابت ہوئی کیوں کہ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے‘‘۔ اور ابن المبارک کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل اس کے پیچھے چھپی نیت کی وجہ سے عظیم قرار پائے اور ایک عظیم عمل اس کے پیچھے پوشیدہ نیت کی وجہ سے چھوٹا پڑ جائے‘‘۔
اپنے دل پر نیکی کو نقش کر لینا اور اسے ہر بُرائی سے پاک رکھنا نیک نیتی کا پہلا اور لازمی مرحلہ ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے کردار سازی میں معاون نیکیوں کی فہرست کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے:m احسان m صدق اور اخلاص m شرح صدر m عاجزی m عزّتِ نفس اور وقار mارادے کی پختگی / اولوالعزمی m شکرگزاری m عفو اور رحم دلی m صبرm عمدگی اور بلند نظری mاعتدال اور توازن m شجاعت (بہادری) m اطمینانِ قلب m شکرگزاری۔
اس فہرست میں درج نیکیاں ایسی خصوصیات رکھتی ہیں جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائدانہ کردار میں بھی نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا انتخاب ایک ہی ذریعے یعنی قرآن و سنت سے کیا گیا ہے۔ تاہم، اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ فہرست ہرانسان کے لیے ہے چاہے وہ لیڈر ہو یا نہ ہو، وہ بالخصوص لیڈرشپ کے نقطۂ نظر سے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت کی روشنی میں کردار کو کمزور کردینے والی بُرائیوں کی ایک ابتدائی فہرست کچھ اس طرح ہوگی:m تشدد m غرور، تکبر اور نمودو نمائش m تہمت لگانا m بزدلی m غصّے میں آپے سے باہر ہو جانا m فضول خرچی اور اخلاقی پستی m فساد برپا کرنا (پھیلانا) m جھوٹ اور فریب m دھوکا دہی اور غداری m لالچ m جابرانہ سلوک m بدگوئی اور بدزبانی m خود غرضی اور نرگسیت (صرف خود سے محبت کرنا)
فرد کی کردار سازی اور معاشرے کی فلاح کے زاویوں سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اخلاقیات اور شرعی احکام کی ہم آہنگی کیوں ضروری ہے۔ اخلاق فرد کے کردار کو خوب صورت بناتاہے ،جب کہ احکام معاشرتی حقوق و فرائض اور لوگوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اخلاقیات روح ہیں تو قوانین اس کا جسم۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے بغیر بےفائدہ اور بے معنی ہیں۔ ایک مثالی قائد کے لیے لازم ہے کہ وہ نیک سیرت اور باکردار ہو اور اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ اور ان کی فلاح کو یقینی بنائے۔ اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مقاصد الشریعہ یعنی اسلامی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک مختصر جائزہ لینا سودمند رہے گا۔
الجوینی اور الغزالی سے لے کر القرافی اور الشاطبی جیسے فاضل علما نے قرآن وسنت سے اسلامی شریعہ کے اعلیٰ مقاصد اخذ کیے جس کے نتیجے میں یہ پانچ ضروریات سامنے آئیں جن کا پورا ہونا انسان کی بقا کے لیے لازم ہے۔
اس لحاظ سے اسلامی شریعہ کی رُو سے انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور زندگی کی حفاظت کرے، اپنی سوچ اور شعور کو استعمال کرسکے۔ اپنے ذاتی مال یا جائیداد کو محفوظ رکھ سکے اور اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔ انسانی زندگی کی ان پانچوں بنیادی ضروریات سے اگلا درجہ حاجات کا ہے جن کی اہمیت قدرے کم ہے، جیسے تجارت، شادی، ذرائع آمدورفت وغیرہ۔ یہ وہ ضروریات ہیں جو اہم تو ہیں لیکن ان کا پورا نہ ہونا زندگی اور موت کی کش مکش کا سبب نہیں بنتا۔ سب سے کم تر درجہ ’زیبائش‘ کا ہے جن کی موجودگی میں انسان اچھا محسوس کرتاہے جیسے قیمتی لباس، مہنگی کار، یا جدید ترین سمارٹ فون۔بطورِ راہ نما کسی بھی لیڈر کو ان پانچ بنیادی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو حاجات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم، زیبائش کا معاملہ ہرانسان کی ذاتی صوابدید پر ہے۔
دورِحاضر کے کئی محققین نے محسوس کیا کہ اس فہرست میں عزّت، آزادی اور انصاف کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ تینوں چیزیں اسلامی تاریخ کا ایک واضح حصہ رہی ہیں اور شاید اسی لیے انھیں اس مستند فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا، تاہم آج جس طرح ہرسطح پر اور ہرمیدان میں عزّت، آزادی اور انصاف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، ان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں اس فہرست میں شامل کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے۔ لہٰذا ایک نیک سیرت لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اختیارات کےدائرے میں رہتے ہوئے ان آٹھوں ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کرے۔
انفرادی کردار سازی اور معاشرتی فلاح کے لیے ان تمام ضروریات سے واقفیت رکھنا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ نبویؐ طرزِ قیادت کے مطابق دیانت داری سے زندگی بسر کی جاسکے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ دیانت داری کی جیتی جاگتی عملی مثال ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی آپؐ اپنی انتہا درجے کی ایمان داری اور اعلیٰ ترین اخلاق کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ نبوتؐ سے پہلے ہی آپؐ کا لقب ’الامین‘ پڑچکا تھا اور نبوتؐ ملنے کے بعد بھی آپؐ کے بدترین دشمن تک آپؐ کے اس وصف کے معترف تھے اور اپنی قیمتی اشیاء بطور امانت آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ نوعمر ہونے کے باوجود آپؐ اس قدر قابل اور بااعتبار شخص تھے کہ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے اپنے کاروباری معاملات آپؐ کے سپرد کیے اور بعد میں آپؐ کے بہترین اخلاق اور کردار سے متاثر ہوکر آپؐ سے نکاح کیا۔ اس نمایاں ترین صفت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر ایمان داری اور دیانت کی تاکید کی گئی ہے:
قرآن کی طویل ترین آیت سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ میں لین دین کو ہرقسم کے شک سے بالاتر رکھنے کے لیے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مال و دولت انسان کے کردار کے لیے ایک بڑی آزمایش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مکمل پروفیشنلزم یعنی تمام شرائط کو تحریری شکل دینے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نبی پاکؐ نے کچھ اس طرح سے مزید واضح کیا ہے: ’’تم میں سے جس کسی کو بااختیار عہدے پر مقرر کیا جائے اور وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی معمولی کوئی شے چھپائے تو یہ (عوامی فنڈ کا) ناجائز استعمال ہوگا اور روزِ قیامت اس کی جواب دہی ہوگی۔ (صحیح مسلم)
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ منافق کی تین خصوصیات ہیں:جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، اور جب اس پر اعتبار کیا جائے تو فریب دے۔
غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔
فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنوہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً ۱۲ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔
اس غزوہ کے دوران میں آں حضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنت ِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑگیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپ ؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کران کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔
تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصاراللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گناجاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تواس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہرشے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔
دانش مند افراد میں دیانت داری اور شائستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی اَزحد ضروری ہے۔ اگر اچھائی یا نیکی انسان کی اپنی ذات تک محدود رہے تو بدی کی طاقتوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ نیکی کوعام کرنے کے لیے لازمی ہے کہ نیک لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کا فن جانتے ہوں۔ گفتگو کا فن اور دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت موجود نہ ہو تو کوئی بھی تحریک چند احتجاجی مظاہروں یا دوچار جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مصنف ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب ’’لوگوں کو متاثر کرنے اور دوست بنانے کا فن‘‘ میں کچھ منفرد طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔
کارنیگی کا نظریہ ہے کہ لوگوں کواپنی بات سننے پر آمادہ کرنے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ طریقے سے لوگوں میں گھل مل جائے، متاثر کن اعمال اور رویوں سے اپنی ساکھ قائم کرے، ان کے دُکھ سُکھ میں دل سے شریک ہو، اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔ اس طرح کچھ وقت گزرنے پر فریقین میں باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوجائے گا اور لوگ نہ صرف اس کی باتوں کو غور سے سنیں گے بلکہ ان کی اہمیت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران میں ابراہام لنکن نے عوام کو متحد کرنے کے لیے یہی طرزِعمل اپنایا تھا۔ لنکن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’ہم دشمن نہیں دوست ہیں، ہم دشمن ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے جذبات نے ہماری آپس کی محبت کو تھوڑا سرد کردیاہے، لیکن یہ اسے ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ محبت ہماری فطرت کا حسین ترین پہلو ہے۔ جب بھی یادوں کے ساز چھیڑیں گے یہ محبت پھر سے جاگ اُٹھے گی کیوں کہ اسے تو جاگنا ہی ہے۔
حقیقی معنوں میں بااثر لیڈر وہ ہے جس کے مخالفین بھی اس کی عزّت کرتے ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی احترام ان کی مخالفت کو حمایت میں بدل دیتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا گفتگو کے ذریعے معاملات حل کرنے کی بہترین صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ مذاکرات میں مصالحانہ اور لچک دار انداز اختیار کرنے کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ مذاکرات کے دوران میں آپ کو سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان کے قریبی ساتھی ابراہیم رسول نے کچھ اس طرح کی ہے: سمجھوتہ اپنے اصولوں کی قربانی کا نہیں بلکہ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ طریقے اپنانے کا نام ہے۔
خیروشر کی کش مکش انسانی زندگی کا لازمی جز ہے اور ایک لیڈر کے لیے اکثر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے، جب اسے نیکی یا بدی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں عقل مند راہ نما کس طرح کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے دوکیس اسٹڈیز کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
جواب: قانون کے مطابق کم سے کم جتنے مواقع دیئے جانے چاہییں، ان سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ آپ کی دیانت داری ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اگرآگے چل کر انھیں ملازمت سے برخاست کرنا ہی پڑجائے تو انھیں یہ احساس ہو کہ دیگر جگہوں کی نسبت یہاں پر انھیں زیادہ مواقع دیئے گئے۔
جواب :معاملات میں شفافیت برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ آپ اپنے ڈونرز کی رقم رشوت کے لیے استعمال کرنے سے پہلے انھیں تمام معاملات سے آگاہ کرکے ان سے مشورہ لینے کے پابند ہیں۔ یوں بھی اس شیطانی چکّر کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے روکنا ضروری ہے۔ مظلوم افراد تک پہنچنے کے لیے فوج کا مطالبہ مانتے رہیں گے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کے توڑ کے لیے راستے تلاش کرنا اور اس دوران میں مکمل دیانت داری اور شفافیت برقرار رکھنا ضروری ہے۔
کارنیل یونی ورسٹی میں ’کاروباری اخلاقیات‘ (Business Ethics) کے پروفیسر ڈینا ریڈکلف نے اس کش مکش کا سامنا کرنے والے لیڈروں کے لیے یہ دل چسپ سوال نامہ تیار کیا ہے:
کسی عمل کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور مختلف فریقین کے لیے اس کے کیا متبادل ہیں؟
ان ممکنہ نتائج کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ صورتِ حال فریقین کی ذمہ داریوں میں اختلاف پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، یعنی کیا یہ کش مکش کوئی منطقی وجود رکھتی ہے یا محض ایک ذہنی اختراع ہے؟
اگر یہ کش مکش حقیقی ہے تو کیا اس کے حل کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات ادارے کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں؟
جو اقدامات ان اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے کیا ان میں سے کوئی ایک قدم ایسا ہے جو آگے چل کر ادارے کے مشن کو پورا کرنے میں مفید ثابت ہوسکے؟
اگر تمام اقدامات ادارے کے اصولوں سے متصادم ہوں یا ان اصولوں کے مؤثر ہونے میں رکاوٹ ہوں تو ان میں سے کون سے اقدامات کا فریقین کے سامنے سرعام دفاع کرنا ممکن ہے؟
اصولی نوعیت کے فیصلے کرنے کے لیے یہ چیک لسٹ بہت مفید ہے، لیکن ممکن ہے کہ جن افراد میں روحانیت کا عنصر زیادہ ہو وہ اس میں عوامل کے سامنے جواب دہی کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے جواب دہی کا پہلو بھی شامل کرنا چاہیں گے۔ اس لیے ان افرادکو ذہن میں رکھتے ہوئے اخلاقی اعتبار سے درست فیصلے کا تعین صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے اس سوال کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے کہ ’ہماراربّ ہم سے کیا چاہتا ہے؟‘
دانش مندی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ:
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے___ یہ ہمارا ایمان ہے اور دعویٰ بھی۔ ضابطۂ حیات کا مطلب ’زندگی گزارنے کے طریقوں کا جامع قانون اور دستورالعمل‘ ہے۔ اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں حیات ہوگی وہاں وہاں ا سلام کے احکام ہوں گے۔
انسانی حیات کی ابتدا اس کی پیدائش سے ہوتی ہے، اور ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی زندگی کا دورانیہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر اس وقت سے لے کر موت تک دُنیا کی زندگی جاری رہتی ہے اور اس پورے دورانیے میں اسلام کی رہنمائی قدم بقدم ساتھ رہتی ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ پہلو خواہ محض کسی ایک شخص کی ذات سے متعلق ہوں یا دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے، اس کے جسم و جان کے بارے میں ہوں یا مال کے متعلق ، گھریلو زندگی ہو یا سماجی و معاشی، ہر پہلو کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات موجود ہیں۔ یہی امر اس بات کی کامل دلیل ہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کثیر جزوی اُمور پر صریح ہدایات کے ساتھ اسلام نے ایسے جامع قواعد و ضوابط اور قوانین عطا کیے ہیں کہ لاتعداد معاملاتِ حیات میں اسلامی ضابطۂ حیات کی جامعیت واضح طور پر کھل کر سامنے آ جاتی ہے ،جن کی روشنی میں نئے پیش آمدہ معاملات میں مقصودِ شریعت اور روحِ دین کو سمجھ کر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت میں اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے طے کیے جاتے ہیں۔ اسلام کیونکہ خود مکمل ضابطۂ حیات ہے تو یہ ضابطے اسلام کی بنیادی تعلیمات، عبادات اور اخلاقی نظام میں ہی موجود ہیں۔ اسلام کا نظامِ اخلاق نہ صرف انفرادی طور پر میزانِ اعمال میں ایک مسلمان کی خوش بختی کا ذریعہ ہے بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری پر مبنی ایک پُر امن اور عادل معاشرے کے قیام کا بھی ضامن ہے اور اسلام کا نظامِ عفت و عصمت بھی درحقیقت اسلام کے مجموعی نظامِ اخلاق کا حصہ ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کی حفاظت اور حجاب کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال یا مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حیا کے وصف پر قائم کی گئی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)۔ ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اُٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للألبانی)
درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رُک جانا مقصود ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا : ’’اللہ سے حیا کرو، جیساکہ حیا کا حق ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتاہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے وضاحت کی گئی۔ حضرت ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)۔
آپ ؐنے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
نیز فرمایا:’ ’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر تزکیۂ نفس کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ایک جگہ فرمایا: ’’بے شک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی‘‘۔ (الاعلٰی۸۷: ۱۴-۱۵ )
اسی طرح ارشاد فرمایا گیا: ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور برا راستہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲ )
مزید ارشاد ہوا کہ ’’اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں‘‘۔ (الانعام۶: ۱۵۱)
ان آیاتِ مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فحاشی اور منکرات کے کاموں کو انتہائی ناپسند فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں اُن تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکرمعاشرے میں فحاشی‘ بے حیائی اور بدکرداری کو روکا جا سکتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘۔(النور۲۴:۳۰-۳۱ )
سورۂ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا : ’’تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دورِ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں‘‘۔(الاحزاب۳۳: ۳۳)
اﷲ تعالیٰ نے برائی اور بے حیائی کے فروغ کی انتہائی سخت الفاظ سے مذمت فرمائی: ’’بے شک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘ ‘۔ (النور۲۴: ۱۹ )
حیا کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی معاشرے میں عفت کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے، اس میں ایک انسان سے مطلوب انفرادی طرزِ زندگی اور پھر بتدریج خاندانی اور معاشرتی زندگی کے تمام دائروں کے لیے واضح اور تفصیلی ہدایات قرآن و احادیث مبارکہ کے ذریعے جاری کر دی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں لباس کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیتے ہوئے انسان کے لیے ستر پوشی، موسمی اثرات سے حفاظت اور زینت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور احادیثِ مبارکہ کے ذریعے مرد و خواتین کے لیے ستر کی حدود واضح کی گئی ہیں۔
سورۂ نور میں مرد و خواتین کے لیے نگاہوں اور عفت و عصمت کی حفاظت کا حکم دیا گیا تو پہلے مرد کو مخاطب کیا گیا، البتہ عورت کو اپنی اوڑھنیوں کے ذریعے اپنی نسوانیت کی حفاظت کا اضافی حکم دیا گیا۔ مزید یہ کہ نامحرم مردوں کے سامنے اپنی زینت کے اظہار کی ممانعت کر دی گئی۔ سورۂ احزاب میں خواتین کو دورِ جاہلیت کی طرز پر بن سنور کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت کر دی گئی اور یوں اسے اپنی معاشرتی زندگی میں ایک وقار کے ساتھ شمولیت کی ضمانت دی گئی۔ یہی وہ تمام احکام ہیں جنھیں ہم احکاماتِ حجاب کے حوالے سے جانتے ہیں۔
گذشتہ گفتگو کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ حجاب کے احکام اس دائرے سے آگے بہت وسیع معنوں میں ہیں ، جن میں محرم اور نامحرم رشتوں کی تفریق، ان کے ساتھ تعلقات کی حدود، نکاح کے حوالے سے حرمت کے رشتے، افکار کی پاکیزگی، نگاہوں کی حفاظت ،زنا اور اس کے مقدمات کا سدباب، گفتگو میں شائستگی، فحش کلمات پر مبنی گانے، شاعری، لطائف اور گالم گلوچ کی ممانعت، تفریح کے نام پر اخلاق سوز اشتہارات اور مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے والی فلموں اور ڈراموں کی مذمت، معاشرتی زندگی کے دائروں میں بڑھتی ہوئی مخلوط محافل سے پرہیز، اور مرد و خواتین کے لباس میں بے حیائی کے بارے تشویش و دیگر امور شامل ہیں۔
مغربی معاشروں میں الہامی ہدایت سے محرومی کے اثرات اخلاقی و خاندانی اقدار کی پامالی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے بے سمت جدوجہد کے نتائج، عریانیت، حدود و قیود سے ماورا جنسی آزادی، آزادانہ جنسی تعلقات، عورت کے لیے کلی تولیدی اختیارات، اسقاط حمل کا حق، ہم جنس پرستی، ہم جنس شادی اور تبدیلیٔ جنس کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ گلوبلائزیشن کے زیر اثر مسلم معاشرے بھی اخلاقی بے راہ روی میں اسی سمت بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ جس نظام کے تحت خاندان کو اپنے مکینوں کے لیے ایک حفاظتی قلعہ سے تعبیر کیا گیا تھا وہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے گھر سے باہر آزادانہ گھومنے پھرنے کو آزادی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس نظام میں عورت کے لیے حجاب کو تحفظ، وقار اور رحمت کا ذریعہ بنایا گیا تھا وہاں اسے ایک بوجھ تصور کیا اور باور کرایا جا رہا ہے۔
جس معاشرے میں ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو کو دوسرے مسلمان کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا، وہاں نوجوان اور کمزور معصوم بچیوں اور بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد درندگی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں؟ ہمیں اپنے معاشرے کو اس تباہ کن راستے سے بچانے کے لیے حیا اور حجاب پر مبنی نظامِ حیات کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا، اس کی ترویج کرنا اور اسے قابلِ عمل بنانا ہو گا۔ یہ انفرادی سطح پر مرد و خواتین، اجتماعی طور پرخاندان، معاشرتی اور ریاستی اداروں، سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم سب اللہ ربّ العالمین کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
چنانچہ اوّلین سطح پر ہمیں نظام عفت و حجاب کو انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے مزاج اور کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ ابتدائی طور پر نسلِ نو کو بچپن سے ہی اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لیے احتیاطی تدابیراورعملی ترغیبات دینے سے مستقبل میں ممکنہ مفاسد کا سد باب ہو سکتا ہے۔ بچپن سے ہی مہذب اور مکمل لباس پہنانا، تبدیلیٔ لباس اور رفع حاجت کے وقت تنہائی کا ماحول میسر کرنا، دس سال کی عمر کے بعد بچوں کے بستر علیحدہ کر دینا، کزنز وغیرہ کے درمیان بے تکلفانہ اور خلوت والے ماحول کی حوصلہ شکنی کرنا، انداز گفتگو میں شائستہ الفاظ کا استعمال سکھانا، گالی گلوچ اور جھوٹ و غیبت سے بچانا، بڑے ہونے پر محرم اور غیر محرم رشتہ داروں سے میل ملاقات کے آداب اور حدود و قیود سے آگاہ کرنا، انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا کے استعمال پر بلا حدود و قیود آزادی سے عمل کی اجازت نہ دینا، اس حوالے سے حکیمانہ طور پر رہنمائی فراہم کرنا اور نگرانی کرنا، بچوں کے گھر سے باہر جانے اور آنے کے دوران ان کے تحفظ کو یقینی بنانا، رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر اپنی معیت کے بغیر رات گزارنے کی اجازت نہ دینا، ان تمام امور کے حوالے سے نوجوان اولاد کے ساتھ خصوصاً پیار اور حکمت کے ساتھ تمام معاملات کو لے کر چلنا انتہائی ضروری ہے۔
انفرادی اور خاندانی سطح پر ہم سب کو ان اصول و ضوابط کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کے ساتھ معاشرے کی مجموعی اصلاح کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔ تعلیمی اور تربیتی اداروں، اسکول، کالج، یونی ورسٹی، مساجد اور دیگر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور ریاست کے ذمہ داروں کو اپنی آئینی ذمہ داری کے تحت ریاستی قوانین اور ریاستی طاقت کے ساتھ ان مفاسد کو روکنے اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جو کہ معاشرے کو خوش حالی، امن و سکون اور تحفظ کی آماجگاہ بناسکیں، تاکہ معاشرے کے تمام افراد یکسوئی کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ اپنے فریضۂ حیات کو بہ احسن انجام دے سکیں۔
اوکسفرڈ ڈکشنری نے لفظ ’برین روٹ‘ (Brainrot)کو ۲۰۲۴ء میں سال بھر کا لفظ قرار دیا ہے۔ آخر یہ برین روٹ ہے کیا؟ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ ہماری زندگی کا نہایت اہم اور بنیادی جز بن چکا ہے، گویا یہ ہمارے جسم کا ہی ایک اہم حصہ ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو زندگی دشوار ہو جائے گی۔ ہر عمر کا فرد اس کا ایک طرح سے غلام بن گیا ہے۔ کیا آپ بھی اسی کیفیت سے دو چار ہیں؟ رات دیر گئے آپ اپنے موبائل میں ریلز، شارٹس، گیمز، چیٹنگ، انٹرٹینمنٹ کے لیے کلپس دیکھ رہے ہیں اور اسی طرح دیکھتے دیکھتے آپ کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ پھر جیسے ہی صبح اٹھتے ہیں اپنے موبائل کو ہاتھ میں لینے سے ہی سکون مل رہا ہے۔ اس لیے کہ بے ساختہ آپ کا ہاتھ اپنے موبائل پر چلا جا رہا ہے۔ لہٰذا ہوشیار اور خبردار ہو جائیں، کیوں کہ اسی کیفیت کو ’برین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت ’برین روٹ‘ بظاہر غیر سائنسی لیکن عملاً گہرے اثرات کی حامل ایک قسم کی دماغی بیماری ہے، اسی بیماری کی وجہ سے یہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔
انسانی جسم یا انسانی دماغ کی خصوصیت یہ ہے کہ جتنا اس کو استعمال کیا جاتا ہے، اتنی ہی اس کے اندر صلاحیت پیدا ہوتی رہتی ہے، جس قدر مشکل ٹاسک انسانی دماغ کو دیا جائے گا، اتنی ہی اس کے اندر استعداد بڑھتی جاتی ہے۔ دماغ جتنا دانش ورانہ (Intellectual)کام کرے گا، اتنا ہی وہ تیز ہوتا جائے گا۔ ایسا دانش ورانہ کام جس میں سوچنے کی، غورو فکر کرنے، تدبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس سے فرد کی ذہنی صلاحیت بڑھے گی، انٹلیچکول سطح بڑھے گی، ذہن تیز ہوگا۔ اس کے برعکس اگر انسان ایک ایسے کام میں مصروف ہوگا جس میں دماغ کے استعمال کی یا غور و فکر کرنے کی، تدبر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، تو اس کی دماغی صلاحیت میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ بھلا بے کار مصروفیات سے دماغی صلاحیت کیسے پروان چڑھے گی بلکہ ذہن کند ہونا شروع ہو جائے گا۔ اگر بے کار، فضولیات میں انسان مصروف ہوگا تو اس کے منفی اثرات دماغ پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس طرح یہ بات طے ہوگئی کہ جس کام میں دماغ کا استعمال ہوگا، غور وفکر کرنے کی ضرورت ہوگی، تدبر ہوگا تو اس سے دماغی صلاحیت بڑھے گی، وہیں دوسری طرف ایسا کام جس میں دماغ کا استعمال نہ ہوگا تو اس سے لازماً دماغی صلاحیت گھٹے گی۔
اب اسی پیمانے کو اپنی مصروفیات پر لاگو کر کے دیکھیں۔ اپنے موبائل میں فضولیات یا کامیڈی ریلز دیکھنے سے، آپ کی ’دانشورانہ صحت‘ (Cognitive Health)پر اثر پڑے گا، آپ کی ’قوت ادراک‘ خراب ہو جائے گی۔ اسی دانشورانہ صحت کی خرابی کو ’برین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود بے کار مواد یا معمولی مواد یا فضول مواد دیکھنے سے برین روٹ کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ یعنی ضرورت سے زیادہ اشیا اور بصری مواد دیکھنے سے ’برین روٹ‘ ہوگا۔ ایک جملے میں کہا جائے تو ایسا مواد جس میں دماغ کا استعمال نہ ہوتا ہو، جیسے میمس (Memes) یا انٹرٹینمنٹ کی ویڈیوز دیکھنا وغیرہ، اس بے کار اور فضول مواد کو دیکھنے سے برین روٹ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے۔
اس معاملے کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے ملک شام میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق ویڈیوز دیکھے یا الجولانی کون ہے؟ یا اکنامکس سروے سے متعلق ویڈیوز دیکھیں یا پھر سیاسی اتھل پتھل کے موضوع پر موجود مواد کو دیکھا، یا روپے کی قدر میں کمی یا زیادتی پر ویڈیوز دیکھے، تو آپ کا ذہن اس سے متعلق غور و فکر کرے گا۔ آپ کا ذہن یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ شام کی خانہ جنگی کب شروع ہوئی؟ یعنی ایسا مواد جس کو دیکھنے سے آپ کے اندر مزید تفصیل جاننے کی خواہش پیدا ہو، اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی طرف آپ کا دماغ مائل ہو تو آپ کی دانش ورانہ صحت بڑھے گی، انٹلیچکول لیول بڑھے گا۔ لیکن وہیں آپ نے میمس والی ویڈیو دیکھی، یا مسخرہ پن یا مزاحیہ ویڈیو یا انٹرٹینمنٹ میں ایسی ویڈیوز دیکھیں، جس سے نہ کوئی دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ عقل و دانش کی سطح بڑھتی ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی دانش ورانہ صحت خراب ہو جائے گی اور آپ کو ’برین روٹ‘ کی بیماری لاحق ہونا یقینی ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی کیفیت کا جائزہ لیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ بیماری نوجوانوں میں زیادہ پھیلنے کا خدشہ ہے، وہ اس لیے کہ نوجوان طبقہ انٹرنیٹ کا شیدائی ہے۔ وہی اس کو اب زیادہ استعمال کرتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ’برین روٹ‘ میں صرف نوجوان ہی مبتلا ہوتے ہیں بلکہ یہ مرض کسی بھی عمر والے کو ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کے ہونے کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال ہے۔ چونکہ نوجوان نسل اس کا بے تحاشا استعمال کرتی ہے، اسی لیے ان کا اس بیماری میں مبتلا ہونے کا قوی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر اگر کوئی بزرگ یا ادھیڑ عمر شخص بھی اسی طرح استعمال کرتا ہے تو اس کو بھی یہ بیماری لاحق ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے پہچانا جائے کہ کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے؟ اس کی علامات کیا ہیں؟ اگر اس لفظ کو اردو میں ترجمہ کیا جائے تو بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا، کیوں کہ اس کیفیت کو ’نیم پاگل پن‘ کہا جائے گا، فی الحال ہم اس کو ’برین روٹ‘ تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کہ ’برین روٹ‘ کی علامات کیا ہیں؟
اگر یہ علامتیں آپ میں یا کسی میں پائی جاتی ہیں تو سمجھ جائے کہ اسے ’برین روٹ کی بیماری‘ لاحق ہوچکی ہے۔
اگر کوئی اس میں مبتلا ہوگیا ہے تو پھر اس سے کیسے باہر نکلا جائے؟ کیسے اس بیماری کو دُور کیا جائے؟ اس سے نکلنا کوئی ناممکن بات نہیں ہے، اسے بڑی آسانی کے ساتھ دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کو طرزِ زندگی تبدیل کر کے دُور کیا جاسکتا ہے۔ اکثر ہمارے جسمانی اور دماغی مسائل اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کو تبدیل کرتے ہیں تو ہم بہت سارے جسمانی اور دماغی مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ ’برین روٹ‘ کو دُور بھگانے کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں، وہ یہ کہ:
آپ نے بہت سی شخصیات کے قبولِ اسلام کے واقعات سنے ہوں گے، مگر یوسف اوک نامی لندن کے رہائشی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت منفرد واقعہ تھا۔ اُن کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اولڈ ٹریفرڈ میں واقع مانچسٹر یونائیٹڈ سٹیڈیم سے قرآن کے نسخے کی دریافت سے ہوا۔
یہ ۲۰۰۷ء کی بات ہے جب یوسف مانچسٹر فٹ بال یونائیٹڈ کلب کے لیے کام کرتے تھے۔ ایک روز انھیں سٹیڈیم سے قرآن کا ایک نسخہ ملا۔اسلام کو تلاش کرنے کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیدائشی کیتھولک نومسلم یوسف نے بتایا کہ’ ’یہ تھوڑا عجیب واقعہ تھا، یعنی اسٹیڈیم سے قرآن کا ملنا۔ جب مجھے وہ قرآن کا نسخہ ملا تو وہ تھوڑا گرد آلود تھا۔ اس نسخے کو دیکھتے ہی میرے اندر ایک احساس پیدا ہوا کہ میں اسے اٹھاؤں اور اسے صاف کروں‘‘۔ نیلی جلد والے قرآن کو صاف ستھرا کرنے کے بعد انھوں نے اسے اپنے کمرے میں رکھ لیا۔ یہ جان کر کہ گھر میں قرآن موجود ہے، یوسف کی بیوی نے اُن سے اختلاف کیا اور اس بات پر ناراض ہو گئیں اور یوسف سے کہا کہ ’’یہ کتاب ہمارے گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے کوڑے دان میں پھینک دوں گی‘‘۔
یوسف نے بتایا کہ میں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے کہ تم اس قرآن کو پھینکو، میں تمھیں کہیں پھینک دوں گا۔
میرا یہ جواب سُن کر بیوی نے سوال کیا کہ ’’تم مسلمان نہیں ہو تو پھر ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’تم نے اس کتاب کی ایک لائن بھی نہیں پڑھی، پھر بھی تم اسے فوراً پھینک دینا چاہتی ہو‘‘۔میرے بھرپور دفاع کی وجہ سے قرآن کا نسخہ اسی گھر میں موجود رہا۔
اگرچہ اس وقت یوسف نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ خود حیرت زدہ تھے کہ ان میں اسلام کا دفاع کرنے کی شدید خواہش کیوں موجود ہے؟ انھوں نے اسے ’فطرت کی طرف واپس آنے کی خواہش‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔اور انھیں اپنے اندر چھپی اس خواہش کا احساس اس وقت بھی ہوا جب وہ اور اُن کے دوست سپین کے ایک سیاحتی مقام پر چھٹیاں گزار رہے تھے۔ وہ سیاحتی مقام ایسے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے جو پارٹی اور شراب پینے میں وقت گزارنا چاہتے ہوں۔
وہ اور اُن کے دوست ’ایڈن‘ نامی نائٹ کلب کی طرف جا رہے تھے۔ اس نائٹ کلب کا تعمیری نقشہ کسی مسجد سے بہت ملتا جلتا تھا، جس پر سنہری گنبد اور مینار بھی تھے۔ یوسف کے مطابق نائٹ کلب کے سامنے پہنچ کر ایک بار پھر ایک عجیب سا احساس میرے اندر پیدا ہوا اور اس احساس کے تحت میں کلب میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
جب میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ ’میں آج رات کلب نہیں جاؤں گا‘ تو وہ ناراض ہوگئے۔ ایک دوست نے کہا کہ’ ’تم تو مسلمان نہیں ہو تو پھر تم اس جگہ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘‘ اس موقع پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ بہرحال میں نائٹ کلب میں داخل نہیں ہوا اور اپنی راہ لی۔
بقول یوسف ان دو واقعات کے بعد اسلام قبول کرنے کی خواہش میرے دل میں روز بروز بڑھتی گئی، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ میرا یہ فیصلہ مکمل طور پر درست اور صحیح ہو۔چنانچہ میں نے ایسے بہت سے افراد سے رابطہ کیا جنھوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ پھر مسلم علما سے بھی رابطہ کیا اور سوالات پوچھے۔
یوں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس وقت اور بھی پختہ ہو گیا جب میں ایک ایسے مسلمان سے ملا جو اسلام کے بارے میں ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکتے تھے اور جب مجھے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات کے جوابات ملے تو اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے پُراعتماد ہوگیا۔اور پھر وہ موقع آیا جب میں نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک مسجد کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور کلمہ پڑھ لیا۔
یہیں سے یوسف کی ظاہری اور باطنی شخصیت کی مسلمان ہونے کی طرف منتقلی شروع ہوئی، جس کی ابتدا ایسی عادتوں کو ترک کرنے سے ہوئی جو اسلام میں جائز نہیں۔ انھوں نے داڑھی رکھ لی اور ہمیشہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔ یوسف کہتے ہیں کہ سچ پوچھیں تو تبدیلی کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے یہ تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اس دوران ثابت قدم رہیں۔ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں انھیں مردوں کے مقابلے میں اور زیادہ قوت اور جذبۂ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
برطانیہ میں ۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا۶ء۵ فی صد ہے، جب کہ ۲۰۱۱ء میں ۴ء۹ فی صد تھی۔(بی بی سی لندن، انڈونیشیا سروس)
’پارلیمانی اجتہاد‘ کے بارے میں علّامہ محمد اقبال کے نظریات ہمیں ان کے سات خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں شامل چھٹے خطبے بعنوان ’اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول‘ (The Principle of Movement in the Structure of Islam) میں ملتے ہیں۔ اس میں انھوں نے ’اجتہاد فی الاسلام‘ پر تفصیلی بحث کی ہے اور اجتہاد کو اسلامی قانون سازی میں حرکت اور جدت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
’پارلیمانی اجتہاد‘ پر گفتگو کرنے سے پیش تر آیئے لفظ ’اجتہاد‘ کا مفہوم متعین کرلیں۔ یوں تو اس کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں، جن میں قابلِ ذکر وہ تعریف ہے جو پاکستان عائلی کمیشن نے کی تھی جو یہ ہے: ’’لفظ اجتہاد کے معنی کوشش کے ہیں اور اسلامی قانون کی اصطلاح میں اس کا مفہوم کسی قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنے کا ہے‘‘، جب کہ علّامہ محمد اقبال نے اپنے مذکو رہ بالا خطبے میں اس کی تعریف یوں کی تھی: ’’لغوی اعتبار سے تو اجتہاد کے معنی ہیں کوشش کرنا لیکن فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش، جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے‘‘۔میری نظر میں یہ تعریفیں اور اجتہاد کی بعض دیگر تعریفیں جو میری نظر سے گزری ہیں، عمومی نوعیت کی ہیں۔ میں اجتہاد کی تعریف ان الفاظ میں کرنا موزوں سمجھتا ہوں: ’’لفظ اجتہاد کا لغوی معنی تو کوشش کرنا ہے، مگر اصطلاحی معنٰی ہے اسلامی معاشرے میں کسی نئی صورتِ حال یا کسی نئے مسئلے کے پیش آنے پر عمیق غوروفکر کے بعد قرآن و سنت اور صحابہ کرامؓ اور فقہائے عظام کی آراء کی روشنی میں اور اسلام کی روح کے مطابق آزادانہ رائے قائم کرنا یا قانون سازی کرنا‘‘۔
اجتہاد،حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایما پر ہی شروع ہوا تھا، اور اس کی نوعیت، ماخذ اور اس کے طریقِ کار کا تعین بھی خود حضور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرما دیا تھا، جب آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا اور پوچھا تھا کہ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’کتاب اللہ کے مطابق‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: ’’لیکن اگر کتاب اللہ نے ان میں تمھاری رہنمائی نہ کی تو پھر؟‘‘ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ ’’پھر اللہ کے رسولؐ کی سنت کے مطابق‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر استفسار فرمایا: ’’لیکن اگر سنت ِ رسولؐ بھی ناکافی ٹھیری تو؟‘‘ اس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا: ’’تو پھر خود ہی کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ اس جواب پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسرت اور تشکر کا اظہار کیا تھا (روایت عبدالبر)۔
خلفائے راشدینؓ نے بھی اسی طریق کار پر عمل کیا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام اپنے خط میں اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’جو مسائل ایسے پیش آئیں، جن کا حکم کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ سے معلوم نہ ہو، ان پر بڑے تحمل و تدبّر، بڑی زیرکی و ذکاوت سے کام لینا۔ اور ان کے شواہد اور نظائر کو سامنے رکھنا۔ پھر جب کسی نتیجے پر پہنچ جانا تو فیصلہ کرتے وقت وہی فیصلہ کرنے کی سعی کرنا جو خدا کو پسند اور حق سے قریب تر ہو‘‘۔ آپ نے قاضی شریح کے نام بھی جو ہدایت نامہ ارسال کیا تھا اس میں لکھا تھا: ’’جب تمھارے سامنے کوئی مسئلہ پیش آئے جس میں رائے دینا ضروری ہو، تو سب سے پہلے کتاب اللہ میں اس کا حکم تلاش کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرو، کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت ِ نبویؐ سے رجوع کرو۔ اگر سنت ِ نبویؐ بھی خاموش ہو تو جو فیصلہ اس قسم کے معاملے میں صلحا اور اَئمہ عدل نے کیا ہو اس کو سامنے رکھو۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر غوروفکر کرکے اجتہاد کرو‘‘۔
علّامہ اقبال کی رائے میں تاریخِ اسلام میں اجتہاد سے کم ہی فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔ وہ اس کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور نیک نیتی سے کیے جانے والے اجتہاد ہی کے بارے میں فرماتے ہیں:
تراش از تیشۂ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است
گر از دستِ تو کارِ نادر آید
گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است
[اپنا راستہ اپنے تیشے سے خود بنا، دوسروں کے بنائے ہوئے راستے پر چلنا عذاب ہے۔ اگر تیرے ہاتھ سے کوئی نادر کام ہوجائے، اگر وہ گناہ ہے تو بھی تجھے اس کا ثواب مل جائے گا۔]
علّامہ محمد اقبال نے اجتہاد کے چار ماخذ بیان کیے ہیں: یعنی قرآن، سنت ِ رسولؐ، اجتہاد اور قیاس۔ میری ناچیز رائے میں اجتہاد کے اصل ماخذ تو دو ہی ہیں، یعنی قرآن اور سنت، جب کہ اجماع اور قیاس، اجتہاد کے طریق کار ہیں۔ یعنی ’قیاس‘ انفرادی اجتہاد ہے اور ’اجماع‘ اجتماعی اجتہاد۔
علّامہ محمد اقبال کے نزدیک اجتہاد کے تین درجے ہیں: یعنی اوّل قانون سازی یا تشریح میں کامل آزادی، جس سے چاروں فقہوں کے بانیوں نے فائدہ اُٹھایا۔ دوم محدود آزادی جو کسی فقہ کی حدود کے اندر ہی استعمال کی جاتی رہی ہے، اور سوم ایسی آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے میں، جسے فقہ کے بانیوں نے جوں کا توں چھوڑ دیا، قانون کے اطلاق سے ہو۔علّامہ اقبال نے صرف پہلے درجے کے اجتہاد پر بحث کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نظری طور پر اجتہاد کی اجازت ہونے کے باوجود چار فقہی مسالک قائم ہونے کے بعد اجتہاد کو ترک کر دیا گیا اور اجتہاد کے لیے کڑی شرائط لگادی گئیں، جن کا پورا ہونا محال تھا۔ اس جمود کو امام ابن تیمیہؒ نے توڑا۔ ان کے نقشِ قدم پر چل کر سولھویں صدی میں سیوطی نے بھی آزادیٔ اجتہاد کا دعویٰ کی۔ بعد میں امام ابن تیمیہؒ کے نظریے سے متاثر ہوکر کئی تحریکیں اُٹھیں جو کسی نہ کسی شکل میں اب بھی چل رہی ہیں۔
اجتہاد کے بارے میں علّامہ اقبال کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ماضی میں کی گئی اجتہادی کاوشوں کے نتیجے میں قائم کیے گئے فقہی مسالک تک محدود نہیں کرلینا چاہیے، بلکہ نئے دور کے مسائل کے حل کی خاطر اجتہاد کے لیے نئے ادارے بنانے چاہییں۔ وہ ’انفرادی اجتہاد‘ کی نسبت ’اجتماعی اجتہاد‘ کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ ’اجماع‘ کو ’اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے زیادہ اہم‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اجتہاد کو مسلم ممالک میں ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلینی چاہیے تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ذہن میں ابھی اجماع کی قدروقیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہورہا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں جمہوری روح کی نشوونما اور قانون ساز اسمبلیوں کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی افزا اقدام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مذاہب ِ اربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق قانون ساز اسمبلیوں یعنی پارلیمانوں کو منتقل کردیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ممکن بھی ہے تو اجماع کی یہی شکل۔ مزیدبرآں غیرعلما بھی جو اِن اُمور پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔
اس طویل اقتباس سے یہ بخوبی ثابت ہوجاتا ہے کہ علّامہ اقبال ’انفرادی اجتہاد‘ کی نسبت پارلیمان یا قانون ساز اسمبلی کے ذریعے اجتہاد کے قائل تھے۔ لیکن اس عمومی نتیجے سے یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہوگا کہ پارلیمان کی جس شکل سے ہم پاکستان اور اکثر مسلم ممالک میں متعارف ہیں، علّامہ اقبال اسے اجتہاد کا حق دینے کے قائل تھے۔ پارلیمانی اجتہاد کے بارے میں علّامہ اقبال کا صحیح صحیح منشاء معلوم کرنے کے لیے ہمیں پورے کے پورے چھٹے خطبے، بلکہ ساتوں خطبات اور ان کے ساتھ ہی ساتھ منظوم افکار کو بھی پوری طرح نظر میں رکھنا ہوگا۔اس سلسلہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:
۱- قانون ساز اسمبلی کے ذریعے اجتہاد کے ضمن میں آپ نے یہ بھی لکھا: ’’ہندستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیو نکہ ایک غیرمسلم اسمبلی کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو‘‘۔ اب چونکہ بیش تر مسلم ممالک کی پارلیمانوں میں غیرمسلم ارکان بھی شامل ہوتے ہیں، اس لیے علّامہ اقبال نے ہندستان کی اسمبلی کے بارے میں جس مشکل کا اظہار کیا ہے وہ سب جگہ پیش آئے گی۔
۲- علّامہ اقبال جمہوریت کے تو قائل تھے، لیکن وہ مغربی جمہوریت کے سخت ناقد تھے، مثلاً آپ کے یہ شعر لیجیے:
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
گریز اَز طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ اَز مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید
[طرزِ جمہوری سے گریز کر، کسی مردِ پختہ کار کا دامن پکڑ، کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔]
۳- عام انتخابات کے ذریعے چُنے جانے والے بیش تر مسلم نمائندے بھی نہ صرف دین سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں ان کی اکثریت اَن پڑھ، نیم خواندہ اور جاہل ہوتی ہے۔ وہ جو اجتہاد کریں گے ہم اس کی صحت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز اسمبلی قائم ہوگی، اس کے ارکان وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہوں گے۔ اس قسم کی اسمبلیاں شریعت کی تعبیر میں بڑی شدید غلطیاں کرسکتی ہیں‘‘۔
علّامہ اقبال اس قسم کے اجتہاد سے تقلید کو بہتر قرار دیتے ہیں:
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
[کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی (خطرات سے) زیادہ محفوظ ہے۔]
گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس ، الاماں!
یہ بھی اِک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
علّامہ محمد اقبال نے اس مشکل کے ایک حل کی طرف اشارہ کیا ہے، جو ۱۹۰۶ء کے ایرانی آئین میں پیش کیا گیا تھا اور انقلابِ ایران کے بعد بھی غالباً یہی صورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ پارلیمان سے علیحدہ اور شاید بالاتر شیعہ فقہا کی ایک مجلس قائم کی گئی، جو قانون سازی کے لیے پارلیمان کی رہنمائی کرتی ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے اسے خطرناک چیز قرار دیا ہے کہ علما بحیثیت نائبینِ امام غائب قوم کی ساری زندگی کی نگرانی کریں۔ علّامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:
گو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سلسلۂ امامت کی عدم موجودگی میں وہ اپنا یہ دعویٰ کس طرح ثابت کرسکتے ہیں؟ بہرحال ایرانی نظریۂ آئین کچھ بھی ہو یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ علّامہ اقبال نے مسلم ممالک میں فقہ کی تعلیم کی اصلاح کی بھی سفارش کی ہے۔
پاکستان میں دینی اُمور میں قانون سازی کے لیے پارلیمان کی مدد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی ہے۔ علاوہ اَزیں ادارہ تحقیقات اسلامی اور وفاقی شرعی عدالت کو بھی اس سلسلے میں کچھ کام تفویض کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے کام سے استفادے کا انحصار حکومت ِ وقت کے مزاج پر ہوتا ہے۔ اب تک بیش تر ان کے کام کو نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔
۴- ایک ہی مسئلے پر مختلف ممالک کی پارلیمانیں مختلف اجتہاد کرسکتی ہیں۔ اس طرح اجتہاد عالم اسلام میں اتحاد کے بجائے انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔
۵- چونکہ اجتہاد بذریعہ پارلیمان اجماع ہی کی ایک شکل ہے اور اجماع کو ’اجتماعی قیاس‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ’پارلیمانی اجتہاد‘ پر بھی وہ شرائط لاگو ہونی چاہییں، جو ’قیاس‘ کی صورت میں اجتہاد کرنے والوں پر عائد کی گئی ہیں۔
اس تمام بحث کے بعد ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ عصرِحاضر میں علّامہ اقبال کا مطمح نظر ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم کرنا تھا، جو ایسے جید علما پر مشتمل ہو، جو نہ صرف دینی اُمور میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ دُنیوی علوم سے بھی لیس ہوں۔ یہ علما ہر مسلک اور مکتب ِفکر سے تعلق رکھتے ہوں لیکن فرقہ پرستی میں ملوث نہ ہوں اور وہ بریلوی، دیوبندی، سلفی اور شیعہ بن کر نہ سوچیں، بلکہ مسلم بن کر سوچیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام لے کر آئے تھے، کوئی فرقہ لے کر نہیں آئے تھے۔ میری رائے میں اس ادارے کا نام ’’بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد‘‘ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد، ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے ذیلی ادارے کے طور پر بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بیش تر مسلکوں کے تعصب کی بیخ کنی کرکے اسلامی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں تجویز کروں گا کہ اس ’’بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد‘‘ کاپہلا موضوع تحقیق و اجتہاد یہ معلوم کرنا ہو کہ جس روز حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدہ ۵:۳) نازل ہوئی تھی، اس روز دینِ اسلام کی شکل کیا تھی؟ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ آج میں نے دینِ اسلام مکمل کردیا ہے، اس لیے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کلمہ، اذان، زکوٰۃ، نماز، حج، نکاح، طلاق، معیشت، معاشرت وغیرہ کی کیا شکل تھی؟ اتفاق رائے یا کثرتِ رائے سے اور اتحاد کے جذبے سے دین کی وہ شکل معلوم کرکے یا اجتہاد کرکے تمام مسلم ممالک اور معاشرے دین کی اس شکل کو اختیار کریں۔ اس طرح رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ِعظیم بھی واضح ہوگا، جو کہ قرآن کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ (التوبہ ۹:۳۳) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘۔
شام ،جسے ’سوریا’ یا ’سوریہ‘ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ بعض ماہرینِ بشریات کہتے ہیں: ’’شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی‘‘۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بازنطینی، اُموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اس علاقے کو ۶۳۶ء میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں فتح کیا۔ خلافت راشدہ کے بعد اُموی خلافت قائم ہوئی جو ۱۳۲ سال چلی۔ اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔صلیبی جنگوں کے دور میں اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبی فوجوں کو ’حطین‘ کے مقام پر ۱۱۸۷ ء میں شکستِ فاش دی۔ سلطان صلاح الدینؒ کا دارالسلطنت بھی دمشق تھا۔عثمانی دورِحکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی، جو شام سے گزرتی تھی ۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔
دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو (Gouraud) شہر میں واقع سلطان صلاح الدینؒ کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر کہا: ’’صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں‘‘۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ؒکے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانوی قائد جنرل النبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا:’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یورپ کو تو وہ سب یاد ہے، جب کہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم [۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء] میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دے دی اور ۷؍اپریل۱۹۴۶ء کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لےلیا، جو آج تک شام اور علاقے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’جمہوریہ لبنان ‘ کا نام دیتے ہوئے اسے عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا، اور جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ، مارونی عیسائی ہو گا۔ لبنانی صدر جمہوریہ کے پاس فرانس اور امریکا کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔
شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (۶۳فی صد) سُنّی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروپ یہ ہیں: علوی (۱۰فی صد)، عیسائی (۱۰فی صد)، کرد (۹ فی صد)، دروز (۳ فی صد)، اسماعیلی (۱ فی صد)، دوسری اقلیتیں (۲ فی صد)۔ شام کے ۷۴ فی صد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔
اس علاقے کو بعد میں منگول و تاتار وحشی حملہ آوروں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں ۱۲۸۰ء میں شکست دی۔ پھر تیمورلنگ نے بھی ۱۴۰۰ء-۱۴۰۱ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہزیمت سے دوچار کرکے اگست۱۵۱۶ء میں قبضہ کیا، جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا۔ اسی دوران فرانس اور برطانیہ گٹھ جوڑ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا۔
آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دورحکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی ۱۸۴۰ء سے لے کر۱۹۱۴ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے لگائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں برتری حاصل ہوگئی۔
باقاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے: هاشم الاتاسی کی حکومت(دسمبر۱۹۳۶ء) اور شکری القوتلی کی حکومت(۱۹۴۳ء)۔ ۱۹۴۶ء میں آزادی کے بعد شام میں اُوپر تلے فوجی انقلاب آئے، جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب (مارچ۱۹۴۹ء)، شامی الحناوی کا انقلاب(۱۹۴۹ء)، شیشکلی کے دو انقلاب (دسمبر۱۹۴۹ء /۱۹۵۱ء) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب(۱۹۵۴)۔ غرض اس عرصے میں شام میں آٹھ فوجی انقلاب ہوئے، جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔
شام میں ۱۹۷۹ء میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبران کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا، جو بشار الاسد کے فرار تک جاری رہا۔
حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی سفاکیت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بےلگام مسلح ملیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے غیرمعمولی مظالم میں جون ۱۹۸۰ میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے، جب ۱۲۰۰جیل بندسیاسی مخالفین کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فروری ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا، جس کے دوران۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار لوگ طیاروں سے گولہ باری کرکے قتل کیے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا، کیونکہ وہاں کے عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لیے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیورٹی سسٹم بنایا تھا، جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لیے درجنوں ملیشیا بنائی گئی تھیں۔ جن میں سب سے خطرناک ’شِبّیحہ ‘ تھی، جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھر جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ ان ساری ملیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا، جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔
اس طاقت ور عوامی تحریک کے باوجودایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی فاشسٹ حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قزاخستان)میں کئی میٹنگیں ہوئیں، جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے، جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔
اس صورتِ حال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکا اور اس کا حلیف ’کردی اتحاد‘، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ’ھیئۃ تحریر الشام‘ (پرانا نام ’جبہۃ تحریر الشام‘) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قابض ہوگئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں ۲۰۱۶ سے باغیوں اور اسد حکومت میں سے کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
موجودہ تحریک ۲۷نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی، جہاں ایک بڑے علاقے پر ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے ۲۱ دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا۔ ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انھوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے ۸دسمبرکی صبح کو دمشق پر قبضہ کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔
حالات میں تبدیلی مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا،اور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں ۲۸نومبر۲۰۲۴ء کو بشارالاسد، روسی صدر پوٹین سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے ماسکو گیا، لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا۔ بالآخر بشارالاسد ۸دسمبرکی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے یہی کہتا رہا کہ روسی فوجی مدد آ رہی ہے۔
موجودہ تحریک کی ابتدا ایک سال قبل شروع ہوئی، جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور ان کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او آئی سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکمران اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ’ھیئۃ تحریر الشام‘ نے تقریباً ۲۲ چھوٹے چھوٹےمسلح گروہوں سے بات چیت شروع کی، جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔
اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے اسٹرے ٹیجک علاقے جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا، نیز شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز، بحری بیڑہ پر حملہ کر کے تقریباً ۸۰ فی صد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گئی ہے بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّعمل دینے کے لائق نہیں رہ گئی، اور نہ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں۔
نئی حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں: ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تضادات دوبارہ اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھa اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک تباہ حال اور معاشی طور پر غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ پھر سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس دولت اور اسلحے کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کرا سکتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں یعنی بشمول بعث پارٹی ، بشارالاسد کے لوگوں اور علویوں، سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی’ ہیئۃ تحریر الشام‘ کو ’ دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔
ساری عرب حکومتیں اس نئی حکومت میں مذہبی عناصر کے غلبے سے خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی، جیسے کہ وہ پہلے تیونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں، لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔
۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کے موقع پر شام میں بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ عدل و انصاف اور آزادی ہی تھا۔ یہ پُرامن مظاہرے تھے اور مظاہرین انتقالِ اقتدار کی روایت کو فروغ دینے اور معاشی آزادروی کا مطالبہ کررہے تھے ۔چنانچہ نہتے مظاہرین کے خلاف باقاعدہ آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ مظاہرین کو جیلوں میں ٹھونسنےکی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ مظاہرین کی گرفتاریاں جہاں اور بہت سے الزامات میں کی گئیں، وہاں ایک اہم ترین الزام جس کی سزا بھی انتہائی سخت تھی ،یہ تھا کہ قیدی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔گرفتار ہونے والوں کو کہیں دہشت گرد قرار دیا گیا اور کہیں غیر ملکی تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ حالات یہ تھے کہ اگر کوئی مظاہرے میں شریک ہوتا یا اخبار میں بیان دیتا، تو حکومتی آلہ کار اسے منظر عام سے غائب کر دیتے، پھر قیدی یا تو جان سے مار دیا جاتا یا کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا۔ جیلوں اور گرفتاریوں کے بارے میں شامیوں کا تجربہ بہت بھیانک تھا۔ تدمر اور صید نایا کی جیلوں میں جو بھی گیا، اس کا چہرہ ۲۰،۳۰ برس تک پھر کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
اخوان المسلمون سے تعلق کے جرم میں جو قید ہوتا، اس کے لیے نہ کوئی عدالتی شنوائی تھی، نہ اس کی اہل خانہ سے ملاقات ہو سکتی تھی، اور نہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی کا پتا چلتا تھا۔ اب تک دسیوں ہزار شامی باشندے ایسے ہیں جن کی کسی کو کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں، انھیں پھانسی دی گئی یا وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟
۲۰۱۲ء کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکمرانوں کا جبر جوں جوں بڑھا، نوجوان انقلابی مظاہرین میں مسلح جدوجہد اور تصادم کا نظریہ اُبھرا اور اُن فوجی جوانوں کے زیر اثر تیزی سے مقبول ہوا جو مسلح افواج سے یہ کہہ کر الگ ہو گئے تھے کہ ہم اپنے ہی لوگوں پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔
اب تک انقلابیوں کی سرگرمیاں مقامی نوعیت کی تھیں اور صرف اپنی گرفتاری اور ظالموں کے ہاتھوں اپنے آپ کو موت سے بچانےکے لیے تھیں۔ گویا ان کی سرگرمیوں کا کوئی متعین نظریاتی رُخ نہیں تھا۔ انقلابیوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے قصبوں ،محلوں اور دیہاتوں کو بشارحکومت سے آزاد کروانا شروع کیا۔ جو علاقہ آزاد ہو جاتا، وہ دوسرے آزاد علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے معاملات چلانا شروع کر دیتا۔ بشار حکومت نے جب دیکھا کہ لوگ اسلحہ اٹھانے لگے ہیں اور مسلح جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں، تو اس نے شام کے چند اہم علاقوں، دمشق، حمص، حماۃ کو چھوڑ کر باقی علاقوں ادلب ،حلب وغیرہ سے فوجی بندوبست ہٹالیا۔
انقلابی نوجوانوں میں روز بروز یہ یقین پختہ تر ہو رہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں سے چھٹکارا صرف مسلح جدوجہد اور لڑائی سے ہی ممکن ہے،سیاسی دباؤ اور ڈپلومیسی کوئی حل نہیں ۔
۲۰۱۲ء میں انقلابیوں اور حکومتی افواج کے درمیان حمص میں پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی، جس میں بشار الاسد کی توپ اور ٹینک بردار اور ازکار رفتہ بھاری روسی اسلحہ سے لیس حکومتی افواج کو منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجتاً، بشار الاسد نے ۲۰۱۳ء میں باقاعدہ طور پر لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اورایران و روس سے فوجی مدد مانگی ۔یوں شامی حکومت غیر ملکی فوجی مدد کےسبب انقلابیوں کو حمص شہر سے نکالنے اور انھیں شہر کے شمالی مضافاتی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوسکی۔
اب شام کی زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ دارالحکومت دمشق کا کچھ علاقہ جیسے غوطہ اور حماۃ کا کچھ علاقہ اور درعا کے کچھ حصےانقلابیوں کے کنٹرول میں تھے، جب کہ ان شہروں کے باقی حصوں پر حکومتی فوجی دستوں کا کنٹرول تھا۔ ملک کے دیگر تمام شہر یا تو مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں یا مکمل طور پر انقلابیوں کے کنٹرول میں جاچکے تھے۔حزب اللہ کی مداخلت کے بعد تنظیم القاعدہ اور تنظیم الدولۃ اسلامیۃ فی العراق والشام(داعش) کو بھی شام کے مسلح انقلابی گروپوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔
۲۰۱۴ء کے اختتام پر شام میں تین طرح کے مسلح گروپ برسرِپیکار تھے : ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپ اور حکومتی فوجی دستے ، القاعدہ اور داعش کے نظریات کے حامل گروپ اور مسلح تنظیمیں، اورمقامی شامی مسلح گروپ جن کا مطمح نظر صرف اور صرف بشار حکومت کا خاتمہ تھا۔
۲۰۱۵ء کے آغاز میں ایک اور مسلح گروپ ’قسد‘ کا بھی اضافہ ہو گیا جو امریکی سرپرستی میں بیک وقت بشار الاسد حکومت، تنظیم القاعدہ و داعش کے نظریات کے حامل مسلح گروپوں ،اور مقامی انقلابی مسلح گروپوں، سبھی کے خلاف لڑرہا تھا۔ یہ بنیادی طور پر کرد مسلح گروپ پر مشتمل تھا۔
۲۰۱۵ء میں روس براہِ راست اس کش مکش میں شریک ہو گیا۔ اس کی فضائی بمباری، اور کمانڈو دستوں نے انقلابی مسلح گروپوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ۔ یوں بشار حکومت کو نہ صرف کچھ سانس لینے کا موقع ملا بلکہ اسے یہ حوصلہ بھی ہوا کہ وہ انقلابیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر دست درازی کرے۔
۲۰۱۳ء میں ہی تنظیم الدولۃ الاسلامیۃ اور جبھۃ النصرۃ کے قائد محمد الشرع الجولانی کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے اور یہ معاملہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے پاس گیا۔ انھوں نے محمد الجولانی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صرف اسی کے گروپ کو شامی حدود میں کارروائیوں کا مجاز قرار دیا۔
۲۰۱۶ء میں بشار حکومت نے ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے حلب شہر کو انقلابی مسلح گروپوں سے چھڑوا لیا تھا۔ عالمی برادری ۲۰۱۲ء میں جنیوا میں شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے کہہ چکی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ سامنے آئی جس میں جنیوا اعلان پر عمل درآمد کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اسی دوران وسطی ایشیائی ریاست کے دارالحکومت آستانہ میں علاقائی قوتوں ایران، ترکی اور روس کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ آستانہ مذاکرات کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں بشار حکومت کے علاوہ انقلابی مسلح گروپوں کو بھی باقاعدہ فریق کے طور پر شریک کیا گیا تھا ۔آستانہ مذاکرات کے دوران میں مختلف جنگی محاذوں پر فوجی کارروائیوں میں کمی کا بشار حکومت نے یوں فائدہ اٹھایا کہ فوج نے حمص کے انقلابیوں پر حملہ کر کے حمص شہر کو زیر کنٹرول لے لیا۔ اسی طرح دارالحکومت دمشق سے متصل غوطہ اور قلمون کے علاقوں پر بھی اپنا کھویا ہوا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔
۲۰۱۹ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک ’عالمی فوجی اتحاد‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد داعش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگی کارروائی کرنا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار حکومت نے بھی انقلابی مسلح گروپوں کے خلاف اور حزب اللہ اور روس کی مدد سے مسلح کارروائی تیز کر دی۔ عالمی اتحاد کی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰۱۹ء میں شام سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ ترکی نے بھی اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ موجود علاقوں پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے اسے کرد مسلح گروہ کے وجود سے پاک کر دیا۔
ابو محمد الجولانی کا تعلق اسرائیل کےزیر قبضہ شامی علاقہ گولان ہائیٹس سے ہے ۔انھوں نے عراق میں القاعدہ کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ برسوں امریکی قیدی رہے ۔القاعدہ کے نظم سے مشورہ کرکے ۲۰۱۸ء میں شام میں ’جبھۃ النصرۃ‘قائم کی پھر اس کانام تبدیل کرکے ’جبھۃ فتح الشام‘ رکھا اور بالآخر اب ان کی تنظیم کا نام ’ھئیۃ تحریر الشام‘ہے۔ادلب کے علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۹ء میں یہاں ’حکومت انقاذ‘ قائم کی اور ’جامعہ ادلب الحرۃ‘ کی بنیاد رکھی ۔ ۲۰۲۰ء کے بعد ’ھئیۃ تحریر الشام‘ نے ابو محمد جولانی کی سربراہی میں علاقے میں موجود دیگر مسلح تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم یا ختم کر دیا اور عملاً انھیں ایک ہی اسٹرےٹیجک کمان میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ’ادارہ امن العام‘ (پولیس فورس) قائم کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ادلب میں اعلیٰ معیار کے ایک ’آرمی ٹریننگ کالج‘ کی بنیاد رکھی، جہاں ساری مسلح تنظیموں کے ارکان تربیت حاصل کرنے لگے۔ اب تک اس کالج نے ۴۰۰ فوجی افسران کو تربیت دی ہے۔ یہی فوجی افسر حالیہ آپریشن ’ردع العدوان‘ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ نئے اسلحے کے حصول اور ترقی و ارتقاء پر بھی توجہ دی گئی، خصوصاً ڈرون فورس ’شاہین‘ تشکیل دی گئی۔ حالیہ برسوں میں، ’ھئیۃ تحریر الشام‘ کے قائد ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے تعلقات ختم کر دیے ہیں، سخت گیر عہدے داروں کو نکال باہر کیا ہے، اور تنوع اور مذہبی رواداری کو اپنانے کا وعدہ کیا ہے۔
۸ دسمبر۲۰۲۴ء کو شام میں ایک غیر متوقع جنگی پیش رفت پر مبنی انقلاب نے ۱۹۷۰ء سے جاری اسدخاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔اس اچانک حملے کے دوران شامی انقلابی اپوزیشن فورسز نے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تیز رفتار پیش قدمی کی اور محض گیارہ دنوں میں دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی عوام مسجدوں میں نماز کے لیے جمع ہو گئے اور چوراہوں پر جشن منایا، ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے، اور بشار الاسد کے خلاف نعرے بازی کی۔ کچھ علاقوں میں جشن کے طور پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔فوجی اور پولیس افسران اپنی وردیاں چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔
اس سے ایک دن پہلے، اپوزیشن فورسز نے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر قبضہ کر لیا تھا۔ حلب اور حماۃ کے شہر پہلے ہی اپوزیشن فورسز کے قبضہ میں آچکے تھے۔ اس موقع پر عوامی جذبات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ بشار حکومت نے جو خوف اور دہشت مسلط کررکھی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ ہربڑے شہر میں قائم جیل کے دروازے ٹوٹ چکے ہیں اور جرمِ بے گناہی میں ماخوذ ہزاروں شامی قیدی رہا کیا جاچکے ہیں۔
صورتِ حال کے بارے میں اخوان المسلمون شام کے تازہ ترین بیان کو یہاں درج کیا جارہا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۰۠ ،ہم جماعت اخوان المسلمون شام ،ایک بار پھر اپنی قوم کو اس فتح و نصرت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ایک ایسے روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں جہاں آزادی اور شرفِ انسانی کی قدر ہو،نیز اس موقع پر زور دینا چاہتے ہیں:
۱- مجرم بشار الاسد کے آمرانہ نظام کی برطرفی بہت مشکل سے اور بے حساب قربانیاں دے کر حاصل ہوئی ہے۔ہمارے ذمے ہے کہ عدل اور قانون کی بالادستی پر مبنی ریاست قائم کرنے کے لیے یک آواز ہو جائیں۔ ملک کی تعمیرِ نو اس طرح کریں جہاں سارے شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
۲- ہم ،سیّد محمد بشیر کی قیادت میں قائم موجودہ عبوری حکومت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں اورشامی ریاست کی تعمیرِ نو کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں کھپادینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، اور ریاست کے قانون ساز ،انتظامی اور عدالتی اداروں کی تعمیر و تشکیل کے لیے ہرطرح کا تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں ۔
۳- جماعت اخوان المسلمون شام یہ سمجھتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت بنانے کا کہا گیا تھا، وہ قرارداد غیرمؤثر ہو چکی ہے کہ بشار الاسد کا نظام زمین بوس ہوچکا ہے۔ تاہم، ملک شام کے لیے نئے دستور اور آزادانہ نئے انتخابات کی ضرورت برقرار ہے ۔
۴- اخوان المسلمون اس موقع پر تجویز کرتی ہے کہ عبوری دور میں دستوری تضادات سے بچنے کے لیے اور جب تک کہ نئے دستور کی تشکیل کے لیے دستورساز اسمبلی وجود میں نہیں آجاتی، ۱۹۵۰ء کے دستور کو نافذ العمل قرار دیا جائے۔ دستور بنانے کے بعد قانون ساز اسمبلی اور صدارت کے لیے نئے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کروایاجائے۔
۵- سابقہ بعث پارٹی کے نظام میں شریک ان تمام لوگوں پر جن کے ہاتھ شامیوں کے خون سے آلودہ ہیں ،خواہ وہ لوگ شام میں موجود ہیں یا شام سے باہر ان مجرموں کوگرفتار کیا جائے ، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں۔
۶-ایک وزارت برائے لاپتا افراد وشہدا قائم کی جائے جو ان افراد کے حالات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرے جو لاپتہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کرے اور جو لوگ متاثرین ہیں ان کی دادرسی کرے اور ان کے خاندانوں اور وارثوں کو ان کا شرعی اور قانونی حق اور عوضانہ دلائے۔
۷-اسی طرح ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو صرف اور صرف شام کے لوٹے ہوئے اور یہاں سے لے جائے گئے مال و دولت کا سراغ لگانے اور شامی قوم کو اس کے اثاثے واپس دلانے کے لیے مختص ہو۔
۸-ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان تمام ظالمانہ ایمرجنسی قوانین کی تصحیح کرے جن کے ذریعے شامی باشندوں کی آزادیوں کی پامالی کی گئی اور نظریاتی وابستگی کو ان کا جرم بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ہر قسم کے مقدمات کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور یکسر موقوف کرے۔
۹- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں شام کے باشندوں کی سیکیورٹی ،اورامن عامہ کو یقینی بنا سکے اور اسی طرح ملک کی مسلح افواج کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ مسلح افواج وطن کی سرحدوں کی مؤثر حفاظت کر سکیں۔
۱۰- ایسے بین الاقوامی تعلقات قائم کیے جائیں جن کی بنیاد باہمی خیرخواہی اور منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو اور کسی بھی ملک کو داخلی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دینا ہی ریاستوں کے استحکام اور استقرار کی بنیاد ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن اس حوالےسے ان کی ترجیح اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر ۲۰جنوری ۲۰۲۵ء کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ۸دسمبر ۲۰۲۴ء کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر سٹیووٹکوف نے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت بُرا دن ہوگا۔ دوسرے دن اسی پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔
اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان میں امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا، وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔ دوسری طرف شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ شام میں جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور ’جبل حرمون‘ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان ’جبل حرمون‘ کو ’جبل الشیخ‘ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن ۱۳ دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے ’جبل حرمون‘ میں تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی۔
۱۰مربع کلومیٹر کا یہ شام کا نہایت اہم دفاعی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے، وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام ’قنیطرہ‘ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھاکہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد ’قینطرہ‘ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دیں، قدیم درخت گرادیئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے ۱۰ ۱۰ میٹر بلندی پر واقع یہ خوب صورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ مزاحمت کار منظم ہوں گے۔
شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اُردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیبات پر کنکریٹ کے مضبوط مورچے (بنکر) تباہ کرنے کے لیے بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ ۱۴ دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں ۶۱ مقامات پر میزائل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے، ان کے دھماکے اتنا شدید تھے کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے ۳ درجہ شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمدالشرع المعروف ابومحمد الجولانی نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابلِ مذمت ہیں لیکن ہمارا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ بشار اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے، جب کہ متعصب عناصر شام میں تبدیلیٔ اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔ رہبر انقلابِ ایران علی خامنہ ای صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا 'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکا میں تیار گئی اور شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے۔
بلاشبہ اسد خاندان کے ۵۳سال کے جبر سے نجات پر عام شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت خانوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دُوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا ہے۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں ان کے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذاکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔
موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے، جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے، لیکن ۱۳ دسمبر کو غروبِ آفتاب سے ۱۴ دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصرہسپتال پر بمباری سے ۳۶ بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (فلسطین اتھارٹی)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنادینے، شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیرِزمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔
جہاں فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے لیے کمزور ہی سہی، لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز، شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارک باد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا :نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین ۷۰ برسوں میں نہ کرسکی‘‘۔
یہ اظہارِ بیان مغربی قیادتوں میں گہرے تعصب اور انسانیت کشی کی دلیل پیش کرتا ہے۔
چندماہ کے وقفے سے آزادکشمیر ایک بار پھر زوردار احتجاجی تحریک کے نعروں سے گونج اُٹھا۔اس بار اصل معاملہ بجلی اور آٹے میں رعایت (سبسڈی) کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے صدارتی آرڈی ننس کا تھا، جس کے تحت آزادکشمیر میں آزادیٔ اظہار پر زد پڑنے کا اندیشہ تھا۔ ’آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نے اس آرڈی ننس کو مستقبل میں احتجاج اور آزادئ اظہار پر پابندیوں کی پیش بندی قرار دے کر آزادکشمیر بھر میں عام ہڑتال اور آزادکشمیر کو پاکستان سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، اور ۵دسمبر کو آزادکشمیر کے طول وعرض سے ہزاروں افراد کے قافلے انٹری پوائنٹس کی طرف چل پڑے۔
اس بار حکومت آزادکشمیر نے ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کے مطالبات کو تسلیم کرکے احتجاج کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا۔حکومت نے صدارتی آرڈی ننس واپس لے کر دوسرے مطالبات کو بھی تسلیم کیا، جس کے بعد عوام کے قافلے واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔اپنی حساسیت،قومی منظر میں اپنی جدا گانہ اور منفرد حیثیت،۷۷ برس سے قائم ہونے والی اپنی شناخت کی مضبوط چھاپ، اوورسیز کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے باعث آزادکشمیر ایک دستی بم (گرنیڈ)ہے۔ مگر کچھ لوگ اس گرنیڈ سے فٹ بال کھیلنے کا شوق فرمانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں۔ابھی چند ہی ماہ پہلے بجلی اور آٹے کی سبسڈی کے نام پر ہونے والے پُرتشدد احتجاج پر سب سے مختصر اور جامع تبصرہ یہ تھا: ’لیسٹ بٹ ناٹ لاسٹ‘۔
آٹے اور بجلی کا تعلق معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات سے ہے تو آرڈی ننس کا تعلق عوام کے شعور کو محدود کرنے یا شعور کے اظہار کو زنجیر پہنانے سے ہے۔ یوں مختصر عرصے میں عوام کا ایک قوت اور سرعت کے ساتھ سراپا احتجاج ہونا بتا رہا ہے کہ معاملہ کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئے حساسیت اور ردعمل دکھانے کی صلاحیت کا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت نے کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرنا ہے جس کی پیش بندی کے طور پر لوگوں سے احتجاج اورفریاد کا حق چھینا جانا لازمی ہے۔حکومت آزادکشمیر نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرکے حالات کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا ہے۔
دُنیا بھر کی سیاست کی طرح آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات میں ایسی تبدیلی رُونما ہو چکی ہے، جو سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے پہلو بہ پہلو چلی آرہی ہے۔معاشرہ سوشل میڈیا کے باعث سیاست اور معاشرت میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی زد میں ہے۔ سری نگر میں دوعشروں سے سوشل میڈیا کے ساتھ در آنے والے رجحانات اپنا کرشمہ دکھاچکے ہیں۔ ان رجحانات کو طاقت سے دبادیا گیا ہے مگر سکون کی تہہ میں یہ جذبات اور رجحانات موج زن ہیں۔اب جدید ذرائع کے باعث پیدا ہونے والے یہ رجحانات آزادکشمیر میں اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسّی کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگلے مرحلے میں یعنی نوّے کی دہائی میں قوم پرست تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی اکثریت سیاسی پناہ کے لیے بیرون ملک چلی گئی۔ باقی جو روایتی جوڑ توڑ کی رسیا سیاسی جماعتیں بچ گئیں، انھیں بدعنوانی کی ایسی فائلوں نے کھالیا جو لاٹھی پر رکھے مرے ہوئے سانپ کی طرح صرف ڈرانے کے کام آتی ہیں۔ ایک دوعشرے اس کامیاب’مینجمنٹ‘ کے باعث سکون اور سکوت میں گزر گئے۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی آمد کے اثرات نے خود آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دی اور یہاں کے عوامی رجحانات میں تبدیلی کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔
آزادکشمیر کی تمام قابل ذکر روایتی سیاسی جماعتوں کوحکومت کی ایک ٹوکری میں جمع کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں طاقت کا ایک خلا پیدا ہوتا جا رہا ہے اور اس خلا کو ایک غیر سیاسی قوت نے تیزی کے ساتھ پُر کرنا شروع کیا۔یہ قوت پہلے ’تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ تھی، مگر جب عوام اس کی جانب مائل ہونے لگے تو پھر اس کا نام ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ رکھ دیا گیا۔تب اس میں تاجروں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دوسرے طبقات بھی شامل ہونے لگے۔ صدارتی آرڈی ننس کا براہِ راست تاجر کمیونٹی سے تعلق نہیں۔ تاہم، پڑھے لکھے چند نوجوانوں سے خطرے کی گھنٹی بجاکر ہوشیار باش کردیا۔ ممکن ہے ایسے افراد کو انڈین قرار دے دیا جائے۔ تاہم، یہ معاملہ آٹے اور بجلی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اُوپر تلے ان دو احتجاجوں کی شدت، حدت، سنگینی،عوام کے موڈ اور مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کے لیے غور وفکر کا بہت سامان ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ باجوہ ’ڈاکٹرائن‘ کے تحت اسلام آباد کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کا انتظامی تیاپانچا کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اس کی شکل وصورت کیا ہوگی؟
اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں، مگر اس کی سب سے بدترین شکل جو بیان کی جا رہی ہے، وہ افواہ بھی ہوسکتی ہے یا پھر ذہن سازی کا افسوس ناک عمل بھی: آزاد کشمیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ یہ غلطی کی گئی تو یہ ایک تباہ کن ردعمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی:
علامہ محمداقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہو تی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے ناواقف رہے تو وہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاریخ صرف فخر و مباہات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تاریخ سے درسِ بصیرت حاصل کرتے ہوئے آنے والے حالات کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ انڈیا کی تاریخ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتاسکیں کہ اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں نے کتنا اہم تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ اس خطۂ ارضی کو آزاد کرانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں نے ہی میرِ کارواں کا کردار ادا کیا ہے۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں ایک نمایاں نام ٹیپو سلطان کاہے۔ یہ وہ مجاہد ِآزادی ہے جس نے میدان جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کے لیے جان دے دی۔
ٹیپو سلطان کو شہید ہوئے دو صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے آج تک زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ انصاف رسانی اور رعایا پروری کے جو نمونے ان کے دور میں نظر آتے ہیں اس کی نظیر اور مثال یہاں بہت ہی کم ملتی ہے۔ میسور کی وادیوں میں ٹیپو سلطان نے ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء میں ایک ایسے وقت آنکھ کھولی، جب کہ غیرمنقسم انڈیا میں انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ مقامی حکمران بھی انگریزوں سے سمجھوتے کر کے ان کے باج گزار بن چکے تھے۔ لیکن ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے طوقِ غلامی کو پہننے سے انکار کر دیا اور اپنے والدحیدر علی کے ساتھ میدانِ کار زار میں ڈٹا رہا۔ٹیپو سلطان وہ پہلا شخص تھا، جس نے برطانوی سامراج کے اقتدار کو انڈیا سے ختم کرنے کے لیے بیرونی ممالک اپنے سفیر روانہ کیے۔ اس نے نپولین بوناپارٹ سے بھی ربط پیدا کیا۔ نپولین نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنی افواج کو روانہ کرے گا، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بیرونی مدد کے نہ ہونے اور دیسی راجاؤں کی جانب سے بھی کسی حمایت کے نہ ملنے کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انگریزوں سے بر سرِ پیکار رہا، اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان نے ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو شہادت پائی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے کہ’’آج سے انڈیا ہمارا ہے‘‘۔ انگریزوں کا یہ خواب ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد واقعی پورا ہوگیا اور وہ قابض ہوگئے۔
ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ اور سابق گورنر اڈیشہ پروفیسر بشمیرناتھ نے ٹیپو سلطان کے دور حکومت پر ریسرچ کر کے ثابت کیا کہ ان کا دور ہرلحاظ سے قابلِ تحسین رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب Islam and Indian Culture میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ جب ٹیپو سلطان نے برہمنوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا تو تین ہزار برہمنوں نے خودکشی کرلی۔ جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی‘‘۔
گاندھی جی نے بھی ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کا ذکر اپنے اخبارYoung India میں، مؤرخہ ۲۳جنوری۱۹۳۰ء کو کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنّا، سری نواس اور رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے‘‘۔
’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ کی رپورٹوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے میسور کے مختلف علاقوں کے مندروں کو نہ صرف عطیات دیئے، بلکہ جاگیریں بھی عطا کیں۔ وہ ہندو مذہبی پیشواؤں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مرہٹہ افواج نے سری نگری کے مندر کو لوٹا تو اس کے گرو نے ٹیپو سلطان کو خط لکھا: ’’مرہٹہ فوج نے مندر کو لوٹ لیا اور مندر کے ہاتھی اور گھوڑے بھی لے کر چلے گئے ہیں‘‘۔ اس خط کے جواب میں مؤرخہ ۳۰ مارچ ۱۷۹۱ء کو ٹیپوسلطان نے لکھا کہ ’’ہم ان دشمنوں کو ضرور سزا دیں گے جو ہمارے ملک پر چڑھائی کرکے رعایا کو ستا رہے ہیں۔ آپ اور دوسرے برہمن ملک کے دشمنوں کی تباہی کے لیے خدا سے دعا کریں‘‘۔
بعد میں ٹیپو سلطان نے مندر کی حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ راما شیام سندر نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارت ٹائمز میں ۱۶نومبر ۱۹۸۵ءکو شائع ہوا، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام خطوط اور فرمان آج بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کے جگت گرو کا بھی ٹیپو سلطان بڑا خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے خط میں جگت گرو کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک خط جو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں بھی اصل عبارت میں نقل کیا ہے اور پروفیسر بشمیر ناتھ پانڈے نے بھی اپنی کتاب اسلام اینڈ انڈین کلچر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
ایسے مایہ ناز فرزند کے کردار کو آج انڈیا میں مسخ کرنے کی منظم، مسلسل اور ہمہ پہلو کوشش کی جارہی ہے۔ تاریخ کی سچائیوں کو جھٹلا کر من مانی تاریخ وضع کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم سلاطین کو نشانہ بنا کر ان پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے ذہن میں مسلم سلاطین کی نسبت سے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ بی این پانڈے نے اسی سچائی کو بیان کرتے ہوئے ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا: ’’انگریز مؤرخوں اور استادوں نے جو کچھ پڑھایا، اس کے اثرات ہم اب تک دور نہیں کرسکے ہیں۔ اسی تاریخ سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمے کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘‘۔
ایک اور معروف انڈین مؤرخ این سی سکسینہ نے اپنی کتاب Muslim India میں اس تلخ حقیقت کو منظرعام پر لاتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بدقسمتی سے اب تک بھارت کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان پر فرقہ وارانہ رنگ چھایا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بھری ہوئی ہیں‘‘۔
غیر جانب دار مؤرخین کی ان آراء سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں نے جو تاریخ بیان کی اسی میں اور کئی چیزیں بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے شامل کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔
بی این پی کی حکومت کے تحت انڈیا میں مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل حکومتی سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم حکمرانوں کے تعلق سے حقیقت سے بعید باتیں بیان کرکے ملک کے ایک خاص طبقے میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تاریخ میں زہرگھولنے کا یہ عمل اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں شروع ہو چکا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کے نام پر دیومالائی قصوں اور کہانیوں کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ملک کی کئی یونی ورسٹیوں بشمول عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد سے پوسٹ گریجویشن سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ سے مسلم دورِ حکومت کو نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب بھارت کے عہد وسطیٰ کی مسلم تاریخ ایک قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ یہ حقائق کو جھٹلانے اور علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔
مسلمانوں کی آئندہ نسلیں یہ جان بھی نہ سکیں گی کہ مسلمانوں نے اس ملک پر کتنے طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی۔ پورے ایک ہزار سالہ دور حکومت کو بیک جنبش قلم حذف کر دینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ٹیپو سلطان ہو کہ سراج الدولہ، اورنگ زیب ہو کہ بہادر شاہ ظفر، یہ اس ملک کے حکمراں رہے ہیں اور انھوں نے اپنے دورِحکومت میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، ان سب کو فراموش کرنا ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل اہل ہند کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عہدحاضر کے انصاف پسند مؤرخین جن میں بیش تر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب تسلیم کی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ گڈوانی کی کتاب کی بنیاد پر ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔
یاد رہے گڈوانی نے اپنی کتاب میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کے واقعات کو قلم بند کر کے آنے والی نسلوں کو یہ بتا دیا کہ ایک حریت پسند اور مذہبی روادار شخصیت کے کردار کو تنگ نظر تاریخ دانوں نے کیسے داغ دار کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کی ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر، جب کہ انڈیا ’ہندوتوا‘ کے نام پر ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ ملک کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں انصاف پسند محققین کے ساتھ خود انڈین مسلم دانش وروں کو بھی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
تاریخی واقعات یا مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو بیان کرکے ہم ’سلطان پدرم بود‘ کی ذہنیت اپنے پر مسلط کرلیں تو یہ بھی کوئی دانش مندی نہیں، مگر حقیقتِ حال کو بیان نہ کرنا بھی مجرمانہ فعل ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے نام سے جو نظم لکھی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں، یہ نئی نسل کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے :
تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
جواب :نسل اور رنگ کے مسئلے کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ آدمی محض اپنی جہالت اور تنگ نظری کی بنا پر یہ سمجھتا ہے، کہ جو شخص کسی خاص نسل یا ملک یا قوم میں پیدا ہوگیا ہے، وہ کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ حالانکہ جو کسی دوسری نسل یا قوم یا کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوا ہے، اس کی پیدائش ایک اتفاقی امر ہے، یہ اس کے اپنے انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے اسلام ایسے تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں، اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے، تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقا میں پیدا ہوا ہو یا امریکا میں، یا ایشیا میں، بہرحال وہ ایک قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے ایک بُرا آدمی ہے، تو خواہ وہ کسی جگہ پیدا ہوا ہے اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔
اسی بات کو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔ جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہویا کالا، بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔ اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوعِ انسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔
قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے، اور اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چونکہ ایک نظریے اور اصول (Ideology) پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریے کو جو لوگ مانتے ہوں، اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انھی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی لوگ اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمدنی حقوق عطا کرتا ہے، جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔ اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالمگیر اُمت (World Community) بنائی ہے، جس میں ساری دُنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔حج کے موقعے پر ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکا، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کرلیتا ہے کہ یہ سب ایک اُمت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیں ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو دُنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بناپر آج جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس کا یک لخت خاتمہ ہوسکتا ہے۔(لندن، ۱۹۶۸ء)
جواب: یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب دنیا اسلام کی صداقتوں کو قبول کرلے۔ ایک خدا، ایک کتاب اور ایک لیڈر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسلیم کرلے۔اس طرح خود بخود وہ عالمگیر قوت (Universal Nationality) وجود میں آجائے گی۔ تمام دُنیا کے لوگ اخوت کی ایک رسّی میں منسلک ہوجائیں گے۔ یہ سارے لڑائی جھگڑے خودبخود ختم ہوجائیں گے اور امن و آشتی کا اُجالا چاردانگ عالم کو منور کردے گا۔ (لاہور، ۱۹۷۱ء)
انسانی معیشت کے بارے میں اوّلین بنیادی حقیقت، جسے قرآنِ مجید باربار زور دے کر بیان کرتا ہے، یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع و وسائل جن پر انسان کی معاش کا انحصار ہے، اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ اسی نے ان کو اس طرح بنایا اور ایسے قوانینِ فطرت پر قائم کیا ہے کہ وہ انسانیت کے لیے نافع ہورہے ہیں اور اسی نے انسان کو ان سے انتفاع کا موقع دیا اور ان پر تصرف کا اختیار بخشا ہے:
ہم نے زمین میں تم کو اقتدار بخشا اور تمھارے لیے اس میں زندگی کے ذرائع فراہم کیے۔(الاعراف ۷:۱۰)
(سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲،عدد۵، جنوری ۱۹۶۵ء، ص ۳۷-۳۸)